11/9/24

عالمی تناظر میں تانیثی تنقید کے ابتدائی نقوش، مضمون نگار: غزالہ فاطمہ

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

پوری دنیا میں تانیثیت کا اظہار سب سے پہلے ادب کے ذریعے ہوا۔ ابتدائی دور میں مغرب میں تانیثی تحریک کی دو جہتیں عملی اور نظریاتی رہی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی تانیثی تحریک کے مقابلے میں فرانس میں تانیثیت کی تحریک نظریاتی اور ادبی انداز لیے ہوئے ہے۔ 1970کی دہائی میں فرانس میں تانیثی ادیبوں کا ایک پورا گروہ نظر آتا ہے۔ لیکن ان کے یہاں تانیثی تحریک کا عملی رجحان اس وقت کم نظر آتا ہے۔ ان کے تمام تر رجحانات علامتی اور زبانی انداز لیے ہوئے تھے۔ان لوگوں نے تانیثی ساخت کے رشتے پر بحث کی ہے اور بہت سے دیگر نکات بھی پیش کیے ہیں۔ دوسری طرف مغرب میںفیمنزم کا رخ سیاسی تھالیکن ادیب وہاں بھی تانیثیت کے حوالے سے کار ہائے نمایاں انجام دے رہے تھے۔اس طرح ادب میں ایک مکتب فکر نظر آنے لگا، جسے Feminist School of thought کہا گیا۔جس نے ادب کا مطالعہ تانیثیت کے نقطہ نظر سے پیش کرکے تانیثی تنقیدFeminist Criticismکی بنیاد ڈالی۔گویا تانیثی تنقید کی ایک جامع تعریف وجود میں آئی:

’’نسائی ادبی تنقید وہ ادبی تنقید ہے جو نسائیت کے نظریے سے روشنی حاصل کرے۔‘‘

(اردو ادب میں نسائی تنقید، عظمیٰ فرمان فاروقی،ص78)

انگریزی لغت کے مطابق ادبی تانیثی تنقید کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے:

"Feminist literary criticism is a litrary criticism informed by feminist" (A Dictionary of Feminist Theory (1989),Humm magic The women press. London)

مغرب میںتانیثی تحریک کو ایک ایسا ہی عمل قرار دیتے ہیں جس کا مقصد محض دنیا کی تفہیم کرنا ہی نہیں، بلکہ دنیا کو تبدیل کرنا بھی ہے گویا تانیثی تنقید کا بنیادی مقصد قاری کے ذہن کو تبدیل کرنا ہے اور متن سے قاری کے رشتے کو تبدیل کرنا ہے۔ کیونکہ اسی تبدیلی کے ذیعے دنیا کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

مغرب میں تانیثی تنقید کی تاریخ پر غور کیا جائے تو بعض لوگ اس کا رشتہ افلاطون سے جوڑ دیتے ہیں، لیکن باقاعدہ طور پر مغرب میں تانیثیت کی پہلی اہم کتاب سیمون دی بوار کی کتاب "The Second Sex" کو کہاگیا ہے۔جس نے نسائیت کا رشتہ وجود یت سے قائم کیا۔اس کے بعد ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے تانیثی تنقید کا رشتہ تحلیل نفسی اور مارکسزم کے بعد جدیدیت اور ساختیات سے بھی قائم ہو گیا۔ما بعد جدیدیت نے تانیثی تنقید کو ایک نیا زاویہ دیا اور تانیثی تنقید نگاروںکی توجہ ساختیات کی طرف مبذول کرائی اور شعر و ادب کی رد تشکیل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنس کے تصور کو مستحکم کرنے کاایک بڑا ذریعہ زبان ہے۔

مغرب میں نسائی تنقید کے ارتقا کو Wave concept کے ذریعے بیان کیا گیا ہے ،لیکن آگے چل کر Wave concept پر یہ اعتراضات کیے گئے ہیں کہ اس تصور میں نشیب و فراز کا تعین تانیثیت کی عملی اور سیاسی جد وجہد کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔جس دور میں تانیثیت کی عملی اور سیاسی جہد و جہد عروج پر تھی اسے فراز کادور قرار دے دیا گیا۔جس دور میں تانیثیت کی عملی اور سیاسی جد وجہد کی رفتار کم ہے اسے نشیب قرار دے دیا گیا ہے۔ ایلن شوالٹر نے اپنی کتاب The New Feminist Criticism میں مغرب میں ادبی تانیثی تحریک کو تین دورمیں تقسیم کیا ہے۔ 

پہلے دور کو شوالٹر اپنی کتاب میںFeminist Criticismکانا م دیتی ہیں۔اس دور میں ادب کا جائزہ تانیثی نقطہ نظر سے لیا گیا ہے۔

دوسرے دور میں شوالٹر نے Gynocriticism کی اصطلاح استعمال کی ہے۔اس میں متن کی تعبیرو تفہیم اور عورتوں کے انفرادی و اجتماعی ادبی کاموں کے ارتقا کا مطالعہ عورت خودہی اپنے نقطہ نظر سے اپنے معیارپر کرتی ہے۔

تیسرے دور میں شوالٹر Gender theoryکی بات کرتی ہے کہ Gender سے متعلق تصورات ادب کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں تانیثی تنقید کا اصل موضوع یہ ہے کہ جنس اور ادب ایک دوسرے پرکس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

شوالٹر کے علاوہ دوسرے نقاد وں نے بھی تانیثی تنقید کے ارتقا پر اپنی رائے پیش کی ہے۔مغرب میں تانیثی تنقید کو ایک سماجی علم کی حیثیت حاصل ہے،جس کی جہات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اسی طرح اردو میں تانیثی تنقید بھی ایک الگ حیثیت کی حامل ہے۔

تمام تنقیدی دبستانوں کا رشتہ کسی نہ کسی شکل میں مغربی تنقید سے جا ملتا ہے۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اردو تنقید نے مغربی تصورات، فلسفے اور تحریکوں کا اثر ضرور قبول کیا ہے لیکن صرف وہی رجحانات آگے بڑھے اور پھلے پھولے جو سماج اور یہاںکی تہذیب سے اپنا رشتہ قائم کر سکے۔مغرب سے اثر قبول کرنے کے باوجود بھی اردو تنقید کا اپنا الگ مقام اور مزاج ہے۔ اردو کا ہر نقاد مغربی تنقید کے کسی نہ کسی خانے میں ضرور آتا ہے لیکن بہت سے نقاد ایسے بھی ہیں جو بیک وقت تنقید کے کئی دبستانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اردو کے ناقدین و ادیب مغربی خیالات و نظریات کو من وعن قبول نہیں کر سکتے۔انفرادی ذوق اور اجتماعی فکر و تہذیب کے زیر اثر ہر نقادمغربی نظریات کا مطالعہ کرتا ہے اور انھیں پرکھتا ہے اور پھر اپنے نظام فکر کا جز و بناتا ہے۔ اس لیے رومانیت ہو یا مارکسزم، ترقی پسندی ہو یا جدیدیت،اردو کا ہر دبستان تنقید اپنا مزاج رکھتا ہے جو مغرب کی مارکسیت، رومانیت اور جدیدیت سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہی صورت تنقید کے تانیثی دبستان کی بھی ہے۔

اردو تانیثی تنقید کا دبستان تما م تنقیدی دبستانوں سے مختلف بھی ہے اور ان دبستانوں کے نظریات سے متاثر بھی ہے۔ اردو کی تانیثی تنقید جس معیار پر ادب کو جانچتی اور پرکھتی ہے وہ نہ صرف خالص جمالیاتی ہے نہ مادی اور نہ ہی صرف ساختیاتی یا نفسیاتی ہے۔تانیثی ناقدوں کے نزدیک کسی ادب پارے کو پرکھنے کا معیار تو یہ ہے کہ وہ ادب پارہ دنیا میں صنفی امتیاز اور عورت کی محکومی کے خاتمے کے لیے کتنا معاون و مددگار ہے۔سماجی رشتوںکی نوعیت کسی فن پارے میں کیا نظر آتی ہے۔ شاعر اور ادیب ان پدری معاشرے کو تقویت بخشتا ہے یا پھر معاشرے کی درجہ بندی میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔چونکہ سماجی رشتوں کی تبدیلی اور پدری نظام کے خاتمے کی جد وجہد ایک جنگ کی طرح چھڑی ہوئی ہے۔جس میں علم نفسیات، اقتصادیات، لسانیات، اسلوبیات جیسے تمام علو م سے استفادے کی ضرورت ہے۔ اس لیے تانیثی نقاد کسی بھی ادب پارے میں موجود مادی، جمالیاتی یا تہذیبی اقدار کو غیر اہم نہیں قرار دیتے بلکہ ان سب اقدار کو وہ عورتوں کے حق میں استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں۔

اردو میں تانیثی تنقید کو سمجھنے اور اس پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا وہ تمام تنقیدی کام جو خواتین نے سر انجام دیے وہ تانیثی تنقید میں شمار ہوں گے یا صرف وہ تنقید ’تانیثی تنقید‘ کہلائے گی جو فیمنزم کے شعور اور فیمنسٹ نقطہ نظر کے شعوری احساس کے ساتھ تحریرکی گئی ہے۔ اس سلسلے میں فیمنسٹ حلقوں میں اختلاف موجود ہے۔ ایک حلقہ کا کہنا ہے کہ وہ تمام کام تنقیدی یا تخلیقی، جو عورتوں نے سر انجام دیے انہیں تانیثی قرار دینا چاہیے کیونکہ ان سب کاموں میں کہیں نہ کہیں اس حسیت اور شعور کا اظہار ہوتا ہے جسے نسائی حسیّت یا نسائی شعور کہتے ہیں۔ ان کا لہجہ اور زبان کہیں نہ کہیںان کے عورت ہونے کی غمازی کر جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عورتوں کے ہاتھوں سر انجام پانے والے تمام تخلیقی و تنقیدی کام نسوانی تو کہے جا سکتے ہیںلیکن تانیثی نہیں۔ تانیثی تو صرف وہی کام ہوں گے جن کے پیچھے عورتوں کے حقوق کے لیے شعوری کوشش نظر آئے گی۔اب چاہے وہ کام عورتوں نے سر انجام دیے ہوں یا مردوں نے۔

اردو ادب میں جہاں تک تنقیدی کا رناموں کا تعلق ہے جو عورتوں نے تنقیدمیں انجام دیے ہیں اس سلسلے میں پہلا نام ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ کا آتا ہے جنھوں نے1940 میں اردو ناول پر مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے پر انہیں لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی۔اس کے بعد بہت سی خواتین منظر عام پر آئیں جنھوں نے نہ صرف مقالے تحریر کیے بلکہ اعلیٰ درجے کی محقق و ناقد بھی ثابت ہوئی ہیں۔ ان میںبہت اہم نام ڈاکٹر سیدہ جعفر،ڈاکٹر ثریاحسین، ڈاکٹر میمونہ انصاری، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، پروفیسر وحیدہ نسیم،ممتاز شریں، ڈاکٹر آمنہ خاتون، ڈاکٹر فہمیدہ بیگم وغیرہ کا ہے۔

تانیثی نقطہ نظر جو اب تک تخلیقی ادب میں زیادہ نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پچھلے 25,30سالوں میں تنقید میں بھی واضح ہو کر سامنے آیا ہے اور تنقید کے نسائی دبستان کے خد وخال اب خاصے صاف نظر آنے لگے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی نے تانیثی تنقید کے تین درجات متعین کیے ہیں:

پہلادرجہ:تانیثی تنقید کا ادنیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ عورتوں کی تحریروں کو بجائے خود اہم اور لائق مطالعہ قرار دے کر ان کا مطالعہ کیا جائے۔

دوسرادرجہ: تانیثی تنقید کا دوسرا درجہ یہ ہو سکتا ہے کہ مردوں کے بنائے ہوئے متون کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے کہ ان میں عورتوں کے بارے میں کیا تصورات اور اصول شعوری طور پر پیش کیے گئے ہیں۔

تیسرا درجہ: تانیثی مطالعات کا اگلا درجہ یہ ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے بنائے ہوئے متون کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے کہ ان میں عورتوں کے بارے میں کس قسم  کے تصورات، مفروضات اور نظریات پیش کیے گئے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی کی درجہ بندی کو مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیوں کہ انھوں نے اس درجہ بندی میں یہ نہیں بتایا کہ وہ درجہ بندی کن بنیادوں پر کرنی ہے۔ کیونکہ تانیثی نقطہ نظر سے عورتوں کی تحریروں کو بجائے خود اہم اور لائق سمجھنے کی تاریخ میں اصل مقام دلانا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی عورتوں کے بارے میں رائج تصورات، مفروضات، اورنظریات کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ دونوں کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی نے جو درجہ بندی کی ہے تانیثی تنقید انھیں تین مراحل سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔

اردو میں تانیثی تنقیدکی پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ عورتوں کی تخلیقات کو ادب میں وہ اہمیت حاصل ہوسکے جس کی وہ حقدار ہیںلیکن وہ انھیں اب تک مل نہ سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کی تمام تاریخ ایک لمبے عرصے تک خواتین کے نام اور کارناموں سے خالی نظر آتی ہے۔چند شہزادیوں کے علاوہ علم و ادب کی دنیا میں خواتین کا نام نظر نہیں آتا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ذہنوں میں یہ سوالات سر اٹھاتے ہیں کہ کیا خواتین اس قدر کند ذہن اور تخلیقی صلاحیت سے عاری تھیں کہ علمی و ادبی کام ان کی دسترس سے باہر تھا؟ جب ایسے سوالات کے جوابات تلاش کیے گئے تو معلوم ہوا کہ میر تقی میر کی بیٹی بھی شاعرہ تھیںلیکن میر نے اپنے تذکرے نکات الشعرامیں ان کو جگہ نہیں دی۔اس سے اس بات کا تو پتا چل ہی جاتا ہے کہ خواتین اٹھارہویں صدی میں بھی شعر کہنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ لیکن تاریخ نے انھیں فراموش کر دیاـ۔ اس لیے آج کے تانیثی تقاد ایک طرف تو تاریخ میں خواتین کے گمشدہ ناموں کی تلاش کر رہے ہیںتو دوسری طرف تاریخ میں موجود عورتوں کے کارناموں کو ان کا صحیح مقام دلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی کے دوسرے درجے کی تنقید یہ سوال کرتی ہے کہ کیا عورتوں اور مردوں کے لکھے ہوئے متون کا مطالعہ تانیثی نقطہ نظر سے کیا گیا ہے اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس طرح کی تنقید کی بہت سی مثالیں اردو ادب میں موجود ہیں کہ ان متون میں عورتوں کے بارے میں کیا نظریات اور مفروضات قائم کیے گئے ہیں۔ مثال کے لیے چند تحقیقی و تنقیدی کتابیں دیکھتے ہیں:

.1       پریم چند کے ناولوں میں تانیثی کردار: داکٹر شمیم نکہت

.2       کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی کردار: ماہ نور زمانی بیگم

.3       نذیر احمد کے ناولوں میں نسوانی کردار: بشیر زینت

.4       اردو ناول میں عورت کا تصور: فہمیدہ کبیر

.5       عورت اور اردو زبان: وحیدہ نسیم

.6       اردو افسانے میں عورت کا تصور:عصمت جمیل

.7       اردو ناول میں تانیثیت: عقیلہ جاوید

.8       تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول: شبنم آرا

.9       اردو ناولوں میں تانیثیت: حمیرہ سعید

.10     پریم چند کے ناولوں میں خواتین کے مسائل کی عکاسی: ڈاکٹر سیما فاروقی

.11     مرزا رسوا کے ناولوں کے نسوانی کردار: ڈاکٹر توحید خان

.12     اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ: قیصر جہاں

.13     بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب: ترنم ریاض

مذکورہ بالاکتابوں میں چند مسبوط عنوانوں کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں اور غیر مطبوعہ مقالات ایسے ہی موضوعات پر موجود ہیں۔بہت سے مضامین بھی ان موضوعات پر مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ مضامین اس اعتبار سے بے حد اہم ہیں کہ پچھلے25,30 سالوں میں اردو تنقید میں تانیثی رجحان بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔تانیثی تنقید کے رجحان کی ترقی بیشتر مضامین کے ذریعے ہوئی ہے۔ان 25,30 سالوں میں تانیثی تنقید کے حوالے سے جو نمایاں نام ہندوستان و پاکستان میں نظر آتے ہیںان میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض،  زاہدہ حنا،فاطمہ حسن، یاسمین حمید، تنویر انجم، شاہین مفتی،صغرا ہمایوں، قمر جہاں، نکہت جہاں، آمنہ تحسین، ترنم ریاض، نسترن احسن، سیما صغیر، ارجمند آرا، شہناز نبی، صادقہ نواب سحر، نیلم فرزانہ، حمیرہ سعید، شبنم آرا، سعدیہ اقبال، وغیرہ شامل ہیں۔یہ تو صرف خواتین کے نام تھے ان کے علاوہ اس زمرے میں بہت سے مردوں کے بھی نام شامل ہیں مثال کے طور پر شمس الرحمن فاروقی، عتیق اللہ، قاضی افضال،ابولکلام قاسمی،مرزا خلیل بیگ،ڈاکٹر آصف فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، ناصر عباس نیر، مرزا حامد بیگ،  حقانی القاسمی،  مشتا ق احمدوانی وغیرہ کچھ ایسے نام ہیں جنہوں تانیثی تنقید کی طرف خاص توجہ دی ہے۔

اردو ادب میں یوں تو تانیثی ادبی تنقید کا ایک الگ رجحان و مزاج ہے لیکن تنقید کے دوسرے دبستانوں کی طرح تانیثی تنقید کا رشتہ بھی مغرب کی تانیثی تنقید سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔لیکن ہمارے ادیبوں اور ناقدوں نے اپنے انفرادی ذوق اور افتاد طبع کے مطابق اسے اپنایا ہے اور اردومیں اسے برتا بھی ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس عہد میں جو ایک بدلائوپوری دنیا میں رونما ہوتا نظر آرہا ہے وہ یہ کہ علوم و فنون کی باگ ڈور آنے والے دنوں میں عورتوں کے ہاتھ میں آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔پوری دنیا میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا آنے والا وقت عورتوں کا ہوگا۔ اس تناظر میں لوگ Women studies,Gender studies,feminism کی طرف متوجہ ہو رہے ہیںاور اپنی سوچ،فکر و فلسفے کے مطابق رائے بھی پیش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تانیثیت کی بہت سی قسمیں وجود میں آچکی ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں موجودہ دور میں تما م مکتب فکر اپنے دائرہ کار اور فلسفے کے مطابق عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرر ہے ہیںاور آنے والے وقت کے لیے خو دکو تیار بھی کر رہے ہیں۔اگر ہم اس بات کا جائزہ تنقید کے حوالے سے لیتے ہیں تو جدیدیت، مارکسیت، سائنٹفک، نفسیاتی، جمالیاتی،تمام مکتبِ فکر کے ناقد تانیثیت کو اپنے مزاج و فلسفے کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی فیمنزم کا رشتہ جدیدیت سے جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

 ’’تانیثیت کو مارکسی طرز فکر سے ہمدردی نہیں کیونکہ مارکسی فکر میں طبقاتی تقسیم کا نظام عورت کے الگ وجو کو تسلیم نہیں کرتا...تانیثیت اور تحلیل نفسی یا فرائڈ کی فکر بھی کوئی خاص ہم آہنگی نہیں رکھتی کیونکہ فرائڈ کی فکر تمام انسانی معاملات و تعلقات کو مرد کی جنسیت سے منسلک کرتی ہے۔‘‘

(تانیثیت کی تفہیم، شمس الرحمن فاروقی،مشمولہ کسوٹی جدید نسائی ادب نمبر 2014 اپریل تا ستمبرص18)

مندرجہ بالا بیان کے پیچھے وہ تمام نظریات کار فرما ہیں جن کے تحت مارکسزم اور فرائڈ کی فکر سے الگ ایک نظریہ ہے۔مارکسزم کے نظریے کے تحت طبقاتی تقسیم کو مٹا دینا عورتوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ نہ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔عورتوں کی آزادی کے لیے اور ان کی محکومی ختم کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ عورتوں کے مسائل کو الگ کرکے دیکھا جائے اور اس پر غورر فکر کیا جائے۔

تانیثی تحریک کو تہذیبی،مذہبی،سماجی و معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تانیثت عورت ذات کی حامی رہی ہے،اس نے طبقہ نسواںکے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی ہے اور غالب معاشرے پر مبنی اصولوں کی نفی بھی کی ہے۔کیونکہ یہی وہ اصول ہیں جو عورت اور مرد کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہیں۔تانیثی نظریات کا احاطہ کرنے کے لیے مغربی ادب، تاریخ اور فلسفے کا مطالعہ ناگزیر تھا۔ اردو میں اب تک اس نوعیت کی بحثوں کے سلسلے کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔اردو ادب میںتانیثی ادب سے دلچسپی کا آغاز بیسویں صدی کے نصف اول میں ہوچکا تھااور خواتین ادیبائوںکی تخلیقات توجہ کا باعث بننے لگی تھیں۔

قدیم مذاہب اور ممالک میں عورتوں کولے کر الگ الگ رائے اور خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ کسی نے عورت سے بچ کے رہنے کی تلقین کی تو کسی نے اسے ڈائن چڑیل فتنہ پرور،شیطان کی بہن،سکون و چین کی دشمن تو کسی نے جانور تک کہہ دیا ہے۔لیکن اسلام نے عورت اور مرد کو برابری کے حقوق دیے ہیں۔اسلام نے عورت کوتعلیم کا حق، مال و جائداد رکھنے کا حق،تجارت کرنے کا حق اور تنقید و احتساب کا بھی حق دیا۔بدھ مذہب نے بھی عورتوں کوتعلیم کا حق دیا گوتم بدھ نے ایک ایسی عورت کی خواہش ظاہر کی جو پڑھی لکھی ہو اسے شاعری آتی ہواور وہ شاستروں کے قانون سے واقفیت بھی رکھتی ہو۔ اس کے بعد آگے چل کر مختلف ممالک کے علما، مفکرین اور فلاسفروں نے بھی سماج میںعورت کی حیثیت کو قبول کیا اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جسے آگے چل کر تانیثیت کا نام دیا گیا۔

تانیثت کے حوالے سے اولیت کا سراغ مغرب سے ہی ملتا ہے۔تانیثیت کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہم کو مغربی حوالوں کو دیکھنا ہوگا۔تانیثیت بحیثیت تحریک بھی سب سے پہلے مغربی ممالک میں ہی نظر آتی ہے۔مغربی مصنفین نے تانیثی تحریک کوکئی ادوار میں تقسیم کیا ہے اوراسےWaves کا نام دیاگیا ہے۔ماہرین نے اسے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے جس سے تانیثیت کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو آسانی سے سمجھ سکیں۔یہ ضروری نہیں ہے دنیا کے تمام ممالک میں تانیثیت کا ارتقائی سفر یکساں طور پر طے ہوا ہو۔اس لیے ضروری نہیں ہے کہ یہ تقسیم زمانی اعتبار سے تمام ممالک میں ایک جیسی ہو۔لیکن دھیرے دھیرے تانیثیت کا سفر طے ہوتا گیا اور ساتھ ہی عورتوں میں تعلیمی سلسلہ بھی شروع ہوا جس سے انہیں،معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر آزادی بھی ملی۔ یوں تو تانیثیت کے ابتدائی نقوش فرانس کے تخلیق کاروں کے یہاں ملتے ہیں۔لیکن تانیثیت کی سب سے توانا آواز برطانوی خاتون میری وال اسٹون کرافٹ کی تھی۔بر طانیہ میں عورتوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں نے تحریک کی شکل جلد ہی اختیار کر لی اور دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔لیکن اس سے پہلے بھی فرانس اور جرمنی میں عورتوں کے حقوق کے لیے آوازیں اٹھائی جانے لگی تھیں۔ تانیثیت کا پہلا دور First Wave انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل پر محیط ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مساوی حقوق کے لیے آوازیں بلند ہوئیں۔تانیثیت کا دوسرا دوریعنی Second Wave 1960 سے1970تک مانا جاتا ہے۔اس دور میں عورتوں کی سیاست اور ملازمت میں حصے داری کے لیے آواز بلند کی گئی  ۔ تانیثیت کا تیسرا دورThird Wave 1990 سے اکیسویں صدی کے اوائل تک ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کو تانیثیت کے چوتھے دور کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔تانیثیت کا چوتھا دور پوری طرح سے Digital ہو چکا ہے جس میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و استبداد کو چھپانا مشکل ہو گیا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے عورتوں پر ہونے والے مظالم چند منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور Social Media پلیٹ فارم جیسے کہ Facebook,Twitter, Instagram, whatsApp کے ذریعے لوگوں کی رائے جاننا اور ہم خیال بنانا آسان ہو گیاہے۔

 

Dr. Ghazala Fatma

Asst. Professor (Guest)

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Cell.: 7530972798

ghazalaamuu@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...