ماہنامہ اردو دنیا ، مئی 2024
’نکات الشعرا‘ اردوشاعروں کا پہلا تذکرہ ہے، جو فارسی
زبان میں لکھا گیا۔ اس تذکرے کو میر تقی میر نے محض 28 سال کی عمر میںلکھاتھا۔ نکات الشعرا کو مولوی
حبیب الرحمن شیروانی نے 1922میں، مولوی عبدالحق نے1935میں اور ڈاکٹرمحمود الٰہی
نے1984 میں مرتب کر کے شائع کیا۔ اس تذکرے کا حمیدہ خاتون نے 1994 میں فارسی سے
اردو میں ترجمہ کیا۔ یہی ترجمہ میرے اس مضمون کا ماخذ ہے۔
نکات الشعرا کے بارے میںویکی پیڈیا میں لکھا ہے:
’’نکات الشعرا ایک کتاب ہے، جس میں شمالی ہند
کے شعرا کا تذکرہ ہے۔ میر تقی میر کا لکھا یہ تذکرہ سنہ 1751کو پایۂ تکمیل کو
پہنچا۔ اس میںسب سے پہلے امیر خسرو کا تذکرہ ملتا ہے اس کے بعد مرزا عبدالقادر بیدل،
خان آرزو، فطرت، مظہر جانِ جاںوغیرہ کا ذکر کیا ہے، مگراس میں صرف شمالی ہند کے
شعرا کا تذکرہ پایا جاتا ہے،جب کہ جنوبی ہند میں کئی نامور شعرا موجود تھے۔‘‘1
ویکی پیڈیا میں جو باتیں لکھی ہیں، ان میں سے بیشترباتیں
بالکل درست ہیںکہ نکات الشعرا میر تقی میر کا تذکرہ ہے، یہ تذکرہ 1751کو پایۂ تکمیل
کو پہنچا، اس میں سب سے پہلے امیر خسروکا تذکرہ ہے، اس کے بعد دیگر شعرا کا۔ یہ بھی
صحیح ہے کہ اس وقت جنوبی ہند میں کئی نامور شعرا موجود تھے،لیکن یہ بات بالکل غلط
اور بے بنیاد ہے کہ نکات الشعرا میں صرف شمالی ہند کے شعرا کا تذکر پایا جاتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ ویکی پیڈیا کا ماخذ کیا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ نکات الشعرا میں
شمالی ہند اور جنوبی ہند دونوں جگہوں کے شاعروں کا تذکرہ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ
جنوبی ہند کے کئی نامور اور اعلیٰ پائے کے شاعروں کا ذکر نہیں ہے۔ایک بات یہ بھی
ہے کہ میر کے اس تذکرے میںشمالی ہند کے بیشتر شعرا کے احوال وآثارکا بیان تفصیل
سے ہے جب کہ جنوبی ہندکے بیشترشعرا کاذکر نہایت ہی مختصر ہے۔ اس بات کا اعتراف خود
میر نے نکات الشعرا کے مقدمے میں کیاہے، اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پوشیدہ نہ رہے کہ فنِ ریختہ میں جو قلعۂ
معلی شاہ جہان آباد، دہلی کی زبان میں فارسی شاعری کے طرز کی شاعری ہے۔ آج تک ایسی
کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی جس سے اِس فن کے شاعروں کا حال صفحۂ روزگار پر (باقی)
رہے۔ اسی لیے یہ تذکرہ جس کا نام ’نکات الشعرا‘ ہے، لکھا جا رہا ہے۔
حالانکہ ریختہ دکن سے(تعلق رکھتی ) ہے مگر چوں کہ اس
مقام سے ایک بھی مربوط شاعر نہیں اٹھا اس لیے ان کے ناموں سے شروع نہیں کیا گیا
اور اس ناقص (یعنی مصنف) کی طبیعت اس طرف یوں بھی مصروف نہیں ہے کہ اس میں سے اکثر
کا احوال کرتا پھر بھی ان میں سے بعض کا احوال لکھا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔‘‘2
میر کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دکن سے ایک بھی مربوط
شاعر نہیں اٹھا، جس کا مطلب ہے کہ دکن میں ایک بھی بڑا یا نامورشاعر پیدا نہیں ہوا۔ چونکہ میر کا تعلق دکن سے بالکل بھی نہیں
