23/9/24

مولیئر: خاندان، حالات زندگی،ماخذ: مولیئر، مصنف: پروفیسر ثریا حسین

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

15 جنوری 1962 کو ژاں نامی ایک نوزائیدہ بچے کو پیرس کے سینٹ ایستائیش کلیسا میں بپتسمہ دیا گیا۔ اس کا پورا نام ژاں بپٹسٹ پوکلین تھا۔ یہ اس نوجوان جوڑے کا پہلا بچہ تھا جس کی شادی 27 اپریل 1621 کو ہوئی تھی۔ اس وقت والد ژاں پوکلین کی عمر پچیس سال تھی۔ وہ قالین کی تجارت کرتا تھا۔ بیس سالہ والدہ میری کریسے بھی ایک بڑے قالین فروش کی بیٹی تھیں۔ دونوں طرف سے خاندانی پیشہ قالین فروشی تھا۔ پانچ بچوں پر مشتمل یہ خوش حال کنبہ پیرس کے مشہور محلہ لے آل (Les Halles) میں رہتا تھا۔

ژاں بپٹسٹ جب نو سال کا ہوا تو اس کا باپ اپنے بھائی نکولا کی جگہ شاہِ فرانس کا حاجب اور ذاتی ملازم ہوگیا۔ اس اعزاز سے ان کے کاروبار کو مزید فروغ ہوا۔ جب تک ماں زندہ رہی بچے کی پرورش بورژوا خاندان کے سخت گیر اصولوں پر ہوئی۔ اسے ایک بڑے گھر کا ایسا سازگار ماحول ملا جہاں اس کے احساس جمال کی مناسب تربیت ہوئی اور اس ماحول سے وہ مواد ملا جسے آگے چل کر اس نے اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔

بدقسمتی سے جب وہ دس سال کا تھا اس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت سے اس کے جذبات و احساسات نظرانداز ہوتے رہے۔ اس لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا بچپن ہنستے کھیلتے گزرا ہوگا۔ جس کی عکاسی ’وہمی مریض‘ کے کردار بیلین کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اوائل 1633 میں بچوں کے خیال سے اس کے والد ژاں پوکلین نے دوسری شادی پچیس سالہ دوشیزہ کیھترین فلوریت سے کی۔ اس کے والد کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ خود پسند اور لالچی آدمی تھا اور کسی سے محبت نہیں کرتا تھا۔ مولیئر کے ناقدین کا خیال ہے کہ اس کے ڈرامے کے بعض منفی کرداروں میں اس کے باپ کی شخصیت کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔

ہر چند کہ اس کا باپ وسیع القلب اور محبت کرنے والا نہیں تھا لیکن یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو عمدہ تعلیم دی جوا س زمانے میں صرف صاحب حیثیت والدین کے لیے ہی ممکن تھی۔ 25 سال کی عمرمیں ژاں بپٹسٹ باقاعدہ تعلیم میں مشغول ہوا اور سال بھر بعد 1636 پیرس کے بہترین اسکول ’کولیژد کلیرموں‘ (Colliags De Clermont) میں داخلہ لیا جہاں وہ 1641 تک زیرتعلیم رہا۔ اس اسکول کا ماحول لبرل اور ہیومنسٹ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس میں حکمرانوں، تاجروں اور سرکاری ملازمین کے بچے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ 1638 سے مولیئر کے ساتھ اس اسکول میں شاہ کا چھوٹا بھائی پرنس کونٹی ہم سبق تھا، یہاں اس نے فلسفہ، ادب و شاعری بالخصوص لاطینی شعرا کا بغور مطالعہ کیا۔ یہیں اس نے ایبی قوری فلسفی گسینڈی (Gassandi) سے فلسفہ پڑھا۔ اس کے دوست شاپل (Chapelle) نے 1641 سے گسینڈی کو اپنے یہاں مہمان رکھا جس کی بنا پر شاپل کے ساتھ برنیر اور ژاں بپٹسٹ کو بھی اس مشہور فلسفی کی محبت اور قربت نصیب ہوسکی۔ ہندوستان کی سیاحت کرنے والا مشہور فرانسیسی برنیر بھی مولیئر کا ہم جماعت تھا۔ اینے پن تار نے گسینڈی کی خط و کتابت پر رائے زنی کی ہے کہ ’شاپل، مولیئر، برنیر نے ایسی ایبقوریت اختیار کی جو ان کے استاد سے زیادہ خوشگوار تھی‘‘ اس فلسفی کا ژاں بپٹسٹ کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑا۔ اس نے کالج سے نکلنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کی اور ’ارلیوں‘ کی فیکلٹی سے اس مضمون کی ڈگری لی۔ گو اس نے وکالت کا پیشہ اختیار نہیں کیا لیکن قانون سے اس کی واقفیت کا ثبوت ’بیویوں کا مدرسہ‘ اور ’وہمی مریض‘ وغیرہ میں ملتا ہے۔ اس کے والد کی خواہش تھی کہ وہ بطور اس کے جانشین شاہ فرانس کی ملازمت کرے۔ اس نے شاہ سے اپنی جگہ پر اپنے بیٹے کی ملازمت کی درخواست کی۔ چنانچہ اوائل 1642 اس نے ’ناربوں‘ (Norbomn) میں لوئی ہشتم کے دربار میں ملازمت کا اعزاز حاصل کیا۔ بادشاہ پندرہ دن مانیتقرین میں گزارتا تھا۔ وہیں نوعمر ژاں بپٹسٹ نے تھیٹر دیکھا جس میں مادلیں بے ژار (Madeline Bejar) اور اس کے ساتھی اداکاری کررہے تھے۔ اسی جگہ مادلیں بے ژار سے ملاقات ہوئی یہ حسین اور غیرمعمولی ایکٹریس ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ دونوں کے خاندان میں جان پہچان بھی نکل آئی۔ اداکاری کا شوق دونوں میں مشترک تھا۔ بالآخر یہ جذبہ محبت میں تبدیل ہوگیا۔ ژاں بپٹسٹ لڑکپن میں اپنے نانا کے ساتھ اکثر ناٹک دیکھنے جایا کرتا تھا، پہلے بھی اس کے ذہن پر ان کاگہرا اثر ہوا تھا۔ تھیٹر سے گہری دلچسپی کی بنا پر اب اس نے اپنے لیے اسٹیج کا کیریئر منتخب کیا، والد نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ایکٹنگ ایک بدنام پیشہ تھا، لیکن مدلین کی رفاقت اور اداکاری کے شوق نے تھیٹر کا فیصلہ آسان کردیا، چنانچہ ژاں بپٹسٹ نے ’پرل سڑک‘ کے گھر میں بے ژار خاندان کے تین افراد (مادلین، جنویو، جوزف) اور چھ دیگر اشخاص کے ساتھ مل کر 1643 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے چھ ماہ بعد ایک کھیل اسٹیج کیا گیا۔ کمپنی کا نام السٹرتھیٹر (Ilesthe) رکھا گیا۔ جب ہی اس نے اپنا اصلی نام بدل کر اسٹیج کا نام مولیئر اختیار کیا۔

مولیئر کے گروپ نے دو سال تک کوشش کی کہ عوام میں مقبولیت حاصل کرے لیکن شروع سے ہی ناکام رہا۔ ایسا لگتا تھا گویا پیرس کا شہر انھیں راس نہ آیا۔ اس شہر میں ’اوتل دبورگوں‘ اور تھیٹر ’دوما ہے‘ پہلے سے مشہور تھے۔ جن کی موجودگی میں کسی تیسری ڈرامہ پارٹی کا پنپنا محال تھا، اس ناکامی کی وجہ سے مولیئر مقروض ہو گیا۔ پاداش میںا سے جیل جانا پڑا۔ جہاں سے وہ اپنے باپ اور چند دوستوں کی مدد سے رہا ہوا۔ نتیجتاً یہ لوگ ایسے مایوس ہوئے کہ پیرس میں قدم جمانے کی ہمت نہ رہی اور انھوں نے دارالسلطنت کو خیرباد کہا۔ تقریباً بارہ سال تک فرانس کے مختلف علاقوں میں قسمت آزمائی کرتے رہے کیونکہ انھیں اضلاع میں کامیابی کا یقین تھا۔ 1645 سے 1648 تک مولیئر اپنی کمپنی کے ساتھ مختلف صوبجات کا گشت کرتا رہا۔ شروع میں یہ لوگ چارلس دوفریزے کے گروپ میں شامل ہوئے لیکن جلد ہی وہ علیحدہ ہوگئے اور آزادانہ طور پر اپنا کام جاری رکھا۔ 1652 میں وہ اپنے گروپ کا لیڈر بن گیا۔

رفتہ رفتہ مولیئر کے تھیٹر کی شہرت بڑھی اور ایک ایسا وقت آیا کہ اس کو لیوں (Lyone) میں مرکزی دفتر بنانا پڑا۔ جہاں سے وہ دوسرے مقامات کے دورے کرتا تھا۔ 1653 میں مولیئر کی ملاقات پرانے ہم سبق شہزادہ دکونتی (Deconti) سے ہوئی۔ شہزادے کو یہ تھیٹریکل کمپنی پسند آئی اور اس نے مونپلئے (Monipellier) میں ڈرامہ اسٹیج کرنے کی دعوت دی۔

بارہ سال کی طویل مدت تک مولیئر کی کمپنی کو نشیب و فراز سے دوچار ہونا پڑا۔ کمپنی نے دوسرے ڈرامہ نگاروں کے کھیل بھی اسٹیج کیے۔ جن میں سے بعض ایسے ڈرامے بھی تھے جو کسی بڑے فنکار کے لکھے ہوئے نہیں تھے۔ اس طرح مولیئر کو اپنے معاصرین سے واقفیت ہوئی جس کا اثر اس کے فنی ارتقا پر پڑا۔ مختلف صوبوں میں گشت کرنے سے اس کی ڈرامہ نگاری کو جلا ملی اور فرانس کے علاقائی رسم و رواج کو قریب سے دیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس نے زندگی کو مختلف رنگوں میں دیکھا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اپنی تمثیلوں میں سماج کے خودساختہ ’بڑے لوگوں‘ کی حماقتوں، کمزوریوں او ر منافقانہ رویوں کو کامیابی اور گہرائی سے پیش کرسکا۔ یہ تجربہ اسے محض پیرس کے حدود میں رہ کر نہیں ہوسکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پیزینا (Pezena) میں اس کے لیے ایک آرام کرسی مخصوص تھی جس پر بیٹھ کر وہ ایک حجام کے گاہکوں کی گفتگو سنا کرتا تھا۔ اس نے عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ عظیم فن کی تخلیق کرسکے۔ اسی لیے بوائیلو نے مولیئر کو ’سوچنے اور غور کرنے والا‘ ڈراما نگار کہا ہے۔ اس کا یہ تجسس عمر کے ساتھ بڑھتا گیا۔ اس کے یہاں زندگی کو خاموشی کے ساتھ برتنے اور پرکھنے کا رویہ موجود رہا جس کی وجہ سے اس کے تجربات میں وسعت اور تنوع آیا۔ مسلسل جدوجہد نے اسے سنجیدہ غور و فکر پر آمادہ کیا۔

مولیئر بہ یک وقت اپنے تھیٹر کا مصنف ڈائریکٹر اور اداکار تھا۔ ان تینوں حیثیتوں کا حق ادا کرنے میںا س نے دن رات ایک کردیے اور پیشے کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں پر قابو پالیا۔

مولیئر نے 1658 میں دوبارہ پیرس میں قسمت آزمائی کی۔ وہ اپنے ساتھ ایسے مزاحیہ اور طربیہ ڈرامے بھی لایا جو ملک کے مختلف حصوں میں پہلے ہی مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ 24 اکتوبر 1658 کو اس نے نکوپیڈ کا مزاحیہ ’عاشق ڈاکٹر‘ شاہ اور دربار کے سامنے پیش کیا۔ یہ ڈرامہ اتنا پسند کیا گیا کہ ’پتی بوربوں‘ ہال کے استعمال کی اسے اجازت دے دی گئی اور کمپنی کا پہلا پبلک شو 2 نومبر کو ہوا۔ شاہ کے بھائی مونسیودیوک ارلیوں، کی سربراہی میں اس کا نام ’ٹروپ د مونسیو (Troup De Monsteur) پڑا۔ 1669 میں مولیئر نے اپنا مشہور ڈرامہ ’بیش بہا تضحیک‘ اسٹیج کیا جو مشہور ہوا۔ یہ ڈراما صرف پندرہ دن تک کھیلا گیا مگر اسے ان معنوں میںا ولیت حاصل ہے کہ اس سے مولیئر نے طربیے کا آغاز کیا کیونکہ اس وقت تک مزاحیہ یا دوسرے ڈرامے اطالوی مزاج اور پیش منظر کے حامل ہوتے تھے، اس ڈرامہ میں مولیئر نے فرانس اور وہاں کے بسنے والوں کو موضوع بنایا۔

مولیئر نے بیشتر ڈرامے اور بیلے (Baglets) دربار کے لیے لکھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دربار کی قربت نے اسے دو طرح سے فائدہ پہنچایا۔ اسے مالی خوش حالی نصیب ہوئی اور شاہ کی سرپرستی کی وجہ سے وہ امرا کی حماقتوں کو بے خوفی سے اسٹیج پر پیش کرسکا جو عام حالات میں ممکن نہیں تھی۔ 1659 سے 1663 تک مولیئر نے مختلف موضوعات پر طربیے لکھے۔

23 جنوری 1662 کو مولیئر کی سول میرج کا معاہدہ ارماند بے ژار سے ہوا جو اس کی مسٹریس مادلین بے ژار کی چھوٹی بہن یا لڑکی تھی اور 20 فروری کو سین جرمیں چرچ Saini Germain میں شادی کی مذہبی رسم ادا ہوئی جس پر عوام و خواص نے چہ می گوئیاں کیں۔ یہ شادی مولیئر کی بدنامی کا باعث ہوئی۔ اس وقت مولیئر کی عمر چالیس سال تھی اور ارماند بیسویں سال میں تھی۔ 1663 میں وہ مولیئر کے ڈرامے ’بیویوں کے مدرسہ کی تنقید‘ Lagritigue De L' Ecole Des Femines میں پہلی دفعہ ایلیزا کے رول میں اسٹیج پر نمودار ہوئی۔ 10 جنوری 1665 کو ان کا پہلا بچہ لوئی پیدا ہوا، لیکن دس مہینے کے بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا۔ اگست 1665 میں ان کی بچی ایسپری مادلین پیدا ہوئی۔ مئی 1666 میں ارماند اور مولیئر کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ انھوں نے طے کیا کہ وہ علیحدہ رہیں گے۔ چنانچہ مولیئر نے ’اوتائی‘ (Auteuel) میں مکان کرایہ پر لیا۔ وہیں اس نے 1667 میں اپنے دوست شاپل کی دعوت کی۔ 1670 میں وہ ’پیلے رویال‘ میں کمپنی کے ساتھ مقیم ہوا۔ ستمبر- اکتوبر 1671 کے دوران ارماند بہت بیمار رہی تو مولیئر پیرس میں پھر ارماند کے ساتھ رہنے لگا۔ جنوری 1672 میں مادلین بے ژار نے وصیت لکھی جس کے مطابق اس کی جائداد کے وارث ارماند قرار پائی۔ مادلین کا انتقال 17 فروری 1673 کو ہوا۔ اسی سال 15 ستمبر کو مولیئر کے تیسرے بچے پیر Pierre کی ولادت ہوئی لیکن ایک مہینے سے بھی کم مدت زندہ رہنے کے بعد اس کی وفات ہوگئی اس وقت مولیئر اور اس کی بیوی رودریشلیو (Rue De Richelieu) پر رہ رہے تھے۔ مزاج اور عمر کے فرق کی وجہ سے میاں وبیوی میں برابر کھٹ پٹ رہتی تھی۔ حالانکہ مولیئر نوعمر بیوی کے بہت ناز نخرے اٹھاتا تھا مگر اس کی گھریلو زندگی ناخوشگوار ہی رہی۔

1664 میں مولیئر نے تارتوف (Tartuff) دربار کے سامنے پیش کیا۔

1665 میں مولیئر نے دوں ژوئیں Don Duan پیش کیا جس میں اس نے اپنے دشمنوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اس ڈرامے میں بھی مجبوراً تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ مولیئر کو احساس ہوا کہ اس طرح کے بحث طلب اور مناظراتی ڈرامے پیش کرنا لاحاصل ہے۔ چنانچہ اس کے بعدا س نے مذہب اور مروجہ اخلاقیات کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانے کے بجائے کم خطرناک موضوعات کو چھیڑا۔

ڈاکٹر کی محبت 1665 میں لکھا۔ اس ڈرامے میں مولیئر نے ڈاکٹر اور اس پیشہ پر تنقید کی۔ اس سے پہلے وہ اس موضوع پر ایک مزاحیہ Le Medicin Volant کھیل چکا تھا۔ اگلے سال مولیئر نے ایک اور ڈراما ڈاکٹر (Le Medicin) پیش کیا۔ اسی دوران میزان تھروپ (Le Misanthrop) بھی اسٹیج کیا گیا۔ کنجوس (Lavare) میں ایک اخلاقی برائی لالچ اور کنجوسی پر طنز کیا گیا ہے۔ 1670 میں ’بورژوا جنٹلمین‘ میں متوسط طبقے پر چوٹ کی۔ ’عام فاضل خواتین‘ Le Femmessa Vants 1672 میں لکھی۔ ’وہمی مریض‘ (Le Maladi Imaginatre) اس کا آخری ڈرامہ ثابت ہوا جو کئی بار کھیلا گیا اور بہت مقبول ہوا۔ اس تمثیل میں ارگوں (Argon) کا پارٹ ادا کرتے ہوئے اسٹیج پر ہی اس کو خون کی قے ہوئی۔ اس کی صحت کافی عرصہ سے خراب تھی۔ وہ تپ دق کا مریض تھا مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے اپنی فکر کبھی نہیں کی تھی۔ اسے تھیٹر سے فوراً لے جایا گیا مگر اس حملہ سے جانبر نہیں ہوسکا۔ کچھ گھنٹوں بعد 17 فروری 1673 کی شب میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس زمانے میں ایکٹر عیسائی قبرستانوں میں دفن نہیں کیے جاتے تھے۔ پیرس کے آرچ بشپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا حالانکہ وہ خود مشہور زمانہ عیاش انسان تھا۔ا س طرح مولیئر دنیا سے رخصت ہوئے بھی ریاکاری کے جن نمونوں کو اسٹیج پر پیش کرتا تھا اس کا ایک تماشہ اس پادری کے ذریعے دکھایا گیا۔ لوئی چہاردہم کے حکم سے سینٹ ایستائیش کے ایک پادری نے تجہیز و تکفین کی رسومات ادا کیں اور وہ پیرس کے سین جوزف قبرستان میں دفن ہوا۔

مولیئر نے ایک فعال اور متحرک زندگی گزاری۔ وہ زندگی کے اخیر دم تک سرگرم عمل رہا۔ 1658 سے 1673 تک مولیئر کا بڑا مصروف زمانہ تھا۔ اس دوران اس نے کوئی بیس ڈرامے لکھے۔  اس کو شہرت اور دولت دونوں ہی حاصل ہوئیں مگر کبھی مطمئن و خوش نہ رہ سکا۔ وہ مزاجاً چڑچڑا اور قنوطی تھا۔ اس کی وجہ علالت اور خانگی نااتفاقی کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ وہ بحیثیت مجموعی احباب پرست اور مخلص انسان تھا۔ اس کے ڈرامے اس کے ذاتی تجربوں سے مالامال ہیں جس میں انسانیت کی بہتری اور بقا کے لیے سعی پیہم ملتی ہے۔

ماخذ: مولیئر، مصنف: پروفیسر ثریا حسین، دوسرا ایڈیشن: 2002، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...