13/9/24

صلاح الدین پرویز کی شاعری میں رادھا اور کرشن کا تصور، مضمون نگار: محمد شبلی آزاد

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024



صلاح الدین پرویزار دو شعروادب کی وہ شخصیت ہے جس کی شہرت و مقبولیت کی داستان اس پھلجڑی  کی سی ہے جو یکایک روشن ہوکراپنے اطراف کو روشنی سے بھر دیتی ہے اور کچھ ہی پل میں بجھ کر راکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس عروج و زوال کی داستان پر گفتگو ہمارا مقصود نہیں ہے، بلکہ میرا مقصدصلاح الدین پرویز کی نظموں میں رادھا اور کرشن کی داستان محبت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ہے۔

رادھا اور کرشن کے کردار ہندوستان کی سرزمین کے وہ تاریخی کردار ہیں جنھوں نے عشق و محبت کی اعلی مثال قائم کی اور دنیا کو ایثار و قربانی کا درس دیا اور ہمیشہ کے لیے کتاب محبت کے اوراق میں محفوظ ہو گئے۔ ہندوستان کی تمام زبانوں کے ادب میں رادھا اور کرشن کی داستان عشق ملتی ہے جو کہ شری کرشن سے عقیدت کا واضح ثبوت ہے۔شری کرشن کی عقیدت مذہب، ذات پات اور جغرافیائی حدود سے پرے ہے۔ ہندو شعرا نے انھیں اپنی شاعری میں بھگوان کی طرح پیش کیا ہے اور مسلمان شعرا کے نزیک وہ محبت و ایثار اور قربانی کی لازوال مثال ہیں جبھی تو مغلوں کے دور میں ’سید ابراہیم‘ برنداون آئے تو رسکھان بن گئے اور کرشن بھکتی کو اپنے شب و روز کا مشغلہ بنا لیا وہ کہتے ہیں          ؎

مانس ہوں تو وہی رسکھان بسوں برج گوکل گاوں کے گوارا

جو پسو ہوں تو کہاں بس میروں چروں نت نند کی دھنوں مجارن

مولانا حسرت موہانی لکھتے ہیں          ؎

حسرت کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سنتے ہیں عاشقوں پہ تمھارا کرم ہے خاص

شکیل بدایونی ’مغل اعظم‘ میں کچھ یوں کہتے ہیں          ؎

موہے پن گھٹ پہ نند لال چھیڑ گیورے

ہندوستان سے باہر پاکستان میں بھی رادھا اور کرشن کی مثالی محبت کو فراموش نہیں کیا گیا بلکہ وہاں کے شعرا نے بھی اپنی غزلوں اور نظموں میںرادھا اورکرشن کی محبت کی داستانوں کو پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے پروین شاکر کا نام قابل ذکر ہے، انھوں نے رادھا اور کرشن کو اپنی غزلوں اور نظموں میں پیش کر کے ہندوستانی تہذیب کی امر پریم کتھا کو سرحدوں کی بندش سے آزاد کر دیا ہے، ملاحظہ ہو        ؎

قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی

پر میں کیا کرتی کہ زنجیر تیرے نام کی تھی

کیوں ہوا آکے اڑا دیتی ہے آنچل میرا

یوں ستانے کی تو عادت میرے گھن شیام کی تھی

اردوشعرا کے کلام میںبلاامتیاز مذہب و ملت رادھا اور کرشن کی محبت اور ان سے عقیدت کے موضوع پرکثرت سے اشعار ملتے ہیںلیکن ’سفینہ چاہیے اس بحربے کراں کے لیے‘۔ سردست نہ اس کا موقع ہے اور نا ہی ضرورت۔ اس کا مقصد تو صلاح الدین پرویز کی شاعری میں رادھا اور کرشن کی محبت کو جس خوب صورتی و فنکارانہ دروبست کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کو اجاگر کرناہے۔ رادھا کرشن کی محبت اور قدیم زمانے سے چلی آرہی اس روایت کی خوشبو ہندوستان کی مٹی میں رچی بسی ہے شاید اسی لیے صلاح الدین پر و پز جیسا جد ید شاعر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے رادھا اور کرشن کے رشتے کی پاکیزگی، خلوص اور اس کے حسن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کی روح میں اتر کر جذبۂ عشق کی سرشاری کو بہت قریب سے دیکھااورمحسوس کیاہے۔ صلاح الدین پرویز کا شعری مجموعہ ’ پرماتما کے نام آتما کے پتر‘ کرشن سے ان کی عقیدت کی واضح دلیل ہے۔ اس مجموعے میں شامل تمام نظمیں رادھا کرشن کی محبت اور غم فراق کے موضوع پر ہیں۔ یہ نظمیں مکالماتی ہیں جن کی نوعیت خطوط کی ہے۔ پرماتما یعنی پرم آتما جس کو ہندو مذہب میں خدا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نام میں ایک استعارہ یہ بھی ہے کہ پتر لکھنے والے کرشن آتمابھی ہیں اور پرم آتما بھی وہ خود آتما بن کر پرم آتما کو خط لکھ رہے ہیں جو خود ان کے اندر رادھا کی شکل میں موجود ہے۔ رادھا کرشن کے من میں اس طرح بس گئیں کہ آتما اور پرماتما کو الگ کرنا نا گزیر ہو گیا ہے۔ رادھا کرشن کے بچپن کی محبت ہے۔ برنداون میں بچپن گزارنے کے بعد کرشن متھرا چلے گئے اور اس طرح رادھا سے بچھڑ گئے۔ اس موضو ع کو شعرا نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔  اکثر شعرا نے رادھا کی تنہائی اور ان کے دل میں اٹھ رہے طوفان کو دکھا نے کی کوشش کی ہے۔ برنداون میں اکیلی، اداس،مجبور رادھا  بھکتی میں لین کرشن کو یاد کر رہی ہے۔شعرا نے اس کیفیت کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ کی ہے لیکن صلاح الدین پرویز نے اس سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی ہے۔ وہ رادھا رانی کی تنہائی دکھانے کے بجائے متھرا میں اکیلے اور بے چین کرشن کی بے تابی و بے قراری کو پیش کرتے ہیں اور کرشن کے اندرچھپے ہوئے درداور فراق کی اذیت کو خطوط کی شکل میں رادھا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ہر ایک لفظ سے درد چھلکتاہے وہ شاید اس لیے کہ یہ کوئی عام الفاظ نہیں ہیں بلکہ کرشن کی مرلی کے وہ سر ہیں جو رادھا سے محبت کے قصے سناتے ہیں۔ صلاح الدین پر ویز نے ان سروں کو اپنے ہردے میںاتار کر الفاظ کی شکل دی ہے اور ان کے ذریعۂ عشق کی الگ زبان بنادی ہے وہ اس کتاب کے پہلے بھاگ کی بھومکا میں لکھتے ہیں:

’’میں اعتراف کرتا ہوں، میں کرشن،نہیں ہوں اور اس کا بھی اعتراف کرتا ہوں میری محبوبہ رادھا نہیں ہے لیکن میں اس بات کی قسم کھاتا ہوں،میںنے ایک شب خواب میں، کرشن کو دیکھا ہے اور یہ چٹھیاں جو انھوں نے کبھی 'رادھا کو لکھی تھیں، خود مجھے پڑھ کے سنائی ہیں ہاں یہ بات بھی سچ ہے انھوں نے اس شب خواب میں جو کچھ مجھے سنایا وہ شبد نہیں تھا، وہ تو مرلی کا سُر سنگیت تھا جسے میں نے شبد دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(پرماتما کے نام آتما کے پتر،ص107)

صلاح الدین پرویز کی شاعری کے دو اہم ہیرو ہیں ایک محمدؐ اور دوسرے شری کرشن۔پرویز بحیثیت مسلمان محمدؐ کی حیات طیبہ اور اخلاق سے حد درجہ متاثر ہیںان کی زندگی انسان اور انسانیت کے لیے مشعل راہ تصور کرتے ہیں لیکن جب وہ ہندوستانی تہذیب اور یہاں کی جمالیات کی بات کرتے ہیں تو انھیں ہندو اساطیراور کرشن کے کردار میں ہزاروں سالہ ہندوستانی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے جس کی بنیاد عشق و محبت پر ہے،کرشن اور رادھا کی پاکیزہ محبت پر۔صلاح الدین پرویز کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس پریم کتھا کو اپنی نظموں میں مصوری کی حدتک برتا ہے وہ الفاظ سے ایسی تصویربناتے ہیںکہ رادھا اور کرشن کی شخصیت ابھر آتی ہے لیکن یہ تصویر جسم سے پرے روح کی تصویر ہے۔ عشق اور پریم کی تصویر ہے۔ ہجر میں تنہائی کے کرب کی تصویر ہے اور یہ تمام تصویریں ان کی نظموں کے ہر ہر مصرعے میں بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

 صلاح الدین پرویز یوں تو جدیدیت کا شاعر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی جدیدیت دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ وہ صرف فرد کے اندورن میں جھانک کر اپنا موضوع نہیں تلاش کرتاہے بلکہ ہندوستانی و اسلامی تہذیب و ثقافت اور قدیم شعری روایت کی تہہ میں اتر کر نباضی کرتا ہے۔ وہ دیومالائی اور اساطیری کرداروں کے من میں جھانک کر دیکھتا ہے اور ان کے احساسات و جذبات اور اندرونی کیفیات کو قدیم و جدید علامات و استعارات کے سہارے پیش کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں رادھا اور کرشن کے ہجر سے اٹھنے والے کرب کو جس انداز میں بیان کیاگیاہے اس میں سطحیت اور ہلکا پن نہیں ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کرشن کی روح کو اپنے اندر اتار کر ان کے من کو چھو رہا ہے، ان کے من میں پیدا ہونے والے تلاطم کو خود میں محسوس کر رہا ہے۔ وہ رادھا کے ساتھ برنداون کی گلیوںمیں حسین یادوں کی ایک عمارت تعمیر کرتا ہے جس کے اندر تنہا ہی زندگی گزار دیتا ہے بس وہ ہے اور اس کی بنسی اور ارد گرد صرف رادھے رادھے یہی عقیدت اور بھکتی ان کی نظموں کا محور ہے۔

تعجب ہوتا ہے کہ صلاح الدین پرویز جیسا جدید شاعر جس نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ جس نے عمر کا ایک حصہ عرب میں گزاراہے اس کے دل میں ہندوستانی اساطیر سے اتنی انسیت کیسے پیدا ہوئی کہ اس نے اپنے ناولوںاور شاعری میںاساطیر ی عناصر کی بارش کردی وجہ چاہے جو بھی رہی ہو لیکن یہ واضح ہے کہ ان سیر و سیاحت نے ان کے نظریے کو وسعت بخشی ہے اور انھوں نے دنیا کی تمام تہذیبوں میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو زیادہ بہتر پا یا۔ہندوستانی تہذیب میں ہر اس چیز کو پا لیا جس کے وہ متلاشی تھے یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب سے محبت اور انسیت بڑھتی رہی حتی کہ وہ ان کی روح میں پیوست ہو کر ان کی شاعری کا خوبصورت حصہ بن گئی۔ ان کی نظموں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ گویا کرشن ان کی شخصیت کا ایک حصہ ہیں اور وہ  صرف اور صرف رادھا کی محبت کے متلاشی ہیں۔ ان کو ہر چیز میں کرشن کا عکس نظر آ تا ہے انھیں نیلے آسمان میں شری کرشن کا نیلا رنگ دکھائی دیتا ہے حتی کہ زمین کی سر سبز و شادابی او ر رادھا کے دھانی و ستر میں بھی کرشن کے نیلے رنگ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

’’رادھے،

کیا سوچ رہی ہو!

کہیں اس بادل کے بارے میں نہیں

 جس کا رنگ

میرے رنگ سے ملتا جلتا ہے!!۔۔

یاد ہے اک دن تم نے اُسی رنگ میں

 اپنی دھانی ساڑی بھی رنگ لی تھی

 اُسی رنگ کی ماتھے

اپنے بندیا بھی رکھ لی تھی...

 لیکن اس رنگ کا سندور

 ورنداون کے بازاروں سے غائب تھا

وہ سندور تومن کی ہاٹ میں پایا جاتا ہے

     صلاح الدین پر ویز غالباً اردوکاوہ جدید شاعر ہے جس نے بارہ ماسہ بھی لکھا ہے۔ بارہ ماسہ ہماری قدیم شاعری کی روایت کا ایک حصہ ہے۔ سنسکرت،برج اور ہندی کے علاوہ اردو میں افضل کی بکٹ کہانی سے لے کر اب تک کئی بارہ ماسے لکھے گئے ہیں جن میں عام طور پر ایک فراق زدہ عورت کے دلی احساسات و جذبات، شوہر یا محبوب کی یاد میں تڑپنے کی کیفیت کو خود اس کی زبانی بیان کیا جاتا ہے۔ صلاح الدین پرویز نے اس روایت میں بھی جدید پہلو ڈھونڈھ نکالا اور اردو شاعری میں بارہ ماسے کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ انھوں نے بارہ ماسے میں کرشن کی بے چینی اور ان کے دلی جذبات کو بارہ مہینوں کی رعایت سے بیان کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ رادھا کی دلی کیفیت اور ان کے اکیلے پن کو بھی درشایا ہے لیکن رادھا کی یہ کیفیت خودرادھا کی زبانی بیان نہ کر کے کرشن کی یادوں کے جھروکوں سے ہم تک پہنچائی ہے۔

صلاح الدین پرویز نے رادھا اور کرشن کے پریم کی کہانی کو صرف موضوعاتی سطح پر ہی قبول نہیں کیا ہے بلکہ فنی اعتبار سے بھی انھوں نے اساطیری نظم کے تمام تقاضوں کو بحسن و خوبی پورا کیا ہے۔اساطیر کی مخصوص اصطلاحات، لفظیات اور علامات و استعارات کو ملحوظ رکھا ہے۔

انھوں نے بے شمار اصطلاحات اور مخصوص الفاظ جو رادھا اور کرشن کے کردار کو ہندوستان کی سرزمین اور یہاں کی ہزاروں سالہ تہذیب سے جوڑتے ہیںان کا بر محل استعما ل کیا ہے۔اس کے علاوہ صلاح الدین پرویز نے سنسکرت کے تت سم،ہندی اور مقامی الفاظ بھی کثرت سے استعمال کیے ہیں، مثلاً کنگڑیا، آلنگن، پدچاپیں، گھن گاجے، منڈوے، کپٹی، کنچن با نس وغیرہ انھوں نے میگھوالفظ کا استعمال کیا ہے جو میگھ سے بنا ہے۔اودھی اور بھوجپوری دونوں زبانوں میں اسم کو ندائیہ شکل دینے یا جمع بنانے کے لیے اکثر (وا  اور  یا  )کا لاحقہ لگاتے ہیں مثلا پانی سے پنیا، کپڑا سے کپڑوا  وغیرہ۔صلاح الدین پرویز نے یہ طریقہ کار بہت سی جگہوں پر استعمال کیا ہے۔

رادھا اور کرشن پر لکھی گئی ان کی نظمیں فنی اور موضوعاتی دونوں اعتبار سے کامیاب ہیں۔لفظوں کے انتخاب سے اپنی نظموں میں ہندوستانی فضا قائم کرنے میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ 

Mohd Shibli Azad

Research Scholar, Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu Univeristy

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Cell.: 9198859645

mohdshibliazad1995@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...