ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
دنیاکی تمام زبانیں اپنے عہد، زمانے اور خطے کی ضرورتوں
کے سبب ہی وجود میں آ ئی ہیں۔ زبان صرف ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ ہی نہیں ہوتی ہے
بلکہ پوری ثقافت اورپوری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور انسان کو اپنے ماضی اور
مستقبل سے جوڑنے کا کام کرتی ہے انگریز جب ہمارے ملک ہندوستان میں داخل ہوئے تو
انھوں نے سیاسی بنیاد پر یہاں کی علمی کتب اور آثار قدیمہ کی تلاش وتحقیق شروع کی
اس وقت جو تحریریں سامنے آئیں ان سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ بر صغیر میں تہذیب
و تمدن کی باضابطہ اور باقاعدہ بنیاد آریائی قوم نے رکھی تھی اس وقت پڑھنے لکھنے
کا رواج نہیں تھا جو لوگ علمی مشاغل میں حصّہ لیتے تھے وہ سرکاری ملازمت حاصل کرنا
چاہتے تھے اس لیے انھوںنے فارسی زبان پر دسترس حاصل کی کیونکہ اس وقت ہندوستان کی
مسلم اورغیر مسلم ریاستوں میںتمام سرکاری امور فارسی زبان میںہی انجام دیے جاتے
تھے۔
ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا رواج مدت قدیم سے
موجودرہا ہے تاریخی اعتبار سے ہندوستان میں 800 سال تک فارسی زبان کوہی سرکاری
زبان کا درجہ حاصل رہا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی تہذیبی اور ثقافتی حیثیت بھی طول
وطویل زمانے تک بر قرار رہی اس حقیقت سے تو کسی صاحب نظر کوانکار ہو ہی نہیں سکتا
کہ زبان و ادب کا ہمارے ملک کی تہذیب اور مشترکہ کلچر کی تعمیر میں بہت اہم اور بنیادی
کردار رہاہے اس زبان کی وجہ سے ہمارے ملک میں اعلیٰ،علمی و ادبی آثار وجود میں
آئے اور بہترین افکار و خیالات کی تخلیق ہوئی یہی سبب ہے کہ ہندوستان میں فارسی کی
مقبولیت اور تہذیبی سر بلندی کے رشتے عوام اور عوامی زندگی سے ہمیشہ جڑے رہے ہیں
اور آج بھی اس کی صدائے باز گشت کو ہندوستان کے دروبام سے محسوس کیاجاسکتا ہے اس
زبان کا شما ر دنیا کی زندہ و پائندہ زبانوں میں ہوتا ہے ہمارے ملک ہندوستان کی
تہذیب و تمدن پر فارسی زبان وادب کے گہرے اور دیرپا اثرات کی داستان بہت دلچسپ بھی
ہے اور قدیم بھی۔ اس ملک کی مختلف بلکہ یہاں کی زیادہ تر زبانوں پرہمیں فارسی زبان
وادب کے گہرے اور راسخ نقوش دکھائی دیتے ہیں۔ ایرانی تہذیب و تمدن کے تحفظ و بقا
کے ضمن میں ہندوستانی دانشوروں اوریہاں کے مفکرین نے جو قابل قدر اور ناقابل
فراموش خدمات انجام دی ہیں ان کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستانی
دانشوران ادب کی فارسی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جناب ـ’آقای
محمد علی‘ (ندوشن) لکھتے ہیں:
’’زیر
چترنگ فرہنگ ایران کہ زبان و ادبیات فارسی بہ صورت عنصر مرکزی آن قرار میداشت،کشور
ہند قرنہاوسالہا مانند آغوش مادر گہوارہ تمدن ایرانی بودہ است۔ ‘‘
(فارسی
زبان و ادب،ڈاکٹر سمیع الدین احمد،لیبر ٹی آرٹ پریس پٹودی ہاؤس،دریا گنج نئی دہلی
میںطبع ہوئی،ص6)
ترجمہ:ایرانی ثقافت میں جہاں فارسی زبان و ادب کو مرکزیت
حاصل تھی، ہندوستان میں صدیوں اور برسوں سے ایرانی تہذیب کے گہوارے میں دست و بازو
بنا تھا۔
بر صغیر میں فارسی زبان مختلف حیثیتوں سے ہماری علمی،ادبی
اور تہذیبی زندگی کا حصہ بن کر اس کے حسن اور خوبصورتی میں مسلسل اضافہ کرتی رہی
ہے ہندوستان کے متعدد مدارس اور اسکولوں کالجوں میں آج بھی فارسی زبان کی تعلیم
وتدریس ہوتی ہے دوسری زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقا کے تمام مراحل سے
گزرتی ہوئی آج ایک بہت نکھری ہوئی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور تاریخی، سیاسی،جغرافیائی
اور علمی اثرات قبول کر کے دنیا کی متمول، شیریں ترین زبانوں کی صف میں شمار ہوتی
ہے۔ اس زبان میں ہمارے ملک کی تاریخ و ادب کا ایک گرا نقدر اور بیش قیمت سرمایہ
موجود ہے اس زبان نے ہمارے وطن کی تہذیبی وحدت کو استحکام بخشنے اور اس کو اجاگر
کرنے میں بڑی مدد کی ہے۔فارسی زبان و ادب کے مایہ ناز محقق اور ناقد ’پروفیسر نذیر
احمد‘ فارسی زبان کی اہمیت وافادیت کے
متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فارسی
نے ہندوستانی زندگی کے ہر شعبہ کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا اگرچہ اس کے دور
تسلط کو ختم ہوئے ایک صدی سے زیادہ ہوا لیکن یہاں کی تہذیب و معاشرتی زندگی کے ہر
پہلو پر اس کے اثرات کے نقوش تازہ ہیں۔‘‘
)فارسی
زبان و ادب، ڈاکٹر سمیع الدین احمدلیبر ٹی آرٹ پریس پٹودی ہاؤس،دریا گنج نئی دہلی
میںطبع ہوئی،ص6)
ہمارے ملک میں فارسی زبان و ادب کا سلسلہ کئی سو سالوں
سے جاری وساری ہے اور یہ زبان ہندوستان میں سرکاری، درباری اور عدالتی زبان کے طور
پر رائج رہی ہے یہاں تک کہ یہ زبان مغل سلطنت میں اپنے پورے عروج پر پہنچی تھی، نیز پورا خطہ اس کی تہذیب و تمدن کے زیر اثر رہا
ہے ہندوستان کی اکثردانش گاہوں، کالجوں، مکتبوں اور مدرسوں میں یہ زبان آج بھی کسی
نہ کسی شکل میں موجود ہے ہماری تہذیب و ثقافت سے اس زبان کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔
یہ شیریں زبان ہماری تہذیب کے رگ و ریشے میں پیوست ہے علم و فضل،شعر و ادب اور
دوسری علمی ادبی تخلیقات کا وسیلہ ہونے کے علاوہ فارسی زبان کے اثرات اور نقوش بہ
حیثیت مجموعی ہندوستان کی سیاسی و ملکی،معاشرتی،مذہبی اور ثقافتی تاریخ کے اوراق
پر ہمہ گیر اور نمایاں طور پر نظر آتے ہیںغزنوی عہد سے لے کرتیموری عہد کے زوال
تک تاریخ عالم اور تاریخ ہند کا کم و بیش سارا ادبی اور علمی سرمایہ اسی زبان میں
دیکھنے کو ملتا ہے۔
سنسکرت زبان بر صغیر پاک و ہندکی سب سے اہم اور قدیم زبانوں میں سے ایک ہے یہ
ایک ہندآریائی زبان ہے جو ہندیورپی زبان کے خاندان کی ایک شاخ ہے اس نام کا مطلب
بہتراور مقد س ہو تا ہے لہٰذا سنسکرت کو ایک الگ زبان کے طور پر نہیں سمجھا جاتا
ہے لیکن ایک بہتر یا مکمل مقدس تقریر کے طور پر ضرور لیا جاتا ہے اس زبان کی دو
اہم شاخیں ہیں’کلاسیکی سنسکرت‘ اور ’ویدک سنسکرت‘ کلاسیکی سنسکرت ادب میں استعمال
کی جاتی ہے تاریخ دانوں کے مطابق سنسکرت اولین ہند یورپی زبان کی اولاد میں شامل
ہے جوابتدائی طور پر یورپ کے میدان میں بولی جاتی ہے سب سے پرانی ایرانی زبان، اوستا
بھی اسی زبان کی ایک شاخ کہی جا سکتی ہے اور وہ سنسکرت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس
کو قدیم ترین موجودہ زبانوں کی فہرست میں نمایاں مقام ہونے کا اعزاز حاصل ہے قدیم
ہندوستان میںعلم اشرافیہ کی علامت اورتعلیمی حصول کا ذریعہ سنسکرت زبان ہی تھی اور
یہ زبان آج بھی بنیادی طور پر پڑھے لکھے اور اعلیٰ طبقے کی زبان تصور کی جا تی ہے
یہ ہندوستان کی 22 سرکاری زبانوں میں سے ایک زبان ہے جس کے تقدس اور عظمت کو ہر
دورمیں تسلیم کیا جاتا رہا ہے مشہور مورخ گوری ناتھ شاستری نے اپنی مشہور کتاب ہسٹری
آف سنسکرت لٹریچر میں فارسی زبان کی ابتدا کے بارے کچھ اہم باتیں بیان کی ہیں:
سنسکرت زبان کو عام طور پر ویدک اور کلاسیکی میں تقسیم
کیا جاتا ہے ویدک زبان میں آریائی ہندوستانیوں کا پورا مقدس ادب لکھا گیا تھا اس
ویدک زبان کے اندر کئی مراحل کو احتیاط سے الگ کیا جا سکتا ہے اور اس کے ایک سے
دوسرے میں ترجمہ کے دوران یہ بتدریج جدید تک پہنچ گیا یہ بالآخر کلاسیکی سنسکرت میں
ضم ہو گیا ۔
(a
concise history of classical sanskrit literature, second edition, galurinath sastri 1960, P 15)
سنسکرت زبان اور ادب کی ترقی کا علم اس کی تاریخ سے
ملتا ہے تاریخ ہزاروں کتابوں کی مقدار میں ان کی فضیلت اور اہمیت کے نقطہ نظر سے
منتخب کتابوں کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے سنسکرت زبان کی سب سے قدیم کتاب ’رگ وید‘
ہے۔چار ویدوں کے بعد جو ادب تخلیق ہوا اس میں زیادہ تر ادب مذہبی نوعیت کا ہے سنسکرت
ادب کاآغاز ویدوں کے ساتھ ہی ہو جاتاہے اس ادب کا زیادہ تر استعمال ہندو سناتن
دھرم میں ہوتا ہے۔ سنسکرت کی دو مشہور رزمیہ نظمیں ’مہابھارت‘ اور ’رامائن‘ ہیں اسی
طرح سے دیکھا جائے تو یہاں بھی گوری ناتھ شاستری نے اپنی کتاب ہسٹری آف سنسکرت
لٹریچرمیں سنسکرت زبان کی اہمیت کو بتانے کی کوشش کی ہے:
’’ہندوستانی
روایت سنسکرت کو دیوتائوں کے تعارف کی زبان کے طور پر جانتی ہے جو کہ چار ہزار سال
سے زائدعرصے سے ہندوستان کی غالب زبان رہی ہے۔دنیا کے ادب میں سنسکرت کو ایک منفرد
مقام حاصل ہے۔‘‘
)ایضاً،
ص 15)
سنسکرت زبان کو دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار کیا
جاتاہے اور اس میں مشابہ الفاظ آریائی زبانوں میں کثرت کے ساتھ موجودہیں اور اس
زبان سے ملتے جلتے بہت سے الفاظ دوسری آریائی زبانوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیںاس
زبان کی اہمیت وعظمت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا رہاہے اوریہ کہنا ہرگز بھی
غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان کے ثقافتی ورثے کی جڑیں سنسکرت زبان ہی میں پیوست ہیں
اوربغیر اس کے ہم اپنے تہذیبی ورثے کی درست قدرو قیمت کا تعین نہیں کر سکتے ہیں۔
سنسکرت فارسی دراصل آریوں کی زبان ہے سنسکرت اور اوستا
آریوں کی قدیم ترین زبانوںمیں سے ایک ہے اور آریائی ثقافت اور مذہب انھیں دو
زبانوں میں لکھے جاتے رہے ہیں اس لیے آریوں میں سنسکرت اور اوستا کو بہت ہی معزز،
بلند اور مقدس مقام حاصل ہے فارسی زبان کے اس گہرے علم کے علاوہ سنسکرت کو نہ
جاننا مشکل تھا جو کہ قدیم فارسی کی بہن ہے سنسکرت زبان ایشیا کی زبانوں میں سب سے
زیادہ با اثر اور مروجہ فارسی زبان کی جڑ بھی ہے ان دونوں زبانوں کا آپس میں
بڑاگہرا اور ہمہ گیر تعلق رہا ہے جہاں تک ہندوستان میں زبانوں کے فروغ و رواج کا
سوال ہے تو آج ہم جس ہندی یا ہندوستانی زبان کی بات کرتے ہیں اس کی ابتدا جس کھڑی
بولی سے ہوئی ہے اس میں سنسکرت کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کا بھی بڑا تعاون رہا ہے
عام بول چال میں فارسی زبان کی لفظیات کا استعمال بڑی روانی کے ساتھ کیا جاتا ہے
اگر ہمیں ان میں سے کسی زبان میں وہ لفظ نہیں ملتا جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں تواس
سلسلے میں سنسکر ت زبان ہماری مدد کرے گی۔ ماضی میں سنسکرت زبان میں لکھی گئی بے
شمار کتابوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا گیا مذہبی صحیفوں کے ترجمے بھی ایک زبان
سے دوسری زبان میںمنتقل ہوئے ہیں جب دنیا کے مختلف معاشروں اور دنیا کی مختلف
زبانوں نے ایک دوسرے کے قریب آنا شروع کیا تب ان زبانوں کے اثرات ایک دوسرے پر
مرتب ہونے لگے اور یوں ایک زبان کا اثر دوسری زبان کے ذخیرہ الفاظ اور ساخت میں دیکھا
جانے لگا سنسکرت اور فارسی ایک دوسرے سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہیں شاید اس کی ایک
وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی اور سنسکرت دونوں زبانوں کا تعلق آریائی زبان سے
ہے دونوں زبانوں کی اصل ایک ہے۔ محققین کاکہنا ہے کہ موجودہ نسل کو سنسکرت اور
فارسی کے قدیم لسانی رشتوں سے واقف کرانا بہت ضروری ہے نئی نسل ان دونوںزبانوں کے
قدیم رشتوں کے تعلق سے بہت کم واقف ہے فارسی اور سنسکرت زبانوں کے ماہرین ان
زبانوں کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فارسی زبان کی سب سے اہم اور قابل ذکر
خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام تر جدت کے با وجود بھی پرانی زبان کی تمام خصوصیات
کو محفوظ اور خود میں سموئے ہوئے رکھا ہے اس زبان کا ہندوستان کے ہر دور اور ہر
زمانے سے گہرا تعلق رہا ہے اس لیے اس نے پرانی سنسکرت،قرون وسطیٰ کی پراکرت اور نئی
ہندوستانی زبانون کے الفاظ اور محاورات کو اپنا یا ہے اور بہت سے ترجمے بھی سنسکرت
زبان سے فارسی زبان میں ہوئے ہیں جو ان دونوں زبانوں کی اہمیت وافادیت کو جاننے
اور سمجھنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بر صغیر میں فارسی
ترجمے کی روایت کا آغاز مغلیہ سلطنت کے عہد میں شروع ہوا سناتن دھرم کی کتابوں کا
ترجمہ کرنے کا یہ سلسلہ طول و طویل زمانے تک قائم رہا اور آج بھی وقتاً فوقتاً اس
کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ترجمہ ایک فن ہے اس فن میں ایک زبان کے متن کو دوسری
زبان میں منتقل کیا جا تاہے۔ شہنشاہ اکبر کو گرنتھوں میں اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں
نے سنسکرت کی بے شمار کتابیں فارسی میں ترجمہ کروائی جن میں سب سے زیادہ مشہور
مہابھارت، رامائن اور اتھروید ہے اس کے علاوہ گیتا، سنہاسن بتیسی،اور یوگ وششٹھ کا
بھی ترجمہ فارسی میں کیا گیاہے جو اپنے زمانے میں خاصا مقبول تھا۔
ـ’’مسلمانوں کا ذوق جستجو
اور مذاہب کے مطالعے کا شوق پوری تاریخ میں ہر عہد میں پایا جاتا ہے ہندومذہب کے
بارے میں جاننے اور ہندؤں کی مذہبی کتابوں کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہندوستان کی
اسلامی تاریخ میں مسلسل پائی جاتی ہے مغلیہ عہد کے دور ہمایونی میں محمد گوالیاری
نے سنسکرت کی مشہور تصنیف امرت کنڈ کا فارسی ترجمہ بحر الحیات کے نام سے کیا اس
کتاب میں برہمنوں کے مذہبی خیالات و عقائد پر مباحث ہیں اور یہ کتاب مخطوطے کی شکل
میں برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔‘‘
)فارسی
اور سنسکرت کے باہمی مطالعہ کی ہندوستانی روایت، ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی،ص5)
ذیل میں کچھ ایسے الفاظ کی فہرست پیش کی جارہی ہے جو کہ
سنسکرت زبان کے لفظ ہیں لیکن تھوڑے حیرت انگیز حد تک فارسی زبان کے الفاظ سے شباہت
رکھتے ہیں یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ بہت ہی تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ فارسی زبان میںبھی
اسی طرح اور اسی معانی میںرائج ہیں:
فارسی سنسکرت
شغال سگالہ
شتر اشٹر
اسب اسوا
گاو گئو
پسر پٹرا
برادر بھراتر
مادر ماتر
پدر پتر
خشک تشک
سخت شکت
کچھ حوالے پیش کیے جا رہے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ
دونوں زبانوں کا آپس میں گہرا رشتہ ہے:
فارسی زبان میں ’پنج‘کا مطلب نمبر پانچ ہے سنسکرت زبان
میں ایک ہی لفظ ’ پنچ‘ ہے فارسی اور سنسکرت میںدوسرے الفاظ
)مطالعہ
تطبیقی واژگان مشترک زبان سانسکرت و فارسی،فرزانہ اعظم لفظی،ص 280)
فارسی سنسکرت
یک
ایک
دو دوی
سہ تریاہ
چہار چتر
پنج پاجکا
شش سس
ہفت سپتا
ہشت استہ
نہ نوم
د
ہ دزا
مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ فارسی اور سنسکرت ایک دوسرے
سے بہت گہری مشابہت رکھتی ہیں بلکہ اگر قدیم فارسی اور قدیم سنسکرت کا آپس میں
موازنہ کیا جائے تو احساس ہوتاہے کہ دونوں کی بنیاد یا اصل ایک ہی ہے اور حقیقت بھی
یہی ہے کہ دونوں زبانیں ایک ہی درخت کی دوشاخیں ہیں اور ان کے صرف الفاظ ہی نہیں
ملتے ہیں بلکہ مزاج اور انداز بھی تقریباً ایک ہی جیسا ہے۔
Rani Hafeez
Research Scholar Arabic & Persian
Dept.
University Of Allahabad
Allahabad - 211002
Cell.: 9628947998
ranihafeeaz123@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں