13/9/24

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ سال کی عمر سے لے کر تقریباً 27 سال تک حیدرآباد میں مقیم رہے، کیونکہ ان کے والد محترم بینکٹھ ناتھ بھٹاچاریہ حیدرآباد میں ریلوے کے ملازم تھے یعنی ان کا بچپن حیدرآباد میں ہی گزرا اور تعلیم و تربیت یہیں ہوئی۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں افسانہ نگاری شروع کی۔ ان کے افسانوں میں افسانوی رنگ کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گوئی سے کیا، پھر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے مگر اس میدان میں بھی بہت دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ آخر میں وہ اپنے بیدار ذہن کی وجہ سے تحقیق و تنقید کی طرف مائل ہوئے۔ وہ ایک محنتی اور ذہین ادیب کے ساتھ ساتھ بہت ہی بہترین محقق بھی ہیں، جس موضوع پر کام کرنے کی کوشش کی اسے کر دکھایا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے۔ اردو، بنگلہ دونوں ادبیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان بنگلہ تھی، لیکن خود کو اردو کا ادیب کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے 1948 سے لکھنا شروع کیا۔ اپنی ادبی زندگی کی شروعات عام شاعروں اور نوجوانوں کی طرح غزلوں سے کی کیونکہ ان کے ابتدائی دور میں شاعری کا بول بالا تھا۔ اس لیے بھٹاچاریہ بھی غزلوں کی وادیوں میں سیر کرنے لگے۔ شاید بھٹاچاریہ کے دماغ میں یہ بات آئی کہ وہ اپنے ہدف کو غزل سے پورا نہیں کرسکتے ، لہٰذا انھوں نے اس راستے سے خود کو الگ کرلیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے جہاں افسانے لکھے، ناول تحریر کیے، تراجم کیے وہیں تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا۔ ویسے تو ان کی تمام تحقیقی کتابوں میں تنقیدی عنصر نمایاں ہے۔ تنقیدی شعور کا اندازہ ان کی کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل، تین شاعر ایک مطالعہ‘ سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ سے بھی ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’اقبال، ٹیگور اور نذرل۔ تین شاعر ایک مطالعہ‘ میں تینوں قد آور شاعروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میں تینوں شاعروں کے حالات زندگی اور تعلیم کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد ان تینوں کی شاعری سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے نذرل کی انقلابی شاعری کی ستائش کی ہے وہیں اقبال کے بعض انقلابی اشعار پر اعتراض بھی کیا ہے۔ انھوں نے ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ میں ٹیگور کی شاعری سے جو بحث کی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ زود نویس تھے، انھوں نے متعدد کتابوں کے علاوہ مضامین بھی بہت لکھے جو ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہے، اس سے ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ان کی زود نویسی سے جہاں ان کو عزت و شہرت ملی وہیں اپنی بعض کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے نظرانداز بھی کیے گئے۔ وہ اپنے تحقیقی کاموں مثلاً بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات، مختصر تاریخ بنگلہ ادب، بنگال میں اردو زبان و ادب، آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو اور ’بنگال میں اردو کے مسائل‘ کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش زندہ رہیں گے۔

بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہوش سنبھالا تو انگریزوں کا ظلم و ستم چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ انگریزوں کے مظالم سے پورا ہندوستان متاثر تھا۔ غریب مزدور اور کسان کی حالت خستہ سے خستہ تھی۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی دہشت اور ہولناکیوں سے یہ طبقہ بہت حد تک متاثر تھا۔ بھٹاچاریہ نے اپنی زندگی میں کسانوں اور غریبوں پر ہونے والے مظالم کو بہت ہی قریب سے دیکھا، جس کا اثر ان کی ادبی زندگی پر پڑا اور ان ہی سب وجوہات کی بنا پر وہ غزل گوئی کو چھوڑ کر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کوئی بھی حساس اور بیدار ذہن انسان کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون خرابہ دیکھ کر خاموش کیسے رہ سکتا ہے، لہٰذا انھوں نے تلنگانہ تحریک میں حصہ لے کر غریب کسانوں کی مدد اور انسانیت کی خدمت کی اور افسانہ نگاری کے ذریعے انسانیت کو جگانے کی حتی المقدور کوشش کی۔

مغربی بنگال کی قدآور شخصیتوں میں شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا نام اہم ہے۔ انھوں نے بنگالی ہونے کے باوجود اردو زبان وادب کی جس قدر خدمت کی اس کی مثال مغربی بنگال میں نہیں ملتی ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی ایک یا دو میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے ملتے ہیں جنھوں نے کئی میدان میں طبع آزمائی کی ہو۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی مادری زبان اردو نہیں بنگلہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی اردو فہمی قابل داد ہے۔ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ اردو زبان و ادب کی ابتدا و ارتقا سے بھی وہ کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے سماج اور کلچر کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیا تھا۔ سیاست سے بھی جڑے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بھی تھے۔ اس پارٹی سے ان کی وابستگی کی وجہ ملک وقوم کی خدمت تھی۔ ظلم و استحصال پر وہ خاموش نہیں رہتے تھے، تلنگانہ تحریک اس کی ایک مثال ہے جس کے لیے انھیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی زندگی مختلف ادبی و علمی منزلوں سے گزر کر تحقیق کی منزل تک پہنچی جہاں وہ اس دشت کے میر کارواں ثابت ہوئے۔ انھوں نے بنگلہ اور اردو کے درمیان ایک معتبر رابطے کی حیثیت حاصل کی۔ اس طرح انھیں مغربی بنگال کے تحقیقی میدان میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مغربی بنگال کے اردو حلقوں، اسلام پور، آسنسول، بارکپور، ہگلی، گارڈن رچ، ہاوڑہ اور شہر کلکتہ کے اردو مسائل کا تذکرہ تحقیق کی روشنی میں کیا ہے۔ مثلاً وہاں اردو آبادی، بنگلہ بولنے والوں کی آبادی، پرائمری اسکولوں اورسکنڈری اسکولوں کی تعداد، وہاں کا تعلیمی معیار اور وجوہات، اساتذہ، طلبہ و طالبات کی مشکلات، گھر سے کالج تک کی آمد و رفت کے ذرائع، انجمن ترقی اردو ہند شاخ مغربی بنگال کی کارکردگی، ادبی اداروں کی سرگرمیاں، ڈرامہ گروپ کا تعارف، دفتروں میں اردو کا استعمال، اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کا مسئلہ، کتب خانوں کی تعداد، کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد، اردو اکادمی کی جانب سے کتابوں کی فراہمی، اردو مشاعرے، اردو شعراوا دبا کی خدمات، اردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری، غیر منظور شدہ اسکولوں کے مسائل، اردو اخبارات اور رسائل کی فہرست وغیرہ کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ وہ مغربی بنگال میں اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ درحقیقت مغربی بنگال میں اردو کا صرف ایک ہی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور یہ اہم مسئلہ ہے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مسئلہ اور اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل سب یکے بعد دیگرے آسانی سے حل ہوجائیں گے۔

اردو کے مسائل کو حل کرنے کی شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہرممکن کوشش کی، وہ لکھتے ہیں :

’’اگر یہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے تو اردو کو اپنا قانونی حق مل جائے گا۔ اس کے بعد اردو تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں جو دیگر دشواریاں ہیں وہ راستے میں حائل نہیں ہوسکیں گی اور اردو والے قانونی حق پانے پر ایسی تمام دشواریوں کامقابلہ کرلیں گے۔ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے اور یہی مختلف ریاستوں میں اردو والوں کا اہم ترین مسئلہ ہے جس کے لیے اردو والے برسوں سے کوشاں ہیں۔‘‘

شانتی رنجن نے اردو زبان کے تعلق سے جو ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں اس سے نہ صرف دشمنان اردو بلکہ عام افراد یا لسانی تعصب رکھنے والے انسان کے ذہن شیشے کی طرح صاف ہونا چاہیے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قوموں کی آمیزش سے بنی زبان ہے اس کاکوئی مخصوص علاقہ یا مخصوص یوم ولادت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اچانک ایک دن عالم وجود میں آئی۔ اس کا خمیر تیار ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ یہ ایک جدید ہندوستانی زبان ہے جو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ہندی، ہندوی، ریختہ، دکنی، گجری اور آخر میں اردو کے نام سے روشناس ہوئی جو رفتہ رفتہ بین الاقوامی شکل اختیار کر گئی۔ آج اس کے بولنے والے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔

شانتی رنجن کی محققانہ نگاہ نے نہ صرف مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل اور حل پر روشنی ڈالی ہے بلکہ آزادی کے بعد پورے ملک میں اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں،  سیاسی کھیل، تقسیم ہند، قیام بنگلہ دیش، اردو اور مسلمان، اردو کی ابتدا کے تعلق سے مختلف نظریات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔

نامور ادیب اور محقق ڈاکٹر خلیق انجم نے شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی تصنیف ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل ‘کے دیباچے میں ان کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب ہیں تقریباً چالیس برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں چونکہ بھٹاچاریہ صاحب کی مادری زبان بنگالی ہے اس لیے انھوں نے اردو میں ایسا کام خاصے پیمانے پر کیا ہے جس میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کا علم آیا ہے۔ انھوں نے بنگال میں اردو ادب اوراردو زبان کے موضوعات پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھٹاچاریہ صاحب نے کچھ بنگالی کتابوں کے اردو میں او ر کچھ اردو کتابوں کے بنگالی میں ترجمے کیے ہیں۔ بھٹاچاریہ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، ذہین، اور محنتی ادیب اور محقق ہیں جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد سے استفادہ کریں۔ ‘‘

(متنی تنقید: خلیق انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2006، ص 31)

شانتی رنجن کی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ کے مطالعے سے مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں اردو بولنے والوں کے اعدادوشمار، اسکولوں کی مجموعی تعداد، اساتذہ، طلبہ و طالبات کے مسائل، اردو اساتذہ کے ٹریننگ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی بنگال میں اردو کے بے شمار مسائل کو پیش کیا ہے، جس کا سامنا آج بھی اہل اردو کررہے ہیں۔

اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کا ذکر شانتی رنجن نے اپنی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ میں مغربی بنگال کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف نہایت ہی بے باک، غیرجانب دار اور اردو کے سچے بہی خواہ اور بے خوف سپاہی ہیں۔

 

Mohd Naushad Alam Nadwi

E-167, 4th Floor, Shaheen Bagh

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi, 110025

Mob.: 8826096452, 9015763829

mohdnaushad14@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...