10/9/24

اردو میں بین المتونی افسانے کا نقش اول مدن سینا اور صدیاں، مضمون نگار: رغبت شمیم ملک

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024


اردومیں مختصر افسانہ نگاری کی پہلی اینٹ، راشد الخیری نے رکھی ہو یا پریم چند نے اس پر بحث کی گنجائش ہے لیکن اردو میں ’بین المتونی‘ (Inter Textual) افسانہ نگاری کی شروعات عزیز احمد سے ہوتی ہے،اس پر اختلاف رائے دُشوار ہے۔عزیز احمد کا افسانہ ’ مدن سینا اور صدیاں‘ اردو میں بین المتونی افسانے کا نقشِ اوّل ہے۔ قرۃ العین حیدر،انتظار حسین، سریندر پرکاش، عابد سہیل وغیرہ نے بہت بعد میں ایسے افسانے لکھے جنھیں بین المتونی افسانوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن آج بھی عزیز احمد کے افسانہ’ مدن سینا اور صدیاں ‘ کے متن میں مشرقی ( ہندوستانی ) اور مغربی افسانوی ادب کے امتیازات کو جس ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے،بعد کے افسانہ نگاروں کے یہاں اس کا تتبع ہی ملتا ہے۔اس بنا پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عزیز احمد کا افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ کئی زاویوں سے۱ردو افسانے کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے، ہیئت و تکنیک، اسلوب اور موضوع،متن اور بیانیہ کے کئی امکانات روشن ہوتے ہیں۔ بین المتونیت بھی اس افسانے کا ایک شناختی وصف ہے۔ اس زاویے سے پہلی بار ’مدن سینا اور صدیاں‘ کی قرأت کی جا رہی ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اردو افسانے کی عام ڈگر سے الگ اس اجتہادی افسانے پر غالباً سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی، ورنہ اندازہ ہوتا کہ اس افسانے میں بعد کے اردو افسانے میں نمایاں ہونے والے ’بیانیے ‘ کے اکثر و بیشتر امتیازا ت موجود ہیں۔بین المتونیت کے پردے میں، رومانیت، ترقی پسندی،جدیدیت اورمابعد جدیدیت تک کے کئی رنگ،رُحجان کی کرنیں’مدن سینا اور صدیاں‘ سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔بعد کے معتبر، معروف اور نئی نسلوں کے افسانہ نگاروں، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، سریندر پرکاش، عابد سہیل، سید محمد اشرف وغیرہ کے بین المتونی افسانوں میں عزیز احمد کے افسانہ’مدن سینا اور صدیاں‘ کی ساختیاتی، اسلوبیاتی اور بیانیاتی ’ہنر مندیوں کے ہی سائے رقصاں نظر آتے ہیں۔     

’مدن سینا اور صدیاں‘عام معنوں میںنہیں، خاص معنوں میں بین المتونی افسانہ ہے جس میں عزیز احمد نے کسی ایک نہیں مشرق و مغرب کے کئی تخئیلی قصوں اور حقیقی تاریخی واقعات کے متون کو نچوڑ کر ایک نئے متن کی تشکیل کی ہے۔اور اس بنا پر ’مدن سینا اور صدیاں‘ کو ایک ’کثیر المتونی افسانہ‘ (Multi Textual Story) بھی کہا جا سکتا  ہے۔ دو اور دو چار کی طرح  اس افسانے کے متن کی توضیح و تعبیر دُشوار ہے لیکن پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’جذبۂ عشق کی ابدیت‘ وہ مرکزی نقطہ ہے جس پر عزیز احمد نے’مدن سینا اور صدیاں‘ کا افسانوی متن قائم کیا ہے۔ عزیز احمد نے مشرقی اور مغربی افسانوی متون میں عورت، مرد اور’غیر‘ (Other) کی تثلیث کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے افسانے کے مرکزی کردار ’مدن سینا‘کے حوالے سے قدیم ہندوستانی تہذیب میں عشق و محبت کے آداب، قول اور فعل، وفا و جفا کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ مغربیت کے زیر اثر جدید مشرقی معاشرہ میں عشق کے تصور کے بدلتے روپ، معاشرے میں عورت کا مقام و مرتبہ، بورژوا طبقے کا مزدوروں کی بیوی بیٹیوں کا جنسی استحصال اور Extra Marital Relation،ہندوستانی تہذیب کی قدامت، بیوی اور شوہر،عورت اور مرد کے رشتے کی آفاقیت، موت اور حیات کے حقائق،ہندوستان کے قدیم سماجی اور مذہبی رسوم ازمنہ وسطی کی سیاسی تاریخ، یونان و روما کا زوال، دین اسلام کی ترویج  واشاعت، اسلامی حکومت کا عروج، مارکسیت اور مذہبیت کی کش مکش وغیرہ کے حوالے سے اس افسانے میں متعدد کردار سامنے آتے ہیں اور ان سے متعلق کئی ضمنی متون یا متون کے ہیولیٰ بنتے بگڑتے ہیں جنھیں عزیز احمد نے بڑی مہارت سے ہم رشتہ و پیوستہ کر کے سہل اور شگُفتہ زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اصل متن سے ضمنی افسانوی کرداروں، واقعات اور کیفیات کا رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔

عزیز احمدکا یہ افسانہ ’مدن سینا اور صدیا ں ‘،  ’ادب لطیف ‘ کے سالنامہ1946میں شائع ہوا تھا۔ عزیز احمد نے اس افسانہ کے بارے میں ایک نوٹ بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ :

’’اس افسانے کی لڑی میں مدن سینا کا قصہ ’کتھا سرِت ساگر‘سے اور ڈوری گن  کا (قصہ) جیفری چاسر کے فرینکلنِ کے قصے(Franklin's Tale) سے ماخوذ ہے۔اس سلسلے کے مرکزی خیال کے ارتقا اور نشو ونما کوظاہر کرنے کے لیے ان دونوں قصوںکی ضرورت تھی۔‘‘

(قاضی افضال حسین،عزیز احمد اور اردو کا مابعد جدید افسانہ،مشمولہ عزیز احمد: فکروفن اور شخصیت(جلد اوّل)،تحقیق،ترتیب اور انتخاب اعظم راہی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2011، ص251)

لیکن اس افسانے کا مرکزی خیال کیا ہے ؟اس کے بارے میں عزیز احمد نے کوئی وضاحت نہیںکی ہے۔ لیکن افسانے کے مرکزی متن اور دیگر ذیلی متون کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے اس افسانے میں ’عشق ‘کی ’تثلیث‘ عاشق،معشوق اورغیر‘ (رقیب) کے مشرقی اور مغربی تصور کو، مختلف تاریخی قصوں، سیاسی جزر و مد، فلسفیانہ مو شگافیوں اور ادبی و فنی کارناموں کے مابین ایک ربط پیدا کر کے افسانوی متن سازی میں تاریخی و تہذیبی شعور کی آمیزش و آویزش کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ ’ مابعد جدید افسانہ ‘کے امتیازات میں، موضوع کی تکثیریت بھی ایک اہم امتیاز ہے اسی بنا پر قاضی افضال حسین نے ’مدن سینا اور صدیاں‘ کو ایک مابعد جدید افسانہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’ ۔۔۔۔ مرکزی خیال،اگر کوئی ہو،ان قصوں میں پہلے ہی تکمیل پا چکا ہے۔لیکن انھوں نے شعوری طور پر افسانے میں متن بر متن کی تکنیک اختیار کی اور ماقبل کے متون کو نئے متن کی تشکیل میںمناسب تخلیقی ترمیم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔‘‘(ایضاً،ص252)

عزیز احمد کے افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ کو بیانیات (Narratology) کے نئے تقاضوں کی رو سے بالاستیعاب پڑھا جائے اور افسانہ کے کرداروں اور ان سے جڑے واقعات کی تہوں اور طرفوں کو کھولا جائے تو اندازہ ہوگا،کہ اس افسانے میں کسی وحدانی مرکزی خیال کی تلاش پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی۔جیسا کہ کہا جا چکا ہے، اس افسانے میں ایک نہیں،کئی متون ہیں جن کا تعلق قدیم، مشرقی اور مغربی سماجی و تہذیبی اقدار سے ہے۔ عزیز احمد نے ’مدن سینا اور صدیاں‘ کا ایک ماخذ ’ کتھا سرِت ساگر ‘کو قرار دیا ہے۔ ’کتھا سرت ساگر‘ گیارہویں صدی کا ایک عالمی شہرت یافتہ افسانوی مجموعہ ہے۔ لیکن کشمیر کے سنسکرت عالم واسودیو کی تصنیف ’کتھا سرت ساگر‘ طبع زاد کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ہندوستانی لوک کتھاؤں، کہاوتوں، اور تاریخی روایات و مفروضات پر مبنی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کہانیوں کو شَیو برہمن وا سو دیو نے سنسکرت میں بیان کیا ہے۔ سوم دیوکشمیر کے ایک حکمراں راجہ اننت  کے دربار سے وابستہ تھا۔ سوم دیو نے راجہ اننت کی رانی سوریہ وتی کا دل بہلانے کے لیے گیارہویں صدی کے اخیر (1060-1080کے بیچ) ’کتھا سرِت ساگر‘ کی تخلیق کی تھی۔ راجہ اننت کا عہد حکومت درد و غم سے عبارت ہے۔  کہا جاتا ہے کہ راجہ اننت کے دو بیٹوں کلش اور ہرش کی موت ہو گئی تھی جس کی وجہ سے راجہ اننت اور اس کی رانی سوریہ وتی ہمیشہ غم زدہ رہتی تھیں۔ رانی کا کسی بھی طرح دل نہیں بہلتا تھا۔ راجہ اننت نے رانی کا دھیان بانٹنے اور دل بہلانے کے لیے ہی سوم دیو سے’کتھا سرت ساگر‘ کی کہانیاں لکھوائی تھیں۔ لیکن نہ را نی کا دل بہلا اور نہ راجہ کو چین آیا۔ آخر کار راجہ نے خود کشی کرلی اور رانی بھی اپنے پتی راجہ اننت کی چتا میں کود کر ’آتم داہ ‘ کرلیا تھا۔ کتھا سرت ساگر میں اس پس منظر پر بھی کہانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ’کتھا سرت ساگر ‘میں عظیم حکمراں راجہ اُدیَن کے فرزند راجہ نرواہن دت کی بہادری کے کارناموں اور حسیناؤں کے ساتھ اس کے رومانس اور عیش وعشرت کی کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ ’ کتھا سرت ساگر‘ میں لگ بھگ 350 کہانیاں شامل ہیں اسی لیے اس مجموعے کو ہندوستان کا سب سے بڑا افسانوی مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ ’کتھا سرت ساگر‘ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ کتھا سرت ساگر‘ کی کہانیاں ایک عالم گُناڈھیہ کی قدیم ترین افسانوی تصنیف ’ بِرہت کتھا‘سے ماخوذ ہے۔ ’برہت کتھا‘ ایک کم بولی جانے والی بولی /زبان ’پشاچی‘ میں لکھی گئی تھی۔ ’برہت کتھا‘ کا کوئی بھی مسودہ اب کہیں بھی دستیاب نہیں۔مصنف سوم دیو نے خود لکھا ہے کہ ’’ان کا مقصد ایک عظیم مجموعے کا معتبر اور مختصر ترجمہ پیش کرنا ہے،جسے ’’برہت کتھا ‘‘ یا گُناڈھیہ کی پشاچی بولی میں لکھی گئی ’مہان کتھا‘ ((Grand Narrationکے روپ میں جانا جاتا ہے ‘‘ لیکن ’کتھا سرت ساگر‘ کے بارے میں یہ رائے بھی ظاہر کی گئی ہے کہ ’’کشمیر ( شمال جنوب ) میں لکھی گئی جس ’برہت کتھا‘ کو سوم دیو نے اپنی بنیاد بنایا ہے،اس کی زبان مختلف بھی ہو سکتی ہے۔کیونکہ گُناڈھیہ کے کام(کہانیوں) کی بنیاد پر، اس کے بعد اور سوم دیو سے پہلے کم سے کم پانچ نسلوں کے ادیبوں نے’  برہت کتھا ‘کو اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی زبان اور اسلوب میں پیش کیا ہے ان میں ’برہت کتھا منجری‘ اور ’برہت کتھا شلوک سنگرہ‘ مشہور ہیں، لیکن یہ نہ تو پورے طور پر گُناڈھیہ کی ’برہت کتھا‘کے ترجمے ہیں اور نہ ان میں سماجی و ثقافتی منظر نامے ایک جیسے ہیں، برہت کتھا کی کہانیوں کو ہر ایک نے ا ٓزادانہ طور پر برہت کتھا کی کہانیاں بیان کیا ہے سب کی زبان (سنسکرت ) اور بیانیہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اور زمانی فرق کے ساتھ ایک ہی طرح کے قصے کہانی میں فرق کا پیدا ہونا فطری بھی ہے ( اردو میں بھی امیر حمزہ، قصہ حُسن و دل، رُستم سُہراب، چہاردرویش وغیرہ کے قصے الگ الگ دور کے ادیبوں نے الگ الگ زبان ا ور بیانیہ میں پیش کیے ہیں) کتھا سرت ساگر‘ کے علاوہ  بھی قدیم دور کی کہانیوں کو سولہویں صدی میں نئے سرے سے لکھا گیا اور ایسا اسلو ب اختیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کہانیوں میں گُناڈھیہ کے ’برہت کتھا‘ ( The Great Narrative) کی کہانیوں کی طرح  معنیاتی اور تاثراتی تہداری پیدا کی جائے۔سنسکرت میں سوم دیو کی لکھی گئی ’کتھا سرت ساگر‘ اور کھیمیندر کی کتاب ’برہت کتھا منجری ‘ کہیں نہ کہیں دستیاب ہے۔ ’کتھا سرت ساگر‘ کا، دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے جن میں ہندی، بنگلہ، انگریزی اور اردو بھی شامل ہیں۔                                                                                         

عزیز احمد نے ’مدن سینا اور صدیاں کا دوسرا ماخذ جیفری چاسر(Geoffrey Chaucer) کے ’فرینکلین کے قصے‘   (The Franklin's Tale) سے ڈوری گن ( Dorigen)کی کہانی کو قراردیا ہے۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنے افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ کا متن، مشرق اور مغرب کے قدیم ترین افسانوی متون پر قائم کیا ہے۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ عزیز احمد کا افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ اردو میں افسانہ نگاری کا ایک اجتہادی موڑ ہے۔کم و بیش سوا سو صفحات پر مشتمل اس افسانے کو طویل افسانہ‘  کے علاوہ ناولٹ یا ’ناولا‘کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے، گرچہ اس میں واقعات اور کردار مختصر افسانے (Short Story)  کی طرح کم ہی ہیں۔ دوئم یہ کہ یہ افسانہ موضوع، ہیئت، اسلوب اور بیانیے کے برتاؤ کے اضافی امکانات بھی روشن کرتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عزیز احمد کا یہ افسانہ نہ صرف یہ کہ اردو میں ’بین  المتونی افسانہ‘ (Intertextual Naration) کا نقش اوّل کہلانے کا سزاوار ہے بلکہ’بین المتونی افسانہ‘ میں نیا متن قائم کرنے کے لیے علاقائی، مذہبی اور لسانی و ہئیتی حدود کو حاشیے پر رکھ کر افسانے کی تخلیق کے عمل کو آزاد کرنے سے بھی عبارت ہے۔

افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ کا عنوان اس کے مرکزی کردار مدن سینا کی مناسبت سے نام پر رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ ’صدیاں ‘ کا لاحقہ اس لیے لگایا گیا ہے کہ اس افسانے کا متن زمان و مکان کے حدود و قیود سے بھی ماورا ہے۔عزیز احمد نے ہندوستانی کتھا ساہتیہ کے ایک شاہکار ’بیتال پچیسی‘ کے ’بیان کنندہ ’بیتال‘کی زبانی، قدیم ہندوستان کے سماجی و سیاسی اور معاشی و تہذیبی منظرنامے کو آغاز میں ہی، داستانی اسلوب میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے :

’’ تب وی تال نے کہا :

 ۔۔۔۔۔۔۔مہاراج ! اگلے زمانے میں ایک راجہ تھا، جس کا نام ویرا باہو تھا۔ اننگ پورہ اس کی راج دھانی تھی اور دور دور کے راجے اس کو باج دیتے تھے۔ سات سمندر پار کے سوداگر چھوٹے چھوٹے جہازوں میں بیٹھ کر بھارت ورش میں آتے اور اس کی راجدھانی سے موتی، مسالے،ہیرے،اور نہ جانے کیا کیا خرید لے جاتے۔ بیوپار کی برکت سے اننگ پورہ کے ’ویش (ایک فرقہ) بہت امیر ہونے لگے۔اور اننگ پورہ کے ویش سوداگرو کے سوداگروں مکان روپ اور صفائی میں دوسرے ملکوں کے راجوں کی ڈیوڑھیوں کا مقابلہ کرنے لگے ۔‘‘

(عزیز احمد کے افسانے،ترتیب سلیمان اطہر جاوید،موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 1996،ص79)

عزیز احمد نے مدن سینا کے بارے میں بتایا کہ :

’’انھیں ویش (Vaish) امیر سوداگروں میں سے ایک کا نام ارتھا دت  تھا۔اس کے ایک بیٹا تھا انمول ہیرے جیسا،جس کا نام ’دھن دت  تھا۔ایک بیٹی تھی جو دوسری تمام لڑکیوں میں یوں دمکتی جیسے کنکروں میں سچا موتی۔اس کا نام مدن سینا تھا۔ ارتھا دت اپنے بیٹے دھن دت کے ساتھ سمندر کنارے کسی شہر کو چلا جاتا تھا،جہاںافریقہ اور روم کے سوداگر مال خریدنے آتے تھے۔ اس کی بیٹی مدن سینا اپنی سکھیوں،سہیلیوں کے ساتھ باغ میں کھیلا کرتی۔۔۔۔ایک دن باغ میں مدن سینا کے سامنے ایک نوجوان دھرم دت آجاتا ہے اور مدن سینا پر عاشق ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔دھرم دت کہتا ہے ’مدن سینا  تُو میری نہ ہوئی تو میں مر جاووں گا ‘،

مدن سینا کہتی ہے،’’ ۔۔۔۔میرے  پتانے ۔۔میری منگنی ایک دوسرے دیش کے سوداگر سمُدر دت  سے کی ہے اور تھوڑے ہی دنوں  میں اس سے میرا بیاہ ہونے والا ہے۔ ‘‘(ایضاً،ص79)

لیکن اس مقام پر عزیز احمد نے بیتال کے قصے کے حوالے سے عورت (مدن سینا ) کی ہوشیاری اور کردار کی سچائی کو پیش کیا ہے۔ دھرم دت سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے مدن سینا قسم کھا کر ’وچن (قول) دیتی ہے کہ میری شادی ہو جانے دو میں اپنے شوہر سے پہلے تیرے پاس آؤں گی،اس کے بعد اپنے پتی کے پاس جاؤں گی۔ دھرم دت اس کے وچن پر یقین کر کے اسے جانے دیتا ہے۔ مدن سینا کی شادی سمُدر دت سے ہوجاتی ہے۔لیکن جب سمُدر دت نے مدن سینا کو اپنی آغوش میں لینا چاہا تو وہ تڑپ کے نکل گئی اور اپنے پتی کو سارا قصہ سنا کر پوچھا کہ ’’اب میں کیا کروں؟ میں تو اس پاپی ( دھرم دت ) سے بچن ہار چکی ہوں۔ مدن سینا کے شوہر نے اسے وچن نبھاتے ہوئے دھرم دت کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ مدن سینا جب گھر سے نکلی تو ایک مقام پر ایک ڈاکو نے اسے پکڑ لیا۔ مدن سینا نے اس ڈاکو کو بھی اپنے وچن(قول) کے بارے میں بتایا۔ ڈاکو بھی مدن سینا کی سچائی سے خوش ہو کر اسے اپنا وچن نبھانے کے لیے دھرم دت کے پاس جانے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ مدن سینا سیدھے دھرم دت کے پاس پہنچی لیکن دھرم دت کہتا ہے کہ اب تم کسی دوسرے کی پتنی ہو ۔۔۔اس لیے جس طرح تم آئی ہو ویسی ہی چلی جاؤ،مدن سینا واپسی پر اپنا دوسرا وچن نبھانے کے لیے ڈاکو کے پاس جاتی ہے۔ڈاکو بھی اس سے کہتا ہے ’’ تیری سچائی سے خوش ہو کر میں بھی تجھے چھوڑتا ہوں،جا اپنے سونے چاندی اور عزت کے زیوروں سمیت اپنے گھر جا۔‘‘ مدن سینا خوشی خوشی اپنے شوہر سمُدردت کے پاس پہنچتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ ’’کس طرح سچ اور اپنے بچن کے پاس کی وجہ سے دھرم دت اور ڈاکو دونوں کے دلوں میں بھگوان نے ترس اور رحم ڈالا۔اس طرح وہ پاک اور اچھوتی اپنے ساجن کے پاس چلی آئی۔ سمُدر دت کو اپنے گھرانے کی آبرو بچنے سے زیادہ خوشی اس کی ہوئی کہ اُس نے ایسی سچی اور قول کی پکی ’اِستری پائی۔اور اس کے بعد مرتے دم تک دونوں نے ہنسی خوشی دِن گزارے‘‘

’بیتال پچیسی‘ کی کہانیوں کی ہیئت و تکنیک یہ رہی ہے کہ ہر کہانی کے اختتام پر بیتال اپنے سامع سے کہانی کے اصل نُقطے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ چنانچہ مدن سینا کی کہانی سنانے کے بعد بھی بیتال، اپنے سامع مہاراج وکرم سینا سے افسانے کے اصل رمز کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ :

’’اب مہاراج یہ بتائیں کہ ان تینوں میں سب سے زیادہ فراخدلی سے کس نے کام لیا ؟مدن سینا کے پتی نے،یا دھرم دت نے یا ڈاکونے؟‘‘(ایضاً، ص 84)

مہاراج نے دلائل کے ساتھ ڈاکو کو سب سے زیادہ فراخ دل قرار دیا۔

بیتال پچیسی کے اس قصے(متن) کا رشتہ عزیز احمد نے بڑی فنکاری کے ساتھ مشرقِ وسطی اور مغرب سے جوڑا ہے۔ عزیز احمد نے یہ اشارہ کیا ہے کہ’’ انسانی آبادی اور اس کی روایات و اقدار ہندوستان سے ہی مشرقِ وسطیٰ سے ہوتے ہوئے یورپ پہنچی‘‘۔لیکن ساتھ ہی عزیز احمد کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کے اس نظریے پر دنیا یقین نہیں کرے گی۔لکھتے ہیں :

’’مجھ جیسے راوی پر کون اعتبار کرے گا اور یوں بھی ہندوستانی مورخوں کو کون سند کے قابل سمجھتا ہے؟۔ میرے خیال میں سمُدر دت اور مدن سینا ( آدم اور حوا ) کی اولاد اس طرح ولایت (مغرب)پہنچی ہوگی کہ جب شام اور مصر  کی فتح کے بعد خسرو پرویز قُسطُنطُنیہ پر ایک طرف سے بڑھ رہا تھا اور اس کا حلیف وحشی اور قوم کا کاغان (خاقان) یورپی جانب سے۔اس وقت خسرو پرویز کو صُلح کے لیے جو تاوان ِجنگ، بازنطینی قیصرنے پیش کیا،وہ ہزار طلائی مُہروں، ایک ہزار نقرئی مُہروں،ایک ہزار ریشمی عبائوں، ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزارکنواری لڑکیوں پر مشتمل تھا، ان ایک ہزار کنواریوں میں ’سیرا یا شیریں شامل نہیں تھی ۔‘‘ (ایضاً،ص86)

عزیز احمد کے مطابق مشہور زمانہ افسانوی کردار شیریں یا تو بازنطینی حُکمراں موریس کی بیٹی تھی یا کسی مشہور اعلیٰ رومی گھرانے کی چشم و چراغ۔اس کے شوہر کوشہنشاہ پرویز کا لقب ملا ‘‘،خسرو پرویز کو شیریں سے جس قدر عشق تھا،ملکہ شیریں اسی والہانہ عشق سے اس کا جواب نہ دے سکتی تھی۔ اب عاشق، معشوق اور رقیب کا مثلث یہ شکل اختیار کرتا ہے:

1        مدن سینا۔سمُدر دت۔دھرم دت 

2        شیریں۔خسرو پرویز۔فرہاد۔

فرق اتنا تھا کہ مدن سینا کو اپنے شوہر سمُدر دت سے محبت تھی۔لیکن شیریں کا دل اپنے شوہر خسرو پرویز کا نہیں، ایک مزدور فرہاد کا غلام ہو چُکا تھا۔ مدن سینا کا شوہر سمُدر دت اپنے وعدے پر قائم رہا اور دھرم دت نے بھی ظرف کا مظاہرہ کیا۔لیکن فرہاد اپنی سادگی کے سبب ہلاک ہو گیا۔ شیریں بھی در بہ در ہو گئی اور خسرو پرویز کو اس کے ناخلف بیٹے نے ہی ہلاک کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ یہاں عزیز احمد نے بیتال کی طرح خود ایک سوال قائم کیا ہے کہ :

’’  اس قصے میں سب سے زیادہ کم ظرف کون تھا ؟ خسرو پرویز؟یا شیریںیا فرہاد ؟ ‘‘(ایضاً، ص 88)

عزیز احمد نے جواب سامعین/ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔

 یہاں سے آگے عزیز احمد اپنے افسانہ  مدن سینا اور صدیاں ‘ کے متن کے دوسرے ماخذ چاسر کے فرینکلن(چودہویں صدی کے زمیندار ) کے قصے کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’آرموریکا‘‘ میں جس کو ’بری طینی ‘ بھی کہتے ہیں،مدن سینا کی اولاد میں ایک خاتون تھی جس کا نام ’ڈوری گن  تھا۔ آر دے راکس نامی ایک نائٹ ((Knite کو اس سے عشق تھا۔ ۔۔ڈوری گن نے اس کی فتوحات اور عجز و شرافت سے متاثر ہو کر اس سے شادی کرلی۔ آرا دے راکس نے بھی ایک سچے عاشق کی طرح اپنے آپ کو ڈوری گن کا پابند بنا لیا۔ لیکن جب راکس اپنے منصبی فرائض انجام دینے کے لیے ’انگلستان ‘ چلا گیااور کافی عرصے تک واپس نہیں آیا۔ اسی عرصے میں،رقص کی ایک محفل میں آریلیس نامی ایک  ’اسکوائر بڑا زمیندار ڈوریگن پر عاشق ہوجاتا ہے۔ ڈوری گن بھی اس کی محبت کو رد نہیں کرتی لیکن یہ شرط عائد کرتی ہے کہ جس دن برطینی کے ساحل کی چٹانیں  اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گی،میں بھی تمھاری محبت کا جواب  محبت سے دوں گی۔ آریلیس جادو ٹونا کرواکے وہ چٹانیں ہٹوا دیتا ہے اور ڈوری گن کو اس کے قول کے مطابق اپنے پاس بلاتا ہے۔ ڈوریگن سارا واقعہ اپنے شوہر آردے راکس کو سناتی ہے۔ شوہر نے کہا ’ ’قول پورا کرنے سے بڑھ کے انسان کا اور کوئی فرض نہیں۔ ڈوریگن،شوہر کی اجازت سے اپنے عاشق آریلیس کے پاس جاتی ہے۔ لیکن آریلیس،ڈوریگن کی سچائی، شادی شدہ زندگی اور اس کے شوہر کی اقدار پسندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈوری گن کے ہارے ہوئے قول کو معاف کر دیتا ہے اور ڈوری گن باعزت اپنے شوہر کے پاس لوٹ آتی ہے۔ اس قصے کے آخر میں بھی حسب معمول بیتال یہ سوال کرتا ہے کہ اس کہانی میں ڈوری گن، آردے راکس اور آریلیس میں سے کون سب سے زیادہ ’فیاض ثابت ہوتا ہے ؟ 

کہانی سننے والوں میں سے کسی نے جواب دیا، ڈوری گن، کیونکہ وہ چاہتی تو اپنے شوہر سے آریلیس کے عشق کی بات چھپا سکتی تھی،اور شادی شدہ ہونے کی وجہ سے، ’غیر ‘مرد کے پاس جانے کے بجائے خود کُشی بھی کر سکتی تھی۔ لیکن اس نے یہ سب نہیں کیا۔اور قول پورا کرنے کو اپنی عزت پر ترجیح دی۔لیکن عزیز احمد نے افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں ‘ کا متن قائم کرتے ہوئے جن دوعورتوں کو اپنے متن کے مرکز میں رکھا ہے اور ان دونوں کردار کو ان کی حق پرستی اور قول پسندی کی صفات کا حامل بنا کر پیش کیا ہے اس کے پسِ پُشت یہ سوال بھی کہیں نہ کہیں سے سر اُبھارتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ’’عورت اگر شادی شُدہ ہونے کے باوجود کسی ’غیر ‘ سے اقرار محبت کرتی ہے تو اس کے اسباب کیا ہوتے ہیں ؟ عورت اپنی سرشت سے وفا شعاری کے ساتھ ساتھ جفا کار بھی ہوتی ہے ؟۔ عزیز احمد کے افسانہ ’’مدن سینا اور صدیاں ‘‘ کے متن کا  بنیادی نُقطہ / مرکزی خیال یا/موضوع یہی ہے جسے عزیز احمد نے اس افسانے کے چوتھے اور پانچویں حصے میں مختلف تاریخی، تہذیبی، مذہبی کردار اور واقعات کے حوالے سے اپنا ’تصور عشق‘  ان الفاظ میں پیش کیا ہے :

’’ دوست اور عشاق ایک دوسرے کی تابع داری کرتے ہیں۔ محبت ایک فریق کے استبداد اور دوسرے کی غلامی کو برداشت نہیں کر سکتی۔جب استبداد آتا ہے تو عشق کا دیوتا اپنے پر پھڑ پھڑاتا اور یہ جا وہ جا، رخصت۔ ہر چیز کی طرح محبت کی روح بھی آزاد ہے۔فطرتاً عورتیں بھی غلامی نہیں آزادی چاہتی ہیں ۔‘‘(ایضاً، ص 89)

غرض یہ کہ عزیز احمد کا افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘  ایک ایسا بین المتونی افسانہ ہے جو مشرق کے افسانوی شاہکار ’کتھا سرت ساگر‘ اور مغربی افسانوی ادب کے عظیم کارنامہ ’’فرینکلین کے قصے کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ لیکن مشرق اور مغرب کی تاریخ و تہذیب کے الگ الگ دھاروں کو عزیز احمد نے اپنی تخلیقی اور بصیرت مندانہ قوتو ں کو بروئے کار لاکر اس طرح پیش کیا ہے کہ افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ ایک طرف تو ایک منفرد بین المتونی افسانے کے منصب پر تمام تر فنی و جمالیاتی خوبیوں کے ساتھ فائز ہوتا ہے وہیں دوسری جانب قدیم ہندوستانی اقداری نظام اور رسوم و عقائد کے علاوہ ہندوستانی معاشرے پر مغرب کے سماجی و تہذیبی اور ادبی و اخلاقی اقدار کے اثرات کو بھی اس افسانے کے بیانیے کی جزئیات کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ چونکہ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ پر، مشرقِ وسطی اور یورپ کے سیاسی اور مذہبی جزر و مد کے اثرات بھی تسلسل کے ساتھ مرتب ہوتے رہے ہیں۔لیکن عزیز احمد  نے اپنے اس افسانے میں یہ بھی کہا ہے کہ :

’’ آرموریکا میں جس کو بریطینی‘ بھی کہتے ہیں، مدن سینا کی اولاد میں ایک خاتون تھی جس کا نام ڈوری گن تھا ‘‘(ایضاً، ص 88)

’مدن سینا‘کی اولادیں ہی یورپ میں آباد ہوئیں، یہ مفروضہ قائم کر کے عزیز احمد نے ملک و قوم کے نام سے عالم انسانیت کی تقسیم کو باطل قرار دے دیا ہے۔عزیز احمد ایسا کہہ سکتے ہیں کیوں کہ عزیز احمد صرف ایک فکشن نگار ہی نہیں اسلامی مورخ بھی تھے، ماہر اقبالیات اور انگریزی ادبیات کے عالم بھی اس لیے ’مدن سینا اور صدیاں‘ کے متن میں اس طر ح کی ایمانی و ایقانی لہریں بھی موجزن نظرآتی ہیں او ر اس بنا پرعزیز احمد کے افسانہ ’مدن سینا اور صدیاں‘ کو بین المتونی افسانہ نگاری کی معراج ہی کہا جا ئے گا۔ 

 

Dr.Raghbat Shamim Malik

Assistant Professor & Head

Department of Urdu

P.N.College.Parsa(Saran)

J.P.University

Chapra- 841219 (BIHAR)

Mob.: 9971087815

mdshamim300@gmail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...