ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
لوک ادب کسی
بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے کیونکہ لوک ادب کے دامن میںاس قوم کے گزشتہ ادوار،
روایات، تہذیبی و معاشرتی اقدار اور لسانی
و ادبی سلسلے آباد ہوتے ہیں۔
پروفیسر قمر رئیس رقمطراز ہیں:
’’لوک
ادب اور لوک گیتوں کی چند امتیازی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے مثلاً یہ کہ
ان کا مصنف گمنام ہوتا ہے۔ یہ گیت زیادہ تر اجتماعی اور کم تر انفرادی جذبات کی
ترجمانی کرتے ہیں۔اکثر یہ گیت محنت کش عوام کی اجتماعی تخلیقی محنت کے عمل میں خلق
ہوئے اور گائے جاتے ہیں۔‘‘ ( اردو میں لوک ادب : مرتب پروفیسر قمر رئیس، ص
8)
پروفیسر محمد حسن کے الفاظ میں :
’’وہ
ادب جس کو عوام نے جنم دیا ہو لوک ادب ہے‘‘
( اردو میں عوامی ادب: ایک روایت: پروفیسر محمد حسن، ص 25)
شہرِ وانمباڑی ریاستِ تمل ناڈو کے ضلع ویلور کا ایک
چھوٹا سا علمی و ادبی مرکز ہے دنیا کے نقشے پر وانمباڑی کا نام چمڑے کے ایک بڑے
تجارتی مرکز کی حیثیت سے موجود ہے۔ ہندوستان کے متعدد علاقوں کی طرح شہر وانمباڑی
میں بھی اردو لوک ادب کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے اس میں لوک کہانیاں، قصے،
کہاوتیں، پہیلیاں اور گیت وغیرہ شامل ہیں۔ لوک ادب میں سب سے زیادہ مقبولیت گیتوں
کو ہوئی کیونکہ گیت ہر خواص و عوام کی زبان پر بہ آسانی چڑھ جاتا ہے شہرِ وانمباڑی
میں بھی کئی ایسے لوک گیتوں کا ذخیرہ موجود ہے جو ہر خاص موقع، تقریب اور تہوار کے
مطابق گا یا جاتا ہے لوک گیتوں سے خواتین کا گہرا تعلق ہے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ
گیت کسی سُر اور تال کی محتاج نہیں ہوتے۔
لوک گیت کی روایت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس میں عام طور
پر وہ باریک اور چھوٹے چھوٹے مگر اہم حقائق بیان ہوتے ہیںجہاں تک ایک مستند مصنف کی
رسائی نہیں ہو پاتی۔ جو شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش اور دوسرے مواقع کی مناسبت سے
جو گیت گاتی ہیںان میںواقعات کے نہایت ہی باریک پہلوؤںکو سمو لیتی ہیںجن کا نمونہ
کسی افسانے اور ناول میں نہیں ملتا۔
شکرانہ جسے عرفِ عام میں وانمباڑی میں ہلدی کی رسم بھی
کہا جاتا ہے اس میں دولہا کی بہنیں اور رشتہ دار دلہن کو رسم کرتے وقت چوک کے گیت
پورے جوش و خروش سے گاتیں خواتین رنگین چاولوں سے دیدہ زیب نقش و نگار بناتے ہوئے
اپنی خوشی کا اظہار گیتوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ بعض گھرانوں میں ہلدی کی رسم کے ساتھ
ہی تیل کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے اور اس میں اس زمانے کے رواج کے مطابق سات سہاگنیںدلہن
کے سر پر باری باری تیل لگاتیںاور بڑی بوڑھیاںدلہن کے سر سے روپیہ وغیرہ وار کر
بلائیں لیتیں اور فضا لوک گیتوں کی جھنکار سے گونج اٹھتی تھی۔ چند گیت ملاحظہ
ہوں ؎
عارس میری بی بی
نیہور بیٹھی چاند
نقدے
کے نو مہریاں سہرے تلے مانگ
ہمے
ساتوں بہنا پالکی پر پان کھانا
بھائی
تیری رانی کو سوا پل میں لانا
دھنیا
میں کوٹونگی دھنیا جیسے چھلے
وہ کیسے
بی ہلے ساساں ننداں تلے
شادی بیاہ میں خواتین سمدھنوں کو طنز کا نشانہ بھی بناتی
ہیں
جوائیاں
کی ساس پھرتی گلی گلی
جیویں
کھیلے گلی اڑگئی ساس کی نلی
جوائیاں
کی ساس کھول بیٹھی پٹھارا
جیویں
منگتے بیوی زرد پھرا دوشالہ
اور
اس موقع پر وہ دلہن کو بھی نہیں بخشتیں میٹھے میٹھے طنز کی بوچھار سے دلہن کو بھگویا
جاتا ؎
عارس میری بی بی بوند و بوندو روتی
نوشو گھر کا کھانا ڈلّے ڈلّے کھاتی
ہماری بھاوج کریلے پکائی
ہمے
ننداں گئے تو محلوں میں چھپائی
اور کچھ دیر بعد تعریفوں کا راگ شروع ہو جاتا ؎
ہماری بھاوج ڈولارے میں ڈولتی
ہمے بھانا گئے تو اٹھ کر تعظیم کرتی
پھر شادی کے دن منڈوے کے گیت گائے جاتے اور یہ گیت دولہا اور دلہن دونوں
طرف سے پیش ہوتے تھے دولہا اور دلہن کی بہنیں اور رشتہ دار سرخ آنچل تلے منڈوے کے
گیت گاتے ہوئے خوشیوں بھرے ماحول میں چار چاند لگادیتیں اور فضا معطر ہوجاتی ؎
کیا بیل چڑھی ہے قدرت کی
منڈوا ہے سہانا شادی کا
شفاف ہے چادر پھولوں کی
منڈوا ہے سہانا تاروں کا
ایک اور گیت ملاحظہ ہو ؎
چلے آئو منڈوے کے اندر چلو
آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ
شرم سے یہ نظریں جھکاتے چلو
آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ
خوشی کی نظر دل میں لیتے چلو
آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ
مبارک قدم کو بڑھاتے چلو
آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ
چوک کے گیت اور منڈوے کے گیت کے علاوہ رخصتی کے گیت بھی
بعض گھرانوں میں رائج تھے لیکن شہرِ وانمباڑی میں اس کا رواج بہت کم دیکھنے کو
ملتا ہے۔
لوک ادب میں لوری کے گیت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے
بچّے کو جھولا جھلاتے وقت ماں بڑے ہی خوبصورت اور ممتا سے لبریز آواز میں لوری کے
گیت گاتی اور بچہ لوری سنتے سنتے چند لمحوں میں نیند کی وادیوں میں اتر جاتاماں کی
لوری بچوں کے لیے وٹامنز کی سی اہمیت رکھتی ہے
جھجو بالے ما جھجو بالے/میرے بچّے کو اللہ پالے
آری بھبو چل کو/انڈہ دے ری تل کو
جھجو رے تانے/موتی کے دانے
منّے کو سلانے/امّی نے جھلانے
بچہ جب چھ سات ماہ کا ہوتا تو ماں بچے کو مختلف انداز
سے بہلاتے ہوئے کھلاتی اور بہت پیارا سا گیت اس کے لبوں سے نکلتا اور گیت سن کر
بچہ کلکلاریاں مارنے لگتا چند گیت ملاحظہ ہو ؎
چڑی چڑی یاں بیٹھ/آری چڑی یاں بیٹھ
کھانا کھا پانی پی/باغ کو جا بھّٹا لا
تو بھی کھا منّے کو بھی دے /بُھر کر کو اُڑ جا
تالیاں ما تالیاں/تالیاں بجیں گے
پوریاں پکاں گے/ہمے تمے کھاں گے
سب کو بھی دیں گے
ہری مرچی تو کیا بولی /بچے کا منھ جلا ڈالی
بچہ منگتا مٹھا کھانا/ہمے منگتے پلائو کھانا
بچے جب شرارتیں کرتے اور ماں کو تنگ کرنے لگتے تو ماں
اسے مختلف انداز سے بہلاتی اور بچے کی ننھی منی انگلیاں پکڑ کر اسے گدگداتے ہوئے یہ
گیت گاتی ؎
چن چن پاپا ماما جگنی/بیٹا سبّل کلمہ کی انگلی
بڈھا بھاڈوس...دال گھوٹوم... دال گھوٹو ما
وقت گزرنے کے ساتھ بچّے بڑے ہوکر اپنے ساتھیوں اور
ہمجولیوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یہاں پر گیتوں کے بول کچھ اس
طرح ہوتے ہیں کھیل کے گیت بھی لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں میں زیادہ مشہور ہیں ؎
انکھی مچانی ، دال گھوٹانی/ایک انڈہ کھالے کو دو انڈہ
بچت
اپڑی کی تپڑی کی پکّے پکّے پان/اُڑ گے چڑیاں پکڑ اس کے
کان
آم چوری بادام چوری /کلکتہ میں جائونگی
سات کریلا کھائونگی/ایک کریلا چھوٹا
ماموں جی کا لوٹا/لوٹا میں پانی
تیری امّی رانی/تیرا باوا راجہ
سنے (سونے)کا دروازہ/اللہ اللہ بولونگی
بچیاںدو گروپ میں بٹ جاتیں اور دونوں طرف آمنے سامنے ایک دوسرے کے گلے میں
ہاتھ ڈال کر کھڑی ہوجاتیں اور سریلے انداز میں گیتوں کی مالا بکھیرتیں۔
پھول منگنے آتے ہیں/پھول منگنے آتے ہیں
پھول کے باغ میں/کونسا پھول ہونا...کونسا پھول ہونا
ایک بچی اس کی پسندیدہ دوست کی طرف اشارہ کرتی اور اس
کا نام لے کر کہتی جیسے ؎
عائشہ پھول ہونا...عائشہ پھول ہونا
اور اس طرح وہ اپنی سہیلی کو اپنی ٹولی میں شامل کر لیتی۔
اور چند کھیلوں کے گیت ملاحظہ ہو ؎
ایک سہیلی دھوپ میں بیٹھ کو روتی تھی۔۔روتی تھی
اٹھو
سہیلی اٹھو۔ آپ کے انکھیاں پونچھو
چاروں طرف دیکھو...آپ کی سہیلی کون ؟
بھنڈی بازار میں ٹماٹو...ٹماٹو
گھی گوشت کھاتاتو...کھاتا تو
سوڈا لیمن پیتا تو...پیتا تو
اب کس کی باری ہے
؟
کبھی ان سہیلیوں میں لڑائی ہوجاتی تو ایک دوسرے کو
بالواسطہ طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا
؎
کاکا کٹّی تیرا منھ میں مٹّی/میرا منھ میں شکر
تیرا گھر ٹوٹیا/میرا گھر اچھا
شبو شبانہ/ڈِنگ ڈِنگ بجانا ( کسی کا نام شبانہ ہو تو اس طرح چڑایا جاتا ہے
)
کانی کانی یہ کیا کری/کائیکو مجھ سے کچیّ چھوڑی (کسی کی
آنکھ کانی ہواور سہیلیوں میں بات چیت بند ہو تو چڑانے کا انداز بدل جاتا ہے )
چند گیت خواتین کے گھریلو کام کاج کے سلسلے میں بھی
مشہور ہیں ؎
اچار... اچار...نیم کا اچار
بھابھی ذرا چکھ کو دیکھو کِتّا (کتنا ) مزیدار
ڈبے
ڈبے بسکوٹاں /کیا جی پکائی میمونہ
کھٹے کھٹے بیگناں/ کِن کِن کی بھاجی
لوک
گیت میں فقیروں کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے جو دف بجا کر حمدیہ اور نعتیہ کلام
پڑھتے تھے جنھیں شہرِوانمباڑی میں دفعی فقیر یا سائیں فقیر کہا جاتا ہے۔
دکنی اردو کے تحریری ادب کی طرح زبانی ادب میں بھی قصے
کہانیوں کا ذخیرہ موجود ہے جسے زبانی لوک ادب کہا جاتا ہے۔
بوڑھی عورتیں اپنے پوتے،پوتیوں، نواسے اور نواسیوں
کوکہانی سناتیں ، بچے بڑے انہماک سے سنتے پھر وہ جب بڑے ہوجاتے جوانی کی حدوں کو
پار کر کے دادا دادی، نانا نانی بن جاتے
تو وہ بھی گھر کے بچوں کو اکٹھا کر کے وہی کہا نیاں دوہراتے جو انھوں نے اپنے بچپن
میں سنی تھیں۔ اس طرح ان کا وقت بھی گزر جاتا تھا قصے کہانیوں میں بچے نصیحت کی
باتیں بھی سیکھ لیتے تھے۔
شہرِ وانمباڑی میں بھی دوسرے علاقوں کی طرح نانیاں اور
دادیاں بچوں کو قصے اورکہانی سناتی تھیں لوک کہانی سنانے کا الگ ہی انداز ہوتا ہے
جب بھی بزرگ بچوں کو کہانی سنانا شروع کرتے تو
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کسی گائوں
میں ایک بادشاہ رہتا تھا ‘‘کہنے کے
بجائے ’’ایک گائوں میں ایک بادشاہ
کتے‘‘ سے کہانی کی شروعات ہوتی تھی اور
کہانی کے آخر میں ان بزرگوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کہانی کا اختتام خوشگوار اور
بچوں کے حسبِ خواہش ہو مثلاً :
’’آخیرمیں
شہزادہ شہزادی کی شادی ہوجاتی اور سب بھی خوشی خوشی رہتے کتے ‘‘
دوسرے علاقوںکی طرح وانمباڑی سے بھی بہت ساری کہانیاں
منسوب ہیں۔ان میں سات شہزادیوں کی کہانی ، پری کی کہانی ، چڑیا اور کوّے کی کہانی
وغیرہ مشہور ہیں۔
چڑیا اور کوے کی کہانی کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔ کہانی کا آغاز کچھ اس طرح سے
ہوتا ہے:
’’ ایک
گاؤں میں ایک کوّا اور ایک چڑی رہتے سو
کتے۔ کوا نمک کا گھر بنایا کتے چڑی سونے
کا گھر بنائی سو۔ایک دن زور سے بارش ہوئی تو کوّا
کا گھر گھل گا (گیا)کتے وہ بھاگ کو چڑی کا گھر جاتاکتے اور دروازہ مار کو
چڑی کو بلاتا
’’ چڑی
بہن ! چڑی بہن ! دروازہ کھولو...
اس طرح یہ کہانی آگے بڑھتی ہے اور چڑیا کوا کو اپنے
گھر میں پناہ دیتی ہے۔کوا دھوکے سے اس کے گھر کا سارا اناج کھا لیتا ہے اور وہاں غلاظت چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ چڑیا کو
بہت غصہ آتا ہے اور وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے ایک دعوت کا منصوبہ بناتی ہے
اور بہانے سے کوّا کو گرم پانی سے نہلا دیتی
ہے۔یہ کہانی مزیدار ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے۔بچوں کو بتا یا جاتا ہے کہ
احسان فراموش لوگوں کی کیا حالت ہوتی ہے۔بچے اس کہانی کو بڑے ذوق و شوق اور دلچسپی
کے ساتھ سنتے تھے۔
کہانیوں کی طرح
پہیلیاں بھی اُس زمانے میں مقبول عام تھیں
چند پہیلیاں ملاحظہ ہو ؎
ایک طشتری بارہ چمچہ
۔ گھڑی
مسئلہ مسلتا ہاتھ میں رکھے تو پھسلتا ۔ ننگو (Ice Apple)
سفید ساڑی میںپیٹ بھر کو بچے ۔ لہسن
ہمارے ابا ساڑی لائے موڑنے موڑنے مڑتا نیئں۔ آسمان
ہمارے ابّا پیسے
لائے گِننے گننے سرتا نئیں ۔
تارے
اردو لوک ادب میں ضرب الامثال اور کہاوتوں کا ایک جہاں
آباد ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کی جڑوں میں لوک ادب موجود رہا ہے کیونکہ
عوام کے بغیر نہ زبان پوری طرح وجود میں آسکتی ہے نہ وہ دور تک پھیل سکتی ہے اور نہ دیر تک قائم
رہ سکتی ہے۔شہرِ وانمباڑی کی چند کہاوتیں ملاحظہ ہو ؎
ایرے کی بیوی کو زیرے کا بگھار
خلیل
خان فاختہ اڑائے
مرغی
کو پوچھ کو مسالہ پیستے
بندر کے ہاتھ میں پھول کا ہار
گِرے تو گرے مچھی کو مٹی نہ لگے
سو
بکنا ایک لکھنا
اس
طرح شہرِ وانمباڑی کے افق پر لوک ادب پورے آب وتاب سے جگمگاتا تھا لیکن یہ روایت
آج سے تقریباً پندرہ بیس سال پہلے کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے۔ شاید
ضرب الامثال اور کہاوتیں چند ایک بزرگ خواتین آج بھی بولتی ہو ں لیکن گیتوں کا
رواج تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
Fouzia Habeeb
Assistant Prof. Dept of Urdu
Islamiah Women's College
Vaniyambadi - (Tamil Nadu)
Mob.: 7904322597
fouziahabeeb05@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں