18/6/24

ساحر کی نظم تاج محل اور جمالیات، مضمون نگار: سید محمود کاظمی

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024

 


اردوشاعری خصوصاً اردو نظم میں سخت انحرافی رویے اور ردعمل کی اگر کوئی مثال دیکھنی ہے تو ساحرلدھیانوی کی نظم ’تاج محل‘ کا مطالعہ ناگزیرہوگا۔ یہ نظم ساحر کے پہلے شعری مجموعے ’تلخیاں‘ میںشامل ہے جوپہلی بار پریت نگرشاپ لاہور کے زیراہتمام 1945 میںمنظرعام پرآیا۔ 1946 میں اس کادوسرا ایڈیشن مکتبہ اردولاہور سے اور تیسرا ایڈیشن نیا ادارہ لاہورسے 1947 میںشائع ہوا۔ ساحر کاسنہ پیدائش 1921 ہے اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیںکہ ساحرنے یہ نظم جس وقت کہی ہے اس وقت ان کی عمر تیئس یاچوبیس برس رہی ہوگی۔ اس نظم پر مزید گفتگوسے قبل آئیے قندمکرر کے طورپر ایک بار اس کی قرأت کرلی جائے:

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم  شاہی  میں  غریبوں  کا  گزر کیا معنی

ثبت جس راہ پہ ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت  بھری  روحوں کا سفر کیا معنی

میری  محبوب  پس  پردۂ  تشہیر  وفا

تونے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتاہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیوں کہ و ہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کاخوں

مری محبوب انھیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

تاج محل پرکہی گئی تقریباً ڈیڑھ سو سے کچھ اوپر نظموںمیں نذیراکبرآبادی کی ’تاج گنج کاروضہ‘ شاید پہلی نظم ہے ۔ اس کے علاوہ سیماب اکبرآبادی کی نظم کو بھی اولیت حاصل ہے، ان دونظموںکے علاوہ زیادہ تر نظمیںوہ ہیںجوساحر کی نظم ’تاج محل‘کے بعد لکھی گئی ہیں۔ دنیاکی اس بے مثال عمارت سے متعلق یہ تمام نظمیںانحراف سے ہٹ کر اعتراف کے جذبے کے تحت کہی گئی ہیں اور ان نظموں میں سے بیشتر کی حیثیت ’کلمۂ ستائش‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ کچھ نظمیںایسی ضرور ہیںجواپنی جانب متوجہ کرتی ہیںاور جن پرگفتگوکی جاسکتی ہے مثلاًکیفی اعظمی اور صابردت کی نظم ۔کیفی کی نظم ایک طرح سے ساحر کی نظم کی ہی صدائے بازگشت ہے۔ وہ بھی ’روئے ہستی پہ دھواں قبر پہ رقص انوار‘ کہہ کر ساحر کی آواز میںآواز ملاتے ہیں۔کچھ اور نظمیں بھی اس نوعیت کی ہوںگی جومجھے اس وقت یاد نہیںآرہی ہیں۔صابردت کی نظم بطورخاص اس لیے یاد رہ گئی کہ اردو تحقیق وتنقید کی قدآورشخصیت شمس الرحمن فارقی نے اس نظم کوساحر کی نظم سے اس بنا پربہتر قراردیا ہے کہ اس کا بیانیہ جدید زندگی سے قریب ہے۔ تاج محل کے تعلق سے ساحر نے عام طورپررائج اس اسطور سے ہٹ کر کہ تاج محبت کی علامت ہے ایک دوسرااسطوریہ قائم کیا ہے کہ تاج محبت کی نہیںشاہی استحصال کی علامت ہے۔ساحر کے قائم کردہ اس اسطور کو فرسودہ تاریخی شعور اور بچکانہ جذباتیت کانتیجہ قراردینے سے قبل ہمیں مارکسی جمالیات کے ان معیارات واصول سے واقف ہوناضروری ہے جن کے زیراثرساحر نے یہ نظم لکھی ہے۔کسی بھی تخلیق کار یافن کار کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو کسی بھی ایسے نظریے کے تابع رکھ سکتا ہے کہ جس پراس کاایمان ہواور جسے وہ درست سمجھتا ہو بشرطیکہ تخلیق کے فنی وادبی اوصاف پرکوئی آنچ نہ آئے۔ ساحر کی نظم کوسطحی اور مصنوعی انقلابیت کانمونہ قراردینے والوںکو ایک تخلیق کار کایہ حق بھی ملحوظ خاطررکھنا چاہیے۔ہمارے جن ناقدین نے ساحرکوبی اے پاس نوجوانوںکاشاعر کہا ہے اگر وہ اس نظم کوسنجیدگی کے ساتھ پڑھ لیتے توشاید اس میںپائی جانے والی مارکسی جمالیات کے گہرے شعور اور احتجاجی شاعری کے رموز و نکات کی روشنی میںایک بہتراور منصفانہ رائے قائم کرسکتے۔

احتجاج ساحر کی شعری کائنات کاسب سے اہم وصف ہے جو انتہائی فنکارانہ طورپر ان کی بیشتر نظموں میںہے۔ ان  کے پہلے شعری مجموعے ’تلخیاں‘  میں’تاج محل‘ کے علاوہ ’چکلے‘ اور ’نورجہاںکے مزار پر‘ جیسی دو اور نظمیں احتجاجی شاعری کی خوب صورت مثال قراردی جاسکتی ہیں۔ ساحر کے اس اولین مجموعے کاعنوان ہی قاری کو یہ احساس دلاتاہے کہ ساحرکی شاعری تلخ حقائق کااظہار بھی ہے اور بحیثیت ایک درد مندانسان اور بیباک شاعر کے صورت حال کی خرابی وابتری کامرثیہ بھی۔ ساحر شہنشاہیت کی خرابیوںکاذکراسی لیے کرتے ہیںکہ وہ ہرقسم کی مطلق العنانیت کو عام انسانی تحقیرکے مترادف سمجھتے ہیںاور ان کا یہی رویہ انھیں’تاج محل‘ اور ’نورجہاںکے مزار پر‘ جیسی تلخ اور سخت انحرافی نوعیت کی نظمیں لکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ سردار جعفری کے مطابق ساحرنے کرشن ادیب کو بتایا تھا کہ انھوں نے جب یہ نظم کہی تھی تواس وقت تک انھوں نے تاج محل نہیںدیکھا تھالیکن میںسردار جعفری کے اس قول سے متفق نہیںہوں کہ اگر وہ تاج محل دیکھ چکے ہوتے تو شاید یہ نظم نہ کہتے اور اگر کہتے تو ان کارویہ اس تعلق سے مثبت ہوتا۔مجھے لگتا ہے کہ ساحرتاج محل دیکھنے کے بعد بھی اگر اس موضوع پرکوئی نظم کہتے تو اس کی حیثیت بھی ایک صدائے احتجاج کی ہی ہوتی کیونکہ یہاںمسئلہ تاج محل کے حسن کا نہیں ہے، اس کی صناعی وکاریگری سر آنکھوں پر، اس کے ایک معجزۂ فن ہونے میںکسی کو کلام نہیں۔ ساحر نے بھی تاج کے اس حسن کااعتراف کیا ہے، وہ بھی اس ’شکل جمیل‘ کی صناعی وکاریگری کا معترف ہے، اس عمارت کے ’منقش درودیوار‘ اور ’محراب وطاق‘ اس کے بھی احساس جمال اور شعور حسن کی تسکین کاسامان مہیا کرتے ہیں۔ ساحر کو فن کے عروج وکمال میںکوئی شبہ نہیںلیکن وہ فن کے پیچھے چھپی ہوئی محنت کو بھی نظرانداز نہیںکرسکتا وہ ان ہاتھوں کی عظمت واہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے جو اس معجزۂ فن کووجود بخشتے ہیں۔ ساحرکی اس نظم اور اس کے تخلیقی محرکات کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس مخصوص تصور جمال سے بھی واقف ہوںجو فلسفہ اشتراکیت کے زیراثرایک ایسی انسان دوستی کے سائے میںپرورش پاتاہے جو فن کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ محنت کی اہمیت اور قدروقیمت کو بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے اس بات پر بھی غور کرناضروری ہے کہ احساس جمال یا تصور جمال کیا ہے اور جمالیات کسے کہتے ہیں۔ احساس جمال اور جمالیات کی مختصر تعریف ان الفاظ میںکی جاسکتی ہے کہ حیات وکائنات کی مثالی صورتوںکے عرفان وادراک کو ہم احساس جمال سے تعبیر کرتے ہیں اور انسان میں پائے جانے والے اسی احساس جمال یاشعورحسن کے اسباب وعلل اور اوصاف و خصائص کامطالعہ ’جمالیات‘ کہلاتا ہے۔ ہیگل نے جمالیات کو فنون لطیفہ کافلسفہ قرار دیاہے۔ ظاہر ہے کہ فن کی کون سی شکل لطیف ہے اور کون سی غیرلطیف اس کا فیصلہ انسان کے ذوق حسن کے مطابق ہی ہوگا اوریہ ذوق حسن صرف اسی حدتک اجتماعی ہوتا ہے کہ ہم خوب صورتی کوپسند کرتے ہیںلیکن یہ خوبصورتی کس طرح کی ہویہ معاملہ انفرادی ذوق حسن کاہے۔ بہرحال اتنا تو طے ہے کہ انسان کے اندرپایاجانے والا یہ شعورحسن ہی اسے دوسرے حیوانوںسے ممتازوممیز بناتا ہے۔یعنی صاف ظاہر ہے کہ احساس جمال یا شعورحسن انسانی جبلت کاخاصہ ہے نہ کہ ایک عام حیوانی ضرورت۔ اس کے ساتھ ہی جب ہم احساس جمال کے حوالے سے انسان اور حیوان کے درمیان ایک واضح فرق کی نشاندہی کرتے ہیںتو پھرہمیںیہ بھی طے کرناہوگا کہ جمالیاتی شعور کا تعلق اظہار (Expression) سے ہے یا تاثر (Impression)  سے تواس ضمن میںلینگر کاکہنا ہے کہ

’’جمالیات کے تناظرمیںفنکارکے نقطۂ نظر یافنی قدروقیمت کے اعتبارسے فن کامطالعہ اظہارکامطالعہ ہے اورحساس قاری کے نقطۂ نظرسے یاحساس ناظراورحساس سامع کے نقطۂ نظرسے فن کامطالعہ تاثرکامطالعہ ہے۔‘‘ 

(بحوالہ جمالیات اور ہندوستانی جمالیات از قاضی عبدالستار، ص 16)

اظہاروتاثر، دونوں مطالعاتی صورتوں کے تحت حسن و فنکاری کی تفہیم، تفسیر، تعبیر اور  تشریح کے لیے جس فلسفیانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے وہ دراصل اس خیال کے بطن سے جنم لیتاہے کہ یہ کائنات ایک ازلی وابدی حسن کا پر تو ہے جسے صوفیا نے حسن حقیقی بھی قرار دیاہے۔ افلاطون کے مطابق اسی حسن حقیقی اور اس کے تخلیق کردہ عالم حقیقت کی نقل فن کار اپنی تخلیق میںپیش کرتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کاطرز احساس جس ماحول میں تشکیل کے مراحل سے گزرے اس کے اثر سے محروم ہو۔ مارکسزم نے بھی تخلیق کار کے لیے سماجی سروکاروںکو فطری اورلازمی قراردیاہے۔ ظاہر ہے کہ تخلیق کار فطری طور پر موجودات سے متاثر ہوتاہے اور پھرانھیں اپنے تخلیقی تجربے کاحصہ بناتا ہے۔ اس کا شعور ذات اوراحساس جمال یاتصور حسن خلا میںنہیںاس کے سماجی انسلاکات کے درمیان پرورش پاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے معیارات حسن اور سماجی رویے یکساں ہوتے اور ان میںجو تنوع ہمیںنظرآتاہے وہ موجود نہ ہوتا۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیافنی معیارات ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود عہدوماحول سے بھی ماورا ہوتے ہیں؟ تواس تعلق سے ارنسٹ فشر نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف    Necessity of Art The  میں ایک  بڑے کام کی بات کہی ہے ،اس کاکہنا ہے کہ :

’’بدلتے ہوئے سماجی حالات کے باوجود فن میں کچھ  ایسی شے ہے جوناقابل تغیرسچائی کااظہار کرتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہم بیسویںصدی میںرہنے والے لوگ بھی قبل از تاریخ غارکی تصاویر یاقدیم نغموںسے محظوظ ہوتے ہیں۔‘‘ ( بحوالہ مارکسی جمالیات از اصغرعلی انجینئر،ص 32)

جب ہم متذکرہ بالاقول کی روشنی میںتاج محل کا جائزہ لیتے ہیںتویہ بات سامنے آتی ہے کہ فن زماںو مکاں کی حدود سے اکثروبیشتر ماورا ہوتاہے۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب فن نے خون جگرکی آبیاری سے نمود حاصل کی ہو۔ تاج محل کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے یعنی فن نے ایک معجزے کی شکل اختیار کرلی ہے اور چار صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ عمارت ہماری توجہ کامرکزبنی ہوئی ہے۔ سماج اورمعاشرہ بدلا،وقت اور حالات بدلے، جدید طرزتعمیر نے قدیم طرز تعمیر کی جگہ لے لی لیکن تاج محل کاجادوآج بھی برقرارہے لیکن جن ہاتھوںکی محنت اور فنکاری نے یہ جادوجگایا ہے وہ ہاتھ گم نام ہیں ۔ان کی محنت کاکہیںکوئی ذکرنہیں، ان کے استحصال کا تذکرہ نہیں، معمارتاج کے طورپر اس شہنشاہ کا نام آتا ہے جس نے اس عمارت کی تعمیرکے لیے اپنے خزانے کا منھ کھول دیا تھا لیکن جن ہاتھوںنے اپنی محنت سے اس معجزۂ فن کونمود بخشی ہم نے کبھی ان کے بارے میںجاننے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے اپنے مرقد بے چراغ اور ان کے پیاروںکے مقابر بے قندیل کیوں رہے ؟یہ عمارات و مقابر مطلق الحکم شہنشاہوںکی عظمت کاستون توقرار پائے لیکن محنت کشوںکی سعی مسلسل کا شناخت نامہ کیوں نہ بن سکے۔یہی ساحر کا Main concern ہے۔اور یہ صرف ساحرکا ہی Concern  نہیںہے بلکہ ہراس انسان کاہے جو مارکسی جمالیات کاصاف اورواضح تصور رکھتا ہے کہ جس کے مطابق فن اور فن کار کی عظمت اسی میںپوشیدہ ہے کہ اس میں ازلی انسانی اقدار کی جھلک پائی جاتی ہو۔اوراگر یہ اقدار مجروح ہوںیا کی جائیںتو فن بھی متاثر ہوتا ہے اور فن کی عظمت کاتصور بھی۔ مارکس اس بات پرزور دیتا ہے کہ محنت جب ایک مخصوص درجے پر پہنچ جاتی ہے تو فن کی تخلیق عمل میںآتی ہے اس لیے کسی بھی فنی تخلیق کا مطالعہ اوراس کا محاکمہ اس وقت تک مکمل نہیںہوسکتا جب تک ہم محنت کو Recognizeنہیںکرتے ۔مارکس کے مطابق محنت حیاتیاتی ضرورتوںکی تکمیل کے ساتھ اس کے داخلی یاجمالی تقاضوں کی تکمیل بھی کرتی ہے مثلاً تعمیراورفن تعمیر میںسے ’تعمیر‘کی حیثیت یہ ہے کہ وہ ہماری بنیادی ضرورت کو پورا کرتی ہے جب کہ ’فن تعمیر‘ ہمارے داخلی یا جمالی تقاضوں کی تکمیل کویقینی بناتا ہے اور یہی فرق ایک معمولی عمارت اور تاج محل کے مابین پایاجاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ محنت دونوں میںقدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ تاج محل بھی اسی محنت کا نتیجہ ہے جو ایک مخصوص درجے پر پہنچ کرفن کی صورت اختیار کر گیا ۔اب اگر یہ محنت اختیاری ہو اور محض محنت کش کی تخلیقی قوت کااظہار ہوتو یہ مستحسن ہے اوراگر ایک مخصوص سماجی نظام میںبازار کی ضرورتوںیا دوسروں کی خواہشات کی تابع ہو تو پھر محنت کش کے استحصال اور اس کی بشری تحقیر کے امکان کو نظرانداز نہیںکیاجاسکتا۔معماران تاج کے ساتھ بھی یہی ہواکیونکہ ان کی صناعی و کاریگری کسی دوسرے کی خواہش نمود کی تابع تھی۔شہنشاہ کو مہیا بے پناہ مادی وسائل نے سنگ مرمر کے ساتھ محنت کو بھی خرید لیا اور اس تشہیر وفا کے پردے میںسطوت کے نشانات گم ہوکررہ گئے۔

اب اسی مارکسی جمالیات کی قائم کردہ ایک اوراہم بحث کی طرف آتے ہیںاور وہ بحث ہے حسن یاشعورحسن کے تعلق سے ازلی صداقت کی ۔ مارکسی تصورجمال کے مطابق ہمیں انسان ،محنت اور پیداوار کے اس تکون کو اس وقت بھی ذہن میںرکھناچاہیے جب ہم یہ طے کر رہے ہوں حسن کی صداقت ازلی کہاں موجود ہے اور کس میں پائی جاتی ہے۔ اب تک ہمارا شعورحسن عظمت ورفعت کے اس مخصوص تصور کے زیراثر رہا ہے جو حسن کوایک روحانی و جمالیاتی تجربہ قراردیتا ہے اوراس کی ارضیت کا منکر ہے۔ ہماری ارضی یاجسمانی ضرورتوںکی تکمیل جن اشیا سے ہوتی ہے نہ ان میںحسن ہے اور نہ ہی وہ ہمارے فنون لطیفہ بالخصوص شعروادب کاموضوع بن سکتی ہیں۔ اس تصور حسن کے برعکس مارکس حسن کے افادی پہلو کو بھی ملحوظ خاطررکھتا ہے اور شعورحسن یااحساس جمال کی تربیت ان خطوط پر بھی چاہتا ہے کہ ہم ان اشیا اور لوگوںمیںبھی حسن دیکھیںجو ہماری ارضی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میںخطبہ صدارت دیتے ہوئے جب پریم چند نے کہاتھا کہ ہمیںحسن کا معیار بدلنا ہوگا تواس سے ان کی یہی مراد تھی اور پھر اپنے افسانے عید گاہ میںانھوں نے اسی مارکسی تصور جمال کو فنکارانہ طورپر افسانے کی بُنت کاحصہ بنایا تھا جب مٹی کے رنگ برنگے خوب صورت کھلونوں کے مقابلے میںلوہے کاایک ٹیڑھا میڑھا بدصورت چمٹاحسن کا معیار بن جاتا ہے۔یہاں پریم چند نے اس نکتے کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے کہ حسین وہی ہے جو مفید ہے ۔ اگر ہمارا شعورحسن بنی نوع انسان کی بہتری اور بھلائی کے تصور سے آشنا ہوجائے تو اس کی تعبیر و تفسیر کا دائرہ از خود تعمیرحیات کی ان مختلف صورتوںتک پھیل جائے گا جنھیں ابھی تک ہمارے کسی بھی جمالیاتی تجربے کاحصہ نہیںسمجھاگیاہے۔

مارکسی جمالیات کاایک اہم ترین وصف اس کا تاریخی شعور ہے جو جمالیات کے دوسرے تصورات میں عام طورپرنہیںپایاجاتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ مارکس سے قبل کانٹ اور ہیگل جیسے فلسفی ایک واضح تصور جمال رکھتے تھے لیکن ان دونوںکے نزدیک جمالیات کاتعلق محض تصورات و تخیلات کی دنیاسے ہے اور تاریخ کا ایک مخصوص دوراور اس دور کے مثبت و منفی عناصرکاادراک ان کے نزدیک کوئی معنی نہیںرکھتا ہے۔اس کے برعکس مارکسی تعبیر جمالیات زیادہ ارضی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے شعورحسن کے تحت جبرواستحصال کو جمالیاتی پیکر نہیںعطاکرسکتی۔ ساحر چونکہ ایک ترقی پسند شاعر تھے جو مارکسی فلسفہ ٔ حیات سے متاثرتھے اس لیے وہ کسی واضح تاریخی شعور کے بغیر مجرد جمالیاتی تعبیر حسن کوقبول نہیں کرسکتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے’پس پردہ تشہیر وفا‘ اقتدار و قوت کی کارفرمائی کی نشاندہی کی اور اپنی محبوب سے یہ تقاضا کیا کہ وہ مردہ شاہوںکے عالی شان مقابرکے حسن میںہی کھوکر نہ رہ جائے بلکہ تاریک رہ جانے والے ہزاروں مکانات کی جانب بھی نظر کرے ۔ یہاںپر مجھے برتول بریخت کا وہ قول یادآتا ہے جس کے مطابق ایک سماجی حقیقت نگار جس فن پارے کی تخلیق کرتا ہے اسے زندگی اورانسان کی تقدیرپر قدرت حاصل کرنے کاحوصلہ عطاکرنا چاہیے۔ وہ تب ہی کارآمدوکامیاب قرار دیا جائے گا جب وہ انسانی مجبوری کے مقابلے میںانسانی آزادی، ذلت اور پستی کے مقابلے میں بلندی، روایت پرستی کے مقابلے میں خلاقانہ آزادروی کے جذبے کو پروموٹ کرے۔ساحر نے اس نظم کے ذریعے یہی کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔  اگر وہ تاج محل کے اس Stablished  اسطور کوکہ تاج محل یادگار محبت ہے ،چیلنج نہ کرتے اور ایک دوسرا اسطور یہ قائم نہ کرتے کہ تاج محل مطلق العنانیت کے پیداکردہ استحصال کی علامت ہے تو وہ ایک بڑے سماجی حقیقت نگار کے طورپر نہ ابھرتے اور نہ ہی ان کا تخلیق کردہ فن پار ہ ہمیں روایت پرستی کے مقابلے میںآزادروی کا شعور بخشتا۔ ساحرنے ایک  Stablished  اسطور کی تکرار کے بجائے ایک نئے زاویے سے گفتگوکی اوراس حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا کہ فن یاادب ہمیشہ اپنے عہد ،ماحول اورسماج کی پیداواری قوتوںمیںتبدیلی کے ساتھ نئے سماجی وژن کی تشکیل کرتاہے۔صیغہ متکلم کواس سے کوئی سروکار نہیںکہ اس کی محبوبہ اس وادی رنگیںسے عقیدت رکھے اوراسے ایک مظہرالفت کے طورپر قبول کرے ،وہ اسے تصویر کے ایک دوسرے رخ کی جانب بھی متوجہ کرنا چاہتا ہے۔وہ فن کی قدرشناسی کے ساتھ محنت کی ناقدری اور جبر و استحصال کی کئی دوسری صورتوںکو بھی روشنی میں لانا چاہتا ہے اور بحیثیت ایک سماجی حقیقت نگار یہ اس کافرض بھی ہے اور حق بھی۔

ارسطو نے عظیم ادب کی شرط المیہ کوقراردیاتھا۔یہ المیہ فنکار یاتخلیق کارکاذاتی بھی ہوسکتا ہے اور اس کے معاشرے اورسماج کابھی۔ المیہ دراصل ان دو تضادات کے باہمی ٹکرائو کے نتیجے میںپیداہوتا ہے کہ تاریخی طور پر جو ضروری ہواس کاحصول عملی طورپر ممکن نہ ہو۔اب اگر کسی  فنکار کی تخلیق میں ان تضادات کاگہرا شعورپایاجاتا ہے تو وہ تخلیق المیہ کی ایک فنکارانہ صورت گری کی حامل ہوتی ہے ۔ساحر نے تاج محل کوموضوع سخن بناتے وقت المیے کے اس پہلوکوذہن میںرکھاکہ تاج کی تعمیر تاریخ کاایک ایسا واقعہ ہے جس نے معماران تاج کی محنت کی جگہ شہنشاہ کی سطوت وشوکت کے تصور کو  Stablish  کیااورجس کے نتیجے میںقوت وطاقت کی وہی اجارہ داری قائم ہوئی جو ہردور میں کمزور کے استحصال اور اس کی بشری اہانت کے نت نئے طریقے ڈھونڈتی ہے۔ظاہر ہے کہ مارکسی جمالیات کسی بھی ایسے المیے کے نتیجے میںوجود میںآنے والی شئے کوحسین نہیںقراردے سکتی۔مارکسی جمالیات کایہ تصور اشرافیہ کے قائم کردہ اس تصور جمال سے یکسر مختلف ہے جو ارفع و اسفل کی بنیاد پر کسی شئے کو حسین یا بدصورت قرار دیتاہے۔ اس حقیقت پسندانہ شعور حسن یا تصور جمال نے روایتی ہیروازم کی تمام ترتعبیرات کو الٹ کررکھ دیا ۔ساحر نے نظم تاج محل میںاسی نئی جمالیاتی تعبیر سے کام لیااور سوشلسٹ ریلزم کی ایک اچھی مثال قائم کی۔

ساحرکی اس پوری نظم میں اسی مارکسی تصور جمال کا واضح شعور ہمیں شعری وادبی تجسیم کاری کاحصہ بنتا نظر آتا ہے۔ یہ پوری نظم بہت اچھی اور ہرلحاظ سے جملہ فنی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے لیکن اس کی بے پناہ شہرت کاسبب اس کے آخری دو مصرعے ہیںاور انہی مصرعوںنے لہجہ کی تلخی اور درشتگی کے باوجود اس نظم کے مجموعی تاثر کو اس طرح قائم کیاہے کہ یہ ایک بڑے اور پھیلے ہوئے سماجی ا لمیے کاشناخت نامہ بن گئے ہیں۔

 

Dr. Syed Mahmood Kazmi

Head Dept. of Translation

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli Hyderabad 500032

Mobile :  9949060358

sm_kazmi@yahoo.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...