12/9/24

شکستہ قدروں کا نوحہ خواں عنبر بہرائچی، مضمون نگار: عظیم اقبال

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

عنبر بہرائچی ہندوستان کے گراں قدر ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ہیں۔ موصوف کا نام نامی محمد ادریس ہے۔ عنبر تخلص ہے۔ وطن موضع سکندر پور، ضلع بہرائچ ہونے کے سبب تخلص میں اضافی لفظ بہرائچی استعمال کرتے ہیں۔ جغرافیہ میں ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں اور اترپردیش کی ریاستی سول سروس کے سینئر رکن رہ چکے ہیں۔

ان کی تاریخ پیدائش 5 جولائی 1949 ہے۔ اردو کے علاوہ انھیں ہندی، اودھی، برج، بھوجپوری، انگریزی، سنسکرت اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

مناظر فطرت:کوہساروں، آبشاروں، دریاؤں، نہروں، جھیلوں، پرندوں، جنگلوں اور جنگلی جانوروں کے مشاہدے کا شغف رکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قرآن پاک کی قرأت سننے کے علاوہ بھجن اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بھی انھیں شوق ہے۔ بقول ان کے:

’’میں نے شاعری کی ابتدا اس وقت کی جب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔‘‘

عنبر بہرائچی کی تصانیف کی فہرست  یوں ہے:

*        اقبال: ایک ادھیین (ہندی)، 1985

*        مہا بھنشکرمن (اردو)، ایک رزمیہ، جو گوتم بدھ کی حیات اور تعلیمات پر مبنی ہے، 1987

*        دوب (اردو): غزلوں اور نظموں کا انتخاب، 1990

*        سوکھی ٹہنی پر ہریل (اردو)، نظموں کا انتخاب، 1995

*        لم  یاتِ نظیرک فی نظر (اردو)، ادبی رزمیہ، حضرت محمدؐ کی حیات اور تعلیمات پر مبنی۔

*        سنسکرت شعریات (اردو)، 1997

*        خالی سیپیوں کا اضطراب (اردو)، غزلوں کا انتخاب، 2000

*        گم نام جزیروں کی تمکنت

ظاہر ہے ان کی ادبی کاوشیں گوناگوں جہات رکھتی ہیں۔ ان کی متفرق اور متنوع تحریروں سے ان کے عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کی شہادت ملتی ہے۔

موصوف نے مندرجہ ذیل انعامات پائے ہیں:

*        وویکا نند ایوارڈ برائے ہندی نثر

*        سائنس سنگم اعزاز (کانپور)

*        کلاشری اعزاز (لکھنؤ)

*        نوائے میر اعزاز (لکھنؤ)

*        لائف ٹائم ایوارڈ، اردو اکادمی، یوپی (لکھنؤ)

*        راغب ایوارڈ (رائے بریلی)

*        ثاقب غزل ایوارڈ (لکھنؤ)

*        ساہتیہ سرسوت ایوارڈ (لکھنؤ) ساہتیہ تخلیق

جس طرح اپنے اظہار کے لیے انھوں نے اردو، اور ہندی، دونوں زبانوں کا استعمال کیا، اسی طرح انھیں انعامات اور اعزازات دینے والو ںمیں ہندی اور اردو دونوں کے ادارے شامل ہیں۔

عنبر بہرائچی کی شاعری تقلید یا کسی ردعمل کا  نتیجہ ہے، نہ کسی مکتب فکر سے وابستہ ہے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی شاعری کے متعلق موصوف کہتے ہیں:

’’میری  شاعری میں شمالی ہند کی زبانوں، اودھی برج اور بھوجپوری کے نرم لہجے والے الفاظ کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔‘‘ اس ضمن میں وہ مزید کہتے ہیں ’’ایرانی، آریائی اور سیمیٹک ادبی اور ثقافتی عناصر نے اسے بیش بہا بنایا ہے۔‘‘

جہاں تک ان کی شاعری کے پس منظر کا تعلق ہے وہ دیہی ہندوستان ہے۔ دیہاتی ماحول سے ان کی بے پایاں چاہت ان کی غزلوں کے مجموعے ’خالی سیپیوں کا اضطراب‘ کے انتساب سے عیاں ہوجاتا ہے۔ لکھتے ہیں  ’’اپنے دور افتادہ گاؤں کی خوشبوؤں کے نام‘‘

عنبر بہرائچی نے ادبی رزمیہ کے وسیلے سے اردو شاعری کو ایک نئے طرز سے متعارف کیا ہے۔ یہ وہی طرز ہے، جو زمانۂ قدیم میں سنسکرت شاعری میں ’مہا کاویہ‘ کے بطور رائج تھا۔ اس ادبی رزمیے میں قصیدے اور غزل کی شاندار روایات کی پیروی بے حد باضابطہ انداز میں کی گئی ہے۔

سنسکرت اور فارسی زبانوں سے ان کی رغبت نیز اودھی، برج، بھوجپوری اور راجستھانی بولیوں سے ان کی قربت نے ان کے شعری رنگ و آہنگ کو ندرت بخشی ہے۔ عنبر روایتی شاعر ہیں، نہ ان کی شاعری روایتی ہے۔ وہ بہرطور جدت پسند ہیں اور ان کی شاعری جدت پسندی سے عبارت ہے۔ ان کی تشبیہات میں جدت پسندی ہے تو ان کے استعارات میں ندرت ہے۔ ان کا ہر شعر ایک داستان ہے، فسانہ ہے، حکایت ہے۔ ان کا ہر شعر ایک نئی تصویر ابھارتا ہے۔ چند نمونے پیش ہیں:

گھر میں داخل ہوئے تھے شکستہ بدن

توتلی بولیاں تازگی بھر گئیں

گالوں پر جگنو کی قطاریں دوڑ رہی ہیں

جوڑے میں اک سوکھا گجرا ٹنکا ہوا ہے

ہم جیسے نادار بھلا کیوں کر ہوتے

اس کی ہنسی میں لاکھوں موتی مونگے تھے

باطنی خوشبوؤں سے نہیں تھی غرض

وہ نگاہیں، کلاہ و قبا پر گئیں

عنبر بہرائچی روایت پسند شاعر نہ سہی، روایت پسند انسان ضرو رہیں۔ دیرینہ قدروں کی شکست و ریخت کے ذکر کے ساتھ ساتھ پارینہ تہذیب و ثقافت کی پسپائی و پامالی کا بیان بھی کرتے ہیں۔ مثالیں دیکھیے:

وہ ہوائیں چلیں، ہر نفس ہر گھڑی، جگمگاتی ذہانت کی بازی گری

وہ زمانے گئے جب ہر اک شخص تھا پیار کی بارشوں میں نہایا ہوا

اب کہاں؟ میرے بزرگوں کے پسینے کی مہک

نہر کے ساتھ میرا کھیت ہے جانے والا

برجیاں، چھجے، دریچے، طاقچے ٹوٹے مگر

گھر سے پرکھوں کے بدن کی خوشبوئیں روٹھی نہیں

عنبر بہرائچی موجودہ سیاست کی پراگندگی کی مخالفت کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت کا احساس بھی دلاتے ہیں         ؎

کھیل یہ دراصل تھا بونی سیاست کا مگر

دھوپ اور لوبان کا جھگڑا ہمارے سر گیا

خطیبوں نے یہاں، کل صرف گل افشانیاں کی تھیں

گلی کے موڑ پر خوں ریز سناٹا بپا کیوں ہے؟

عنبر بہرائچی گرد و پیش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ طبقاتی کشمکش کے اسباب سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج سے بھی بے خبر نہیں ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں وہ کسی ناصحانہ یا خطیبانہ اندازِ بیان سے گریز کرتے ہیں۔ اشعار دیکھیے      ؎

جیسے کہ انا صرف امیروں کی غذا ہے

اب طنزیہ ہم پر ہے کہ مزدور ہوتے کیوں؟

ہاں! یہی تعمیر کرتے ہیں محل سارے، مگر

ان ہنرمندوں کے سر پر پھوس کی چھت بھی نہیں

عنبر بہرائچی انسانی وجود کی عظمت کی شہادت دینے کے ساتھ ساتھ فرش تا عرش انسان کی حیثیت کے اعلیٰ اور برتر ہونے کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں        ؎

ہم وارث آدم ہیں یہ شان ہماری ہے

ہم عرش کی بانہوں کو مہکا کے چلے آئے

عنبر بہرائچی نے زندگی کے تضادات کو دیکھا، پرکھا اور سمجھا ہے۔ گاہے وہ ششدر ہوئے ہیں، گاہے وہ مبہوت ہوئے ہیں۔ ان تضادات کی پیشکش وہ فنکاری سے کرتے تو ہیں، لیکن وہ طنز کا جو تیر چلاتے ہیں، وہ ہمیں مجروح کیے بنا نہیں رہتا۔ شعر دیکھیے       ؎

ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھِپی تھی

خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی

عنبر نہ صرف یہ کہ مخصوص انداز میں سوچتے ہیں بلکہ وہ اپنی سوچ کا اظہار بھی بے باکی سے کرتے ہیں۔ وہ مصلحت کوشی سے باز آتے ہیں اور مفاہمت پسندی سے احتراز کرتے ہیں        ؎

ناکام ہوا شعر، تو نقاد بنے ہو

فنکار کے شانوں پہ رعونت سے کھڑے ہو

عنبر بہرائچی کی شاعری دلپذیر ہے۔ ان کے یہاں بے پناہ رجائیت ہے۔ کہتے ہیں          ؎

شب کے جوڑے سے ابھرتے ہیں سحر کے گجرے

پھول برسیں گے اگر رنج و محن ہیں ام شب

عنبر بہرائچی کے کلام میں عمدہ شاعری کے نمونے ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ ان کی شاعری آراستگی اور شائستگی سے عبارت ہے۔

اپنے شعروں میں چنندہ الفاظ کی برجستہ نشستوں سے عنبر بہرائچی ایک پوری کہانی کہہ دینے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اشعار دیکھیے       ؎

ہر سمت پڑے ہیں کئی خوش رنگ کھلونے

بچہ کسی دامن کی ہوا ڈھونڈ رہا ہے

سبز ٹہنی پر مگن تھی فاختہ گاتی ہوئی

ایک شِکرہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا، دیکھیے

سبز محل کے روزن میں اس پار ہے کوئی

ٹوٹی ہوئی کشتی ہے  دریا چڑھا ہوا ہے

دلپذیر منظرکشی کے ساتھ ساتھ حالات کی ستم ظریفی کی جھلکیاں بھی ہیں۔ اس کڑی کاایک اور شعر ملاحظہ کیجیے         ؎

وادیِ گل رنگ میں ہنگامہ بپا ہے

تپتے ہوئے صحرا میں کوئی پھول کھلا ہے

یہ شعر بھی دیکھ لیجیے       ؎

اس راہ سے گزرا تھا کوئی پیکرِ خوبی

ہر گام لطافت کا چمن زار کھلا ہے

ذیل کا شعر بھی اسی صف کا ہے۔ دیکھیے      ؎

میں نے تو، اس کو پل بھر ہی دیکھا تھا

ایک دھنک، اس کے عارض میں ڈوب گئی

چاہت اور محبت کی انوکھی ادا دیکھنا چاہیں تو اس شعر پر نظر ڈال لیجیے        ؎

پتیوں کے درمیاں سے چاندنی چھنتی رہی

صبح تک بیتاب آنکھوںمیں چمک ابھری نہیں

زندگی کے پیچ و خم دیکھنا ہو تو یہ اشعار دیکھیے     ؎

ہم تو ٹھہرے فٹ پاتھ کے رہنے والے

شہزادے کا چہرہ بھی کیوں بجھا ہوا ہے

ہم کس بستی میں آئے ہیں ہر شخص یہاں تو

اپنے در پر ہاتھ پیارے کھڑا ہوا ہے

حسین تشبیہیں اور خوبصورت استعارے عنبر بہرائچی کی غزلوں کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ شعر ملاحظے کیجیے         ؎

پھول سیمل کے ہر اک سمت اڑاتے ہیں شرر

ہم بھی ہر سانس میں پھاگن کی ادا لائے ہیں

اس شعر پر بھی نظر ڈال لیجیے          ؎

خواب میں جب بھی دمکتے ہیں خد و خال وہی

ہم تخیل کی ہتھیلی پہ حنا لائے ہیں

عنبر بہرائچی مابعد جدید شاعر ہیں۔ کبھی وہ حالات کی ستم ظریفی کھل کر بیان کرتے ہیں، تو کبھی ابہام سے گریز نہیں کرپاتے۔ مثالیں دیکھیے       ؎

ہیں فرض شناسوں کے مقدر میں اندھیرے

ہاتھوں میں اداکاروں کے انعام رہے گا

اس بار بھی سوکھے ہوئے ہیں کھیت برہنہ

اس بار بھی برسات پہ الزام رہے گا

تالاب کے بازو میں املتاس کھڑے ہیں

جس نے انھیں پالا ہے وہ گمنام رہے گا

شفاف فضا، طرز تخاطب میںہے لیکن

عنبر جی ہر اک لفظ میں ابہام رہے گا

مرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب

اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا

یہ شعر بھی دیکھیے       ؎

آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا

عنبر بہرائچی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی کہانی بیان کرنے کے  ساتھ ساتھ گزرے ہوئے دنوں کی کتاب پلٹ کر رکھ دینے میں طاق ہیں۔ شعر دیکھیے      ؎

جس نے طوفانوں کے ہاتھ مروڑے تھے

وہ کشتی ننھی لہروں میں ڈوب گئی

ظاہر ہے خستہ حالی میں بھی پست ہمتی ان کا شیوہ نہیں۔ بے پناہ امیداور حددرجہ رجائیت ان کی شاعری کی شناخت ہے!

عنبر بہرائچی کی غزلیہ شاعری تک بندی سے عبارت نہیں۔ لفظوں کی شعبدہ بازی بھی انھیں پسند نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح زندگی کے لیے ان کے نظریات ہیں، شاعری کے لیے بھی ان کے تصورات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی شناخت مشکل نہیں۔ وہ انوکھے یا البیلے شاعر تو نہیں، لیکن اپنے جاندار اور دمدار کلام کے باعث وہ متاثر کرتے ہیں۔

غزل سے قطع نظر عنبر بہرائچی نے نظم کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا ہے۔

عنبربہرائچی کا شعری مجموعہ ’سوکھی ٹہنی پر ہریل‘ نظموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے پر موصوف کو، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ تفویض ہوا تھا۔ بقول کوثر مظہری:

’’...اس مجموعے سے دیہی زندگی اور ہندوستانیت سے ان کی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں:

’’...نظموں میں انھیں پورا موقع ملا ہے کہ وہ اپنے خاص ہندوستانی رنگ کے اسلوب کو اضح طور پر ابھار سکیں۔‘‘

عنبر بہرائچی کی نظموں میں جس دیہی پس منظر کی عکاسی ہوئی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس حوالے سے عنبر بہرائچی کی نظموں سے چند پرکشش فقرے دیکھیے      ؎

گلابی چونچ میں کیڑے لیے گوریا

وہ جل کمبھی کی نیلی اوڑھنی اوڑھے ہوئے

چپ چاپ لیٹی تھی

ہمارے گاؤں کی وہ جھیل

ریت کے چمکیلے دریا میں

وہ گھونگھے چنتا رہتا ہے

نیم کے سائے میں اساڑھ کی بھری دوپہر

تھرک رہی ہے

رات بھر مہوے کی خوشبو دور تک پھیلی رہی

ٹوکری، اوکھلی، کھیت کی کیاریاں،

تم تو کہتے تھے اجلے کبوتر اڑیں گے میرے گاؤں میں

گھڑے کولہے پہ رکھ کر اک نویلی

کسی پنگھٹ کی جانب چل پڑی

عنبر بہرائچی کی نظموں میں دلفریب فقروں کی بہتات ہے۔ ایسے فقروں سے مزین عنبر بہرائچی کی نظمیں ہمارے دیہی خطوں کی محض تصویرکشی نہیں کرتیں، بلکہ ایک مکمل داستان سنا دیتی ہیں۔ غالباً اس حوالے سے کوثرمظہری اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

’’...ان کی بیشتر نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم گاؤں اور قصبے کی سیر کرتے ہوئے گزر رہے ہیں۔‘‘

عنبر بہرائچی کی شعری تخلیقات پرابوالکلام قاسمی ایک دوسرے نظریے سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’...انھوں نے اردو شاعری میں ہند ایرانی روایت اور لفظیات کے بجائے خالصتاً ’’ہندوستان کے تہذیبی اور ثقافتی عناصر کو ترجیح دی ہے اوران ہی عناصر کی بنیاد پر اپنے اسلوب کا یقین کیا ہے۔‘‘

عنبر بہرائچی 7؍ مئی 2021 کو عالمی وبا کووڈ 19 کی زد میں آگئے، اور راہی ملک عدم ہوئے۔

بہ حیثیت انسان، عنبر بہرائچی کے بے مثل ہونے میں شبہ ہوسکتا ہے، لیکن بطور شاعر وہ یقینا بے مثال ہیں۔ ویسے لوگ ان کے عمدہ انسان ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عمدہ فنکار، عمدہ انسان بھی ہو تو حیرت کیا؟ ان کی اعلیٰ ظرفی کے چرچے عام تھے۔ حصول کا غرور ہو یا عہدے کا سرور، وہ دونوں سے الگ تھے۔

چند حوالے دیکھیے :

’’...وہ عمدہ شاعر بھی تھے۔‘‘ (شہزاد انجم)

’’...وہ بہت محبت سے ملتے تھے۔‘‘ (احمد محفوظ)

عنبر بہرائچی کے اپنے اعترفات بھی سن لیجیے         ؎

وہ   اپنی ڈگر سے ہٹا ہی نہیں

کوئی رنگ اس پر چڑھا ہی نہیں

مجھے سانپ دن رات ڈستے رہے

مگر زہر عنبر چڑھا ہی نہیں

عنبر بہرائچی اپنے بیشتر ہم عصروں اور ہم قلموں سے یکسر جدا ہیں۔ اسی سبب ہمعصر شعرا کے ہجوم میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہیں۔ ان کی شاعری جدیدیت اور تجریدیت سے مغلوب ہونے کے بجائے اسے سجانے، سنوارنے کی کوشش ہے۔ ان کی شاعری نئی جہتوں کی دریافت ہے۔ یہ مسرت آمیز ہے اور جمالیاتی حسوں کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ یہ بے معنی اچھل کود سے عبارت نہیں۔ بلکہ بامعنی تجربہ پسندی ہے۔ اس میں محرومی اور افسردگی کے بجائے لطف و کرم ہے۔ بے شک عنبر بہرائچی نئی اردو شاعری میں میل کا پتھر ہیں۔

 

Azim Iqbal

Adabistan, Ganj No-1

Bettiah- 845438

Mob.: 9006502649

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...