ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024
شہر بنارس کا شمار دنیا کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ دریائے
گنگا کے کنارے آباد یہ شہر زمانہ قدیم سے علم و ادب، تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا
ہے۔یہاں دنیا کے ہر گوشے سے لوگ سیرو سیاحت کے لیے آتے رہے ہیں۔ ہندستانی مشترکہ
تہذیب کو فروغ دینے میں اس شہر کا کافی نمایاں کر دار رہا ہے شاید اسی لیے غالب نے
اس مقدس شہر کو کعبہ ہندستان کہاہے۔ کبیر، ریداس،جیسے صوفی سنتوں نے جہاں انسان
دوستی کا پیغام دیا وہیں بھارتیندو ہریش چندر، جے شنکر پرساد، ہزاری پرساد دویدی،
دیوکی نندن کھتری، شیخ علی حزیں، منشی پریم چند جیسے شعرا و ادبا نے پوری دنیا کو
قومی اتحاد، حب الوطنی، امن و آشتی، خلوص و محبت کا پیغام دیا۔ اسی شہر سے چند
فاصلے پر قصبہ رام نگر آباد ہے۔اسی قصبے سے منسلک ادبی دنیا کا ایک بڑا نام آسی
رام نگری کا ہے۔ بیسویں صدی میں جن شاعروں و ادیبوں کو شہرت حاصل ہوئی ان میں آسی
رام نگری کا نام قابلِ ذِکر ہے۔ شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری میں بھی وہ خاص امتیاز
رکھتے تھے۔ ’ایک ٹکڑا آسمان‘ ان کے منتخب کلام کا مجموعہ ہے اور ’حرف حرف خواب‘
ان کی شعری کلیات۔ افسانوں کے دو مجموعے ’دیوار پر لکھی ہوئی عبارت‘ اور ’دل کے پیام‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کا
شمار قادر الکلام شاعروں میں ہوتا ہے۔
اردو کی مختلف اصناف پر انھیں عبور حاصل تھا۔ انھوں نے نظم، غزل، قطعات،
دوہے، نعت اور گیت میں بھی طبع آزمائی کی۔ نثر پارے میں افسانہ نگاری ان کا محبوب
مشغلہ تھا۔ان کی تخلیقات اردو اور ہندی کی مشترکہ روایت کو مستحکم اور خوبصورت
بنانے میں بے حد کارگر ہیں۔ اگرچہ بیسویں صدی کے نمائندہ رسالوں میں ان کی تخلیقات
پابندی سے شائع ہوتی رہیں مگر ان کا پہلا شعری مجموعہ1984 میں ’جاڑے کے دھوپ‘ کے
نام سے شائع ہوا۔’حرف حرف خواب‘ 1992 میں
ان کے انتقال کے بعد منظر عام پر آیا۔
آسی رام نگری بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔وہ اپنا ایک
مخصوص شاعرانہ لب و لہجہ رکھتے ہیں۔ جدید شاعر ناصر کاظمی کی طرح انھوں نے اپنی
غزلوں کے لیے چھوٹی چھوٹی بحروں کا انتخاب کیا۔ ان کی زبان میں صفائی اور پختگی
ہے۔ ان کے کلام میں فنی حسن بھی ہے اور
اظہارِ بیان میں ندرت بھی۔ ان کی غزلوں میں تغزل کا رنگ غالب ہے۔ ان کی غزلوں کے
مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں ہندی اور اردو دونوں زبانوں پر مکمل قدرت حاصل
تھی اور الفاظ کو برتنے کا انھیں خوب ہنر تھا۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے ان کی
شعری کلیات ’حرف حرف خواب‘ کے دیباچے میں ان کے شعری کمالات کا اعتراف کرتے ہوئے
درست لکھا ہے کہ:
’’آسی رام نگری کے کلام میں لب و لہجے کو ایک
خاص اہمیت حاصل ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں انھوں نے اپنے زاویہ نگاہ کا جس طرح
اظہارخیال کیا ہے اس کی وجہ سے ندرت اداپیدا ہو گئی ہے۔ زبان میں صفائی اور بیان میں
پختگی ہے۔ ان کے یہاں فن کا حسن بھی ہے اور اظہارِ بیان پر قدرت بھی۔‘‘(حرف حرف
خواب،ص26)
آسی رام نگری کی شاعری میں کلاسکیت کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ مروجہ شعری روایت کی پاسداری ان
کے یہاں خوب ملتی ہے۔ وہ نئے خیالات کو بھی
کلاسیکی انداز میں پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ عصری آگہی سے انھوں نے اپنے ذہن و
فکر کو ہم آہنگ کیا لیکن طرزِ اظہار کے لیے
کلاسیکی انداز کو ہی فوقیت دی۔ دراصل ہر شاعر اپنے مذاق کے مطابق شہ پارہ تخلیق
کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا مخصوص طرز باقی رہ سکے۔ ان کی شاعری میں ذہنی و فکری
توانائی تخیل کی گہرائی و گیرائی حد درجہ موجود ہے جو ان کی شاعرانہ عظمت کی دلیل
ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
؎
ہیں اہل چمن حیراں یہ کیسی بہار آئی
ہیں پھول کھلے لیکن ہے رنگ نہ رعنائی
فرسودہ لالہ و گل ہے روش روش ہے اداس
چمن میں ایسے میں جشنِ بہار کیا ہوگا
کہہ دے گھٹاؤں سے کوئی یہ اور کہیں جا کر برسے
مے خانہ سنسان پڑا ہے سوکھے سب پیمانے ہیں
آسی رام نگری کا زمانہ ملک کی تحریکِ آزادی اور ترقی
پسند تحریک کا دور تھا۔ اس وقت کے سیاسی رہنماؤں، مذہبی رہنماؤں، قلم کار یا طالب
علم سبھی ہندوستانی تحریک آزادی سے وابستہ تھے۔ حب الوطنی کے جذبے سے ہر شخص سرشار تھا اور اپنے اپنے طور پر
آزادی کی جدو جہد میں حصہ لے رہا تھا۔ ایسے عالم میں آسی رام نگری خود کو علیحدہ
کیسے رکھ پاتے۔ انھوں نے بھی تحریک آزادی کی لڑائی لڑ رہے قلم کاروں کی طرح اپنی
شاعری میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا۔ آزادی کی تئیں لوگوں کے احساسات بیدار
کرنے کا کام کیا۔ آسی رام نگری ایک سنجیدہ مزاج انسان تھے۔ وہ ہنگامی حالات میں
بھی صبر و تحمل سے کام لینا نہیں بھولتے۔ دراصل ان کا مذاق کلاسکی روایت میں رچا
بسا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاصر ترقی پسند شاعروں کی طرح شاعری میں کسی
طرح کی ہنگامی کیفیت پیدا نہیں ہونے دی۔ ان کے لہجے میں نہ گھن گرج اور نہ ہی کسی
طرح کی چیخ و پکار کا احساس ہوتا ہے بلکہ انھوں نے ایک باشعور انسان کی طرح اور
سنجیدہ شاعر کی حیثیت سے اپنے ماحول کا مشاہدہ کیا اور انہی احساسات کو کلاسکی پیرایے
میں ڈھال کر شاعری کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ دراصل وہ اس رمز سے واقف
تھے کہ اچھی شاعری کے لیے اچھا انسان کا ہونا ضروری ہے۔ حالی نے اپنے ’مقدمہ شعر و
شاعری‘ میں سادگی پر زور دیا ہے چونکہ سادگی سے جو بات بیان کی جاتی ہے وہ تادیر
اثر انداز ہوتی ہے۔ آسی را م نگری، حالی کے اس خیال سے نہ صرف متفق تھے بلکہ اپنی
پوری شاعری میں انھوں نے سادگی سے کام لیا۔ آزادی کے جذبے کو جس شاعرانہ حسن کے
ساتھ انھوں نے پیش کیا ہے وہ قابل تحسین ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
کیا سوئے چمن آئے گی پھر بادِ بہاری
ہر مرغِ چمن آج یوں نغمہ سرا ہے
جس سے چھائی ہوئی حالات کی ظلمت چھٹ جائے
تم کہ خورشید ہو، خود سے وہ اجالا مانگو
ہو جس کے دل میں شوق جاں سپاری
اسے کیا خوف ہو، دار و رسن سے
آسی
شہرت کے کبھی خواہاں نہیں رہے۔ انھوں نے شاعری تو صرف تسکینِ نفس کے لیے کی۔ لہذا
وہ وقتی شاعرانہ مزاج سے علیحدہ ہو کر کلاسکی طرز کو ہی اپنائے رکھا بالخصوص میر
کے مدّھم آہنگ سے استفادہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں احساس کی شدت نہیں
پائی جاتی بلکہ ان میں سادگی، صفائی،خلوص کی حدت اور صداقت کی گرمی ہے۔ چند اشعار
ملاحظہ فرمائیں ؎
آسی مجھے حاجت نہیں اب سیر چمن کی
میرا دل پر داغ ہی گلزار نما ہے
روشن ہے آنسوؤں کے دیے سے تمام رات
قسمت میں اپنی شکر ہے تیرہ شبی نہیں
صد رشک انجمن ہے یہ ویراں سرائے دل
جب سے کسی نے درد کی دنیا بسا دیا
سانحۂ تقسیم کے بعد ملک میں خاصی تبدیلی رونما ہوئی۔
آزادی کی لڑائی جس جذبے اور تصور کے ساتھ لڑی گئی آزادی کے ساتھ وہ سارے خواب
ٹوٹ گئے۔ لوگوں کے اندر غم اور مایوسی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی تعصب کی
بنا پر لوگوں کے درمیان نفرت کی دیواریں بھی کھڑی ہوئیں۔ ایسے عالم میں شاعر و ادیب
سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ قلم کار اپنے وقت کا مؤرخ ہوتا ہے اسی لیے شعر و ادب کو
زمانے کا آئینہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد شاعری کے مزاج میں تبدیلی
آئی جس نہج پر ترقی پسند شاعری ہو رہی تھی اب اس کی شدت دیکھی جانے لگی کیونکہ
آزادی کے بعد ملک اور زندگی کو نئے نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑا لہٰذا شاعری میں
بھی ان کا در آنا ناگزیر تھا۔ آسی رام نگری نے ملک کے جس ماحول کو دیکھا تھا
آزادی کے بعد وہ بالکل ناپید ہو گیا۔ آزادی کے بعد بدلتے ہوئے حالات و واقعات کا
انھوں نے نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اپنے مخصوص انداز میں اس کا اظہاربھی کیا ؎
اجنبی ہوں میں اب وہاں کے لیے
زندگی جس دیار میں گزری
بگڑ گئی ہے کچھ ایسی ہوا زمانے کی
نہ کی سموم نے جو بات، وہ صبا نے کی
موج و طوفاں کو رو رہے ہیں لوگ
خود سفینہ ڈبو رہے ہیں لوگ
آنے کو بہار آئی چمن میں مگر اس طرح
ہر پھول خزاں دیدہ ہے، افسردہ کلی ہے
آسی رام نگری نرم اور شائستہ لب و لہجے کے شاعر ہیں۔
ان کی شاعری میں عصری معنویت بھی ہے اور تازگی بھی۔ حالی نے ایک اچھے شعر کی خوبی
بتائی ہے کہ سادگی کے ساتھ اس میں عصری معنویت ہو۔ آسی کے کلام میں یہ وصف حد
درجہ موجود ہے۔ ان کی شاعرانہ خصوصیات کو نمایاں کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل اختر محبی
نے جس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے آسی کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ موصوف
کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’آسی رام نگری کے کلام کا نمایاں وصف سادگی
اور صفائی ہے۔ یہ سادگی اور صفائی ان کی شاعری میں دو سطحوں پر کام کرتی ہے۔ اول
تخلیقی تجربات کی سطح پر دوم زبان و بیان کی سطح پر۔تخلیقی تجربات سادہ، صاف اور
پاکیزہ ہوں تو بیان میں از خود سادگی،صفائی اور پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے۔ آسی رام
نگری کے کلام میں ابہام اور سریت کی دھند نہیں پائی جاتی۔ ان کے اشعار چیستاں یا
معمہ نہیں ہوتے نہ ہی ترسیل و ابلاغ کے المیے سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ سریع الفہم
ہوتے ہیں۔ ہر نقش مصفا و مجلّیٰ ہوتا ہے۔ سادگی اور صفائی کلام کا عیب نہیں، فن کا
حسن ہے۔شاعر کی قادر الکلامی کی دلیل ہے لیکن سادگی اور صفائی کے ساتھ کلام میں
ندرت،تازگی اور معنویت کا ہونا ضروری ہے۔ حضرتِ آسی کا کلام اس وصف سے عا ری نہیں۔‘‘ ( ایک ٹکڑا آسمان کا،ص25)
آسی رام نگری کی غزلوں میں جدید رجحانات بھی کارفرما ہیں۔
دراصل ان کی شاعری انسانی فکر کے وسیع تناظر میں اپنا سفر کرتی ہے۔ لہٰذا زندگی
اور سماج کے رشتے ان کی شاعری میں تمام تر تضادات کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ان کے یہاں
زندگی کسی ایک پہلو میں نظر نہیں آتی بلکہ اس میں ہم آہنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک
طرف زندگی کی اذیت دکھ اور محرومیاں ہیں دوسری طرف ٹوٹتے بکھرتے رشتے ایسی صورت میں
انسان کی زندگی تنہائی کی اذیت اور غم سے سرشار ہے مگر اب اپنی دنیا آپ پیدا کرنے
کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آسی رام نگری کے یہ اشعار عصری حیثیت سے پر ہیں۔ چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
راستے کی سختی سے حوصلہ نہ جو ہاریں
منزلیں بلاتی ہیں خود انھیں اشاروں سے
خوابوں کو بنا لیتے ہیں جو لوگ حقیقت
خوابوں کی انھیں لوگوں کو تعبیر ملی ہے
بن جائیں کیوں نہ خود ہی نمودِ سحر کی ضو
آسی ضیا طلب نہ کریں تیرگی سے ہم
آسی رام نگری کے تجربات بے حد وسیع ہیں۔ لہذا اپنے
تجربات و مشاہدات کے اظہار کے لیے متعدد اصناف کا سہارا لیا۔ نظم اور گیت کے علاوہ
انھوں نے کامیاب قطعات بھی کہے ہیں۔ قطعات میں ان کے تجربات و مشاہدات ایک الگ زاویہ
اختیار کرتے ہیں۔ ان قطعات میں قاری اسی گداز سے ہم آہنگ ہوتا ہے جس کا احساس ان
کی غزلوں میں پایا جاتا ہے۔یہاں فرق صرف پیش کش یا ترتیب و تنظیم میں نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ قطعات ملاحظہ فرمائیں
؎
رفعتوں پر وہی پہنچتے ہیں
رکھتے ہیں اپنے حوصلے جو بلند
وہ بھی انسان ہیں جو دھرتی سے
چاند تاروں پہ ڈالتے ہیں کمند
ارتقا کی ہزار شمعیں جلیں
ہر طرف جگمگائے لاکھ چراغ
لیکن انساں بھٹک رہا ہے ابھی
پا سکا آج تک نہ اپنا سراغ
دُرّ مقصود کے جو ہیں جویا
موج و گرداب سے نہیں ڈرتے
کیا بھر یں گے وہ اپنے دامن کو
جو کھڑے دیکھتے ہیں ساحل سے
آسی
رام نگری اردو کے ایک بہترین شاعر ہیں۔ نظام زندگی کے متعلق ان کا اپنا ایک نقطہ
نظر ہے اس پر کسی تحریک کی چھاپ نہیں ہے۔ جو کچھ ہے ان کا اپنا اور اصل ہے۔ بقول
پروفیسر جگن ناتھ آزاد ’’ان کی شاعری قاری کے وجدان کو بھی متاثر کرتی ہے اور ذہن
کو بھی۔‘‘
Dr Rishi Kumar Sharma
Associate Professor
Centre for Indian Language, JNU
New Delhi- 110067
Mob.: 8250714748
Email.: rishi.sharma107@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں