4/12/24

ندا فاضلی: بحیثیت خودنوشت سوانح نگار،مضمون نگار: یوسف رامپوری

 فکر و تحقیق، جولائی-ستمبر2024

تلخیص

ندافاضلی اردو کے وہ عظیم ادیب وشاعر ہیں جن کی شاعری کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور نثر نگاری کوبھی۔ان کے کئی شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے اور کئی نثری کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔ ان کی نثری تصانیف میںیوںتو ملاقاتیں، چہرے اور دنیا مرے آگے بھی ہیں، مگر’ دیواروں کے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر ‘ کے سبب انھیں ایک خاص پہچان ملی اورانھیں صاحب طرز نثرنگاروں میں شمار کیاگیا۔کیونکہ اِن کتابوںمیں ندافاضلی نے جس اسلوب کو اختیار کیا ہے، وہ بلاشبہ منفرد اور پُرکشش ہے، البتہ ندافاضلی کی مذکورہ دونوں تصانیف کس صنف کے ذیل میں آتی ہیں۔ اس تعلق سے ناقدین وادبا کے مابین اختلاف ہوا ہے۔کوئی انھیں ناول، کوئی ناول نما،اور کوئی خود نوشت قرار دیتا ہے،کچھ ادیب اور ناقدین ایسے بھی ہیںجنھوںنے اسے کسی بھی صنف کے ذیل میں نہیں رکھا ہے، لیکن صنفی نقطۂ نظر سے ان کتابوںکا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ دونوں کتابیں ’ دیواروںکے بیچ ‘ اور’دیواروںکے باہر‘ خود نوشت یا خود نوشت سوانح عمریاںہیں۔ان کتابوںکی بنیاد پر ندافاضلی کو ایک بہترین نثار اور خود نوشت سوانح نگار قراردے دیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔

کلیدی الفاظ

خود نوشت، سوانح عمری،نثر نگار،سوانح نگار،یادداشتیں،تذکرہ،آپ بیتی،ناول نما،اصناف،صنفی نقطۂ نظر، اسلوبیاتی سطح،فنی لوازمات، صداقت، تخلیقی خصوصیات۔تعقید لفظی،تعقیدمعنوی،ابہام۔

————

قدرت کی طرف سے انسان کو ان گنت صلاحیتیں عطاکی گئی ہیں، لیکن ایک ہی انسان میںتمام تر صلاحیتوں کااجتماع امرِمحال ہے بلکہ مشاہدہ تو یہ بتاتاہے کہ چندمختلف النوع صلاحیتیںاورمہارتیںبھی فرد واحدمیںشاذ ونادرہی ہوتی ہیں۔ مثلاً وہی شخص بہترین مقرر ومصنف ہو، وہی شاعرو ادیب ہو، وہی ماہر نفسیات وماہرریاضیات ہو اوروہی سائنسی وتکنیکی فنون اورطبی و نفسیاتی علوم سے بھی گہری واقفیت رکھتا ہو،ایسی مثالیں یا تو بالکل نہیں ملتیں یا خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں،یہاں تک کہ شعروشاعری اور نثر نگاری جیسی دونوں صلاحیتوںکابھرپور اجتماع بھی کم ہی لوگوںمیں نظرآتا ہے۔

اس حیثیت سے جب ہم اردو زبان وادب کی تاریخ کے مختلف ادوار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں بہت کم شخصیات ایسی دکھائی دیتی ہیںجنھوںنے نثر وشعر دونوں میدانوںمیںاپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور بحیثیت شاعر اور نثار ان کی شناخت قائم ہوئی۔ندافاضلی انہی معدودے چندشخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ جتنے عظیم شاعر تھے، اتنے ہی عظیم نثر نگار بھی تھے۔ان کی شاعری کی خصوصیات و امتیازات نے شعر و شاعر ی میں دلچسپی رکھنے والوں کوتواپنی طرف متوجہ کیاہی مگر ان کی تحریروں کے اوصاف وامتیازات نے بھی نثر کے قارئین کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ وارث علوی کے اس خیال سے اتفاق کیاجاسکتاہے:

’’نداکی شاعری مجھے پسندہے۔وہ ایک منفرد اسلوب کا شاعر ہے۔ندا کی نثر بھی مجھے پسند ہے۔ اس کی کتاب ’ملاقاتیں‘ شگفتہ اور رواں نثر کی اچھی مثال پیش کرتی ہے۔ اب اس نثر کے سائے ’دیواروںکے بیچ‘ تک آپہنچے ہیں۔ان سایوں کی خنک چھائوں دل کش اور فرحت بخش ہے۔‘‘ 1؎

ندافاضلی کی نثر اور شاعری کے مابین یکسانیت ومماثلت اور قربت کے قصے کو حقانی القاسمی نے یوں رقم کیا ہے:

’’ ندا فاضلی کی شاعری اور نثر میں بڑی قربت ہے۔دونوں میں ایک عجیب سی مماثلت ہے۔ شاعری کی طرح ان کی نثر میں خوش آوازی اور قافیہ بندی ملتی ہے۔ ان کی شاعری اور نثر کی متوازی قرأت سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ان کے نثری اور شعری اظہار میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ان کی نثر بھی شاعری کی  طرح سرشاری کی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔شاید اس کی وجہ ندا کی نثر ونظم کے ترکیبی اجزا کی یکسانیت ہے۔‘‘

 ندافاضلی نے اپنے پیچھے جو نثری اثاثہ چھوڑا،اس میں دیواروںکے بیچ، دیواروںکے باہر، ملاقاتیں، چہرے اور دنیا مرے آگے جیسی تصنیفات اور متعدد تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں،لیکن انھیں جن تصانیف کی وجہ سے ’صاحبِ طرز نثر نگا ر‘کی پہچان ملی، ان میں ’دیواروںکے بیچ ‘ اور ’دیواروں کے باہر‘ کوسرفہرست رکھا جاسکتاہے۔ان کتابوںمیں ان کی نثری خوبیاں پوری طرح اجاگر ہوکر سامنے آتی ہیں اور ان کا فن عروج پر دکھائی دیتا ہے، خاص طورپر ان کتابوںکا اسلوب نگارش نہایت عمدہ، پرکشش اور پُرتاثیر ہے۔زبان سادہ، سلیس اور رواں دواں ہے۔ پیچیدہ تراکیب اورمغلق عبارتیںنام کو بھی نہیں ہیں۔ ایجاز واختصار سے اس طرح کام لیاگیاہے کہ تعقید لفظی اور تعقید معنوی کا گزر تک نہیں ہوتا۔ان خوبیوں نے ’دیواروںکے باہر‘ اور دیواروںکے بیچ‘ کے تحریری بیانیہ میں روح پھونک دی ہے اوراس میں ایسی غنائیت پیدا کردی ہے کہ قاری اس سے بھرپورحظ حاصل کرتا ہے اور دیر تک اپنے آپ کواس کے سحرمیںگرفتار پاتاہے۔

دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘ کو ندافاضلی کاایک اہم کارنامہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوںہی کتابیں اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں کے ذخیرے میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لیے کہ اردوخود نوشتوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں ہے۔بہت کم مصنفین اس طرف مائل ہوئے ہیں، ان میں بھی زیادہ ترکی خودنوشتیں خودنوشت سوانح عمری کے فن کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتیں۔ اگر اردو خودنوشتوں یا آپ بیتیوں کے پورے سرمایے کو سامنے رکھ کر ایسی خودنوشتوں کو چھانٹا پرکھا جائے جن میں فنی اصولوں اور ضابطوں کو کماحقہ برتا گیا ہو اور خود نوشت سوانح عمری کے تقاضوں اور مطالبوںپربھی بھرپور دھیان دیا گیاہو، تو ان کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔ ایسے میں ندافاضلی کی تصانیف ’دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر‘ کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ندا نے ان دونوں ہی کتابوںکو ڈوب کر لکھا ہے اور ان میں فنی لوازمات کوبھی بخوبی برتاہے،لیکن یہاں یہ نکتہ اٹھانا بھی افادے سے خالی نہ ہوگا کہ تمام ناقدین ومبصرین ان کتابوںکو خود نوشت تسلیم نہیں کرتے بلکہ کچھ ایسے ہیں جو انھیں ناول کے زمرے میں رکھتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انھیں سوانحی ناول قرار دیتے ہیں۔ گویاکہ صنفی نقطۂ نظر سے ادیبوںاور ناقدوںکے درمیان اختلاف ہوگیا، اس لیے ان دونوں کتابوںپر تنقیدی گفتگو سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے ان کی صنفی حیثیت پر تحقیقی وتنقیدی نگاہ ڈال لی جائے۔

صنفی نقطۂ نظر سے ان دونوں کتابوں’ دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘کے سلسلے میں بالعموم تین خیال پائے جاتے ہیں۔اول خودنوشت، دوم ناول، سوم سوانحی ناول اور بعض حضرات انھیں ناول نماتحریروںکے زمرے میں رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں کئی ادیب اور قارئین ایسے بھی ہیں جو کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر رہے ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ ان کتابوں کو کس صنف کے ذیل میں رکھاجائے۔جن ناقدین وادبا نے ندافاضلی کی تصانیف ’دیواروںکے بیچ ‘ اور ’ دیواروںکے باہر‘ کو خود نوشت یا خود نوشت سوانح کے زمرے میں رکھا ہے، ان میں مجتبیٰ حسین، صدیق مجیبی، حسیب سوز،ڈاکٹر جمیل جالبی،نامی انصاری اورگوپی چند نارنگ کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ مجتبیٰ حسین ’دیواروں کے بیچ‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ ندافاضلی کی خود نوشت بہت اچھی ہے۔نداکی شاعری کے تو ہم پہلے ہی سے قائل ہیں، اب اس کی نثر کے بھی ہوگئے۔‘‘2؎

صدیق مجیبی نے ’دیواروںکے بیچ‘ کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’خود نوشت‘ کس طرح قرار دیا ہے، یہ اقتباس دیکھیے:

’’ دیواروں کے بیچ‘ کا سلسلہ بے حددلچسپ اور اپنے عہد کی بولتی تصویر ہے۔ظالم نے نثر میں بھی کیا اسلوب اختیار کیا ہے۔اس کا مشاہدہ، ذہانت اور اس کی زندہ دلی خود نوشت کو دلکش بھی بناتی ہے اور فکر انگیز بھی۔‘‘3؎

 حسیب سوز رقمطراز ہیں:

’’ ندا فاضلی کی خود نوشت شائع کرکے آپ نے ایک نہیں بلکہ دو کام کیے ہیں۔ایک نئے باب کا اضافہ اور دوسرے نہایت ہی بے باک اور دل پذیر نثر پڑھنے کو مل رہی ہے۔‘‘4؎

ڈاکٹر جمیل جالبی نے’ دیواروںکے بیچ‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ جملہ قلمبند کیا: ’’ندافاضلی کی خودنوشت کافی دلچسپ ہے۔‘‘

نامی انصاری نے ’دیواروںکے باہر‘ کے شائع ہونے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صاف لفظوںمیں اسے خود نوشت سوانح لکھا ہے:

’’اپنی خود نوشت ’دیواروںکے بیچ‘ لکھ کر انھوںنے جو وقار واعتبار حاصل کیا تھا، اس کا اثبات کرتی ہوئی ان کی نئی کتاب ’دیواروں کے باہر‘ کچھ اور زیادہ پُرخیال اور معنی خیز ہے اور ان کے مشاہدے اور مطالعے کی ہمہ گیریت کا موثر اظہار ہے، دیوار وں کے باہر صرف ندا کی سوانح ہی نہیں ہے بلکہ ممبئی کی پیچ در پیچ سماجی زندگی کا ایک دلچسپ مرقع ہے اور انکشاف ذات کا ایک معنی خیز اشاریہ بھی۔‘‘ 4؎

مذکورہ اقتباسات سے دوباتیں واضح طورپر مترشح ہوتی ہیں۔ایک تویہ کہ ’دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘خود نوشتیںہیں اور دوسرے یہ کہ یہ خود نوشتیں ندافاضلی کی نثرکا عمدہ نمونہ ہیں۔اپنی یادداشتوں اور واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ندافاضلی نے ’دیواروںکے بیچ‘ اور’دیواروںکے باہر‘ کے مابین فنی اور اسلوبیاتی سطح پرکوئی امتیاز نہیں برتاہے بلکہ ان دونوں کتابوںکے پے بہ پے مطالعے کے دوران بآسانی یہ محسوس کیاجاسکتاہے کہ یہ دونوں کتابیں ایک ہی سلسلے کی دوکڑیاں ہیں۔ ان دونوں ہی کتابوں کے نام کے ساتھ بریکٹ میں ’ یادداشتیں‘ مرقوم ہے۔اس سے بھی یہ گمان ہوتا ہے کہ ’دیواروںکے بیچ ‘اور ’دیواروں کے باہر‘ ایک ہی سلسلے کے دوحصے ہیں،البتہ مواد کی پیش کش کے اعتبار سے دونوں کے درمیان اتنا فرق ضرور ہے کہ ’دیواروں کے بیچ ‘ سے ندافاضلی کی حیات اور ان کے نجی واقعات کی بابت زیادہ پتہ چلتاہے اور ’دیواروں کے باہر ‘ میں ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان کے عہد کی دوسری شخصیات کے واقعات بکثرت بیان ہوئے۔اسی لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ندا فاضلی کی زندگی اوران کی شعری ونثری خدمات کو سمجھنے کے لیے یہ دونوں کتابیں ہی بنیادی مصادرومآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اب ذرا ’دیواروںکے بیچ ‘اور ’دیواروںکے باہر‘کے سلسلے میں پیش کیے جانے والے ان اقوال پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے جن میں انھیں ناول، سوانحی ناول یا سوانحی نماناول بتایا گیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ندامعیدکا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:

’’ نداشاعری کے علاوہ نثر بھی بہت عمدہ لکھتے تھے۔انھوںنے اپنی یادوں کو موتیوں میں پرویا۔’دیواروں کے بیچ‘ اور’دیواروں کے باہر‘ کے نام سے ادبی سرمایے کا حصہ بنادیا۔اس سوانح نما ناول میں ندا نے گھر، خاندان، پاس پڑوس کے ماحول، رسم ورواج، دکھ سکھ، محبت،نفرت، تقسیم ہند، درد، بے رحمی، بے حسی، رشتے کے میٹھے کڑوے تجربات کا ذکر بخوبی کیا ہے۔‘‘6؎

اس اقتباس میں تبصرہ نگارنے ندافاضلی کی تصانیف’دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر‘کو صاف لفظوںمیں ’سوانح نماناول‘ توقرار دیا ہے،مگرساتھ میں یہ شبہ بھی پیداکردیا کہ یہ دونوں کتابیں نہ تو پوری طرح سے ناول ہیں اور نہ پوری طرح سوانح۔ گویاکہ ندامعیدخود مذکورہ تصانیف کی بابت کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہے ہیں اور ابہام کے شکار ہوگئے، اس لیے ان کے مذکورہ خیال پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کیاجاسکتا۔ایسا لگتا ہے کہ انھیں اسلوب کی وجہ سے ان تصانیف پرناول ہونے کا گمان ہوا ہے۔ دراصل اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ ندافاضلی نے ’دیواروںکے بیچ‘ یا’ دیواروں کے باہر‘ میں جو اسلوب اختیار کیاہے وہ ناول جیسا ہے، اس لیے بعض لوگوںنے اسے ’ناول نما‘ اور بعض نے ’سوانحی ناول‘ بھی کہہ دیا۔جیساکہ شیخ سلیم احمد نے بھی لکھا ہے :

’’ ندافاضلی کی ’دیواروںکے بیچ‘ ایک نیا اسلوب ہے جو اس کو ناول کے قریب کردیتا ہے۔‘‘

اقبال علوی نے بھی اس کتاب کے طرز تحریر کے تعلق سے اسی طرح کا اظہار خیال کیا ہے، البتہ انھوںنے ’ناول جیسا ‘یا ’ناول کا انداز‘ جیسے الفاظ استعمال نہ کرکے اس کے بارے میں’افسانوی انداز‘لفظ استعمال کیا ہے۔وہ کہتے ہیں:

’’ندافاضلی کی خود نوشت پسند آئی۔ ان کا افسانوی انداز بہت پیاراہے، دل میں اترجاتاہے۔‘‘

ان اقتباسات سے یہ تو پتہ چلتاہے کہ دیواروںکے بیچ کا بیانیہ یا طرز تحریر ناول جیسایا افسانوی ہے،لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتاکہ فنی نقطہ نظر سے یہ ’ناول‘ یا’افسانہ‘ ہے۔پروفیسر عتیق اللہ نے نداکی تصنیف’دیواروںکے بیچ‘ پر ایک مضمون بعنوان ’خودنوشت اندر ناول۔ایک بے تکلف تجربہ‘ لکھ کر قارئین کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بظاہر تو یہ ایک خود نوشت ہے لیکن اپنے اندرون میں یہ ایک ناول ہے۔جیسا کہ آخر میں انھوںنے صراحت کے ساتھ لکھا بھی ہے کہ :

’’  اردو ناول کی تاریخ میں عبداللہ حسین کے ’باگھ‘ کے بعد ندافاضلی کے اس ناول کو نثر کے تخلیقی جوہر کا بہترین نمائندہ کہا جاسکتاہے۔‘‘ 7؎

بہت سے ادیب ایسے بھی ہیں جنھوںنے دیواروںکے بیچ اور دیواروںکے باہر پر تبصراتی اور تنقیدی نوعیت کے مضامین لکھے اوران کتابوںکے سلسلے میں اپنی آرا کا اظہار کیا مگرانھوںنے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ خودنوشت ہیں یا ناول یا کچھ اور۔اس تعلق سے پروفیسر علی احمد فاطمی کی یہ سطور دیکھیے:

’’ ۔۔۔اوریہ سچ ہے کہ اس کی ابتدا ناول کی طرح ہوتی ہے۔ایک خودنوشت سوانحی ناول سے دور بھی ہوتا جاتاہے۔کتاب کے خاتمہ تک قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس صنف کی کتاب پڑھ رہا ہے، بس پڑھ رہا ہے اور ایک دوسری دنیا میں پہنچتا چلا جارہاہے لیکن کتاب کے خاتمے کے بعد ایک خاص مقام پر قاری کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ یہ کتاب جو اس نے ابھی ختم کی وہ اصلاً ہے کیا اور اسے کس خانے میں رکھا جائے۔‘‘8؎

مذکورہ بالا سطورکے مصنف نے آگے اپنے اس مضمون میں اس بات کی جستجو کی ہے کہ ندافاضلی کی اس کتاب کو کس زمرے میں رکھا جائے مگر وہ مضمون کے آخر تک کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اور یہ الفاظ رقم کرکے کسی نتیجے پر پہنچے بغیر مضمون ختم کردیتے ہیں:

’’ندا کی یہ نثری کاوش جس کا نام عجیب وغریب ہے جسے کوئی بھی نام دیا جاسکتاہے یا نہ بھی دیا جائے پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ کتاب ایک بے حد دلچسپ، معلوماتی، فکرانگیز اور قابل مطالعہ ہے۔‘‘9؎

اس اقتباس میں بھلے ہی ’دیواروںکے بیچ‘کو بے حد معلوماتی، فکرانگیز اور قابل مطالعہ کہا گیا ہے، مگر یہ کتاب کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔کیونکہ اس سے صرف اس کے معلوماتی ہونے کا توپتہ چلتا ہے مگر اس کے ادبی وتخلیقی مقام کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔جہاں تک معلومات کا سوال ہے،تو وہ ایسی کتابوںسے بھی ہوجاتی ہے جن میں نہ زبان وبیان کا خیال کیاجاتا ہے، نہ فنی رچائو اور برتائو پر دھیان دیاجاتا ہے، مگر اس کے برعکس اس کتاب کوتو ندافاضلی نے تخلیقی سطح پر اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور فنی لوازمات ومطالبات پربھرپور توانائی صرف کی ہے، اس لیے اس کے بارے میں ’عجیب وغریب ‘لفظ استعمال کرنا یا کوئی نام نہ دینااس کی ادبی وتخلیقی اہمیت کو کم کرنا ہے۔

سلام بن رزاق نے بھی اگرچہ ’دیواروںکے بیچ‘ کی تخلیقی خوبیوں کوسراہا ہے، لیکن صنفی نقطۂ نظر سے وہ بھی گومگو کے شکار رہے،اس لیے وہ کہیں اسے خود نوشت،تو کہیں سوانحی ناول اور کہیں ناول لکھتے ہوئے دکھائی دیے۔ ایک جگہ انھوںنے لکھاکہ :

’’ ندافاضلی کی تازہ ترین تصنیف ’دیواروں کے بیچ‘ نثر میں ان کی دوسری کتاب ہے۔ ناقدین اور قارئین میں اس بات پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے کہ یہ خود نوشت ہے، سوانحی ناول ہے، آیا ناول ہے مگراس بات پر سب متفق ہوںگے کہ یہ ایک فکر انگیز اور دلچسپ تصنیف ہے۔‘‘

دوسری جگہ وہ یوںرقم طراز ہوئے:

 ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اردو کی خود نوشتوںیا سوانحی ناولوںمیں ’دیواروںکے بیچ‘ اپنے اسلوب کی انفرادیت اور بے باکیِ اظہار کے سبب عرصے تک یاد رکھی جائے گی۔‘‘10؎

دیواروں کے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر‘ کے تعلق سے ادبا وناقدین کے مذکورہ خیالات کے باعث ندافاضلی کی یہ دونوںتصانیف صنفی حیثیت سے اپنی واضح شناخت قائم نہیں کرسکیں اور ناقدین وادبا کے اس رویے سے ندافاضلی کو بایں طورنقصان پہنچا کہ نہ انھیں پورے طورپر خود نو شت سوانح نگار کی حیثیت سے دیکھا گیا، نہ انھیں مکمل ناول نگار کے طورپر پہچاناگیا اور نہ ہی انھیں سوانح ناول نگاری کے میدان میں کوئی خاطر خواہ مقام مل سکا۔ یہاں تک کہ بعض ناقدین نے ان دونوں کتابوںکو ایک نئے تجربے کے طور پر دیکھ کر اس کی رہی سہی صنفی حیثیت پر بھی کاری ضرب لگادی۔

یہ ایک عجیب وغریب بات ہے کہ یہ کتابیں اپنی شہرت ومقبولیت کے باوجود اس نوع کے بھرپور مطالعے سے ہنوز محروم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کتنے ہی خود نوشت سوانحی مضامین لکھنے والوں یا کتابوںکے مصنفین نے ندافاضلی کی ان کتابوںپر اس طرح تنقیدی بحث نہیں کی جس کی وہ مستحق تھیںبلکہ بعض نے توخودنوشت سوانح عمریوں میں ان کتابوںکا نام تک نہیں لیا ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر صبیحہ انورکی ایک کتاب ’اردومیں خود نوشت سوانح حیات‘ 2021میں منظرعام پر آئی۔اس کتاب میںمولانا جعفر تھانیسری کی ’تواریخ عجیب‘ (1885)سے عہد حاضر کی متعددخودنوشتوںکا قدرے تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے مگر ندافاضلی کی ان خود نوشتوںکا کوئی ذکر خیر نہیں ہے۔جب کہ یہ دونوں خودنوشتیں 2016 میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پرآچکی تھیں اور ’دیواروں کے بیچ‘ توکئی برس پہلے سے ہی قسط وار شائع ہورہی تھی۔ اس لیے ہم اگلی سطور میں ’دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘ پر صنفی نقطۂ نظر سے ایک تنقیدی نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ صنفی مقام کے تعین کے بعد فنی بنیادوںپر ان کتابوںکا محاکمہ کیاجاسکے۔

پہلے ہم ’دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر ‘ کو ناول کی کسوٹی پر رکھ کردیکھتے ہیںکہ آیا یہ کتابیں ناول کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں اور اگر آتی ہیں تو کس حد تک۔یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ کسی تحریر یا کتاب پر’ناول نما‘ کا لیبل چسپاں کرنے سے وہ تحریر یا کتاب ناول نہیں بن جائے گی۔کیونکہ کسی چیز کے بظاہرکچھ اور دکھائی دینے سے اس کی حقیقت وماہیئت تبدیل نہیں ہو جاتی۔  اگر’ دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر ‘جیسی کتابیں اپنے اسلوب کے سبب ناول نما دکھائی دیتی ہیں، تو صرف نظرآنے سے وہ فی الواقع ناول نہیں بن جائیںگی۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ان میںناول کے فن کو بھی برتاگیاہو۔

ناول جن اجزا سے مل کر بنتا ہے انھیں اجزائے ترکیبی کا نام دیا جاتا ہے اور ناول کے اجزائے ترکیبی میں قصہ، پلاٹ،کردار، مکالمہ، ماحول، منظرکشی، زمان ومکان،جذبات نگاری،اسلوب بیان وغیرہ کی بہت اہمیت ہے۔ قصہ یا کہانی کے بغیر ناول کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔یہ اقتباس دیکھیے:

’’ ناول کا سب سے اہم عنصر قصہ یا کہانی ہے۔عام طورپر ناول کو محض قصہ ہی سمجھا جاتاہے اور عام ناول میں قصہ کے سوا کچھ اور ہوتا بھی نہیں مگر اعلیٰ سے اعلیٰ ناول بھی بغیر قصہ کے وجود میں نہیں آسکتا خواہ اس میں قصہ پن بہت ہی ہلکا ہو۔‘‘11؎

یہاں سوال یہ ہے کہ جس طرح ناول ایک قصہ یا کہانی کا احاطہ کرتا ہے، کیا ندافاضلی کی تصانیف ’دیواروںکے بیچ‘ اور’دیواروںکے باہر‘ اسی طرح ایک کہانی کااحاطہ کرتی ہیں، ہر گز نہیں۔ ان کتابوںمیں کوئی ایک قصہ ایسا نہیں ہے جو آغازسے اختتام تک مختلف مراحل میں نظر آتا ہو۔ بلاشبہ ان کتابوںمیں ندافاضلی نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات کو پیش کیا ہے، لیکن اس انداز سے نہیں جس طرح ناول میں پیش کیاجاتاہے۔

پلاٹ ‘ بھی ناول کا اہم جز ہے۔ یہ جز قصے کی آرائش وزیبائش کرتا ہے۔اس میں واقعات کو ترتیب سے بیان کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، نداکی مذکورہ دونوں کتابیں اس نوع کے پلاٹ سے خالی دکھائی دیتی ہیں اور اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ ان میں بھی کسی کی کہانی ہے، پلاٹ ہے، کردار ہیں، مکالمے ہیں، منظر کشی ہے تو بھی کیاہر وہ تحریرجس میں کسی کی زندگی کے بارے میں کچھ بیان کیاجائے، یا اس کی زندگی میں آنے والے دوسرے افراد بہ الفاظ دیگر کرداروں کا ذکر آجائے، کچھ مناظر بھی بیان کردیے جائیں اوربات چیت کے کچھ جملے یا مکالمے بھی لکھ دیے جائیں تو کیا وہ ناول ہوجائے گا؟ اس طرح تو انشائیہ، خاکہ، ڈرامہ، افسانہ، یہاں تک کہ بہت سے مضامین ومقالات، تاریخی کتب اور سوانح عمریاں سب ناول یافکشن بن جائیں گی۔ظاہر ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ندافاضلی نے ان کتابوںمیں اپنی زندگی اور اپنے واقعات کو بیان کیا ہے، مگر ان کے بیا ن میں انھوںنے ناول کے فنی لوازمات کو برتنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ہاں ان دونوں کتابوںکااسلوب بیان ضرور ناول جیسا ہے۔ یا تو یہ ندافاضلی نے جان بوجھ کرکیا ہے کہ قاری دلچسپی کے ساتھ ان کتابوں کو پڑھے یا پھر انھوںنے جس طرح ڈوب کر لکھا اورجس طرح کے واقعات کو ان کتابوںمیں جگہ دی ہے،وہ سنجیدہ اور غمگین طرزِ تحریر کے متقاضی تھے۔یہ بات اس لیے کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں کتابوں میں ایسے واقعات ندارد ہیں جو قاری کے ہونٹوں پرتھوڑی دیر کے لیے بھی ہلکی سی مسکراہٹ لاسکیں۔ ظاہر ہے کہ سنجیدہ واقعات کو سنجیدگی سے ہی بیا ن کیاجاتا ہے اور غم وحسرت پر مبنی باتوں کو غمگین لہجے میں ہی کہا جاتا ہے۔ ندافاضلی نے بھی اپنی یادداشتوںکو اسی انداز میں پیش کیااوراگر ندافاضلی نے جان بوجھ کر کشش اور تاثیر پیدا کرنے کے لیے افسانوی اسلوب بیان اختیار کیا تو اس میں قباحت کیا ہے؟اس سے ان کی کتابیں ناول تو نہیں بن جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتاتو سرسید احمد خاں کے مضمون ’گزراہوا زمانہ‘پر افسانہ کی مہر لگادی جاتی، اس لیے کہ یہ پورا مضمون افسانوی انداز میں لکھا گیا ہے، مگر چوں کہ کسی بات کو محض افسانوی طرز میں لکھ دینا یا پیش کردینا افسانہ نہیں ہوجاتا، اس لیے ندافاضلی کی کتابوں ’دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر‘ کے ناول کے اسلوب میں ہونے سے ان کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی اور ان پر ناول کا اطلاق نہیں کیاجاسکتا۔ اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر’دیواروںکے بیچ‘ کو ناول نما کہہ دیاجائے تو اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ اسے ناول قرار دے دیا جائے یااس کی اصل صنف کی بحث کوختم کردیا جائے۔

ناول نما‘ کہنے کے بعدبھی ان کتابوںکی حقیقی صنفی شناخت کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ بعض ناقدین وادبا نے ان کتابوںکوناول نما کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کی ہے اورانھیں کوئی بھی نام دینے سے گریز کیا ہے،مگر یہ انصاف نہیں ہے۔انصاف یہ ہے کہ اس کی حقیقت وماہیئت تک پہنچاجائے۔

متعدد مبصرین وناقدین نے ندافاضلی کی مذکورہ کتابوںکو خود نوشت کہا ہے،مگر فنی لحاظ سے اس پر کوئی تشفی بخش بحث نہیں کی ہے، جب کہ اصولاً اس تناظر میں بھرپور بحث ہونی چاہیے۔لہٰذایہاں ہم خود نوشت سوانح عمری کے فنی لوازمات کو سامنے رکھ کر اس طورپر گفتگو کرنا چاہیں گے کہ یہ واضح ہوجائے کہ خود نوشت سوانح عمری کے فن پر یہ کتابیں کس حد تک کھری اترتی ہیں۔

خود نوشت‘ یا ’خود نوشت سوانح عمری‘ کے تعلق سے سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ سوانح عمری کی ہی ایک قسم یا ایک شکل ہے۔ اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ خودنوشت نے سوانح عمری ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، یعنی پہلے سوانح عمری کا وجود ہوا پھر خود نوشت یا خود نوشت سوانح عمری کا۔سوانح عمری کے ذیل میں خود نوشت کے علاوہ مختصر اور طویل سوانحی خاکے، سوانحی مضامین، جزوی خاکے، سوانحی کرداری خاکے، مزاحیہ خاکے وغیرہ بھی آتے ہیں۔ کچھ لوگوںکا کہنا ہے کہ پہلے خود نوشت تحریریں وجود میں آئیں بعد میں سوانح عمریاں۔ قطع نظر اس بحث کے کہ کس کا آغاز پہلے ہوا اور کس کا بعد میں،ان دونوں کے اصطلاحی معنی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

 کسی شخص کی ولادت سے لے کر وفات تک کے حالات کو داخلی کوائف کے ساتھ بیان کرنے کا نام’ سوانح عمری ‘ہے اور مصنف کے خود کے لکھے ہوئے اپنے حالات جو کہ نثر میں ہوں’خود نوشت ‘یا خود نوشت سوانح حیات یا خود نوشت سوانح عمری کہلاتے ہیں۔سوانح نگار اپنی جان پہچان کے لوگوںپر سوانح عمری لکھتا ہے جیسے باپ، بیٹا، دادا، استاد، یاکوئی اور جانی پہچانی شخصیت۔خواہ وہ جان پہچان رشتے داری کی وجہ سے ہو، یاملاقات کی وجہ سے یاکسی اور وجہ سے ہو۔مختصر یہ کہ دوسرے کے حالات زندگی کو لکھنا ’سوانح عمری‘ ہوتی ہے،لیکن خود نوشت نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حالات زندگی اپنے قلم سے لکھے۔ ’خود نوشت ‘کو ’آپ بیتی ‘ بھی کہاجاتاہے۔کیونکہ آپ بیتی میں بھی مصنف اپنی زندگی اور اپنی زندگی کے واقعات کواپنے قلم سے پیش کرتا ہے۔یادداشتوں پر بھی ’ خود نوشت ‘ ہونے کا اطلاق کیاجاتا ہے۔جیساکہ ندافاضلی کی کتابوں ’دیواروںکے بیچ‘ اور ’ دیواروںکے باہر‘ کے ساتھ نیچے ’یادداشتیں‘مرقوم ہے۔یعنی انھوںنے اپنی زندگی پر مبنی اپنے قلم سے لکھی ہوئی اپنی کتابوںکو ’یادداشتیں‘کے نام سے موسوم کیا ہے جو کہ فی الواقع خود نوشت سوانح عمری ہی ہے۔

ابتدامیں خود نوشت سوانح عمریوں میں مصنّفین خارجی واقعات کو قلمبند کیا کرتے تھے اور اپنی داخلی زندگی کو ایک جزو کے طورپر مذکور کرتے تھے، لیکن بعد میں یہ رجحان کم ہوتا گیا اور اپنی داخلی زندگی کو خصوصی طورپر پیش کیاجانے لگا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سید شاہ علی رقم طراز ہیں:

’’ ابتدا ہی سے خود نوشت سوانح عمریوں میں دوقسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ جن کی مناسبت سے اس کی دوشکلیں قرار دی جاسکتی ہیں۔پہلی وہ جس سے زیادہ تر خارجی واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اور مصنف خود کو تاریخی رَو کا صرف ایک جزو سمجھتا ہے۔ یہ شکل بہت قدیم ہے اور قبل تاریخ زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری وہ قسم ہے جس میں مصنف خود کو عام رو سے الگ یا بلند سمجھتا ہے اور اپنی داخلی زندگی کی کیفیات، نشوونما و روح کی کشمکش وغیرہ کا بیان کرتا ہے۔یہ خود نوشت سوانح عمری کی کامل تر، زیادہ قابل قدر بلکہ عمدہ ترین شکل ہے۔ یہ نسبتاًجدید تر بھی ہے۔‘‘12؎

خود نو شت نگاری کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے درج ذیل اقتباس کا سہارابھی لیاجاسکتاہے:

’’خود نوشت ایک ایسا فن ہے جس کا موضوع خود فنکار کی ذات ہے۔اس کا مرکز اصلاً داخلی ہے۔اس میں فنکار کی خارجی زندگی کی جھلکیاں بھی داخلی لفافے میں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں، محورداخلی ہوتا ہے اور خارجی عنصر اس سے گریز نہیں کرسکتا۔‘‘13؎

خود نوشت سوانح عمری کی جو تعریف اوپر بیان کی گئی اورخود نوشت نگاری کے فن سے متعلق جو باتیں مندرجہ بالا اقتباس میں کہی گئی ہیں، وہ سب ندافاضلی کی دونوں کتابوں’ دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر ‘ میں موجود ہیں۔ اول یہ کہ ان کتابوںمیں مذکورندافاضلی کے حالات وواقعات صاف طورپر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کتابوںکا موضوع خود ندافاضلی ہیں۔انھوںنے بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کے اپنے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ انھوںنے بہت سی اپنی ایسی باتوں کو بھی بیان کیا ہے جو خالصتاًان کی داخلی زندگی سے عبارت ہیں۔ مثال کے طورپر یہ اقتباس دیکھیے:

’’ندافاضلی کی زبردستی پیدائش کے بعد بھی تین لڑکے، مجتبیٰ حسین، مبتدیٰ حسن اور تسلیم اور دولڑکیاں، جاوید اور شاہینہ عالمِ غیب سے عالم وجود میں لائے جاتے ہیں۔ ان میں وہ نام نہیں ہیں جو پیدائش کے ایک دوسال کے درمیان اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن ندا کی جبریہ پیدائش نے ان کی ماں کو اتنا خائف کردیاہے کہ باقی کے بچے ان ادویات کی روک تھام سے محفوظ رہتے ہیں جن کے اچھے برے اثرات کی ساری جواب دہی اب اسی کی ہے۔‘‘ 14؎

اسی کے ساتھ خارجی زندگی کی بہت سی جھلکیاں بھی ان کتابوںمیں دیکھی جاسکتی ہیں،بلکہ ان کتابوںمیں ہمیں اس وقت کے سیاسی، سماجی، ادبی اور تہذیبی حالات بھی ملتے ہیں اور اس عہد کی بہت سی ادبی شخصیات کی ادبی سرگرمیوں سے بھی ہمیں ان کتابوںکے ذریعے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں یہ کتابیں ندافاضلی اور ان کے اعزا واقربا کے بہت سے واقعات ومعاملات سے قارئین کو روشناس کراتی ہیں، وہیں ندافاضلی کے توسط سے ہم ملک کی بہت سی سیاسی، علمی،ادبی اور فلمی ہستیوں کے احوال سے بھی آگہی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح داخلی عناصر کے ساتھ ان کتابوںمیں خارجی عناصر بھی موجود ہیں،لہٰذا ندافاضلی کی تصانیف’ دیواروںکے بیچ‘ اور ’ دیواروںکے باہر‘ پر خودنوشت یا خودنوشت سوانح عمری یاآپ بیتی کا اطلاق کیاجاسکتاہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اچھی خود نوشت کے لیے جن چیزوں کو اہم قراردیا گیا ہے، یہ کتابیں ان سے بھی مزین ہیں۔مثلاً بہترین خود نوشت کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں صداقت، شخصیت اور فن کا امتزاج ہونا چاہیے۔‘‘یعنی خود نوشت لکھتے وقت مصنف اپنے جو حالات وواقعات بیان کرے،سچائی کے ساتھ بیان کرے۔ دوسرے یہ کہ اس طور پر اپنی زندگی کو پیش کرے کہ اس کی پوری شخصیت سامنے آجائے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ تیسرے یہ کہ خود نوشت کے لیے جس اسلوب کو اختیار کیاجائے وہ قاری کی طبیعت پرگراں نہ گزرے، بلکہ اس کے لیے پرکشش ہوکہ وہ دلچسپی سے پڑھتا چلاجائے۔

 ندافاضلی نے اپنی یاد دادشتوںکو کس حد تک صداقت کے ساتھ پیش کیا ہے، اس کا اندازہ ان اقتباسات سے ہوجاتا ہے جن میں انھوں نے اپنی، اپنے بھائیوں، حتی کہ اپنے والد کی غلط عادتوں اور غلط کاریوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور ان کے کرتوتوں کا احوال بے لاگ لپیٹ لکھ دیاہے۔

ندافاضلی نے اس کتاب میں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔مثلاً ان کی ماں اوربہن وغیرہ نے ان کی شادی کے لیے کس حد تک کوششیں کیں،مگر وہ ساری کوششیں کیسے رائیگاں چلی گئیں۔ ندا فاضلی کی زندگی میںعشرت نام کی ایک لڑکی آئی، اس کا بھی کئی بار کتاب میں تذکرہ آیاہے۔ایک طرف ندا کی بڑی بہن نداکے لیے لڑکی تلاش کرتی ہے، تودوسری طرف وہ لڑکی نداسے نکاح کی آرزومند دکھائی دیتی ہے۔اس بابت ندا لکھتے ہیں:

’’اس کے مسلسل بٹ کر جڑنے اور جڑکر بٹنے سے ناراض ہوکر بڑی بہن نئے رشتوں کی تلاش کرتی ہے۔اس کی خبر جب عشرت کو ہوتی ہے تو ان دیکھے آنسوئوں سے اس کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔وہ اپنی ایک سہیلی کے یہاں ندا سے ملتی ہے اور وہ ساری باتیں جو وہ کہنا چاہتی ہے، خود خاموش رہ کر اس سہیلی سے کہلواتی ہے۔ان باتوں سے محبت، انتظار اور مجبوری کے لفظ بار بار سنائی دیتے ہیں۔اس کے منھ سے رخصت ہوتے وقت صرف ایک جملہ نکلتاہے۔’’ میں تم کو چاہتی ہوں، تمھاری خاطر شہر میں بدنام ہوئی ہوں۔اس کا خیال رکھنا۔‘‘15؎

سطوربالاسے پتہ چلتا ہے کہ ندافاضلی نے عشرت کے ساتھ اپنے معاشقے کے قصے کو کھل کر لکھا ہے اوراس بات کو بھی کہ نداکی وجہ سے عشرت کوپورے شہرمیں بدنامی ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔بات صرف عشق وعاشقی کی کہانیوں تک محدود نہیں بلکہ ندافاضلی نے تواپنی کمیوںاور غلط عادتوںکوبھی سپرد قلم کرکے سب کو بتادیا کہ کس طرح ان کی زندگی بے راہ روی اور شراب نوشی کے گرد چکر کاٹتی رہی۔ شراب نوشی کی لت نے ان کی زندگی کو اس طرح جکڑلیا تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود اس سے خلاصی حاصل نہ کرسکے۔یہاں تک کہ ان کی ماں کی نشانی’ انگوٹھی‘ بھی انھیں شراب نوشی سے بازنہیں رکھ پائی۔ اس کا ذکر ندافاضلی ایک جگہ اس طرح کرتے ہیں :

’’ جب سے یہ انگوٹھی آئی ہے، یہ انگوٹھی ایک جیتا جاگتا رشتہ بن گئی ہے۔اس کے انگلی میں ہونے سے اسے ہر وقت اپنے ساتھ کسی کے ہونے کاا حساس ہوتا ہے۔یہ انگوٹھی روتی بھی ہے، ہنستی بھی ہے اور اسی طرح یوں ہی ناراض بھی ہوجاتی ہے۔جب یہ ناراض ہوتی ہے تو گھنٹوں کے لیے خاموش ہوجاتی ہے، بالکل جمیل فاطمہ کی طرح۔ نداکو معلوم ہے اس کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے لیکن جب شوق عادت بن جائے تو آدمی بے بس ہوجاتاہے۔اس کی ہر شام جام کے ساتھ شروع ہوتی ہے، وہ اس وقت احتراماً اپنے ہاتھ سے یہ انگوٹھی اتارکے کہیں رکھ دیتا ہے۔‘‘16؎

 یہی نہیں بلکہ انھوںنے اپنی والدہ کی نافرمانی کا بھی کھل کر اعتراف کیا ہے اور انھیں بہت زیادہ ستانے کی بات بھی کہی ہے۔ ظاہر ہے کہ قلمکار کا اپنے قلم سے یہ ساری باتیں لکھنا کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہے، اس سے شخصیت کے مجر وح ہونے کے امکانات وسیع ہوجاتے ہیں، مگر ندافاضلی نے اپنی عزت کے آگے صداقت کے اظہار اور خود نوشت کے تقاضے کی تکمیل پر دھیان دیا۔انھوںنے لکھا ہے کہ ان کی والدہ نے ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اپنی سی تمام کوششیں کیں، تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دی، مگر انھوںنے ماں کی خواہشات کے برعکس کام کیے۔ پڑھائی میں دلچسپی نہ لی جس سے ماں کو شدید تکلیف پہنچی۔ گوالیار سے جاتے وقت ندافاضلی کی والدہ نداکو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں، تاہم انھوںنے یہاں بھی ان کی خواہش کو ٹھکرادیا۔پاکستان جانے کے بعد بھی وہ ندافاضلی کو خطوط لکھتی رہیں، ان کا ہر خط غم والم اور حسرت ویاس میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ ندافاضلی باربار جس طرح اپنی والدہ کا تذکرہ کرتے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ انھیںماں کو تکلیف پہنچانے اور انھیں نظرانداز کرنے کاتاعمر دکھ رہا،مگر بچپن اور جوانی میں تووہ اپنی ماں کی باتوںکو سنا ان سنا کرتے رہے۔اس سلسلے کا ایک اقتباس دیکھیے جس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ندا کی بے اعتدالیوں کے نتائج نے نداکی والدہ کو کیسی کیسی اذیتوںسے دوچار کیا:

’’پڑھائی لکھائی سے ندا کی بے توجہی اور باہر کی مسلسل آوارگیوں نے انھیں زیادہ فکر مند کردیاہے۔دوسرے بچے سیدھے راستے پر خراماں خراماں طے شدہ کامیابیوں کی طرف بڑھتے جارہے ہیں لیکن ندا کا دکھ ان کی ہر خوشی کو بے سکون کیے ہوئے ہے۔اس بے سکونی نے ان کی عبادت میں شدت پیداکردی ہے۔۔۔۔ندا کی بے اعتدالیوں کے لیے وہ اسے موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے خود کو خطا وار سمجھتی ہیں اور انھیں خداکے ساتھ اپنی نافرمانی کی سزامانتی ہیں۔‘‘17؎

ایسا ہی کچھ معاملہ ان کا اپنے والد کے ساتھ بھی دکھائی دیتا ہے کہ بچپن اور جوانی میں انھیں کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ لائق عزت واحترام بھی نہیں سمجھا مگر بعد میں انھیں والد بھی خوب یاد آئے۔والد کی یاد میں انھوںنے ایک ایسی نظم لکھی جس میںگہری محبت کے جذبات کے ساتھ بے پناہ عقیدت مندی کے عناصر بھی شا مل ہیں۔نظم کی چند سطورملاحظہ فرمائیں:

تمھارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں

میں لکھنے کے لیے جب قلم کاغذ اٹھاتاہوں

تمھیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتاہوں

بدن میں مرے جتنا بھی لہو ہے

وہ تمھاری لغزشوںناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے

مری آواز میں چھپ کر تمھارا ذہن رہتا ہے

  یہ ایک فطری بات ہے کہ جب اپنے گزرجاتے ہیں، چاہے وہ زندگی میں کتنے ہی ناپسند کیوں نہ رہے ہوں، تو رہ رہ کر یاد آتے ہیں، ایک وقت تھا جب ندافاضلی نے اپنے تمام خاندان والوں سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا تھا،اورتاعمر اپنے اس فیصلے پر اٹل رہے، اپنی زندگی میں انھوںنے اپنے ماں باپ سے برائے نام ہی تعلق رکھا، لیکن جب وہ گزر گئے تو انھیں رہ رہ کر یاد آئے جس کا تذکرہ انھوں نے ’دیواروںکے بیچ ‘اور ’دیواروںکے باہر ‘میں بار بار کیاہے۔ ندافاضلی نے ان کتابو ںمیں اپنی غربت ولاچارگی کو پیش کرنے میں بھی کسی طرح کی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا ہے، جب وہ گوالیارمیں اپنے خاندان کے چلے جانے کے بعد اکیلے رہ گئے تھے، اور ان کے پاس گزر بسر کے لیے کچھ نہ تھا تو انھیں بہت سی پریشانیوںکا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ گوالیار سے نکل کر مختلف مقامات پر وہ روزگار کے لیے بھٹکتے رہے، حتی کہ وہ دہلی بھی آئے مگر کامیابی نہ مل پائی۔ ان سب باتوںکو بھی ندافاضلی نے صداقت کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ندافاضلی لکھتے ہیں:

’’ ندا جس مقصد سے دہلی آتا ہے وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔کوئی ذریعۂ معاش پیدا نہیں ہوتا۔ایک وعدے سے دوسرے وعدے تک وقت لگاتار گردش کرتا رہتا ہے۔ دن بھر کام کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکنااور شام کو دیر تک کافی ہائوس میں نئی نظم اور نئی غزل کے بحث مباحثے میں خود کو الجھاکر تھکانا، اور اس تھکن کو چندے سے خریدی ہوئی شراب سے مٹانا (جسے کھڑے کھڑے کوکاکولاکی بوتلوںمیں ڈال کر جسم میں انڈیلاجاتاہے)ہر دن کا آخری کام ہوتاہے۔‘‘18؎

ندافاضلی نے اپنے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے حالات اور نشیب وفراز کوایک سوانح نگار کی طرح جس خوش اسلوبی کے ساتھ رقم کیا ہے اس سے نہ صرف ان کی زندگی کے احوال وکوائف کا علم ہوتا ہے بلکہ ان کی شخصیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اپنے حالات اور زندگی کے واقعات کو بیان کرنے میں بھلے ہی وہ اختصار سے کام لیں مگر تما م اہم پہلوئوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔اس کااندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے کیاجاسکتاہے جس میں انھوںنے بچپن کے حالات بیان کرنے کے ساتھ گوالیارکی تہذیب ومعاشرت کا بھی نقشہ کھینچا ہے: 

’’ندا نے پانچویں تک گوالیار میں مادھوگنج میں واقع حضورات اسکول میں تعلیم پائی ہے۔ اسکول میں صبح پہلے پرارتھنا ہوتی ہے۔اس میںاسکول کے سارے طلبا اور اساتذہ شریک ہوتے ہیں۔یہ پرارتھنا اردو نظم کی صورت میں ہے جس کو سندھیا سرکار کی تعریف میں ماسٹر ریاض الدین نے نظم کیاہے۔اس نظم میں گوالیار کے موجودہ حکمران جیواجی رائو سندھیا کی تندرستی اور اقبال کی دعائیں کی گئی ہیں۔اختتام میں ان کی حکومت میں شیراور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے اور ان کے راج کی نعمتوں کا ذکرہے۔ دو خوش الحان لڑکے پتھر کے بنے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اسے ترنم میں سناتے ہیں اور تمام اساتذہ اور طالب علم سرجھکائے ہاتھ باندھے احترم سے سنتے ہیں۔‘‘19؎

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ندافاضلی نے ایسے اسکول اور ماحول میں تعلیم حاصل کی جہاں پرارتھنا بھی ہوتی تھی اور دعابھی، جس میں ہندومسلمان سب محبت سے ایک ساتھ رہتے تھے۔ یہ کلچر ندافاضلی کی حیات میں رچ بس گیا تھا۔ اسی گنگا جمنی تہذیب کے اثر نے انھیں پاکستان جانے کی اجازت نہ دی اور اسی گنگاجمنی تہذیب کے پھولوں کی مہک نے ان کی شاعری کو مہکایا۔بلاشبہ ندافاضلی کے گھر کے ماحول نے ان کے لیے شاعری کی راہ ہموار کی مگر گوالیار کی گنگاجمنی فضا نے بھی ان کو شعر گنگنانے اور شعر تخلیق کرنے کے لیے آمادہ کیا۔وہ لکھتے ہیں:

’’گھر کے ماحول اور والد کے ساتھ اکثر شعری نشستوںمیں شرکت نے ندا میں بھی ادبی ذوق پیدا کردیا ہے۔سمجھ بوجھ کیا خاک ہے، ہاں چھوٹی عمر میں وزن میں مصرع جوڑنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔نصاب کی کتابوں سے زیادہ قافیوں کی تلاش میں وقت ضائع کرنے لگا ہے۔یاد داشت اچھی ہے، داغ، نوح اور اپنے والد کے بہت سے شعر یاد ہوگئے ہیں،انھیں کو الٹ پھیرکر شعر بنالیتا ہے۔۔۔۔ گوالیار میں آئے دن نشستیں ہوتی ہیں۔اچھا خاصا ادبی ماحول ہے۔‘‘ 20؎

آگے چل کر ندا فاضلی ایک بہت بڑے شاعر کی حیثیت سے ساری دنیا میں متعارف ہوئے۔ انھیں اہمیت کے ساتھ نہ صرف اندرون ملک منعقد ہونے والے مشاعروںمیں بلایاجاتا، بلکہ بیرون ملک کے مشاعروںمیں بھی انھیں دعوت دی جاتی تھی۔ مشاعروں میں اپنی شرکت کو انھوںنے ’دیواروں کے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘میں جگہ جگہ لکھاہے، اتنا ہی نہیں بلکہ مشاعروںمیں پیش آنے والے واقعات بھی جامعیت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔جن واقعات کو انھوںنے کتاب میں شامل کیا ہے، ان سے اس وقت کے مشاعروںکی حقیقی تصویر ابھرکرسامنے آتی ہے اور ان میں شرکت کرنے والے شاعروں کے احوال کا بھی پتہ چلتاہے۔ساتھ ہی اس بات کا بھی کہ مشاعروںمیں کس طرح کی شاعری کو سننا پسند کیا جاتاہے۔ مشاعروںکے حالات کے ذیل میں بہت سے شاعروںسے تعارف بھی ہوتاہے اور اس بات کی بھی جانکاری حاصل ہوتی ہے کہ اس زمانے میں بڑے مشاعروںکے چہرے کون سے تھے۔

ندافاضلی نے دیواروںکے بیچ ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘ میں داخلیت کے ساتھ خارجی عناصر و واقعات کو بھی جگہ دی ہے، البتہ خارجی واقعات ’دیواروںکے باہر‘میں ’ دیواروںکے بیچ‘ کی بہ نسبت زیادہ بیان ہوئے ہیں، لیکن جن خارجی معاملات اور واقعات کواس میں پیش کیاگیا، ان کا کچھ نہ کچھ تعلق مصنف سے رہا ہے۔ مثلاً دوسری شخصیات کے وہی واقعات ندافاضلی نے بیان کیے ہیں جن کا انھوںنے بذات خود مشاہدہ کیا۔ان خارجی چیزوں کے بیان کرنے کے سبب یہ کتابیں جہاں ندا فاضلی کی حیات سے قارئین کو واقف کراتی ہیں، وہیں دیگر بہت سے شاعروں، افسانہ نگاروں، علمی شخصیتوں اور فلمی ہستیوں سے بھی انھیں متعارف کراتی ہیں۔ان کتابوںکے توسط سے ہم کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، عصمت چغتائی، اخترالایمان،کیفی اعظمی،راہی معصوم رضا،علی سردار جعفری،ظ۔انصاری، جگجیت سنگھ، کمال امروہوی جیسی بہت سی شخصیات سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتابیں ممبئی کے ادبی وشعری ماحول کوپیش کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس دور کی بہت سی فلمی سرگرمیاں بھی ہمارے سامنے لاتی ہیں۔ بلکہ ندافاضلی نے متعدد واقعات ایسے بیان کیے ہیں جن سے فلمی دنیا کا پس منظرابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

ادبی ماحول میں رہ کر بھی ندا فاضلی نے سماج سے گہرا رابطہ رکھا۔چنانچہ وہ ادیبوںاور شاعروں کے ساتھ سماج کے مختلف طبقات کے افراد سے بھی ملتے جلتے رہے۔سماج کی نامور ہستیوں کے ساتھ تو ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا ہی مگر سماج کے کمزور،پسماندہ اور عام لوگوںکے درمیان بھی ان کا وقت گزرا۔ گویاکہ ندا فاضلی کی زندگی کسی حصار میں قید نہ تھی بلکہ ان کی زندگی آزادپرندے جیسی تھی۔اس لیے وہ کبھی وی آئی پی کلچر کے پرتکلف ماحول میں وقت بسر کرتے ہوئے نظر آتے اور کبھی جھگی جھونپڑی،فٹ پاتھ اور پسماندہ محلّوںکے گلی کوچوںکے چکر کاٹتے دکھائی دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ندافاضلی کی شاعری اور تحریروں کا کینوس بہت وسیع ہوگیا جس میں سماج کے مختلف طبقات سمائے ہوئے ہیں۔ان کی وہ نظمیں جو مظلوم ومجبور لوگوںکی زندگیوں سے جڑی ہوئی ہیں، وہ تاثیر سے پُرہیں، سماج کے پسماندہ طبقے کادرد انھوںنے اسی لیے محسوس کیا کہ ان کے سامنے ان کی زندگی کی جھلکیاں موجود تھیں جو انھوںنے بہت قریب سے دیکھی تھیں۔ندافاضلی رقمطراز ہیں:

’’گھر سے زیادہ باہر رہنے کی آزادی نے ندا کونئی محفلوں کا پتا بتادیاہے۔وہ ہر رات کہیں نہ کہیں اپنے شعروں یا باتوں سے دوسروں کو ہنستا ہنستانظرآتاہے۔ایسی محفلیں ادیبوں کی کم، غیر ادیبوںکی زیادہ ہوتی ہیں۔ غیر ادیبوں کا ایک ایسا سماجی طبقہ بھی ہے جو ہندوستان کے پانچ ہزار سال پرانے مایا کے فلسفے کے اپنے ذاتی تجربوںسے نفی کرکے زندگی کی اچھائی برائی کا اختیار آسمان سے چھین کر زمین کو سونپ چکا ہے۔ یہ اپنی طبقاتی محرومیوں کو دنیا کی بے ثباتی کاآئینہ بنانے کی بجائے رائج نظام میں تبدیلی کا خواب دیکھتا دکھاتاہے۔ اس میںملیالم، بنگالی، تلگو اورپنجابی بولنے والے ہیں۔ ان میں لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی۔اپنی پڑھائی اور گھر بار کو چھوڑ کر یہ انفرادی مستقبل کو کسی اجتماعی خواب کی تعمیر میں اینٹ گارے کی طرح استعمال کررہے ہیں۔ان کی دن کی کارگذاریوں میں ندا کا داخلہ ممنوع ہے۔ہاں شام کے بعد سستی شراب اور سگریٹوں کے دھویں میں سیاسی جبریت کے خلاف ان کے لفظی احتجاج میں وہ ضرور شریک ہوتاہے۔ مذہب، بھاشا، علاقے کے فرق کے باوجود یہ سب اپنے غم وغصے کے اظہار کی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ 21؎

اسلوبیاتی نقطہ نظر سے جب ہم ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اچھی خود نوشت کے لیے جس طرح کے اسلوب کوناگزیر خیال کیاجاتا ہے، وہ بھی ان کتابوںیعنی ’ دیواروںکے بیچ‘ اور’ دیواروںکے باہر‘ میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔یہ ایک ایسا اسلوب ہے جس میں بلا کی کشش اور تاثیر ہے، جو قارئین کے ذہن میں اترکران کے قلوب کو مسخر کرلیتا ہے۔اسی لیے ان کتابوںکا مطالعہ قارئین کو تھکاتا نہیں بلکہ ان پر استغراق کی کیفیت طاری کردیتا ہے۔

ندافاضلی کی ان خودنوشتوںکی نثرکی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی الجھائو نہیں ہے، ندادھیمی رفتار سے چھوٹے چھوٹے جملوں میں اپنی بات کو باندھتے چلے جاتے ہیں، الفاظ بھی بہت حد تک سادہ ہی استعمال کرتے ہیں، مگر جملوں کے درمیان سے ربط کومنقطع نہیں ہونے دیتے، جس کے سبب روانی اور سلاست کاسلسلہ قائم رہتا ہے۔لفظوںکی سادگی مضمون کی تفہیم کوآسان کردیتی ہے۔ ’دیواروںکے باہر‘اور ’ دیواروںکے بیچ ‘ دونوں میںندافاضلی نے ایک ہی اسلوب اختیار کیا ہے۔’دیواروں کے باہر‘ کے اس اقتباس کو پڑھیے اور اسلوب کی کشش وتاثیر پر غور کیجیے:

’’ ندانہاتاہے اورپھر نئے کپڑے پہن کر خاموش ایک کرسی میں بیٹھ جاتا ہے۔وہ دیر تک یوں ہی بیٹھا رہتاہے۔وہ رونا چاہتاہے لیکن بہت دنوں سے رکے ہوئے آنسو اندر ہی اندر لہراتے ہیں۔ آنکھوں تک آنے کا راستہ وہ بھول چکے ہیں۔وہ آنسوئوں کی اس بھول پر مسکراتاہے۔

اسے اس طرح اکیلے میں رونا اچھا لگتاہے۔رونے کے بعد اسے لگتاہے،دھوپ اور پانی کی طرح کبھی کبھی کا رونا بھی آدمی کے لیے بہت ضروری ہے۔وہ روئے ہوئے دکھوں کو بناروئے ہوئے دکھوں سے الگ الگ کرکے اٹھتاہے اور باہر نکل جاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتاہے،مکان سے باہر آکر بھی وہ مکان کے کسی کونے میں بیٹھا دیواروں کو دیکھ رہا ہے جن سے اس کاابھی اچھی طرح تعارف نہیں ہوا ہے۔‘‘22؎

سادہ جملوں کے ذریعے قارئین کے ذہن پر چھاجانا ندافاضلی کا کمال ہے۔ واحد غائب کے صیغے کے ساتھ انھوںنے اپنی خود نوشت کے اسلوب کوموثر اور منفرد بنانے میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔مذکورہ اقتباس میں نہ الفاظ مشکل ہیں، نہ پیچیدہ تراکیب ہیں اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی مشکل پسندی ہے۔وہ تاثیر جو مصنفین پرشکوہ الفاظ و تراکیب اور تشبیہات واستعارات کے ذریعے اپنی تحریروںمیں پید اکرتے ہیں، وہ ندا نے سادہ تراکیب اورسادہ الفاظ کی وساطت سے عبارت میں پیدا کردی ہے۔ندافاضلی کو ایک منفرداسلوب کا خالق بھی کہاجاسکتا ہے۔کیونکہ یہ اندازتحریر ہمیں دوسروںکے یہاں نہیں ملتا۔

دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘میں جو بیانیہ ندافاضلی نے اختیار کیا ہے، اس پرکہیں ہلکا اور کہیں گہراافسانوی رنگ چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے،لیکن یہ رنگ قارئین کو بھلا محسوس ہوتا ہے۔ ندا فاضلی کے اسلوب سے قارئین، مبصرین اور ناقدین کس حد تک متاثرہوئے،اس کا اندازہ کرنے کے لیے درج ذیل چند اقتباسات دیکھیے:

’’دیواروں کے بیچ‘ قاری کو اپنے سحر سے آزاد نہیںہونے دیتی۔میں تو ’شاعر‘ کا مطالعہ ’ دیواروں کے بیچ‘ سے ہی شروع کرتاہوں۔‘‘(محفوظ الحسن)

’’دیواروں کے بیچ کی نثر جی چاہتاہے کہ بار بار پڑھتا رہوں۔البیلے شاعر کی نثر بھی البیلی ہے۔کیا زبان استعمال کی ہے۔‘‘(ممتاز صنم)

’’ ندافاضلی کی ’دیواروںکے بیچ‘ کا سلسلہ خوب تر ہے، اظہار کی زبان اور پیرایہ بیان اس کو دلچسپ بنائے ہوئے ہے۔‘‘(شافع قدوائی)

’’ ندافاضلی کی’ دیواروں کے بیچ‘ خصوصیت سے بہت پسند آئی۔ جاندار اور طرحدار ہے اور ان کی شاعری کی طرح منفرد۔‘‘(فاروق شفق)

’’ندافاضلی کی ’دیواروں کے بیچ‘ بڑے دلچسپ انداز میں چل رہی ہے۔ان کے اسلوب نگارش اور ان کی اچھوتی طبیعت دونوں نے یکجا ہوکر انفرادیت قائم کردی ہے۔‘‘

                                                                                                              (رفیق اعظم)

ندافاضلی کی یہ’ خودنوشتیں‘اردوکے خودنوشت ادب میں کیا مقام رکھتی ہیں، اس کا اندازہ اردو خودنوشت ادب کے ذخیرے پر ایک ہلکی سی نگاہ ڈالتے ہوئے اس طورپرکیاجاسکتاہے کہ اردو میں خودنوشت عمریوں کی روایت بہت زیادہ قدیم نہیں ہے۔پہلی باضابطہ خودنوشت مولانا جعفر تھانیسری نے ’تواریخ عجیب‘‘(کالاپانی) کے عنوان سے 1919 میں رقم کی تھی۔ان کے بعد منشی محمد عنایت کی ایام غدر، خواجہ حسن نظامی کی ’عرفان ہستی‘مولانا حسرت موہانی کی ’قیدفرہنگ‘چودھری افضل الحق کی ’دوزخ‘ جیسی خود نوشت سوانح عمریاں یا آپ بیتیاںمنظرعام پر آئیں۔ یہ سلسلہ آگے بھی بڑھا اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عبقری شخصیت نے بقلم خود ’تذکرہ‘ کے نام سے خود نوشت سوانح عمری لکھی۔ ان کے علاوہ سید رضا علی کی اعمال نامہ، حکیم احمد شجاع کی ’خوں بہا‘ مولانا حسین احمد مدنی کی ’ نقش حیات‘ شاد عظیم آبادی کی ’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘، شورش کاشمیری کی’ بوئے گل اور نالۂ دل‘،جوش ملیح آبادی کی ’یادوںکی بارات‘کلیم الدین احمد کی ’اپنی تلاش میں‘خواجہ غلام السیدین کی ’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں‘، عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی،احسان دانش کی ’جہان دانش‘ اورشوکت تھانوی کی ’مابدولت‘ جیسی خود نوشتیں جلوہ گر ہوئیں۔ان کے علاوہ اوربھی متعدد خودنوشت سوانح عمریاں اردو میں موجود ہیں، مگر یہ فہرست بہت زیادہ طویل نہیں ہے اور نہ ہی تمام خود نوشت سوانح عمریوں کو مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی ہے۔

تواریخ عجیب ‘اپنی اولیت کے اعتبارسے یقینا اہمیت کی حامل ہے اور اسے کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔مولانا ابوالکلام آزاد کی خود نوشت سوانح عمری’ تذکرہ ‘ کو بھی خاصی پذیرائی ملی۔ جوش ملیح آبادی کی ’یادوں کی بارات ‘کو بھی خوب پڑھاگیا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی ’ نقش حیات‘ کی شخصی اور تاریخی حیثیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ عبدالماجد دریابادی کی ’آپ بیتی ‘ کانام تو بہت اہمیت وعظمت کے ساتھ لیاجاتا ہے کیونکہ اس میں فنی لوازمات ومطالبات کا پورا دھیان رکھا گیا ہے۔

دورجدید میں جو خودنوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں اور شائع ہوئیں ان میں قدرت اللہ شہاب کی ’شہاب نامہ‘،وامق جونپوری کی ’گفتنی ناگفتنی‘،آل احمد سرور کی’ خواب باقی ہیں‘،سید وارث کرمانی کی ’گھومتی ندی‘،عابد سہیل کی ’جویا درہا‘،رتن سنگھ کی ’بیتے ہوئے دن‘ اور ندافاضلی کی ’ دیواروںکے بیچ‘ اور ’دیواروںکے باہر‘ سرفہرست ہیں۔

ندافاضلی کی خود نوشت سوانح حیات ’دیواروںکے بیچ‘ پہلی بار 2016میں ایم آر پبلی کیشنز دریاگنج نئی دہلی سے شائع ہوئی۔یہ کتاب 168صفحات پر مشتمل ہے۔اس سے پہلے ان کی یہ خود نوشت قسط وار شائع ہوتی رہی۔ یہ کتاب ندافاضلی کی زندگی کو جاننے اور سمجھنے میں نہ صرف معاون ثابت ہوتی ہے بلکہ ندا فاضلی پر یہ کتاب بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور استنادکا درجہ رکھتی ہے۔کیونکہ ندافاضلی نے واقعات کے بیان میں جرأت مندی کا ثبوت دیاہے۔یہ اچھی خود نوشت کی خوبی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کی ’آپ بیتی‘ میں بھی ان کی ذاتی زندگی کے تمام پہلوکھل کر سامنے آتے ہیں،یہاں تک کہ انھوںنے اپنے اس دورکو بھی جرأت مندی سے بیان کیا ہے جس میں ان پر الحاد ولادینیت کے اثرات کا غلبہ ہوگیاتھا۔جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ’تذکرہ‘ میںاپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اسے استعارے کی زبان دی ہے جس کے باعث بہت سی باتیں دبیزپردوںمیں چھپی رہ گئی ہیں،لیکن ندافاضلی نے سب کچھ اس طرح کھول کر رکھ دیا کہ ان کی کتاب ’دیواروںکے بیچ‘ ’انکشاف ذات کا مرقع بن گئی۔

دیواروںکے باہر‘ ندا فاضلی کی دوسری اہم تصنیف ہے۔یہ بھی ایم آرپبلی کیشنز نئی دہلی سے 2016 میں شائع ہوئی۔یہ کتاب ندا فاضلی کی زندگی کا عکس بھی پیش کرتی ہے اور ارد گرد کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔ اس کتاب میں ندافاضلی نے اپنی زندگی کے زیادہ تر ان واقعات کو درج کیاہے جو انھیں پختہ عمر میں پیش آئے۔ اگرچہ بچپن اور جوانی کی کچھ یادیںبھی اس کتاب میں مرقوم ہیں مگر ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔دراصل بچپن اور جوانی کے واقعات کو وہ ’دیواروںکے بیچ ‘ میں بیان کرکے آگے بڑھ گئے۔اس کتاب کو ندافاضلی کی یادداشتوںکا دوسرا حصہ بھی کہاجاسکتاہے اور ایک ہی سلسلے کی دوسری کڑی کانام بھی دیاجاسکتاہے۔اگران دونوں کتابوںکو یکجاکرکے ایک ہی جلد میں بھی شائع کیا جاتاتو یہ ایک ہی کتاب شمار ہوتی اور ایسا نہ لگتا کہ دوکتابوںکو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔

ندافاضلی نے ’دیواروںکے بیچ‘ کی ابتدا اپنی پیدائش اور بچپن کے حالات سے کی ہے، لیکن ’دیواروں کے باہر‘ کا آغاز انھوںنے اپنے اس گھر کے تذکرے سے کیاہے جو انھیں بڑی مشقت اور طویل انتظار کے بعد ممبئی میں حاصل ہواتھا۔ اس وقت تک ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ بھی گزر چکاتھا۔ آگے بڑھنے کی بہت سی خواہشات بھی سرد ہوگئی تھیں اور زندگی میںایک ٹھہرائو سا آگیاتھا لیکن زندگی کے اس موڑ پر انھیں کم از کم ایک مکان ضرور مل گیا جس کی چھت کے نیچے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کو کسی قدر سکون کے ساتھ بسر کرسکتے تھے۔اپنے مکان کی آرزو کس کو نہیں ہوتی، خاص طورسے وہ لوگ جن کی زندگیاں دیارِ غیر میں گزرتی ہیں اورجنھیں سرچھپانے کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں،اگرانھیں کوئی مستقل مستقر مل جائے تو خوشی و اطمینان کا حاصل ہونا فطری امرہے۔ ندافاضلی کا اپنا آبائی گھر بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا، خاندان بھی پاکستان میں جاکر آباد ہوگیا تھا۔ سالہا سال کی دربدری اور جدوجہد کے بعد ان کااپنا مکان ہواتو انھوںنے اس پراطمینان کا اظہاربہت خوبصورت پیرائے میں کیا اورایک زمانے تک اپنی لامکانی اوردربدری کا رونا بھی رویا۔انھوںنے لکھا:

’’ روٹی، گھر، کپڑے اور کتابوں کو ایک جگہ کرنے میں اسے بیس سال سے زیادہ لگ گئے۔الگ الگ سمتوں کے ان باسیوں کی یکجائی کی مدت ہر ایک کے ساتھ مختلف ہوتی ہے۔ان چند خوش قسمت افراد کے علاوہ جن کو پیدائش سے ہی وراثت میں سب کچھ مل جاتاہے، سبھی کو انھیں اکٹھاکرنے کے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔کچھ بنے بنائے راستوں کے مسافر ہوتے ہیں: پیدا ہونا، تعلیم حاصل کرنا، نوکری کرنا، گھر بنانا۔ندا کو اس مروجہ ترتیب سے جینے کی سہولت حاصل نہیں ہوئی۔اس نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا تھا یا حالات نے اسے جس راستے پر ڈال دیا تھا، اس میں مقابلتاً زمین سخت اور آسمان دور تھا۔اس کے بھائی والدین کے تجربوںکے سائے میں مناسب وقت پر دروازوں پر اپنے نام کی تختیاں لگاکر باعزت بن گئے۔ندا کی خود سری نے ان کے تجربوںسے فائدہ نہیں اٹھایا اور بہت سارا وقت یوں ہی گنوادیا۔‘‘23؎

دیواروںکے باہر‘ میں ندافاضلی نے ایک مکان کے حاصل ہونے پر بھلے ہی اطمینان کا اظہار کیا، مگر ساتھ ہی انھوںنے بار بار اس بات کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ یہ مکان ایک عرصے تک آباد نہ ہوسکا۔ ان کی ا پنی زندگی تنہارہی۔ عشرت سے نکاح ہوامگر وہ جلد ہی ٹوٹ بھی گیا۔یعنی تنہائی نے پھر ان کے گرد حصار بنالیا،جس میںان کے کھوئے ہوئوں کی یادیں ان کے ساتھ رہتیں۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:

’’ ندا نے اب سے پہلے اپنے بارے میں اس طرح نہیں سوچا تھا۔وہ خود سے قریب ہوکر جب غور کرتاہے تو اسے محسوس ہوتاہے صرف اوپری شباہت سے ہی اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں ہے، اس کی عادتیں، اس کی سوچ کے طریقے، اس کا مزاج اورپسند وناپسند کے پیمانے بھی تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ ویسے ہی ہیں۔ایک ہی وجود میں جمیل فاطمہ ہے،کچھ مرتضیٰ حسن ہے۔ان دونوں کے درمیان وہ کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔اسے یاد آتا ہے، وہ جیسا پہلے تھا ویسا اب نہیں ہے۔ شروع میں وہ ماں باپ سے جتنا دور تھا، اب اتنا ہی قریب ہے۔۔۔

نئی نئی آنکھیں ہوں تو ہر منظر اچھا لگتاہے

کچھ دن شہر میںگھومے لیکن اب گھر اچھا لگتاہے‘‘

ندافاضلی نے اس کتاب میں مختلف شعرا کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے ان کی شاعری پر روشنی بھی ڈالی ہے جس سے کہ ان کی شاعرانہ خصوصیات وامتیازات اورمحاسن واوصاف کا بھی پتہ چلتاہے۔ اس طرح یہ کتاب ایک خودنوشت ہونے کے ساتھ ایک تنقیدی مطالعہ بھی پیش کرتی ہے اور اس کے ذریعے کئی شعرا کی شاعری کے مقام کا تعین کیاجاسکتاہے۔ مثال کے طورپر مندرجہ ذیل سطور دیکھیے جن میں انھوںنے جون ایلیاکی شاعری اور ان کے مزاج پر روشنی ڈالی ہے۔لکھتے ہیں:

’’جون ایلیا کی شاعری کا مجموعی مزاج رومانوی ہے، جسے وہ شعر میں زبان کی ڈرامیت اور داخلی ایمائیت سے پُر لطف اورپُراثر بناتے ہیں۔ وہ ایک ساتھ امروہہ اور کراچی میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔کراچی میں رہتے ہوئے وہ امروہہ کو یاد کرتے ہیں اور جب امروہہ میں ہوتے ہیں تو کچھ دن بعد کراچی کے لیے آنسو بہاتے ہیں۔وہ منقسم برصغیر کا چلتا پھرتا ایک مرثیہ ہیں۔مشترکہ تہذیب کا یہ بٹوارہ ان کا کرب ہے جو ان کی شاعری میں جہاں تہاں جھلکتا ہے، درد بن کر کسکتا ہے۔‘‘24؎

ندافاضلی کی اس کتاب سے ہندوبیرون ہندکے متعدد مقامات کی شعری وادبی فضاکا اندازہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ندافاضلی نے اس کتاب میں ملک وبیرون ملک کے بہت سے شعرا کا تذکرہ کیا ہے اور  ملک و بیرون ملک منعقد ہونے والے مشاعروں پربھی بات کی ہے۔نداکی الگ الگ مقامات کے شعرا سے ملاقاتیں ہوئیں، انھیں سنا،اوران کے ساتھ اوقات گزارے جو ان کی یاد داشتوںکا حصہ بن گئے۔ اورپھر جب ندافاضلی نے اپنی یادداشتوںکو صفحۂ قرطاس پر رقم کیا تو دنیا کے مختلف خطوںکے شعرا سے وابستہ یادیں بھی ان میں شامل ہوگئیں۔اس طرح یہ کتاب (دیواروںکے باہر) بلاتفریق خطہ وملک ندافاضلی کے عہد کی ادبی دنیا کا آئینہ بن گئی،تاہم یہ کتاب ممبئی کی ادبی سرگرمیوں کوخاص طورپر سامنے لاتی ہے۔ اس کی غالباً وجہ یہی ہے کہ ممبئی میں ندافاضلی کی زندگی کا زیادہ عرصہ گزرا بلکہ ان کی جوانی کا ایک حصہ اورپورا بڑھاپایہیں بسر ہوا۔ یہاں وہ فلمی دنیا سے وابستہ رہے، یہاں کی ادبی سرگرمیوںمیں حصہ لیتے رہے، اس لیے ان کے ذہن پر یہاں کے مناظر اور یادوں کے نقوش زیادہ پیوست رہے جو بار بار ان کے قلم کی نوک پر آئے۔گویاکہ گزشتہ نصف صدی کی ممبئی کی ادبی فضا کو ندافاضلی کی کتاب’دیواروںکے باہر‘ کے ذریعے بخوبی جاناجاسکتاہے۔

دیواروںکے باہر‘ میں سماجی اور سیاسی موضوعات بھی آئے ہیں۔ دراصل کوئی بھی ادیب اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی صورت حال سے انجان نہیں رہ سکتا۔ ندافاضلی ایک حساس شاعر وادیب تھے، اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے سیاسی وسماجی حالات سے بے خبر رہتے۔پھر انھیں خود بھی سیاسی تغیرات کے نتائج سے گزرنا پڑاتھا۔تقسیم وطن کے ساتھ بہت سے خاندان اِدھرسے اُدھر ہوگئے تھے جن میں ان کا خاندان بھی شامل تھا۔ندا فاضلی نے آزادی سے پہلے کا ہندوستان بھی دیکھا تھا اور آزادی کے بعد کا بھی۔اس لیے ان کتابوںمیں آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کا ہندوستان بھی دیکھا جاسکتاہے۔بدلتے حالات میں کس طرح سماجی قدروںمیں تبدیلی ہوتی رہی اور سیاسی سطح پر کیا کیا بدلائو آتے رہے،ندا فاضلی نے ان کا گہرا مشاہدہ کیا اور پھران تغیرات کو بھی اپنی یاد داشتوں کا حصہ بنالیا۔ غرض یہ کہ ندافاضلی کی یہ کتاب’ دیواروںکے باہر‘  خود نوشت سوانح عمری کے تمام اہم تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی نظرآتی ہے۔اس لیے نداکی کتاب ’دیواروںکے باہر‘کو بھی ’دیواروںکے بیچ‘کی طرح اردوکی بہترین خود نوشت سوانح عمریوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتاہے۔

حواشی

.1       دیواروںکے بیچ، ص: 16، از ندافاضلی، ایم آرپبلیکشنز، اشاعت: 2016

.2       دیواروں کے بیچ، ص: 165     .3       دیواروں کے بیچ، ص: 168

.4       دیواروں کے بیچ، ص:7 16     .5       کتابی سلسلہ نمبر1، اعتراف،ص249

 .6      ندافاضلی، مرتب پروفیسر علی احمد فاطمی، ص 160،اشاعت201

.7       کتابی سلسلہ 1، اعتراف،ص 248

.8       سہ ماہی امرائوتی،ندافاضلی نمبر 2014، ص 140

.9       سہ ماہی امرائوتی،ندافاضلی نمبر 2014، ص 143

.10     اعتراف، ص 258

.11     ناول کیا ہے؟ از ڈاکٹر محمد احسن فاروقی وڈاکر نور الحسن ہاشمی، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ،ص17، 2011

.12     اردومیں سوانح نگاری، از ڈاکٹر سید شاہ علی، ص 65، انجمن پریس لارنس روڈ، کراچی، جولائی1961

.13     اردومیں خود نوشت سوانح حیات، ص 19، از ڈاکٹر صبیحہ انور، اشاعت 2021

.14     دیواروںکے بیچ، از ندافاضلی، ص13 .15     دیواروں کے باہر، ص 8

.16     دیواروںکے باہر، ص167       .17     دیواروںکے بیچ، از : ندافاضلی، ص 66

.18     دیواروںکے بیچ، ص :102       .19     دیواروں کے بیچ، از ندا فاضلی،ص22

.20     دیواروںکے بیچ، ص 25 .21     دیواروں کے بیچ، ص 130

.22     دیواروں کے باہر، ص 153، از ندا فاضلی، ایم آرپبلیکشنز دہلی، اشاعت2016

.23     دیواروں کے باہر، ص 7-8     .24     دیواروں کے باہر، ص 94

 

Dr. Mohd Yusuf Rampuri

Assistant Professor, Dept of Urdu

Zakir Husain Delhi College (Evening)

University of Delhi

Delhi- 110002

Mob.: 8383818120

myusuframpuri@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ندا فاضلی: بحیثیت خودنوشت سوانح نگار،مضمون نگار: یوسف رامپوری

  فکر و تحقیق، جولائی - ستمبر 2024 تلخیص ندافاضلی اردو کے وہ عظیم ادیب وشاعر ہیں جن کی شاعری کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور نثر نگاری کوبھ...