فکر و تحقیق، جولائی –ستمبر2024
تلخیص
قدیم ترین ماہرین کے قیاس کے مطابق زبان کا منبع ایمان
دھرم تھا۔ یہاں تک کہ سناتن دھرم اور ابراہیمی مذاہب اپنی اپنی زبانوں کو الوہیت کی
جودوعطا تسلیم کرتے تھے لیکن سائنسداں لسانیات اور علم اللسان جیسے علوم کی
معلومات پر یقین رکھتے تھے جو مشاہدات و تجربی علم کا حاصل ہوا کرتے تھے۔ لیکن
جہاں تک قدیم ترین شواہد کا تعلق ہے تووہ ناپید ہیں۔ البتہ کچھ ابتدائی قیاس آرائیوں
میں چارلس ڈارون اور میکس ملّر کے مشاہدات کوکافی اہمیت حاصل رہی ہے۔جامع اردو
انسائیکلوپیڈیا (1)ادبیات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،2003، کے ص
291-290 کے مطابق میکس ملّر نے بولیوں کی ابتداسے متعلق ایک فہرست طبع کی تھی جس میں
کوئی گیار ہ نظریات دیے گئے ہیں۔ گیارہواں نظریہ انسانی جبلت سے متعلق ہے جس میں
انسانی دماغ میں زبان کے مخصوص گوشوں کا بغور مطالعہ شامل ہے جنھیںشکلوں کی مدد سے
بھی واضح کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو پرندے انسانی زبان کی نقل
کرتے ہیں ان کے دماغ اور انسانی دماغ کے لسانی حصوں میں کیا فرق ہے۔ جب کسی طور پر
یہ معلوم ہوہی گیا ہے کہ زبان وجود میں آئی تو انسانی دماغ سے اشارات و الفاظ جاری
ہونے کے بعد حلق و دہن یا جسم کے مخصوص اعضا سے ان کی ادائیگی و اظہار کیسے ہوپاتی
ہے اور یہ کہ ان کی تصویر یعنی ترسیم کیسے روٗبہ عمل ہوتی ہے اور یہ بھی کہ حلق و
منہ میں کن کن الفاظ کی ادائیگی میں سانس کاکیا کردار ہوتا ہے۔ ان تمام امور کو
صوتیات و فونیمیات کی مدد سے واضح کیاگیا ہے کہ جب اردو زبان وجود میں آگئی تو
برصغیر کے مختلف علاقوں میں اس کی ادائیگی مختلف انداز سے ہوتی ہوگی لیکن بعد میں
اس زبان کا ایک نظام اور ایک معیار مقرر کیاگیا کہ تمام تر اردودنیا میں تقریر و
تحریر کے معیارات کی پاسداری کی جاسکے۔
کلیدی الفاظ
الوہی نظریہ، سنسکرت، سناتنی دھرم،طبعی آواز،اوائلی
جانور، فیثاغورث،چارلس ڈارون، میکس ملّر ، سبزی خور، خونخوار ،تنفس ،جبلت گویائی،
بروکا ایریا، کارل ورنکی ایریا، حنجرہ
(کنٹھ) ،مخارج،حروف حلقی، حروفِ دہنی،اعضائے تکلم۔
منقول ہے کہ تقریباً پچاس تا پچپن لاکھ سال قبل ایک
آدمی زمین پر وارد ہوا اور اس نے زبان کی شروعات کی۔ زبان جو باہمی رابطے کا ایک
ذریعہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنی سوچ، احساسات اور جذبات کو نثراً یا نظماً دوسرے
فرد یا افراد تک اپنی آواز کے ذریعے پہنچاتا ہے۔ بنا آواز کے زبان کا اظہار
ماؤف سا ہوجاتا ہے۔ اب یہاں فکریہ لاحق ہوجاتی ہے کہ صرف ایک آدمی زمین پر وار د
ہوا تو یقینا وہ اکیلانہ رہا ہوگا۔ بلکہ اس کے ساتھ اس کے قریب دوسری اس کی ساتھی
ضرور رہی ہوگی جس تک وہ اپنے احساسات و جذبات کو اپنی آواز اپنے لمس کے ذریعے
پہنچا سکے تاکہ مزید افراد کی آمد سے یہ تسلسل تادیر قائم رہے۔ اپنی زبان کو آدمی
اپنی نوشت کے ذریعے محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن اس عمل کے لیے آدمی کو مزید ہزاروں
سال جدوجہد کرنی پڑی۔ لیکن یہ بولنے، لکھنے اور پڑھنے کا عمل لاکھوں برس پر محیط
ہے۔ جب کہ اس وقت علم یا سائنس اس قدر ترقی نہ کرپائی تھی کہ زبان اور اس کے
لوازمات کے بعینہٖ کوائف حتمی طور پر بیان کیے جاسکیں۔ اس لیے مجبوراً انسان کو
بوسیدہ شواہد اور نظریات پر اکتفا کرنا پڑا۔
زبان - شروعات سے متعلق نظریات
(1) الوہی
نظریہ یا عطیۂ الٰہی(Divine Theory) 1؎
مذہبی عقیدے کے تحت مختلف عقائد کے ماننے والے زبان کو
عطیۂ الٰہی سمجھتے ہیں۔ لیکن دنیا میں تو کئی مذاہب ہیں۔ ان کی کامل تعداد کا
بتلانا ازبس دشوار ہے۔ پر ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد4تا 10ہزار ہوسکتی ہے۔
جن میں15%اصل مذاہب اور باقی 85%ان سے وابستہ فرقے اور ذیلی فرقے ہوسکتے ہیں۔
البتہ ان میں پانچ اہم مذاہب ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی (a) ہندوستانی مذاہب جیسے
ہندو (سناتنی) دھرم بدھ مت، جین مت، سکھ پنتھ۔ ان دھرموں کا آغاز ہند کی ارض پاک
سے ہوا ہے، اور (b)
ابراہیمی ادیانِ ثلاثہ، یعنی یہودی، عیسائی
اور مسلم مذاہب۔عیسائیوں اور اسرائیلیوں کے عقائد میں زبان کے متعلق یکسانیت پائی
جاتی ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق اولین زبان عبرانی ہی تھی، جسے وہ ازلی زبان مانتے
ہیں۔ اس ایقان سے ایک روایت اور بھی متصل ہے کہ بمطابق عہدنامہ عتیق انسانوں کے
درمیان ایک ہی زبان رائج تھی مگر اہل بابل نے برخلاف مشیت ایزدی آسمانوں کی پنہائیوں
میں سیر کرنے کی ٹھان لی اور بیشمار مزدوروں کی اعانت سے ایک فلک بوس مینار تعمیر
کرنے لگے۔ چنانچہ پروردگار نے اس منصوبے کی عدم تکمیل کی خاطر کاریگروں کے مابین
بھانت بھانت کی بولیاں رائج کردیں۔اس کی وجہ سے ان کے درمیان تعاون برقرار نہ رہ
سکا اور یہ مینارہ منہدم ہوگیا۔ 2؎
اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو
تمام اشیا کے نام سکھائے تھے جس کے نتیجے میں عربی آسمانی زبان قرار پائی۔3؎
چنانچہ سورہ بقرہ اور سورۂ رحمن کی ابتدائی دو آیتوں کے مطابق خدا نے انسان کی
تخلیق کی پھر اس کو گویا ئی عطا کی۔ یہاں ’گویائی‘ کا مفہوم وسیع محسوس ہوتا ہے جو
غالباً تمام زبانوں کو محیط ہے۔
ہندودھرم میں زبان کے آغاز سے متعلق تحقیق کی ایک طویل
تاریخ رقم ہے جس کی بنیادیں اساطیری نظامِ عقائد سے وابستہ ہیں۔ چنانچہ بیشتر اساطیری
پنڈت یہ قطعی تسلیم نہیں کرتے کہ زبان انسانوں کی ایجاد ہوسکتی ہے بلکہ ان کے
مطابق زبان انسانوں کی بجائے دیوتاؤں کی مقدس ایجاد تھی چنانچہ جانوروں اور روحوں
سے تعلقات استوار کرنے کے لیے روحانی و علامتی زبانیں دیوتاؤں کے زیر استعمال رہا
کرتی تھیں۔ 4؎ چونکہ چاروں ویدوں کی زبان سنسکرت ہے اس لیے
اسے دیوبانی کہاگیا ہے۔
بدھ مت کے ماننے والوں کے نزدیک پالی پراکرت قدیم ترین
زبان ہے۔ جینی اردھ ماگدھی پراکرت کو انسان و حیوان کی ازلی زبان مانتے ہیں۔ ان کا
یہ دعویٰ ہے کہ تیر تھنکروں (Teer Thinker) کے پند و نصائح کو
نہ صرف انسان بلکہ حیوان بھی سمجھتے تھے۔ آخری تیر تھنکر مہابیر سوامی چونکہ بہار
کے رہنے والے تھے اس لیے وہ اپنی زبان اردھ ماگدھی میں وعظ کرتے تھے۔ لیکن ان سے
قبل جو تیر تھنکر ملک کے دوسرے مقامات سے آئے ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ وہ بھی اردھ
ماگدھی بھاشا میں وعظ کرتے رہے ہوں۔
الوہی نظریہ پر تنقید: الوہی نظریے پر کافی کچھ تنقید بھی ہوتی رہی
ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے اختباری یا تجربی طریقہ (Emprical
Method) کی
مدد سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے یہ کہ اس میں ہر مذہب کا نظریہ جداجدا ہے۔ لیکن
جوہن گوٹ فریڈ ہرڈر (Johann Gottfried Herder) 5؎ نے
اس نظریے سے متعلق محض دو اعتراضات کیے ہیں جو اکثر دانشوروں کی نظر میں وسعت
رکھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر زبان خدا کی تخلیق ہوتی تو وہ بہت باقاعدہ ہوتی لیکن
اکثر زبانوں میں بے اصولی اور بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زیادہ تر
زبانوں میں بنیادی الفاظ فعل کے مادّے ہیں جن سے متعدد اسماکا استشقاق ہوتا ہے
جبکہ پہلے چیزوں کے نام آتے ہیں اور فعل بعد میں۔ گیان چند جین کہتے ہیں کہ اگر
ان اعتراضات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ پھسپھسے اور بودے سے لگتے ہیں۔
(2) فطری
نظریہ(Natural Theory) :
اس نظریے کو فیثاغورث (چھٹی صدی قبل مسیح)، (576تا 480ق
م) اور افلاطون429) تا 347 ق م) نے پیش کیا تھا 6؎ کہ انسانی مخارج سے آوا ز خارج
ہوکر الفاظ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اور الفاظ زبان زد ہوکر بات و بیان بن جاتے ہیں۔
یہ بات و بیان صرف انسانی جبلت میں شامل ہوتے ہیں۔ دوسرے جانداروں میں یہ جبلت نہیں
پائی جاتی۔ طوطا بھی بات کرتا ہے پر اس میں ذہن شامل نہیں ہوتا۔ ملت و جبلت کے
علاوہ بعض شخصیات نے بھی اپنی اپنی زبانوں کو ازلی قرار دیا مثلاً ولندیزیوں نے ڈچ
زبان اور جرمنوں نے گوتھی (قدیم جرمن) زبان کو اولین زبان مانا ہے۔ 7؎
نوزائیدہ بچوں پر تجربے: زمانۂ قدیم میں کچھ بادشاہوں نے بھی فطری
زبان معلوم کرنے کے لیے نوزائیدہ بچوں پر تجربات کیے۔ چنانچہ قدیم مصری بادشاہ
فرعون (مصر کے بادشاہ کا لقب) نے دو نوزائیدہ بچوں کی بے آواز ماحول میں پرورش کا
حکم دیا۔ جب وہ بولنے کی عمر کو پہنچے تو انھیں دربار میں لایاگیا۔ ان میں سے ایک
بچے نے جو پہلا لفظ بولا وہ بیکوس (Bekos) تھا جو فریجین (Phrygian) زبان کا لفظ تھا
جس کے معنی ’روٹی‘ ہوتے ہیں۔ اس طرح اس زبان کو ربّانی یا مقدس زبان مان لیا گیا۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جو شخص ان بچوں کی پرورش کرتا تھا، اس کی زبان سے کبھی یہ
لفظ ادا ہوگیا ہوگا جو بچے نے سن لیا تھا۔ لندن کے کنگ جیمز نے بھی ایک ایسا ہی
تجربہ کیا تھا جس میں زیر تجربہ لڑکے نے ایک عبرانی لفظ ادا کیا تھا۔ چنانچہ اس کے
قریب عبرانی زبان مقدس قرار پائی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے شہنشاہ اکبر اعظم نے
بھی دو بچوں پر یہ تجربہ کروایا تھا۔ دونوں بعد میں گونگے ثابت ہوئے۔ 8؎ کچھ سنا ہی
نہیں تو کہیں گے کیا؟
درون جسد آواز پر مبنی ماخذ: جہاں تک آواز کی بنیاد پر زبان سیکھنے کا
تعلق ہے تو یہ آوازیں درون جسد انسانی سے بھی بہ آواز بلند خارج ہوسکتی ہیں جیسے
چھینک، ڈکاریں، جماہی، قے، ریح وغیرہ۔ اور بیرونی ذرائع یا جانداروں سے بھی خارج
ہوکر سماعت سے ٹکراسکتی ہیں۔
گروہوں کا باہمی معاہدہ: ڈیموکریٹس(Demokritos) نے پانچویں صدی ق
م اور ارسطو نے چوتھی صدی ق م میں زبان کو افراد یا گروہوں کے باہمی قول و قرار کا
نتیجہ قرار دیا۔ لیکن جب زبان نہ تھی تو انسانوں نے مختلف چیزوں کی شناخت کیسے کی
ہوگی اوران کے درمیان فرق کیسے کرسکے ہوں گے۔
اس طرح انسانی نسلوں میں زبان کی ابتدااوراس کے ارتقائی
ظہور سے متعلق قیاس آرائیاں صدیوں تک معمہ بنی رہیں۔ جو دانشور اس تحقیق میں
دلچسپی رکھتے تھے انھیں ثانوی درجے کی غیر مصدقہ شہادتوں جیسے بوسیدہ مندرجات،
آثاریاتی یا باقیاتی شہادتوں، ہم عصر زبانوں کا باہمی اختلاف، اکتسابِ زبان کے
مطالعات اور انسانی زبانوں اور جانوروں کے درمیان موجودہ مربوط زبان سے نتائج اخذ
کرنے پڑے۔ کچھ دانشوروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ زبان کے آغاز کا تعلق شاید موجودہ
انسانی کردار کے آغاز سے قریبی ربط رکھتا ہے۔
زبان کی ابتداکا موضوع جتنا اہم نظر آتا ہے، ماہرین اس
کی تحقیق کے بارے میں اتنے ہی بیزار سے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اس کے متعلق درکار
تجربی شواہد کمیاب اور موہوم ہیں۔ اسی لیے محققین اس موضوع کو تحقیق و مطالعے کے لیے
بیکار تصور کرتے ہیں۔ کیوں کہ فکر و تحقیق کا تعلق ہی لازوال و ادق جستجو، کاوش و
عرق ریزی سے استوار ہے۔
زبان کے آغاز کے بارے میں دور حاضر میں ایسے کئی فرضیے
قائم کیے گئے ہیں کہ یہ کب؟ کیوں؟ کیونکر اور کہاں نمودار ہوئی ہوگی۔ لیکن اس بارے
میں ماہرین کے مابین کوئی اتفاق رائے قائم نہ ہوسکا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 1990 کے
اوائل میں کئی میدانوں کے ماہرین جیسے لسانیات، آثارِ قدیمہ، نفسیات، بشریات کے
علاوہ دیگر کئی دانشوروں نے زبان کی ابتداسے متعلق کئی جدید طریقوں پر بحث میں پیش
رفت کی۔ تاہم ان میں سے اکثر مفکرین کا یہ احساس تھا کہ سائنس کے لیے یہ ازحد
دشوار گزار مسئلہ ہے۔ تاہم اس میدان میں محققین کی کاوش بہرحال جاری رہی۔
طبعی صوتی ماخذوں پر مبنی نظریے(Natural
Sound Source - Theories) : اپنے سمعی نظام کے
ذریعے انسان اپنے اطراف ماحول کی آوازوں کو پہچان سکتا ہے۔ اپنی اس صلاحیت کی
بناپر وہ ماحول کی قدرتی آوازوں کی نقل اتارکر انھیں اپنے سیدھے سادے خام الفاظ میں
ادا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل گذشتہ زمانے کے لوگوں نے کیا ہوگا۔ اس لیے آدمی
کو چاہیے کہ وہ اپنے اطراف پائی جانے والی مخلوق کی آواز کوسنے اور اسے کسی خاص چیز
سے منسوب کرکے استعمال کرے۔ مثلاً کائیں کائیں کو کوے سے، کوٗکوٗ کو کوئل سے، اور
ٹیں ٹیں کو طوطے سے منسوب کریں۔ اس خیال کو طبعی صوتی ماخذوں پر مبنی نظریہ کہتے ہیں۔9؎ جس میں آوازوں پر منحصر ان تمام نظریوں کا
احاطہ کیا جاتا ہے جنھیں مختلف ماہرین نے پیش کیا ہے۔ چارلس ڈارون 1809) تا
1882) نے زبان سے متعلق یہ قیاس آرائی کی ہے کہ ’’مجھے اس میں ذرا بھی شک
نہیں ہے کہ زبان اپنی ابتدانقل و تقلید اور ترمیم و اصلاح مع ندائی اشارات مختلف
قدرتی آوازوں، دیگر وحشی آوازوں اور خود انسان کی اپنی جبلّی پکار سے ہوتی
ہے۔‘‘ 10؎
میکس ملّر (6دسمبر 1823 تا
23اکتوبر1900) (Max
Müller) : یہ ایک جرمن
فلاسفر گزرا ہے جو لسانیاتی تاریخ اور علم الانسان کا ماہر ہونے کے علاوہ کئی
زبانوں جیسے یونانی، لاطینی، عربی، فارسی وغیرہ پر اہل زبان کی طرح عبور رکھتا
تھا۔ اس نے گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی 1848)
تا1856 ) کے دور میں ہندوستان کا
دورہ کیا تھا۔ اس دوران اس نے سنسکرت کا غائر نظر سے مطالعہ کیا اور اس زبان میں
اپنی تحقیق کے دوران اس نے سنسکرت کو تمام تر زبانوں کی اساس تصور کیا۔ چنانچہ اس
نے ویدوں اور اپنشدوں کے انگریزی میں تراجم کیے۔ وہ قدیم ہندوستانی تہذیب کا مداح
تھا۔ اس نے بولیوں کی ابتدا سے متعلق قیاسی نظریوں کی ایک فہرست بھی طبع کی تھی جو
درج ذیل ہے۔ (یہ فہرست جامع اردو انسائیکلوپیڈیا
(1) ادبیات قومی اردو کونسل نئی دہلی،
2003 ص 291-290 کی ترتیب کے مطابق ذیل میں
دی گئی ہے)
(1)
زبان- ہرڈر کابو-وَو نظریہ(Bow-Wow) : اس
قیاس کو میکس ملر جرمن فلسفی جوہن گوٹ فریڈہرڈر (Johann
Gottfried Herder) سے
منسوب کرتا ہے۔ ہرڈر کے مطابق انسانی ابتدائی الفاظ چرند و چوپایوں کے آواز کی
نقل ہیں جیسے میں میں (بکری کی آواز) ہنہنانا (گھوڑا) رینگنا (گدھا) کائیں کائیں
(کوّا) کوک( کوئل)وغیرہ۔ اس نظریے کو میکس ملر نے طنزاً Bow
Wow یعنی
کتے کے بھونکنے کی آواز کانام دیا ہے۔ اس نظریے میں ایک نزاکت یہ بھی ہے کہ مختلف
جانوروں جیسے کتے اور بلیوں کی آوازوں کو مختلف زبانوں میں مختلف نام دیے جائیں
گے یعنی جہاں ہم کتے کی آوازوں کو بھوں بھوں کا نام دیتے ہیں تو دوسری زبانوں میں
انھیں کوئی اور نام دیے جاتے ہیں۔ مثلاً کتے کی آواز کو برازیل کی زبان میں
’آؤں آؤں‘ کا نام دیا جاتاہے تو البانیہ کی زبان میں ’ہم ہم‘ کہا جاتا ہے، جب
کہ چینی زبان میں ’وانگ وانگ‘ کانام دیا ہے جو کتوں کی بولی ہے۔ مگر اس نظریے پر
اعتراض یہ ہے کہ اس قسم کی آوازیں مصنوعی و جامد ہوتی ہیں۔
(2) زبان-نقل
صوت یا جھنکار کی نقل کا نظریہ (Onomatopoeia) : اس نظریے کے مطابق
انسان نے ابتدائً دھرتی پر جانوروں کی آوازوں کے علاوہ قدرتی مظاہروں جیسے بادل
کا گرجنا، آبشار کا گرنا، ندیوں کے بہنے کی آوازیں، پہاڑ سے کسی چٹان کے لڑھکنے
کی آوازوں کے علاوہ انسانی مصنوعات کی آوازیں جیسے کسی لکڑی کا توڑنا، آگ میں ایندھن
کا چٹخنا، منہ سے ہوا پھونکنا، ان کے علاوہ مزید دیگر آوازیں جیسے چھینکنا،
کھانسنا، پتوں کا کھڑکنا، وغیرہ جن سے آواز ترتیب پاکر الفاظ بنتے گئے ہیں۔ ان پر
اعتراض یہ ہے کہ ایسے الفاظ زبانوں میں کم تعداد میں ملتے ہیں جبکہ دوسرے الفاظ
تعداد میں ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سے زبان کے تمام الفاظ کے مادے نہیں
بن سکتے۔
(3) زبان-ڈنگ-ڈانگ
نظریہ (Ding-Dong
Theory): اس
نظریے کو پروفیسر ہیس (Prof. Heyse) نے پیش کیا تھا۔
اس نظریے کے مطابق معنی اور صوت میں کوئی پر اسرار ہم آہنگی ہوتی ہے۔ قانونِ فطرت
یہ ہے کہ جب دو سطحیں آپس میں ٹکراتی ہیں یا کسی ایک چیز سے دوسری چیز پر ضرب
لگائی جاتی ہیں تو ایک مخصوص جھنکار پیدا ہوتی ہے۔ پھر آدمی ایسی کوئی آواز سنتا
ہے تو اس کے منہ سے بھی ویسی ہی آواز صدائے بازگشت کی مانند جھنجھنا اٹھتی ہے۔ یعنی
اگر دھات پر چوٹ پڑجائے تو اس کی نقل میں آدمی کے منہ سے ویسی ہی آواز نکلتی ہے
اور اگر ایک لکڑی سے دوسری لکڑی کو ضرب لگائی جائے تو دھپ جیسی آواز برآمد ہوگی۔
یا اگر کوئی ہوائی جہاز دھماکے سے گرپڑتا ہے تو ظاہر ہے کہ چشم دید گواہ اپنے منہ
سے ویسی ہی آواز نکال کر بیان کرے گا۔ یہ تو ہوا ایسی چیزوں کا بیان جو باہم
ٹکراکر آواز پیدا کرتی ہیں۔ تو دیکھنے والا اسی آواز و عمل کی نقل کرے گا اور
ظاہر ہے کہ اس آواز کو کچھ ایسا نام دیا جائے گا جسے زبان میں شامل کیا جاسکے۔ لیکن
بعض جذبات ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن میں کوئی آواز پیدا نہیں ہوتی یا ہوتی بھی ہو
تو سرگوشی سے اوپر نہیں اٹھ پاتی مثلاً پیار محبت، بوس و کنار وغیرہ۔ میکس مولر نے
اس نظریے سے اتفاق نہیں کیا اور اسے ترک کردیا۔
(4) زبان-باہمی
تفاعل کا یو-ہی-یو نظریہ (Yo-He-Yo Interactive
Theory) : اس
نظریے کو نوائر (Noire)
نے پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق انسانوں میں
زبان کی ابتدااس وقت ہوئی ہوگی جب کہ لوگ اکٹھے ہوکر مزدوروں کی صورت میں مل کر
کام کرتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر مختلف آوازیں نکالتے
ہیں جبکہ ہندوستانی ملاح ہیا ہو ہیا کا نعرہ لگاتے ہیں اسی طرح بھاری بوجھ کو گھسیٹتے
وقت مختلف مقامات کے مزدور مختلف قسم کے نعرے وضع کرتے اور گاتے ہیں۔ اس نظریے کے
مطابق زبان کی ابتدائی آوازیں باہمی تفاعل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ مگر یہ نظریہ اس لیے
قبول نہ کیا جاسکا کہ اس قسم کے نعرے یا اجتماعی آوازیں کسی زبان میں نہایت قلیل
تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس لیے وسیع تر زبانوں پر ان کا اطلاق ممکن نہیں۔
(5) زبان-فجائی
یا پوہ-پوہ نظریہ (Pooh Pooh Theory) : اس
نظریے کو چارلس ڈارون نے پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق زبان کا آغاز ان آوازوں سے
ہوا تھا جوکہ کسی جذبے کے تحت جیسے تکلیف، خوف، غصہ، نا امیدی، مسرت، خوشی جوش کے
موقعو ں پر کسی انسان کے منہ سے اضطراری طور پر جسم کے اندر سے نکلتی ہیں اور ایسے
حالات میں ہوا ہمارے نتھنوں اور منہ سے بڑے جذباتی انداز میں خارج ہوتی ہے۔ اس طرح
زبان ہماری ان آوازوں سے بنتی ہیں جو جذبات سے مربوط ہوتے ہیں۔ ایسی جذباتی کیفیات
کو اضطراری حلقی ردِّ عمل (Automatic Vocal
Response) بھی
کہا جاتا ہے۔ ان آوازوں کو نام تو دیا جاسکتا ہے لیکن انھیں بعینہہ لکھا نہیں
جاسکتا۔ ان کے علاوہ کچھ جذباتی آوازیں بھی حلق سے خارج ہوسکتی ہیں جیسے اف،
ہائے، واہ واہ، وغیرہ۔ ایسی جذباتی آوازوں کی تعداد بہت کم یعنی محض دس بیس ہوں گی
اور پھر یہ جذبات بھی ان سے زیادہ کیا ہوں گے۔ یہ الفاظ فجائی آوازوں کی لسانی
تشکیل ہیں۔ آوازوں کایہ ردِّ عمل ایک ہی قسم کی غیر ابجدی آوازوں سے ہوتا ہے۔ ان
کے تحت آوازوں کو نام تو دیا جاسکتا ہے لیکن ان ناموں سے زبان کی اپج ممکن نہیں
تو دشوار ضرور ہے۔ چنانچہ میکس ملر نے اسے مسترد کرتے ہوئے مزاحاً ’پوہ-پوہ‘ (Pooh
Pooh) کانام
دیا۔
(6) زبان-اشاری
نظریہ(Ta-Ta / Gesture Theory) : اس
نظریے کو ڈارون اور ڈاکٹر رائے نے پیش کیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق وہ اشارات کو
زبان کے ماخذ مانتے ہیں۔ ان کے اس خیال کی بنیاد ’ٹا-ٹا‘ نظریہ ہے۔ اس میں ہاتھ کے
اشاروں کو زبان کے الفاظ کے ذریعے نقل کرتے ہیں جیسا کہ ہم کسی کو جاتے ہوئے
’بائے-بائے‘ کرتے ہیں اور ساتھ میں ہاتھ بھی ہلاتے جاتے ہیں۔ اس میں یہ قیاس بھی
شامل ہے کہ انسان جب محنت کرتاہے تو لاشعوری طور پر آلاتِ نطق جسم کی مشقت سے
متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ آوازیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انہی آوازوں سے زبان
جنم لیتی ہے۔ سر رچرڈ پیجز (Sir Richard Pages) نے 1930 میں حرکاتِ د ہنی کا نظریہ پیش کیا تھا جس میں
یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کھاتے وقت زبان و لب کی جنبش سے کچھ آوازیں پیدا ہوتی ہیں
تو آدمی کا منہ جیبھ اور ہونٹ کی حرکات کے علاوہ حلق سے ہوا کے دباؤ کی وجہ سے
کچھ آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ آدمی کو یہ شعور ہوتا گیا کہ حلق سے ہوا کے
دباؤ اور آلات نطق کی مدد سے الفاظ بنتے ہیں اور یوں زبان بنتی جاتی ہے۔
اس پر یہ تنقید کی گئی ہے کہ یہ محض ایک فلسفیانہ خیال
ہے۔ ورنہ اس میں قائل کرنے والی کوئی بات نہیں کیوں کہ اس کی مدد سے ابجدی آوازیں
اور الفاظ کا بننا محال ہے۔
(7) زبان
-اوٹوجسپرسن کا نظریہ نشاط(Sing Song Theory) : اس نظریے کو اوٹو
جسپرسن (Otto Jesperson) نے پیش کیا تھا جو
ڈنمارک کا مشہور ماہر لسانیات تھا۔ اس کے مطابق زبان کی ایجاد لہو و لعب کے جذبۂ
نشاط کا ابال ہے۔ اور یہ کہ انسانی گفتگو اور موسیقی زبان سے ایک ساتھ ادا ہوتے ہیں۔
یعنی کسی قدر شائستہ سماج میں یہ جذبۂ نشاط کا ابال ہوتے ہیں۔ ان کے برخلاف جاہل
انسان کی احتیاجات محدود ہوا کرتی تھیں۔ جنگ وجدل میں بھی دشمن سے جیتنے کے بعد بے
معنی نعرے زبان سے ادا کرتے ہوں گے جو بعد میں زبان میں شامل ہوگئے۔ لیکن اس نظریے
کی باضابطہ تصدیق نہ ہوسکی۔ اس لیے یہ خیال نظریہ سے آگے نہ بڑ ھ سکا۔
(8) زبان-ارتباطی
نظریہ (Contact
Theory): اس
نظریے کو جی -ریویز (G. Revesz) نے پیش کیا تھا،
جو یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم میں نفسیات کا پروفیسر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب انسان
کوکوئی احتیا ج لاحق ہوتی ہے تو ضرورت کی چیز سے وہ اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے جیسے
بھوک کی ضرورت میں غذا، پیاس کی شدت میں پانی وغیرہ کے ربط میں آتا ہے تو اولاً
وہ غذا و پانی کو اشاروں، کنایوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر آواز و الفاظ
کے روپ میں ظاہر کرتا ہے جو بعد میں زبان بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی
اجنبی کے ربط میں آتا ہے تو اس میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ یہ اجنبی کون سی زبان
بولے گا اور اس کا کیا مطلب ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی ہم زبان کے ربط میں آئے
گا تو اس میں یگانگت کا احساس پیدا ہوگا اور وہ اس کے الفا ظ کی ادائیگی اور نئے
الفاظ کے استعمال میں دلچسپی لے گا۔ اسی طرح آواز سے حرف، حرف سے حروف، حروف سے
لفظ، لفظ سے الفاظ، الفاظ سے جملے اور جملوں سے زبان بنتی چلی گئی۔ ریویز نے اپنے
اس نظریے کے سلسلے میں حیوانات، افریقہ کے غیر متمدن قبائل اور بچوں کی نفسیات پر
بہت کچھ مطالعہ کیا پر وہ علما کو پھر بھی مطمئن نہ کرسکا۔
(9) زبان-ہنری
سویٹ کا نظریہ (Theory of Henry Sweet) : اس
نظریے کو ہنری سویٹ نے پیش کیا تھا۔اس کے مطابق الفاظ کے ابتدائی ذخائر تین طرح کے
ہوتے ہیں۔
(i) ذی روح اور حیوانات
کی آوازوں کی نقل پر مشتمل الفاظ مثلاً بھونکنا، رینگنا، ہنہنانا، چہچہاہٹ، کوک،
پھنکار، دہاڑ وغیرہ۔
(ii) غم و خوشی کے
کلمات جیسے آہ، واہ۔
(iii) رمزی یا علامتی
الفاظ یعنی ایسے الفاظ جن کی صوت اور مفہو م میںموہوم سا تعلق ہو، مثلاً بچہ ہونٹ
جوڑ کر ماما، بابا، پاپا
وغیرہ جیسے الفاظ ادا کرتا ہے اور والدین ان الفاظ کو
اپنے آپ سے منسوب کرلیتے ہیں۔
ابتدامیں ایسے رمزیاتی یا علامتی الفاظ کافی تعداد میں
تراش لیے گئے ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر لطیف اور غیر مرئی تصورات
کے لیے الفاظ کیسے وضع کیے گئے ہوں گے۔ سویٹ اس کی تاویل یوں پیش کرتا ہے کہ
مندرجہ بالا الفاظ کے مجازی معنی لے کر لطیف تصورات کو حروف کی شکل دی گئی ہوگی جیسے
کہ افریقہ کی ساسو تو زبان میں مکھی کو ’ن ت سی‘(نتسی) کہتے ہیں۔ اب چوں کہ خوشامد
پسند لوگ بھی مکھی ہی کی طرح بھنبھناکر چکر لگایا کرتے ہیں اس لیے وہ بھی ’نتسی‘
بمعنی چاپلوس کے ہوئے۔ اردو میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی بار بار چپل کی
چاپ سن سن کر’لفظ چاپلوس‘ گھڑلیا گیا ہوگا۔
ہنری سویٹ کے مفروضوں کو باور بھی کرلیا جائے تو ان پر
ماہرین کا مل اعتماد پر آمادہ نہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان میں سے کوئی بھی
مفروضہ تشفی بخش نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں زبان کو انفرادی تخلیق سمجھا گیا
ہے۔ مزید یہ کہ ان میں زبان کے سماجی پہلو اور ترسیل و ابلاغ کو قطعی نظر انداز
کردیاگیا ہے۔ ان تمام قیاس آرائیوں میں محض تخیل سے کام لیاگیا اور کہ ان پر
سائنٹفک تحقیق ممکن نہیں۔
(10) زبان-ڈائمنڈ
کا نظریہ (A.S. Dimond's Theory) : کوئی انسان جب
بھاری بھرکم بوجھ اٹھاتا ہے یا کسی پیڑ کی مضبوط ٹہنی پر زور لگاکر کھینچتا ہے جیسے
کہ آج کل کسی موٹے رسے کو کھینچتے ہیں تو ایسی حالت میں انسان کے منہ سے عجیب عجیب
آوازیں اضطراری عمل (Reflex action) کے بطور ادا ہوتی
ہے۔ اسی کیفیت کو ذہن میں رکھ کر ڈائمنڈ نے 1959
میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ نطق انسانی ان آوازوں کے ساتھ پیدا ہوا جو
بازوؤں کی محنت کے وقت ازخودادا ہوتی ہیں۔ چنانچہ زبان کے ابتدائی الفاظ کھینچ
تان کے مفہوم کو ظاہر کرتے تھے۔ ڈائمنڈ کا یہ نظریہ کسی حدتک یوہو اور ٹاٹا نظریوں
سے متشابہ لگتا ہے لیکن یہ ان نظریوں سے دوطرح سے مختلف ہے۔ یوہو میں زبان کی
ابتدااجتماعی محنت سے ہوتی ہے جب کہ یہ پوری طرح انفرادی نظریہ ہے۔ دوسرے یہ کہ یوہو
میں منہ سے آوازیں نکالنے کا مقصد تھکان دور کرنا تھا جبکہ ڈائمنڈ کے مطابق یہ
عمل خود بغیر کسی مقصد کے ادا ہوتا ہے۔ کوئی نظریہ پیش کرنا حقائق سے اس وقت تک
مختلف ہوتا ہے جب تک کہ اسے دلائل سے ثابت نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس نظریے میں اب تک
ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی جس کو تسلیم کیا جائے۔
اوپر جو نظریے دیے گے ہیں وہ دراصل قیاس آرائیاں ہیں
جن میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ زبان کی ابتداسے قبل انسان نہ تو بول سکتا تھا یا
پھر چپ رہا کرتا تھا اور زبان کی ابتداانسان کی انفرادی کاوش کا نتیجہ تھی۔ ان نظریوں
میں زبان کے سماجی اور ابلاغی پہلوؤں کو نظر انداز کیاگیا۔ اس لیے کوئی قابل قبول
نظریہ پیش نہ کیا جاسکا۔ زبان کے بارے میں تحقیقات کی بنیاد تحریر پر ہے۔لیکن یہ
محض چند ہزار سال تک ہی دستیاب ہیں۔ ان سے قبل زبان کیسی تھی کوئی نہیں جانتا۔ اس
لیے زبان کی ابتداکا سوال ابھی تک ایک معمہ ہے۔11؎ ان کے علاوہ ایک نسبتاً جدید نظریہ بھی پیش
ہوا ہے جسے جبلت گویائی کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل ذیل میں ہے۔
(11) جبلت
گویائی کا نظریہ (Language Instinct Theory) : 12
؎ اسٹیون آرتھر پنکر (پ18 ستمبر
1954) (Steven
Arthur Punker) ایک
کینیڈین -امریکی ماہر وقوفی نفسیات (Cognitive
Psychologis) ہے
جو اس نظریے کی پیش کش اور حمایت میں پیش پیش رہا ہے۔ وقوفی نفسیات کاعلم 70کی
دہائی میں مروج ہوا تھا جوکہ اعصابی حیاتیات (Neurobiology)
، کمپیوٹر سائنس، نفسیات، لسانیات اور فلسفے
کی مشترکہ آمیزش ہے۔ اس علم کی مدد سے زبان کی کئی خصوصیات عیاں ہوئیں اور حصول
زبان کی راہ میں حائل متعدد عمومی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوپایا۔ وقوفی انسانیات کی
عصری تحقیقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک پانچ یومیہ انسانی نوزائیدہ بچہ اعداد کا
ہلکاسا درک رکھتا ہے، جبکہ پانچ ماہ کے بچوں میں کھلونوں کے تعلق سے انتخابی خیالداری
پائی جاتی ہے۔ یعنی زبان کا درک انسانی جبلت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے
مطابق انسان نے زبان 20 تا25 لاکھ سال قبل سیکھی ہوگی اور اسی عرصے کے
دوران عصبی لسانیات کے ماہرین کے مطابق انسانی دماغ میں خصوصی جبلی اپج کی وجہ سے
ایسے نسبے(Genes)
اور دماغی حصے منظّم ہوتے گئے جن کی بناپر
انسان نطق پر آمادہ ہوتا گیا۔
شکل نمبر 1
: انسانی دماغ میں جبلت ِگویائی 13؎: جس میں لفظوں کے صوتیاتی متن و معنی اور
ہجائی عوامل ظاہر کیے گئے ہیں
جبلت گویائی کے نظریے کے مطابق انسان اپنی اس جبلی صلاحیت
کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زبان پر عبور حاصل کرسکے۔ اس کے مطابق اکتساب زبان ایک
ایسی قدرتی اور آفاقی انسانی اہمیت ہے جو اس میں لاکھوں سال سے پائی جاتی ہے۔ اس
ضمن میں شکل نمبر1 سے واضح ہوجائے گا کہ انسانی دماغ میں ایسی ساختیں پائی جاتی ہیں
جو انسان کو متن و معنی کے عوامل، صوتیات یعنی جوصوتی الفاظ کو نوشتۂ حروف کی مدد
سے شناخت کرتے ہیں اور صوتیاتی اور علم ہجائی عوامل کی سرانجامی میں ممد و معاون
ثابت ہوتے ہیں۔
انسانی دماغ میں زبان سے متعلق دو اہم ساختیں پائی جاتی
ہیں۔ ان میں پہلی ساخت بروکا ایریا (Broca's Area) کہلاتا ہے جو زبان
کی اپج (Language Production) سے تعلق رکھتا ہے۔
اسے نامور نفسیاتی طبیب پال بروکا 1824)
تا(Paul Broca - 1880 نے دریافت کیا تھا۔ اور اسے اپنے ہی نام سے
موسوم کیا۔ یہ ساخت یعنی بروکا ایریا قشر(Cerebral
Cortex) کے
پیش لخطہ(Frontal Lobe) کی جانب قائم رہتا
ہے۔ بروکا ایریا کو حرکی کلامیہ(Motor Speech) بھی کہا جاتا ہے
جو حرکی قشر دماغ (Motor Cortex) کے قریب درون پیش
تلفیف (Inferior Frontal Gyrus) میں واقع ہوتا ہے
اور گفتگو کے دوران سانسوں کے زیروبم پر قابو رکھتا ہے تاکہ بات چیت نارمل انداز میں
جاری رہے۔ شکل 2ملاحظہ فرمائیں۔
شکل2: انسانی
دماغ: میں بروکا اور ورنکی ساختیں14؎ : جو بالترتیب زبان کی اپج اور اس کے ادراک و
افہام سے تعلق رکھتی ہیں
بروکا ایریا سے متعلق معلومات میں کارل ورنکی
1848) تا(Carl
Wernicke - 1905 کی
تحقیقات سے مزید پیش رفت ہوتی ہے۔ یہ ایک جرمن طبیب تھا جو بطور عصبی نفسی معالج (Neuropsychiatrist) جیسے پیشے سے
عملاً وابستہ تھا۔ وہ بطور ایک ماہر کلامیہ زبان (Speech
Language Pathologist) کے
بڑی شہرت رکھتا تھا۔ اس نے پایا کہ انسانی مغز ہی گویائی سے متعلق مظاہر کا کنپٹی
کے ’’طرفِ دماغ لختہ‘‘ (Temporal Lobe) کی اعلیٰ دماغی
تلفیف (Superior Gyrus) میں حصول کرتے ہیں۔
ورنکی ماڈل دماغ کے خصوصی حصص کے درمیان اتصال کو ظاہر کرتا ہے یعنی دماغ کے مختلف
حصے الفاظ کی ادائیگی سے قبل ان کی معنویت سے متعلق اطلاعات مجتمع کرنے کی خاطر
باہم ربط قائم کرتے ہیں، تبھی وہ زبان کے حرکی حصے کو تحریک دے پاتے ہیں۔
اس طرح بروکا ایریا زبان کی اپج (Language
Production) سے
متعلق ہوتا ہے۔ جبکہ ورنکی ایریا زبان و بیان کے افہام و ادراک سے تعلق رکھتا ہے۔
شکل 2میں ان امور کا بھرپور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
سنا ہے کہ طوطا مینا بھی تو بولتے ہیں تو کیوں کر بولتے
ہوں گے؟ مٹھو کاکیا ہے وہ اکثرپنجروں میں مٹھو بیٹے کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ تو وجہ
اس کی یہ ہے کہ وہ باتوں کو سن کر انھیں یاد کرلیتا ہے تب نقل کرتا ہے۔ لیکن تب بھی
اس کی آواز انسانوں کی بجائے طوطے جیسی ہی لگتی ہے۔ تاہم یہ اس لیے ممکن ہے کہ اس
کے دماغ میں ایک ایسی ساخت ہوتی ہے جسے ’صدائی نظام‘ (Song
System) کہتے
ہیں جس کی وجہ سے وہ آواز کی صرف نقل کرپاتا ہے۔ اس میں انسانی دماغ کی طرح افہام
و ادراک نہیں ہوتا۔ محض نقل ہوتی ہے۔ طوطا اپنے حنجرۂ زیریں(Syrinx) کی مدد سے ہوا کے
زیروبم پر قابو رکھتا ہے۔ یہ دراصل ایک ہوائی نلی ہوتی ہے جو طوطے کے کان کے پردے
سے حلق تک جاتی ہے۔ ان تفصیلات کے علاوہ امریکی صوتی آموزش کے ماہر (Vocal
Learning Expert) پروفیسر
اِرش جاروس (پ 6مئی 1965) کے مطابق پرندوں کے صدائی نظام میں دو پرتیں ہوتی ہیں۔ ایک
تو ’اندرونی مرکزہ‘ (Inner Core) جو ایسے ہی تمام
پرندوں میں پایا جاتا ہے جبکہ دوسری پرت ’بیرونی صدفہ‘ (Outer
Shell) کہلاتی
ہے جو خصوصی طور پر محض طوطے میں ہی پائی جاتی ہے اور جو آوازوں کی نقالی میں
معاونت کرتی ہے۔15 ؎
زبان سے متعلق قیاس آرائیوں اور نظریوں پر بحث کے
دوران یہ تو معلوم ہوا کہ کسی طور زبان وجود میں آئی، تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے سب
سے پہلے آوازوں، اشاروں، کنایوں کے بعد ایک ایک حرف ادا ہوگا اور حرف سے لفظ اور
لفظ لفظ سے الفاظ او رجملے بنائے گئے ہوں گے۔ پھر دور دراز علاقوں میں پہلے پہل
بولیاں اور پھر ان کی ترقی یافتہ بتدریج شکل زبان اور زبانیں وجود میں آتی گئی
ہوں گی اور ترقی یافتہ شکل اختیار کرگئی ہوں گی۔
بہرحال زبانیں جب وجود میں آئی ہوں گی تو ان کا وجود
آواز/آوازوں پر ہی رہا ہوگا کیونکہ آج بھی بنا آواز کے زبان کا کوئی وجود نہیں
ہوسکتا۔ زبان کی آوازوں کا سائنٹفک مطالعہ صوتیات (Phonetics) کے ذیل میں ہی کیا
جاسکتا ہے اور تحریر کی ابتدا جیسا کہ ہم جانتے ہیں بولی جانے والی زبان سے ہزاروں
سال بعد ہوئی تھی جسے زبان کا عکس کہا جاسکتا ہے علم صوتیات میں زبان کی محض وہ
انسانی آوازیں شامل ہوتی ہیں جو آوازیں اعضائے تکلم یعنی مخارج سے خارج ہوتی ہیں
یعنی دویازائد لوگ ایک دوسرے سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں یا سنتے ہیں تو گویا وہ
اپنی زبان میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ علم صوتیات میں زبان کی آواز اوران
کے مخارج کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ نیز اس علم میں اعضائے تکلم کی حرکت اور سمعیاتی
مطالعہ بھی شامل ہوتا ہے۔ صوتیاتی عمل کے دو حصے ہوتے ہیں۔ (i) قائل کے اعضائے
نطق جو صوت یعنی آواز پیدا کرتے ہیں، اور
(ii)
صوت لہروں کی شکل میں ہوا کے دوش پر سامع
کے گوش تک پہنچ جاتی ہے جہاں ان لہروں کی گرفت ہوتی ہے اور انھیں سمعی عصب کے ذریعے
دماغ کے سمعی حصے تک پہنچایا جاتا ہے۔ درج بالا دو حصوں سے صوتیات کے دو شناخسانے
پھوٹتے ہیں: (i)
تلفیظی صوتیات (Articulary
Phonetics) اور (ii) سمعیاتی صوتیات (Accoustic
Phonetics) صوتیات
سے بالعموم تلفیظی صوتیات مراد لی جاتی ہے۔ یعنی ان میں ان آوازوں کی تخلیق کا
مطالعہ کیا جاتا ہے جو انسانی ناطقے میں عمل پیرا ہوتی ہیں۔ صوتیات میں ہرصوت کا
صحیح ترین اور مفصل ترین احوال پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اعضائے نطق سے
واقفیت لازمی ہے۔یہ چار بڑے جوفوں میں منقسم ہوتے ہیں: (i) خلائے دہن(ii)خلائے
بینی یعنی حلق سے ناک تک جانے والا پورا راستہ،
(iii)
خلائے حلق اور (iv) خلائے حنجرہ۔ دہن
میں ہونٹوں اور دانتوں کے علاوہ اوپری چار حصے ہوتے ہیں: (i) اوپری مسوڑھے(ii) سخت تالو(iii) غشا یا نرم تالو
اور (iv) بیخِ
زبان یعنی زبان کی جڑ۔حلق کے نیچے دو نلیاں ہوتی ہیں۔ پیچھے کی جانب کھانے پینے کی
نلی ہوتی ہے اور آگے کی جانب سانس کی نلی اور درمیان میں ایک دیوار کھاتے پیتے
وقت سانس کی نلی بند ہوجاتی ہے لیکن کسی طور یہ تھوڑی سی بھی کھلی رہ جائے اور اس
میں ذرا سا بھی کھانا چلا جائے تو سانس کی نلی کے عضلات اسے بڑی قوت سے باہر ڈھکیل
دیتے ہیں۔ اسے اچھّو لگنا کہتے ہیں۔ 16؎
انسانی دماغ کے مطالعے کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ
بروکا ایریا اور ورنکی ایریا بالترتیب زبان کی اپج اور اس کے ادراک و افہام سے
تعلق رکھتے ہیں۔ ان ساختوں کو یا تو ذہنی تفکر یا پھر انسانی تجسس جیسے بصارت و
سماعت سے تہج ملتا ہے تو زبان کی اپج اور اس کے ادراک و افہام کے امور تکمیل پاتے
ہیں اور مافی الضمیر کے اظہار کے لیے انھیں تنفس اور حلق سے لے کر زبان تالو
دانتوں اور ہونٹوں تک حروف کے مخارج کی ضرورت ہوتی ہے اور نوشت و خواند میں ہاتھ کی
انگلیوں کی کہ قلم کو صحیح گردش دے سکیں، ان مراحل کے لیے متعلقہ ساختوں سے حرکی
لہریں (Motor nerves) حرام مغز یا نخاع
(Spinal Cord) سے
ہوتے ہوئے حلق زبان اور منہ کے دیگر اعضا کو حرکت دیتی ہیں۔ یہی اعضا حروف کے
مخارج کہلاتے ہیں انہی حروف سے الفاظ اور جملے ادا ہوتے ہیں اور اگر کچھ لکھنا ہو
تو یہ لہریں ہاتھ اور انگلیوں کے عضلات کو حرکت دیتے ہیں تاکہ قلم صحیح نہج پر
حرکت کرتے ہوئے حرکی لہروں کے مطابق سطح ترقیم پر صحیح رقم کرسکے۔
صوتیاتی نظام (Phonetary
System) ان
صوتی تانت (Vocal cords) پر مشتمل ہوتا ہے
جو نرخرہ (Larynx)
میں قائم ہوتے ہیں۔ یہ دھاگوں جیسے صوتی
تانت نہایت لچکدار ہوتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت گلے کی ہوائی نالی (Wind
pipe) کو
کھول یا بند کرسکتے ہیں۔ مثلاً نوالہ نگلتے وقت وہ سانس کی نالی کو بند کردیتے ہیں۔
مبادا غذا اس میں داخل نہ ہوجائے۔ یہ صوتی تان نرخرے میں متوازی انداز میں قائم
ہوتے ہیں۔
صوتیات(Phonation) کی اصطلاح علم
الاصوات کا ذیلی میدان ہے۔ اس لحاظ سے یہ قدرے مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ ماہرین کے
مطابق یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں صوتی تہیں نیم وقفہ ارتعاش (Quasi-Periodic
Vibration) کے
ذریعے کچھ آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ دیگر ذیلی میدانوں جیسے لسانی صوتیات میں اس عمل
کو ناطقہ(Voicing)
سے تعبیر کیا جاتا ہے۔17؎
تلفظی صوتیات اور اعضائے تکلم 18؎ : تلفظی
صوتیات میں حروف کے مخارج یعنی حلق، زبان کے مختلف حصے تالو، انفی جوف، دانت اور
ان کی جڑیں اور دونوں ہونٹ جیسے اعضا اوران کے حرکات پر غور کیا جاتا ہے جن کے ذریعے
سانس کی مدد سے مختلف الفاظ کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ ان اعضا سے زبان کے
مختلف اصوات پیدا ہوتی ہیں اس لیے ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (i) تلفظ کار یعنی ایسے
اعضا جو حرکت کرسکتے ہیں جیسے زبان، ہونٹ وغیرہ اور (ii) آواز کے مخارج جو
جامد رہتے ہیں اور تلفظ کار ان کی جانب آتے ہیں جیسے حلق، تالو، دانت وغیرہ۔ یہ
اعضاء زبان کی ادائیگی کے علاوہ انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں بھی مددگار ثابت
ہوتے ہیں۔
زبان کے الفاظ کو بنانے اور گفتگو کے دوران ترتیب دینے
میں خارج ہونے والی سانس کی ہوا بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں اعضائے تکلم
مداخلت کرکے ہی الفاظ کی آوازیں پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ سانس کے ذریعے خارج ہونے
والی ہوا پھیپھڑوں سے ہی خارج ہوتی ہے اس لیے کیوں نہ ہم پھیپھڑوں کو بھی اعضائے
تکلم میں شامل کرلیں۔
شکل 3: حلقی و
دہنی اعضائے تکلم: اردو حروف کے مخارج
حنجرہ کو کنٹھ یا حلق یا گلا بھی کہتے ہیں۔ یہ سانس کی
نالی کے آخر میں باکس کی شکل میں لگا ہوتا ہے۔ سانس کی آمدورفت کی ہوا یہیں سے
ہوکر گزرتی ہے۔ حنجرہ میں دو تانت لگے ہوتے ہیں جنھیں صوت تانت (Vocal
Cords) کہتے
ہیں۔ اعضائے تکلم جیسے سانس کی نالی، صوت تانت، حنجرہ، حلقوم و حلق پوش، زبان
دانت، مسوڑھے، ہونٹ، تالو، انفی جوف اور باقی سارے ہی اعضاء تکلم کو شکل نمبر 3میں
ظاہر کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
مخرج کی تعریف:
اعضائے تکلم سے ہی حروف کا اخراج ہوتا ہے۔ اس طرح مخرج کی تعریف یوں ہوئی
کہ ’’کسی حرف کے نکلنے کی جگہ کو مخرج کہتے ہیں۔‘‘ مخرج نکالنے کا ایک آسان طریقہ
یہ ہے کہ جس حرف کا مخرج نکالنا ہو اس پر جزم (--ْ-) لگائیں اور اس سے پہلے حرف پر
زبر (--َ-) لگائیں، تب دونوں کو ملانے سے مخرج ادا ہوگا جیسے آواز مفرد (اَ اْ) یہ الف کا مخرج ہوا۔ چونکہ اس کی آواز ہوا
کے ہمراہ بنا کسی رکاوٹ کے حلق سے خارج ہوتی ہے اس لیے اسے مصوتہ (Vowel)کہتے
ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اردو زبان میں چار مصوتے (Vowels) ہوتے ہیں، یعنی ا
- و - ی - ے۔
دیگر حرف کے مخارج بھی الف ہی کی طرح معلوم کیے جائیں
گے۔ مگر ان کی آوازوں میں فرق ہوگا جیسے
ب اور پ
(اَبْ (دوہری آواز))، اَپْ (گداز آواز):
دونوں کا مخرج ایک ہی ہے یعنی دونوں ہونٹو ں کے گیلے حصوں کے ملنے سے ب اور
پ ادا ہوتے ہیں۔ ان میں ہونٹوں کو ملاکر کھول دینا پڑتا ہے تاکہ منہ سے ب، پ کی آوازوں کے ساتھ ہوا خارج ہوجائے۔
(--َ-) اور (--ْ-)
کے اسی اصول کا استعمال کرتے ہوئے دیگر حروف تہجی کے مخارج بھی معلوم کیے
جاسکتے ہیں۔
حروف حلقی کے مخارج:
حلقوم سے ادا ہونے والے حروف تعداد میں چھ ہیں۔ ان میں حلقوم اور زبان کا
آخری حصہ روبہ عمل ہوتے ہیں۔ ء اور
ہ کنٹھ کے آخری حصے سے ادا ہوتے ہیں۔
ع اور ح کنٹھ کے درمیانی حصے سے ادا ہوتے ہیں۔ جبکہ غ اور خ حنجرہ یا کنٹھ کے اوپری
حصے سے ادا ہوتے ہیں۔
حرف کی تعریف:
آواز کی پہچان کے لیے جو تحریری علامت مقرر ہوتی ہے انھیں حرف کہا جاتا
ہے۔ حرف زبان کی اکائی ہوتا ہے جو مزید منقسم نہیں ہوپاتا۔حرف کی جمع حروف ہوتا
ہے۔ یہ حروف ا سے لے کر
ي تک ہوتے ہیں۔ اردو میں انھیں
ابجد بھی کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ابتدائی حروف یعنی ا-ب-ج-د سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔
19؎
حروف کو حروف ہجّا بھی کہاجاتا ہے۔ ہجے میں حروف کی
آوازوں اور ان کے حرکات و سکنات سے بھی بحث کی جاتی ہے۔ کیونکہ اردو کے حروف تہجی
میں مذکورہ تینوں زبانوں یعنی عربی، فارسی اور سنسکرت کے حروف موجود ہیں۔
حروف کی تعداد:
حروف کی کل تعداد 36 ہے۔ اگر اس میں
ہمزہ (ء) کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد بڑھ کر 37ہوجاتی ہے۔ اس طرح الف (ا) سے
لے کری (چھوٹی ی) اور بڑی یے تک کل میزان
37ہوئے۔ ذیل میں حروف کی مشابہ شکلوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کی تعداد بتائی
گئی ہے۔
(1) ا = 01 یکتا
(2) ب
پ ت ٹ ث = 05 ایک جیسی شکل
(3) ج
چ ح خ = 04 ایک جیسی شکل
(4) د
ذ ڈ ر ز ڑ ژ = 07 ایک جیسی شکل
(5) س
ش ص ض ط ظ ف ق = 08 تقریباً
ایک جیسی شکل
(6) ع
غ ک گ ل م ن و = 08 تقریباً ایک جیسی
شکل
(7) ہ
ء ی ے = 04 تقریباً ایک جیسی شکل
37
(8) دو
چشمی ھ کاری حروف 20؎
(i) بھ پھ تھ ٹھ جھ
(ii) چھ دھ ڈھ رھ ڑھ
(iii) کھ گھ لھ مھ نھ = 15 حروف مرکب
اردو
حروف تہجی کی کل تعداد 52
مصمے(Consonants)
حروف تہجی کی بشمول ہمزہ (ء) جو تعداد گنائی گئی ہے ان
میں مصوتوں (Vowels)
کی تعداد 4بتائی گئی ہے جو حلق سے بغیر کسی
مخرج کو ٹکرائے محض ہوا کے خارج ہونے سے ادا ہوتے ہیں۔ اب ان 37حروف تہجی میں سے
جو 33حروف بچتے ہیں انھیں مصمے(Consonants) کہتے ہیں۔ ان کی ہوا
حلق سے لے کر ہونٹوں تک کسی متعلقہ مخرج سے ٹکراکرہی اپنی ادائیگی کرپاتی ہے۔ اس لحاظ سے ان میں دو چشمی حروف بھی
شامل ہوسکتے ہیں۔
اس طرح زبان کی وہ داستان جو دھند کے دبیز پردوں سے نکل
کر انسانی آوازوں کی مہین چادروں پر چھاگئی اور پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
ان آوازوں نے دنیا بھر کی مختلف بستیوں میں علیحدہ علیحدہ زبانوں کی شکلیں اختیار
کرلیں اور ہزاروں کی تعداد میں پھیل گئیں، پھر ہر زبان کی ہر آواز نے اپنی شکل
مقرر کرلی اور لکھ لی گئی۔ لیکن سوال ہے کہ اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ زبان کی
ابتداکہاں کیوں کر ہوئی۔
حواشی
1؎ جامع
اردو انسائیکلوپیڈیا(1) ادبیات۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2003،
ص 290
2؎ لسانی
مطالعے۔ گیان چند جین۔ ترقی اردو بورڈ، نئی دہلی۔ دوسرا ایڈیشن۔ 1979،ص 32
3؎ ایضاً۔
ص 32
4؎ وکی
پیڈیا سے برآمد
5؎ لسانی
مطالعے۔ گیان چند جین۔ ترقی اردو بورڈ، نئی دہلی، دوسرا ایڈیشن، 1979، ص 33
6؎ ایضاً،
ص 33
7؎ ایضاً
8؎ ایضاً
9؎ انٹرنیٹ
سے برآمد
10؎ ایضاً
11؎ جامع
اردو انسائیکلوپیڈیا(1) ادبیات، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2003،
ص 292
12؎ انٹرنیٹ
سے برآمد
13؎ ایضاً
14؎ ایضاً
15؎ ایضاً
16؎ عام
لسانیات: پروفیسر گیان چند جین۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔ 2003،
ص 77اور 79
17؎ انٹرنیٹ
سے برآمد
18؎ صوتیات
اور فونیمیات: اقتدار حسین خان، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 2013،
ص 17،19
19؎ انٹرنیٹ
سے برآمد
20؎ اردو
نیا۔ اپریل 2024۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ جلد 26، شمارہ04۔ ص 12۔ ڈاکٹر
محمد ارشد: اردو حروف تہجی کی کل تعداد
Mustafa Nadeem Khan Gauri
Zarrin Villa, B.11, Green Valley
Roza Bagh,
Aurangabad - 431001 (MS)
Mob.: 9604957100
Email.: muslimkhan660@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں