ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024
زمین کو ہم ٹھہری ہوئی اور اٹل سمجھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
زبردست عمارتیں ہم زمین پر تعمیر کرتے ہیں اور ان کی بنیادیں گہرائی میں لے جاتے ہیں۔
عمارت جتنی بڑی اور بھاری ہوگی اس کی بنیاد اتنی ہی گہری ہوگی۔ اس لیے جب کبھی
ہمارے قدموں کے نیچے کی زمین اس طرح لرزنے لگتی ہے کہ اس پر کھڑا رہنا مشکل
ہوجائے، درخت جھک جائیں، مضبوط عمارتیں جو صدیوں سے کھڑی تھیں ان میں دراڑیں پڑجائیں
اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے منہدم ہونے لگیں یا زمین میں شگاف پڑجائیں اور اس
کے اندر سے گڑگڑاہٹ اور گرج کی آوازیں سنیں تو ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقعے
پر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ بچاؤ کے لیے کیا کریں، کہاں بھاگیں۔
جدید آلات کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین پر ہر
سال آٹھ سے دس ہزار زلزلے آتے ہیں گویا اوسطاً ہر گھنٹے بعد ایک زلزلہ آتا ہے۔
اصلیت میں زلزلوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ ہماری زمین کے دو تہائی
حصے پر پانی پھیلا ہوا ہے اور پانی پر زلزلوں کو ریکارڈ کرنے والے مراکز نہیں ہیں۔
علاوہ ازیں براعظموں پر بھی زیادہ تر علاقوں میں زلزلے ریکارڈ کرنے
والے اسٹیشن نہیں ہیں۔ خوش قسمتی سے زیادہ تر زلزلے اتنے کمزو رہوتے ہیں کہ
ان کو ہم محسوس نہیں کرپاتے۔ انسان زلزلوں کو اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کے گھرکا
ساز وسامان ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے یا سامان ایک دوسرے سے ٹکرا کر گڑگڑاہٹ کی آواز
پیدا کرتا ہے۔ تاہم ایسے زلزلے بھی زیادہ نقصاندہ نہیں ہوتے زیادہ خطرناک زلزلے وہ
ہیں جن میں پلیٹ اور رکابیاں چٹخ جاتی ہیں۔ قمقمے، لیمپ اور دیواروں پر لٹکی ہوئی
تصویریں ہلنے لگتی ہیں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسے زلزلوں سے ہمیں شدید
نقصان پہنچتا ہے۔ اگر دیواروں کا پلاستر گرنے لگے، گھر میں رکھی ہوئی مختلف چیزیں
گر جائیں، گھڑی کا لٹکن رک جائے، دروازے زور سے بند ہوجائیں اور دیواروں میں شگاف
نظر آنے لگیں تو مکین مکانوں کو چھوڑ کر بے ارادہ سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔ ایسے
وقت پر سڑکیں اور کھلی جگہ زیادہ محفوظ تصور کی جاتی ہیں ایسے خطرناک زلزلے بھی
سال میں درجنوں آتے ہیں۔ ان سے بڑھ کر کبھی کبھی ایسے زلزلے بھی آتے ہیں جو
قصبوں اور شہروں کو تباہ کردیتے ہیں اور جن میں ہزاروں آدمیوں کی جانیں جاتی ہیں۔
کچھ زلزلے ایسے آفت خیز ہوتے ہیں جو کسی وبائی بیماری اور جنگ سے بھی زیادہ افراد
کو چند لمحات ہیں ہلاک کردیتے ہیں۔
زلزلہ سطح ارض پر نمودار ہوتا ہے لیکن اس کا ماسکہ (Focus)
(یعنی وہ مرکز جہاں سے زلزلہ پیدا ہوتا ہے) زمین کے
اندرونی حصے میں ہوتا ہے جو یا تو ایک محدود سطح (Plane)
پر یا ایسے علاقے میں واقع ہوتا ہے جس کی حدود معلوم نہیں
ہوتیں۔
زلزلے کے حساب کتاب کو آسان کرنے کے لیے زلزلے کے فوکس
کو نقطہ تسلیم کرلیا جاتا ہے جس کو ہائی پومرکز (Hypocentre)
کہتے ہیں۔ زلزلے کی لہروں کی ابتدا ہائی پو مرکز سے ہوتی
ہے، جس کے بعد یہ لہریں ہر سمت میں پھیل جاتی ہیں اور ہر ایک ذرے کو لہردار جنبش Resilient
motion دیتی ہیں۔ زلزلی لہریں ہائی پو مرکز سے دور
جاتے ہوئے بتدریج کمزور پڑتی جاتی ہیں۔ فوکس کے ایک دم اوپر سطح زمین پر زلزلے کی
لہروں کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اس علاقے کو زلزلے کا مرکزی (Epicentre)
علاقہ کہتے ہیں اور ہائی پو مرکز کے اوپر سطح زمین پر جو
نقطہ ہوتا ہے اس کو زلزلے کا سطحی مرکز (Epicentre)
کہتے ہیں۔
زلزلے کے سطح زمین پر مرکز (Epicentre)
سے ہر ایک سمت میں جتنی زیادہ دوری ہوتی جاتی ہے، زلزلے
کے جھٹکے اتنے ہی کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایسا مقام آجاتا ہے جہاں
انسان ان جھٹکوں کو محسوس نہیں کرپاتا اور صرف جدید معقول آلات کی مدد ہی سے
زلزلے کا اندراج ہوپاتا ہے۔
زلزلوں کا مطالعہ ارضیات کی ایک مخصوص شاخ میں کیا جاتا
ہے۔ اس علم کو سیسمولوجی (Seismology) کہتے
ہیں۔ سیسمولوجی یونانی زبان کے سیسمو لفظ سے بنا ہے جس کے معنی زلزلے کے ہیں۔ ایسے
زلزلے جن کو آدمی محسوس کرسکے۔ شدید زلزلے (Macroseisms)
اور جو صرف آلات کی مد سے دریافت کیے جاسکیں خفیف
زلزلے (Microseisms) کہلاتے
ہیں۔
زلزلے زیادہ شدت کے ساتھ سطحی زلزلی مرکز (Epicentre)
پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس مرکز سے کچھ دوری پر ہر سمت
میں ہم کو بہت سے ایسے نقطے معلوم ہوں گے جن پر زلزلے کی لہریں مساوی قوت کے ساتھ
ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ مساوی قوت کے نقطوں کو ملا کر اگر ہم ایک خط کھینچیں تو ہمیں
زلزلے کے مساوی القوتی خط معلوم ہوجائیں گے۔ ان خطوط کو آئسوسیسمی خط (Isoseismal
line) کہتے ہیں۔ مساوی القوت زلزلی خط اپنے سنٹر Epicentre)
کے چاروں طرف دائرہ نما نہیں ہوتے بلکہ بگڑے ہوئے
دائروں کی شکل کے ہوتے ہیں۔ زلزلی خطوط دائرہ نما اس لیے نہیں ہوتے کیونکہ زلزلے کی
لہروں کی شدت کا دار و مدار بہت حد تک قشر ارض کی ساخت پر ہوتا ہے اور قشر ارض کی
ساخت جگہ جگہ رنگا رنگ قسم کی ہوتی ہے۔ مساوی القوت زلزلی خطوط (Isoseismal
line) کے علاوہ ہم ایسے نقطوں کو ملاتے ہوئے بھی خط کھینچ سکتے ہیں جن پر ایک زلزلے کی لہریں
مساوی مدت میں ریکارڈ کی گئی ہوں۔ ایسے خط کو مساوی المدت زلزلی خط (Homoseismal
line) کہتے ہیں۔ مساوی المدت زلزلی خطوط بھی
دائرہ نما نہ ہوکر ٹیڑھے ترچھے ہوتے ہیں کیونکہ زلزلے کی رفتار کا دار و مدار ان
چٹانوں کی ساخت پر ہوتا ہے جن سے زلزلے کی لہریں گزرتی ہیں۔
کمزور اور اوسط درجے کے زلزلے عام طور پر ایک جھٹکا دیتے
ہیں۔ اس جھٹکے کی مدت چند سیکنڈ اور بہت مرتبہ ایک سیکنڈ سے بھی کم ہوتی ہے۔ تاہم
آدمی کو یہ مختصر وقت خاصا طویل معلوم ہوتا ہے۔ بڑے زلزلوں کا آغاز ایک یا ایک
سے زیادہ خفیف جھٹکوں کے ساتھ ہوتا ہے ان معمولی جھٹکوں کے تھوڑی دیر بعد دو ایک
بڑے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ بعد کے جھٹکوں سے ہی زیادہ تباہی ہوتی ہے۔ یہ جھٹکے
آہستہ آہستہ کمزور پڑجاتے ہیں اور اس طرح ایک شدید زلزلہ وقت گزرنے پر خفیف
زلزلے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسے زلزلے کی مدت اکثر چند گھنٹوں سے لے کر پورے دن
تک ہوسکتی ہے۔ کبھی کبھی زمین کے بعض علاقوں میں گھٹتی بڑھتی شدت کے زلزلے کے
جھٹکے چند دنوں سے لے کر ہفتوں اور مہینوں تک محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے طویل اور
متواتر جھٹکوں کو زلزلے کی مدت (Priods of earthquakes) کہتے
ہیں۔ دو بڑے زلزلی جھٹکوںکے درمیان کے وقفے میں کمزور قسم کے جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔
تقریباً ہر ایک زلزلے میں شور و غل کی آواز ہوتی ہے جو آدمیوں کے اوپر ہیبت طاری
کردیتی ہے، زلزلے سے زمین کے اندرونی حصے میں پیدا ہونے والی گڑگڑاہٹ کبھی کبھی
گرج کے مشابہ ہوتی ہے، کبھی یہ آواز ابلتے ہوئے پانی کے بلبلوں کے مانند، کبھی ایک
بھاری ریل گاڑی کی دھڑدھڑاہٹ کے مانند، کبھی لینڈ سلائڈ کی طرح کبھی ہوا کی سرسراہٹ
جیسی اور کبھی بم کے دھماکے کی طرح ہوتی
ہے۔ یہ آوازیں کبھی زلزلے کی لہروں سے پہلے اور کبھی لہروں کے بعد میں سنائی دیتی
ہیں۔ زلزلے کی شدت کا اندازہ آواز کی بلندی سے نہیں لگایا جاسکتا۔ کافی دیر تک
لگاتار زیر زمین گڑگڑاہٹ کے بعد کبھی کبھی زلزلے کی لہریں محسوس نہیں ہوپاتیں کیونکہ
وہ بہت کمزورہوتی ہیں۔
زلزلوں کا اندراج (Recording
Earthquakes): زلزلوں کے مطالعے کے لیے ایسے معقول آلات
کی ضرورت ہے جن کی مدد سے زلزلے کے ہر ایک جھٹکے کا وقت شدت اور سمت کا اندراج کیا
جاسکے۔ معمولی آلات زلزلے کے پہلے جھٹکے کا وقت درج کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ معقول
اور پیچیدہ آلات زلزلے کی سمت بھی ظاہر کرتے ہیں، لیکن زلزلہ ناپنے والے یہ سادہ
اور معمولی آلات جن کو زلزلہ پیمایا سیسمواسکوپ (Seismoscope)
کہتے ہیں کافی عرصے سے پیچیدہ بنا کر زیادہ صحیح اور
معقول بنا لیے گئے ہیں۔ ان جدید آلات کو سیسموگراف (Seismograph)
کہتے ہیں۔ تصویر 218 میں دو قسم کے تصورانہ سیسموگراف (Seismograph)
دکھائے گئے ہیں۔
ان سب سے خاص حصہ بھاری لٹکن Mہے۔
یہ لٹکن افق کے متوازی یا عمودی حالت میں ہلتا رہتا ہے۔ عام حالت میں یہ لٹکن ساکت
رہتا ہے لیکن زلزلے کے پہلے جھٹکے کے ساتھ ہی ہلنے لگتا ہے اور اسی وقت گھڑی U چلنے لگتی ہے۔ یہ گھڑی زلزلے کی ابتدا کا وقت بتاتی ہے اور بیلن (Drum) R کو جس پر ایک گراف کاغذ لپٹا رہتا ہے گھماتی
ہے۔ بیلن پر لپٹے ہوئے گراف کاغذ S
پر ایک باریک خط بننے لگتا ہے اور اس طرح کاغذ پر لٹکن کی ہر ایک حرکت درج ہوجاتی
ہے۔ اس خمیدہ خط کو سیسموگرام کہتے ہیں۔ سیسموگرام پر ہر ایک جھٹکے کو معلوم کیا
جاسکتا ہے اور ان کے وقت اور شدت کا بھی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آلے میں لگا
ہوا بیلن (Drum) ایک
مخصوص رفتار کے ساتھ حرکت کرتا ہے، جب کہ خط پر دندانی لکیر (Notches)
کی لمبائی لٹکن کی حرکت سے مطابقت رکھتی ہے جس کا دار و
مدار زلزلے کے جھٹکے کی شدت پر ہوتا ہے۔ خفیف زلزلوں 9Microseismic)
کا پتہ بہت باریک اور چھوٹی دندانی لکیروں (Notches)
سے اور بڑے زلزلو ںکا پتہ بڑی دندانی لکیروں (Notches)
سے لگتا ہے۔
اچھے قسم کا سیسموگراف اپنے مقام اور مرکز کے علاوہ دور
دراز مقامات کے زلزلوں کو بھی ریکارڈ کرتا ہے، ان کی دوری کا تعین کرتا ہے اور ان
کی لہروں کی شدت کا پتہ دیتا ہے۔
زلزلے کے ماخذ کی گہرائی: زلزلے کے ماخذ کی گہرائی ایک
دلچسپ مسئلہ ہے، اس کی گہرائی سیسموگرام کی مدد سے حساب لگا کر طے کی جاتی ہے۔
عمارتوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی دراروں سے بھی زلزلے کے نقطۂ آغاز کا بخوبی
پتہ لگ جاتا ہے۔ اگر دیواروں میں پڑنے والی دراروں کا سطح زمین کے مقابلے میں Pitch سے طے کرلیا جائے اور اس (Pitch) سے
90 ڈگری کا زاویہ ڈال کر سیدھے خطوط کے ملنے کا نقطہ متعین کرلیا جائے تو وہ زلزلہ
کا فوکس ہوگا— یہی فوکس زلزلے کا ماخذ بھی کہلاتا ہے۔ زلزلے کی فوکس سے اگر ایک سیدھا
خط سطح زمین پر ڈالا جائے تو زلزلے کے نقطۂ آغاز کی گہرائی معلوم کی جاسکتی ہے۔
مشاہدوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر زلزلے پچاس کلومیٹر
کی گہرائی کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ 50 سے 100 کلومیٹر کی گہرائی سے پیدا
ہوتے ہیں اور اس کے بعد صرف اکیلے زلزلے پیدا ہوتے ہیں جو کہ 30 سے 700 کلومیٹر کی
گہرائی سے شروع ہوتے ہیں۔ زلزلے کے سطحی مرکز (Epicentre)
پر اور اس کے آس پاس زلزلے کا شدید اثر پڑتا ہے۔ اس
علاقے کو پلائس ٹوسیسٹی (Pleistoseistic) کہتے
ہیں۔ اس علاقے کی وسعت کا دار و مدار نہ صرف زلزلے کی لرز کی قوت پر بلکہ اس کے
آغاز کی گہرائی پر بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی زبردست زلزلے کا پلائس ٹوسیسٹک علاقہ بہت
چھوٹا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زلزلے کا فوکس بہت کم گہرائی پر ہے۔ اس کے
برعکس اگر زلزلہ وسیع علاقے کو متاثر کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ زلزلے کا
ماسکہ (focus) زیادہ
گہرائی پر ہے اور اس کی قوت زیادہ ہے۔ 1775 میں لسبن میں ایک خطرناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقے کی وسعت یورپ
سے چار گنا تھی۔ جزیرہ اشیا (Ischia) بحیرہ
روم کے 1881 کے زلزلے میں کاسامیشیولا (Casamicciola) شہر
تباہ ہوگیا تھا۔ یہ زلزلہ بہت کم گہرائی سے پیدا ہوا تھا اور صرف 55 کلومیٹر علاقہ
اس سے متاثر ہوا تھا۔
ماخذ: ارضیات کے بنیادی تصورات، مصنف: وی اوبروچیف،
مترجم: ماجد حسین، پہلا ایڈیشن: 1976، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی
دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں