فکر و تحقیق، جولائی –ستمبر2024
تلخیص
شاد
عظیم آبادی صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک نابغۂ روزگار دانشور
تھے۔انھوں نے نثر اور شاعری دونوں میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ انھیں تاریخ
کبھی فراموش نہیںکرسکتی۔ انھوں نے داغ کے مقبول طرز شاعری سے اختلاف کرتے ہوئے ایک
منفرد آواز بلند کی جو ان کے عہد سے مختلف تھی۔اسی رو نے جدید غزل کی بنیاد ڈالی
ہے۔شادبنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، انھوں نے بہت غزلیں کہیں مگر ان کی نظمیں،
مراثی، مسدس،مستزاد بھی کم اہم نہیں۔ ان کے علاوہ شاد کی نثری کاوشیں قابل مطالعہ
ہیں مثلاً یہ کہ اردو میں پہلی کتاب نقش پائدار شائع کی ہے جوبہار کی تاریخ
کہی جاسکتی ہے۔ ناول، مضامین اور مختلف فنون پر نثری کتابیں اتنی وافر ہیںکہ ان کا
احاطہ کرنا ایک مضمون میںممکن نہیں۔ اس لیے زیر نظر مقالے میںصرف ان کے ناولوں کا
جائزہ لیا جارہاہے جن میں صورت الخیال عرف ولایتی کی آپ بیتی،ہیئۃ المقال،حلیۃ
الکمال، بدھاوا، افیونی اور پیر علی شامل ہیں۔ شاد کا عہد چونکہ اردو ناول کے
آغاز کا عہد تھا، ڈپٹی نذیر احمد اس صنف کی بنیاد رکھ ہی رہے تھے، اس لیے یہ توقع
نہیںکرنی چاہیے کہ شاد کے ناولوں کا معیار فنی اور فکری طور پر جدید ناول کی
سطح کا ہوگا۔ مگر چونکہ وہ ڈپٹی نذیر احمد سے متاثر معلوم ہوتے ہیں اس لیے ان
کے ناول ادب کے اصلاحی و سماجی نصب العین کی آئینہ داری کرتے ہیں۔شاد کا اسلوب
سادہ اور نیت مثبت ہے اس لیے یہ ناول تاریخی اعتبار سے اہم ہیں اور شاد کے مطالعے
کا ایک نیا باب وا کرتے ہیں۔
کلیدی الفاظ
معاشرہ، نثرنگاری، قصہ، ترجمہ، آپ بیتی، آئین نو،
اسلوب، فن، رسم و رواج، متوسط طبقہ، جذبۂ اصلاح، عہد، پلاٹ سازی، کردار نگاری،
تہذیب، سماج، افیون، جنگ آزادی، شہادت، جزئیات نگاری، قصہ گوئی، شان و شوکت۔
———
ادبی اور تاریخی اعتبار سے شادعظیم آبادی اردو کے بلند
پایہ شاعر ہی نہیں،دانشور،محقق،تاریخ داںاور نثر نگار بھی تھے۔ ان کی شاعری کو
ارباب علم ودانش نے ہردور میں ممتاز و ممتاز قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال جیسے شاعر
نے ان کی صحبت سے مستفیض ہونے کی خواہش کا اظہار کیاتو کلیم الدین احمد جیسے سخت
ناقد نے انھیں ایک مجتہد شاعر قرار دیا۔ شاد کی شاعری ایک حکیمانہ وفلسفیانہ مزاج
رکھتی ہے جو مسرت کے ساتھ بصیرت بھی عطا کرتی ہے۔ انھوں نے بہت سار ے روایتی
موضوعات کو اپنی شاعری میں برتا، مگر انھوں نے تغیرات زمانہ پر بھی نگاہ رکھی اور
ان نئے گوشوں پر بھی نظر ڈالی جو ان کے معاصر شعرا کی گرفت میں نہیں آسکے۔ غالب
کے سوا کوئی اور شاعر نہیں ملتا جو اپنے عہد اور آنے والے زمانے کی مختلف تصویریں
دکھانے کی ایسی صلاحیت رکھتاہو۔بلکہ میں تو کہتاہوں شاعری ہی نہیں ان کی نثری تحریریں
بھی ان کے عہد کے تقاضوں کی آئینہ داری کرتی ہیں۔
شاد عظیم آبادی کا اصل نام سید علی محمد اور تخلص شاد
تھا۔ان کی پیدائش7 جنوری 1846 کو محلہ پورب دروازہ عظیم آباد پٹنہ میں ہوئی۔ان
کے والد کا نام سید اظہار حسین عرف سید عباس مرزا تھا جو شہر عظیم آباد کے متمول
لوگوں میں تھے اور ان کا شمار شہر کے رؤسا میں ہوتا تھا۔شاد نے سید فرحت حسین
سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین وفطین تھے۔حافظہ بہت عمدہ
تھا۔سبق یا اشعار بہت جلد یاد کرلیتے تھے۔بچپن سے موزونیِ طبع اس قدر تھی کہ محض
آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے اپنی پتنگ پر اشعار کہہ ڈالے تھے جنھیں ان
کی زندگی کے اولین اشعار کہا جاسکتاہے۔وہ اشعار یوں ہیں ؎
جو کوئی اس تلنگی کو لوٹے
گر پڑے ہاتھ پائوں سر ٹوٹے
اس کے گھر بے سبب لڑائی ہو
اس کی جورو بھی بے سبب چھوٹے
شاد کی شاعرانہ صلاحیت کو شاہ الفت حسین نے پروان چڑھایا۔مگر
وہ بچپن سے ہی کافی شاعرانہ صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ ایک واقعے سے لگتاہے
جب وہ دس سال کی عمر میں بیمار پڑے۔ علاج کے لیے حکیم صاحب بلوائے گئے۔جب حکیم
صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شاعری بھی کرتے ہیں تو ان سے کہا’شاعر ہو تو اپنی
حالت نظم کرکے بتائو‘۔ شاد نے برجستہ اپنی حالت شعر میں اس طرح بیان کردی ؎
بھوک سے پیٹ میں فشار بھی ہے
درد بھی سر میں ہے بخار بھی ہے
اس واقعے سے اندازہ ہوتاہے کہ شاد بچپن سے ہی شاعری کا
عمدہ رجحان رکھتے تھے جو آگے چل کر فنکاری کی اعلیٰ صور ت میں تبدیل ہوگیا۔شاد
صوری طور پر بھی پرکشش شخصیت اور خوبصورت قدوقامت کے مالک تھے جس کا اندازہ ڈاکٹر
اکبر علی کے اس بیان سے ہوتاہے جو انھوں نے اپنی ہندی کتاب میں دیا ہے:
’’
چہرہ کتابی،پیشانی چوڑی اور ہموار،آنکھیں سووچھ اور
سندر،ناک کھڑی،چہرے پر بہت ہلکی داڑھی،جوانی میں زلفیں رکھیں،پیری میں بال
چھوٹے رکھے،گھر میں کم موہری والے پائجامے،ململ کے کرتے،چارکونوں والی ٹوپی،سلیپر
پہنتے تھے۔ باہر جاتے وقت شیروانی،ایرانی ٹوپی اور انگلش بوٹ پہنا کرتے تھے۔‘‘1؎
بقول پروفیسر اعجاز علی ارشد مختلف شہادتوں کی بنا پر یہ
کہا جاسکتاہے کہ شاد اخلاق مند اور منکسر المزاج تھے اور آخری عمر میں زیادہ تر
علمی و ادبی گفتگو پسند کرتے تھے۔ایک اور نکتہ جو ان کی عوامی مقبولیت یا ہردل عزیز
شخصیت کی طرف اشارہ کرتاہے،ان کے آخری سفر سے متعلق ہے۔ان کے تمام
سوانح نگاروں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پہلے ان کی نماز جنازہ شیعی عقائد کے
مطابق پڑھائی گئی،پھر سنیوں کے مطابق ادا ہوئی اور تب تدفین عمل میں آئی۔ یہاں تک
کہ وفات کے بعد مجلسیں بھی ہوئیں او ر اہل سنت کے طریقے پر قل بھی ہوا۔اس رواداری کا
ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی رشتے داریاں شیعوں میں بھی تھیں اور سنیوں میں
بھی۔مگر کسی موقع پر عقیدے کا کوئی اختلاف بحث وتکرار کا سبب نہیں بنا۔
شاد عظیم آبادی کی شخصیت کے یہ پہلو بھی پرکشش ہیں کہ
وہ انگریزی حکومت کے قریب رہنے کے باوجود قوم و ملت کے فلاحی کامو ںمیں عملی طور
پر حصہ لیتے تھے۔ وہ ادب و شاعری کے علاوہ دیگر شعبوں مثلاً صحافت،سیاست یا مذہب میں دلچسپی
رکھتے تھے اور اپنے خلاف ہونے والی تما م ہنگامہ آرائیوں کے مقابلے میں نہ صرف
ضبط و تحمل سے کام لیتے تھے بلکہ انفرادی طور پر ضرورت مندوں کی حتی الامکان مدد
بھی کرتے رہتے تھے۔اس سلسلے میں ’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘ مرتبہ مسلم عظیم
آبادی میںلکھاہے کہ :
’’علاوہ
شاعری و تصنیفات کے اگر سید صاحب کے پولیٹیکل، قومی و مذہبی جذبات پر نظر رکھی
جائے تو وہ بھی کچھ کم نہیں...میونسپلٹی کی عمر دس بارہ برس سے زیادہ نہ تھی... سید
صاحب مال سلامی کے وارڈممبر مقرر ہوئے،چوں کہ نہایت ہوشیاری سے اس کام کو انجام دیاتھا،کمشنر
صاحب کے ایما سے صاحب کلکٹر نے چھ ہی مہینہ میں میونسپل کمشنر مقرر کردیا،کمیٹیوں
میں برخلاف دوسرے ہندستانیوں کے نہایت آزادی سے رائے دیتے تھے۔ 1874 میں صبح
صادق مطبع سے ’ اخبار نسیم سحر‘ ہفتہ وار اردو زبان میں سات برس تک نکلتا
رہا،جس کے آنریری ایڈیٹر سید صاحب تھے... 1875 میں اپنے گھر پر ایک کمیٹی
قائم کی... سید صاحب نے ایک طویل لکچر اس بات پر دیا کہ مسلمانوںکی دولتیں بیماریوں
میں فضول توہمات کی بدولت اور شادیوں میں نام و نمود،بیجا اور فضول
رسومات میں مفت رائیگاں لٹتی ہیں۔(کمیٹی کی) رائے یہ ہوئی کہ عورتوں کو سمجھانے
کے لیے کتابیں لکھی جائیں۔ سید صاحب نے ایک مفصل کتاب ’صورت حال‘ اسی بیان میںلکھ
کر چھپوادی۔ 1875 میں سید صاحب نے ایک کمیٹی تشکیل کی اور شہر کے اندر ایک
ابتدائی مدرسہ فارسی کیے جانے کی تحریک کی... مدرسہ بنام زہدۃ المدارس کھولا گیا۔(اس
میں ) ایک سو لڑکے سے زیادہ تھے۔شاد نے 1299ھ میں ایک کمیٹی بنا کر ’انجمن
مومنین‘ قائم کی،اس انجمن کے ذریعہ اموات،
نادار کی تجہیز و تکفین ہو اکرتی تھی... شاد لکھتے ہیں کہ انھوں نے یتیموں کی
پرورش کے لیے اس کمیٹی کو تین سو روپے نقد و جنس ملا کر دیے۔‘‘2؎
اس اقتباس سے شاد عظیم آبادی کی عملی سماجی اور علمی
خدمات پر اچھی خاصی روشنی پڑ جاتی ہے۔ان خدمات کے عوض میں حکومت نے انھیں 1891
میں’خان بہادر‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس کے علاوہ تذکرہ ’گلشن حیات‘ کے اعتبار سے وہ
تیس برس تک آنریری مجسٹریٹ اور چودہ برس تک سرکار کے نامزد کردہ میونسپل کمشنر
رہے۔شاد کا انتقال 8 جنوری 1927 کو 81 سال کی عمر میں ہوا اور تدفین آبائی
مکان معروف بہ شاد منزل کے احاطہ میں عمل میں آئی۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا شاد شاعر کے علاوہ اچھے نثر
نگار بھی تھے۔ان کی نثر نگاری پر پروفیسر وہاب اشرفی کی ایک تحقیقی اور مفصل کتاب
’شاد عظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے جس میں انھوں نے
شاد کا مطالعہ بحیثیت ناول نگار، سوانح
نگار، تذکرہ نگار، مکتوب نگار اور مضمون نگار وغیرہ کیاہے اور شاد کے موضوعات
واسالیب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اردو نثر کی تاریخ میں شاد کا مقام متعین
کرنے کی کوشش کی ہے۔شاد کی نثر ی کتابیںکم یاب ہیں، اس لیے ان کی نثری خدمات سے
متعارف کرانے کے لیے لامحالہ اس کتاب سے مدد لینی پڑتی ہے۔ شاد کی نثری کتابوں میں
سب سے پہلے جو منظر عام پر آئی وہ ’نقش پائدار‘(1876) ہے یعنی صوبہ بہار کی تاریخ۔
بظاہر تین ناموں یعنی ’مراۃ الابصار‘ تاریخ صوبہ بہار اور نقش پائدار کے نام سے
معروف تحریروں کا موضوع اور متن تقریباً یکساں ہے۔شاد نے اس کے ہر ایڈیشن میںحک و
اضافہ کے ذریعے اسے خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے مگر اسے زیادہ مقبولیت نہیں مل
سکی۔تاریخ کی بنیادی صورت،صوبۂ بہار کی تشکیل،جغرافیائی حدود، آریوں کی آمد اور
ان کی آمد کے اثرات،بودھ مت کی شروعات اور اس کے پھیلائو،بعض اہم راجائوں بشمول
مسلم حکمرانوں کے دور حکومت اور بالآخر بہار میں پرنس آف ویلز کی آمد اور
اس کے استقبال وغیرہ سے عبار ت ہے۔یہ تما م احوال ’نقش پائدار‘ مطبوعہ 1924 کی جلد
اول میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ ابتدا میں اردو اور انگریزی میں
اپنا تعارف،ماخذ اور وجہ تصنیف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ہندو اساطیر،نظریات اور
دھارمک عقائد کے ساتھ ان کی تہذیب و ثقافت،رسوم ورواج،تجارت وصنعت وغیرہ کے علاوہ
پٹنہ کے بہت سارے محلّوں کی تاریخ و انفرادیت کا بیان بھی اس میں ملتاہے۔اس کی
اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشد لکھتے ہیں:
’’ایسی
تاریخ جس کا خود تاریخ نویس شاہد ہے اس لیے بہت ساری کام کی باتیں اور یادداشتیں
محفوظ ہو جاتی ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ حافظے پر غیر ضروری طور سے بھروسہ کرنے کے
سبب کچھ واقعات غیرمعتبر بھی کہے جاسکتے ہیں۔خاص طور پر ابتدائی تاریخ کے بیان میں
ان سے بہت سارے سہو ممکن ہیں،کیونکہ جو مآخذ ان کے سامنے رہے ہیں وہ بھی بقول
شخصے بہت معتبر نہیں ہیں...میں سمجھتاہوں کہ شاد کا یہ امتیاز ہے کہ انھوں نے قدیم
و جدید بہار کی تاریخ ایک تسلسل سے بیان
کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں جن
مآخذات سے استفادہ کیاہے وہ بھی واضح کردیے ہیں،پھر یہ کہ انھوں نے اپنی کوتاہیوں
کا اعتراف کیاہے۔ اس لیے شاد کی تاریخ نویسی کو یکسر رد کرنا یا ان کی نیت پر شک
کرنا مناسب نہیں۔‘‘3؎
نقش پائدار کا دوسرا اور تیسرا حصہ شاد کی وفات کے بعد
ان کے وارثوں اور شاگردوں نے مل کر شائع کیا۔ بالترتیب 146 اور 79 صفحات پر مشتمل
دونوں حصوں میں زیادہ تر متن وہی ہے جو پہلے شائع ہو چکاہے۔
شاد کی نثرنگاری کی دوسری جہت ان کی سوانح نگاری میں سامنے
آتی ہے۔’حیات فریاد‘ اور ’شاد کی کہانی شاد کی زبانی ‘ ان کی دو سوانحی کتابیں ہیں۔پہلی
کتاب کا نام خود شاد نے ’حیات ابد‘ رکھا تھا مگر فریاد کے بیٹے کی فرمائش پر
دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے یہ 1927 میں ’حیات فریاد‘ کے نام سے 357 صفحات پر مشتمل
شائع ہوئی۔یہ شاد کے استاد الفت حسین فریاد کی سوانح عمری ہے جسے شاد نے اپنی زندگی
کے آخری ایام میںمکمل کیا۔اس کے ماخذ میں شاد کاحافظہ اور فریاد کے بیٹے ہمایوں مرزا
کی فراہم کردہ اطلاعا ت شامل ہیں۔مسلم عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ:
’’وفات
سے دو ماہ پیشتر تک مولانا حیات فریاد کی تدوین و تالیف میں مصروف رہے،اس محنت
شاقہ میںرہی سہی قوت بینائی کھو بیٹھے‘‘4؎
’حیات
فریاد‘ سات ابواب پر مشتمل ہے جس میں فریاد کے حسب ونسب،عہد طفلی سے ایام شباب کے
دن، اسفار، اساتذہ، تلامذہ، عقائد، اخلاق وعادات، معاصرین اور ان کی فارسی و اردو شاعری کا تفصیل سے
احاطہ کیاگیاہے۔شاد کو اپنے استاد سے جو عقیدت تھی اس کا پوراپورا اظہار اس کتاب میں
ملتاہے۔ شاد نے ایک خاکہ تیار کیا اور اس میں اپنے استاد کو حسب ونسب اورعلمی
کمالات کے اعتبار سے ایک منفرد وممتاز شخصیت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔سوانح
نگار اپنے ممدوح کی تعریف میں کچھ نہ کچھ مبالغے سے کام تو لیتا ہی ہے مگر پروفیسر
وہاب اشرفی کی تحقیق سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاد نے نہ صرف حقائق سے چشم پوشی کی
بلکہ ایسے واقعات و کمالات کا بیان افسانوی انداز میں کیا جو ان کے استاد کو ہیرو
اور منفرد بنا سکتے تھے۔موصوف نے اس کتاب کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ
نکالا ہے کہ یہ کتاب حقیقت اور افسانے کی ایسی آمیز ش پیش کرتی ہے جس میں افسانے
کا عنصر غالب ہے۔ حیات فریاد دراصل استاد کی شان میں ایک ایسے شاگرد کی ثنا
گستری ہے جو یہ سمجھتاہے کہ شاگرد کے کمال سے استاد اور استاد سے شاگرد پہچانا
جاتاہے۔شاد کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کے سوا ان کے استاد کا کمال دکھانے والا
کوئی نہیں۔یہ احساس اپنی جگہ درست ہے کہ شاد نے ان کے کمالات کے مظاہرے کے لیے
اختراعی واقعات سے کام لیاہے۔وہ کسی اور کے بس کی چیز نہیں تھی اور اس کی ایک اہم
وجہ ہمایوں مرزا سے مالی معاونت کی توقع تھی۔5؎ سچائی یہ ہے کہ حیات فریاد فن
سوانح نگاری کے تقاضوں کو بالکل پورا نہیں کرتی سوائے اس کے کہ اس کے ذریعے فریاد
کے معاصرین اور شاگردوں کی ایک فہرست اس کی مدد سے تیار کی جاسکتی ہے۔
شاد کی دوسری سوانح عمری ان کی اپنی آپ بیتی ہے جو صیغہ
غائب میں لکھی گئی ہے۔ شاد نے اپنی آپ بیتی اپنے شاگرد مسلم عظیم آبادی کی طرف
سے لکھی ہے۔اس کا سنہ تصنیف 1921 کے آس پاس ہے لیکن یہ کتاب معارف پریس اعظم گڑھ
سے 1961 میں شائع ہوئی۔ شاد نے اس کا نام ’کمال عمر ‘ رکھا تھا مگر اس کے مرتب
پروفیسر مسلم عظیم آبادی نے اسے بوجوہ ’شادکی کہانی شاد کی زبانی‘ کے نام سے شائع
کروایا۔یہ سوانح عمری معروف بھی ہے اور مقبول بھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شاد کے سوانحی
حالات اور ان کے عہد کایہ بنیادی ماخذ ہے۔مسلم عظیم آبادی نے اس کی ترتیب و تدوین
میں اپنے حسن ذوق کا مظاہرہ کیاہے جس کی وجہ سے بھی یہ اردو کی مقبول کتابوں
میں شمار ہوتی ہے۔ شاد کی اس سوانحی کتاب کے تعارف میں پروفیسر مسلم عظیم آبادی
کا یہ اقتباس کافی ہے جو انھوں نے کتاب کے آغاز میں تحریر کیا ہے:
’’
حضرت استاد خاں بہادر سید علی محمد شاد مغفور عظیم
آبادی کی یہ آپ بیتی کہانی بھی ایک کہانی رکھتی ہے، جس کے بیان سے ان کی سیرت کے
ایک پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔استاذ مرحوم کو دو آرزو(کذا) نے زندگی بھر بے چین
رکھا۔ایک تو یہ کہ ان کا دیوان کامل صحت اور بہترین کتابت و طباعت کے ساتھ شائع ہو
جاتا،دوسرے یہ کہ ان کی سوانح حیات اْن کی حیات میں مرتب ہو جاتی... استاد نے مجھ
ہی کو اس خدمت کے لیے تاکا۔ متعدد شجرات حسب و نسب،پروانے،لکچر نوٹوں کے(کذا) پوٹ
میرے حوالے کیے اور انھیں کے مرتب کیے ہوئے منصوبوں کے مطابق میں نے اپنی
بساط بھر پوری محنت و کاوش سے سوانح عمری کا ایک مسودہ مرتب کیا۔آپ نے نظر ثانی کے بعد اپنے ہاتھ سے بہت سارے
اضافے کیے پھر بھی تسکین نہ ہوئی۔ان کی آرزو یہ تھی کہ ان کے آبا و
اجداد،دادا،دادی،نانا،نانی،چاروں کے کامل شجرے،خاندانی و تاریخی حالات اس صراحت سے
مذکور ہوں جیسی انھوں نے لکھ رکھی تھیں۔پھر اپنی ریاست کی شان و شوکت،حکام رسی،
وفاداری، سیاسی اور سماجی کارگزاریاں، میونسپل بورڈ اور ٹکسٹ بک کمیٹی کی ممبری،کورٹ
آف وارڈ کی مہتمی، آنریری مجسٹریٹی، خان بہادری اور حکام انگریزی کی قدر افزائی،تحسین
و سندات کا بیان بالتصریح ہو۔میں ایک اعلیٰ درجے کے شاعر اور ادیب کے لیے یہ تصریحات
لایعنی سمجھتا تھا... خلاصہ یہ کہ میں نے سوانح عمری کے لیے کئی نسخے تو مرتب کیے
مگر ان کی تشفی نہ ہوئی۔ آخر 1921 کے لگ بھگ سید صاحب نے ایک مبسوط سوانح حیات میری
طرف سے صیغۂ غائب لکھ کر اس کا نام ’کمال عمر‘رکھا... مجھے اس نام میں اصل موضوع
کی طرف انتقال ذہنی کی صفت نظر نہ آئی اس لیے میں نے ’شاد کی کہانی شاد کی
زبانی‘ کے نام سے موسوم کیا۔‘‘6؎
اس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ شاد جو چاہتے تھے وہ
مسلم عظیم آبادی نہ لکھ سکے اس لیے انھوںنے خود اپنی سوانح لکھی اور سارا زور اس
بات پر صرف کردیا کہ خود کو عالی نسب اور صاحب حیثیت ثابت کریں۔ مگر شاد نے اپنے
معاصرین اور عہد کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ اہم ہیں۔ قاضی عبدالودود
نے اس کتاب کو اگرچہ تاریخی اور فنی دونوں نقطہ ہائے نظر سے ناکامیاب قرار دیا ہے،
مگر یہ بھی سچائی ہے کہ یہ حیات فریاد سے زیادہ مقبول اور بہتر سمجھی جاتی رہی ہے۔
شاد نے نثر میں تاریخ، تذکرہ، سیرت، مکتوب اور مضامین
پر بھی اپنا زور قلم صرف کیاہے۔ان کی نثری تحریروں کو ادبی سے زیادہ تاریخی اہمیت
حاصل رہی ہے۔ ان سے شاد کے عہد، ان کی فکر، ان کی تخلیقات اور معاصرین کے بارے میں
بہت ساری باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔مگر جس طرح ان کی شاعری دبستان عظیم آباد کے لیے
باضابطہ آغاز اور روایت ساز ہے،ان کی نثر نگاری روایت ساز نہیں۔ ان کی بس تاریخی
او ر تہذیبی اہمیت باقی رہے گی۔ ان کی نثر میں صرف ناول نگاری کو اس لیے ادبی اور
تاریخی دونوں اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے صوبہ بہار میں اردو ناول نگاری کی بنیاد
رکھی۔ ’صورت الخیال ‘ کو بالاتفاق بہار کا پہلا اردو ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ ذیل
میں ان کی ناول نگاری اور اس کے تاریخی پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں جس واقعے نے مسلمانوں کو سماجی،
فکری اور سیاسی طور پر انقلاب سے دوچار کیا وہ 1857 کی جنگ آزادی یا غدر کا واقعہ
ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت شاد عظیم آبادی کی عمر محض گیارہ سال تھی۔یہ کوئی
ایسی عمر نہیں تھی کہ وہ غالب اور سرسید کی طرح بغاوت کے اسباب،محرکات یا مشاہدات
پر بہت باریکی کے ساتھ نظر ڈال سکتے تھے۔مگر اس بغاوت کے نتیجے میں مسلمانوں پر جو
مظالم ڈھائے گئے اور ان کی پستی و ناکامی کے جو اسباب شمار کروائے گئے وہ انھوں نے
ضرور محسوس کیے۔اس جدوجہد آزادی کا عبرتناک انجام،بے گناہوں کے گھروں کی تاراجی،اہل
علم اور ممتاز خاندانوں کی بربادی و تباہی کے ہولناک مناظر انھوں نے دیکھے۔اس
ناقابل انکار حقیقت کو انھوں نے محسوس کیا کہ جدوجہد آزادی کی ناکامی کے بعد زیادہ
تر مسلمان ہی مصائب کا نشانہ بنے۔ حکومت وقت نے ان کی سرکوبی کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ
توڑ ڈالے اور پوری کوشش کی کہ اس قوم کے دست و پا کو مفلوج اور رگِ احساس کو
ناکارہ بنا دیا جائے۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے حقیقت سے فرار اختیار کرکے گوشۂ
عافیت میں پناہ لینا بہتر سمجھا۔طاؤس ورباب، شطرنج کی بساط، پتنگوں کی دائوں پینچ،کبوتر
بازی،مرغوں کی معرکہ آرائی اور افیون و شراب کا نشہ ان کے لیے سکون و عافیت اور
فرار کا سب سے بہتر راستہ بن گیا۔ شاد نہ صرف ان تبدیلیوں کو دیکھ رہے تھے بلکہ ایک
حساس اور دور اندیش ادیب کے طور پر یہ محسوس بھی کر رہے تھے کہ اگر یہی حالات رہے
تو نہ صرف یہ قوم قعر مذلت میں گم ہو جائے گی بلکہ جہالت و تاریکی کے اس سمندر میں
غرقاب ہو جائے گی جہاں سے نکلنا ناممکن ہو جائے گا۔ شاد کے پاس اپنے محسوسات کو
عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ قلم کے سوا کچھ اور نہ تھا،سو انھوں نے اپنی نظموں میں
مسلمانوں کی عظمت دیرینہ کی یاددلاتے ہوئے انھیں تحصیل علم وہنر پر زور دینا شروع
کردیا۔ ان کی متعدد نظمیں اس زمانے کی مل جاتی ہیںجن میں انھوں نے جہالت، لاعلمی
اور نفرت و نفاق کے خلاف نظمیں لکھیںاور بلا تفریق مذہب وملت آپسی اتفاق، اتحاد
اور بھائی چارے کی ترغیب دی ہے۔ان کا جذبۂ اصلاح ہی تھاکہ 1870 میں جب وہ صرف 24
سال کے تھے انھوں نے ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع سرسید احمد خاں کی فکر اور ان کے
اصلاحی پروگراموں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔شاد نے سرسید کے اصلاحی مشن کا
استقبال کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’جب
سرسید ولایت کے سفر سے واپس آئے اور پرچہ تہذیب الاخلاق مسلمانوں کی دینی اور دنیوی بہتری کا بیڑا اٹھا کربنارس سے
نکالا اور چند ہی روز میں موافق اور مخالف
صدائوںسے ہندستان گونج اٹھا۔ اس عالم میں اپنی جگہ پر میں دم بخود ہو کر دیکھ رہا
تھا کہ دیکھیے زمینِ چمن کیا گل کھلاتی ہے اور آسمان کیا رنگ بدلتاہے۔‘‘
اور جب اپنے مشن کے سلسلے میں سرسید احمد خاں پٹنہ (یعنی
عظیم آباد) تشریف لائے تو شاد سے ملاقات ہوئی اور شاد جو پہلے سے ہی سرسید کے مشن کے طرفدار تھے، اب
ان سے ذہنی طور پر مزید قریب ہوگئے۔وہ اس سفر سے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہی
زمانہ تھا کہ خزینتہ البضاعت کی طرف سے سید احمد خان کا دورہ شروع ہوا اور ہمارے
غم کدے میں بھی ان کے آنے کا اعلان ہوا۔ سرسید نے پٹنہ کالج میں جو اسپیچ دی وہ
ہمارے حالات کو سچ سچ اورصاف صاف بیان کرنے والی تھی۔ سرسید کے بعض خیالات کی وجہ
سے ان اطراف میں جو بیزاری اور نفرت اْن کے ساتھ بھڑکی ہوئی تھی، اس اسپیچ نے فی
الجملہ ان پر پانی چھڑکا۔‘‘)شاد کی کہانی شاد کی زبانی)
ان اقتباسات سے پتہ چلتاہے کہ شادبہت حدتک واضح طور پر
سرسید اور ان کے مشن سے متفق تھے۔ انھوں نے سرسید کے اس خیال کی اپنی نظموں میں بھی
تائید کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے حالات بدلنے کے لیے میدان عمل میں اترنا
ہوگا۔اپنے بچوں کو دینی تعلیمات کے ساتھ جدید تعلیم اور اس کی برکات سے آشنا کرنا
ہوگا۔ سرسید سے ان کی قربت اس وقت مزید بڑھ گئی جب وہ 1897 میں مولانا حالی کی
دعوت پر میلادالنبی میں شرکت کی غرض سے علی گڑھ گئے۔ وہاں سرسید سے ان کی ملاقات
اور گفتگو ہوئی اور جلسے میں انھوں نے اپنا ایک نعتیہ مسدس بھی پڑھا جو ’ظہور
رحمت‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس مسدس میں بھی انھوں نے مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر
کرتے ہوئے ان کی ترقی و بیداری کی دعا مانگی ہے۔مثلاً ایک بند دیکھیے ؎
امت کا اپنی دیکھیے احوال
یا رسول
غفلت ہرایک
کام میں ہر کام میں
ذہول
جو لاجواب آپ
نے قائم کیے اصول
کرتے ہیں جان بوجھ کے اس میں غضب کی بھول
اے سرگروہ مجلس
وحدت ! دہائی ہے
ٹولی جدا
ہر ایک نے اپنی بنائی ہے
شادسرسید سے متاثر تو تھے ہی،ان کا اپنانقطۂ نظر بھی
اصلاحی تھا۔ اسی لیے وہ اس ادب کے قائل تھے جو مردہ دلوں کو زندہ اورقوائے خفتہ کو
بیدار کردے۔ انھوں نے محض تیس سال کی عمر میں ایک مسدس لکھنے کے بعد اس پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اس نظم سے فقط یہ غرض ہے کہ اپنے بھائیوں کو چونکائوں اور
ان کے مردہ دلوں کو تحریک میں لائوں۔ وہ علم وفن کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی حالت
درست کریں۔‘‘ گویا شاد سماج کی طرح ادب میں بھی اصلاح چاہتے تھے۔شاید اسی لیے
سرعبدالقادر نے انھیں شاعر وادیب کے ساتھ مصلح ادب بھی قرار دیاتھا۔
سرسید تحریک کے زیر اثر سماجی و فکری اصلاح کے لیے حالی
نے مسدس نظم کیا اوراکبر نے طنزیہ اشعار
کہے تھے۔شاد نے بھی ’چشمۂ کوثر‘ اور ’ثمرۂ زندگی‘ جیسی اخلاقی مثنویا ں، مراثی،
رباعیاں اور نظمیں لکھ کر اس اصلاحی مشن کو فروغ دینے میں حصہ لیا۔ شاد کی متعدد
نظمیں ایسی موجود ہیں جن میں انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو گل وبلبل، شمع وپروانہ، لیلیٰ
مجنوں،شیریں فرہاد کی عاشقی کے بجائے علم وفن، اخلاقیات اور مثبت قدروں کی تعلیم دینے
کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر ان کی مختلف نظموں سے کچھ بند ملاحظہ کیجیے ؎
لازم ہے بال بچوں کی تعلیم و تربیت
وہ فن سکھا کہ جس سے ہو ان کو مناسبت
جو کام ہو حلال اور اس میں ہو منفعت
دیکھ اس کو ترک کرکے نہ کر اپنی منفعت
مزدور بن، مگر کبھی
سائل بکف نہ ہو
رُخ اس سے تو بھی پھیر جو تیری طرف نہ ہو
(مسدس،
1891)
ہم آگئے ہیں دنیا میں پئے کسب سعادت
تحصیل میں اس کی ہمیں لازم ہے مشقت
ہو لاکھ فرائض کے ادا کرنے میں محنت
الزام ہے گردن پہ،جو ہم سے ہوئی غفلت
چپ بیٹھ رہے راہ کی سختی سے نہ ڈرکے
گویا یہ فرائض بھی فرائض ہیں سفر کے
(اسلام
اور انسان، 1902)
جو قوم ہو بے علم
وہ رہتی نہیں آزاد
سرمایۂ اسلاف کو کردیتی ہے برباد
جس گھر میں نہ ہو علم وہ ہوتا نہیں آباد
اسلام کا آغاز
تو ہوگا تمھیں کچھ یاد
یہ ایک کلی شاخ میں
مرجھا گئی افسوس
اس باغ میں کیا جلد خزاں آگئی افسوس
(خواب
وطن، 1910)
اس کے علاوہ شاد نے اپنی کئی مثنویوں اور نظموں میں
معاشرتی و اخلاقی برائیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے مثلاً نفاق،بغض وحسد، افترا و
بہتان، بدزبانی و دل آزاری، بدگوئی و غیبت، بے حسی و غفلت وغیرہ۔ ان برائیوں کو
انھوں نے احکام رسول، اقوال ائمہ اور اخلاق حسنہ سے دور کرنے اور اپنے کردار کو
سنوارنے کی تلقین کی ہے۔
شاد جب حالی کی دعوت پر علی گڑھ گئے تھے تو ان کی
ملاقات سرسید کے علاوہ رفقاسرسید سے بھی ہوئی تھی۔ وہ شبلی، حالی، نذیر احمد وغیرہ
کی ان تحریروں سے بھی متاثر تھے جو سرسید مشن کو فروغ دینے میں ان کے قلم سے وجود
میں آرہی تھیں۔ میرا خیال ہے شاد نذیر احمد کے ناولوں سے متاثر ہوکر ہی اصلاحی
ناول لکھنے کی طرف راغب ہوئے ہوں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ نذیر
احمد کے ناول مراۃ العروس اور بنات النعش شائع ہوتے ہی نہ صرف مقبول عام ہوگئے تھے
بلکہ انھیں انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا اور ان کی تقلید میں ناول
لکھنے والوں کی ایک معتد بہ تعداد سامنے آگئی تھی۔ دوم یہ کہ شاد شاعر کے علاوہ
بہت اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ان کے دل میں بھی جذبہ اصلاح معاشرہ کوٹ کوٹ کر بھرا
ہوا تھا۔ ’’کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے‘‘ کے مصداق انھوں نے سوچا ہوگا کہ
کیوں نہ نثر میں بھی یہ کام کیا جائے، شاید وہ سب جو شاعری سے نہ حاصل ہوسکا، نثر
کی بدولت حاصل ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ عظیم آباد جیسے دور افتادہ علاقے تک نذیر احمد
کے ناولوں کی عمومی رسائی آسان نہ تھی، اگر یہاں اس قسم کے ناول لکھے جائیں تو
مرکز سے دور اس علاقے میں ناول جیسی صنف کے آغاز کا سہرا ان کے سر بندھ سکتا تھا۔
بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں اردو ناول نگاری کا
آغاز شاد کے ہی ناول ’صورۃ الخیال‘ (1876) سے ہوتا ہے۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے
شاد کی اس نئی کاوش کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے کہ:
’’نذیر
احمد اور حالی کی کاوشیں اپنی جگہ، مگر بہار جیسے دور افتادہ علاقے میں طرز کہن کے
ساتھ پروردہ ایک بزرگ شاعر کے لیے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں جس طرح شاعری اور
زبان میں اصلاح کا جذبہ اس کی ’آئین نو‘ سے دلچسپی کا پتہ دیتا ہے۔ اسی طرح
ناولوں میں سماجی اصلاح کا جذبہ پیش کرنا بھی ایک امتیاز ہے۔‘‘7؎
یہی وجہ ہے کہ شاد کے لکھے تمام ناولوں صورۃالخیال،
بدھاوا، صورت حال، افیونی اور پیر علی میں قصہ گوئی، کردار نگاری اور اسلوب واظہار
سے زیادہ زور اصلاحی پہلو پر ملتا ہے۔ انھوں نے صورت الخیال کے دیباچے میں تو اپنے
اس مقصد کا کھل کر اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’نصیحت
کی کتابیں دنیا میں اس قدر موجود ہیں کہ اگر ان کے نام لکھے جائیں تو پوری ایک حجیم
کتاب ناموں ہی سے مرتب ہوسکتی ہے، لیکن یہ بھی انسانی خاصہ ہے کہ جب تک پند ووعظ
کے ساتھ تمثیلیں بیان نہ ہوں تب تک جلدی سے دل میں اترتی نہیں... میں نے بھی اپنی
دانست میں حتی الوسع کوشش وکاوش کرکے اپنے خیال کے مطابق اس قصہ کا منصوبہ
باندھا... اس قصے میں نہ کسی طلسم کے باندھنے اور توڑنے کا خیال ہے نہ جنات و دیو
و پری کا ڈھکوسلا ہے، نہ کسی ایسے انوکھے ملک و انوکھی خلقت کا بیان ہے کہ اس کا
پتہ نہ زمین میں ملے نہ آسمان پر۔ حتی الوسع اس خیالی قصہ میں فطرتی حالات پر بہت
کچھ توجہ کی گئی ہے.... خداوندا سے دعا ہے کہ میری ناچیز کتاب سے میرے ہم وطن بھائیوں
کو فائدہ پہنچے اور میری شب و روز کی محنت رائیگاں نہ جائے۔‘‘8؎
’صورت
الخیال ‘یعنی ولایتی کی آپ بیتی کی اشاعت 1876 میں ہوئی۔ یہ کل تین حصوں پر مشتمل
ہے۔ دیگر دو حصے ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے پہلے حصے
یعنی ’صورت الخیال‘ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ بنگلہ ناول ’اندیرا‘ کا
چربہ ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر آصفہ واسع نے اپنی کتاب ’بہار میں اردو ناول نگاری‘
میں بہت تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے صورت الخیال اور اندیرا کے واقعات و پلاٹ، کردار
اور مکالموں میں مشابہت بھی ثابت کردی ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی اس کا اعتراف
کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’دونوں
ناولوں کی مشابہت یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاد نے بنگلہ ناول ’اندیرا‘ صرف
سنا ہی نہ ہوگا بلکہ باضابطہ ان کے پاس اس کا کوئی ترجمہ ہوگا... پھر بھی صورۃ الخیال کے مصنف نے ’اندیرا‘ کے
قصہ کو جوں کا توں قبول نہیں کیا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی مخصوص معاشرت کے پیش نظر
اردو انتخاب سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے کچھ نئے واقعات بھی تخلیق کیے گئے ہیں۔‘‘9؎
ناول ’اندیرا‘ کا ترجمہ شاد کے پاس کس طرح پہنچا، اس کی
تحقیق کے بعد پروفیسر وہاب اشرفی، ڈاکٹر آصفہ واسع، ڈاکٹر اشرف جہاں اور پروفیسر
اعجاز علی ارشد نے مختلف دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ ’صورت
الخیال‘ واقعتا صد فی صد شاد کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ یہ حصہ منشی اعظم علی اور حسن
علی کے ذریعے بغرض اصلاح شاد تک پہنچا تھا۔ شاد نے اس کی نوک پلک، زبان و بیان اور
پلاٹ میں ترمیم و اصلاح کرکے اپنے نام سے چھپوا لیا، مگر اپنی آپ بیتی میں صرف
’اندیرا‘ کے اثرات کا اعتراف کیا ہے۔ ہم آج یہ کہہ سکتے ہیں صورت الخیال یعنی ولایتی
کی آپ بیتی کا پہلا حصہ تین اشخاص شاد، اعظم علی اور حسن علی کی مشترکہ کوششوں کا
نتیجہ ہے۔
ناول کی تصنیف میں خواہ کتنے ہی اعتراضات کیے گئے ہوں،
مگر اس کے موضوع و مقصد کے تعلق سے شاد کی اصلاحی فکر کا بہرحال تمام ناقدین نے
اعتراف کیا ہے۔ یہ فکر اپنے عہد کے اعتبار سے نئی ہے اور اس میں شاد کے جذبے کا
اخلاص نمایاں ہے۔ صورت الخیال میں کم اور ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال میں زیادہ۔
صورت الخیال یعنی ولایتی کی آپ بیتی کا پلاٹ بس اتنا
ہے کہ ولایتی کی شادی 14 سال کی عمر میں ایک عیاش زمین دار نوجوان کرم حسین خاں سے
ہوتی ہے۔ خسر کی موت برات ہی کے دن ہوجاتی ہے، اس لیے رخصتی نہیں ہوپاتی۔ نوجوان
کرم حسین باپ کی دولت لٹا دیتے ہیں تو ولایتی ایک خط سے انھیں غیرت دلاتی ہے اور
راہ راست پر لاتی ہے۔ ولایتی سسرال کے لیے روانہ ہوتی ہے تو راہ میں ڈاکو پکڑ لیتے
ہیں۔ داروغہ نہال سنگھ، انگریز اور آغا جیسے اوباش و عیاش مردوں سے کسی طرح اپنی
عزت بچاتی ہوئی ایک شریف آدمی کے ہمراہ کلکتہ پہنچتی ہے، جہاں اس کے شوہر کرم حسین
خاں موجود ہوتے ہیں، مگر وہ ولایتی کو پہچان نہیں پاتے اور اس سے معاشقہ شروع کردیتے
ہیں۔ ان کے ساتھ پٹنہ کے لیے روانہ ہوتی ہے مگر وارنٹ کے ذریعہ گرفتار ہوکر عدالت
پہنچتی ہے، تب کرم حسین کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی منکوحہ ہے۔
یہ صورت الخیال یعنی پہلی جلد کی کہانی ہے، جس میں مرکزی
قصے کے علاوہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کے بغیر بھی ناول مکمل ہوسکتا تھا۔ پروفیسر
اختر اورینوی نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ
:
’’صورت
الخیال میں بہت سی ذیلی باتیں ایسی بیان کی گئی ہیں جن کا پلاٹ کے عام دھارے سے
دور کا تعلق بھی نہیں بلکہ وہ برسبیل تذکرہ اس لیے لائی گئی ہیں تاکہ گھریلو تعلیم
و تعلم اور واقفیت عامہ بڑھانے میں مفید ثابت ہوں۔ صورت الخیال ایک تعلیمی، اصلاحی
اور اخلاقی ناول ہے۔‘‘10؎
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے حصے کے مقابلے میں پہلے
حصے میں مرکزی مقصد سے غیر متعلق باتیں بہت کم ہیں۔ ان میں اختصار کا پہلو سامنے
رکھا گیا ہے۔ مثلاً اس حصے میں اصلاح کے نقطہ نظر سے جن موضوعات پر گفتگو کی گئی
ہے، ان میں علوم و فنون سے رغبت، سفارش کی مذمت، پان کھانے کی برائی، مخرب اخلاق
کتابوں سے اجتناب، حیا اور بے حیائی میں فرق، غلط رسوم و رواج سے احتراز اور جدید
علوم کی تعریف و توصیف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں پر نہایت اختصار کے
ساتھ چند جملوں میں بات کی گئی ہیں، اس لیے قصے کی روانی اور پلاٹ کے گٹھاؤ پر
بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ پند ونصائح کی باتیں گراں نہیں گزرتی ہیں کہ ناصحانہ یا
واعظانہ رنگ نہ گہرا ہے اور نہ بہت دیرپا۔
’صورت
الخیال‘ کے اختتام پر قصہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ اب آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی، مگر شاد پر صورت الخیال کی تصنیف کے
تعلق سے الزامات عائد ہوچکے تھے، اس لیے انھوں نے ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال میں
ولایتی پر مزید مصیبتیں نازل کرکے قصے کو شعوری طور پر آگے بڑھایا ہے۔ اس لیے ان
دونوں حصوں کے واقعات اور پلاٹ میں تصنع و پیچیدگی کا پیدا ہوجانا غیر فطری بھی نہیں۔
دوسرے حصہ ’ہیئۃ المقال‘ کا پلاٹ یہ ہے کہ ولایتی اپنے
شوہر کے ساتھ کلکتہ چلی جاتی ہے مگر یہاں نئی مصیبتیں اس کی منتظر ہیں۔کرم حسین
خاں سازش کا شکار ہوکر جیل چلے جاتے ہیں اور وہ آغاسلیمان کی جال میں پھنس جاتی
ہے۔کسی طرح چھٹکار احاصل کرتی ہے تو چوری کے الزام میں گرفتار ہو کر وہ بھی جیل
پہنچ جاتی ہے۔ مقدمہ چلتا ہے تو اس کا کیس ڈسمس ہوتاہے اور کرم حسین بری ہو جاتے ہیں۔
دونوں ملتے ہیں اور بذریعہ کشتی پٹنہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔کشتی میں ایک
لڑکا نعیم ولایتی کے نقلی موتی دیکھ کر اسے اصل سمجھ لیتاہے اور اسے پانے کے لیے
ولایتی کو دریا میںگرادیتاہے۔ موجوں کے سہارے وہ کنار ے پہنچ جاتی ہے اور کچھ دنوں
کے بعد ایک عورت کے سہارے دوسری کشتی سے روانہ ہوتی ہے مگر مونگیر پہنچ جاتی ہے۔
ولایتی کے باپ کے ملازمین تلاشتے ہوئے اسے مل جاتے ہیں اور اسے لے جاتے ہیں۔ یہاں
دوسرے حصے کا قصہ ختم ہوتاہے۔تیسرے حصے ’حلیتہ الکمال‘ میں ولایتی اپنے ملازمین کی
مدد سے اپنے شوہر کو ڈھوندنے نکلتی ہے۔راہ میں بے ہوش ہوتی ہے، ایک لکڑا اسے زخمی کردیتاہے، ہاسپٹل پہنچائی جاتی ہے
جہاںاسے باپ کی موت کی خبر ملتی ہے۔ پٹنہ پہنچ کر ماں سے ملتی ہے اور شوہر کو
ڈھونڈنے کے لیے خدمت گار بھیجتی ہے مگر وہ نہیں ملتا۔پھر وہ حج کے لیے مکہ کے
سفر پر روانہ ہو جاتی ہے۔ جدہ، مکہ، مدینہ کے راستے میں اسے بے شمار پریشانیوں اور
حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ساتھ میں آئے پھوپھا کا انتقال، خدمت گار کی گمشدگی
اور قافلے کی لوٹ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ وہ بدوئوں کی لونڈی بنادی جاتی ہے۔ترکی
نظام گرفتار کرتے ہیںاور وہ شریف مکہ کے پاس لائی جاتی ہے جہاں سے اس کی رہائی
ہوتی ہے۔ایک حاجی ہندستان جانے کے لیے پیسے کا محتاج ہے ولایتی اس کی مدد کرتی ہے
تو پتہ چلتاہے وہ کوئی اور نہیں اس کے شوہر کرم حسین خاں ہیں۔سب ہنسی خوشی گھر لوٹ
جاتے ہیں۔قصہ ختم۔
اصلاحی نقطہ نظر سے دوسرے اور تیسرے حصے (ہیئۃ المقال
اور حلیۃ الکمال) میں نسبتاً افراط ہے۔ ان دونوں حصوں میں ہر موضوع پر تفصیل سے
گفتگو کی گئی ہے۔ جو کہیں کہیں تین یا چار صفحات تک پھیل گئی ہے۔ ان دونوں حصوں پر
نذیر احمد کے اولین ناولوں کا ناصحانہ انداز چھایا ہوا ہے، کہیں کہیں تو موضوعات کی
تکرار بھی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ مثلاً دوسرے حصے میں جن امور کی جانب قارئین کی
توجہ مبذول کرائی گئی ہے ان میں علم جغرافیہ کی اہمیت، تعلیم کی قدر وقیمت، عورتوں
کا لباس، طریقہ گفتگو، شائستگی، امانت، شاعری، پان کھانے کی برائی، اسراف سے بچنے
کی تلقین وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ تیسرے حصے حلیۃ الکمال میں صفائی، روزہ، کچہری،
طبابت، بیماری وغیرہ کے متعلق نصیحت آموز باتیں تفصیل سے کی گئی ہیں۔ ان تینوں
حصوں کے تقابلی مطالعے کے بعد یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ فنی طور پر پہلا حصہ
زیادہ جامع ہے، مگر اصلاحی اور ناصحانہ گفتگو آخر الذکر دونوں حصوں میں افراط کے
ساتھ موجود ہے۔ یہ افراط ہی ناول کو فطری طور پر آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ ان میں
منطقی ارتقا کا فقدان نظر آتا ہے۔ پہلے حصے کے مقابلے میںدوسرے تیسرے حصے کا
اسلوب بھی جدا ہے۔ مثلاً ایک ہی کردار حسینی پہلے حصے میں بولتاہے’’ ہجورسب
کھیر سلاّ ہے،گلام کل سام کو حاضر ہوا مگر دلہا
میاں سے ملکات تک نہیں ہوئی‘‘ یہی کردار حسینی تیسرے حصے میں یوں بولتا ہے
’’بوا ہم نے تو سیر آٹا گوندھ کر روٹی پکائی تھی،مگر یہاں تو اچھا خاصا ڈاکا
ہے۔پکاتے پکاتے سیر بھر سے زیادہ کی روٹی تو یہ قافلہ والے عرب کھاگئے۔‘‘ اسلوب کا
فرق واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔شاد نے اس ناول میں خط کی تکنیک کا استعما ل بھی
کیاہے جو قابل تعریف ہے مگر اس میں بھی اسلوب کی یکسانیت برقرار نہیں رکھ
پائے۔ناول میں ولایتی کے دو خطوط شامل کیے گئے ہیں جو ولایتی کے ذریعے اپنے
والد اور شوہر کو لکھے گئے تھے۔
ناول ’ولایتی کی آپ بیتی‘ کی سب سے بڑی خوبی اس کی
زبان اور کردار نگاری ہے، بلکہ نثر اور کردار کے اعتبار سے تو یہ کہیں کہیں نذیر
احمد کے ناولوں پر بھی فوقیت حاصل کرگیا ہے۔ مثلاً ناول کے مرکزی کردار ’ولایتی‘ میں
نذیر احمد کی اصغری سے زیادہ جذب و کشش ہے۔ وہ پوری زندگی مصیبتوں سے نبرد آزما
رہتی ہے، اس کے باوجود ہنستی بھی ہے روتی بھی ہے اور دل لگی بھی کرتی ہے۔ قصے کے
پس منظر میں اس عہد اور معاشرے کی تصویر بھی بہت واضح نظر آتی ہے۔ شاد کو زبان پر
عبور حاصل ہے۔ عظیم آباد کی بیگماتی زبان بڑی روانی کے ساتھ لکھ گئے ہیں۔ ان میں
طبقاتی شعور بھی گہرا ہے، اس لیے نوکر، چاکر، اہل حرفہ، ایرانیوں، انگریزوں اور دیہاتیوں
کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کرداروں کی الگ الگ شناخت کی مظہر ہیں۔ زبان
و اسلوب کے اعتبار سے یہ حالی کی مجالس النسا اور نذیر احمد کے مراۃ العروس و بنات
النعش سے اہم ناول ہے اور اس میں شک نہیںکہ
اسے اپنے عہد میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اہل علم نے اسے سراہا۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ
پرنسپل مدرسہ عالیہ نے اس ناول کے بارے میں اپنے تاثرات ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن
بنگال کو بتاریخ 21 فروری 1881 ان الفاظ میں بھیجے تھے:
’’یہ
رپورٹ بہ نسبت ایک ہندستانی ناول کے جو ملقب بہ ’صورۃ الخیال‘ و تصنیف سید علی
محمد متوطن عظیم آباد ہیں،آپ کی خدمت میں بھیجتاہوں مجھے اس بات کے کہنے میں ذرا
بھی تامل نہیں کہ جس قدر ناولیں ہندستانی زبان میں پڑھی ہیںان میں یہ ناول سب
سے بہتر ہے... ہماری رائے میں یہ ناول ’مراۃ العروس ‘ اور ’بنات النعش‘ سے باعتبار
ادب وانشا کے کہیں بڑھی ہوئی ہے۔‘‘11؎
شاد کے سماجی اصلاح کا جذبہ ’ولایتی کی آپ بیتی‘ کے
مقابلے ان کے دیگر ناولوں ’بدھاوا‘ اور ’صورت حال‘ میں زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا
ہے۔ صرف 84 صفحات پر مشتمل یہ ناول
’بدھاوا‘ بنکم چٹرجی کے بنگلہ ناول
’رادھارانی‘ سے ماخوذ ہے مگر پلاٹ میں کچھ ترمیم و اضافے کے بعد بھی اول تا آخر
مربوط و مکمل ہے۔قصے کی ابتدا موضع رسول پور گائوں سے ہوتی ہے۔مرکزی کردار ایک یتیم
لڑکی ہے جس کا نام زبیدہ ہے۔اس کے باپ نے کافی جائداد چھوڑی تھی مگر اس کا بہنوئی
اس پر قبضہ کرلیتا ہے۔ زبیدہ کی ماں کسمپرسی کی حالت میں بھی مقدمہ لڑتی رہی۔ مگر
زبیدہ سات آٹھ برس کی تھی کہ وہ بہت بیمار پڑ گئی۔گھر میںکھانے پینے کو پیسہ نہ
تھا تو زبیدہ عین عید کے دن جنگلی پھولوں کی مالا گوندھ کر عید گاہ بیچنے جاتی ہے
مگر شومیِ قسمت کہ طوفان آجاتاہے اور اس کے پھول بکھر جاتے ہیں۔وہ بھی بھٹک جاتی
ہے مگر رات کے وقت ایک شخص مردعلی ملتاہے جو اسے گھر پہنچادیتاہے اور مالا کی قیمت
کے بہانے اسے ایک روپیہ بھی دیتاہے۔مرد علی
ایک دس روپے کا نوٹ بھی دستخظ کرکے آنگن میں پھینک دیتاہے جسے ماں بیٹی
بحفاظت رکھ دیتی ہیں۔زبیدہ اپنے وکیل رحمت علی خاں کے ذریعے مقدمہ جیت جاتی ہے مگر
اسے موت دبوچ لیتی ہے۔زبیدہ لاکھوں کی جائدا دکی مالک ہوگئی۔ رحمت علی اسے اعلیٰ
تعلیم دلا کر کامیاب کردیتاہے مگر جب وہ اس کی شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ مرد علی
کو ڈھونڈتی ہے۔ رحمت علی اشتہار ات کے ذریعہ بھی تلاش کرتاہے مگر مرد علی کا پتہ
نہیں چل پاتا۔ زبیدہ رسول پور واپس چلی آتی ہے اور مرد علی کے نام سے ایک یتیم
خانہ کھول دیتی ہے۔اتفاق سے ایک دن مرد علی آگئے جن کا اصل نام مظفر علی تھا۔یہ
بھی بہت ستائے ہوئے تھے اور اپنی الگ کہانی رکھتے تھے۔بہرحال زبیدہ او ر مرد علی کی
شادی ہوجاتی ہے اور ناول اختتام کو پہنچتاہے۔ ناول رادھا رانی کی کہانی بھی تقریبا
ً ایسی ہی ہے۔ ناول’بدھاوا‘ کی اہمیت بس
اس لیے ہے کہ اس میں شاد کا تصور اصلاح معاشرہ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ اس میں
انھوں نے اپنے عہد کے تہذیبی، مذہبی اور سماجی تصورات و توہمات اور توہم پرستی سے
ہونے والے نقصانات کا ذکر مفصل و مدلل طور پر کیا ہے۔ شاد کے عہد میں شادی بیاہ،
موت اور تہواروں کے موقع پر جو بے جا رسمیں ہوتی تھیں یا معمولی تقریبات میں جس
طرح فضول خرچی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، ان سے شاد بہت نالاں رہتے تھے۔ ان کا خیال
تھا کہ جس طرح فضول اخراجات تقریبات اور تیوہاروں میں ہوتے ہیں، جس طرح کے توہمات
اور عقائد رائج ہیں اور جس طرح کے مشغلوں میں ہمارے روز وشب کٹتے ہیں، ان کا لازمی
نتیجہ مفلسی ہے۔ ان تمام برائیوں کی اصلاح کیے بغیر قوم کی ترقی ناممکن ہے۔ شاد کا
یہ نقطہ نظر ان کے ناول ’بدھاوا‘ اور ’صورت حال‘ میں نمایاں طور پر ملتا ہے۔
ْْ’صورت حال‘ 1893 میں شائع ہوئی اور محض ایک کردار’بوا
خیرن ‘ کی مماثلت کی وجہ سے اسے بدھاوا کا ہی حصہ سمجھا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ نہیں
ہے۔شاد نے اپنی آپ بیتی میں ’بدھاوا‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ’صورت حال‘
کا کوئی تعلق ’بدھاوا ‘ سے ظاہر کیاہے۔شاد معاشرے میں موجود بے جا رسوم ورواج اور
توہم پرستی کی بیخ کنی کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے یہ ناول نما قصہ لکھا۔ اس میں
’بوا خیرن‘ کو وہ معاشرے کی صورت حال اور اس کے مضر اثرات سناتے ہیں اور جہاں جہاں
تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیںبوا خیرن ان سے سوالات کرتی ہیں۔ اس طرح ایک کہانی کی
فضا قائم ہوتی ہے مگر چونکہ بوا خیرن چند ہی جگہوں پر سوالات کرتی ہیں اس لیے یہ
فضا تادیر قائم نہیں رہ پاتی۔ زیادہ تر جگہوںپر شاد نے عورتوں کو مخاطب کرکے
معاشرتی خرافات کے سدباب کی کوشش کی ہے۔ مکالمات کی تکنیک میں لکھے گئے اس قصے میں
تین موضوعات واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ اول رسوم ورواج، دوم توہم پرستی اور سوم
شادیوں میں اسراف۔ شاد نے کتاب کی ابتدا میں ہی اس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے
لکھ دیا ہے کہ:
’’صورت
حال میں موجودہ رسم ورواج، بے جا توہمات
اور فضول اخراجات کی برائیاں نہایت وضاحت سے دلچسپ پیرایہ اورسلیس روزمرہ میں بیان
کی ہیں ‘‘
شاد نے’ رسم ‘کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’رسم
انسان کی بنائی ہوئی اْس گڑھت کا نام ہے جس میں کچھ فائدہ سمجھ کر عقلمندوں نے
نکالاہو یا چندلاخیروں نے فقط کھیل تماشا کے لیے اس رسم کو گڑھا ہو۔‘‘
اس کے بعد تقریباً تیس صفحات میں انھوں نے مروج غلط
رسوم و رواج کی تفصیلات مع مثال پیش کی ہیں۔اس ضمن میں ماماؤں کے ناقص کردار،فال
دیکھنے کی روایت، جاہل عورتوں کے مشورے، پنڈت جی کے بے معنی اشلوک، بروج کے من
گڑھت اوصاف، صدقہ اتارنے کی رسم،ملاّؤں کے کرتب، فتیلہ جلانے کی لعنت،بھوت پریت
اور چڑیلوں سے متعلق لایعنی ہدایات اور ان کے مضر اثرات پر انھوں نے سیر حاصل
تبصرے کیے ہیں۔
اسی طرح شادی میں ہونے والی بے ہودہ رسومات اور فضول
اخراجات کو بھی انھوں نے نشانہ بناتے ہوئے جزئیات نگاری کا مظاہرہ کیاہے۔ناچ گھر
کا قیام،مردان خانے اور زنان خانے کی الگ الگ خریداری، رانڈوںکی موجودگی، شادی کے
لیے قرض اور اس پر سود کی رقم،ابٹن ملنے سے لے کر ٹوٹکے، کنگن کی رسم، میراثنوں کی
گالیاں، براتیوں کی بدتہذیبیاں، گلگلے اور رحم جیسے مہمل کھانے، ڈانواڈوئیاں اور میل
کاڑھا جیسی بے معنی رسومات وغیرہ پرشاد نے بڑے مفکرانہ انداز میں نگاہ ڈالی ہے اور
آخر میں ایک نصیحت آموز بیان پر ناول ختم کیاہے۔ ایک جگہ وہ اپنے درد کا اظہار یوں
کرتے ہیں:
’’کیسے
کیسے امیر خاندانوں کو انھیںبے ہودہ رسومات کے پیچھے تباہ و برباد ہوتے دیکھا جن
کے گھروں میں صدہا شریف پرورش پاتے تھے، اب انھیں امیر خاندانوں کی اولاد کا یہ
حال ہے کہ یا تو ان کی شادیوں میں سیکڑوں شال دوشالے تقسیم ہوتے تھے، یا انھیںکو ایک
رضائی میسر نہیں۔جاڑے کے مارے اکڑ رہے ہیں۔‘‘12؎
شاد کا جذبۂ اصلاح اور تہذیب ومعاشرت کی زندہ تصویر کشی
وہ دوخوبیاں ہیں جن کی وجہ سے ’صورت حال‘ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اگر اس کی ماجرا
سازی اور کردار نگاری پر تھوڑی توجہ دی جاتی تو یقینا یہ ناول اپنے عہد کا نمائندہ
ناول کہلاتا۔ مگر ظاہر ہے صرف جزئیات نگاری یا نیک مقصد کسی قصے کو فنی لبادہ
پہنانے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ میرا خیال ہے کہ شادی بیاہ کی رسموں کی جزئیات
نگاری اور شاد کا اسلوب بیان اس ناول نما قصے کو دلچسپ اور اہم بنانے کے لیے کافی
ہے۔بقول پروفیسر وہاب اشرفی:
’’ہمارے
خیال میں شادی سے متعلق اتنی جزئیات کہیں دوسری جگہ نہیں مل سکتیں۔ شاد نے ایک ایک
رسم کو ذہن میں رکھاہے اور اس تفصیل سے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ آنکھوں کے سامنے
تصویر جھلکتی ہے۔‘‘ 13؎
غلط رسوم ورواج کی بیخ کنی کے علاوہ ’صورت حال‘ میں تعلیم
نسواں کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔سرسید تحریک نے عورتوں کی تعلیم کی جانب
خصوصی توجہ دی تھی۔نذیر احمد کے تمام ناولوں میں عورت اور اس کی تعلیم وتربیت خصوصی
مضمون کی حیثیت سے موجود رہی ہے۔اس لیے شاد بھی اس خیال کے حامی ہیں اور ’صورت
حال‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اچھی بیوی بننے کے لیے عورت کا تعلیم وتربیت
سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
’صورت
حال‘ کی تیسری اوربڑی خوبی شاد کا اسلوب بیان ہے۔اس میں یوں تو مختلف افراد کی
گفتگو، ان کی معاشرتی زندگی کے پس منظر میں رواں دواں اسلوب میں پیش کی گئی ہے مگر
سب سے دلکش نمونے متوسط شریف گھرانوں کی عورتوں کی بول چال میں ملتے ہیں۔ انھوں نے
طبقہ، مذہب، جنس اورعمر ہر عنصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مکالمے لکھے ہیں۔مثلاً صرف
عورتوں کے دوتین مکالمے دیکھیے اور خود محسوس کیجیے:
’’ارے
اس کی تو آنکھ کہتی تھی کہ حاشا اللہ بیماری نہیں ہے۔رات کی اڑ بڑ تم نے نہ سنی
تھی،وہ ہاتھ پائوں کا دھْننا،وہ دیدوں کے کھنچے ہوئے لال ڈورے،شکل دیکھو تو ڈرائونی
ڈرائونی... اسی لیے منع کرتے تھے کہ دونوں وقت ملتے انگنائی میں نہ نکل۔‘‘
——
’’اوئی
میّو،ہمارے گھروں میں کون سی رسم ایسی خراب اور بگاڑو ہے جن کے اکھاڑپھینکنے کو یہ
نئے زمانے کے مردوئے اپلائے پھرتے ہیں۔‘‘
——
’’ابٹنا،تو
پہلے ہی پسیریوں بنا رکھاہے۔ایک کٹوری میں گھولا گیا، دولہا یا دلہن کو اسی چوکی
پر بٹھایاگیا، ذراسا تیل ڈال کر یہ زرد لیپ سارے بدن پر تھوپا جانے لگا، ہوا کیسی
سنّاٹے کی ہے کہ توبہ ہی بھلی ہے۔سردی کہے کہ کلیجا کانپ رہاہے، دلہن کے دانت
کڑکڑارہے ہیں... اب وہ زرد لیپ بدن پر رگڑا جارہاہے اور گیت ہو رہے ہیں۔‘‘
فنی طور پر ’صورت حال‘ میں خواہ جتنی کمی ہو اسلوب
واظہار،معاشرت کی تصویرکشی اور جزئیات نگاری کے نقطۂ نظر سے اس کی قدروقیمت بیش
بہاہے۔ایک خاص طبقے کی آئینہ داری اور ایک خاص عہد کی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی
کے حوالے سے میرے خیال میںاسے شاد کی ایک عمدہ اور کامیاب تصنیف قرار دیا
جاسکتاہے۔
شاد کی دو اور کتابیں ’افیونی‘ اور ’پیر علی‘ بھی ناول
کے نام سے پیش کی جاتی ہیں۔ یہ دونوں کرداری ناول ہیں اور دو الگ الگ کرداروں کے
گر د بنے گئے قصوں پر مشتمل ہیں۔ ’افیونی‘ کا مرکزی کردار ایک میر صاحب ہیں جو عیاشی،توہم
پرستی اور افیون کے نشے میں جائداد گنواکر کھانے اور افیون کے عوض مصنف کے مکان کی
درباری کرنے لگتے ہیں۔ میر صاحب شاد کی حویلی کے بھنڈی خانے میں رہتے تھے۔ کبھی
صاحب جائداد تھے مگر افیون کے علاوہ کبوتر بازی بٹیربازی، رنڈی بازی،چوسر اور
شطرنج میں انھوں نے اپنی ساری جائداد کھودی اور اب اخیر عمر میں دووقت کھانے اور
چار آنے کی افیون پر شاد کے یہاں پڑے رہتے تھے۔ دن تو وہ کسی طرح مختلف
کاموں میںگزاردیتے مگر رات میں دالان میں بیٹھ کر لوگوں کو اپنی
دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے جن کا تعلق زیادہ تر ان کی اپنی ذات اور زندگی سے
ہوتا تھا۔ وہی کہانیاں وہ لکھ کر بھی رکھتے تھے۔جب وہ جانے لگے تو انھوں نے اپنے
مسودات شاد کے پاس رکھ چھوڑا جسے بعد میں شاد نے ’افیونی‘کا حصہ بنادیا۔بقول وہاب
اشرفی افیونی ناول سے زیادہ ایک خاکہ ہے اور خاکہ کی حیثیت سے کامیاب ہے۔مگر عام
طور پر اسے ناول کی حیثیت سے ہی شمار کیا جاتاہے۔
’افیونی‘
میں تمام قصہ میرصاحب کی زبانی دہرایا گیاہے۔شاد نے اس ناول کے ذریعہ بے جا عیاشی،
توہم پرستی کے علاوہ افیون کے مضر اثرات کی جانب توجہ دلائی ہے اور سماجی اصلاح کی
ایک کوشش اس حوالے سے بھی کی ہے۔ زبان و اسلوب رواں و سلیس ہے اور تہذیب و معاشرت
کے تاریک پہلوئوں پر طنز یہ مکالمے جابجا درج کیے گئے ہیں۔ اس ناول کے مرتب جناب
نقی احمد ارشاد نے اس کے دیباچے میں لکھاہے کہ:
’’یہ
ایک طرح کا ڈاکو منٹری ناول ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلو اور کشمکش حیات پرروشنی
ڈالی گئی ہے۔اس میں نفسیاتی بصیرت کے شواہد بھی ملتے ہیں،قوم کے لیے درس ِعبرت بھی
ہے اور ایک بگڑے ہوئے رئیس کی کہانی بھی۔‘‘14؎
کردارنگاری اور قصہ گوئی کے اعتبار سے ’پیر علی‘ کو
پروفیسر اعجاز علی ارشد نے نسبتاً بہتر ناول قرار دیاہے۔مگر نقی احمد ارشاد کے
حوالے سے پروفیسر وہاب اشرفی نے لکھاہے کہ شاد نے کوئی ناول ’پیر علی ‘ کے نام سے
لکھاہی نہیں ہے۔دراصل شاد کی تصنیفات میں جہاں جہاں پیر علی کا ذکر آیاہے اسے ترتیب
دے کر نقی احمد ارشاد نے ’پیر علی‘ بہ زبان ِ شاد پیش کردیاہے۔مورخین نے بتایاہے
کہ1857 کے غدر کے جاں باز افراد میں ایک اہم نام ’پیر علی ‘ بھی تھا۔ انگریزوں کے
خلاف بغاوت کے جرم میں جن افراد کو دار پر چڑھایاگیا ان میں پیر علی بھی تھے،جنھوں
نے موقع ملنے کے باوجود انگریز کمشنر کے سامنے دار پر چڑھنا تو قبول کرلیا مگر اس
کے سامنے خود کوسرنگوں نہیں کیا۔بدھومیاں،مولابخش،کمشنر،حاجی احمداللہ،احمدحسین،میم،ولایت
علی،ہزارسنگھ جیسے کرداروں کے مکالمات پر مشتمل سادہ اور رواں اسلوب میںلکھا گیا یہ
ناول شاد کی ناول نگاری کو نمایاں شناخت عطا کرتاہے۔
مجموعی طور پر شاد کے تمام ناول فنی طور پر ناول نگاری
کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ کیونکہ پلاٹ سازی اور کردارنگاری پر ان کا جذبۂ
اصلاح حاوی ہے۔مگر اس عہد اور اس کے تقاضوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو شاد کا یہ
جذبہ بھی کم اہم نہیں ہے۔بقول پروفیسر اعجاز علی ارشد:
’’دو
تین باتیں تو یقین سے کہی جاسکتی ہیں۔ایک تو یہ کہ شاد کا جذبۂ اصلاح صادق ہے اور
نیت بخیر(غور کیجیے تو یہ فکر اپنے عہد کے اعتبار سے کافی نئی ہے)۔دوسرے یہ کہ
انھوں نے جزئیات نگاری کا عمدہ نمونہ پیش کیاہے اورسب سے اہم یہ کہ ان کا انداز بیان
بہت دلکش ہے۔‘‘ 15؎
ناول میں کردار ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔ کہانی
کی دلچسپی کا دارومدار بہت حدتک کرداروں پر ہی ہوتاہے۔ شاد نے اپنے ناولوں میں کچھ
کردار ایسے تراشے ہیں جو ان کے ناولوں کو دلکشی عطا کردیتے ہیں۔ ولایتی،کرم حسین،سوپّن،دلہن
بیگم،میر صاحب،پیر علی،زبیدہ،خیرن اور نہال سنگھ وغیرہ ان کے نمائندہ کردار ہیں۔
عورتوں کے کردار پر انھوں نے نسبتاً زیادہ توجہ دی ہے مگر فطری عورت کے بجائے آئیڈیل
(مثالی) کردار بنانے پر زور صرف کیاہے۔ولایتی، زبیدہ، سوپّن اور خیرن وغیرہ اپنی
فکر وعمل کے اعتبار سے ایک مکمل اور باشعور عورت دکھائی دیتی ہیں۔ ولایتی کو ہی دیکھ
لیجیے۔ اس کی تعلیم گھریلو ہے مگر اس کے پاس جنرل نالج، فارسی زبان اور حالات
حاضرہ کا علم ایساہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ فارسی بول سکتی ہے، اچھے برے کی تمیز
کرسکتی ہے، غلط رسوم و رواج پر مدلل گفتگو کرسکتی ہے، ہر حادثے سے اپنی ہمت وحوصلے
کے ساتھ نبردآزما ہوتی ہے۔اس کا علم،تدبر اور عقل و خرد دیکھ کر قاری حیران و پریشان
ہوتاہے کہ کیا واقعی اس معاشرے کی عورت اس قدر مضبوط تھی؟ اس کردار کے آگے ناول
کے مرد کردار بونے دکھائی دیتے ہیں۔بقول وہاب اشرفی’ولایتی کی شخصیت ایک بھاری
پتھر ہے جس سے اس کے شوہر کرم حسین خاں کی بھی شخصیت دب کر رہ گئی ہے‘‘۔ان کے
مقابلے میں میر نیاز علی،پیر علی اور رحمت علی خاں جیسے کردار زیادہ حقیقی اور
زندہ معلوم ہوتے ہیں۔مرد کرداروں میں منفی یعنی ولن کردار وںکو شاد نے زیادہ عمدہ طریقے سے تراشاہے اس لیے ’صورت
الخیال ‘ کے داروغہ نہال سنگھ،آغا سلیمان اور انگریز اپنی ذہنیت،بدمعاشی اور عصمت
دری کی کوشش جیسے گھنائونے جرم میں ناکامی کے باوجود ذہن سے محو نہیں ہو پاتے۔یہ
الگ بات ہے کہ ان کی بدنیتی سے نبرد آزما ہونے میں ولایتی کی جرأ ت و ہمت زیادہ
کام آتی ہے۔
شاد کے ناولوں کا دوسرا وصف جو انھیںمطالعیت عطا کرتاہے
وہ ان کا اسلوب بیان ہے۔شاد کی زبان پاک صاف اور سادہ ہے۔مکالمے فطری اور رواں
دواں ہوتے ہیں۔ موضوع، حالات،طبقات اور کردار کے اعتبارسے ان کی زبان واسلوب میں
تبدیلی بھی پیدا ہوتی رہتی ہے۔پروفیسر اختر اورینوی نے شاد کے اسلوب پر اظہار خیال
کرتے ہوئے لکھاہے کہ
’’شاد
کا اسلوب بیان صاف، سادہ، فطری اور خوش گوار ہے۔ ناول کی نثر رواں، سلیس، فصیح اور
بامحاورہ ہے۔مکالمے بہت ہی فنکارانہ اور پر اثر تو نہیں تاہم اکتا دینے والے بھی
نہیں۔پڑھنے پر توجہ قائم رہتی ہے۔ سانحات اور حادثات زیادہ ہیں لیکن ان سے پڑھنے
والے کا جذبۂ تجسس بیدار رہتاہے۔‘‘16؎
سچائی یہ ہے کہ شاد بہت اچھے انشا پرداز تھے،زبان وبیان
پر ان کی گرفت کا اندازہ دیگر موضوعات پر ان کی تصانیف سے ہو جاتاہے۔مگر یہ ناول
جس نقطۂ نظر سے لکھے گئے تھے ان کا مطالبہ تھا کہ وہ ایسی زبان استعمال کریں جو
عام فہم،سادہ اور سریع الفہم ہو۔گنجلک،پیچیدہ اور معرب و مفرس زبان میں اصلاح وتبلیغ
کے فرائض انجام نہیں دیے جاسکتے۔ اس لیے نذیر احمد، راشدالخیری اور حالی کی طرح
انھوں نے بھی کبھی اپنے مقصد کو فراموش نہیں کیا۔ ناول ’صورت حال‘ اس مثال کے لیے
کافی ہے جس میں ایک لفظ بھی بھاری بھرکم استعمال نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے عام
عورتوں،مردوں کو ہی نہیں موقع محل اور مضامین کا بھی خیال رکھاہے اور اپنی زبان و
اسلوب کو علم وانشا کے معیار سے نیچے لے جاکر ایسی سیدھی سادی اور سہل زبان لکھی
ہے جو نہ صرف عام فہم ہے بلکہ صنف ناول کے ارتقا میں جس نے بنیادی کردار بھی ادا کیاہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے اسے کمال سے تعبیر کیاہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’شاد
کا کمال یہ ہے کہ وہ انتہائی عام فہم زبان میں حالات و واقعات کی جاندار تصویر کھینچ
دیتے ہیں۔ وہ الفاظ کے پابند نہیں،الفاظ ان کے پابند ہیں۔اس لیے سامنے کے وہی
الفاظ ان کی گرفت میں آجاتے ہیں جن کی ضرورت اظہار مدعا کے لیے ہوتی ہے۔‘‘17؎
شاد کے ناول، ناول کی زبان و اسلوب کے لیے ہی نہیں، اس
عہد کی تہذیبی و معاشرتی آئینہ داری کے لیے بھی یاد رکھے جائیں گے۔اس خاص عہد کے
عظیم آباداور اس کی تہذیب و ثقافت کو اگر بہتر طور پر سمجھنا ہے تو تاریخ کی
کتابوں سے زیادہ شاد کے یہ ناول کام آئیں گے جن میں خلوت و جلوت شادی و غمی اور
تاریخی و تہذیبی نشیب وفراز کے مناظر زندہ صور ت میں موجود ہیں۔جس طرح دہلی اور
لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کے لیے ہم باغ وبہار، فسانۂ عجائب، فسانۂ آزاد اور
امرائو جان اداوغیرہ کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح ’بہار ‘ کی تہذیب و معاشرت کی تصویریں
دیکھنی ہوں تو رشید النسااور خیال عظیم آبادی کے علاوہ شاد عظیم آبادی کے ناول
اور کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ثابت ہوں گی۔ ’فن ناول نگاری‘ کے اصول و ضوابط کے
اعتبار سے اگرچہ شاد کے ناول اہم اور معیاری ثابت نہ ہوں مگر پڑھنے والوں کے سامنے
جو تصویریں وہ پیش کرنا چاہتے ہیں، پندو موعظت کے جو تاثرات قاری کے دل ودماغ پر
مرتسم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی کتابوں سے اصلاح معاشرہ کا جو کام لینا چاہتے ہیں
اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔اسی لیے ادبی طورپر نہ سہی تاریخی طور پر شاد کے
ناول ہمیشہ ہمارے لیے سرمایۂ افتخار رہیں گے۔
حوالے
.1 شادعظیم
آبادی :غزلیں اور سمکچھا،از ڈاکٹر اکبر علی،استاد کالج آف کامرس،پٹنہ
.2 شاد
کی کہانی شاد کی زبانی، مرتبہ پروفیسر مسلم عظیم آبادی،انجمن ترقی اردو (ہند)،علی
گڑھ،1961
.3 شادعظیم
آبادی،فردنامہ،از اعجاز علی ارشد،مطبوعہ 2019، منجانب اردو ڈائرکٹوریٹ،حکومت بہار
ص91
.4 تتمہ
شاد کی کہانی شادکی زبانی از پروفیسرمسلم عظیم آبادی۔انجمن ترقی اردو (ہند)،علی
گڑھ،1961، ص 375
.5 شادعظیم آبادی
اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی1975، کلچرل اکیڈمی، رینا ہائوس، گیا،ص
182-83
.6 شاد کی کہانی شاد
کی زبانی،مرتبہ پروفیسر مسلم عظیم آبادی،انجمن ترقی اردو (ہند)،علی گڑھ، 1961، ص
4
.7 شادعظیم آبادی،فردنامہ،از
اعجاز علی ارشد مطبوعہ 2019، منجانب اردو ڈائرکٹوریٹ،حکومت بہار،ص 94
.8 دیباچہ صورت الخیال
از شاد عظیم آبادی
.9 شادعظیم آبادی
اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی1975، کلچرل اکیڈمی، رینا ہائوس، گیا،
ص69
.10 مقدمہ صورت الخیال
(مختصر ایڈیشن)از پروفیسر اختر اورینوی، اردو مرکز،پٹنہ۔ص۔ک
.11 بحوالہ اختر اورینوی،سراج
ومنہاج،اور وہاب اشرفی از شاد عظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری، ص85
.12 صورت حال از شاد عظیم آبادی،مطبع قیصری عظیم
آباد،پٹنہ، 1893، ص2
.13 شادعظیم آبادی
اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی1975، کلچرل اکیڈمی، رینا ہائوس، گیا،
ص113
.14 دیباچہ از نقی
احمد ارشادمرتب ناول ’افیونی‘از شاد عظیم آبادی، نسیم بک ڈپو،لکھنؤ، 1970،ص7
.15 شادعظیم آبادی،فردنامہ
از اعجاز علی ارشد،مطبوعہ 2019، منجانب اردو ڈائرکٹوریٹ،حکومت بہار ص95
.16 مقدمہ صورت الخیال
(مختصر ایڈیشن)از پروفیسر اختر اورینوی۔اردو مرکز،پٹنہ۔ص۔گ
.17 شاد عظیم آبادی
اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی1975، کلچرل اکیڈمی، رینا ہائوس، گیا، ص
389
Dr.Shahab Zafar Azmi
Department of Urdu
Patna University Patna 800005
Email: shahabzafar.azmi@gmail.com
Mob: 8863968168
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں