9/9/24

تعلیم اور خاندانی اثرات، موخوذ از تعلیم کی نفسیاتی اساس، مصنف: مورس۔ ای۔ ایسن، مترجم: عبداللہ ولی بخش قاری

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

نموپذیر بچے پر استاد کا اثر بہت سی ان محرک قوتوں کے چوکھٹے میں صرف ایک عامل ہے جو کہ بچے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ صرف استاد ہی وہ تنہا فرد نہیں ہے جو بچے کو تعلیم دیتا ہے۔ دراصل بچے کے تعلیمی ماحول میں مدرسہ صرف معتدل اثرات فراہم کرسکتا ہے جب کہ ایک تعلیمی محرک قوت کے طور پر گھر کی اہمیت کا اس سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا استاد اس اہم امر واقعہ کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ بچے استعارتاً اپنے خاندانوں کو مدرسے میں لے کر آتے ہیں۔ بچے کی زندگی کے پہلے چار یا پانچ سال میں خاندان نے اس کی شخصیت کی بہت سے معین طریقوں سے صورت گری کردی ہے۔ ان ابتدائی تجربات کے نتیجے میں بچہ محبت قبول کرنے اور دینے، دنیا کا ادراک کرنے اور اس سے متاثر ہونے، صحیح اور غلط کا تعین کرنے اور ترسیل اور انسانی تعامل کے عمل میں شرکت کرنے کی اپنی وضعیں سیکھ جاتا ہے۔ یہ آموزشیں اور جس ڈھنگ سے انھیں پیش کیا گیا ہے اس قسم کی شخصیت کی بنیاد ڈال دیں گی جس کا بچہ حاصل ہوگا۔ انھوں نے اسے اپنے احساسِ ذات کے مبادیات فراہم کردیے ہوں گے جن سے یہ بات متعین ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو موزوں یا ناموزوں سمجھتا ہے، پر اعتماد یا بے اعتماد۔  اس کے تجسس کی دلچسپی اور آگاہی پہلے ہی بعض سمتیں اختیار کرچکی ہوگی۔ استاد کی فہم کہ خاندان کیوں کر بچے پر اثرانداز ہوتا ہے، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ نظری سطح پر استاد و شاگرد تامل کو سمجھنے کے لیے وہ ایک چوکھٹے کا کام دے سکتی ہے (باب 15 دیکھیے) جو کہ بہت سے طریقوں میں والدین اور بچہ تعامل کے مماثل ہے۔ اس اعتبار سے کہ یہ دونوں ایک ناپختہ فرد کے ساتھ ایک سماجیانے والے جواں مرد سے تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں والدین کے بچے پر اثرانداز ہونے کی فہم ایک اور زیادہ براہِ راست مقصد پورا کرسکتی ہے۔ یہ صورت استاد کو مواقع فراہم کرتی ہے کہ وہ بچے کے لیے اس طور منصوبہ بندی کرے کہ گھر کے مثبت اثرات تقویت پائیں اور ان پر تعمیر کی جائے اور منفی اثرات کا تدارک کردیا جائے۔ اس صورت میں والدین کے ساتھ زیادہ موثر ترسیل بھی ممکن ہوتی ہے اور مدرسے کے ساتھ تعاون کرنے کی والدین کی قابلیت کے حدود کو محسوس کرنے میں استاد کی مدد ممکن ہوتی ہے۔

اس باب میں والدین اور بچہ تعلق کی فہم کے لیے ایک نظری چوکھٹا تیار کیا گیا ہے۔ والدین اور بچہ تعامل کے مختلف قسم کی متعدد وضعیں اور بچے کی شخصیت او راس کی مدرسے کی کارگزاری پر ان کے امکانی اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ اس باب کا اختتامیہ بیان گھر اور مدرسے کی ترسیل اور بچوں کے گھر پر ٹیلی ویژن دیکھنے اور ان کی نشو ونما پر اس کے اثر کے مسائل سے متعلق ہے۔

والدین اور بچے کا تعلق

تمام کرداری علوم کے اندر محدود معلومات کی بنا پر بے جا تعمیم کرلینے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یہ خطرہ اور زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ جب ہم بہت زیادہ پیچیدہ مظہر کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ والدین اور بچے کا تعلق کہلاتا ہے۔ یہ بات بہت زیادہ احتیاط اور شرائط کے ساتھ ہی ممکن ہے کہ بعض قسم کے والدین کے رویوں اور بچوں کی پرورش کرنے کے طریقوں کے اثرات کے بارے میں نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ ہمیں استدلال کرنے میں اور زیادہ محتاط ہونا ضروری ہے کہ بچوں میں بعض قسم کے کردار انحراف والدین کے بعض قسم کے کردار کا نتیجہ ہیں۔ لہٰذا پیٹرسن وغیرہ Paterson Etal 1959 اپنے ایک مطالعے کے اندر جس میں والدین کے رویوں اور بچوں کی مطابقت کے تعلق کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تھی یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوئے۔

اگرچہ بعض عام شماریاتی رجحانات برآمد ہوئے پھر بھی ہم نے ایسے خاندان پائے جن میں والدین نقصِ مطابقت کا شکار معلوم ہوئے۔ بظاہر ان کے تعلقات اچھے نظر نہیں آتے تھے اور اپنے بچوں کی طرف نہایت نفرت انگیز قسم کے رویے ظاہر کرتے تھے لیکن بچے بڑی خوبصورتی کے ساتھ گزر بسر کرتے نظر آتے تھے۔ ہم نے ایسے والدین دیکھے جن کے رویے اور دوسری خصوصیات دو اچھے والدین کے مسبوکے سے تقریباً مکمل اتحاد رکھتی تھیں لیکن ان کے بچوں نے نہایت سنگین قسم کے مسائل کی علامات ظاہر کیں۔ (صفحات 127-128)

اگرچہ بچوں کی نشو و نما سے متعلق تمام ادب فرض ادا کرتے ہیں کہ والدین کے اثرات بڑی اہمیت رکھتے ہیں تاہم یہ متعین کرنا نہایت دشوار ہے کہ والدین کے کون سے پہلو بچے کے کردار میں معین نتائج برآمد کرتے ہیں۔ اس امر کے متعدد اسباب ہیں۔ اولاً والدین کا کرداراور رویے ایک مدت تک مستقل نہیں رہتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم باپ یا ماں کو استبدادی قرار دیں، ہم مان لیتے ہیں کہ اس وقت بچے کی عمر پانچ سال ہے تو یہ وضع ممکن ہے کہ بچے کی عمربڑھنے کے ساتھ ایک زیادہ جمہوری وضع میں بدل جائے۔والدین کے نشو و نمائی ادوار بچے کے نشو و نمائی دور کے متوازی چلتے ہیں۔ بعض والدین چھوٹے بچوں کے کردار سے خوبصورتی کے ساتھ نمٹنے کے لائق ہوتے ہیں لیکن نوبالغوں کے والدین کی حیثیت سے ممکن ہے کہ انھیں نمایاں دشواری پیش آئے۔ ایک ماں اور طفل کا تعلق اس تعلق کا نسبتاً ایک کم حیثیت پیش قیاس ہے جو کہ آئندہ ان کے درمیان قائم ہوگا (گرامس Grams، 1960، ص 302) بچوں کی پرورش کی وضع سے متعلق سیرس وغیرہ (Sears Etal، 1957) کے مطالعے میں اس بات کی تجربی طور پر توثیق ہوگئی ہے جہاں کہ طفل کے ساتھ ماں کی مامتا کا ناپ بچے کے پانچ سال کی عمر پر پہنچنے پر اس کی مامتا کے ناپ سے بالکل خفیف سا ربط رکھتا ہے۔ بچوں کے کردار پر والدین کے اثرات کا پتہ لگانے میں دشواری کا ایک اور سبب یہ حقیقت ہے کہ اس رقبے میں بیشتر تحقیق مادرانہ رویوں اور کردار کے رول پر مرکوز رہی ہے۔ صرف حال ہی میں باپ کے رول پر توجہ دی گئی ہے۔ پیٹرسن وغیرہ (Paterson Etal)، 1959) ایرون وغیرہ Eron Etal، 1941 والدین کے رویوں کا بیان انتہائی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب کہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد والدین کے آپس میں تعامل پر رکھی جائے نیز دو جوانوں کی منفرد شخصیتوں کے ماحصل اثرات اور ان کے منتجی مختلف کرداروں پر رکھی جائے۔ خاندان کے افراد کی تعداد بچوں کی جنس، اور ان کی عمر کے فرق، متغیرات کا ایک جھرمٹ بنا دیتے ہیں جن کا تجربی تحقیق میں کنٹرول دشوار ہوتا ہے۔ والدین کے خاص قسم کے کردار سے آزاد یہ سب متغیرات بچے کے کردار کی صورت گری میں ممد ہوتے ہیں ایک زیادہ افراد کے خاندان میں شخصیت کے رول سے متعلق ایک مطالعے میں بوسرڈ اور بول Bossard and Bool، 1955 نے دیکھا کہ خاندان کے اندرونی تعامل نے متعدد خصوصی رول قائم کردے جیسے ذمے دار بچہ، مقبول بچہ، سماجی طور پر حوصلہ مند بچہ، مطالعے کا شائق، غیر ذمے دار اور بگڑا ہوا بچہ۔ والدین کے رویوں کی خاصیت بیان کرنے سے خاندانی اثرات کی کہانی کے صرف ایک حصے کا پتہ چلتا ہے کیونکہ جن خاندانوں میں ہم ولد ہوتے ہیں وہاں ممکن ہے کہ ایک سے زیادہ عمر کا بچہ وہ سہارا اور دیکھ ریکھ فراہم کرے جسے پورا کرنے سے والدین قاصر رہے ہوں یا خاندان کے اندر ایک دوسرے بچے کی موجودگی ممکن ہے کہ کسی طور پر والدین کے بہم پہنچائے ہوئے تحفظ سے ہٹا دے۔

خاندان کے اندر بہت سے متغیرات کارفرما ہونے کے باوجود جن کی بدولت بچے کی شخصیت پر والدین کے رویوں اور کردار کے اثرات کی پیش قیاسی دشوار ہوجاتی ہے، تحقیقی ادب کم ازکم رجحانات کے بیان میں حیرت انگیز حد تک اتحاد ظاہر کرتا ہے۔

والدین کے کردار کے متغیرات

شکل  13.1 میں چند مسلسلات کو ایک نقشے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جسے موجودہ کردا رکے بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی گھر کے بیان کو ان سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور اس کے اندر ایسے متغیرات شامل کیے جاسکتے ہیں جیسے بچہ مرکزیت کا درجہ، گھر کے اندر آہنگی، عمل کی سطح اور ایسی ہی دوسری باتیں۔ تاہم شکل 13.1 میں پانچ ابعاد ہمارے مقاصد کے لیے کافی ہوں گی جہاں تک کہ وہ تحقیقی نتائج پر مبنی موضوع سے متعلق معقول حد تک ایک بامعنی اور جامع بحث کی اجازت دیتی ہیں۔

شکل 13.1 میں پانچوں مسلسلات کے ایک ایک خط تقسیم کو جوڑنے سے ہم والدین کی مختلف کرداری وضعوں کی ایک بڑی تعداد پر پہنچ سکتے ہیں۔ خطوطِ تقسیم کا تقریباً ہر ایک جوڑ ممکن ہے۔

 

نقشہ

 

 

شکل 13.1 والدین کے کردار کے پنچ مسلسلات۔ افقی سطروں پر بنے ہوئے خطوطِ تقسیم کسی ایک مسلسلہ سے متعلق کسی مخصوص ماں یا باپ کے کردار کے حیطے اور تکریر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اباحی اور پابندی عائد کرنے والا مسلسلہ ج ایک مخصوص ماں یا باپ کے کردار کے حیطے اور تکریر کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ فرضی ماں یا باپ کبھی زیادہ ابا جی ہوجاتا ہے اور کبھی کم۔ اگر کنٹرول کرنے کے سلسلے میں اس ماں یا باپ کے ہمیں متعدد مشاہدات کرنا ہوتے توان کی تکریر اور حیطہ ایسا ہوتا جیسا کہ ج میں دکھایا گیا ہے۔ خطوطِ تقسیم میں سے ہر ایک خط تقسیم، والدین کے کردار کی خاصیت بیان کرنے والے متعدد مسلسلات میں سے ہر ایک تقسیم کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ خطِ تقسیم ممکن ہے کہ نارمل ہو یا خمیدہ۔

ان میں چند تاہم متبائن ہیں۔ مثال کے طور پر یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ ایک گھر الف جو کہ گرم جوش اور قبول کرنے والا ہے۔ وہ غافل بھی ہوگا یعنی ب یا لاشخصی اور بے تعلق ہوگا یعنی ک۔ چند دوسرے متبائن جوڑ دریافت کیے جاسکتے ہیں۔ یہاں پر یہ بے جا ہوگا کہ ہر مختلف قسم کے گھرکو بیان کیا جائے جو مختلف جوڑ ملانے سے بن سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل بیانات ہر ایک مسلسلہ سے متعلق الگ الگ ایک عام توجہ تک محدود ہیں جو کہ ... ظاہر کرتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً کیوں کر بیان میں ترمیم کی گئی ہے جب کہ دوسرے مسلسلہ کے اندر والدین کے ایک قسم کے کردار کے جوڑ کے ساتھ وہ خصوصیت رونما ہوتی ہے۔

استردادی اور قبول کرنے والا

بچے کی شخصیت کی ساخت کو متعین کرنے میں والدین کا بنیادی جذباتی رخ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلق کی یہ خصوصیت نہایت نازک ہوتی ہے اور اس کا تعین دشوار ہے۔ ہماری تہذیب اور اس کے رواج والدین کے لیے دشوار بنا دیتے ہیں کہ وہ تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کی طرف منفی احساسات رکھتے ہیں۔ والدین اپنے آپ کو اخلاقی مجرم سمجھنے لگتے ہیں جب انھیں ماننا پڑتا ہے کہ بچے انھیں مادّی اشیا، نقل و حرکت کی آزادی، سے محروم کردیتے ہیں اور ان کا سماجیانا کبھی کبھی جذباتی طور پر دباؤ کا باعث ہوسکتا ہے۔ والدین قابلِ لحاظ حد تک ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں تاہم جس حد تک وہ یہ احساسات رکھتے ہیں اور جو کردار انھیں ظاہر کرتا ہے اس مسلسلے کو سیرس (Sears)، میکوبی Macooby اور لیون (Levin، 1957) اس طور پر بیان کرتے ہیں:

ایک رویہ ایسا ہوتا ہے جو کہ ماں اور بچے کے درمیان جملہ تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔ ایک انتہا پر اس بعد کی تعریف بچے کی قبولیت کے طور پر کی گئی ہے اور دوسری انتہا پر بطور استرداد۔ قبولیت کا یہ مطلب ہے کہ ماں اپنی محبت بلا استثنا دیتی ہے، اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ زیادہ دکھاوا کیا جائے، لیکن بچے سے توافق کے ساتھ ’اچھے‘ کردار کی قیمت ادا کرائے بغیر وہ اس کا ہے اور اس کا ایک جزو ہے۔ وہ اس بات کا خیال کیے بغیر اس سے محبت کرتی ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ دوسری طرف کم ازکم ایک ذرا سی محبت سے باز رہنے کا ایک سرایت کن رویہ استرداد ہے۔ اس کے اندر مشروط ہونے کا مفہوم شامل ہوسکتا ہے کہ ’میں تم سے محبت کروں گی اگر‘ یا ایک ناگواری اور مایوسی کے رویے کا۔‘‘ (ص 170)

والدین کے کردار کی جانچ سے متعلق ایک  مطالعے میں بالڈون وغیرہ (Baldwin Etal, 1949) نے قبولیت کو پانچ متغیرات میں سے ایک گردانا ہے جو کہ گرم جوشی سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے چار متغیرات میں تنقید کا رخ (پسندیدگی اور ناپسندیدگی) قبول کرنے والی ماں (یا باپ) بچے کو نفرت زدہ اور مسترد محسوس کرائے بغیر اس پر تنقید کے لائق ہوتی ہے۔ ’نیز یہ والدین بچے کی اصلاح کرتے وقت یہ بات واضح کرنے میں عموماً کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ کردار کا ایک علاحدہ ٹکڑا ہے جیسے ناپسند کیا گیا ہے نہ کہ اس کی پوری شخصیت‘ (ص 6) دلدادگی، یہ متغیرہ گرم جوشی کے ساتھ مل کر والدین کے ظاہر کردار اور اس بات کا ایک ناپ ہے کہ کسی حد تک اس سے محبت یا مخالفت ظاہر کرتا ہے۔ رابطۂ خاطرہ یہ متغیرہ اس بات کا ایک ناپ ہے کہ ’کس سہولت سے تعلق قائم ہوا ہے، ماں یا باپ اور بچے کے درمیان ترسیل جاری رہتی ہے، تعلقات کے اندر تسکین ملتی ہے اور بار کی کمی ہے اور باہمی ہمدردی اور مفاہمت کا احساس موجود ہے‘ (ص 6) بچہ مرکزیت: اس متغیرہ پر شکل 1ء 13 میں پیش کردہ دوسرے مسلسلات کے ساتھ بحث کی گئی ہے بالخصوص اباحی اور پابندی عائد کرنے والے، اور مہربان اور استبدادی کے ساتھ۔

قبولیت اور استرداد کے نتائج

استرداد کے اثرات ایک یا دوسری سمت میں معتدل ہوجائیں گے۔ یہ صورت حال اس بات پر منحصر ہوگی کہ والدین کی یہ خصوصیت غفلت کے ساتھ واقع ہوتی ہے یا بیجا تحفظ کے ساتھ، لاشخصی اور بے تعلق رویے کے ساتھ یا بیش شریک اور اضطراری کے ساتھ اگر والدین کا رویۂ عموماً قبولیت اور جذباتی گرم جوشی کا ہے تو بچے کی شخصیت کے سماجی طور پر قابلِ قبول ہونے کا امکان ہے جو کہ مستقبل کا سامنا اعتماد کے ساتھ کرتی ہے (بالڈون 1955, Baldwin)۔ دوسری طرف اگر والدین استرداد سے کام لیتے ہیں تو متعدد مضر اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔ سیرس وغیرہ (Sears Etal، 1957) نے دیکھا کہ استردادی والدین کے بچے غیراستردادی والدین کے بچوںکے مقابلے میں سہارا طلب ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔

بالڈون وغیرہ (Baldwin Etal، 1945) ایک سرگرم استردادی ماں کا بیان پیش کرتے ہیں جو کہ ساتھ ہی ساتھ استبدادی، پابندی عائد کرنے والی، کسی حد تک بے تعلق اور غیرمتوافق ہے۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب اس کی بچی چھ ماہ کی تھی اس وقت اس نے کہا تھا کہ ’’مجھے بیٹھنے اور اسے تھامنے سے نفرت ہے۔ میں بچوں کو تھامنے کی پروا نہیں کرتی ہوں۔ کسی نہ کسی وجہ سے میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔‘‘ اس کے بارے میں بیان کیا جاتاہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی بیٹی کے ساتھ نامرادانہ، طنز آمیز اور ناخوشگوار برتاؤ کرتی تھی۔ مندرجہ ذیل پارے میں اس برتاؤ کے اثرات کا خلاصہ بیان کیا  گیا ہے:

’’اس سخت اور تنگ پالیسی کے ردعمل میں ایک انفعالی انداز میں بڑوں کے اقتدار کے سامنے بیٹی بتدریج علاحدگی پسند، شرمیلی اور ہٹیلے پن کے ساتھ مزاحم بن گئی تھی۔ مدرسے کے اندر اس کے شائستہ اور ظاہری طور پر فرماں بردارانہ کردا رپر نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن ہر ایک موقعے پر جہاں کہیں اس کا جوابی عمل درکار ہوتا ہے، وہ تقریباً نہ سنائی دینے والے ’میں نہیں جانتی‘ میں لوٹ جاتی ہے۔ اس کی حیران، دل شکستہ استانی کہتی ہے کہ ’میں بس اس کو سمجھ نہیں سکتی۔ کوئی بات اس تک پہنچتی نظر نہیں آتی۔‘‘ (ص 24)

ماخذ: تعلیم کی نفسیاتی اساس، مصنف: مورس۔ ای۔ ایسن، مترجم: عبداللہ ولی بخش قاری، دوسری طباعت: 2010، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو  زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...