19/6/24

ابن صفی کے تنقیدی خیالات، مضمون نگار: محمد طیب علی

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024

 


ابن صفی شاعر تھے، طنز و مزاح نگار تھے اور جاسوسی ناول نگاری کی وجہ سے انھیں شہرت، مقبولیت اور عظمت حاصل ہوئی۔وہ تنقید نگار نہیں تھے لیکن ہر تخلیق کار ایسی تنقیدی نظر ضرور رکھتا ہے جس سے وہ اپنی اور دوسروں کی تخلیق میں امتیاز کرسکے، یا اپنی تخلیقات کے درمیان امتیاز کی صورت پیدا کرسکے، اسی تنقیدی نظر سے وہ اپنی تخلیقات کا جواز پیدا کرتا ہے اور ان کی تراش خراش کا کام لیتا ہے۔

ابن صفی جب ناول لکھتے ہوں گے تو ان کے پیش نظر بھی کچھ معیارات ضرور ہوں گے، عموماً تخلیق کار ان معیارات کو قاری کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ابن صفی نے بھی کوئی منظم انداز میں اپنے خیالات و معیارات کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ناولوں پر ’پیش رس‘ کے عنوان سے جو پیش لفظ لکھا کرتے تھے ان میں متعدد مقامات پر ان کے تنقیدی خیالات و معیارات غیر شعوری پر قاری کو حاصل ہوتے ہیں۔ زیرنظر مقالے میں انھی خیالات کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ابن صفی کا پہلا جاسوسی ناول دلیر مجرم فروری 1952 میں الہ آباد سے شائع ہوا۔اس کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:

’’یہ تو کسی طرح نہیں کہا جاسکتا کہ اردو میں جاسوسی ناول سرے سے ہیں ہی نہیں لیکن یہ حقیقت  ہے کہ جو جاسوسی ناول اردو میں اب تک لکھے گئے ہیں وہ آج کے اردو داں طبقے میں زیادہ مقبول نہیں۔  ان کی غیر مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے محیر العقول واقعات کی بنا پر وقتی طور پر قاری کے ذہن کو مسحور تو کر لیتے ہیں لیکن منطقی شعور کی تسکین نہیں کر سکتے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ طلسم ہوش ربا کے بعد جگہ دی جاسکتی ہے، اس کے آگے گنجائش نہیں۔‘‘ 1

یہاں در اصل ابن صفی اس ممکنہ سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جاسوسی ناول نگاری کی ضرورت کیوں ہے؟ وہ جاسوسی ادب کی ضرورت منطقی شعور کی تسکین کو بتاتے ہیں۔ابن صفی محیر العقول واقعات پر تنقید کرتے ہیں اور اسے گزرے ہوئے زمانے کا رجحان قرار دیتے ہیں۔سائنسی عہد میں انسانی شعور نے ترقی کے منازل طے کیے ہیں، ایسے میں ابن صفی کے خیال میں ادبی شہ پاروں میں ایسے واقعات پیش کیے جانے چاہئیں جو جدید ذہن کو منطقی طور پر مطمئن کر سکیں۔ اس سلسلے میں وہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

’’اصل میں انگریزی کی اسپائی اسٹوریز پر مبنی فلموں نے بعض پڑھنے والوں کا ٹیسٹ بگاڑ دیا ہے اور وہ مجھ سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ میرا ہیرو بھی ہر حال میں ’فولاد کا پٹھا‘ ثابت ہو۔ اوپر ہوائی جہاز، نیچے تو پیں، دائیں سمندر، بائیں آتش فشاں۔ کبھی وہ بموں سے بچتا ہے تو کبھی توپ کے گولوں سے۔توپیں چلیں اور وہ دھم سے گر پڑا۔ ارض و سما سمجھے قصہ پاک ہوا  لیکن یہ کیا؟ اس نے توپ کے دہانے میں چھلانگ لگائی تھی اور اس کی دم کی طرف سے نکل کر سمندر کی ایک کشتی میں جا بیٹھا۔ توپیں منہ دیکھتی رہ گئیں، ہوائی جہاز نے منہ کی کھائی! آتش فشاں منہ پیٹنے لگا اور قاری کا منہ دیکھنے کے قابل... لیکن وہ ہیرو دوبارہ بھی منہ کی کھاتا ہے۔... میں باز آیا. خدا مجھے معاف کرے! اور آپ اس قسم کی فرمائش کرنا چھوڑیئے۔ میں تو کہانی کی دل چسپی کا قائل ہوں کہ آپ کچھ ہی دیر کے لیے سہی اپنی الجھنوں سے نجات پالیں... اور بس۔ 2

یعنی ابن صفی نہ صرف طلسم ہوش ربائی محیر العقول واقعات کے خلاف تھے بلکہ وہ سائنسی دور کے محیرالعقول کارناموں کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، ابن صفی اپنے قارئین کی ذہنی تسکین ایسے دلچسپ واقعات سے کرنا چاہتے ہیں جو منطقی طور سے مطمئن کرنے والے ہوں۔ چنانچہ دلیر مجرم کے پیش رس میں وہ جاسوسی دنیا کے معروف کردار بہرام کو بھی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

’’مثال کے طور پر بہرام کے ناولوں کو لے لیجیے۔ بہرام کا کردار حد درجے دلچسپ ہے۔ اس کے کارنامے تھوڑی دیر کے لیے قاری کو گم صم کر دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں لیکن جب اس پر غور کیا جاتا ہے کہ اس کا طریقہ کار کیا تھا تو اس کی مافوق البشریت پر ایمان لائے بغیر کام نہیں چلتا۔ ابھی جسے آپ سپر نٹنڈنٹ پولیس سمجھ رہے تھے وہ تو بہرام تھا... جسے آپ کو تو ال صاحب کی بیوی سمجھ رہے تھے لیجیے وہ بھی بہرام نکلا۔... غرضیکہ کائنات کے ذرے ذرے میں بہرام ہی کا جلوہ نظر آتا ہے لیکن اس کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کچھ دن تک تو اس قسم کے ناول مقبول رہے لیکن آہستہ آہستہ پڑھنے والوں کا دل ان کی طرف سے اچاٹ ہوتا گیا۔‘‘ 3

یعنی ما فوق البشریت جدید سائنسی اور منطقی ذہن کے لیے وقتی تفریح کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن ان کا نقش تادیر قائم نہیں رہتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو ابن صفی کی تخلیقات کو عظمت بخشتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن صفی کے قارئین میں ہر طبقے کے لوگ شامل رہے اور ان کے ناولوں کو ایک خاص قسم کا ناول کہتے رہنے کے باوجود ان سے دامن بچانا ان کے لیے مشکل رہا۔ ابن صفی اسی پیش رس میں انگریزی سے ترجمہ کردہ جاسوسی ناولوں اور اردو کا جامہ پہنے انگریزی جاسوسی ناولوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کی خامیوں پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں،  چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’اس کے بعد ان ناولوں کا نمبر آتا ہے جن کا انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کے متعلق کچھ کہنا ہی بیکار ہے۔ ان کو پڑھ کر وہی کیفیت ہوتی ہے جو ایک انگریز کو بہترین سوٹ پر گاندھی کیپ پہنے دیکھ کر ہوسکتی ہے۔ ان کی عبارت جھول دار ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ ناول ہیں جن کا پلاٹ انگریزی سے آیا ہوتا ہے۔ ان میں دشواری یہ آپڑتی ہے کہ کرداروں کے نام تو ہندوستانی ہوتے ہیں لیکن ان کا طور طریقہ، بولنے اور سوچنے کا انداز قطعی غیرملکی معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ناول سو فی صدی چوں چوں کا مربہ بن کر رہ جاتے ہیں جن کے دو تین باب پڑھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ کتاب سر پر مار لیں۔‘‘  4

اس طرح وہ اردو میں موجود تین طرح کے جاسوسی ناولوں کا ذکر کرکے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں:

.1       طبع زاد جاسوسی ناول جن میں محیر العقول واقعات بیان ہوئے، جن کے کرداروں کی مافوق البشریت پر ایمان لائے بنا کوئی چارہ نہیں۔

.2       انگریزی سے ترجمہ شدہ جاسوسی ناول، جن کی عبارت جھول دار ہوتی ہے۔زبان کی غیر صفائی اور بے محل محاورے کے استعمال سے ان میں مضحکہ خیزی در آتی ہے۔اس کو بیان کرنے کے لیے وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے تمثیل لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی انگریز کو بہترین سوٹ پر گاندھی کیپ پہنا دیا جائے۔یعنی اچھی خاصی تخلیق کا غیر معیاری ترجمہ۔

.3       ایسے جاسوسی ناول جن کا براہ راست تو ترجمہ نہیں کیا گیا لیکن پلاٹ انگریزی ناولوں سے اڑا لیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پلاٹ کرداروں سے مطابقت پیدا نہ کرپانے کی وجہ سے ناول نہ ہندستانی رہ پاتا ہے اور نہ انگریزی، اس طرح وہ چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن صفی اپنے عہد کے رجحانات و میلانات سے خوب واقف ہیں اور ان کی خوبیوں خامیوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔یہ بھی کہ انھوں نے ماہ بہ ماہ اپنی ناول نگاری خوب سوچ سمجھ کرمنصوبہ بند طریقے سے شروع کی اور اس کی ضرورت و اہمیت کے لیے وہ مضبوط دلائل و جواز رکھتے ہیں۔چنانچہ آگے وہ لکھتے ہیں:

’’بہرحال ابھی تک اردو میں اچھے جاسوسی ناولوں کا فقدان ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اردو کے اچھے ادیبوں کی اس طرف سے عدم توجہی ہے۔ دنیا کے ہر اچھے ادب میں اس کا جاسوسی لٹریچر اچھی خاصی جگہ رکھتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اردو اس سے محروم رہے۔ ممکن ہے کہ بعض ساتھی اسے غیر ضروری اور غیر افادی کہہ کر ٹال جائیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ جب تک پرانا نظام قائم ہے جرائم بھی زندہ رہیں گے اور ان کا پر تو بھی ادب پر پڑتا رہے گا۔ اس لیے اس سے دامن بچانا مشکل ہے۔

مگر یہ ضروری ہے کہ اسے پیش کرنے میں ایسی خوش سلیقگی سے کام لیا جائے کہ پڑھنے والوں کے دل میں جرائم کی طرف سے نفرت پیدا ہو سکے اور ایک ایسی سوسائٹی بنانے کا خیال پیدا ہو جس میں جرائم کے لیے کوئی گنجائش ہی نہ رہے۔ جاسوسی دنیا کا اجرا اسی مقصد کے تحت عمل میں آیا ہے۔ ایک طرف تو یہ اردو میں جاسوسی ناولوں کی کمی پوری کرنے کے لیے صرف وہی چیزیں پیش کرے گا جو موجودہ سائنسی دور کے دماغ کو مطمئن کر سکیں اور دوسری طرف ان رجحانات سے عوام کو باخبر کر تا رہے گا جن کی بدولت جرائم جنم لیتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں۔ ہمارا پہلا ناول آپ کے سامنے ہے۔ یہ کہاں تک موجودہ تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ اس سلسلے کا اگلا ناول اس سے بھی زیادہ شان دار ہوگا۔‘‘  5

یہاں ابن صفی کے تنقیدی خیالات وسیع ہوجاتے ہیں، ان سے قبل اردو میں اچھے جاسوسی ادب کی غیر موجودگی کی وجہ وہ اس رجحان کو قرار دیتے ہیں جو جاسوسی ادب کو دوئم درجے کا ادب ماننے سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔یعنی ضروری بات یہ ہے کہ جاسوسی ادب کو پہلے ایک مقام حاصل ہو، اس صورت میں اچھے ادیب بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے، اور تب امید کی جاسکتی ہے کہ اچھا جاسوسی ادب بھی سامنے آئے۔وہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جب دنیا کی دوسری زبانوں میں جاسوسی ادب کو ایک خاص مقام ملا ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اردو والے اس سے منہ پھیرے ہوئے ہیں؟ حالانکہ جرائم تو انسانی سماج کی ہی دین ہے۔ جہاں انسانی سماج ہے وہاں جرائم ہیں، اور بہ قول ابن صفی ’’جرائم کسی خاص طبقے تک محدود نہیں۔مصلح بھی مجرم ہوسکتا ہے۔ایک ادیب بھی جرم کرسکتا ہے۔مجرم وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جنھیں لوگ منصف سمجھتے ہیں۔‘‘6 تو پھر جرائم سے نفرت سکھانے والا ادب کیوں معرض وجود میں نہ آئے؟ پھر ابن صفی جاسوسی ناولوں کے لیے گویا ایک منشور تیار کرتے ہیں کہ اچھا جاسوسی ادب وہی ہوسکتا ہے جو سائنسی دور کے دماغ کو مطمئن کرسکے اور جو جرائم کے اسباب پر روشنی ڈالے۔

ابن صفی کے ناولوں کی مقبولیت کے ساتھ قارئین سے ان کے روابط بھی گہرے ہوتے گئے، بایں معنی کہ ابن صفی اپنے پیش رسوں میں اپنے قارئین کے بعض خطوط پر اپنے مخصوص انداز میں مخاطب ہوتے تھے۔ان خطوط میں وہ اپنے سراہنے والے قارئین کا صرف شکریہ ادا کرتے ہیں جب کہ تنقیدی خطوط کے جوابات لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس طرح وہ اپنے ناقدین کو خوش آمدید بھی کہتے ہیں اور ان کی نقد پر اپنے تنقیدی خیالات بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مذکورہ اقتباس بھی قارئین کے خطوط کا مجموعی جواب ہے۔وہ اپنے قارئین کو بھروسا دلاتے ہیں کہ وہ جاسوسی ناول نگاری کا سلسلہ تا عمر جاری رکھیں گے اور بہتر سے بہتر تخلیقات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ اتنے بہتر ہوں گے کہ اچھی تخلیقات کے لیے انھیں یورپ کا منہ دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ایسے ہی ایک خط کا جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’ایک صاحب رقمطراز ہیں کہ ابن صفی صاحب! اب آپ کی کتابوں میں سراغرسی کم اور بکواس زیادہ ہوتی ہے۔آپ فن کا خیال نہیں رکھتے۔ اصل موضوع سے ہٹ کر یا تو مزاح ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں یا معاشرے کی اصلاح کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ صرف جاسوسی ناول لکھیے خالص فنی نقطہء نظر سے۔ ان صاحب کے پورے خط کے مضمون سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ فن سراغ نویسی پر بحث کرتے وقت لازمی طور پر ان کے ذہن میں انگریزی کے جاسوسی ناول تھے۔ لیکن میں ان سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج کل اردو میں انگریزی جاسوسی ناولوں کے ترجمے ردی کے بھاؤ کیوں بکتے ہیں؟ کوئی پبلشر اب ترجمے چھاپنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا؟ ظاہر ہے کہ ترجمے عموماً بہترین اور نامور مصنّفین ہی کے پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن اردو میں ان کا حشر دیکھ لیجیے۔‘‘ 7

ظاہر ہے مکتوب نگار کا تنقیدی خط اسی بنا پر معرض تحریر میں آیا ہوگا کہ ابن صفی کا اسلوبِ نگارش عالمی جاسوسی ناولوں سے جدا گانہ تھا۔مکتوب نگار نے اس میں دو نکات کو خاص طور سے پیش کیا ہے۔ایک تو مزاح اور دوسرا اصلاح معاشرہ۔یہ دونوں نکات ابن صفی کے ناولوں کے امتیازات ہیں۔ اس پر ابن صفی نے الزامی جواب میں کتنا اہم سوال اٹھایا کہ عالمی جاسوسی ادب کے بہترین ناولوں کے اردو ترجمے اس قدر بد ذائقہ کیوں ہیں۔کیونکہ ابن صفی نے قارئین کے ذوق کی تسکین بھی کی اور تربیت بھی۔ اس کی وجوہات پر بھی وہ روشنی ڈالتے ہیں۔چنانچہ اسی پیش رس میں وہ آگے لکھتے ہیں:

’’ہر قوم کا مزاج جدا گانہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی وہی پسند کریں جو دوسری قو میں پسند کرتی ہیں اور پھر بھئی میں فن برائے فن کا قائل بھی نہیں ہوں۔ انگریزی کے جاسوسی ادب میں جسے آپ خالص فن کا آئینہ دار سمجھتے ہیں بعض چیزیں معاشرہ کے لیے تباہ کن بھی ہیں۔ مثلاً ہیرو پرستی کے جوش میں جرائم پیشہ افراد کی طرف داری۔‘‘ 8

یہاں ابن صفی کا ادبی نظریہ قدرے واضح ہو جاتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ہر قوم کا ادب اس کے مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیونکہ پسند ناپسند کا تعلق مزاج سے ہے۔ دوسرے یہ کہ ابن صفی ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی جیسے نظریات کو زیر بحث لاتے ہوئے ثانی الذکرکو اپنا مطمح نظر بتاتے ہیں اور اس کی وجہ بھی وہ بتاتے ہیں۔وہ ادب برائے ادب کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ایسا فن جو چپکے سے معاشرے میں جرائم پسند لوگوں کو ہیرو بنادے ان کے نزدیک تباہ کن ہے۔چنانچہ وہ سائمن ٹمپلر سینٹ اور آرسین لوپن جیسے جاسوسی کرداروں پر مخصوص انداز میں تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہاں مثال کے لیے انگریزی کے صرف دو مشہور کرداروں کا تذکرہ کروں گا جو اردو میں’لکھنوی پاجامہ‘ پہن کر مقبول ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔ یہ کردار ہیں سائمن ٹمپلر سینٹ اور آرسین لوپن۔ یہ ایسے قانون شکن کردار ہیں جو صریحی مجرم ہونے کے باوجود بھی قانون کی زد پر نہیں آتے اور پڑھنے والے پولیس کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی مصنفین کا انداز تحریر ایسا ہوتا ہے جیسے وہ خود ہی پولیس کا وقار خاک میں ملانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بہر حال مجموعی تاثر یہ ہوتا ہے کہ قانون اور قانون کے محافظ، قاری کے لیے مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہیں۔ مجھ سے اس کی توقع نہ رکھیے۔ میرے شروع سے اب تک کے ناول دیکھ لیجیے۔ آپ کو قانون کے احترام ہی کی ترغیب نظر آئے گی۔میرے پڑھنے والوں کی ہمدردیاں قانون اور قانون کے تحفظ ہی کے لیے ہوتی ہیں  اور پھر میں انگریزی ناولوں کی پیروی کیوں کروں؟ میں نے اپنے لیے الگ راہیں نکالی ہیں۔میرے زیادہ تر پڑھنے والے مجھے پسند کرتے ہیں۔بس اتنا ہی کافی ہے میرے لیے۔یہ ضرور ہے کہ میں نے انگریزی ہی سے سیکھا ہے۔لیکن انگریز تو نہیں ہوں۔‘‘ 9

یعنی ایسے مجرم کردار جو قانون کی زد میں نہ آسکیں، اگر ان کو مصنفین ہیرو کی طرح پیش کریں گے یا ایسی تخلیق جس میں قانون اور  اس کے محافظ  کا مضحکہ اڑانے کی صورت حال پیدا ہوگی، معاشرے کی تنزلی کا سبب ہوں گے۔چونکہ ابن صفی ادب برائے زندگی کے قائل تھے اس لیے انھوں نے اپنی تخلیقات سے قانون کا احترام اور جرم سے نفرت سکھانے والی نگارشات پیش کیں۔ دوسرے یہ کہ وہ انگریزی ناولوں سے مرعوب نہیں ہیں، یورپ کی تقلید ایشیائی ادب کو آزادانہ طور سے سوچنے اور تخلیقی تجربے بیان کرنے کے مواقع سے باز رکھے گی۔ایسا نہیں ہے کہ مغربی ادب سے ابن صفی نفرت کرتے تھے، بلکہ ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ ہمیں اپنے سرمایے کو معیاری بنانا چاہیے اور ان پر فخر کرنا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے انگریزی سے ہی سیکھا، لیکن سیکھنا اور تقلید کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔

ابن صفی کی ناول نگاری کو مقبول عام  ادب کہہ کر خارج از ادب رکھا گیا۔گویا مقبول عام ادب کوئی ایسی بری بات تھی جس سے احتراز ضروری ہو۔ایسا کر کے اہل اردو نے بڑا نقصان کیا۔تمام طرح کی بے رخی کے باوجود ابن صفی کے ناول خود کو منوانے میں کامیاب رہے۔جن لوگوں نے ان کے ناولوں کو پڑھا ہے انھیں پتا ہے کہ ان کے ناول 60، 70 برس بعد بھی ویسے ہی تازہ معلوم ہوتے ہیں اور وقت کی گرد کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ابن صفی جن دنوں اپنی تخلیقات پیش کر رہے تھے، انھیں اس بات کا احساس تھا کہ جس ادب کو سنجیدہ کہا جارہا ہے ان کا کیا حال ہونے والا ہے اور خود ان کے ناولوں کے ساتھ وقت کیا برتاؤ کرے گا۔انھوں نے اس موضوع پر اپنے مدلل تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔چنانچہ بیچارہ/بیچاری ناول کا پیش رس اگر ہو بہو پیش کردیا جائے تو یہ اپنے موضوع پر ایک جامع مضمون کہلانے کا مستحق ہوگا۔وہ اپنے اس ناول کو ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں ایک کہانی کا اضافہ کہتے ہیں پھر اس کی دلیل میں وہ لکھتے ہیں:

’’یہ ادب ہمیشہ اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کا تعلق براہ راست Instinct of curiosity سے ہے۔تجسس کی جبلت مرتے دم تک زندہ رہتی ہے۔ آدمی اس وقت بھی متجس رہا ہے جب وہ غریب  اپنی اس جبلت کو کوئی مخصوص نام دینے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا۔ اگر یہ غلط کہہ رہا ہوں تو پروفیسر صاحبان ہی اس کی تصدیق کر دیں جو چھپا چھپا کر جاسوسی ناول پڑھا کرتے ہیں لیکن اگر کسی نشست میں کسی کی زبان پر جاسوسی ناولوں کا ذکر بھی آجائے تو اس طرح ناک بھوں سکوڑتے ہیں جیسے اس نے خواتین کے مجمع میں ’مغلظات‘ شروع کر دی ہوں۔ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے۔ لہٰذا آدمی کی مختلف قسم کی صلاحیتوں کے انحطاط کے ساتھ ہی مختلف قسم کے ادب کا بھی تیا پانچہ ہوتا رہتا ہے۔بہتیرے لوگوں کو جوانی کی بداعمالیوں کی یہ سزا ملتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں صوفی ہو جاتے ہیں۔ لیجیے صاحب ختم ہوئیں پر شباب قسم کی گرما گرم کہانیاں۔ اب وہ مذہبی کتب کی تلاش میں سرگرداں نظر آئیں گے یا پھر ایسی کتابیں ٹٹولتے پھریں گے جو انھیں ’مجاز‘سے حقیقت تک پہنچا دیں۔(جوانی میں چلتے تو ہیں مجاز ہی کے سہارے لیکن حقیقتاً جنسی ناکارگی تک جا پہنچتے ہیں)۔‘‘ 10

تجسس کی جبلت ہی سنجیدہ کہانیوں کی بھی بنیاد ہے۔ ’پھر کیا ہوا‘کی گردان ہی کسی بھی کہانی کو آگے بڑھاتی ہے۔ ابن صفی کا ماننا ہے جب انسان میں تجسس کی جبلت ازل سے پائی جاتی ہے اور ابد تک باقی رہنے والی ہے تو جاسوسی کہانیاں کیوں کر ختم ہو سکتی ہیں۔ خواص کا وہ طبقہ جو ابن صفی کے ناول چھپا چھپا کر پڑھتا رہا اسے تجسس کی جبلت سے انکار نہیں ہوسکتا، پھر جاسوسی ادب کو مقبول عام کہہ کر کیوں کر رد کیا جائے۔ابن صفی سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ طبقہ خواص ان ناولوں کو پڑھتا بھی ہے اور ان سے نفرت بھی کرتا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ کسی ادب کی موت یا زندگی کا تعلق آدمی سے ہے۔ ابن صفی نے  بڑھتی عمر کے ساتھ بدلنے والے رجحان کا جو ذکر کیا وہ تو دیکھا بھالا اور مجرب ہے۔بڑے بڑے ناقد و تخلیق کار آخر عمر میں زیادہ مہذب و مذہبی ہوجاتے ہیں۔وہ مزید طنزیہ اسلوب میں لکھتے ہیں:

’’ہاں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ تجسس کی جبلت مرتے دم تک قائم رہتی ہے۔ کچھ نہیں تو مرنے والا یہی سوچنے لگتا ہے کہ دیکھیں اب دم نکلنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ اس لیے اس بات کی تسکین فراہم کرنے والا ادب بھی ہمیشہ زندہ رہے گا۔لاحول ولاقوۃ! میں بھی کتنی غلط باتیں کرنے بیٹھ گیا..... نہیں بابا یہ آفاقی ادب ہرگز نہیں ہے جسے ہم پیار سے جاسوسی ادب بھی کہتے ہیں۔ زندہ رہنے والا ادب تو وہ تھا جو قحط بنگال کے زمانے میں اسی موضوع پر پیش کیا گیا جسے آج کوئی بھی پڑھنا پسند نہیں کرتا، زندہ رہنے والا ادب تو وہ تھا جو 47ء کے فسادات کے دوران اس موضوع پر پیش کیا گیا اور جواب دور سے بھی نظر آجائے تو پڑھنے والے ناک کم اور بھوں زیادہ چڑھاتے ہیں (ویسے ذرا سے ہیر پھیر سے یہ موضوعات بھی آفاقی ادب کے شاہ کار بن سکتے تھے۔ بس اتنا کرنا پڑتا کہ ان کی تباہ کاریاں بیان کرنے کے بجائے ان کے اسباب و علل پر جاسوسی ناول لکھ دیے جاتے۔ الا ماشاء اللہ)‘‘ 11

یہاں ابن صفی کے طنز کی کاٹ گہری ہوگئی ہے۔وہ قحط بنگال اور تقسیم ہند کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات کے تعلق سے لکھے گئے ادب کا ذکر کرکے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اب انھیں کون پڑھتا ہے؟ واضح ہو کہ یہ تحریر 1964 میں معرض تحریر میں آئی تھی اور تقسیم وطن کو بیس برس بھی نہیں ہوئے تھے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن صفی نے یہاں غلو آمیز باتیں لکھ دی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہنگامی ادب کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ایسے ادب میں صرف وہ شہ پارے زندہ رہ پاتے ہیں جن میں آفاقی عناصر بھی شامل ہوں۔ ابن صفی مانتے ہیں کہ واقعات و سانحات کے بھیانک پن کو بیان کرنے سے ادب زندہ نہیں رہتا بلکہ وہ ادب زندہ رہتا ہے جس میں واقعات کی بدنمائی کے اسباب و علل پر روشنی ڈالی جائے۔اسی طرح کا خیال انھوں نے ایک دوسرے پیش رس  میں ظاہر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی کبھی کوئی کردار کسی دوسرے کردار کے طریقہ کار کی وضاحت کے لیے گڑھا جاتا ہے۔وہ اپنے ایک ناول کے کردار صبیحہ کی مثال پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا کردار ناول میں مذکور انجمن کے طریقہ کار کی وضاحت کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے دو ہی طریقے ہوسکتے ہیں یا تو چند حرفوں میں لکھ دیا جائے کہ انجمن کا پیشہ بلیک میلنگ تھا۔یا پھر کسی واقعے کے سہارے یہ چیز قاری کے ذہن نشیں کرائی جائے۔پہلا طریقہ رپورٹ کہلاتا ہے اور دوسرا طریقہ کہانی۔یعنی رپورٹ اور کہانی میں فرق ہے۔ ابن صفی کہتے ہیں کہ وہ کہانی لکھتے ہیں نہ کہ رپورٹ۔

ابن صفی نے سماجی اور تاریخی ناولوں کے تعلق سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔انھوں سماجی ناول کے تعلق سے بھی ذوق اور صلاحیتوں کی تبدیلی کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’اب ذرا سماجی مسائل پیش کرنے والے ادب کو بھی دیکھتے چلیے۔ اس کے متعلق بھی یہی خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے لیکن جہاں سے سماجی مسائل پیش کرنے والے ادب کی تحریک شروع ہوئی تھی وہاں کا حال بھی سن لیجیے۔ ابھی کچھ ہی دن ہوئے یہ خبر سننے میں آئی کہ روس میں میر امن کی باغ و بہار ترجمہ ہو کر کروڑوں کی تعداد میں بک گئی۔ سخت حیرت ہوئی سن کر۔ بھلا الیا اہرن برگ کے وطن مالوف میں یہ حادثہ کیوں کر ہوا؟ مایو کو فسکی کے دیس میں چاسر کی کینٹر بری ٹیلس کو کیوں کر مقبولیت حاصل ہوئی؟ ابھی حال ہی میں ایک روسی فلم ’’دی سیکرٹ فورٹ‘‘دیکھ کر سر پیٹ لینا پڑا تھا۔ بچوں کی تعلیم کے بہانے یار لوگ ’’طلسم ہوشربا‘‘ فلمانے پر اتر آئے ہیں۔ جسے آٹھ سال سے اسی سال تک کے بچے دیکھتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔‘‘  12

الیا اہرن برگ روسی ناول نگار اور صحافی تھا وہ اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے اپنے زمانے میں ممتاز حیثیت کا مالک تھا، اسی طرح ولادیمیر مایوکوفسکی مستقبلیاتی رجحان کا  شاعر تھا۔ اسے بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایسے لوگوں کے ملک میں ہی لوگوں نے داستانوی اور طلسم ہوشربائی ادب کو قبول کرلیا تو دوسرے ممالک کا کیا کہنا۔ ابن صفی یہاں بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے۔اس کا ذوق ہے۔اس کی صلاحیتیں ہیں۔

حوالہ جات

1        اوراق پارینہ ( جاسوسی دنیا کے پیش لفظ، اداریے اور پیش رس)، مرتب شاہجہاں پوری،سنہ اشاعت 2023، پیش لفظ دلیر مجرم،ص56

2        ایضا،پیش رس تباہی کا خواب،ص297-98

3        ایضا، پیش لفظ دلیر مجرم ص56

4        ایضا، پیش لفظ دلیر مجرم، ص56

5        (ص) ایضا، پیش لفظ دلیر مجرم، ص56-57

6        ایضا، پیش لفظ موت کی آندھی،ص68

7          ایضا، پیش رس سیکڑوں ہم شکل، ص188

8        ایضا، پیش رس سیکڑوں ہم شکل، ص188

9        ایضا، پیش رس سیکڑوں ہم شکل، ص188-89

10      ایضا، پیش رس بیچارہ ؍بیچاری، ص229

11      ایضا، پیش رس بیچارہ ؍بیچاری، ص229-30

12      ایضا، پیش رس بیچارہ ؍بیچاری، ص229

 

 

 

Mohammad Taiyab ali  (Taiyab Ali)

SKN English School

Paschim paly , Kanki,

Uttar Dinajpur- 733209 (West Bengal)

Mob.: 6294338044

Email: ali1taiyabgmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...