تھا، جس کی وجہ ا ن کو دکن کے شعرا کے بارے میں علم بھی نہیں تھا۔ شاید اسی لیے
انھوں نے ایسی باتیں کہی ہیں۔ تذکرے یا تحقیق میں ایسی باتیں کہنے سے احتراز
کرناچاہیے۔دراصل میرنے عبدالولی عزلت کی بیاض اور ان کے بیان پر ہی دکنی شعرا کا
تذکرہ کیا ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر محمود الٰہی لکھتے ہیں:
’’شعرائے دکن والے حصے کی بات کسی قدر سمجھ میں
آتی ہے۔ یہ حصہ عبدالولی عزلت کا رہین منت معلوم ہوتا ہے۔عزلت 1146ھ کے وسط میں
دہلی آئے۔ ان کی ملاقات میر سے بھی ہوئی۔میر نے ان کی بیاض سے بھرپور استفادہ کیا۔
جوں ہی میر کو عزلت کی بیاض ملی ہوگی،انھوں نے اس کی مدد سے اپنے تذکرے میں شعرائے
دکن کا حصہ شامل کرلیا اورپھر شمالی ہند کے باقی شعرا کا ذکر مکمل کیا۔3
اس کے علاوہ ایک بات اور غور کرنے کی ہے کہ دکن میں تخلیقی
کام تو بہت پہلے سے ہورہا تھا،لیکن تحقیقی اور تنقیدی کام بہت بعد میں شروع
ہوااورجتنا مواد دکن میں موجود ہے اس کے مطابق بہت کم بھی ہوا۔آج بھی دکنی ادب پر
کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی کاقادرالکلام اورملک
الشعراشاعرملا وجہی، دکنی غالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔جب کہ ملاوجہی مرزا غالب سے
تقریباً دو سو سال پہلے پیدا ہواتھا۔ قیوم صادق نے ’دکنی غالب ملاوجہی‘ کے عنوان
سے ایک کتاب بھی مرتب کر دی ہے۔ اسی طرح نظمیہ شاعری میںمحمد قلی قطب شاہ جیسے
عوامی شاعر کی اہمیت نظیر اکبرآبادی سے کم ہے۔جب کہ نظیر اکبرآبادی سے بہت پہلے
ان تمام موضوعات پر محمد قلی قطب شاہ نظمیں لکھ چکے تھے،جن پر بعد میں نظیر نے نظمیں
لکھ کر شہرت حاصل کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دکنی کے بیشتر شعرا کے حالات زندگی
آج بھی پردۂ خفا میں ہیں۔ اگر صحیح وقت پر دکن کے شعرا پر تحقیقی و تنقیدی کام
ہوئے ہوتے توممکن ہے کہ آج ان تمام شعرا کے احوال و آثار ہمارے سامنے ہوتے۔ یہی
وجہ ہے کہ دکن کے بڑے اور نامورشعرا کا تذکرہ نکات الشعرا میں نہیں ملتا۔ہاں دکن کی
کئی مثنویوں میں دکنی شعرا کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے۔
واضح رہے کہ نکات الشعرا میں 100 سے زیادہ شاعروں کا
تذکرہ کیا گیاہے۔ ان میں 25 یا اس سے بھی
زائد شعرا کا تعلق دکن اور اس کے گردو نواح سے ہے۔ ذیل میں ان دکنی شعرا کے متعلق
چند باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے،جن کا تذکرہ نکات الشعرا میں درج ہے۔
احمد گجراتی: ان کا پورا نام شیخ احمد شریف گجراتی تھا۔
احمد گجراتی کا تعلق دبستان گولکنڈہ سے تھا اور ان کو دبستان گولکنڈہ کا پہلا مثنوی
نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ احمد گجراتی ملا وجہی اور غواصی کا ہم عصر تھا۔ میرنے
اپنے تذکرے میں اس کا نام درج کیا ہے اور اس کے چند اشعار نقل کیے ہیں۔ اس کے
احوال و آثار کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا ہے۔نکات شعرا میں درج احمد گجراتی کا ایک
شعر ملاحظہ ہو ؎
ہوئے دیدار کے طالب خودی سے خود گزر نکلے
نہ پائی راہ دانش میں خرد شاں بے خبر نکلے
اشرف: ان کا اصل نام محمد اشرف تھا اور یہ اشرف تخلص کیا
کرتے تھے۔اشرف کا تعلق دکن کی نظام شاہی سلطنت سے تھا، جس کا دارالخلافہ احمد نگر
تھا۔ احمد گجراتی کی طرح میر نے اشرف کاصرف نام اور ایک شعر درج کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو ؎
پیا بن میرے تئیں بیراگ بھابا ہے جو ہونی ہے سو ہو جاوے
بھبھوت اب جوگیوں کا رنگ لایا ہے جو ہونی ہے سو ہو جاوے
بیچارہ : یہ گولکنڈہ کا باشندہ تھا اورعالم گیر کے
زمانے میں دہلی بھی گیا تھا۔میر نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے محض ایک شعر درج کیا
ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
سر سے جدا ہونا نہ تھا، چاہا خدا کا یوں اتھا
جز صبراب چارہ نہیں بے چارہ ہو رہنا پڑا
آزاد: ان کا اصل نام گور سرن بلی تھا اوریہ آزاد تخلص
کیا کرتے تھے۔ ان کے باپ اور دادا دونوں شاعر تھے۔ میر نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے
لکھا ہے کہ آزاد ولی کا ہم عصر تھا اور بچوں کی طرح بات کرتا تھا۔ میر نے ان کاایک
شعر بھی نقل کیا ہے۔شعر یوں ہے کہ
؎
آئیں جہاں کی ساری آزاد صفتیں پر
جس سے کہ یار ملتا ایسا ہنر نہ آیا
تجرّد:ان کا اصل نام میر عبداللہ تھا اور تجرد تخلص
کرتے تھے۔ ان کے متعلق نکات الشعرا میں صرف اتنا تذکرہ ملتا ہے کہ یہ سید عبدالولی
عزلت کے شاگرد تھے، جس سے گمان گزرتا ہے کہ ان کا شمار بھی دکن کے شعرا میں ہوتا
ہے۔میر نے ان کا یہ شعر نقل کیا ہے
؎
تجھ رو میں لطف ہے سو ملک کو خبر نہیں
خورشید کیا ہے اُس کی فلک کو خبر نہیں
جعفر: ان کا اصل نام مرزا علی جعفر اور تخلص جعفر
تھا،جو ناجی کے شاگرد تھے۔ (یہ شاکر ناجی نہیں بلکہ دکن کے ایک الگ شخص تھے۔ ان کا
تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے ’دکن میں اردو‘ میں کیا ہے) نصیر الدین ہاشمی نے لکھا
ہے کہ جعفر کو بچپن ہی سے شعروسخن کا ذوق تھا اور نوحہ، سلام، قصائد، مرثیہ اور
رباعی موزوں کرتے تھے۔ میر نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ایک شعر نقل کیا ہے۔شعر
یوں ہے:
غمزیاں سوں دیکھو شوخ مجھے مار کر چلے
مجروح تسن پہ راہ منیں ٹھار کر چلے
حسیب: میر نے لکھا ہے کہ حسیب کا احوال معلوم نہیں ہے۔سید
عبدالولی صاحب مذکور کی بیاض سے لکھ دیا گیا ہے۔ نکات الشعرا میں ان کے نام کے
ساتھ ان کا ایک شعر درج ہے۔شعردیکھیے
؎
گلبدن پھول کی مت توڑ کے ڈالی آرے
دیکھ ابھی شور کریںبلبل و مالی آرے
خوشنود: ان کا پورا نام ملک خوشنود تھا۔یہ گولکنڈہ کی
قطب شاہی سلطنت کا حبشی غلام تھا اور خدیجہ سلطانہ کے ساتھ خانگی ملازم کی حیثیت
سے بیجا پور چلا گیا تھا۔ ملک خوشنود اپنے عہد کا بڑا شاعر تھا، جس نے ادب کی کئی
اصناف میں طبع آزمائی کی۔ میر تقی میر نے خوشنود کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا محض ایک
شعر درج کیا ہے۔شعر ملاحظہ ہو ؎
سب رین جاگے سحر پڑھ توبھی سجن آیا نہیں
جب جب کے دیکھی باٹ میں درشن دکھلایا نہیں
داؤد:ان کا اصل نام مرزا داؤد تھا۔ یہ اورنگ آباد کے
باشندے تھے۔میر کے مطابق داؤد سید صاحب یعنی سید عبدالولی عزلت کے شاگرد تھے اورمیر
کو یہ بات بھی سید صاحب کی زبانی معلوم ہوئی تھی۔ میر نے اپنے تذکرے میں مرزا
داؤد کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎
زلف دلبر سے مجکو سودا ہے
خلق کہتی ہے تجکو سودا ہے
سراج: اردو دنیا میں آج سراج اورنگ آبادی کانام کسی
تعارف کا محتاج نہیں ہے،لیکن جس وقت میر نکات الشعرا لکھ رہے تھے اس وقت سراج کے
نام سے(خاص طور پر شمالی ہند میں ) لوگ واقف نہیں تھے۔سراج کے تعلق سے میر تقی میر
لکھتے ہیں کہ ’’میاں شاہ سراج، سنا ہے اورنگ آباد میں رہتا ہے۔سید حمزہ کا شاگرد
ہے۔اتنا ہی سید صاحب مذکور(عبدالولی) کی بیاض سے استفادہ ہو پایا ہے۔‘‘4 نکات
الشعرا میں درج سراج کے چند اشعار ملاحظہ
ہوں ؎
تم پر فدا ہیں سارے حسن و جمال والے
کیا خط و خال والے، کیا صاف گال والے
مجھ زرد رنگ اوپر غصہ سے لال مت ہو
اے سبز شال والے اودھی رومال والے
پی بن مجھ آنسوؤں کے شراروں کی کیا کمی
جس رات چاند نہیں ستاروں کی کیا کمی
سعدی: ان کومیر نے سعدی دکھنی لکھا ہے۔ انھوں نے آگے یہ
بھی لکھا ہے کہ’’ بعضوں نے اس پر شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا گمان کیا ہے،مگر یہ
غلط ہے،کیونکہ یہ الگ شخص ہے۔‘‘ میر نے نمونے کے طور پر ان کے چند اشعار بھی نقل کیے
ہیں۔ یہاں ایک بات غور کرنے کی ہے کہ نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’دکن میں
اردو‘ میں سعدی نام کے کسی شاعر یا ادیب
کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔سعدی کے چند اشعار میر نے نقل کیے ہیں۔ اشعار دیکھیے ؎
ہمنا تمن کو دل دیا، تم نے لیا اور رکھ دیا
تم یہ کیا، ہم وہ کیا، ایسی بھلی یہ ریت ہے
دو نین کے کھپرکروں، رو رو بخون دل بھروں
پیش سگ کویت دھروں پیاسا نچاوے میت ہے
سعدی غزل انگیختہ شیرو شکر آمیختہ
ور ریختہ در ریختہ ہم شعر ہے، ہم گیت ہے
صبائی: ان کے نام اور احوال کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔میر
نے انھیں صبائی احمد آبادی لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک شعر بھی درج کیا ہے۔
شعر ملاحظہ ہو ؎
زر سے ہے آشنائی، زرسے ملے ہے بھائی
زر نہیں تو ہے جدائی دنیا جو ہے سوز رہے
ضیا: ان کا اصل نام مرزا عطا بیگ تھا اور یہ ضیا تخلص کیا
کرتے تھے۔ ضیا کا تعلق اورنگ آباد، دکن سے تھا۔ ابتدا میں یہ سراج اورنگ آبادی
سے اپنی شاعری پر اصلاح لیتے تھے، بعد میں میر غلام علی آزاد سے اصلاح لینے لگے
تھے۔ میر نے ان کی ایک بیت اپنے تذکرے میں درج کی ہے،بیت ؎
پھول کے منھ پر ستم سیں مار مت دم اے سموم
یہ چراغ خانہ بلبل ہے گل ہو جائے گا
عاجز: ان کا اصل نام عارف علی خاں تھااور یہ عاجز تخلص
کرتے تھے۔نصیر الدین ہاشمی نے ان کا نام عارف الدین خاں لکھا ہے۔ ان کے والد اورنگ
زیب کے زمانے میں بلخ سے ہندوستان آئے تھے اور اورنگ آباد،دکن میں سکونت اختیار
کی تھی اور یہیں عاجز کی پیدائش ہوئی۔میر تقی میرنے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’عارف علی خاں، عاجز تخلص۔ دس بارہ سال
پہلے کی بات ہے کہ یہ شاہ جہاں آباد تشریف لائے تھے۔بندہ نے ان کا شور سنا تھا، لیکن
ان کی خدمت میں نہ پہنچ پایا۔ کچھ عرصے پہلے دکن کی جانب چلے گئے ہیں۔ابھی سید
مذکورکی زبان سے سناہے کہ برہان پور میں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے حسب نسب کے بارے میں
مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔‘‘5 میر نے ان کے چند اشعار اپنے تذکرے میں نقل کیے ہیں۔
اشعار دیکھیے ؎
ترے رنگ تبسم سے بتوں کو دانت گلتی ہے
ترے عارض کے تل سے گل رُخوں کو تاب ملتی ہے
ہماری آہ کے نیزے سے اے ظالم حذر کر یوں
کہ افلاس اس کی زہر آلوداَنی کے آگے چھلنی ہے
کہاں سے قافیہ لا لا کے اپنے شعر میں ڈھالا
ہیں عاجز دل میں تیرے داغ یا توں شیخ چلی ہے
عزیز اللہ: ان کے بارے میں میر نے بس اتنا لکھا ہے کہ
’’اس نے ایک ایسی غزل کہی ہے کہ اس میں تمام اولیا اللہ کا ذکر ہے۔ اس کا مقطع یہ
ہے ؎
مجھ نوجواں میں کیا سکت بولوں جو ولیاں کے صفت
عاجز عزیز اللہ اوپر دکھن کے سب پیراں مدد‘‘
اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ عزیز اللہ دکن کا شاعر تھا، لیکن
نصیر الدین ہاشمی کی کتاب’دکن میں اردو‘ میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔
عزلت:ان کا پورا نام سید عبدالولی اور تخلص عزلت تھا۔یہ
گجرات کے شہر سورت کے رہنے والے تھے۔ان کے بارے میں میر نے تفصیل سے ذکر کیا ہے
اور ان کے بہت سارے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ میرنے ان ہی کی بیاض اور ان کے بیان پر
تمام دکنی شعرائِ تذکرہ نکات الشعرا میں کیا ہے۔ میر نے عزلت کے بہت سارے اشعار
اپنے تذکرے میں درج کیے ہیں۔ ان میں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
فقیروں سے نہ ہو بیرنگ لا لا فضل ہولی میں
ترا جامہ گلابی ہے تو میرا خرقہ بھگوا ہے
جس خوش نگہ کو پہنچوں غفلت کی نیند لیوے
میں خفتہ بخت شب کا افسانہ ہو رہا ہوں
عزلت گمان یوں تھا کہ جل کر ہوا ہے راکھ
پھر دود آہ دل نیں مرا دیدہ تر کیا
غواصی:یہ قطب شاہی دور کا عظیم المرتبت اور بلند قامت
شاعر تھا۔سلطان محمد قلی قطب شاہ کے زمانے میں غواصی مشہور ہوا اور عبداللہ قطب
شاہ کے زمانے میں شاہی دربار سے وابستہ ہوگیا۔اس کی تین مثنویاں مینا ستونتی، سیف
الملوک و بدیع الجمال اور طوطی نامہ بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ غواصی نے غزل، قصیدہ
اور مرثیہ میں بھی اپنا نام پیدا کیا ہے۔ میرنے نکات الشعرا میں غواصی کا محض نام
درج کرکے ان کا ایک شعر نقل کیا ہے۔ تذکرے میں درج غواصی کاشعرملاحظہ ہو ؎
جو کوئی اس مزرعِ دل پر برہ کا بیج بوتا ہے
تو ہر گز اس کے بستاں میں گل امید ہوتا ہے
لطفی:ان کا اصل نام میر لطف علی اور تخلص لطفی تھا۔ لطفی
کا تعلق دکن کی بہمنی سلطنت سے تھا۔ اب تک ان کی ایک ہی غزل کے چند اشعار دستیاب
ہوئے ہیں۔ میر تقی میر نے ان کے نام کے ساتھ ان کے چند اشعار نقل کیے ہیں۔اشعار
ملاحظہ ہو ؎
تجھ عشق کی اگن سے شعلہ ہو جل اٹھا جیو
دل موم کے نمونے گل گل پگھل گیا ہے
جیو کا چمن جلا سو جلتی انکارے کر
اکلا کے آگ دینے ٹیسو جنگل گیا ہے
مَیں عشق کی گلی میں گھائل پڑاتھا تس پر
جو بن کا ماتا آکر مجکو کھنڈل گیا ہے
محمود:یہ بھی قطب شاہی دور کا استاد سخن شاعر تھا۔نصیر
الدین ہاشمی نے اس کا پورا نام سید محمود لکھا ہے۔ میر نے نکات الشعرا میں اس کے
نام کے ساتھ اس کے دو اشعار نقل کیے ہیں۔اشعار دیکھیے ؎
لوگاں کہیں پتھر سے کچھ سخت نہیں لیکن
جو کوئی پیاسے بچھڑا وہ سخت ہے پتھر سے
محمود تجھ میں دستا پورا ہنرو فاکا
ہے کیا عجب جو بھاوے تو پیو کو اس ہنر سے
موزوں:ان کا پورا نام خواجم قلی خان تھااور یہ موزوں
تخلص کرتے تھے۔ یہ برہان پور کے ہفت ہزاری
صوبے دار تھے۔ میر نے ان کا تذکرہ عزلت کی بیاض سے لے کر کیا ہے اور لکھا ہے کہ
موزوں سید صاحب عزلت کے معتقدین میں سے تھے۔ موزوں کا ذکر نصیر الدین ہاشمی کی
کتاب ’دکن میں اردو‘ میں نہیں ملتا۔نکات الشعرا میں موزوں کا یہ شعر درج ہے ؎
موزوں نیں راہِ عشق میں پھر اب قدم رکھا
ہے مصلحت سے دور نجانوں کرے گا کیا
ولی:ولی کا نام اردو شاعری میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ ان
کو اردو شاعری کا بابا آدم کہا جاتا ہے۔ ولی کا اصل نام ولی محمد تھا۔میر تقی میر
نے ولی کے تعلق سے لکھا ہے کہ’’ولی محمد، المتخلص بہ ولی۔ملک الشعرا، ریختہ کا
زبردست شاعر، دیوان کا مالک، اورنگ آبادکی خاک سے ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں آباد
دہلی میں بھی ایک مرتبہ آیا تھا۔ میاں شاہ گلشن صاحب کی خدمت میں گیا اور اپنے
اشعار جستہ جستہ پڑھ کر سنائے۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ فارسی کے جو تمام مضامین بیکار
پڑے ہوئے ہیں،اپنے ریختوں میں لاؤ ورنہ(روز محشر) تم سے پوچھا جائے گا اور تمہاری
پکڑ ہوگی۔اس کے کلام کی بہت کچھ تعریف وتحسین بھی شاہ صاحب نے فرمائی۔اس کی شہرت
اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ یہاں اس کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے حالات زندگی جیسا
کہ چاہئیں مجھے معلوم نہیں۔‘‘6میر تقی میر نے ولی کے بہت سے اشعار نکات الشعرا میں
درج کیے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہو
؎
نہ پوچھو مشق میں جوش و خروشِ دل کی ماہیت
برنگِ ابر دریا بار ہے رومال عاشق کا
اس کے قدم کی خاک میں صد حشر ہے نجات
عشّاق کے کفن میں رکھو اس عبیر کو
غرور حسن نے تجھ کو کیا ہے اس قدر سرکش
کہ خاطر میں نہ لاوے تو اگر تجھ گھر ولی آوے
سن ولی رہنے کو دنیا میں مقام عاشق
کوچۂ زلف ہے یا گوشۂ تنہائی ہے
ہاشم:ان کا پورانا م ہاشم علی تھا۔ہاشم علی برہان پور
کے رہنے والے تھے۔نصیرالدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ’’ یہ ایک بلند پایہ مرثیہ گو شاعر
گزرے ہیں۔ 1169ھ تک ان کے بقید حیات رہنے کا پتہ چلتا ہے۔‘‘ میرنے ان کے نام کے
ساتھ ان کا ایک شعر اپنے تذکرے میں درج کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
دکھن ہور ہند کے دلبر ہمن سے بے حجاب اچھے
کہ مکھڑیجاند سے پر جن کے خط پُر پیچ و تاب اچھے
یونس: ان کا نام حکیم یونس تھا۔میر نے لکھا ہے کہ ’’اس
کے حالات معلوم نہیں ہیں کہ کہاں کا ہے۔جناب سید صاحب کی بیاض سے لکھ رہا ہوں۔‘‘
اس کا تذکرہ بھی نصیر الدین کی کتاب میں نہیں ہے۔ عزلت کی بیاض میں ذکر ہونے کی
وجہ سے گمان گزرتا ہے کہ یونس کا تعلق بھی دکن سے تھا۔ میر نے ان کے چند اشعار نقل
کیے ہیں۔اشعار ملاحظہ ہوں ؎
صبح جب گلشن سے وہ گل رو گیا
باغ سے باہر نکل کر گل رو گیا
ہے معطراب تلک صحرا تمام
اس زمیں اوپر کوئی گل بو گیا
سو گیا جن نے جگایا تھا مجھے
بخت میرا جاگ اُٹھا تھا سوگیا
مذکورہ بالا شاعروں کا تذکرہ میر نے اس وقت کیا تھاجب
لوگ ان کے ناموںسے بالکل بھی واقف نہیں تھے۔ آج جو لوگ دکن کی ادبی تاریخ سے
تھوڑا بہت بھی شغف رکھتے ہیں وہ ان شاعروں سے ضرور واقف ہوں گے،لیکن یہاں ایک بات
کھٹکتی ہے کہ دکن کے اہم اور نامور شعرا مثلاًسید محمد حسینی گیسودراز،فخردین نظامی،ملا
وجہی،قلی قطب شاہ، ابن نشاطی،میراں جی حسن خدا نما، محمد نصرتی وغیرہ کا تذکرہ نہیں
ہے،جب کہ ہونا چاہیے تھا، کیوں یہ شعرا دکن میں بہت پہلے سے مشہور ہیں۔
گمان گزرتا ہے کہ نکات الشعرا میںمحولہ بالا شاعروںکے
علاوہ بھی اور دکنی شعرا کا تذکرہ ہو گا، کیوں کہ اس تذکرے میں بہت سے ایسے
شاعروںکا ذکر ہے جو آج بھی غیر معروف ہیں۔ مثلاً قاسم مرزا، سالک، ملک، فخری، عبدالرحیم، عبدالبر،حسن ،ہاتفی وغیرہ۔نکات
الشعرا میںان شعرا کا صرف نام اوران کے کلام کا نمونہ درج ہے،ان کے احوال و آثار
کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نکات الشعرا کی مترجمہ حمیدہ خاتون نے اپنے مقدمے میں
لکھا ہے کہ ’’نکات الشعرا میں 104شعرا کا ذکر لکھا گیا ہے، جن میں بتیس شعرائے دکن
ہیں۔ ‘‘7 حمیدہ خاتو ن کی اس بات پر تحقیق کی ضرورت ہے،کیوں کہ مولوی عبدالحق کے
نسخے میں 102اور ڈاکٹر محمود الٰہی کے نسخے میں 104شاعروں کا تذکرہ ہے۔ لہٰذا مزید
تحقیق کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ نکات الشعرا میں جملہ کتنے دکنی
شعرا شامل ہیں۔
حواشی
1 نکات
الشعراhttps://ur.wikipedia.org/wiki/،
آخری ترمیم: 19؍ستمبر2021،
06:08 بجے شام
2 میر
تقی میر،تذکرہ نکات الشعرا: مترجمہ حمیدہ خاتون،جے۔ کے۔ آفسیٹ پرنٹرس، دہلی،1994،ص14
3 ڈاکٹر
محمود الٰہی(مرتب)، تذکرہ نکات الشعرا،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1984،15-16
4 حمیدہ
خاتون(مترجمہ)تذکرہ نکات الشعرا،جے۔ کے۔ آفسیٹ پرنٹرس، دہلی،1994،ص86
5 ایضاً،ص88
6 ایضاً،ص81
7 ایضاً،ص
8
Dr. Md Nehal Afroz
Assistant Professor (Urdu)
Room No. 202, DDE, MANUU
Gachibowali, Hyderabad-500032 (Telangana)
Email: nehalmd6788@gmail.com
Mob: 9032815440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں