ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
اردو میں بھی ادب اطفال کا باقاعدہ آغاز عہدِسرسید میں
ہوا۔ اس سلسلے میں اچھی بات یہ ہوئی کہ بچوں/بچیوں کے ادب کی افادیت کا اندازہ ہوا
تو اس وقت کے تمام اہل دانش، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ ادبیات و لسانیات، اور شعرا و
ادبا کے علاوہ مصلحین زبان و ادب کے ساتھ ساتھ مصلحین قوم و ملت نے بھی اس کے فروغ
میں طبیعت سے دلچسپی لی۔ اس طرح انیسویں صدی میں اردومیں ادبِ اطفال نے ایک واضح
شکل و صورت اختیار کرلی اور مختصر عرصے ہی میں وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق
بچوں کو ذہنی غذافراہم کرنے لگا۔ ان کی ذہن سازی میں روشن خیا لی پورے آب و تاب
کے ساتھ شامل ہوگئی۔ 1857سے پہلے کے ہندوستان اور اس کے معاشرے پر غور کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کس کس طرح کی بدعقیدگی اور توہمات کا شکار تھا
اور اسے ختم کرنے کے لیے کس نوعیت کے تدبرسے بھرپور ادب اور ادب اطفال کی ضرورت تھی۔
اس صورت کو بدلنے اور قوم و ملت کے بچوں کو صحت مند علمی غذا فراہم کرنے کے لیے
ڈپٹی نذیراحمد، الطاف حسین حالی،مولوی ذکاء اللہ،محمدحسین آزاداور مولوی اسماعیل
میرٹھی وغیرہ نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے
بچوں کے لیے نہایت مفید اور دلچسپ ادب تخلیق کرنے کے ساتھ، عمدہ قسم کی نصابی کتابیں بھی تیار کیں۔ اسماعیل
میرٹھی کی نصابی کتابیں ہوں کہ محمد حسین آزاد کی نصابی کتابیں، ان سبھی میں روشن
خیالی،علمی استدلال اور زبان و بیان کی لیاقت پیدا کرنے والی ایسی خوبیوں کو شامل
کیا گیا جنھوں نے بچوں کے ذہنوں کو روشن کردیا۔ ایک طرف تو یہ سب کچھ ہوا اور دوسری
طرف مولانامحمدحسین آزادنے’ نصیحت کا کرن پھول‘ (1864)، ڈپٹی نذیر احمد نے’ مراۃ العروس‘ (1869) مولانا
الطاف حسین حالی نے ’مجالس النساء ‘ (1874)،مولوی کریم الدّین نے’ تعلیم النساء‘
(1874) جیسی اہم اور دلچسپ کتابیں لکھ کر اردومعاشرے کوجمود سے نہ صرف آزادی دلائی
بلکہ تازگی و حرارت بھی بخشی۔ یہ کتابیںبچوں اور بچیوں کی اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی
اور معاشرتی تربیت کے اس نظام کو پیش کرتی ہیں جس پر مشرقی تہذیب کا مکمل اثرہے
ساتھ ہی یہ کتابیں ان مسائل کو بیان کرتی ہیں جو اس وقت کی زندگی کا بہت ہی اہم اورسنجیدہ موضوعات تھے۔ گویایہ کہنا بے جا
نہیں ہوگا کہ اس وقت کے دانشوروں نے اپنے چشم تصور سے مستقبل کے ہندوستان کا چہرہ
دیکھ لیاتھا۔ لہٰذا سرسیدکی فکری قیادت میں ان کے مذکورہ معاصرین نے تعلیم کو
اصلاح حیات کا ذریعہ بنایا۔سرسیداوران کے رفقا نے ادبِ عالیہ کے ساتھ ساتھ بچوں کے
ادب کوبھی زندگی کی تازہ ہواکے جھونکے کا خوشگوار لمس بخشا۔اس طرح سرسیدتحریک سے ایک
منجمدمعاشرے میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔نتیجتاً نظم و نثر پر مشتمل متعدد نصابی اور
غیر نصابی کتابیں بچوں کے لیے لکھی گئیں۔ تراجم کے ذریعے بھی بچوں کے ادب میںخاطرخواہ
اضافہ کیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابتدائی دنوں میںبچوں کے ادب کی تخلیق میں
ان کی عمر اور ان کے ذہنی تقاضوںکے مطابق
زبان اورنفسیات کا لحاظ کم ہی رکھا گیا۔جب کہ ماہرین ِ لسانیات و نفسیات اس امر پر
متفق ہیں کہ بچوں کی لسانی اور نفسیاتی دلچسپیاںبالغوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ بچپن سے
بلوغت کے دوران ان کی جذباتی، ذہنی، معاشرتی، تہذیبی اور جسمانی نشوونما بالغوں کے
مقابلے نہ صرف یہ کہ تیز رفتار ہوتی ہے بلکہ ان میں کسی بات کو رد کرنے کے مقابلے
قبول کرنے کی صفت بھی بہت توانا ہوتی ہے۔لہذا بچوں کا ادب لکھتے وقت، نفسیات و
لسانیات کے ان اصول و نظریات سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی جو بچوں کی نفسیات اور
زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔
اکثر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بچوں /بچیوںکے لیے
لکھنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ
ایک اچھا خاصا مشکل فن ہے۔ہم سب واقف ہیں کہ بچوں کا ذہن سادگی، رویہ نزاکت اور اس
کی فطرت معصومیت سے تعبیر کی جاتی ہے۔وہ
کسی قسم کے مکر،بغض، تعصب اور احساسِ گناہ سے نابلدہوتے ہیں۔ان کی نفسیات بھی غیرپیچیدہ
ہوتی ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ بالغوں کے مقابلے بچوں کے ذہن و دل میںتحیر و تجسس زیادہ
ہوتے ہیں۔لہذابچے کی صفتوں اور خصلتوں کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنا مناسب ہوتا
ہے حال آں کہ یہ انتہائی نازک اور دشوار کن مرحلہ ہے۔اس کی دشواری کی ایک وجہ
غالباً یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ادب اطفال نہ صرف بچوں کو انبساط پہنچانے کے لیے خلق
کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بچوں کی تربیت نیز شخصیت سازی کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا
ہے۔گویا نظموں غزلوں اور قصے کہانیوں کے ذریعے انھیں خیر و شر میں تفریق، صحیح و غلط
میں تمیز، محبت و اخلاق کی شناخت، سچ جھوٹ کاامتیازکرانا ہوتا ہے لیکن بہت احتیاط
سے، کیونکہ بچے اضطراری فطرت اور سیمابی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کی طبیعت چنچل
ہوتی ہے،لہذا ان کے بہکنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایک بالغ اور باشعور فرد کے
بالمقابل ایک نابالغ اور نیم پختہ ذہن کے لیے دلچسپ،پر کشش، بامقصد،با معنی، سادہ
اور فصیح ادب تخلیق کرنا لازم ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ ایک فرد کو سماج میں مہذب شہری کی
حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے لیے مناسب شخصیت سازی اور صحیح سمت میں نشوو نماکی
ضرورت ہوتی ہے اور اس کی بنیاد بچپن میں ہی رکھ دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ
مقاصد کی تکمیل کی غرض سے ماہرینِ تعلیمی نفسیات نے بچوں کی دلچسپی کی جامع اور
مسلسل تشخیص کرتے رہنے پر زور دیا ہے۔کیونکہ بچوں کا ذہن کورا کاغذ ہوتا ہے۔ نو عمری میں اس پر جو تحریر ہو جائے وہی نقش ہو
جاتا ہے، بڑی مشکل سے مٹتا ہے۔ معاشرے میں انسانی سرگرمیوں، خواہشوں، امنگوں اور
فرائض کا ایک بڑا حصہ بچوں کی ضروریات اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے متعلق
ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ادب ان ذہنی اورروحانی ضروریات کا ایک موثرذریعہ ہے۔لہٰذا
بچوں کا ادب ان کی دیگر بنیادی ضرورتوں کی طرح ان کی ذہنی اور جسمانی عمر اور ان
کے مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ ادب ان کے لیے صحت مند تفریحی ذریعہ بھی ہوسکتا
ہے اورروشن مستقبل کا ضامن بھی۔بچوں کے ادب کی مخصوص ضروریات اوراس کے تقاضوں کا
علم ہمیں نفسیات کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہاں عمومی نفسیات بالغ انسانوں کا مطالعہ کرتی
ہے وہیں بچوں کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے کے لیے نفسیاتِ اطفال
(Child Psychology) اپنا کردارادا کرتی ہے۔کیو نکہ بچپن
سے بلوغت کا دور اکتسابی دور ہوتا ہے لہٰذاتعلیمی نفسیات
(Educational Psychology) بھی بچوں کے موضوعات
ومعاملات اور مسائل کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ بچوں کے ادب کے تعلق سے مذکورہ نوعیت
کی نفسیات کے اصول و نظریات کا لحاظ ضروری ہے۔
ساتھ ہی یہ امر بھی لازم ہے کہ بچوں کا ادب خلق کرتے وقت تخلیقات کے مقاصد
کو بھی یاد رکھنا مفید ہوتا ہے۔ ہم سب واقف ہیں کہ بچوں کے ادب کی ادبی، لسانی اور
نفسیاتی ضروریات کو ذہن میں رکھنا چاہیے ساتھ ہی
یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ بچوں کا ادب، ان کی دلچسپیوں
اور اقدار و ضروریات کا مظہر ہو تبھی ان کی شخصیت کا ہمہ جہت فروغ اور مناسب تعمیرکا
امکان روشن ہوگا۔
ہندوستان اور عالمی سطح پر تعلیمی نظام کی بنیاد، سماجیات،
اقدار، نفسیات، فلسفہ اور لسانیات پر رکھی گئی ہے۔ سائنسی مضامین اور منطقی طرزفکر اس پر مستزاد ہیں۔
بچوں کی مخصوص ضروریات اور ان کی گوناگوں دلچسپیوں کو نفسیات کی روشنی میں سمجھا
جاتا ہے۔ جب کہ ہم جن اقدار کو بچوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، ان کی کردار سازی
اور ذہن سازی جس نہج پرکرنا چاہتے ہیں اس کی تشکیل وتکمیل، سماجیات،لسانیات، فلسفہ
اور نفسیات کی آمیزش ہی سے ممکن ہے اور اسی آمیزش سے بچوں کی شخصیت سازی سائنسی
طوروطریق سے ممکن ہو پاتی ہے۔ علم نفسیات نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں جب بچوں کی
نفسیات سے متعلق جدید طریقہ اختیار کیا تو اس کو نشوونما کی نفسیات یعنیDevelopmental
Psychology سے منسوب کیا گیا۔ نشوونما کی یہ نفسیات اس امر کو واضح کرتی کہ
عہدِ طفلی کے مختلف مراحل سے متعلق کسی بچے کے رویے کے صرف مختلف علاقوں یا شعبوں
کا مطالعہ کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے کردارکی خصوصیات
میں رونماہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اسباب کا مطالعہ اس کی فہم میں کوئی اضافہ
نہیں کرتا۔ نفسیات کی اس نئی شاخ کی جدید تحقیقات نے ہمیں بچوںکی مخصوص ضروریات اور
تقاضوںسے متعلق حساس بنایا اور بیدار کیا ورنہ اس سے قبل انھیں ایکIndividual
Human Entity یاایک آزاد فرد نہیں سمجھاجاتا تھا۔ جب
بچوں کے وجود کو تسلیم کیا گیا اس کے بعد ہی سماج میںان کے حقوق سے متعلق بیداری
آئی۔ جدید نفسیات کی تحقیقات ہی کی دین ہے کہ بچوں کو سماج کے ایک فرد کی حیثیت
سے تسلیم کیاجانے لگا۔ اس نئے نفسیاتی محاکمے سے بچوں کے خلاف جرائم اور بچوں میں
جرائم کی نفسیات کے اسباب بھی تلاش کیے گئے۔
نتیجتاًبچوں کی نفسیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت کے منصوبے
وضع کیے گئے اور Child Centred Education یعنی
’طفل مرکوز تعلیم‘ تعلیمی نظام قائم کیا گیا۔ بچوں کے نصابات اوران کی درسی کتب نیز
ان کے اسباق بھی جدید نفسیاتی اصولوں پر تیار کیے گئے۔
Extra-Curricular Activitiesکو بھی آموزش یاتعلیم و
تربیت کی اہم سرگرمی تسلیم کیاگیا۔ شعوری اور لاشعوری طور پر بچوں کی درسی اور
معاون درسی کتابوں میں شامل مواد کی طرز پر یا ان سے تحریک پاکر ان ہی خطوط پر
بچوں کے ادیبوں نے بڑی حد تک ادب تخلیق کرنا شروع کیا۔ اردو کے ضمن میں یہ کہنا بیجا
نہیں ہوگا کہ اردو میں بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت اسکولوں میں مدرس
ومعلم کی ہے جوبچوں کے تعلیمی مسائل سے دلچسی تو رکھتی ہے لیکن آموزش و تربیت کے
جدید تقاضوں کے مطابق بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے یا نصابی کتب تشکیل دینے میں بڑی
حد تک بیدار نظر نہیں آتی۔ا س سلسلے میںپہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ اردو کے
مقابلے میںملک و بیرون ملک کی دیگر زبانوں میں موجود بچوں کا ادب فطرت اور سائنس
سے زیادہ فریب نظر آتا ہے، غالباً اسی بنیاد پر ان ترقی یافتہ زبانوں میں موجود
ادبِ اطفال کی ثروت مندی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ترقی یافتہ ممالک
میں بچوں کے ادب کے رسائل حتی کہ سرکاری اداروں کی کتابوں کونہایت اہتمام کے ساتھ،
افادیت و معنویت اور دیدہ زیبی کا لحاظ رکھتے ہوئے شائع کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میںتیسری
اور آخری بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک یا معاشرے میں نفسیاتی اصولوں کا لحاظ کیے
بغیر بچوں کا ادب تخلیق کرنے کا تصور بھی محال ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی
بڑھتی عمر کے لحاظ سے ان کی دلچسپی کی نوعیتیں بدلتی جاتی ہیں۔بچوں کی دلچسپی کے
مسائل کو ماہرین نفسیات ان کی عمر کے ارتقائی مراحل کے تناظر میں دیکھنے اور
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ بچوں کے اشتیاق، ان کی رغبت، ذہنی سطح
اور ان کے مزاج کا مدار ان کی عمرکے ان ہی ارتقائی مراحل پرمنحصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ بچوں کے سنجیدہ ادیبوں کے پیش نظر بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے ضمن میں جو چیلنجز
درپیش ہوتے ہیںان میں اس ادب کا قاری، سامع یا ناظر کی لچسپی پہلی شرط ہے۔ بچوں کے
ادب پر غوروفکر کرنے والے اکثر اس پہلو پر بہت زور دیتے ہیں لیکن عام طور پر اس کا
نہایت سطحی مفہوم لیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً مواد کو بہت آسان بنادینا، لطیفے یا
چٹکلے اور ہلکی پھلکی باتیں کرنا یا اسے بھوت پریت کی ہیجان انگیزتصویروں، آوازوں
یا مناظر کو استعمال کرکے مصنوعی طریقے سے دلچسپ بنادینا وغیرہ۔ بچوں کی دلچسپی ایک
نفسیاتی مسئلہ ہے جو محرکات (Motivation) کا
باعث بنتا ہے۔ علم نفسیات کے مطابق داخلی تحریک دلچسپی کے بغیر ممکن ہی نہیںہے اور اس کے بغیر کسی بچے میں مطلوبہ
تبدیلی آہی نہیںسکتی۔ کسی بچے کے رویے، کردار اوراس کی شخصیت میں مطلوبہ تبدیلی
داخلی تحریک اور دلچسپی ہی کی مرہونِ منت ہے۔نفسیات کی رو سے دلچسپی کا انحصار،
ارادی توجہ (Voluntary Attention)،
ادراک اور احساس (Feeling)
پر ہے۔اس اعتبار سے دلچسپی کی یہی تین شرطیں
اور تین قسمیں ہیں۔
بہرحال! بچوں کے ادب کوثقیل زبان میں خشک نصیحتوں یا
پندونصائح کا ہدایت نامہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہ طریقہ بھی مفید نہیں ہے کہ
ثقافت واخلاقیات کے نام پر ان کو پیپل کے بے ثمر درخت کی چھاؤں میں بٹھا دیا
جائے۔ بچوں کی دلچسپیاں متنوع ہوتی ہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ تفریحی طور پر پڑھنے
کے لیے بچوں کو جو کچھ فراہم کیا جائے، وہ محض افسانوی یا تخئیلی ادب تک محدود ہو۔
سچے تاریخی واقعات اور سائنسی ایجادات پر مشتمل اسباق، عصری موضوعات، ثقافتی و تہذیبی
اور اخلاقی قصے،سماجی علوم کے مضامین،فطرت و حقیقت پر مبنی شاعری، منطق و ذہانت
والی کہانیاں بھی اس زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں۔بچے ان کتابوں کو زیادہ پسند
کرتے ہیں، جن میں انسانی تجربات اور ارتقا کا عکس ہو۔ ان کتابوں میں جو داخلی کشش
ہوتی ہے، وہی بچوں کی توجہ مبذول کرنے کا سبب بنتی ہے۔
یہ عرض کیا گیا کہ بچوں کی دلچسپی کے مسئلے کو ماہر نفسیات
ان کی عمر کے مدارج کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کیونکہ بچوں کی ذہنی سطح اور ان کے
مذاق و مزاج کا انحصار ان ہی مدارج پر ہوتا ہے۔ ان مدارج کا تعلق انسانی نشوونما کی
نفسیات
(Developmental Psychology) سے
ہے۔ بچوں کے ادب کا ہدف (Target Group) سات
سے چودہ برس کی عمر کے بچے ہیں۔ اس ادب کے ضمن میں بچوں کی جسمانی نشوونما کے
بجائے ذہنی نشوونما (Mental Growth)،
معاشرتی نشوونما (Social Growth) اور
جذباتی نشوونما (Emotional Growth) کے
مختلف مدارج کا لحاظ رکھا جاتا ہے جس سے عمر کے مختلف ادوار میں بچوں کی دلچسپیاں،
رجحانات اور صلاحیتیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
بچوں کے ادب کی مناسبت سے اس Target Group کوتعلیمی
نفسیات کے ماہر تین درجات میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلادرجہ سات آٹھ برس کی عمر کے
بچوں کاہے جو فطری طور پربے انتہامتجسس ہوتے ہیں۔ دوسرا درجہ نو سے گیارہ برس کی
عمرکے بچوں کاہے جو نہایت فعال ہوتے ہیں۔تیسری منزل بارہ سے چودہ برس کے نیم
بالغوں کی ہوتی ہے۔ اس منزل پر آکر ان کے
خیالات اور جذبات میںبڑی حد تک ٹھہراؤ نظر آنے لگتا ہے۔
سرِدست یہ عرض کرنامناسب ہوگاکہ نفسیات ‘ بچوں کے جذبات و احساسات سے بھی بحث کرتی ہے جو
بچوں کے کردار کی تشکیل اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بچوںمیں
محبت، خوف اور غصے کے جذبات بڑوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بے راہ روی کی وجہ سے بچوں میںانانیت،
نفرت، غصہ اور دیگر جذباتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جو، ان کی شخصیت کے ہمہ جہت
فروغ یعنی ان کی شخصیت سازی کو منفی انداز میں متاثر کر سکتی ہیں لیکن مناسب تربیت
اور مثبت و مفید ادب بلکہ نصاب سے ان
اوصاف پر قابو پاکر انھیں تعمیری رخ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ جذباتی ناآسودگی سے بچوں کی شخصیت توازن سے محروم ہوجاتی ہے۔ بچوں میں صفتِ اخذ و قبول،
تعمیر پسندی، اپنے ہم جنسوں سے مطابقت، خودپسندی، رقابت و دوستی، نقل، تقلید،
فرماںبرداری، ان کی گونا گوں دلچسپیاں اور ان کا تخیل و تصور وغیرہ جیسے امور نفسیاتی مطالعات کا حصہ ہیں۔یہ
مطالعے ہمیں بچوںکی ان مخصوص ضرورتوں، تقاضوں، صلاحیتوں اورمسئلوں سے متعارف کراتے
ہیں جن کا براہ راست تعلق بچوں کے ادب کی تخلیق سے ہے۔ بچوں/ بچیوں کی پرورش اور
تربیت کا معاملہ بہت نازک اورسنجیدہ ہوتا ہے۔لہذا ان کی آموزش اور تہذیب کاری کے
مقصدسے تخلیق کیا جانے والا ادب بھی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ان کے لیے ادب کی تخلیق،نرمی
اور شفقت سے برتے جانے والے مفید و کار آمد موضوعات، مانوس الفاظ والی آسان زبان
اور پرکشش اسلوب کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ اس بات کا بھی خیال رکھناچاہیے کہ ان کا
ادب ان کی عمر، پسند اور نفسیات کے مطابق تخلیق کیا گیا ہے یا نہیں؟ اس نقطۂ نظر
سے بچوں کے ادب پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ
ادبِ اطفال کے بیشترذخیرے میں ان کی عمر طبعی، ذہنی عمر، پسند، دلچسپی، افادیت اور
نفسیات کے مطابق موضوعات یا زبان کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ماہرین تعلیمی نفسیات
کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کے ادیب یانصاب
ساز کو فن پارہ تخلیق کرتے یا نصابی کتب تیار کرتے وقت چند اہم امور کو ذہن میں
رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے اس پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ وہ ادب کن کے لیے تخلیق
کر رہا ہے وہ کس عمر کے ہیں؟ ان کی ذہنی صلاحیت کیا ہے؟ ان کی سماجی صورت حال کیسی
ہے؟ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس ادب سے
بچوںکی اخلاقی تربیت،ذہنی نشوونما،اخلاص و محبت،انسانی ہمدردی، ایثار و قربانی
اورانسانیت و قومیت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں کہ نہیں؟ نیز یہ بھی ذہن نشین رکھنا
چاہیے کہ کیا وہ ادب بچوں کی زندگی میں درپیش مسائل و مشکلات کا سامنا کرنے کا
حوصلہ عطا کرے گاکہ نہیں؟علاوہ ازیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ادب،
ادبیت کے علاوہ تہذیبی اورسائنسی مزاج
اورتاریخی وسماجی حقیقت پر مبنی ہے کہ نہیں
؟ کیوں کہ یہی بچے مستقبل میں سماج و قوم کا معمار اور افزائش نسل کاذریعہ بنتے ہیں۔اس
لیے بچوں کی نفسیات،ان کے مسائل اوران کے حقوق کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی جانی
چاہیے تاکہ ان کے دل و دماغ میں حسد، نفرت، غصہ، جھوٹ، چوری، ظلم، ضد، سرکشی،
بغاوت، بے راہ روی، تعصب، خوف اورتشددمیں سے کوئی بھی تخریبی جذبہ پیدا ہونے کے
بجائے مثبت، مفید، مہذب اور تعمیری اور انسانیت پر مبنی جذبات پیدا ہوں کیوں کہ
تعلیم و تربیت کاحتمی مقصد یا Ultimate Goal طالب
علم یا آموزگار کو ایک دانشمند،ایماندار،قوم پرست، غیرت مند،خوش اخلاق، مستقبل
پسند اور مہذب شہری بنانا ہے۔
Afreen Raza
Research Scholar
Centre for Advanced Study
Department of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh- 202002 (UP)
afreenraza205@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں