ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
میراوطن عمری کلاں، ضلع مراد آباد (یوپی)ایک قدیم تاریخی
بستی ہے۔ آزاد عمروی، خاموش عمروی، صہیب فاروقی، کنور بے چین، ظفر مراد آبادی،
مولانا فخر الحسن اور پروفیسر خورشید
الاسلام بھی اسی خاک سے اٹھے اور چھا گئے۔ دو ہستیاں اور ہیں جن پر اس بستی کو فخر
ہے۔ سابق پرنسپل، پبلک انٹر کالج، نعمان احمد فاروقی اور پبلک انٹر کالج کے بنیاد
گزار جناب سعید احمد عرف منے میاں جو بعد میں عاصی سعید کے قلمی نام سے جانے گئے۔
آخرالذکر دونوں ہستیوں نے عمری کو علم جیسی بیش بہا دولت سے مالا مال کیا اور
اپنے فطری وجدان کو یکسر فراموش کردیا۔ نعمان احمد صاحب میں اعلیٰ پایے کی نثر
لکھنے کا جوہر تھاجو کالج کے انتظامی امور کی نذر ہوا۔ عاصی سعید کو عمر کے آخری
پڑائو پر پہنچ کر اپنے بے پناہ تخلیقی رجحان کا علم ہوا۔ جس کی تفصیل آگے آیا
چاہتی ہے۔
عمری کے رئیس اعظم اور حکیم اجمل خاں کے شاگرد عزیز حکیم
نذیر کی دو اولادیں تھیں۔ بیٹی جمال آرا جن کا عقد احمد جمیل فاروقی سے ہواجو دہلی
کی معروف درسگاہ اینگلو عربک اسکول میں استاد تھے۔ ان کے فرزند اسعد جمیل فاروقی IPS افسر ہوئے۔ سعید احمد عرف منے میاں حکیم صاحب کے فرزند تھے۔ ان کی
پیدائش 1920میں ہوئی 1944میں ایم اے کے بعد LLBکرلیا
تو انھیں بہت بڑی ملازمتوں کے دعوت نامے آنے لگے۔ لیکن ملازموں کی فوج چھوڑ کر
انھیں کون ملازمت کی اجازت دیتا۔ لہٰذا انھیں زمین داری سنبھالنی پڑی۔ اعلیٰ تعلیم
اور بہترین تربیت کا اثر تھا کہ انھوں نے کھیتی میں ٹکنالوجی کا اس وقت استعمال
شروع کیا جب یہ تصور ہی عنقا تھا۔ جرمن ٹریکٹرMassey
Ferguson، تھریشر، آرامشین، چکی، تیل نکالنے کی مشین،
کریشر وغیرہ کامیابی سے چلا کر عمری والوں کو اختراع پسندی کا درس دیا۔
اپنے زمانے کے بہت پڑھے لکھے دانشور ہونے کی وجہ سے
مْنے میاں کے یہاںتعقل پسندی کے اجزا شروع سے ہی موجود تھے۔ بس فرصت کی کمی تھی۔
لہٰذاعمر کے آخری دنوں میں انھیں انکشاف ہوا کہ اندرون میں ادب جیسا کچھ کلبلا
رہا ہے۔ مزاحیہ مضامین تحریر کیے جن میں طنز کا پہلو خفیف اور مزاح کا تڑکا تیز تر
تھا۔ آل احمد سرور، خورشید الاسلام رالف رسل سے تعلقات تھے۔خورشید الاسلام اور
رالف رسل لندن سے ان کے یہاں آکر مہمان بھی ہوئے ہیں۔ ایسے علمی پس منظر کا تقاضا تھا کہ انھوں نے
مضامین رسائل کو ارسال کرنا شروع کردیے۔ لیکن نیا نام ہونے کی وجہ سے مدیران کرام
نے انھیں توجہ سے نہیں نوازا۔
مجھ سے اکثر جھنجھلا کر پوچھتے تھے ’’یہ مدیر لوگ یہ کیوں
نہیں بتاتے کہ فلاں مضمون میں یہ خرابی ہے‘‘ میں انھیں سمجھاتا کہ ہر رسالے کا
مزاج اور معیار دوسروں سے جدا ہوتا ہے۔ آپ کی تحریر کس رسالے کو بھیجی جائے یہ
مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’ادیب کے
بڑھاپے کے ساتھ اس کا ادب جوان ہوتا ہے‘‘ عمری جیسی دہقانی بستی میں وہ قدردانی کو
ترستے ہی رہ گئے۔ ہر تخلیق کار کو قاری یا سامع کی تلاش تو رہتی ہی ہے۔ میرا ایک
شعر ؎
نئی غزل اک بیاض میں پھڑپھڑا رہی ہے
سماعتوں کے فراق میں کلبلا رہی ہے
کئی بار مضحکہ خیز صورت حال بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ عاصی
سعید اب ان کا قلمی نام تھا لیکن کوئی بھی ان کی شخصیت کے ان نئے اوتار کو تسلیم
کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پھر ایک دن سنا گیا کہ وزیر آغا نے اوراق کے لیے عاصی سعید
سے ان کے مضامین منگائے ہیں۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور انھیں بے توجہی کی
شکایت کا موقع بھی نہیں ملا۔ انھوں نے مضامین کے انبار لگا دیے رسائل ان سے مضامین
طلب کرتے۔ تعریف و توصیف کا سلسلہ چل نکلا۔ آل احمد سرور۔ اسلوب انصاری، فکر تو
نسوی، یوسف ناظم، شفیقہ فرحت، نریندر لوتھر، دلیپ بادل، احمد جمال پاشا، دلیپ سنگھ
اورسعادت علی صدیقی وغیرہ کے حوصلہ افزا خطوط سے تحریک پاکر عاصی ان تحریروں کو
کتابی شکل دینا چاہتے تھے، لیکن کاتبوں کی ناز برداریوں کے لیے تیار نہیں تھے۔ خود
خوش خط لکھتے تھے لہٰذا اپنے ہاتھوں کتابت کرکے مضامین کے تین مجموعے چھپوائے (1)
چٹخارے (2) آگ اور پھول (3) ہنسیے۔
یہ کتابیں مزاح اور طنز کے ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔
لیکن گلیمر کے اس دور میں ظاہری حسن سے محروم ہیں۔ آئیے چند اکابرکی آراپر نظر
ڈالیں:
’’آپ کے مزاح میں ہمدردی کا عنصر بدرجہ اتم
موجود ہے... مزاح نگاری میں آپ پطرس کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘‘ (وزیر آغا)
’’عاصی تمثیل، فنٹسی اور مزاحیہ صورت حال سے بہت اچھی ظرافت پیدا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ
ان کا آرٹ بیانیہ کا ہے۔‘‘ (احمد جمال پاشا)
خاکہ نگاری میں عاصی بے مثال ہیں۔ گئے وقتوں کے قصباتی
بوڑھوں میں ایسے کردار بھی ہوتے تھے جنھیں بچے چھیڑتے اور گالیاں کھاکر بے مزہ نہیں
ہوتے تھے۔ ایسے بوڑھے بھی مصنوعی ناراضگی ہی ظاہر کرتے تھے۔ بہ باطن تو وہ خود اس
چھیڑخانی کے منتظر رہتے تھے۔ استاد سیلوایسا ہی دلچسپ کردار ہے۔ زبان و بیان کی
چاشنی، چٹ پٹے مزاح اور عبرتناک سچویشن نے اس خاکے کو یادگار بنا دیا ہے۔
’’لمبے ہچکڑی سے بڈھے، گھٹی ہوئی داڑھی، موٹی
موٹی مونچھیں، چلتے تو کمر جھکنے کے بجائے سینہ آگے کو نکل آتا، ہاتھ پیچھے کو
کھنچ جاتے۔ یعنی خم سیدھے کے بجائے الٹا پڑگیا تھا... کھاٹ پر پڑے رہتے تھے۔
آنکھوں کا دم کھوپڑی میں آگیا تھا۔ آنے والوں کے قدموں کی چاپ سن کر ہی کہہ دیتے
تھے کہ فلاں آرہا ہے۔‘‘
’’ایسی ہستیاں چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوں گی۔
علوم ارضی وسماوی میں کون ایسا تھا جو استاد کو نہ آتا ہو۔ علم و تجربے میں بے
مثال تھے۔ الہیات اور نجوم میں دخل تھا۔ اولیائے کرام، پیروں، شہیدوں اور غازیوں
کو استاد نے زندگی میں تو نہیں ان کے مرنے کے بعد کئی بار دیکھا تھا۔ جنات اور
ہمزاد بھی اپنے تابع کر رکھے تھے۔‘‘
یہ پورا مضمون غروب ہوتے ہوئے تمدن کے تحت گائوں اور
قصبوں کو نگلتے ہوئے شہری ماحول کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ مرغ شریف بھی منفرد مضمون
ہے۔ جو گہرے مشاہدے کا غماز ہے۔ ایک معمولی مرغے کے ضمن میں کیاکیا پھلجھڑیاں
پھوٹتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’صورت میں عزرائیل، سیرت میںعزازیل، حوصلے میں
اسرافیل... آپ دو دو گول اور تیز چمکیلی
آنکھوں کے مالک ہیں۔ جن کے قطر بہت چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن جن کے دائروں میں جہاں بینی
اور جہاں فہمی کی بڑی وسعتیں پنہاں تھیں۔ آنکھوں کی سرخی سے معلوم ہوتا کہ ابھی
ابھی شراب خانے سے تشریف لا رہے ہیں۔ یا قتل کیے چلے آرہے ہیں۔ سرخ کیسر کے
کنگورے بہت سی برساتیں کھانے بلکہ نگل جانے کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے ہیں۔ رنگ کے
سلسلے میں کوئی ایک حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ پنچ رنگ کہا جائے تو آپ کے رنگ اس سے
بھی سوا ہیں۔ غرض آپ رنگوں کے عجب معجون ہیں۔ گھر کے بزرگ آپ کی عمر دوسال بتاتے
ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اذانیں دینے سے
شبہ ہوتا ہے کہ مسلمان ہیں۔ صبح کو اکثر سردیوں میں ضروری حوائج سے فارغ ہوکر سورج
کے سامنے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ مجوسی ہیں۔ کبھی زمین پرمنقار
کو شمالاً، جنوباً اور غروباًاس طرح گھسیٹا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ صلیب
بنارہے ہیں۔ الغرض آپ کی مرغیت (بروزن شخصیت) ہمہ گیر واقع ہوئی ہے۔ آپ بیک وقت
شاعر، صوفی، فلسفی، پیغمبر، پہلوان وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہیںآپ کا کردار جلالی اور
جمالی دونوں اوصاف کا حامل ہے۔‘‘
ایک مضمون ’بڑے بابو‘ بھی شگفتگی سے لبریز ہے۔ چند
اقتباسات درج ہیں:
’’بڑے بابوجی کو فنافی الفائل ہوکر اپنی شخصیت
اور انسانیت دونوںسے ہاتھ دھونا پڑتا ہے... انھوں نے فائلوں ہی فائلو ں میں اپنی
دنیا بگاڑلی اور غالباً دین بھی۔ دین کے رہے نہ دنیا کے۔ گناہ کرنے کی عمر آئی تھی
کہ نوکری مل گئی نیکیاں کرنے کی نوکری میں فرصت نہیں ملتی۔ انھیں نہ جنت ملے گی نہ
دوزخ... دنیا میں یہ سخت ٹریننگ انھیں عقبیٰ سیکریٹریٹ کے لیے دی جارہی ہے وہی ان
کا مقام ہوگا اور دوزخیوں و جنتیوںکے فائل ہمیشہ پیٹتے رہنا ان کا کام ہوگا۔‘‘
’’ایک اور دردسر‘‘ میں ازدواجی زندگی کے روپ
میں مستقل رہنے والے دردسر کا بیان دیکھیں:
’’ملا نفیسی نے اپنی کتاب ’امراض جسم‘میں
پہلے سر کے امراض کو لیا ہے۔ سر میں بھی پہلے درد سر کو۔ اس کی بیس بائیس اقسام
لکھی ہیں... لیکن بندہ خدا نے وہ دردسر نہیں لکھا جو دنیامیں بہت سے معقول شوہروں
کو اپنی نامعقول بیویوں سے ہوتا ہے۔
عاصی سعید بڑے زمین دار تھے۔ کھیتی کے ماڈرن طریقوں کو
برتنے والے اس کاشت کار نے اپنے ذاتی تجربات کی تلخیاں طنز و مزاح کی چاشنی میں
ڈبو کر ’پیشوں میں پیشہ کھیتی‘ اور ’کھیتی بھی میری کھیتی‘ جیسے زمین سے جڑے مضامین
سے اردو طنز و مزاح کو مالا مال کیا ہے۔
عاصی سعید نے اسی زبان کو ادب میں بھی برتا جسے وہ
بولتے اور سنتے آئے ہیں۔ ان کے کردار بھی مقامی ہیں اور واقعات بھی روزمرہ سے لیے
گئے ہیں۔ کہیں کچھ بناوٹی نہیں کچھ مستعار نہیں۔ ان کے تجربات کی کائنات کا اور
چھور نہیں۔ ان کی علمیت مسلّم ہے۔ دردمندی کے عنصر نے عاصی سعید کے یہاں تاثیر اور
انبساط کا بہترین امتزاج پیدا کردیا ہے۔ وہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹشنر(R.
M. P.) بھی تھے۔ لہٰذا اس میدان کے جن تجربوں سے
گزرے ان کا نمائندہ مضمون ’ڈاکٹر پلس ادیب‘ ہے۔ اس بے مثال مضمون سے قبل میرے ساتھ
گزرا ہوا ایک واقعہ ضرور دلچسپی کا باعث ہوگا۔ میرا بیٹا شاید ایک سال کا رہا
ہوگا۔ اس کے کان میں شدید درداٹھا۔ تڑپ کر رو رہا تھا۔ میں اسے ہومیوپیتھک دوا
دلانے کے لیے ان کے پاس لے گیا۔ ان کی خوشی قابل دید تھی۔ فوراً ایک مضمون سنانا
شروع کردیا۔ بچہ بے کل تھا۔ اسے چپ کراتے جاتے۔ وہ جتنی زور سے روتا اس سے زیادہ
زور سے اپنا مضمون سناتے چلے گئے۔ میں کیا خاک سن پاتا۔ لیکن انھیں تسلی تھی کہ
کوئی سامع تو ملا۔ ہاں تو ’ڈاکٹر پلس ادیب‘ تو وہ خود بھی تھے۔ ان کے مشاہدات
ملاحظہ ہوں:
’’ادیب کے لیے ڈاکٹری بھی کرنا ہے ذرا مشکل
ناممکن تو نہیں ہے۔ البتہ کوئی مضمون دماغ میں آجائے اور مریض بھی آجائے۔ دونوں
بیک وقت تو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ باپ رے باپ ایک روز کا واقعہ ہے۔ یہی مضمون دماغ میں
آرہا تھا آمد ہی آمد ہو رہی تھی۔ آمد علیہ السلام فرشتے آرہے تھے اور آوردعلیہ
السلام فرشتوں کو تکلیف دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی... بعض اوقات کوئی مریض سردرد
کا حال بیان کرتا ہے ڈاکٹر پلس ادیب ہوں ہوں ہوں کیے جاتے ہیں۔ دھیان کہیں اور ہی
ہوتا ہے۔ لہٰذا دوا تجویز کرتے وقت سردرد کی بجائے گھٹنے درد کی دوا دے دیتے ہیں۔‘‘
اسی قبیل کا مضمون ’زکام‘ بھی ہے۔ جسے اوراق کے لیے
محفوظ کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا:
’’مضمون زکام مجھے اچھا لگا۔ آپ کے اسلوب میں
کرارا پن اور خودروانی ہے۔ امید ہے آپ آئندہ بھی اوراق کے لیے اسی پایے کے مضامین
بھیجتے رہیں گے۔‘‘
عاصی سعید کو زندگی نے بہت مصروف رکھا۔ کاشت کاری، کالج
کی منیجری مقامی سیاست کے بکھیڑے۔ معالجی وغیرہ نے انھیں اس وقت یہ یاد کرنے کی
مہلت دی کہ ان میں بے پناہ تخلیقی لاوا ابل رہا تھا جب ان کے پاس وقت بہت کم رہ گیا
تھا۔ لیکن اس کی تلافی انھوں نے یوں کی کہ بے دریغ لکھا۔ خوب لکھا۔ خوب پذیرائی
حاصل کی۔ پبلشر اور کاتبوں کو نظر انداز کرکے جیسے تیسے تین کتابیں ہمیں تحفتاً دے
گئے۔ جو حظ و انبساط اور خوش ذوقی کا سامان بہم پہنچاتی رہیں گی۔
عاصی سعیدکی تحریریں آپ کو گدگدائیں گی۔ آپ کے لبوں
کو تبسم عنقا سے نوازیں گی کہ عاصی سعید جینوئن مزاح نگار ہیں دنیا جہاں کی تلخیاں
پی کر مسکراہٹیں بانٹنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
Rashid Jamal Farooqui
C-6, Thokar No.: 8
Shaheen Bagh, Jamia Nagar
New Delhi- 110025
Cell.: 9456753096
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں