ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024
بیانیات مطالعۂ متن کا وہ وسیع تناظر فراہم کرتا ہے جو
متن کے ساختیاتی عناصر کو ان کے جدلیاتی تفاعل کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ بیانیہ کا
دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ آج اس کا اطلاق انسانی زندگی کے ہر شعبہ علم پر ہوتا
ہے۔ رولاںبارتھ بیانیہ کی ہمہ گیر آفاقیت کے متعلق کہتا ہے کہ ’’یہ ہیئتوں کے
لامتناہی تنوع میں تو ہوتا ہی ہے اس کے علاوہ بیانیہ ہر عہد میںہر مقام پر اور ہر
سماج میں وجود رکھتا ہے۔‘‘
(بیانیہ کا ساختیاتی تجزیہ : ایک تعارف از
رولاںبارتھ، مشمولہ رسالہ تنقید، شعبہ اردو علی گڑھ، 2011 ص64)
ہر بیان دو قسم کی نمائندگی سے مل کر متشکل ہوتا ہے جو
مختلف تناسب میں ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوتے ہیں۔ایک طرف عمل اور واقعات کی
نمائندگی ہے جو اپنے خالص مفہوم میں بیانیہ ہے اور دوسری طرف اشیا و کرداروں کا بیان
جو روئداد اور تفصیل کا نتیجہ ہے۔
ادب کی کوئی بھی صنف نمائندگی کے انھیں دو وسیلوں سے
تشکیل پاتی ہے ایک بیانیہ طریقۂ کار اور دوسرا کسی مخصوص صورت حال سے پیدااحساس و
کیفیت کا روئدادی بیان۔ نثر کے بجائے شاعری کی تخلیق کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ نثری
اصناف کی تعمیر میں واقعے کا بیان/واقعے کی تشکیل کو خصوصی اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ
کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ واقعے کی تشکیل ہی ان اصناف کے شناختی اوصاف کے تعین کا ایک
اہم وسیلہ ہے۔
انسانی زندگی کے روز مرہ واقعات و حادثات، زندگی کی
کشمکش اور عام انسانی تجربات کو تخلیق کار اپنے تخلیقی شعورکی بھٹی میں تپا کر
قلبِ ماہیت کے بعد تخلیق کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ لیکن شاعری میں
خصوصاً صنفِ غزل میں (جس کی ہیئت شاعر/تخلیق کار کو اتنا وسیع کینوس فراہم نہیں
کرتی جیسا کہ نثر خصوصاً افسانوی نثر کے خالق کو میسر ہوتی ہے) واقعات و تجربات کے
بجائے ان کا تاثر یا کیفیت مرکزی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی لیے شاعر کا سروکار بنیادی طور پر
واقعات و واردات سے پیدا کردہ اسی احتساسی کیفیت کے ابلاغ و ترسیل سے ہے نہ کہ
واقعات کے بیان سے۔ لیکن شعری متون کا بیانیاتی مطالعہ شعر میںخلق کردہ احتساسی
تاثر یا کیفیت سے واقعات کی دریافت اورمعنی کی تفہیم کے مراحل کو مستحکم بناتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شاعری میں بیانیہ کی
صورتِ حال ، تخلیقی نثر (مثلاً : افسانہ ، ناول) کے بیانیہ سے مختلف ہوتی ہے۔
شاعرکسی کہانی کا بیان نہیں کرتا بلکہ وہ واقعات اور واردات کے بجائے اس سے پیدا
ہونے والی جذباتی و نفسیاتی کیفیت کا بیان کرتا ہے۔یعنی شاعر کا سروکار بنیادی طور
پر اس دیرپا احتساسی کیفیت کے ابلاغ و ترسیل سے ہے۔ اسی لیے غزل / نظم کے بیانیے میں
واقعات کے بیان کی وہ صورت نہیں پائی جاتی جو افسانوی بیانیے کا خاصہ ہے۔ غزل /
نظم کے متن(ڈسکورس) میں راوی وہ امکانی دنیا خلق کرتا ہے جس میں ذہنی واقعات (Mental event) تشکیل پاتے ہیں۔ دوسرے
لفظوں میں متن کی قرأت کے دوران ہی ان ذہنی واقعات سے قاری کا سابقہ پڑتا ہے جن
سے پیدا ہونے والے احساسات و کیفیات کا بیان ہی شاعری میں مرکزی حیثیت اختیار کر
جاتا ہے۔ یہی وہ وصف ہے جس کے ذریعے شعری بیانیے اور نثری بیانیے کے مابین خطِ امتیاز
کھینچا جاسکتا ہے۔
قرأت کے دوران قاری کا صرف ان ذہنی واقعات سے سابقہ ہی
نہیں پڑتا بلکہ وہ ان واقعات کی تشکیلِ نو بھی کرتا ہے۔ جسے بیانیے کی زبان میں Fabulaکہہ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت
بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ غزل / نظم کے ڈسکورس سے
پہلے کیا ہوا اور اس کے بعد کیا ہوگا بلکہ دیکھنایہ ہے کہ متن کے مطالعے کے دوران
راوی/شاعر کی مخصوص ذہنی کیفیت /تخیل میں اصلاً کیا ہو رہا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غزل /نظم میں پلاٹ کی
صورت کیا ہوگی؟جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ ذہنی واقعات کی تشکیلِ نو شاعری میں fabulaکو قائم کرتی ہے۔ پلاٹ کا
تصور بھی انھیں ذہنی واقعات سے مشروط ہوگا۔ یہ شعری واقعات، یادداشت یا کچھ صورتوں
میں منتشر خیالات (منتشر خیالات،ان معنوں میں کہ وہ کہانی کی سطح پر نہیں بلکہ راوی/شاعر
کے ڈسکورس کی سطح پر) کی صورت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے میں غزل / نظم کے مصرعے
کی تقطیع(Breaking of lines) ان
کے درمیان کا فاصلہ، جسے قرأت کے دوران قاری اور راوی مل کر ذہنی واقعات کے ذریعے
پُر کرتے ہیں، پلاٹ کی تشکیل کرتے ہیں۔
m
مذکورہ تصور کی روشنی میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے
مروجہ دیوان کی پہلی غزل کا بیانیاتی مطالعہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب کے مروجہ دیوان میں شامل پہلی غزل کا مطلع ہے۔ اس
شعر کا بیانیہ واحد غائب راوی کی زبان میں تشکیل دیا گیا ہے۔ شعر کے پہلے مصرعے میں
ایک فعل ’فریادی ہے‘ کا استعمال ہوا ہے۔ فعل کا بیان ہی شعر میں ایک صورتِ حال کی
تبدیلی کا اشارہ ہے اور یہ تبدیلی واقعے کی تشکیل اور بیانیہ کی موجودگی کو مستحکم
بناتا ہے۔ ظاہر ہے اس فعل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا بھی ہوگا جسے ہم بیانیہ کی
زبان میں کردار کہتے ہیں۔ شعر کا یہ ٹکڑا کہ ’نقش فریادی ہے‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ
نقش اس واقعے میں بطور کردار موجود ہے۔ راوی یہ سوال قائم کرتا ہے کہ یہ جو نقش ہے
وہ کس کی شوخیِ تحریر کا فریادی ہے۔ جب کہ یہ بھی ظاہر ہے کہ راوی اس نقش کے خالق
اور اس کی تخلیقی ہنرکاری کے متعلق بھی آگاہ ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں راوی اسی
نقش سے متعلق لوازمات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ ہر پیکرِ تصویر کا
پیراہن کاغذ کا ہے۔ یعنی ہر تصویر کاغذ کے لباس میں ملبوس ہے۔ اب اگر ہم شعر کے بیانیہ
میں مستعمل Signifiers کو
ایک ساتھ رکھ کر دیکھتے ہیں تو نقش، تصویر، تحریر اور کاغذ ایک دوسرے سے مربوط ہو
کر ایک بیانیہ خلق کرتے ہیں۔ کہ کاغذ پر کسی محرر نے اپنی ہنر کاری سے نقش تشکیل دیے
ہیں۔لیکن راوی بیان کرتا ہے کہ نقش اپنے خالق کی ہنرکاری پر فریادی ہے۔ اس سے یہ
بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ محرر کے تحریر کی ہنرکاری کو کسی نے سراہا نہیں ہے اسی لیے
وہ فریادی ہے۔ سوال قائم ہو سکتا ہے کہ تشکیلِ نقش کی فن کاری اور خود خالق/محرر کی
مضمر ہنرکاری کا معنی کہاں سے قائم کر لیا گیا۔ جب کہ شعر کے بیانیہ میں اس کا کوئی
ذکر موجود نہیں ہے۔ اس بات کا جواب یہ ہوگا کہ نقش کا فریادی ہونا ہی اس معنی کی
موجودگی کا محرک ہے۔ کوئی فریادی جب اپنی فریاد لے کر حاضر ہوتا ہے تو اس کی کوئی
نہ کوئی ایسی حاجت ہے جو پوری نہیں ہوئی ہے اور وہ اس کی تکمیل کا خواہش مند ہے اس
لیے فریادی کے لہجے میں عجز و انکساری بھی شامل ہوگی نہ کہ طنز یا کوئی دوسرا
لہجہ۔ اس طرح شعر کے بیانیہ میں موجود واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے
کاغذ پر بڑی ہی فن کاری سے نقش تحریر کیے لیکن کسی نے نہ تو اس نقش کی تخلیقی قوت
اور نہ ہی اس کے خالق کی ہنر کاری کو سراہا جب کہ یہ اس کا حق تھا کہ نقش میں مضمر
ہنرکاری اور محرر کی شوخیِ تحریرکی تعریف کی جانی چاہیے ؎
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیرکا
مذکورہ شعر کا بیانیہ واحد متکلم راوی کی زبانی تشکیل دیا
گیا ہے۔ پہلے شعر میں تین افعال کاو، کاو اور پوچھناکا استعمال ہواہے۔ شروع کے دو
افعال شعر میں موجود Signifier سخت
جانی کے ساتھ متصل ہیں اور تیسرا فعل پوچھنا تنہائی کے ساتھ لایا گیا ہے۔پہلے
مصرعے میں متکلم راوی کے اندازِ تکلم سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کسی شخص نے
متکلم سے تنہائی/فراق کی کیفیت کے متعلق سوال کیا ہے۔ ظاہر ہے صنفِ غزل کی روایت
کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ہجر و فراق کی کیفیت غزل کے ان دو کرداروں سے منسلک ہے
جسے عاشق اور معشوق کہا جاتا ہے۔ جب معشوق عاشق سے جدائی اختیار کرلے یا کسی سبب
وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اسی دورانیہ کو ہجر/فراق کہا جاتا ہے۔ کلاسیکی
غزل کی روایت میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ محبوب کی جدائی میں عاشق بہت تکلیف
اور پریشانی میںاپنا وقت گزارتا ہے۔ اسی کیفیت کی شدت کے بارے میں مخاطب سوال کرتا
ہے۔ پہلے مصرعے کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم کردار تنہائی کی کیفیت سے دو
چار ہے۔ یہ ایک صورتِ حال کا بیان ہے۔ اس صورتِ حال میں تبدیلی مخاطب/قاری کے سوال
سے واقع ہوتی ہے اور متکلم کے ذریعے تنہائی کی کیفیت کا بیان واقعے کی تشکیل کرتا
ہے ساتھ ہی دوسرے مصرعے میں جوئے شیر کا
Signifier ماضی میں واقع ایک تاریخی/تخئیلی واقعے کی
تشکیل کرتا ہے۔ اس طرح یہ دونوںواقعات غالب کے اس شعر میں پلاٹ کی تشکیل کو مستحکم
بناتے ہیں۔ مخاطب کے سوال پر متکلم راوی بیان کرتا ہے کہ ہائے اس تنہائی/فراق کے
متعلق کچھ بھی دریافت نہ کر یعنی کہ یہ کیفیت برداشت کے قابل نہیں کیونکہ اس مصیبت
کو برداشت کرنے کی تمام کوششیں اور کاہشیں بڑی دقت آمیز اور دشوار کن ہیں۔ دوسرے
مصرعے میں موجود جوئے شیر لانے کے واقعے کے ذریعے متکلم کردار اس کیفیت کی تکلیف
دہ شدت کا موازنہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے۔ تنہائی کی صورتِ حال میں دن اور رات کا
گزارنا/ کاٹنا اس قدر دقت آمیز اور دشوار کن ہے جیسے جوئے شیر لانا فرہاد کے لیے
ایک دشوار کن مرحلہ تھا۔ صبح کے ساتھ کرنا اور شام کے ساتھ لانا کا فعل استعمال
کرکے غالب نے اس کیفیت کی شدت کو اس کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ گویا تنہائی میں یہ
دونوں ہی اوقات اس پر گراں گزرتے ہیں۔ صبح کرنا سے مراد یہ کہ جب رات کے لمحوں میں
تکلیف کی شدت بڑھ جاتی ہے اور رات پہاڑ کی طرح معلوم ہونے لگتی ہے تو دل کی قوتِ
برداشت ختم ہونے لگتی ہے۔ تو یہی انتظار ہوتا ہے کہ بس جلدی سے صبح ہو جائے اور اسی
کیفیت میں پوری رات گزرتی ہے۔ لیکن جب صبح ہو جاتی ہے اور رات کی طرح دن کا گزارنا
مشکل ہو جاتا ہے تو خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح رات ہو جائے۔ گویا تنہائی میں سخت
جانی کی یہ جاں کاہ کیفیت مسلسل قائم رہتی ہے اور وقت کے گزران کے ساتھ اس شدت میں
اضافہ ہوتا جاتا ہے ؎
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
٭ (اس
شعر کے بیانیہ میں راوی کا انتخاب ایک مشکل عمل ہے۔ شعر میں غائب یا متکلم دونوں ہی
راویوں کو الگ الگ منتخب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دم شمشر کا سینۂ شمشیر سے باہر
نکلنے کی کیفیت کا تجربہ متکلم راوی کے بیان سے جس قدر حقیقی اور جذباتی ہوگا وہ
غائب راوی کے بیان میں نہیں پائی جاسکتی اس لیے متکلم کا انتخاب ہی شعر کے بیانیے
کی مناسبت سے بہتر ہوگا)۔
غالب کے اس شعر کا بیانیہ واحد متکلم راوی کی زبانی تشکیل
دیا گیا ہے۔ مصرعۂ اولیٰ میں راوی بیان کرتا ہے کہ اگر جاذبِ نظر کوئی شے ہے تو
وہ شوق کا بے اختیار جذبہ ہے۔ اس جذبۂ اشتیاق میں اس قدر شدت/جذب اور کشش ہے کہ
شمشیر کے سینے سے اس کا دم باہر نکل آیا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ شعر میں ایک واقعے کو
تمثیل کی صورت میں تشکیل دیا گیا ہے۔ اس تمثیل کی گرہ کشائی اور واقعے کی دریافت
کے لیے دوسرے مصرعے کا مطالعہ ضروری ہے۔ جس میں دو
Signifiers(ترکیبی لفظ) ’سینۂ شمشیر‘ اور ’دم شمشیر
کا‘ استعمال ہوئے ہیں۔ ان دونوں ترکیبوں میںدو
Signifiers’سینہ‘ اور ’دم‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔جو
کسی نہ کسی ذی روح کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن شعر کے دوسرے مصرعے میں ان دونوں
کے ہی ساتھ ایک Signifierشمشیر
کا استعمال ہوا ہے۔ جو ایک غیر ذی روح شے ہے۔ اس لیے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ Signifierشمشیر کا Signifiedکسی ذی روح سے منسلک ہے۔
اگر ہم کلاسیکی غزل کی روایت میں شمشیر کے معانی پر نظر کریں تو یہ محبوب کے
لوازمات میں شامل ہے۔ ساتھ ہی پہلے مصرعے میں مستعمل’’ ’شوق‘ کا حال کلاسیکی غزل میں
وصالِ محبوب کی خواہش کے لیے لایا جاتا رہا ہے۔‘‘(تجزیہ قاضی افضال حسین)
اب شعر کے بیانیہ میں موجود تمثیلی واقعہ پوری طرح روشن
ہو جاتا ہے۔ کہ شوقِ وصال کی شدت اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ محبوب کے سینے سے اس کا
دم باہر نکلا پڑتا ہے۔ اگر دم کے معنی سانسیں مراد لیتے ہیں۔ تو سانسوں کا سینے سے
باہر آنے کے معنی ہوئے اپنی سانسوں پر قابو نہ پانا۔ یہی جذبۂ بے اختیار سے زیادہ
قریب اور مناسب بھی ہے۔ یعنی عاشق سے معشوق کا اشتیاقِ وصال ہی اس قدرشدید ہے کہ
اس کی سانسیں اس کے سینے کے قابو میں نہیں ہیں
؎
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
اس شعر کا بیانیہ بھی متکلم راوی کی زبانی تشکیل دیا گیا
ہے۔ شعر کے پہلے مصرعے میں متکلم بیان کرتا ہے کہ آگہی جس قدر چاہے دامِ شنیدن
بچھائے یعنی فہم و فراست رکھنے والے جس قدر چاہیں اپنے دام میں گرفتار کرنے کی
کوشش کریں۔ آگہی کیا چیز گرفتارکرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کا جواب دوسرے مصرعے میں
موجود ہے کہ متکلم کے مدعائے تقریر کو گرفت میں لینا چاہتی ہے۔ پہلے مصرعے میں
موجود ’جس قدر‘ کا ٹکڑا یہ باور کراتا ہے کہ فہم و فراست رکھنے والوں نے مدعائے
تقریر کو اپنی گرفت میں لینے کی کئی بار اور کئی طرح سے کوششیں کی ہیںلیکن متکلم
کردار کہتا ہے کہ میرے تقریر کا مدعا عنقا پرندے کی مانند ہے جو گرفت میں نہیں
آسکتاہے۔
شعر کے بیانیہ میں یہ واقعہ تشکیل دیا گیا ہے کہ متکلم
کردار نے ایک بات کہی ہے اور اس میں یہ التزام رکھا ہے کہ اس تقریر کا مدعا عنقا
ہے یعنی اس خیالی پرندے کی مانند ہے جو کبھی بھی دام میں نہیں آسکتا ہے۔ متکلم
کہتا ہے کہ میری تقریر کا مدعا بھی اسی خیالی پرندے کی مانند سیال ہے۔ جو محسوس
ہوگا کہ گرفت میں آگیا لیکن درحقیقت وہ گرفت سے پھسل جاتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی
ظاہر ہوتی ہے کہ متکلم نے عنقا سے خیال کے سیال ہونے کی کیفیت یا معنی خیزی کے عمل کو ہی مراد لیا ہے۔
اسی طرح شعر میں دوسرا واقعہ جو پہلے مصرعے میں تشکیل دیا
گیا ہے کہ متکلم جو اپنی تقریر کی اس صفت سے آگاہ ہے تو وہ کہتا ہے کہ آگہی اس
تقریر کے مدعا کو(جو کہ عنقا یعنی خیالی پرندے کی مانند ہے اور کبھی بھی گرفت میں
نہیں آسکتا ) گرفت میں کرنے کے لیے جس
قدر چاہے اپنے دامِ شنیدن کو بچھائے لیکن اسے ناکامی ہی حاصل ہوگی۔ یعنی وہ چاہے
جتنی کوششیں کر لیں پر وہ ان کی گرفت سے باہر ہی رہے گا۔ شعر میں دام اور عنقا کے Signifiers فعل بچھانے کے ذریعے مل کر شعر میں واقعے کی تمثیلی صورت
کو بھی تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس تمثیل کا مفہوم مدعائے تقریر سے صاف طور پر واضح ہو
جاتا ہے۔ یہی اس شعر کے پُر قوت اور رمزیہ بیانیہ کی تشکیل کا سبب بھی ہے ؎
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
مقطع کے اس شعر کا بیانیہ بھی متکلم راوی کی زبانی تشکیل
دیا گیا ہے۔ غزل کے پہلے مصرعے میں متکلم راوی نے شاعر/ تخلیق کار غالب کو مخاطب
کرتے ہوئے حال کی صورتِ حال کا بیان کیا ہے کہ اسیری کے عالم میں بھی میں ’آتش زیر
پا‘ ہوں۔ کلاسیکی غزل کی روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ غزل کا متکلم کردار یعنی عاشق
اپنی وحشت یا جنون کے سبب قیدخانے/زندان میں قید کردیا جاتا ہے۔ تاکہ چہار دیواری
کے اندھیرے اس کی وحشت اور جنون کو کم کردیںگے۔ مثلاً میر کا یہ شعردیکھیں ؎
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
میر کایہ شعر صرف زندان میں قید کیے جانے کی صورتِ حال
اور اس کا سبب دریافت کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ مقطع میں اسیری کی صورتِ
حال اور متکلم کردار کی موجودہ کیفیت کے تضاد/قولِ محال(Paradox)
کو واضح کیا جاسکے اور شعر کے بیانیے میں واقعے کی گرہ
کشائی بھی ہو سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ متکلم کردارعشق میں جنون کی حالت میں دیوانا وار
پھرتا ہے۔ کردار کی بڑھی ہوئی وحشت کے سبب اسے زندان میں قید کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ
اس کی وحشت ختم ہو جائے یا اس میں کمی آجائے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھاکہ قیدخانے کی
بیڑیاں اس کی گرمیِ وحشت کو کم کردیتیں لیکن ایسا نہیں ہوتاہے۔متکلم کردار کہتا ہے
کہ اسیری میں بھی میں آتش زیر پایعنی مضطرب/ وحشت زدہ ہوں۔ جس کے سبب میرے پیروں
میں پڑی بیڑی کا ہر حلقہ موئے آتش دیدہ یعنی آگ دکھائے ہوئے بال (بال جو آگ کی
گرمی پا کر پیچ دار ہو جاتا ہے) کی مانند کمزور ہو گیا ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں
کردار کے وحشت کی شدت میں مسلسل اضافے کا بیان کرنے کے لیے اس تشبیہ کا استعمال کیا
گیا ہے۔
غالب کی غزل کے اس بیانیاتی مطالعے کے بعد یہ بات وثوق
سے کہی جا سکتی ہے کہ مرزا واقعات اور تجربات کے بیان کے بجائے غزل میں ایسے signifiers کا انتخاب کرتے ہیں جو ان
واقعات و واردات کے تئیں داخلی ردِّ عمل سے پیدا ہونے والی احتساسی کیفیت کے تاثر
کو مزید گہرا اور دیرپا بنا دیتے ہیں۔نیز اشعار میں مستعمل الفاظ کے معنوی
انسلاکات سے ابھرنے والے تجربے کی نئی جہت اور تازگی کا احساس بھی ان کی غزل کا
امتیازی وصف تصور کیا جاسکتا ہے۔
Dr. Abdurrahman Faisal
Assistant Professor
U.P. Rajarshi Tandon Open University
Shantipuram
Prayagraj- 211013 (UP)
Mob.: 8218467664
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں