12/9/24

ابھگیان شکنتلم کے اردو تراجم: ایک اجمالی جائزہ، مضمون نگار: محمد اسجد

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

شاعر اعظم کالی داس کی تاریخ پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتاپھر بھی مختلف شواہد کی بنا پر یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کا زمانہ 500 عیسوی کے آس پاس کا  رہا ہوگا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کالی داس کا زمانہ موریہ حکمرانوں سے پہلے کا ہے۔کالی داس کے وطن کے بارے میں ہندوستانی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کالی داس کا تعلق اُجّین کے راجا وکرما دتّیہ کے دور سے تھا اور اس بات پر مورخین متفق بھی ہیں۔ ’رگھوونش‘ اور ’میگھ دوت‘ ( کالی داس کی معرکۃ الآرا تصانیف) میں انھوں نے جس جوش و خروش اور خلوص سے اجّین کی آرائشوں کی تعریف کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اجّین میں بسر کیا ہوگا۔ایک روایت کے مطابق کالی داس بچپن میں علم و عرفان سے نابلد تھے، بعد میں ان کا حیرت انگیز علم اور شاعرانہ ذہانت کالی دیوی کی برکت کا نتیجہ تھا۔ دوسری روایت ہے کہ وہ ذات کے برہمن تھے ان سب کے علاوہ کالی داس کی پیدائش،وطن اور ذاتی زندگی سے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں، جن میں سے کچھ قابل اعتبار ہیں اور کچھ تو سرے سے بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں۔

کالی داس کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھیںہندوستان کے تقریباً ہر خطے سے گہری واقفیت تھی اور یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یقینا وہ سیاحت کے شوقین تھے اور مناظر قدرت کا بہ غور مشاہدہ کرتے تھے۔کالی داس کے کل ادبی اثاثے میں تین ڈرامے: وکرم موروشیم، مالویکا اگنی متر، ابھگیان شکنتلم اور چار طویل نظمیں: رتوسنہار، میگھ دوت، کمار سمبھو اور رگھوونش خاص طور پر اہم ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور تصانیف کالی داس سے منسوب کی جاتی ہیں جن پر مکمل طور سے کالی داس کی تصانیف ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے متعلق آج بھی تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔

سنسکرت سرزمین ہند کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ زبان ہزاروں سالوں سے ارتقا کی منزلیں طے کرتی چلی آرہی ہے۔ سنسکرت زبان اپنے اندر قدیم ہندوستانی تہذیب و تمدن کا بہت بڑا ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہے اور ویدک دور سے لے کر دور حاضر تک اس زبان میں ادبی تخلیقات کا سلسلہ جاری ہے، گرچہ دور حاضر میں اس زبان کے قارئین کم ہیں مگر اس زبان کا ادب ترجمے کی شکل میں دیگر زبانوں کے قارئین تک بآسانی پہنچ رہا ہے۔اس کی واضح اور عمدہ مثال کالی داس کا ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ ہے۔

کالی داس کے اس ادبی شہکار ’ابھگیان شکنتلم‘ کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ ان کی کسی اور تصنیف کے حصے میں نہیں آئی۔بعض ناقدین اس ڈرامے کو شیکسپیئر کے ڈراما ’ہیملیٹ‘ کے مقابل قرار دیتے ہیں۔ آج بھی اس کا شمار دنیا کے بہترین ڈراموں میں ہوتا ہے۔یہ ڈراما اپنے دور کی تہذیب کا عکاس ہے۔ کالی داس کے اس ڈرامے کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہ ڈراما لکھا گیا اس وقت سے لے کر آج تک اس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوا ہے اور نت نئے اسلوب میں اس کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ کلاسیکی ادب کا خاص وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت ہر دور میں یکساں ہوتی ہے اور یہ ہر عہد کے قارئین کو متاثر کرتا ہے۔ معروف نقاد سید مظفر علی ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ کو کلاسیکی فن پارہ قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

مختلف ادوار میں ایک ہی کلاسیکی کارنامے سے باربار نئے ترجمے نمودار ہوتے ہیں۔بلکہ کلاسیک تو کہتے ہی اس کارنامے کو ہیں جس کے ترجمے کی بار بار ضرورت پڑے۔

( مظفر علی سید۔ترجمہ کے اصولی مباحث، ص35)

’ابھگیان شکنتلم‘ کو سب سے پہلے اردو زبان سے روشناس کرانے کا سہرا مرزا کاظم علی جوان کے سر ہے۔ انھوں نے یہ کام ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر 1801 میں انجام دیا۔ کاظم علی جوان نے اس ڈرامے کا ترجمہ ’شکنتلا‘ کے عنوان سے نثرمیں کیا ہے۔ اس کام کو بخوبی انجام تک پہنچانے کے لیے فورٹ ولیم کالج کے ایک اور اہم رکن منشی للو لال جی نے کاظم علی جوان کی مدد کی کیونکہ للو لال جی سنسکرت زبان سے اچھی واقفیت رکھتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اس کے باوجود بھی اصل سنسکرت متن کو سامنے نہیں رکھا بلکہ مولیٰ خاں کی فرمائش پر برج بھاشا میں لکھی ہوئی نواز کبیر کی کہانی ان کے پیش نظر تھی۔ للو لال جی اسے پڑھتے جاتے اور کاظم علی جوان اسے اردو میں تحریر کرتے جاتے تھے۔ بہت زمانے تک یہ ترجمہ کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا تھا۔ عبادت بریلوی کے مطابق یہ ترجمہ پہلی بار اردو رسم الخط میں Hindee and hindustani selection نامی مجموعے میں شامل ہوکر شائع ہوا۔ اس کے بعد نول کشور نے لکھنؤسے اس کا ایک ایڈیشن شائع کیا۔ کاظم علی جوان نے بھلے ہی کالی داس کے ڈرامے کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیا ہے مگر انھوں نے اس کہانی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ اس میں تخلیقی رنگ و آہنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ کالی داس کے اصل متن اور کاظم علی جوان کے اس ترجمے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے البتہ کہانی کی ابتدا اور درمیان کے کچھ مناظر اور قصے کی ترتیب میں تبدیلی ملتی ہے۔ جیسے کالی داس کے ڈرامے کا آغاز راجا دشینت کے رتھ پر سوار ہوکر جنگل کی طرف شکار کھیلنے جانے سے ہوتاہے اور کاظم علی جوان نے اپنے ترجمے کی ابتدا وشوامتر کی تپسیا سے کی ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ کاظم علی جوان نے کالی داس کے ڈرامے کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ کیا اور اس کے اصل متن میں کچھ ترمیم و اضافہ بھی کیا ہے۔ جوان نے ’ابھگیان شکنتلم‘ کی ڈرامائی شان کو باقی رکھا اور ساتھ ہی اس ڈرامے کو اردو ادب کے قارئین سے متعارف کراتے ہوئے ایک اہم مقام بھی عطا کیا جسے دو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

مذکورہ ڈرامے کا ترجمہ معروف شاعر ساغر نظامی نے ’شکنتلا‘ کے عنوان سے 1969 میں کیا۔ ادبی حلقے میں اس ترجمے کی خوب پذیرائی ہوئی اس کے علاوہ پنڈت جواہرلال نہرو نے ساغر نظامی کے اس ترجمے کا بہ غور مطالعہ کیا اور اس پر ایک عمدہ تبصرہ بھی کیا۔ وہ لکھتے ہیں:

ساغر نظامی صاحب نے اس مشکل کام کو اٹھایا اور جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں بہت اچھی طرح سے اور کامیابی سے اس کو پورا کیا... امید کرتا ہوں بہت لوگ اس کو پڑھیں گے اور اس کے ذریعے سے ہمارے مشہور پرانے سنسکرت کے ساہتیہ کی کچھ جھلک پائیں گے۔

( ساغر نظامی: شکنتلا، ادبی مرکز،پنڈارہ روڈ،نئی دہلی، ہندوستان، 1961، ص05)

ساغر نظامی نے ابھگیان شکنتلم کا یہ ترجمہ منظوم شکل میں کیا ہے جو کہ سات ایکٹ میں منقسم ہے۔ منثور کے مقابلے میں منظوم ترجمہ کافی مشکل کام ہے مگر ساغر نظامی نے اپنی شاعرانہ طبیعت کی بدولت اس مشکل کام کو بہ حسن وخوبی انجام تک پہنچایا۔موصوف کا یہ ترجمہ اصل متن سے بہت قریب ہے۔ اس ترجمے میں ایک خاص قسم کی نغمگی پائی جاتی ہے۔ ساغر نظامی نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ہر لفظ کا ترجمہ سیدھے طور پر اردو میں نہیں کیا بلکہ کچھ سنسکرت اور ہندی لفظوں کو بالکل ویسے ہی رہنے دیا جیسے وہ اصل متن میں موجود ہیں۔ ایسا انھوں نے غیر شعوری طور پر یا اس لیے نہیں کیا کہ انھیں ان الفاظ کے مقابل اردو میں الفاظ نہیں ملے بلکہ انھوں نے یہ کام دانستہ طورپر کیا ہے تاکہ ترجمہ حقیقت سے دور نہ ہو اور اصل متن کا حقیقی ماحول اور تمدن جو کہ بہت حد تک لفظوں پر منحصر ہے باقی رہ سکے۔ شکنتلا کی اہمیت و عظمت اور حسن کی ابدیت کے متعلق ساغر نظامی مقدمہ میں رقم طراز ہیں:

ہزاروں سال بیت گئے لیکن کالی داس کی شکنتلا کا حسن پھیکا نہیں پڑا۔اس کے کنولوں کی خوشبو اور اس کے پاؤں کی مہاور کی لالی ابھی تک زندگی کی حرارت سے شگفتہ ہے، انقلاب کی کوئی آندھی اس دیپ کو نہیں بجھا سکتی، اس کی جوت ازلی اور اس کا روپ ابدی ہے۔ یہ ابد تک حسن کے پیاسوں کو اپنے روپ کا سوم رس تقسیم کرتی رہے گی اور شاندار ماضی کے فطری حسن کی کہانی دنیا کے تپیدہ اور لرزاں حال و مستقبل کو سناتی رہے گی۔

(ساغر نظامی: شکنتلا، ادبی مرکز،پنڈارہ روڈ،نئی دہلی،ہندوستان، 1961، ص21)

ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ کا ترجمہ ’شکنتلا‘ کے عنوان سے قدسیہ زیدی نے بھی کیا ہے جو نیا ادارہ  لاہور سے شائع ہوا ہے۔ اس پر تاریخ اشاعت درج نہیں ہے۔ قدسیہ زیدی کے مطابق انھوں نے اس ترجمے کے لیے ’ابھگیان شکنتلم‘ کے ہندی اردو ترجموں کا سہارا تو لیا ہی ہے مگر زیادہ استفادہ رائیڈر کے انگریزی ترجمے سے کیا۔ اس ترجمے کی نثر بالکل سادہ اور عام فہم ہے،جسے اردو زبان کا عام قاری بھی آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ مترجم نے درمیان میں کہیں کہیں مثال کے طور پر سنسکرت کے اصل متن جو کہ نظم کی شکل میں ہیں کا حوالہ بھی دیا ہے لہذا مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قدسیہ زیدی نے ’ابھگیان شکنتلم‘ کے منثور ترجمے کی بہت حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔

’ابھگیان شکنتلم‘ کے مترجمین کی فہرست میں ایک اہم نام اختر حسین رائے پوری کا ہے۔ انھوں نے اپنی ترجمہ کردہ کتاب کا نام ’شکنتلا‘ رکھا جسے انجمن ترقی اردو (ہند)،دہلی نے 1942 میں شائع کیا۔ یہ ترجمہ منثور شکل میں ہے۔ اس ترجمے کا آغاز  موصوف ’ناندی‘ سے کرتے ہیں جس کا اردو ترجمہ انھوں نے ’حمد‘ کیا ہے۔

اس ترجمے میں ایک نئی بات یہ ہے کہ جہاں پر کردار خود کلامی کرتا ہے وہاں پر مترجم نے قوسین میں (خود) لکھا ہے۔جہاں پر کردار اوروں سے مخاطب ہے وہاں پر قوسین میں (بآواز) لکھا ہے اور جہاں پر کردار صرف کسی ایک سے مخاطب ہے اور اس کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے تو وہاں پر قوسین میں (علاحدہ) لکھ دیا ہے،اس کے علاوہ اگر دور کہیں سے آواز آرہی ہے تو اس کے لیے قوسین میں(پس پردہ) لکھا ہے جس سے قاری کو ڈراما پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس ترجمے کی ایک نمایان خصوصیت یہ ہے کہ ڈرامے کی ابتدا سے پہلے مترجم نے ایک باب ’پرانک تلمیحات‘ کے عنوان سے قائم کرکے ان میں ان سبھی تلمیحات کی تفصیل بیان کردی ہے جو ہندو مذہب، اساطیر اور تہذیب و تمدن سے متعلق ہیں جن سے قاری کو ان تلمیحات کے پس منظر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

پریم پال اشک کا شمار اہم مترجمین میں ہوتا ہے، ان کا ترجمہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم کام ’رامائن‘ کا منظوم ترجمہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کالی داس کا مشہور زمانہ ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ کا منظوم ترجمہ ’شکنتلا‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ مشورہ بک ڈپو، رام نگر، دہلی سے شائع ہوا ہے۔اس ترجمے میں مترجم نے ڈرامے کی اصل کہانی کے آغاز سے پہلے ’دعا‘کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے عنوان سے ایک نظم کہہ کر اس کے ذریعے ہندوستان کی مٹی اور یہاں کی تہذیب و ثقافت وغیرہ کی تعریف بیان کی ہے۔ایک عنوان ’تعریف عشق‘ کے نام سے قائم کیا ہے اس کے بعد ڈرامے کے اصل قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ پورا ترجمہ انھوں نے نظم کی شکل میں مثنوی کی ہیئت میں کیا ہے، جس کی وجہ سے پورے ڈرامے میں شروع سے آخر تک ایک تسلسل اور روانی برقرار رہتی ہے۔  موصوف کے اس ترجمے کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے اس ترجمے کو مثنوی کی طرح عنوانات قائم کرکے پورے ڈرامے کی کہانی کو بیان کیا ہے۔اگر قاری کچھ دیر کے لیے یہ بھول جائے کہ وہ کالی داس کے ڈراما ’ ابھگیان شکنتلم‘ کا ترجمہ پڑھ رہا ہے تو اسے اس ترجمے پر طبع زاد مثنوی کا شبہ ہونے لگے گا۔اس ترجمے کی کہانی سیدھے شکنتلا سے شروع نہ ہوکر وِشوا مِتر اور مینکا سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام شکنتلا اور دُشینت کے وصال پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پریم پال اشک کا یہ ترجمہ ایک کامیاب ترجمہ ہے جو اردو زبان کے قارئین کو محظوظ کرتا رہے گا۔

بشیشور پرشاد منور لکھنوی کا شمار صف اول کے مترجمین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندؤں کی مقدس کتابوں کا ترجمہ کیا، جن میں ’بھگوت گیتا‘ اور ’درگا سپت شتی‘ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ’بھگوت گیتا‘ کا ترجمہ  منظوم شکل میں ’ نسیمِ عرفاں‘ کے نام سے کیا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو انھیں شہرتِ دوام عطا کرتی ہے ان کے علاوہ بودھ دھرم اور اسلام دھرم کی کئی کتابوں کے ترجمے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں کی فہرست میں کالی داس کی مختلف تصانیف ہیں،جن میں ڈراما ’ ابھگیان شکنتلم‘ کا ترجمہ بے حد اہم ہے۔ یہ ترجمہ اصل متن سے قریب ہے حتیٰ کہ کتاب کا عنوان بھی وہی ہے جو کالی داس نے منتخب کیا ہے۔ ’ابھگیان شکنتلم‘ کے اب تک جتنے تراجم ہوئے ہیں،ان سب سے یہ ترجمہ ذرا مختلف ہے۔ اس ترجمے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اصل متن کے مطابق جو حصہ منظوم شکل میں ہے، اس کا ترجمہ منظوم کیا گیا ہے اور جو حصہ منثور ہے وہ منثور رکھا گیا ہے۔ اس ترجمے کا آغاز منور لکھنوی نے 2؍مئی 1962 کو دہلی میں کیا اور ترجمہ مکمل 18؍ جون 1963 کو بنارس میں ہوا۔ اس کی اشاعت 1963 میں کوہِ نور پریس،دہلی سے ہوئی۔ مذکورہ ڈرامے کا یہ اردو ترجمہ اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ذاکر حسین صاحب کی نظروں سے بھی گزرا اور اس پر انھوںنے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ خط کے ذریعے ترجمے پر کیے گئے ان کے تبصرے کا ایک اقتباس یہاں پیش کرنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس چھوٹے سے اقتباس ہی سے ہمیں سنسکرت ادب کے اردو تراجم کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا، ساتھ ہی ’ابھگیان شکنتلم‘ کے اردو تراجم کی اہمیت و افادیت کا بھی اندازہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے تراجم سے اردو کی بڑی خدمت کی ہے اور صرف ادبی خدمت نہیں کی ہے بلکہ ایک قابل قدر قومی خدمت بھی۔افکار عالیہ اور جذبات لطیفہ کا جو خزانہ سنسکرت میں ہونے کی وجہ سے اردو پڑھنے والوں کی دسترس سے باہر ہے، اسے آپ نے ان تک پہنچا دیا۔اور کس خوبی سے پہنچایا ہے۔سب ترجمے میں نے پڑھے جن میں ’ابھگیان شکنتلا‘ بھی ہے اور کہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ ایک با کمال اردو شاعر کا کلام نہیں ہے۔سنسکرت جانتا نہیں ہوں اس لیے مقابلہ تو نہیں کرسکا مگر ترجموں کی روانی کہتی ہے کہ اصل کا دامن ہاتھ سے چھوٹا نہیں ہے۔

(منور لکھنوی: ابھگیان شکنتلا، کوہ نور پریس، دہلی، 1963، ص4-3)

ذاکر حسین کے تبصرے سے منور لکھنوی کے اس ترجمے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے،ساتھ ہی اس ترجمے کو ادبی دنیا میں خوب سراہا بھی گیا۔مطالعے کے دوران قاری بوجھل پن کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت روانی کے ساتھ پڑھتا اور کہانی کے ساتھ اس میںڈوبتا چلا جاتا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ترجمے کا اصل قصے سے قریب ہونا اور لفظوں کا انتخاب ہے، جس میں منور لکھنوی کو مہارت حاصل تھی۔

اقبال ورما سحر ہتگامی نے ’ابھگیان شکنتلم‘ کا ترجمہ ’مثنوی سحر‘ کے عنوان سے کیا ہے۔اس کی اشاعت 1925 میں ادبی پریس لاٹوش روڈ،لکھنؤ سے ہوئی۔ اقبال ورما سحر کا یہ ترجمہ اور ترجموں سے بالکل مختلف ہے، مختلف اس معنی میں کہ دیگر ترجمے یا تو منثور ہیں یا تو منظوم لیکن یہ ترجمہ مکمل طور پر مثنوی کی ہیئت میں ہے۔ اس ترجمے کے قصے کو بھی ڈرامے کے اصل متن سے قریب تر رکھا گیا ہے۔ ترجمے میں قصے کا آغاز شکنتلا کی ولادت سے ہوتا ہے اس کے بعد ابواب بندی کرتے ہوئے مترجم نے پورے ڈرامے کے قصے کو بالترتیب بیان کیا ہے جسے قاری بہت روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔

’ابھگیان شکنتلم‘ کے تراجم میں کشن چند زیبا کا ترجمہ بعنوان ’شکنتلا‘ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ترجمہ 1967 میں منظر عام پر آیا۔ یہ ترجمہ اصل متن سے قریب تر ہے بلکہ اس میں مترجم نے بہت سے سنسکرت الفاظ کو بھی بالکل جوں کا توں استعمال کیا ہے،جو اصل متن میں موجود ہیں۔ کشن چند زیبا نے یہ ترجمہ نثری پیکر میں کیا ہے، ہاں! درمیان میں کچھ مکالمے منظوم شکل میں بھی ہیں۔ ہر منظر ایک نئے عنوان کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔عنوان پہلے اصل متن کے مطابق سنسکرت زبان میں لکھا ہے پھر بالکل اس کے نیچے اس کا اردو ترجمہ درج ہے لہذا اس ترجمے کو بہترین نہیں تو بہتر کہا جا سکتا ہے۔موصوف نے کتاب کی ابتدا ’التماس‘  نامی عنوان سے کی ہے اس باب میں موصوف خود بھی لکھتے ہیں:

کالی داس کے سنسکرت پلاٹ کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا ہے کیونکہ اس تصنیف سے مطلب اپنی لیاقت کا اظہار نہ تھا بلکہ اردو دنیا کو کالی داس کی طبع آزمائی سے انٹرڈیوس کرانا تھا۔اس میں میرا کیا ہے۔ محض تحریر۔وہ بھی بھدی پرلے درجے کی روکھی اور پھیکی۔

(زیبا،کشن چند:  لاجپت رائے اینڈ سنز،تاجران کتب، اردو بازار، دہلی، 1967، ص06)

مندرجہ بالا تراجم جو کالی داس کے سنسکرت ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ کے اردو میں ہوئے، ان کی تعداد جن تک میری رسائی ہوئی آٹھ ہیں۔ان کے علاوہ دو تین تراجم ایسے بھی ہیں، جن کا ذکر تو بعض تذکروں یا کتابوں میں ملتا ہے مگر یا تو وہ کتابی شکل میں اب موجود نہیں ہیں یا ان تک میری رسائی نہیں ہوسکی ہے لیکن جن تراجم تک میری رسائی ہوئی، ان سب کے متعلق میں نے مختصر طور پر اس طرح روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ کم سے کم لفظوں میں قاری کو ا ن تراجم سے متعارف کرا سکوں۔ کالی داس کا ڈراما ’ابھگیان شکنتلم‘ سنسکرت ادب کا ایک عظیم سرمایہ تو ہے ہی ساتھ ہی اردو زبان میں جو اس ڈرامے کے تراجم ہوئے ہیںوہ بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ان تراجم کی بدولت ہی ادب کے وہ قارئین جو سنسکرت زبان سے ناواقف ہیںیا واقف بھی ہیں تواس حد تک نہیں کہ وہ سنسکرت ادب کوباقا عدہ طور سے پڑھ کرمستفیض ہو سکیں۔ان کے لیے یہ تراجم کسی نعمت سے کم نہیں ہیں کیونکہ وہ ان تراجم کی بدولت ہی ’ابھگیان شکنتلم‘ جیسے کلاسیکی ڈرامے کو بآسانی پڑھ سکتے ہیں اور اس کے ذریعے اس زمانے کی تہذیب و ثقافت سے بھی واقفیت حاصل کر سکتے ہیںجو کہ اس ڈرامے کے ہر کرداراور ہر منظر سے جھلکتی ہے۔اس ترجمے کا کمال ہی ہے کہ آج دورِ جدید کا شاعر ’شکنتلا‘ اور ’دشینت‘ کی داستانِ محبت کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اسے اپنی شعری فکر کا حصہ بنانے لگا انھیں شعرا میں سے ایک نوجوان شاعر نجیب رامش کے ایک شعر پر اپنی گفتگو تمام کرتا ہوں          ؎

مجھے بھی اپنی شکستوں کا یوں صلہ مل جائے

ہرن کی کھوج میں نکلوں شکنتلا مل جائے

ْْْْکتابیات

1        اختر حسین رائے پوری،سید۔شکنتلا،انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی۔

2        اعجاز راہی اردو زبان میں ترجمے جے مسائل۔مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔1986

3        بیگ،ڈاکٹر مرزا حامد۔فن ترجمہ نگاری (مسائل،اسباب اور سد باب)۔نیشنل بک فاونڈیشن،اسلام آباد۔2019

4        پریم پال اشک ایم اے۔شکنتلا۔مشورہ بک ڈپو،رام نگر، دہلی۔

5        ترجمے کے فنی اور عملی مباحث۔مشاورتی کمیٹی،شعبۂ  اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ نگر،نئی دہلی۔2012

6        جوان،مرزا کاظم علی۔شکنتلا۔کتابی دنیا،دہلی۔2004

7        زیبا،کشن چند: شکنتلا، لاجپت رائے اینڈ سنز،تاجران کتب، اردو بازار،دہلی۔1967

8        ساغر نظامی۔شکنتلا۔ ادبی مرکز،دہلی۔1960

9        سحر ہتگامی،اقبال ورما:مثنوی سحر،ادبی پریس،لاٹوش روڈ،لکھنؤ۔1925

10      قدسیہ زیدی۔شکنتلا۔نیا  ادارہ،سرکلر روڈ،لاہور۔

11      منور لکھنوی۔شکنتلا۔کوہ نور پریس،دہلی۔1963

Muhammad Asajad

44- Periyar Hostel

JNU, New Delhi-110067

Cont. no. 7897666694

Email: ma6364635@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...