ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024
غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ جہاں ایک
طرف اس کی ہیئت مخصوص ہے وہیں دوسری جانب اس کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر
ہم اس کے موضوعات کی وسعت کو اختصار سے بیان کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ حیات
و کائنات کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو غزل میں بیان نہ کیا جاتا ہو۔بقول آل
احمد سرور ؎
غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے
ہماری بات بھی ہے اور تمھاری بات بھی ہے
غزل کی اس ہمہ رنگی میں اگر تصوف اور مسائل تصوف کی
تلاش کی جائے تو یہ بات بغیر کسی تامل کے کہی جا سکتی ہے کہ تصوف پیکر غزل میں روح
بن کر سمایا ہوا ہے۔تصوف نے غزل کے موضوعات و اسالیب کو طرح طرح سے متاثر کیا ہے
اور اسے فکر و خیال کی بلندی عطا کی ہے۔تصوف کے جن موضوعات و مسائل کو اردو غزل گو
شعرا نے پیش کیا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہاں ان میں سے چند موضوعات کا احاطہ
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عشق و محبت غزل کا بنیادی موضوع ہے۔ صوفیا کے یہاں بھی
عشق الہی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی وہ بنیادی وصف ہے جو سالک کو دنیا کے عیش و نشاط
اور رنج و الم سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اور اسے سلوک کے مختلف مقام سے گزارتا ہوا
فنا و بقا کی منزل سے ہمکنار کرتا ہے۔ لیکن یہ منزل یوں ہی نہیں مل جاتی۔بلکہ اس
منزل کے حصول کے لیے انھیں عشق مجازی کو زینہ بنانا پڑتا ہے۔ اس لیے صوفیا کے یہاں
عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔بقول ولی دکنی ؎
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
میر کہتے ہیں
؎
صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عشق سے بتوں کے مرا مدعا کچھ اور
بتوں کے حسن میں بھی شان ہے خدائی کی
ہزار عذر ہیں ایک
لذت نظر کے لیے
(اصغر)
تصوف میں وحدانیت کا مسئلہ خوب زیر بحث رہاہے۔ اس سلسلے
میں دو نظریے پیش کیے جاتے ہیں۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود۔انہیں ہمہ اوست اور
ہمہ از اوست بھی کہا جاتا ہے۔ان دونوں نظریات کے درمیان فرق کی وضا حت کرتے ہوئے
پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:
ـِِ’’ہمہ اوست اور ہمہ از
اوست کا بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک کثرت آرائی عالم کو عین ذات کہتاہے اور دوسرا
اسے مظہر صفات تو تسلیم کرتا ہے لیکن عین ذات قرار نہیں دیتا۔ پہلے کی رو سے
کائنات چونکہ وحدت کی تجلی ہے اس لیے کثرت ، حقیقی یا اصلی نہیں بلکہ واہمہ یا فریب
حواس ہے۔ہمہ از اوست کی رو سے کائنات کا ذرہ ذرہ چونکہ خالق کائنات کی تخلیق ہے اس
لیے عالم ظاہر غیر اصل ، موہوم یا معدوم نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔‘‘
(اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب، ص 243)
درج بالا نظریات کا اردو غزل نے بہت گہرا اثر قبول کیا۔خصوصیت
کے ساتھ وحدت الوجود کی جانب غزل کا میلان زیادہ رہا۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خدا کے
وجودی تصور کے تذکرے سے اردو غزل بھری پڑی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔بطور مثال چند
اشعار ملاحظہ ہوں ؎
عیاں ہے ہر طرف
عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر از دیدئہ حیراں نہیں جگ میں نقاب
اس کا
(ولی)
اس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہے
بے نمود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے
(سودا)
نظر میرے دل کی پڑی درد کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے
(درد)
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
(میر)
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ
کارخانہ ہے خدائی کا
(آتش)
بجز تمھارے کسی کا وجود ہو یہ محال
مگر تمھیں نظر آتے ہو ماسوا ہو کر
(آسی)
صوفیا کرام نے انسان دوستی اور رواداری پر بھی بڑا زور
دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک جب ماسوا کا کوئی وجود نہیںتو مذاہب کی
کثرت اور اس کے ظاہری رسم و رواج میں وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے۔ صوفیا کے نزدیک
ہستی مطلق تک پہنچنے کے لیے راستے الگ الگ ہیں لیکن سب کی منزل ایک ہے۔ صوفیا کا یہ
تصور مذہب کا کائناتی تصور پیش کرتا ہے۔ صوفیا کے انھیں تصورات کی بدولت اردو شعرا
نے اپنے کلام میں ان خیالات کو بڑی کثرت سے پیش کیا ہے اور عوام الناس میں انسان دوستی اور رواداری
کے پیغام کو عام کیا ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں ؎
کیا عرب میں کیا عجم میں ایک لیلی کا ہے شور
مختلف ہوں گو عبادات ان کا محمل ایک ہے
)میر(
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد تجھی سے تو ہے
گھر دیر و
حرم کا
)درد)
کس کو کہتے ہیں نہیں میں جانتا اسلام و کفر
دیر ہو یا کعبہ مطلب مجھ کو تیرے در سے ہے
(میر)
ہم موحد ہیں
ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
(غالب)
صوفیا کے نزدیک حسن اخلاق اور خدمت خلق کی بڑی اہمیت
ہے وہ کسی شخص کی دل شکنی کو گناہ عظیم
تصور کرتے ہیں۔دل چونکہ خدا کا مسکن ہے لہٰذا اس کا ٹوٹنا خانہ خدا کے منہدم ہونے
سے کم نہیں ہے۔ بلکہ کہیں کہیں دل کا توڑنا خانہ کعبہ کے منہدم کرنے سے بھی بڑا
جرم قرار دیا گیا ہے۔لہٰذا صوفیا نے اپنے اعلی اخلاق کے ذریعے جمہور کے دلوں کو
فتح کیا اور ان کے دلوں میں ایمان کی شمع
روشن کی۔ صوفیا کے ان تصورات کو اردو شعرا نے مختلف زاویوں سے پیش کیا
ہے۔جس کے باعث اردو شاعری کا دامن اخلاقی شاعری سے پر نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں
چند اشعار دیکھیں ؎
کعبہ اگر چہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ
بنا یا نہ جائے گا
(سودا)
درد دل کے واسطے
پیدا کیا انسان
کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
(درد)
کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھکو اتنا شوق
چال وہ بتلا کہ میں دل میں کسی کے جا کروں
(میر)
مذکورہ اشعار کے علاوہ اس قبیل کے بہت سے ایسے اشعار پیش
کیے جا سکتے ہیں جن میں مذہبی رواداری، اعلی انسانی اقداراور عظمت انسان کے
خوبصورت ترانے ملتے ہیں۔صوفیا کے یہاں عظمت انسان کاجو تصور ہے اس کی وضاحت کرتے
ہوئے پروفیسرمحمد حسن رقمطراز ہیں:
’’انسان
کا منصب یہ ہے کہ وہ رضائے خدا وندی کو خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت سے پورا کرے۔
اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو پہچانے۔ یہ سمجھے کہ خودی حق ہے۔
اس کا عرفان خدا کا عرفان ہے اور خدا کے عرفان کا طریقہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں
کہ اپنی خودی میں گم ہو کر اپنا عرفان حاصل کیا جائے۔خودی عین خدا ہے اس لیے چاہے یوں
کہہ دیجیے کہ سوائے خدا کے سب معدوم ہے یا یہ کہہ دیجیے کہ سوائے خودی سب معدوم
ہے۔اسی لیے عظمت انسان کے جو زمزمے صوفیوں کے یہاں ملتے ہیںوہ کسی اور کے یہاں نہیں
ملتے۔‘‘
(اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر، ص
251)
تصوف کے زیر اثراردو شاعری میں جبر و قدر کی بھی جھلک دیکھی
جا سکتی ہے ۔ اس کی رو سے مخلوق کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کی سی ہے۔وہ ہر کام
خالق کے اذن کے مطابق انجام دیتا ہے۔ یعنی وہ اپنے عمل پر کوئی اختیار نہیں
رکھتا۔اس تصور کے تحت شعرا نے جو اشعار کہے ان میں کہیں کہیں بے عملی اور جمود کی
کیفیت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں ؎
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
(میر)
آپ پر اپنا
اختیار نہیں
جبر ہے ہم پہ کس قدر دیکھو
(میر حسن)
تدبیر نہ
کر فائدہ
تدبیر میں کیا ہے
کچھ یہ بھی خبر ہے تری تقدیر میں کیا ہے
(ذوق)
فقر و استغنا صوفیا کرام کا خاص امتیاز ہے۔یہ وہ قوت ہے
جو انھیں خدا کے سوا سب سے بے نیاز کر دیتی ہے۔فقر صوفیا کے لیے کوئی مصیبت نہیں بلکہ فخر ہے۔اس کی
شان و عظمت کے آگے بڑے بڑے سلاطین کی گردنیں خم نظر آتی ہیں۔یہ شان فقر ہر شخص
کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ تصوف کا اثر رہا ہے کہ اردو شاعری میں فقر و قناعت
کے مضامین کثرت سے باندھے گئے ہیں۔بطور مثال چند اشعار پیش ہیں ؎
خوب کیا جو اہل کرم کے جود کا کچھ نہ خیال کیا
ہم جو فقیر ہوئے ہم نے پہلے ترک سوال کیا
(میر)
شاہ و گدا سے اپنے تئیں کام کچھ نہیں
نے تاج کی ہوس نہ
ارادہ کلاہ کا
(درد)
زنہار ادھر مت کھولیو
چشم حقارت
یہ فقر کی دولت ہے کچھ افلاس نہیں ہے
(درد)
اسی طرح اردو شاعری میںجگہ جگہ شیخ، واعظ، ناصح اور
محتسب وغیرہ پر طنز کرنا اور ان کی ریا
کاری و ظاہرداری کا مذاق اڑانے کا اندازبھی تصوف کا زائیدہ ہے۔تصوف چونکہ تزکیہ
باطن پر زور دیتا ہے اور عبادت میں اخلاص کا قائل ہے جب کہ واعظ، ناصح اور محتسب
وغیرہ مذہب کی ظاہری پابندیوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس لیے اکثر شعرا انھیںتحقیر و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔چند
اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا
کہ ہم نکلے
(غالب)
کون سا دام نہاں شیخ کے جامے میں نہیں
پیچ ایسا بھی کوئی ہے کہ عمامے میں نہیں
(ہلال)
حدیث و فقہ پڑھ کر شیخ بننا خوب ہے لیکن
زمین و آسماں کو دیکھ کر پہلے مسلماں ہو
(اکبر)
اس طرح سے غزل کے اور بھی ایسے موضوعات ہیںجن پر تصوف
کا رنگ غالب ہے۔ مثلاً پیر طریقت کی تقلید ،نفس کی تذلیل، صبر و رضا، فنا و بقا کی
کیفیات اور خمریات وغیرہ کا بیان۔ بقول غالب ؎
ہر چند ہو مشاہدئہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غرض کہ اردو شاعری خصوصاً غزل تصوف کے رنگ میں اس قدر
رنگی ہے کہ اگر تصوف کے موضوعات اور اسلوب اس سے الگ کر لیے جائیں تو اس کی صورت
مسخ ہو جائے گی۔
کتابیات
.1 تصوف اور اردو
شاعری:پروفیسر سید صفی حیدر دانش،سندھ ساگر اکادمی ، لاہور1948
.2 روح تصوف: سعیدخورشید
احمد گیلانی، فرید بک اسٹال اردو بازار، لاہور1981
.3 اردو غزل پر تصوف
کے اثرات: ڈاکٹر محمد اسلام رشیدی، گلوبل اردو کمپیوٹرس، رام گنج بازار، جے
پور2014
.4 اردو شاعری میں
تصوف میر اور درد کے عہد میں: ڈاکٹر نفیس اقبال، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 2007
.5 اردو شاعری کا تہذیبی
و فکری پس منظر: محمد حسن، نو دیپ آفسیٹ پرنٹرز، دہلی 1983
.6 اردو غزل اور
ہندستانی ذہن و تہذیب: گوپی چند نارنگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
2002
Dr. Jamshed Ahmad
Dept of Urdu
B.C. College,
Asansol- 713304 (WB)
Mob.: 9593664494
jamshed78@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں