ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024
صدیقہ بیگم کی پیدائش 1925میںلکھنؤ میں ایک خوشحال زمیندار
گھرانے میں ہوئی، ویسے ان کا آبائی وطن اتر پردیش کے ضلع بجنور کا شہر سیوہارہ
ہے۔ ان کے والد کا نام شفیع احمد وارثی ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے شروعاتی دس برس
لکھنؤ کے دینی اور ادبی ماحول میں گزارے۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ اس کے
بعد اپنے والدین کے ساتھ سیوہارہ آگئیں۔ گھر کا ماحول مکمل طور پرمشرقی اور پردے
والا تھا۔اسی بنا پر ان کی تعلیم و تربیت روایتی انداز میں سخت پردے کے دینی ماحول
میں ہوئی۔ انھیں بندشوں میںگھر کے اندر قرآن مقدس کی تکمیل کی اور پھر اُردو، عربی
اور فارسی کی کئی کتابیں پڑھیں۔ ایک طرح سے گھر ہی اُن کا مدرسہ تھا۔اس کی ایک وجہ
یہ تھی کہ اس زمانے میں لڑکیوں کی رسائی مدارس تک نہیں تھی۔ مکاتب کے فرش پر بیٹھ
کر لڑکے ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ کمسن بچیاں تو ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مساجد سے منسلک
مدارس میں قاعدہ اور چند سپارے پڑھ کر پردے میں بیٹھ جاتی تھیں۔ قرآن مجید اتفاق
سے ہی کوئی لڑکی پورا پڑھ پاتی تھی۔ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور مصور
غم علامہ راشد الخیری کی کچھ کتابیں صدیقہ بیگم کا سرمایہ تھیں۔ عہدشیرخواری میں
والدہ کی وفات ہوگئی۔دیکھ بھال کی ذمے داری دادی پر آ گئی۔پھر اپنی نانی کے پاس
نگینہ چلی گئیں۔تین بھائی بہنوں میں اِن سے بڑی ایک بہن اور اُن سے برے ایک بھائی
تھے۔ والد کے دوسری شادی کرنے کے بعد گھر میں سوتیلی ماں نے قدم رکھا۔ سوتیلی ماں
دیگر خواتین سے قدرے مختلف اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ انھوں نے’ سوتیلی ماں‘ کے مشہور نفرتی کردار کو کوڑے دان میں پھینک
کرصدیقہ بیگم کی پرورش انتہائی لاڈپیار سے کی۔ کبھی کسی قسم کی تکلیف یا سوتیلے پن
کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اس دوران بڑے بھائی اخلاق احمدوارثی نے صدیقہ بیگم کے شوق و ذوق کو دیکھتے ہوئے تعلیم
حاصل کرنے میں ان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی۔ سائنس کے طالب علم ہونے کے ناطے وہ
دقیانوسی خیالات کو ناپسند کرنے کے علاوہ پرانی روش پر چلنے کے خواہاں نہ تھے۔وہ
سائنس اور نئی قدروں کے رجحانات،روشن خیالی اور نئی تراکیب سے مرتب کی گئی ڈگر پر
دوڑ لگانے کے قائل تھے۔انھیں بھائی کے تعاون سے صدیقہ بیگم نے جامعہ اردو کے سبھی
امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔انھوں نے جو کچھ پڑھا، بھائی کی مدد سے پڑھا،جوکچھ
لکھا بھائی کے تعاون سے لکھا اور جو کچھ ذہنی تربیت حاصل ہوئی وہ بھائی کے سبب ہی
ممکن ہو سکی۔ان کی آزاد خیالی اور ادبی زندگی انھیں بھائی کی مرہون منت تھی۔ اردو
کے رسالے اور ادبی کتابیں گھر والوں سے چھپاکر پڑھتی تھیں۔پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا
شوق پیدا ہوا۔اس کے بعد کہانیاں لکھ کر رسالوں میں بھیجنے لگیں۔ رسالوں میں کہانیاں
چھپیں،تو گھر والوں کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔ریلوے کی ملازمت میں بھائی مدھیہ
پردیش کے شہر گوندیاگئے،تو بہن بھی ساتھ چلی گئیں۔ وہاں گھر جیسی پابندیاں اور دیگر
مسائل نہیں تھے۔ اس لیے ترقی پسند تحریک
سے جڑ گئیں۔ جبل پور میں ہونے والی اُردو ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس میں
شرکت کی اور اپنا پہلا افسانہ پڑھا۔ کسی کم عمر لڑکی کوپہلی مرتبہ اسٹیج پر کھڑے
ہوکر افسانہ پڑھتے دیکھ حاضرین حیرت میں پڑ گئے۔ملک تقسیم ہوا،تواخلاق احمد وارثی
پاکستان کے شہر لاہور چلے گئے۔صدیقہ بیگم بھائی کے لاہور چلے جانے کے بعد سیوہارہ
آگئیں۔ آزادی کے قریب مہینہ بھر بعد صدیقہ بیگم کی شادی ستمبر 1947 میں پھوپی
زاد بھائی اطہر پرویز کے ساتھ ہوگئی۔شادی کے بعد وہ شوہر کے ساتھ الہ آباد چلی گئیں۔
الہ آباد کی ادبی مٹی بہت زرخیز تھی۔شوہر کے قدم قدم پر حوصلہ افزائی کرنے کی بنا
پرانھیں اپنے ادبی ذوق کوپروان چڑھانے کا موقع ملا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کچھ
دنوں بعد ہی وہاں سے شائع ہونے والے اُردوکے مشہور جریدے ’فسانہ‘ کی مجلس ادارت میں
شامل ہو گئیں۔ 1950 میں دہلی آگئیں، جہاں ان کی رسائی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں
ہو گئی۔وہاں کے اَدبی ماحول میں رہ کر اچھے افسانے تحریر کیے۔ ان کے زیادہ تر
افسانے نہ صرف آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر ہوئے، بلکہ ’عالم گیر‘، ’ساقی‘، ’ادیب‘،
’شاہ کار‘، ’کلیم‘، اَدبی دنیا‘، ’ اَدب لطیف‘، ’نقوش‘ اور ’شاہرہ‘ وغیرہ معیاری
رسالوں میں شائع ہوئے۔ انھوں نے’آواز نسواں‘ اور ’نیا راگ‘ رسالے ترتیب دیے،جو زیادہ
عرصے تک جاری نہیں رہ سکے۔اس کے بعد’ نورس‘ نام کارسالہ نکالا،لیکن بدقسمتی سے اس
میگزین کے ابھی دو ہی شمارے نکل کر منظر
عام پر آئے تھے کہ یہ میگزین 1947کے ہنگاموں کی نذر ہو گئی۔ ان کے شوہر اطہر پرویز
علی گڑھ میںشعبۂ اُردو میں ریڈر جیسے باوقار عہدے پر فائز ہوئے،تو صدیقہ بیگم بھی
1956 میں ان کے ساتھ علی گڑھ چلی گئیں۔ علی گڑھ میں اُن کی ملاقات ڈاکٹر رشید جہاں
سے ہوئی۔ رشید جہاں کی قربت اور رہنمائی میں اُن کے شعوروفن میں مزید پختگی آئی۔
ادب کی دنیا میں بھائی اخلاق وارثی نے ان کی رہنمائی کی، حوصلہ بڑھایا اور آنے
والی تمام رُکاوٹوں کو دُور کیا۔ اطہر پرویز نے بھی اپنی باصلاحیت بیوی کی ادبی لیاقتوں
کو پہچانا۔ان کی ہر طرح سے مدد کے ساتھ حوصلہ افزائی کی اور تخلیقی صلاحیتوں کو
پروان چڑھانے میں تعاون کیا،جس سے وہ اپنی تحریروں کو جلا دینے کے فن میں کامیابی
کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ 10مارچ 1984کو حرکت قلب بند ہونے سے اطہر پرویزکا انتقال
ہو گیا۔شوہر کا انتقال ہونے کے بعد صدیقہ بیگم بری طرح ٹوٹ گئیں۔ ازدواجی زندگی کے
سفر میں تنہا رہ جانے والی اس مایہ ناز افسانہ نگار پر شوہر کا ساتھ چھوٹنے کا
زبردست صدمہ پہنچا۔صدیقہ بیگم اَدبی زندگی کے علاوہ خانہ داری کے کام میں بھی ماہر
تھیں۔ عمدہ قسم کے کھانے تیار کرنے کے علاوہ وہ سلائی، کڑھائی اور بنائی کے کام میں
بھی مہارت رکھتی تھیں۔ اعزا و اقربا کا بہت خیال رکھتی تھیں۔شوہر کے ملنے والوں کا
دائرہ وسیع تھا۔ گھر آنے والے ہر ایک مردوزن کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتیں اور
ان کے ساتھ وقت گزارتیں۔لکھنے میں دلچسپی کم ہوگئی۔ دیگر مصروفیات بڑھیں، تو تحریری
کام متاثر ہوا اور آخر میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل بندہو گیا۔ صدیقہ بیگم کے
ذہنی اور جسمانی طور پر لاچار ہونے سے زندگی کے آخری ایام میں ان کی یادداشت جاتی
رہی۔ تنہائی کے 28برس جیسے تیسے گزرے اور بالآخر29 ستمبر 2012 میں علی گڑھ میں صدیقہ
بیگم کا انتقال ہو گیا۔ ان کے اَدبی سرمایے میںپانچ افسانوی مجموعوں، ’ہچکیاں‘،
’دودھ اور خون‘، ’پلکوں میں آنسو‘، ’ٹھیکرے کی مانگ‘ اور’رقص بسمل‘ کے علاوہ
مختلف جرائد میں شائع ہونے والی تحریریں اور مضامین شامل ہیں۔
صدیقہ بیگم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’ہچکیاں‘، 1944 میں
شائع ہوا تھا۔ اس میں واپسی، چاول کے دانے، آندھی، گلابی کی نذر، لال کرتا، کلرک،
سندرناری، زنجیر، تصویر اور زندگی پرمشتمل دس افسانے ہیں۔ ان شروعاتی افسانوں میں
غریب اور درمیانی طبقے کے لوگوں کی زندگی کو متاثر کرنے والی معاشرتی پابندیوں،
اقتصادی پریشانیوں، جذباتی پیچیدگیوں اور تعلیمی دشواریوں کا عکس ملتا ہے۔ایسا لگتا
ہے کہ انھوں نے جو کچھ اپنے اردگرد دیکھا اور محسوس کیا اسی کو اپنے قلم کی نوک سے
قرطاس ابیض پر اتارکر پیش کر دیا۔ انھوں نے نہ صرف جاگیرداری رسم و رواج کے شکنجوں
میںجکڑی عوامی زندگی کو دیکھا،بلکہ اس کے کرب اور گھٹن بھرے ماحول کے تجربوں میں
کسی نہ کسی حد تک خود کو بھی مبتلا پایا۔تب لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں پر زیادہ پابندیاں
عائد تھیں۔لڑکیاں جذباتی کشمکش کا شکار تھیں۔ایک عورت ہونے کے ناطے وہ ان کی پابندیوں،
مجبوریوں، محرومیوں، خواہشوں، اُمیدوں اورارمانوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔ قید
زنداں کے کشمکش بھرے ماحول میں نسوانی درد کو زبان پر لانا آسان نہیں تھا،لیکن ایک
خاتون کی حیثیت سے انھوں نے اس کام کو کر دکھانے کی جرأت کی اور اپنے آپ کو اُن
خواتین کی صف میںلا کھڑا کیا،جس میں ابھی چند ہی چہروں کو نمایاں اہمیت حاصل ہو سکی
تھی۔
’رسم و رواج کے شکنجوں کو انھوں نے ذاتی طور
پر محسوس کیا۔انھیں اس گھٹن کا تجربہ ہے،جس میں ان کے طبقے کے نوجوان مبتلا ہیں
اور خاص طور پر انھیں لڑکیوں کی جذباتی کش
مکش کا شدید احساس ہے جو جاگیردارانہ نظام
اخلاقیات کی اور زیادہ شکار ہیں۔ ان پر جو گزرتی ہے، اسے وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ان
کی محرومیوں، مجبوریوں، تمناؤں اور امیدوں سے وہ بخوبی آشنا ہیں۔ لیکن ہمارے
سماج میں اس بارے میں زبان کھولنا اور خاص طور پرایک خاتون کے لیے بڑی ہمت کی بات
ہے۔‘
(دودھ اور خون: پیش لفظ،ڈاکٹر سلامت اﷲ،10جنوری1952،ص 13)
صدیقہ بیگم کے افسانوں میں قحط سالی، ظلم و ستم اور
جبروتشدد کی شکار انسانیت کے چیخنے، کراہنے اور سسکنے کی درد سے بھری آوازیں سنائی
دیتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے میں خصوصی طور پر خواتین کی خانگی زندگی کی حقیقی
تصویر پیش کرتے ہوئے جس طرح ان کے رنج و غم اور درد و الم کو بیان کیا گیا ہے،وہ
عام لوگوں کی ذاتی زندگی کو قریب سے دیکھے اورجانے بغیر ممکن نہیںتھی۔ آزادی کے
شروعاتی دور میں تعلیم کا فقدان تھا۔ چند بڑے اور تعلیم یافتہ خاندانوں کو چھوڑ کر
زیادہ تر افراد تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ بیٹے اور بیٹی میں فرق کی بنا پر کسی حد
تک لڑکے تو اسکول چلے جاتے تھے،لیکن لڑکیوںکو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھا
جاتا تھا۔ اس امتیاز کی بنا پر لڑکیاں چاہتے ہوئے بھی علم کی دولت سے فیضیاب نہیں
ہو سکتی تھیں۔ ان کے تحریر کردہ کئی افسانوں میں متوسط طبقے کے لوگوں میں موجود
تفاوت کی کھٹاس، زندگی کا کرب، چہاردیواری کی گھٹن اوربے راہ روی کی شاندار عکاسی
کی گئی ہے۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں میں مختلف رنگ اور جدت پسندی کے مضامین کو اہمیت
دی گئی ہے۔انھوں نے اپنے دور کے اہم مسائل کو اُٹھانے کے لیے اپنے قلم کا بخوبی
استعمال کیا ہے۔ انھوں نے جہاں جنگ کے حالات، انسانیت کے قتل، جبروتشدد، نسلی
منافرت اور خون خرابے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا، وہیں امن و آشتی، بھائی
چارے اور انسانیت کو بھی اپنی کہانیوں میںاہم مقام دیاہے۔ صدیقہ بیگم نے ملک کی
تقسیم کے بعدجہاں تہاں بھڑکی نفرت کی آگ، سرحد پرپھوٹے نسلی فسادات، فرقہ وارانہ
کشیدگی، ذہنی کشمکش، دم توڑتے مسائل، مذہبی منافرت، بے لگام مہنگائی، چارسو پھیلی
بے روزگاری،طبقہ داری اور جہد مسلسل کی گہماگہمی کو بھی شدت سے محسوس کیا۔ انھوں
نے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوںکی آواز کو بلند کیا، تواُونچے طبقے کے لوگوں کی
وضع قطع، ظاہرداری، مکرو فریب ا ور زندگی کے کھوکھلے پن کو بھی نشانہ بنایا۔ انھوں
نے معاشرے کو متاثر کرنے والے اس طبقے میں موجود کوڑھ اور ذہن میں رچی بسی گندگی کی
تصویر کشی کرتے ہوئے بیوی اور طوائف کے فرق کو واضح کیا ہے۔صدیقہ بیگم نے عام آدمی
کے نقطۂ نظر سے اپنے قرب و جوار کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ اسی بنا پر ان کے
افسانوں میں لوگوں کی اُمیدوں، اُمنگوں، ولولوں،جلووں ا ور ارادوں کی جھلک دکھائی
دیتی ہے۔ان کی کہانیوں میں انداز بیان شگفتہ،زبان سلیس اور بے ساختگی نمایاں
ہے۔انھوں نے عام فہم، سیدھے سادے،گھریلو اور روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ کا تعین
کیا ہے،تاکہ قاری کو لفظوں کے معنی ڈھونڈنے کے لیے لغت اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہ
ہو۔ انھوں نے حسب ضرورت عام بول چال میں استعمال ہونے والے علاقائی محاوروں کا بڑی
بے باکی، بے تکلفی اورانتہائی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی
سے کام نہیں لیا۔ کردار نگاری میں اختصار سے کام لیا گیا ہے،لیکن اتنی تفصیل ضرور
ملتی ہے کہ کہانی میں موجود اہم کرداروں کے نقش و نگاربڑی حد تک واضح ہوجائیں اور
کہانی کو اپنے اختتام تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی رُکاوٹ درپیش نہ آئے۔صدیقہ بیگم
اپنی کہانیوں اور تحریروں میں قدرتی نظاروں اور گردوپیش کے مناظر کا انتہائی
خوبصورت نقشہ کھینچنے میں بھی خاصی مہارت رکھتی ہیں۔
’وہ جاڑوں کی ایک سرد رات تھی۔جب تاروں کے
جھرمٹ میں گول سا چاند چمک رہا تھا اور آس پاس کے تمام تارے مدھم پڑ چکے
تھے۔آسمان پر رونق تھی اور زمین پر خوفناک سناٹا۔ جنوری کی سرد ہوا سرسراتی ہوئی
اس کے پاس سے نکلی چلی جا رہی تھی اور اس نے یہ سوچا کہ ہوا اس سے کتنی مانوس ہو
چکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو آئے ہوئے بھی بہت دن ہو گئے ہیں،مگر آج بھی اس
کو اپنی بستی یاد آرہی ہے،جواس کے تصور میں بھی ویران ہو چکی تھی۔لہلہاتی ہوئی کھیتیاں
مرجھا چکی تھیں، درختوں کے سرسبزپتے سرد ہو چکے تھے اور ناریوں کے گیت فضا میں جذب
ہو گئے تھے،مگر وہ سرزمین اب بھی اس کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔۔‘
(دودھ اور خون: مصنفہ صدیقہ بیگم، افسانہ
’دودھ اور خون‘، ص213)
صدیقہ بیگم نے عام طور پر زندگی کی ابتری، سماج کی ستم
ظریفی، حکومت کی بے راہ روی،زندگی کی لاچارگی، گم ہوتی رنگینی، چہروں پراُڑتی
اُداسی، کرب میں ڈوبی مفلسی،مزدور کی بے بسی اورروزمرہ کی زندگی کواپنے افسانوں کا
موضوع بنایا۔افسانوں کے کردار چاہے معمولی لوگ ہیں یا پھر غیر معمولی افراد ہیں،لیکن
اپنے آپ میں ایک طبقے یا جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کردار کی زندگی کے حرکات و
سکنات یا محسوسات فرد واحد کے نہیں ہیں، بلکہ ایک جماعت کی زندگی کی رہنمائی کرتے
نظر آتے ہیں۔
’۔۔۔دوسرے ابھی عام ذہنی سطح اتنی بلند نہیں
ہو ئی کہ بین الاقوامی واقعات و کردار سے پورا لطف و اثر حاصل کر سکے۔اگر کوئی
افسانہ نویس اس حقیقت سے چشم پوشی کرکے قلم اُٹھاتا ہے،تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ
اپنے افسانہ پڑھنے والوں سے کماحقہٗ واقف نہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی عرض کردینا ہے
کہ صدیقہ بیگم کے افسانوں کے کردار بھی عموماً معمولی لوگ ہیںیا کم از کم غیر معمولی نہیں مگر ہر کردار
اپنی جگہ پر ایک طبقہ یا جماعت ہے۔اس کی زندگی،اس کے حرکات و سکنات اس کے محسوسات
ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری ایک جماعت کی زندگی پر حاوی ہیں۔‘
(ہچکیاں : مصنفہ صدیقہ بیگم، پیش لفظ :
ڈاکٹرسید اعجازحسین، 24اپریل 1950، ص15)
دراصل، زندگی ایک دوڑ ہے۔ دنیا میں بسنے والے تمام
افراد دوڑ رہے ہیں۔اس دوڑ میں مرد، خواتین، بچے، جوان اوربوڑھے سبھی شامل ہیں۔
کہانی کے کرداروں کا تو بغیر دوڑے کام چل ہی نہیں سکتا۔ پیدل چلنے والا شخص کچھ
فاصلہ طے کرنے کے بعد پیچھے چھوٹنے والے درختوں کو مڑکر دیکھتا ہے۔کہانی کے کردار
بھی چلتے اور دوڑتے ہیں۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں کے کردار بھی دوڑ میں شامل ہیں۔’
واپسی‘ افسانے میںاحمد کی موٹرکار میں بیٹھ کر اسٹیشن کی طرف جارہا رشید کبھی کار
اور کبھی اپنے کپڑوں کی طرف دیکھ کر یہ جائزہ لے رہا ہے کہ آیا وہ کار میں بیٹھنے
کا اہل ہے یا نہیں۔یہ امتیاز ہمارے معاشرے میں موجودنچلے طبقے اور متوسط طبقے کے
درمیان کے فرق کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ فرق دوڑ میں آگے نکل جانے اور پیچھے رہ
جانے والوں میں موجود برتر اور کمتر ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
’۔۔۔۔یہ موٹر اس کی نہیں تو کیا ہوا۔ دنیا میں
کتنے ہیں، جن کے پاس موٹریں نہیں ہیں۔فی الواقعی موٹر والے تو انگلی پر گنے جا
سکتے ہیں۔موٹر والے کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اس نے دوبارہ احمد کی طرف دیکھا۔موٹر
تیزی سے چلی جا رہی تھی۔ تیس میل فی گھنٹے
کی رفتار کافی تیز تو ہوتی ہے۔موٹر آگے جا رہی تھی دوکانوں کی عمارتیں پیچھے چھٹتی
جا رہی تھیں۔ پیدل چلنے والے راہگیر پیچھے رہے جا رہے تھے۔ زندگی ایک دوڑ ہے۔ رشید
نے دل ہی دل میں کہا۔جس میں موٹر والے منزل پر پہنچتے ہیںاور پیدل چلنے والے پیچھے
رہ جاتے ہیں۔‘
(افسانوی مجموعہ ہچکیاں:مصنفہ صدیقہ بیگم،
پہلا افسانہ ’واپسی‘، ص 44)
دنیا کا کوئی بھی حصہ اُونچ اور نیچ، امیر اور غریب،
خوش حال اور بد حال، تونگر اور فقیر، کسان اور مزدور اور حاکم و محکوم کے امتیاز
سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ صدیقہ بیگم کی زیادہ تر کہانیوں میں بھی یہ فرق واضح طور پر
نظر آتا ہے۔ پیٹ بھرا ہو،تو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے۔نیند بھی خوب آتی ہے۔خالی شکم میں
اپنا آپ بھی بُرا اور زمین پر بوجھ لگنے لگتا ہے۔ دماغ میںطرح طرح کے سوالات
اُبھرتے ہیں،تو دل میں عجیب عجیب خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ شکم سیر ہونے کی تراکیب
سوچی جاتی ہیں۔ بھوک کے آگے اچھے برے کی
تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ ذہن میںچوری کر پیٹ میں آگ بھرنے کے خاکے بننے لگتے ہیں۔’چاول
کے دانے‘ میں جس خاندان کی کہانی پیش کی گئی ہے،وہ غربت کا شکار ہے۔ان کی قسمت میں
ایک دو وقت نہیں کئی کئی روز کے فاقے لکھے ہیں۔پریم چند کی کہانیوں کی طرح گاؤں میں
ایک ساہوکار اور زمیندار بھی ہے۔مالدار لوگوں کی کوٹھیاں گیہوں اور چاول سے بھری ہیں،جب
کہ غریبی کی مار جھیل رہے کمزور و نحیف افراد ایک ایک مٹھی چاول اور آٹے کو محتاج
ہیں۔ کئی کئی روز کے فاقے برداشت کرنابہت مشکل
ہے؟ ہر بات، شے اور کیفیت کی ایک حد ہوتی ہے۔ ایسا بھی وقت آتا ہے،جب گھر
کا سامان اور برتن بھانڈے فروخت کرنے کی نوبت آ جاتی۔اور جب سروسامان بھی ختم ہو
جائے،تو پھر نگاہ جان سے پیاری شریک حیات اورجگر گوشوں پر جا ٹھہرتی ہے۔ پیٹ کی
آگ انسان کی عزت کو تارتار اور آبرو کو جلاکر خاک کردیتی ہے۔گھر کے ہر کونے میںبھوک
کے لپکتے شعلے دیکھ کر نذیر چاول لینے گیا تھا،لیکن لوٹ کر نہیں آیا۔بیٹے کی واپسی
کے انتظار میں باپ کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔خود چھ روز سے بھوکا ہے، لیکن پوتی شفو
کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔اسے ہر سمت سے نذیرآتا دکھائی دیتا ہے،لیکن تھوڑی دیر میں
غائب ہو جاتا ہے۔ایسا روز ہی ہوتا ہے۔آخر ایسا کب تک چلے گا؟
’ابا! تم نے شفو کو بیچ دیا...کیوں بیچا؟...خود
نہیں کھلا سکتے تھے...تمھارے پاس کچھ نہیں تھاتو اس کی آبرو بیچ دی۔تمھیں شرم نہیں
آتی،اپنی پوتی کی عزت بیچ کر تم زندہ رہنا چاہتے ہو۔ مرجانے دیا ہوتا۔...تمھاری
اتنی عمر ہونے کو آئی۔عزت و آبرو کا خیال نہیں... اور یہ تمھاری گودمیں کیا
ہے؟... وہ چونک پڑا... چاول اس کی گود سے چھوٹ کر زمین پر بکھر گئے۔ اس کے پاؤں
لڑکھڑانے لگے، دماغ چکر کھانے
لگا۔شف...او...اُس کی زبان سے نکلا، وہ گر
پڑا... شف... ہی ہی ہی ... چاند بڑی آب و
تاب سے چمک رہا تھا،لیکن تاریکی سے زیادہ
ڈراؤنی تھی وہ چاندنی... سایہ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔اب وہاں کوئی بھی
نہ تھا۔چاول کے دانے چاندنی میں چمک رہے تھے۔‘
(افسانوی مجموعہ ہچکیاں:مصنفہ صدیقہ بیگم،دوسرا
افسانہ’چاول کے دانے‘،ص69)
صدیقہ بیگم کے افسانوں کے زیادہ تر کردار ان کے آس پاس
اور سماج سے اخذ کیے گئے ہیں۔ان کامذہبی، تاریخی اورسیاسی مطالعہ بہت وسیع ہے۔وہ
عام زندگی کے نشیب و فرازسے بخوبی واقف ہیں، توبچوں کی نفسیات سے بھی خاصی واقفیت
رکھتی ہیں۔ انھوں نے پرانی اور فرسودہ روایات کومکمل طور پر درکنار کر تے ہوئے حقیقت
پر مبنی روزمرہ کے واقعات کی ترجمانی کی ہے۔انھوں نے زیادہ تر موضوعات کا انتخاب
سماج سے کیا ہے۔اپنی پوری قوت اور صلاحیتوں کے ساتھ وقت کی آواز کو الفاظ کا جامہ
پہنانے والی صدیقہ بیگم کبھی امیروں کے محلات میں دکھائی دیتی ہیں،تو کبھی رؤسا کی
کوٹھیوں میں گھومتی نظر آتی ہیں۔ وہ کبھی غریبوں کی جھونپڑیوں میں پہنچ کر بھوک
سے ملاقات کرتی ہیں،تو کبھی مزدوروں کی بستیوں میں جاکر ان کے چہروں پر لکھی عبارت
کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ صدیقہ بیگم ایک
ایسی شخصیت ہیں،جن کے اَدبی کارناموں پر ابھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہے۔
M. A. 'Kanwal' Jafri
127/2, Jama
Masjid,
NEENDRU, Tehsil Dhampur
District: Bijnor - 246761 (U.P.)
Cell.: 09917767622, 09675767622
Email: jafrikanwal785@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں