فکر و تحقیق، جولائی-ستمبر2024
تلخیص
عربی شاعری کی معلوم تاریخ کم وبیش ساڑھے پندرہ سو سال
پرانی ہے۔اس کے سب سے معتبر نمونے وہ قصیدے ہیں جنھیں زمانۂ جاہلیت میں سونے کے
پانی سے لکھ کر دیوار کعبہ پر معلق کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا سب سے پہلا
مستند اور معتبر نمونہ جاہلیت کے بانکے شاعر امرؤ القیس کا معلقہ ہے۔یعنی عرصۂ
دراز سے عرب میں شاعری کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہ بات بھی محققین نے لکھی
ہے کہ اگرزمانۂ جاہلیت میں کسی قبیلے میں کوئی شاعر پیدا ہوتا تھا تو قبیلے والے
اس مناسبت سے جشن برپا کرتے تھے، ایک دوسرے کو خوشخبریاں سناتے تھے اوردعوتوں کا
اہتمام کرتے تھے کیونکہ شاعر اپنی قوم اور قبیلے کی عزت وعظمت کا محافظ ہوتا
تھا۔وہ قبیلے کا دفاع کرتا تھااور اپنی تاریخ وتہذیب اور کارناموں کی تصویر کشی
کرتا تھا۔ جس طرح آج کہاجاتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اسی طرح یہ بات عربی
کے محققین وناقدین نے بھی کہی ہے کہ عربی شاعری ایک ایسارجسٹر ہے جو عربوں کی تاریخ
و تہذیب کا آئینہ ہے۔ اسی وجہ سے جاہلیت سے لے کر عصر حاضر تک عرب میںشاعری کا بے
انتہا اہتمام کیاگیا اور عربی تاریخ کے ہر دور میں شعرا کی بے انتہا کثرت رہی حتی
کہ کبھی کبھی ایک خاندان میں ایک سے زیادہ شاعرپیدا ہوئے۔ ایسے خاندانوں کوہم ’شعری
گھرانے‘ کہہ سکتے ہیں۔ اردو میں ہم کئی شعری گھرانوں سے واقف ہیں لیکن عربی میں بھی
ایسے خاندان موجود ہیں جنھیں ہم ’شعری گھرانے‘ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ
اس تصور کے ساتھ ابھی اس موضوع پر بات نہیں کی گئی ہے اس لیے ہم نے اس مضمون میں
عربی کے چارایسے قدیم شعری گھرانوں پر روشنی ڈالی ہے جن میں امرؤ القیس،طرفہ بن
عبد،مرقش اکبر واصغر اور زہیر بن ابی سلمی کے شعری گھرانے شامل ہیں۔
کلیدی
الفاظ
عربی،شاعری،شعرا،قبیلے،گھرانے،قصیدے،غزل، مرثیہ،نعت، دیوان
—————
عربی
شاعری کے آغاز کے وقت کا تعین بہت مشکل ہے لیکن عربی شاعری کی روایت کی تاریخ کم
وبیش ساڑھے پندرہ سو سال پرانی ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ مہَلہِل بن ربیعہ (وفات:
530 عیسوی)عنبر بن عمر وبن تمیم، درید بن زید بن نہد، اعصُر بن سعد بن قیس عیلان،
زہیر بن جناب کلبی، افوہ اودی اور ابو دواد ایادی وغیرہ عربی کے ان قدیم ترین
شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے طبع آزمائی کی اورعربی میں شعر کہا۔جاہلیت
کے مشہور زمانہ شاعر رئیس المتغزلین امرؤ القیس (وفات: 540 عیسوی تقریبا) کاوہ قصیدہ
جو کعبہ کے دیواروں پر لٹکائے جانے والے سات قصیدوں میں سے ایک ہے، عربی کی سب سے
پہلی مستند اور معتبرشاعری کا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ شاعری کے آغاز کے بارے میں
بیان کیا جاتا ہے کہ عربوں نے سب سے پہلے رجز سے شاعری کا آغا ز کیا۔ مضر بن نزار
نامی شخص نے سب سے پہلا رجز کہااور وہ یوں کہ وہ اپنے اونٹ سے گرگیا اور اس کا
ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگ اسے اٹھاکر لے جانے لگے تو وہ کہہ رہا تھا ’وا یداہ، وا یداہ‘۔
کہا جاتا ہے جب اونٹوں نے ’وایداہ وایداہ‘ سنا تو وہ اور تیز بھاگنے لگے۔چنانچہ
عرب جب اونٹ کو بھگاتے تو وہ ’ہایدا، ہایدا‘ کہتے تھے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ عرب
بہترین نثر میں کلام کرتے تھے لیکن پھر انھوں نے اپنے مکارم اخلاق، جمال نسب،اچھے
دنوں، محبوب وطن اورعظیم ترین بہادروں کی یادوں سے آنے والی نسلوں کو روشناس کرانے
کے لیے کچھ ایسے انداز میں کلام کرناشروع کیا کہ جب وہ باوزن ہوگیا تو اسے شعر کا
نام دے دیا۔ 1؎
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ امرؤ القیس وغیرہ کے زمانے سے
جو شاعری ہم تک پہنچی ہے اس طرح کی معیاری شاعری تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو
ہزار برس کا عرصہ چاہیے۔ 2؎کیونکہ امرؤ القیس یا معلقات جیسی معیاری شاعری کے
شاہکارنمونوں تک پہنچنے کے لیے شاعروں نے مغز ماری کی ہوگی۔سجع بندی سے رجز تک
پہنچے ہوں گے۔ قطعات سے قصیدے بنے ہوں گے۔ ایک صنف سے مختلف اصناف تک رسائی حاصل کی
ہوگی۔ شعر کہہ کر اس پر نظر ثانی کی ہوگی۔ اس میں حذف واضافہ کیا ہوگا۔ کاٹ چھانٹ
کی ہوگی پھر جاکے کہیں شعر کی موجودہ شکل سامنے آئی ہوگی اور یہ فسانہ مہلہل وغیرہ
سے صدیوں قبل شروع ہوا ہوگا۔ 3؎
احمد امین لکھتے ہیں:
’’اس وقت (جاہلیت میں)جب کوئی حادثہ پیش آتا
تھا یاجب شاعروں کا کوئی دل دُکھاتا تھا یا جب کوئی ان کے جذبات واحساسات کو
بھڑکاتا تھا تب وہ شعر کہتے تھے‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں:’’ شاعر قبیلے کی ضرورت تھا۔
وہ اس کے فضائل کی تشہیر کرتا۔ اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیتاتھا۔ جنگوں میںقبیلے
کے لوگوں کو ہمت وحوصلہ دیتا اور انھیں للکارتا۔ امن وآشتی کے وقت اسے شانت رہنے کی
ترغیب دیتاتھا‘‘۔ انھوں نے مشہور نقادابن رشیق کی کتاب العمدہ کے حوالے سے لکھا ہے
کہ: ’’جب کسی قبیلے میں کوئی شاعر ابھرتا تو سارے قبیلے کے لوگ اسے مبارکباددیتے
تھے۔ اس کے لیے کھانا بناتے تھے۔ عورتیں اکٹھا ہوکر اسی طرح سارنگی بجاتی تھیں جس
طرح شادیوں میں بجاتی تھیں۔ مرد اور بچے ایک دوسرے کو خوش خبریاں سناتے تھے۔ کیونکہ
شاعر ان کی عزت وناموس کا محافظ ہوتا تھا۔ ان کے حسب نسب کا دفاع کرتا تھا۔ ان کے
مناخر ومآثر کو شعر کے پیکر میںڈھال کر لازوال بناتا تھا اور ان کے تذکرے کو بلند
کرتا تھا۔‘‘4؎
اس طرح زمانۂ جاہلیت میںشاعر کو ایک اہم مقام حاصل
تھا۔ وہ عربوں کے مآثر ومفاخر اور عربوں کی پوری تاریخ کو اس طرح قلمبند کرتا تھا
کہ شاعری کو ’عربوں کا رجسٹر‘ تک کہہ دیاگیا۔5؎
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جو کلام کہاجاتا تھا اسے گاکر پڑھا
جاتا تھا۔مشہور جاہلی شاعر اعشی کے بارے میں جرجی زیدان نے لکھا ہے کہ وہ جب کوئی
قصیدہ کہتاتھا تو اسے گاکر سناتا تھااسی لیے اسے عربوں نے ’صناجۃ العرب‘ کالقب دے
دیا تھا۔6؎ اسی طرح جب کسی بادشاہ کے
دربار میں یاکسی امیر،کبیر اور وزیرکے دربار میں شاعرقصیدے کے ساتھ حاضر ہوتا
تھاتو وہ اسے کھڑا ہوکر پڑھتا تھا۔ اگراس کی آواز اچھی نہیں ہوتی تھی تو وہ کسی
حسن الصوت لڑکے کو اپنا قصیدہ دیتا جسے وہ پڑھ کر محفل میں سناتا تھا۔7؎
عربی شاعری کی تاریخ بہت سنہر ی ہے۔ بڑے بڑے شعرا سے
بھری پری ہے۔ عربی میں شاعری کا ایسا رواج تھا کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔شعرا
کی کثرت تھی۔ کسی کسی قبیلے میں ایک سے زائد شاعر پیدا ہوئے۔ حالانکہ شاعری وہبی
صلاحیت کا نام ہے لیکن یہ کسبی بھی ہے۔ ریاضت اور مشق سخن سے اس میں نکھار پیداہوتاہے۔کبھی
ذاتی مسائل،کبھی سماجی حالات اور کبھی گھریلو فضائیں بھی انسان کو شاعر بنادیتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ خاندان میں اگر ایک شاعر ہوتا ہے تو اس کو دیکھ
کر یا اس کی تربیت کے زیر اثر خاندان میں اور بھی شاعر پیدا ہوجاتے ہیں جو اس شعری
ورثے کو آگے منتقل کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کو ’شعری گھرانے‘ کہاجاتا ہے۔ اردو میں
ہم کئی شعری وادبی گھرانوں سے واقف ہیںمگر عربی میں بھی شاعری کے سماجی مقام
ومرتبے کی وجہ سے اور شاعر کو سماج میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جانے کی وجہ
سے کئی ایسے خاندان نظر آتے ہیں جن میں ایک سے زیادہ شاعر پیدا ہوئے اور جنھیں ہم
’عربی کے شعری گھرانوں‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم عربی کے انہی شعری
گھرانوں کے بارے میں گفتگو کریں گے لیکن ہماری کوشش ’قدیم شعری گھرانوں‘ تک محدود
رہے گی۔
پہلا گھرانہ
عربی کا پہلا شعر ی گھرانہ مہلہل بن ربیعہ، امرؤ القیس
اورعمرو بن کلثوم کا ہے۔امرؤ القیس مہلہل کی بہن فاطمہ بنت ربیعہ کا بیٹاتھا جب کہ
عمروبن کلثوم مہلہل کی بیٹی کا بیٹاتھایعنی مہلہل امرؤ القیس کا ماموں اورعمرو بن
کلثوم کا ناناتھا۔
مہلہل(وفات: 530 عیسوی ) کا اصل نام عدی بن ربیعہ
تھا۔اس کا تعلق عرب کے مشہور خاندان قبیلۂ تغلب سے تھا۔یہ اس وقت کا بہت بڑا قبیلہ
تھا۔کہاجاتا ہے کہ:
’’عربوں میں اس قبیلے کی ایسی شان وشوکت اور اس
کاایسارعب و دبدبہ تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ اگر اسلام کی آمد میں مزیدتاخیر ہوئی
ہوتی تو بنو تغلب دوسرے قبیلے کے لوگوں کو ہضم کرجاتے۔‘‘ 8 ؎
ایسے بڑے قبیلے میں مہلہل کی ولادت ہوئی۔ لہو ولعب میںاس
کی نشو ونما ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہی سب سے پہلے قصیدہ کہا اسی لیے اس کا
لقب مہَلہِل پڑ گیا۔ہلہَلَ کا لغوی معنی ہے شعر کو عمدہ بنانا۔ بغیر اصلاح وتہذیب
کے جیسا کہا ہو ویسا ہی سنادینا۔ 9 ؎
اس کا ایک بھائی تھا جس کا نام وائل تھا۔ وہ قبیلۂ
تغلب کا سردار تھا۔ اسے جوجاہ وحشم میسر تھا اس نے اسے اتناظالم بنادیا تھا کہ
بارش کے بعد جہاں جہاں پانی رک جاتا تھا یاجہاں سبزے اگ جاتے تھے وہاں وہ کتے کا ایک
بچہ چھوڑ دیاکرتا تھا لہٰذاجب وہاں کوئی آتا تو وہ کتابھونکنے لگتا جس سے وائل کو
پتہ چل جاتا تھااور اس کی اجازت کے بغیر وہاں کوئی آ نہیں سکتا تھا۔ اسی لیے اس کا
لقب’کلیب‘ پڑگیا۔10؎ اس کے مقام ومرتبے کا
عالم یہ تھاکہ ’العالیہ‘ نامی زمین میں اس کی ایک چراگاہ تھی جس میں اس کی اجازت
کے بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔نہ ہی اس میں اپنے اونٹوں کے ساتھ کوئی داخل
ہوسکتا تھا۔نہ ہی وہاں اس کی آگ کے ساتھ کوئی اپنی آگ جلا سکتاتھا۔کلیب نے بکر قبیلے
کی ایک شاخ قبیلۂ شیبان میں شادی کر رکھی تھی۔ہوا یوں کہ ایک دن جساس بن مرّہ شیبانی
کی خالہ ’بسوس‘ کی ’سراب‘ نامی اونٹنی اس کی اس چراگاہ میں داخل ہوگئی۔ کلیب نے جب
دیکھا کہ اس اونٹنی نے وہاں رکھے ہوئے کبوترکے انڈوں کو توڑ دیا ہے تواس نے اس کے
تھن کا تیر سے نشانہ لگایا۔ جساس نے دیکھا تو وہ کلیب پر جھپٹ پڑا اور کلیب کو قتل
کردیا۔ اس کے بعد بکر اور تغلب کے درمیان جو لڑائی چھڑی توچالیس برس یعنی 534 عیسوی
تک دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کے شعلے بھڑکتے رہے۔ اس لڑائی کو ’حرب بسوس‘ کے
نام سے جانا جاتا ہے۔ جساس اس لڑائی میں مارا جانے والا سب سے آخری شخص تھا۔ عربوں
نے اس لڑائی کو منحوسیت کے لیے ضرب المثل بنادیا۔11؎ کلیب کے قتل کے بعد مہلہل نے اس کے مرثیے میں
بہت سارے اشعار کہے۔ابو تمام نے دیوان حماسہ میں کلیب کے مرثیے میں کہے گئے مہلہل
کے اشعار ذکر کیے ہیں جن میں سے کچھ اشعار یوں ہیں ؎
نبئتُ أنّ النارَ بعدکَ اوقدَت
واستبّ بعدکَ، یا کلیبُ المجلسُ
وتکلّمُوا فی أمرِ کلّ عظیمۃٍ
لو کنتَ شاہدہُم بہا لم ینبَسُوا
تَبکی علیکَ، ولستُ لائمَ حرّۃٍ
تأسی علیکَ بعبرۃٍ وتنفّسُ 12؎
(کلیب!تمھارے بعد آگ کے شعلے بھڑکادیے گئے،
تمھارے بعد مجلسوں کا رخ واضح ہوگیا۔ تمھارے بعد لوگوں نے بڑے بڑے معاملات میں بولنا
شروع کردیا لیکن اگر تم زندہ ہوتے تو وہ منہ کھولنے کی جرأت نہیں کرتے۔ تمھاری
موت پر رو رو کر کتنوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اس کے لیے میں ان کو ملامت بھی نہیں
کرتا۔)
حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب کشف الظنون میں مہلہل کے دیوان
کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہ تومطبوعہ ہے اورنہ متداول۔البتہ اس کے کچھ اشعار الاغانی،
خزانۃ الادب، دیوان حماسہ اور شعرا النصرانیۃ وغیرہ کتابوں میں مذکور ہیں۔13
؎ جرجی زیدان نے لکھا ہے کہ: ’’مہلہل سب
سے قدیم شاعر ہے جس کادیوان مرتب کیا گیا لیکن یہ دیوان ہم تک نہیں پہنچا ہے‘‘۔14
؎ 92 قبل ہجرت مطابق530 عیسوی میں حالت قید
میں اس کا انتقال ہوا۔ بعض نے 531عیسوی لکھا ہے۔بعض نے لکھا ہے کہ طولانی عمر اور
اختلال عقل کی وجہ سے بادیہ میں کہیں اکیلے اس کی وفات ہوگئی۔15؎ محمود حسن ابو ناجی نے اپنی کتاب شعراء العرب
الفرسان فی الجاہلیۃ وصدر الاسلام میں بہت تفصیل سے مہلہل کا ذکر کیا ہے۔ 16؎
امرؤ القیس(500-540) سبعہ معلقات کے شعرا میں سر فہرست
ہے۔ اس کا تعلق نجد سے تھا۔ استاد الشعرا ہے۔ رئیس المتغزلین ہے۔اس کا باپ حجر،بنی
اسد کا سردار تھا۔ اس لیے ناز ونعم میں اس کی نشو ونماہوئی۔ عیاش تھا۔ کھلنڈرا
تھا۔ لہو ولعب، کھیل کود اور مٹرگشتی میں مست رہتا تھا اس لیے باپ نے اسے گھر سے
نکال دیا تھاچنانچہ وہ مارا مارا پھرتا تھا، شعر وسخن کی تخلیق کرتاتھا اور شباب
وکباب میں زندگی گزارتاتھا۔ احمد امین لکھتے ہیں کہ:
’’ادب کے مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
مضامین وخیالات کی جدت نگاری میں امرؤ القیس کو تمام عرب شعرا پر سبقت وفوقیت حاصل
ہے۔اس نے شاعری کے ایسے دروازوں کو وا کیا،
ایسے استعاروں کا استعمال کیا اور ایسے مضامین کو شاعری میں برتا جن کا ابھی
تک کسی شاعر کو خیال تک نہیں آیا تھا۔ پرشکوہ الفاظ، عمدہ اسلوب بیان، بے تکلف
محاوروں اور بلیغ حکمت کے ساتھ اس نے غزل کی بنیاد رکھی۔ وصف اور منظر نگاری میں
لمبے لمبے قصیدے کہنے شروع کیے اور اس میں ندرت اور گہرائی وگیرائی کا مظاہرہ کیا۔اس
کی شاعری اس کی زندگی اور اس کی قوم کی تاریخ کا آئینہ ہے۔‘‘ 17؎
اس کا قصیدہ جو کہ سبعہ معلقات کا پہلا قصیدہ ہے، عربی
شاعری کا سب سے پہلاباضابطہ اور مکمل قصیدہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اسی قصیدے سے عربی
شاعر ی کی روایت کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔احمد اسکندری لکھتے ہیں:
’’وہ سب سے پہلا شاعر ہے جس نے کھنڈرات پر رک
کر دوستوں کو یادکرنے میں، اپنے غم کو غلط کرنے میں، عورتوں کو ہرنوں سے اورانڈے کی
سفیدی سے تشبیہ دینے میں، وحشی جانوروں کے شکار میں، گھوڑے کی تعریف وتوصیف میں،
عورتوں کے ساتھ مغازلے میں، بہترین استعارہ سازی میں، مختلف قسم کی تشبیہات سازی میں
ایسا شاندار کلام تخلیق کیا کہ اسے یہ کہہ دیاگیا کہ یہی ان کا پہلا خالق اور جدت
نگار ہے۔‘‘18؎
استعارے کے گل ولالہ سے آراستہ رات کی تصویر کشی میں اس
کے یہ اشعار ملاحظہ کریں ؎
ولیلٍ کمَوجِ البحرِ أرخَی سدولَہ
علیّ بِأنواع الہموم لیبتلِی
فقلتُ لہ لمَا تمطّیٰ بصُلبہِ
وأردفَ أعجازاً وّ نائَ بِکلکلِ
ألا أیُّہا اللیلُ الطویلُ ألا انجَلی
بِصبحٍ وما الإصباح منک بِأمثلِ
فیا لکَ مِن لَیلٍ کأنّ نجومَہُ
بأمراس کتّان اِلی صمّ جندلِِ
(موجِ دریا کی مانند بہت ساری راتیں جنھوں نے
مجھے جانچنے پرکھنے کے لیے مجھ پرنوع بہ نوع حزن والم اور غموںکے پردے ڈال دیے
تھے، تو جب اس رات نے اپنی کمر دراز کی اور کولھے کو پیچھے نکالے اور سینے کو
ابھارکر چلنے لگی تو میں نے اس سے کہا۔اے شب دراز صبح بن کر روشن ہوجا۔ (پھر ہوش میں
آکر کہتا ہے) اور صبح بھی تو تجھ سے بہتر نہیں۔اے رات! کتنے تعجب کی بات ہے ایسا
لگتا ہے جیسے کہ اس کے ستارے مضبوط رسوں کے ذریعے ٹھوس پتھروں سے باندھ دیے گئے ہیں۔)
گھوڑے کی سرعت و تیزی کی تصویر میں اس کے یہ اشعار دیکھیں ؎
مکرٍّ مِفرٍّ مُقبلٍ مُدبرٍ معاً
کجُلمودِ صَخرٍ حطّہ السّیلُ مِن عَل
(وہ گھوڑا بیک وقت بڑا حملہ آور ہے، تیزی سے
پیچھے ہٹنے والا، آگے بڑھنے والا، پشت پھیرنے والا ہے۔بالکل اس بھاری پتھر کی طرح
جسے سیلاب کے بہاؤ نے اوپر سے نیچے گرادیا ہو۔)
نیل
گایوں کی تصویر کشی میں اس کی بے مثال تشبیہ کی مہارت ملاحظہ کریں ؎
فعَنّ لنَا سِربٌ کأنّ نُجومَہ
عَذاریٰ دُوارٍ فی مُلائٍ مزیّلِ
(ہمارے سامنے ایسا ریوڑ آیا جس کے بھیڑ اور
گائیں جیسے کہ دراز دامن چادر میں ملبوس صنم دوار کی دوشیزائیں ہوں جو اس کے گرد
طواف کررہی ہوں۔)
بجلی
کی چمک کی منظر نگاری میں اس کے یہ شعر دیکھیں استعارے کی کیا جوت جگائی گئی
ہے ؎
أصَاحِ تَریٰ بَرقاً کأنّ وَمیضَہ
کلمْعِ الیَدینِ فِی حبیٍّ مُکلّلِ
یضیئُ سَناہُ، أو مصَابیحُ راہِب
أہانَ السَلیطَ بالذُّبالِ المُفتَّلِ
(میرے یار! کیا تو بجلی کی چمک کو دیکھ رہا
ہے؟ اگر نہیں دیکھ رہا ہے تو آ میں تجھے دکھاؤں، تہ بہ تہہ ابر کے پیچھے وہ ایسے
نظر آرہی ہے جیسے دونوں ہاتھوں کی حرکت کی چمک ہو۔یہ چمکنے والی بجلی ہے یا راہب کی
شمع جس نے بٹی ہوئی بتیوں پر تیل گرادیا ہو۔)
بارش کے بعد کوہ ثبیر کی حالت اوراس پر بارش کے اثرات کی
تصویر کشی کا جمال دیکھیے ؎
کأنّ ثبیراً فِی عَرانین وبلِہِ
کبیرُ أناسٍ فِی بِجادٍ مُزمَّلِ
کأنّ ذُریٰ رأسِ المُجَیمِرِ غُدوۃً
من السیلِ والغُثائِ فَلکۃُ مِغزلِ19؎
(کوہ ثبیر اس ابر کی ابتدائی موٹی موٹی
بوندوں والی تیز رفتار بارش میں ایسا نظر آرہا ہے جیسے کہ وہ لوگوں کا ایسا سردار
ہو جو دھاری دار کملی میں لپٹا ہوا ہے۔اور مجیمر ٹیلے کی چوٹیاںپانی کے سخت بہاؤ
اور خش وخاشاک کی وجہ سے صبح کے وقت ایسے نظر آرہی ہیں جیسے کہ وہ چرخے کی ابھری
ہوئی نوک۔)
اس کا دیوان معروف ومتداول ہے۔ سب سے پہلے اسے ڈی سیلن
مستشرق نے پیرس سے 1837 میں شائع کیا اس کے بعد 1958 میںمحمد ابو الفضل ابراہیم نے
دار المعارف قاہرہ سے شائع کیا۔20؎
عمرو بن کلثوم(وفات: 570) سبعہ معلقات کے شعرا میں شمار
کیا جاتا ہے۔ مہلہل کا نواسہ تھا۔ اس نے ایک سو پچاس برس کی لمبی عمر پاکر تقریبا
600ء میں وفات پائی۔ 21؎ نجیب الطرفین
تھا۔ بڑے قبیلے کا فرد تھا۔’’شجاعت مند تھا۔ بہادر تھا۔ خوش خصال تھا۔جاہلیت کے
عظما میں شمار کیا جاتا تھا۔ پندرہ برس کی عمر میں ہی قبیلے کا سردار بن گیا
تھا۔بہت ساری لڑائیوں میں اس نے اپنے قبیلے کی قیادت کی۔‘‘22 ؎ اس میں بڑی خودداری اور غیرت وحمیت تھی یہاں تک
کہ غیرت میں آکر اس نے حیرہ کے بادشاہ عمر و بن ہند کو قتل کردیا تھا کیونکہ اس کی
ماں نے عمرو بن کلثو م کی ماں کو بے عزت کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس کے کلام کا سب سے مشہور حصہ اس کا معلقہ ہے۔23؎ جو کہ اس کے کلام کا سب سے شاہکار حصہ مانا
جاتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس میں ایک ہزار شعر تھے لیکن ان میں سے چند ہی ہم تک پہنچ
سکے۔عمروبہت بڑا شاعر تھا۔ سبعہ معلقات کے شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔خطابت اور
شاعری دونوں میں یکساں مہارت وشہرت کا حامل تھا۔اس کے معلقے کا بیشتر کلام شاندار
فخریہ کلام سے ممتاز ہوتا ہے۔احمد امین لکھتے ہیں کہ:
’’اس
کے کلام کی واضح خصوصیت اور امتیازی شان سلاست وروانی کے ساتھ پرشکوہ اسلوب کا
امتزاج ہے۔ ذات اور قبیلے پر فخر ہے اور فخر میں مبالغہ آرائی ہے۔ یہ معلقہ ایسے
کلام سے عبارت ہے جوایسے سید القوم کی زبان سے تخلیق پایا ہے جسے اپنی سیادت وقیادت
پر فخر ہے۔ اپنے قبیلے پر جسے ناز ہے۔ اپنے کارناموں کا جو نغمہ گاتا ہے۔ اس کے اس
معلقے کا تغلب قبیلے پر اس قدر اثر ہوا کہ اسے انہوں نے اپنا ترانہ بنالیا تھا۔ ہر
مناسبت اور ہر موقعے کا آغاز وہ اسی معلقے سے کیا کرتے تھے۔‘‘ 24؎
معلقے کے سب سے اخیر میں وارد اس کے یہ تین فخریہ
اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ وہ کہتا ہے ؎
ملأنَا البَرّ حتّی ضَاقَ عنّا
وظَہرَ البحْرِ نمْلؤہُ سفِینَا
لنَا الدنیَا ومَن أضحیَ عَلینَا
ونبطِشُ حِینَ نبطِشُ قادرینَا
إذَا بَلغَ الفِطامَ لنَا صَغیِرٌ
تخِرُّ لَہ الجبَابرُ سَاجِدینَا25؎
(ہماری کثرت تعداد سے زمین تنگ پڑ گئی ہے۔
ہماری کشتیوں کی تعداد کی کثرت سے سمندروں کا دامن بھرگیا ہے۔دنیا اور دنیا کے لوگ
سب ہمارے تابعدار ہیں۔جب ہم چاہتے ہیں تو پوری طاقت وقوت سے حملہ کرتے ہیں۔ ہمارے
رعب ودبدبہ کا عالم یہ ہے کہ ہمارے بچے دودھ پینا چھوڑتے ہیں جبھی سے ان کے سامنے
عظمائے قوم مارے خوف کے سجدے میں گرجاتے ہیں)
دوسرا گھرانہ
عربی کا دوسرا شعری گھرانہ سبعہ معلقات کے مشہور شاعر
طرفہ بن العبدکا گھرانہ ہے۔اس کا ماموں متلمس، متلمس کا ایک بیٹا عبدا لمنان،طرفہ
کی ماں اور متلمس کی بہن کی بیٹی خرنق بنت بدرسب کے سب شاعر تھے۔
طرفہ
بن عبد (543-569) کا نام عمرو تھا۔کہاجاتا ہے اس کا نام عبید تھا۔ طرفہ اس کا لقب
تھا۔اس کے ایک شعر میں وارد لفظ ’مُطَّرِفاً‘ کی وجہ سے ’طرفہ‘ کے لقب سے وہ مشہور
ہوگیاتھا۔26؎ یہ بھی کہا گیاہے کہ امرؤ
القیس کے بعد یہ سب سے بڑا شاعر تھا۔27 ؎
ابن قتیبہ نے لکھاہے کہ:’’طرفہ سب سے عمدہ قصیدے کہتا تھا۔‘‘ 28 ؎ اس کا ماموں متلمس بھی شاعر تھا۔ کہاجاتا ہے کہ
’’بچپن میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا تو اس کے چچاؤں نے اس پر ستم کے پہاڑ توڑے
اور اس کی ماں وردہ کے حقوق غصب کرلیے تو اس نے ان کی ہجو کرڈالی۔اس نے لہو ولعب
والی زندگی جی۔ مال ودولت کو خمر وشراب میں خرچ کرتارہا اور شہر شہر گھومتا
پھرتارہا یہاں تک کہ اس کا سارا مال اور پیسہ ختم ہوگیا تو وہ اپنے گھر واپس آیا۔
اس کے بھائی نے اسے کچھ پیسے دیے تواس نے اسے بھی لہو ولعب میں خرچ کردیالہٰذا اس
نے حیرہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کا قصد کیا۔ عمروبن ہند کو554 میں بادشاہ بنایاگیا
تھا۔ شعرا اس کے دربار میں حاضر ہوتے، اس کی مدح میں قصیدے پڑھتے اور انعام واکرام
حاصل کرتے۔ طرفہ بھی اپنے ماموں (اور مشہور شاعر) متلمِّس کے ساتھ عمرو بن ہند کی
خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے ان دونوں کی خوب خاطر تواضع کی اور انھیں اپنے بھائی
قابوس کی صحبت میں رکھ دیا۔ قابوس کوعمرو کاجانشیں نامزد کیاگیا تھا۔طرفہ ایک
بانکا نوجوان تھا۔ لہوولعب، سرمستی اور شکار اس کا مشغلہ تھا۔قابوس جہاں جاتا طرفہ
بھی اس کے ساتھ جاتااور شراب وکباب کی محفلوں میں اس کا ندیم ومصاحب بن کر رہتا۔ لیکن
طرفہ آزاد منش انسان تھا۔ آزاد ماحول میں اس کی پرورش ہوئی تھی اس لیے قابوس کی
حاشیہ نشینی سے اکتا گیا تھا۔ اس کی خدمت میں باریابی کی اجازت ملنے تک وہ اس کے
دروازے پر کھڑا رہتا تھالہٰذا اس نے عمرو بن ہند اور اس کے بھائی قابوس کی ہجو
کرڈالی۔ عمرو بن ہند کو معلوم ہوا تو اس نے دل میں یہ بات چھپالی اور طرفہ کو ایک
خط دے کربحرین کے گورنر کے پاس روانہ کیا جس میں اسے قتل کردینے کاحکم تھامگر اسے یہ
بتایا کہ بحرین کے گورنر کو اس نے اسے انعام دینے کے لیے خط دیا ہے۔ جب وہ بحرین
پہنچا تو بحرین کے گورنر نے اسے قتل کردیا۔اس وقت طرفہ کی عمر چھبیس سال سے زیادہ
نہ تھی۔29 ؎ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ
طرفہ اور متلمس دونوں نے عمرو بن ہند کی ہجو کی اس لیے وہ دونوںسے ناراض ہوگیااوراس
نے بحرین کے گورنر معکبرکو دو خط دیے۔وہ دونوں خط لے کر چلے۔ حیرہ کے قریب پہنچے۔
وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ بزرگ سے خط کا واقعہ بتایا تو اس نے اس کے مشمولات
پر شبہے کا اظہار کیااور کہا خط کھول کر پڑھ لوہو سکتا ہے تمھیں اس سے کوئی تکلیف
پہنچ جائے۔متلمس کو پڑھنا نہیں آتا تھا۔ وہیں ایک لڑکا بکریاں چرا رہا تھا۔ وہ
پڑھنا جانتا تھا۔ متلمس نے اس سے اپنا خط پڑھوایا تو اس میں اس نے متلمس کو قتل
کرنے کا حکم دیا تھا۔ متلمس نے خط کو پھاڑ کر دریا میں پھینک دیااور طرفہ سے کہا
تم بھی اپنا خط پڑھوا لو۔ اس نے کہ انھیں عمرو بن ہند میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا۔
وہ خط لے کر معکبر کے پاس گیا۔ اس میں عمرو بن ہند نے اسے قتل کاحکم دیا تھا
چنانچہ معکبر نے اسے قتل کردیا۔30 ؎ جب متلمس کو طرفہ کے قتل کی خبر پہنچی تو اس
نے یہ اشعار کہے ؎
عصَانِی فَمَا لاقَی الرّشاد واِنّما
تتبیّن مِن أمرِ الغَویّ عواقِبُہ
فَأصبحَ محمُولاً علَی آلۃِ الرّدی
تمجُ نجیع الجوف منہُ ترائبُہ
(اس نے میری بات نہیں مانی لہٰذا اسے صحیح
راستے کا پتہ نہیں چلا۔در اصل نا سمجھوں کے معاملات کی حقیقت کو اس کے نتائج اور
انجام ہی واضح کرتے ہیں۔بالآخر اسے موت کے تابوت پر ڈال دیا گیا جہاں اس کی شہ رگ
اس کے دل کے خون کے ساتھ بہہ رہی تھی)
طرفہ بہت ذہین اور حاضر جواب تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ ایک
دن وہ عمرو بن ہند کی مجلس میں حاضرتھا۔ وہاں مسیب بن علس نے اپنا قصیدہ پڑھا جس
کے ایک شعر میں اس نے لفظ’ صیعریہ‘ کو مونث معنی میں استعمال کردیا تھاجب کہ وہ
مذکر معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ طرفہ نے وہ شعر سنا تو فورا بول پڑااور کہا۔ صیعریۃ
اونٹنی کی صفت ہے نہ کہ اونٹ کی اور صاحب نے اس لفظ کو اونٹ کے لیے استعمال کردیاہے۔
مسیب نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا گیا طرفہ۔ ا س نے کہا کہ اس کی زبان درازی ایک دن اس
کی جان لے لے گی۔چنانچہ وہی ہوا جس کا اس نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔31 ؎ بعض لوگوں نے اس واقعے کو مسیب کے بجائے متلمس
کی طرف منسوب کیا ہے۔32؎
طرفہ نے بچپن میں ہی شعر کہنا شروع کردیا تھایہاں تک کہ
بیس برس سے کم عمر میں ہی وہ ایک قادر الکلام شاعر بن گیا۔عمر فروخ لکھتے ہیں کہ
طرفہ کم گو تھا لیکن کم سنی ہی میں اسے اتنی عمدہ شاعری میں مہارت ہوگئی تھی جسے
دوسرے شعرا بہت طویل عمر کے بعد اور بہت زیادہ شعر کہہ لینے کے بعد حاصل کرپاتے ہیں۔33
؎
اس کے دیگر ابیات وقصائد کے علاوہ اس کا معلقہ اس کے
کلام کا سب سے عمدہ نمونہ ہے۔احمد امین لکھتے ہیں:
’’مجموعی طور سے اس کا معلقہ اس کے سب سے
عمدہ کلام میں شمار کیا جاتا ہے۔اس نے اپنے معلقے کی صورت میں شاعروں کے سامنے ایسے
نئے مضامین وخیالات کا دروازہ وا کیا جن میں اس نے غم ذات کی خوب صورت تصویر کشی کی
ہے۔سلاست وروانی اور بلیغ پیرائے میں اس نے ایسے جدید خیالات باندھے ہیں کہ ازیں
قبل کسی شاعر نے ان خیالات کو باندھنے کی کوشش نہیں کی۔صرف ناقہ کی تصویر کشی میں
تھوڑا سا مشکل پسندی یا سلاست سے ہٹ کر کلام تخلیق ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ قبیلۂ ربیعہ کی پوری شاعری سلاست وروانی سے ممتاز ہوتی ہے۔اسی طرح قبیلۂ
مضر کی شاعری پختگی کی علامت اور پرشکوہ شاعری کی مثال ہے۔ طرفہ کا یہ معلقہ اس
بات سے بھی ممتاز ہوتا ہے کہ اس میں اس نے عرب کے ایک طبقے کی سماجی زندگی کی بہت
دقیق تصویر کشی کی ہے۔ نوجوانوں کے اس طبقے کی تصویر کشی کی جو لہو ولعب میں اپنے
پیسوں کو ضائع کرتاتھا۔ خمر وشراب اور سرود وسرمستی میں غرق رہتا تھا۔ زندگی سے
انھیں بہت کچھ لینادینا نہیں تھا۔ جنگ وجدال میں مال خرچ کرکے، سخاوت کا مظاہرہ
کرکے وہ بزرگی وعظمت کو خریدتے تھے۔ اب چاہے جنگ وجدال کا جو بھی نتیجہ ہو۔ ان کی
نظر میں مالدار وفقیراور سخی وکنجوس سب کے لیے موت یکساں طور سے آتی ہے۔ لیکن عرب
کے سبھی طبقے اور سبھی قبیلے کے لوگ اس طرح کے خیالات کے قائل نہیں تھے۔ زہیربن ابی
سلمی جیسے شاعر بھی تھے جو اس کے بالکل برعکس سوچتے تھے۔ ہر شاعر اپنی زندگی، اپنے
سماج، اپنے طبقے اور اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویر کشی کرتا تھا۔‘‘34؎
معلقہ کے ساتھ اس کے اور بھی قصیدے ہیں جن میں اس نے ایسے
شاندار اشعار کہے ہیں جو حکمت ودانائی سے بھرے ہیں اور ضرب المثل و آوارہ گرد ہیں۔اس
کے چند مشہور اور ضرب المثل اشعار یوں ہیں
؎
وظلمُ ذوِی القُربَی أشدُّ مَضاضۃً
عَلی المَرئِ مِن وَقْعِ الحُسَامِ المُہنّدِ
(رشتے داروں کا ظلم انسان پر ہندوستان کی بنی
ہوئی نفیس تلوار کے وار سے بھی زیادہ سخت اور درد انگیز ہوتا ہے۔)
حکمت ودانائی کے در بے بہاسے آراستہ اپنے معلقے کے آخری
دو شعر میں وہ کہتا ہے ؎
ستُبدی لکَ الأیامُ ما کنتَ جاہلاً
ویأتیکَ بالأخبارِ من لم تُزوّدِ
ویأتیکَ بالأنبائِ مَن لَم تَبِعْ لَہ
بتاتاً ولَم تَضربْ لَہ وقتَ مَوعِدِ
(تمھارے سامنے زمانہ ان چیزوں کو بالکل ظاہر
کردے گا جن سے تم غافل ہو اور وہ شخص تمھیں خبریں لاکر سنائے گا جس کو تم نے کوئی
توشہ نہیں دیا۔ تمھارے پاس وہ شخص خبریں لے کر آئے گاجس کے لیے تو نے کوئی زاد سفر
نہیں تیار کیانہ ہی اس کے لیے ملاقات کا کوئی وقت متعین کیا۔) 35 ؎ اس کا دیوان وئینا (1880) پیرس (1901)
قاہرہ (1909)بیروت (1953/ 1958)سے متعدد مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔ 36؎
متلمس(وفات: 580ء) کا نام جریر بن عبد المسیح یا
عبد العزی تھا۔37؎ اپنے زمانے میں وہ اپنے
قبیلے بنی ربیعہ کا شاعر تھا۔ہجو گوئی اس کا خاص میدان تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حیرہ
کے بادشاہ عمرو بن ہند نے گویا اسے حرامی النسب کہا تھا جس کے بعد اس نے اس کی بہت
فحش ہجو کی۔ اس کے اشعار میں حکمت ودانائی بھی پائی جاتی ہے۔ عتاب اور فخر میں بھی
اس نے اشعار کہے ہیں۔38 ؎ اس کے بھانجے طرفہ بن عبد کے ذکر میں واقعہ گزر چکا ہے
کہ عمرو بن ہند کی ہجو کے بعد اس نے بحرین کے گورنر کو خط دے کر متلمس کو روانہ کیا
لیکن جب پتہ چلا کہ اس نے اسے قتل کاحکم دیا ہے تو اسے پھاڑ کر وہ شام بھاگ گیا
جہاں اس نے آل غسان کے یہاں پناہ لی۔ اس نے ایک قصیدہ بھی کہا جس میں اس نے عمرو
بن ہند کی سازش سے نجات کا ذکر کیا ہے۔ اس نے کچھ اشعار طرفہ کے لیے بھی ذکر کیے ہیں
جن میں سے دوشعر ہم نے اوپرذکر کیے۔ ایک شعر میں وہ کہتا ہے کہ اس نے طرفہ کو بھی
کہا تھا کہ وہ اپناخط پڑھ کر اسے پھاڑ کر پھینک دے کیونکہ اس میں اسے بھی قتل کا
حکم دیا گیا تھا۔ وہ کہتا ہے ؎
اَلق الصّحیفَۃ لا أبا لَک انّہ
یُخشی علیک من الحباء النقرسُ
(میں نے اس سے کہا) تیرے باپ کی نعش جائے! اس
خط کو پھینک دو کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ وہاں کے انعام کے بجائے ہلاکت تمہارے
انتظار میں ہے)
متلمس اپنی وفات (580ء) تک آل غسان کے یہاںقیام پذیر
رہا۔ اس کے اور بھی کئی قصیدے او راشعار ہیں۔ کچھ اشعار اور ملاحظہ کریں جو حکمت
ودانائی سے معمور ہیں۔ کہتا ہے ؎
وأعلَم عِلم حقّ غیرَ ظن
وتقوَی اللّہ مِن خَیر العتَاد
لحفظ المَال أیسر
من بغَاہ
وضَرب فِی البلاد بغَیر زَاد
واصلاحُ القلیل یزید فیہ
ولا یبقی الکثیرُ علی الفسادِ39 ؎
ـ(مجھے یقین ہے کہ اللہ کا
خوف ہی سب سے بہترین توشہ ہے۔ بغیر توشے کے ادھر ادھر گھومنے سے زیادہ مال کی
حفاظت آسان ہے۔ تھوڑے سے مال کی حفاظت سے وہ بڑھتا ہے لیکن غلط طریقے سے خرچ کرنے
سے اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔)
عمر فروخ کا بیان ہے کہ:
’’متلمس بہت عمدہ شاعر تھامگر بہت کم گو تھا۔اسے
جاہلیت کے تین کم گوشعرا یعنی مسیب بن علس اور حصین بن حُمام مری کے ساتھ شمار کیا
جاتا ہے۔‘‘ 40؎
اس کا ایک چھوٹا سا دیوان ہے جسے فادر شیخو نے اپنی
کتاب ’شعراء النصرانیۃ‘ میں ذکر کیا ہے۔41 ؎ جرجی زیدان نے ذکر کیا ہے کہ اس کے دیوان
کے دو مخطوطے دار الکتب المصریہ میں موجود ہیں۔اغانی، الشعر والشعراء، حیاۃ الحیوان،
وفیات الاعیان، جمہرۃ، شعراء النصرانیۃ، دیوان حماسہ، معجم البلدان اور لسان العرب
وغیرہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 42 ؎
متلمس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عبدالمنان تھا وہ بھی شاعر تھا۔اس کے بارے
میں ہمیں خاص معلومات نہیں ملیں۔
خرنق بنت بدر بن مالک (وفات:570 یا 580ء)طرفہ کی ماں
اور متلمس کی بہن وردہ بنت عبدالعزی کی بیٹی تھی یعنی طرفہ کی علاتی بہن تھی۔دونوں
کی ماں ایک مگر باپ مختلف تھے۔ غالبا یہ طرفہ سے بڑی تھی۔بنی اسد کے سردارعبد عمرو
بن بشرسے خرنق کی شادی ہوئی تھی۔وہ عراق کے علاقے میں رہتا تھا۔ وہاں کا بادشاہ
عمرو بن ہند کسی بات پر اس سے ناراض ہوا تو اس نے اسے عراق سے نکال دیااور بعد میں
قلاب کی لڑائی میںوہ ماراگیا۔ خرنق نے عمرو بن ہند کی ہجو میں شعر کہے۔خرنق بہت
عمدہ شاعرہ تھی لیکن اس کا بہت کم کلام ہم تک پہنچا ہے۔ جرجی زیدان کے مطابق اس کے
تقریبا پچاس شعر ہی معلوم ہیں۔ اس کے زیادہ تر کلام کاتعلق مرثیہ، ہجو، فخر اور
وصف سے ہے۔ کچھ اشعار حکمت ودانائی سے بھی معمور ہیں۔اپنے بھائی طرفہ کے قتل کے
بعد اس نے اس کے مرثیے میں کئی شعر کہے۔دو شعر یوں ہیں ؎
عددنَا لَہ ستّا وعِشرین حجّۃ
فلمّا توَفّاہا استوَی سیداً ضخمَا
فُجعنَا بہ لمّا رجَونا اِیابہ
علَی خیر حَال، لا ولیدا ولا قحمَا 43 ؎
(میرا بھائی ) اپنی عمر عزیز کے چھبیس برس
پورے کرنے کے بعد اپنی قوم کا سردار بن گیا۔جب ہمیں سلامتی کے ساتھ اس کی واپسی کی
امید تھی تو ہمیں اس کی موت کی المناک خبر موصول ہوئی) 570ء یا 580ء میں اس کا
انتقال ہوا۔
تیسرا گھرانہ
عربی کا تیسرا گھرانہ مرقَّش اکبر(وفات:550ء) اور مرقش
اصغر(وفات:570ء تقریبا) کا ہے۔ ان دونوںکے ناموں میں اختلاف ہے۔یہ دونوں ہی اپنے
نام کے بجائے اپنے لقب یعنی’مرقش‘ سے مشہور ہوئے۔ راجح یہ ہے کہ مرقش اکبرکا نام
عمرو بن سعد بن مالک تھا۔یہ اپنے درج ذیل شعر
؎
الدّار قفرٌ والرسومُ کما
رقش فی ظہْر الَادیمِ قلَم
(ترجمہ:آدمی، پانی اور گھاس سے خالی گھر اور
اس کے نشانات چمڑے پر لکھی ہوئی تحریر کی مانند ہیں)
میں
وارد لفظ ’رقًّشَ‘(جس کا معنی ہے لکھنا) کی وجہ سے ’مرقش‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔ 44
؎ ’’یمن میں تقریبا 500 ء میں اس کی ولادت ہوئی۔ عراق میں نشو ونما پائی۔ اسے
لکھاوٹ آتی تھی اس لیے غسانی بادشاہ حارث بن ابو شمر غسانی نے اسے اپنے کاتب اور
منشی کے طور پر مقرر کیا تھا۔اس کا باپ قوم کا سردار تھا۔ عرب کے مشہور عاشقوں میں
اس کا شمار ہوتا تھا۔ بچپن ہی میں اسے اپنی چچا زاد بہن اسما سے محبت ہوگئی تھی جس
کے بارے میں اس نے ڈھیر سارے اشعار کہے۔ لیکن اسما کے باپ نے ڈھیر سارے مال کے عوض
کسی اور سے اس کی شادی کردی۔ یہ قصہ بہت دلچسپ ہے۔ اسی اسما کے تعاقب میں 550ء میں
اس کا انتقال ہوا‘‘۔ 45 ؎یہ واقعہ تفصیل سے دیکھیے دیوان المرقشین میں ص 11سے14
تک۔طرفہ بن عبد، جریربن عطیہ، مروان بن ابو حفصہ، عمرو بن قنان اورجمیل بن معمر جیسے
مشہور شاعروں نے اپنے کلام میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔46 ؎ عمر فروخ نے لکھا ہے کہ:’’
مرقش اکبر بہت کم گو تھا۔اس کے بیشتر اشعار ضائع ہوگئے لیکن اس کا سب سے اچھا کلام
غزل کے باب میں ہے۔ مفضل ضبی نے مفضلیات میں اس کے بارہ قصیدے اور غزل، حماسہ، فخر
اور گھوڑے کی توصیف میں کئی قطعات ذکر کیے ہیں۔‘‘47؎
مرقش اصغر(وفات:570ء)مرقش اکبرکا بھتیجا تھا۔اس کے بھی
بہت سارے نام مذکور ہیں۔ دیوان المرقشین کے محقق نے اس کا بھی نام عمر وبن حرملہ
بن سعد بن مالک لکھا ہے۔مرقش اکبر کے اس سے مشہور ہونے کا سبب ہم نے ذکر کیا لیکن
مرقش اصغر اس لقب سے کیوں مشہور ہوا اس کا سبب نامعلوم ہے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے
کہ چونکہ دونوں ایک ہی قبیلے سے تھے۔ تقریبا معاصر تھے۔ دونوں عاشق مزاج تھے۔
دونوںشاعر تھے اس لیے دونوں کو مرقش کے لقب سے ملقب کردیا گیامگر دونوں میں تمیز
کے لیے ایک کو اکبر اور ایک کو اصغر کہہ دیاگیا۔ 48 ؎ حیرہ کے بادشاہ عمروبن ہند کی
بہن فاطمہ بنت منذر کے ساتھ مرقش اصغر کے عشق ومحبت کی داستانیں مورخین نے قلمبند
کی ہیں۔ اسی وجہ سے اسے ’عشاق عرب‘ بھی کہا گیا۔ بہت خوب صورت تھا۔ بلکہ لوگوں میں
سب سے زیادہ حسین وجمیل تھا۔اس کے چچا مرقش اکبر کی طرح اس کی بھی آنکھیں نیلگوںتھیں۔
فادر شیخو نے ان دونوں کوعیسائی شعرا میں شمار کیا ہے۔ 49 ؎ 570ء میں ساٹھ برس کی
عمر میں اس کا انتقال ہوا۔عمر فروخ لکھتے ہیں کہ ’’یہ بہت عمدہ شاعر تھا۔ اپنے چچا
مرقش اکبر سے بھی اچھی شاعری کرتا تھا۔ غزل، خمر، حماسہ اور فخر یہ اشعار وقصائد میں
اسے مہارت حاصل تھی۔حکمت ودانائی اور دوستی پر بھی اس کے بہت سارے قطعات پائے جاتے
ہیں۔مفضل ضبی نے اس کے پانچ قصیدے ذکر کیے ہیں۔50 ؎
چوتھا گھرانہ
عربی کا چوتھا اور سب سے شاندار شعری گھرانہ زمانۂ
جاہلیت کے مشہور جاہلی شاعر زہیر بن ابی سُلمی کا ہے۔اس کے ابا، اس کے ابا کاماموں
بشامہ بن غدیر،اس کی ماں کا شوہر اوس بن حَجر،اس کی دونوں بہنیں سُلمی اورخنسا51
؎،اس کے بیٹے کعب،بجیراور سالم، کعب کا بیٹا عقبہ اور عقبہ کا بیٹا عوام سب کے سب
شاعر تھے۔ 52؎ ڈاکٹر شوقی ضیف نے لکھا ہے کہ اس خاندان میںنسلا بعد نسلٍ شاعری کا
ڈنکا بجتا رہا۔53 ؎
زہیر
بن ابی سُلمیٰ(530-627) کے والد کا نام ربیعہ تھا۔54 ؎لیکن وہ اپنی کنیت ابو سلمی
سے مشہور تھے۔سلمی زہیر کی بہن کا نام تھا۔قبیلۂ مزینہ سے اس کا تعلق تھا۔زہیر کے
باپ ربیعہ کا جلدی انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی ماں نے مشہور تمیمی
شاعر اوس بن حجر سے شادی کرلی۔ 55 ؎ لہٰذا
اس کے باپ کے ماموں مشہور شاعر بشامہ بن غدیر نے اس کی اور اس کی دونوں بہنوں سلمی
اور خنسا کی پرورش کی۔ 56 ؎
بشامہ بن غدیر شاعر تھا۔ سردار قوم تھا۔ شریف النفس
تھا۔ سمجھدار تھا۔ بزرگ تھا۔اس کی قوم کے لوگ تمام معاملات میں اس سے مشورے کرتے
تھے اور اس کے مشورے کے مطابق ہی وہ جنگوں میں شرکت کافیصلہ کرتے تھے۔لہٰذاجب وہ
جنگ سے واپس آتے تو اس کا بھی سب سے بہترین فوجی کی حیثیت سے مال غنیمت میں حصہ
لگاتے۔57 ؎بشامہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کے وفات کا وقت ہوا تو اس نے اپنے مال
کو اپنے اہل خانہ میں تقسیم کرنا چاہا۔ زہیر نے کہا میرا بھی حصہ لگائیے۔ بشامہ نے
کہا میں نے تمھیں وہ چیز وراثت میںدی ہے جو مال سے بھی اچھی ہے۔ زہیر نے کہا وہ کیا
ہے؟ اس نے کہا میری شاعری۔لیکن پھر بشامہ نے زہیر کا بھی حصہ لگایا۔58 ؎ الاغانی
9/149) شوقی ضیف لکھتے ہیں کہ:
’’ زہیر نے اس کی شاعری اور مال ہی کی وراثت
نہیں حاصل کی بلکہ اس کے اخلاق فاضلہ کی بھی میراث پائی۔‘‘59 ؎
یعنی زہیر نے بشامہ کی حکمت ودانائی اور سخن کی میراث
پائی۔شوقی ضیف مزید لکھتے ہیں کہ:
’’بشامہ نے اپنے کلام میں داحس وغبراء اور
عبس وذبیان کی لڑائیوں کی تصویر کشی کی ہے۔‘‘ 60 ؎
اس کا دیوان حال ہی میں مکتبۃ الرشد سے شائع ہوا ہے۔
اوس بن حجَر(530-620)کو جاہلیت کے بڑے شاعروں میں شمار
کیا جاتا تھا۔ ابو عبیدہ نے اسے تیسرے طبقے میں شمار کرتے ہوئے حطیئہ اور نابغہ
جعدی سے موازنہ کیا ہے۔اوس قبیلۂ مضر کا شاعر تھا یہاں تک کہ نابغہ اور زہیر اس
پر غالب آگئے۔ جاہلیت میں اسے بنی تمیم کا شاعر مانا جاتا تھا۔کلبی نے لبید بن ربیعہ
اور شماخ بن ضرار کو اس کے طبقے میں شمار کیا ہے۔ اصفہانی نے اس کے بعض واقعات اور
بعض قطعات کو بھی ذکر کیا ہے۔61 ؎ زہیر نے بشامہ کے ساتھ ساتھ اوس کی بھی صحبت اختیار
کی۔ اس کی شاعری کی روایت کی لیکن زہیر اس سے زیادہ مشہور ہوا اور دونوں پر غالب
آگیا۔62 ؎
زہیر بن ابی سلمی جاہلیت کے تین بڑے شاعروں یعنی امرؤ
القیس، زہیر اور نابغہ میں سے ایک ہے۔ 63؎
بعض لوگوں نے تین کے بجائے چار بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے اور ان تینوں میں
اعشی قیس کو بھی شامل کیا ہے۔64؎ البتہ ان
تینوں میں سر فہرست کون ہے اس میں اختلاف ہے۔65؎
احمد امین لکھتے ہیں کہ :
’’زہیر کی خوبی یہ ہے کہ’’دیگر شاعروں کی بہ
نسبت اس کا کلام لچر شاعری سے بہت دور ہے۔ کم الفاظ میں زیادہ معنی کی ادائیگی سے
آراستہ ہے۔ اپنے کلام میں سب سے زیادہ محاوروں کو برتتا ہے‘‘…’’ نامانوس ترکیبوں
اور عبارتوں کی جستجو نہیں کرتا۔ وہی مضمون باندھتا ہے جنھیں وہ بخوبی جانتا ہو۔
صرف انہی خوبیوں سے انسان کی مدح وستائش کرتا ہے جو اس میں موجود ہوں۔ ‘‘66 ؎
زہیر کاسب سے مشہور کلام بنی مرہ کے دو مشہور سردار ہرم
بن سنان ذبیانی مُری اور حارث بن عوف کی مدح میں کہے گئے قصیدے ہیں۔ انہی دونوں
سرداروں نے چالیس برس سے چلی آرہی داحس وغبراء کی جنگوں کا خاتمہ کراکے فریقین میں
صلح کرائی تھی۔ اس لیے ان کی شان میں کہے گئے زہیر کے قصیدوں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ان
کی مدح میں کہے گئے شاندار قصیدوں نے زہیر کے نام کو عربی شاعری میں دوام بخشا یہاں
تک کہ اس کی مدح کو ضرب المثل بنادیاگیا۔ علامہ بوصیری نے بھی اپنے نعتیہ قصدے کے
ایک شعر میں زہیر کے مدحیہ قصدوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔67؎ کہاجاتا ہے کہ:
’’زہیر کو اس بات کے لیے (بھی)شہرت حاصل تھی
کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر کلام تخلیق کرتا تھا۔ زود گوئی سے کام نہیں لیتا تھا۔ بیان کیا
جاتا ہے کہ وہ ایک ماہ میں ایک قصیدہ کہتا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ چار ماہ میں ایک
قصیدہ کہتا تھا اور چار ماہ تک اس پر نظر ثانی کرتا تھا۔ اور چار ماہ تک اپنے ساتھیوں
کے ساتھ اس پر رائے لیتا رہتا تھا۔اس طرح سال بھر تک ایک قصیدے پر نظر ثانی کرتا
رہتا تھا۔ اسی لیے اس کے قصیدوں کو ’’حولیات زہیر ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
حولیات زہیر یعنی وہ قصیدے جو ایک سال میں کہے گئے ہوں۔‘‘68 ؎
اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے کعب اور بجیر کو
شاعری کی تربیت دی تھی۔ بلکہ اپنے خاندان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اس نے شعرگوئی
کی تربیت دی تھی جن میں حطیئہ جیسا مشہور شاعربھی قابل ذکر ہے کہ وہ بھی اس کا
شاگرد تھا۔ 69 ؎
شوقی ضیف لکھتے ہیں کہ :
’’زہیر کوبشامہ بن غدیر اور اپنے قبیلے کے
سرداروں سے بہت سارا مال وراثت میںحاصل ہوا تھا اس لیے زہیر نے امرؤ القیس وغیرہ
شاعروں کی طرف فحاشی سے، عورتوںکے ساتھ عشق ومحبت کی داستانوں سے اپنے کلام کو
بچائے رکھا۔‘‘ 70 ؎
بلکہ اس کی ذہانت وفطانت اور قبیلے کے بڑے بڑے لوگوں کی
صحبت کی وجہ سے وہ سمجھ بوجھ اور حکمت ودانائی سے بھرگیا تھا جس کا اظہار اس نے
اپنے مختلف قصیدوں میں کیا۔ اس کے سب سے شاندار قصیدوں میں اس کا معلقہ ہے جسے
کعبہ کی دیوار پر لٹکائے جانے کا شرف حاصل ہوا۔اس میں کل 59 اشعار ہیں اور اس کا
اہم موضوع عبس وذبیان کے درمیان صلح ومصالحت ہے۔
احمد امین لکھتے ہیں:
’’
زہیرایک الہامی شاعر تھاسواس نے ایسے مضامین تخلیق کیے جنھیں ابھی تک کسی شاعر نے
نہیں برتا تھا۔ قرن اول کے مسلمانوں نے بھی اس کی حکمت ودانائی کا اعتراف کیا۔ اس
کی سچائی، اصابت فکر ونظر اوراس کی فکر وخیال کے اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کی
وجہ سے بعض لوگوں نے اسے تمام شعرا پر فوقیت وفضیلت عطا کی اور اس حوالے سے کہے
گئے اس کے اس شعر کی خوب خوب داد دی ؎
فَلا تکتُمنّ اللّہَ ما فِی نُفوسِکم
لِیخْفَی ومَہمَا یُکتَمِ اللّہُ یَعلَمِ
یؤخّرْ فیُوضعْ فی کتابٍ فیُدّخر
لیَومِ حسابٍ أو یُعجّلْ فیُنقَمِ
(دلوں کے حال کو اللہ تعالی سے ہرگز چھپانے کی
کوشش نہ کرو۔اللہ تعالی سے جتنا بھی چھپانے کی کوشش کرو گے وہ تو ہر شے کو جانتا
ہے۔انسان کے اعمال کو لکھواکر محفوظ کیا جاتا ہے اور قیامت کے روز اس کی جزا سزا دی
جائے گی۔ کبھی کبھی انسانوں کے اعمال کا بدلہ جلد ہی اسی دنیا میں دے دیا جاتا
ہے۔)
ہرم بن سنان کی مدح کے بارے میں کہے گئے اس کے سب سے
خوب صورت اشعاریہ ہیں۔وہ کہتا ہے ؎
قد جعلَ المبتغونَ الخیرَ فی ہرِمٍ
والسّائلونَ إلی أبوابِہِ طُرُقا
من یّلقَ یوماً عَلی علاّتِہِ ہرِماً
یلقَ السّماحۃَ منہُ والندیٰ خُلُقا
لیثٌ بعثّرَ یصْطادُ اللُّیوثَ إذا
مَا الّلیثُ کذّبَ عَن أقرانِہِ صَدقَا71 ؎
(انعام واکرام کے متلاشیوں اور ان کے دروازے
پر دستک دینے والوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے گھر تک پہنچنے کے متعدد راستے بن گئے
ہیں۔ فقر وفاقہ کی حالت میں جب لوگ ہرم بن سنان سے ملتے ہیں تو ان کے ساتھ وہ
سخاوت وفیاضی کے اخلاق کریمانہ سے پیش آتے ہیں۔ وہ جرات وبہادری میں وادی عثر کے
اس شیر کی طرح ہیں جو اپنے جیسے شیروں کا شکار کرتا ہے اور جب تمام شیر اپنے ہم
پلہ شیروں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ہرم بن سنان اپنی دلیری اور بہادری میں بالکل
سچے ہوتے ہیں۔)
627 ء میں ستانوے برس کی عمر میں اس کا
انتقال ہوا۔72 ؎ بعض نے سو سال لکھا ہے۔ 73 ؎
اس کا دیوان پہلی مرتبہ لندن سے 1870 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1888میں لیدن
سے اعلم شنتمری کی تحقیق سے شائع ہوا۔ اس کے بعد مصر سے 1323ھ میں اور اس کے بعد
متعدد مرتبہ مختلف تحقیقات سے شائع ہوا۔ 74 ؎ شوقی ضیف نے اس کی تفصیلات لکھی ہیں۔
75 ؎
زہیر نے دو شادی کی تھی۔ پہلی شادی ام اوفی سے کی تھی۔
اس سے جو بھی بچہ پیدا ہوتا تھا انتقا ل کرجاتا تھا جس کی وجہ سے غصے میں زہیر نے
اسے طلاق دے دیا۔اس کے بعد اس نے کبشہ بنت عمار سے شادی کی۔ اس سے اس کے دو بیٹے
کعب اور بجیر پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ کبشہ ضعیف الرای تھی۔ فضول خرچ بھی جس کی
وجہ سے زہیر کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ بیس برس کے بعد اس
نے ام اوفی سے مراجعت کرنا چاہی لیکن اس نے انکار کردیا۔ 76 ؎
کعب بن زہیر (وفات24ھ/662ء) مشہور شاعر ہے۔ اسے مخضرم
کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوںمیں زندگی گزاری۔ اپنے نانیہال
میں بنو غطفان کے یہاں پرورش پائی جہاں شاعری کی باد بہاری چل رہی تھی۔ زہیر نے جب
دیکھا کہ اس میں شعر وسخن کی صلاحیتیں موجود ہیں تو اس نے باقاعدہ اس کی شعری تربیت
کی اور اس وقت تک اسے شعر نہیں کہنے دیا جب تک کہ اس کا شعری ملکہ صیقل نہیں ہوگیا۔77؎
کہا جاتا ہے کہ زہیر اسے شعرکہنے سے اس لیے منع کرتا تھا کہ کہیںوہ کوئی ایسا لچر
شعرنہ کہہ لے جس کی روایت ہوجائے اور پھر وہ روایت کبھی ختم نہ ہو لیکن کعب نہیں
مانتا تھا۔ زہیر نے اسے اس کی زجر وتوبیخ کی لیکن جب وہ نہیں مانا تو زہیر نے اس
کا سخت امتحان لیا چنانچہ کہاجاتا ہے کہ زہیر جو بھی کہتا کعب برجستہ اسے شعر میں
منتقل کردیتا تھا۔ لہذا زہیر نے اسے شعر گوئی کی اجازت دے دی یہاں تک کہ اپنے
زمانے کے بڑے شاعروں میں اس کا شمار کیا گیا۔ 78 ؎ کعب اپنے باپ زہیر کا راوی تھا
اور حطیئہ کعب کا79 ؎ بلکہ حطیئہ جیسے مشہور شاعر نے اپنے کلام میں کعب کی عظمت کا
اعتراف بھی کیا ہے۔ 80 ؎
اسلام آیا تو اس کا بھائی بجیر مسلمان ہوگیا۔ کعب کو
معلوم ہوا تو اس نے اس کی اور رسولؐ کی ہجو کردی۔ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی غزل میں
نشانہ بنایا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون ہدر کردیا۔ جب اسے لگا
کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس نے ایک قصیدہ لکھ کر رسول اکرمؐ کی خدمت میں
حاضری دی اور مشرف بہ اسلام ہوگیااور شاعر رسول کے لقب سے ملقب ہوا۔ روایت ہے کہ
اس قصیدے کے بعض اشعار سن کر آپؐ نے اسے اپنی بردہ(چادر) مبارک ہدیۃً اسے عنایت
کردی اور یہ قصیدہ قصیدۂ بردہ سے مشہور ہوا۔ اس میں کل 58 شعر ہیں۔ یہ قصیدہ بحر
بسیط میں ہے۔ پہلے فرضی غزل ہے پھر ناقہ کی تصویر کشی پھر رسول گرامی صلی اللہ علیہ
وسلم کی مدح ونعت ومنقبت اور ان کی تہدید کے بعد کعب کے دل کو لاحق ہونے والے قلق
واضطراب کی تصویر کشی، پھر اپنی ہجو اور گستاخی پر معذرت اور مہاجرین کی تعریف
وتوصیف۔ 81 ؎
یہ قصیدہ اتنا مشہور ہوا کہ صرف دسویں صدی ہجری تک اس کی
نو شرحیں سامنے آئیں۔ اس کے بعد اور بھی کئی شروحات لکھی گئیں۔سب سے پہلی شرح یحی
بن علی تبریزی نے کی تھی۔82 ؎ اس قصیدے کی
زمین میں بھی بے شمار قصیدے لکھے گئے۔ علامہ شرف الدین بوصیری (وفات:696ھ/1296ء)
اور امیرالشعرا احمد شوقی (1868-1932)کے قصیدے مشہور ہیں۔ ان دونوں کے قصیدوں کو
بھی ’قصیدۂ بردہ‘ کہاگیا بلکہ تینوں کو ’ثلاثیۃ البردہ‘ کا نام دیاگیا۔ کعب بن زہیر
کے قصیدۂ بردہ کا بے شمار زبانوں میں منظوم ومنثور ترجمہ ہوا۔ڈاکٹر رئیس احمد
نعمانی نے اس کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔احمد اسکندری لکھتے ہیں: ’’کعب کی
شاعری میں پائے جانے والے نامانوس الفاظ، بھاری بھرکم اسلوب اور اثر پذیری ان کی
بدویت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 83 ؎ عمر فروخ کے مطابق کعب کا یہ مقام ومرتبہ تھا کہ
بعض نے اسے اس کے والد، لبید بن ربیعہ اور نابغہ ذبیانی وغیرہ کے طبقے میں شمار کیا
ہے۔84 ؎ خلف احمر کہتے ہیں کہ ’’اگر زہیر کا ایساکلام سامنے نہ آتاجنھیں لوگوں نے
بہت معیاری سمجھا ہے تو میں کہتاکہ کعب زہیر سے بھی بڑا شاعر تھا۔‘‘ 85 ؎ اس کے زیادہ
تر اشعار مدح، ہجو، فخر، اور حماسہ میں ہیں۔ 86 ؎
اس شعری خاندان کے دیگر افراد میں بجیر بن زہیر،کعب کا
بیٹا عقبہ،اس کا بیٹا عوام، کعب کی دو بہنیں سُلمی اور خنسا قابل ذکر ہیں۔بجیر بن
زہیرصحابی تھے۔ اپنے بھائی کعب سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔اچھے شاعرتھے۔امام
قرطبی نے اپنی کتاب ’الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب‘ میںان کے چارشعر ذکر کیے ہیں۔87
؎ سالم بن زہیر کا جلد انتقال ہوگیا تھا۔
88؎
خنسا کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ وہ مشہور شاعرہ تماضر
بنت عمرو نہیں جیسا کہ بعض مورخین کو اشتباہ ہوا ہے بلکہ یہ خنساء بنت زہیر
ہے۔اپنے باپ زہیر کے مرثیے میں اس کے دوشعر معجم الشعراء الجاہلیین میں مذکور ہیں۔
89 ؎ عقبہ اور اس کے بیٹے عوام کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات کتب ادب میں میسرنہیںلیکن
اتنا تو کتب ادب نے ضرور ذکر کیا ہے کہ یہ سب کے سب شاعر تھے اوراچھے شاعر تھے۔
عربی کے ان شعری گھرانوں کے چند شعرا عربی شاعری کے میر
وغالب اور فارسی کے سعدی وحافظ اور خیام کے قدوقامت کے شاعر ہیں جن میں خصوصیت کے
ساتھ امرؤ القیس، زہیربن ابی سلمی،عمرو بن کلثوم، طرفہ بن عبد اور کعب بن زہیر
قابل ذکر ہیں۔انھوں نے فکر وخیال کے ایسے گل بوٹے سجائے ہیں جن کی خوشبو سے عربی
شاعری کاگلشن ہمیشہ مہکتا رہے گا۔
حواشی
1 تاریخ آداب اللغۃ،جرجی زیدان55 2
تاریخ ادب عربی، از عمر فروخ 1/73
3 الوسیط
فی الادب العربی، ص93 4
تاریخ ادب عربی ص 88
5 تاریخ
ادب عربی، از عمر فروخ 1/73 6 تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ ص54
7 تاریخ
آداب اللغۃ جرجی زیدان ص 54 8 تاریخ ادب عربی، ازاحمد امین ص 123
9 دیکھیے
المنجد لفظ ہلہل 10 تاریخ ادب عربی، ازعمر فروخ 1/110
11 تاریخ
ادب عربی، از احمد امین ص 55، تاریخ ادب عربی عمر فروخ 1/111
12 تاریخ
ادب عربی، از عمر فروخ 1/111
13 الجامع
فی تاریخ الأدب العربی، ازحنا فاخوری ص191
14 تاریخ
آداب اللغۃ العربیۃ ص 119
15 الجامع
فی تاریخ الأدب ص190، تاریخ الادب العربی عمر فروخ 1/110
16 دیکھے
کتاب شعراء العرب الفرسان ص123/146
17
تاریخ ادب عربی،از احمد امین ص 103 18 الوسیط فی الادب العربی، ص62
19 دیکھیے
تاریخ ادب عربی، ازاحمد امین ص107-109
20 تاریخ
ادب عربی، ازشوقی ضیف1/243
21 دیکھیے:
الجامع فی تاریخ الادب العربی198، العصر الجاہلی : الادب والنصوص ص221
22 الوسیط فی الادب العربی ص61 23 تاریخ
ادب عربی، از احمد امین ص125
24 تاریخ
ادب عربی،ازاحمد امین ص 128 25 تاریخ ادب عربی، از احمد امین ص 127
26 دیکھیے
: طرفہ بن العبد، حیاتہ وشعرہ ص 134،تاریخ ادب عربی، از عمر فروخ 1/135، الجامع فی
تاریخ الادب العربی، حنا فاخوری 1/230
27 المعلقات
العشرواخبار شعرائہا ص 15 28 الشعر والشعراء 1/185
29 دیکھیے:تاریخ
ادب احمد امین ص113، الوسیط فی الادب العربی ص64، الجامع فی الادب العربی، حنا
فاخوری 1/230
30 تاریخ
آداب العرب ص 110 31 المعلقات واخبارشعراء ہا ص16
32 دیکھیے
الجامع فی الادب العربی ص234 33 تاریخ الادب العربی، از عمر فروخ 1/136
34 تاریخ
ادب عربی ص 119
35
دیکھیے الوسیط ص 64/66، دیوان طرفہ بن العبد تحقیق مہدی محمد ناصر الدین ص 27,29
36 تاریخ
الادب العربی ازعمر فروخ 1/141-142 37 تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ ص160
38
تاریخ الادب العربی عمر فروخ 1/157 39 تاریخ آداب اللغۃالعربیۃ 160-161
40 تاریخ
الادب العربی، از عمر فروخ1/157 41 الجامع فی تاریخ الادب العربی ص273
42 تاریخ
آداب اللغۃ ص161
43 دیکھیے
دیوان الخرنق ص10 اور اس کے بعد، تاریخ الادب العربی عمر فروخ 1/148-150 تاریخ
آداب اللغۃ العربیۃ ص147
44 دیوان
المرقشین ص9
45 دیکھیے:
الجامع فی تاریخ الادب العربی 1/272،تاریخ ادب عربی عمر فروخ 1/128
46
دیگھیے دیوان المرقشین ص13-16 47 تاریخ ادب عربی 1/129
48
دیوان المرقشین ص17-18 49 دیوان المرقشین 18
50 تاریخ
ادب عربی، از عمر فروخ1/146 51 تاریخ ادب شوق ضیف 1/300
52 دیکھیے:دیوان
زہیر ص 3، الجامع فی تاریخ الادب214، العصر الجاہلی الادب والنصوص ص135، دیوان کعب
بن زہیر تحقیق علی حسین بواب ص6،الاغانی 9/150-151
53 تاریخ
ادب عربی، از شوقی ضیف 1/303
54 دیکھیے:الاغانی
9/139،تاریخ ادب عربی شوقی ضیف 1/300
55 تاریخ
ادب عربی از عمر فروخ 1/195 56 تاریخ ادب عربی، شوقی ضیف 1/300
57 الاغانی
9/149 58 الاغانی 9/149
59 تاریخ
ادب عربی، شوقی ضیف 1/302 60 تاریخ ادب شوقی ضیف1/301
61
دیکھیے الاغانی 10/5-8 62 الوسیط فی الادب ص55
63 الاغانی
9/139،تاریخ ادب عمر فروخ 1/195 64 دیکھیے المنتخب من ادب العرب 4/12
65 الاغانی
9/139 66 تاریخ ادب عربی ص 141
67 الوسیط
فی الادب العربی، ص55، تاریخ ادب عربی،از شوقی ضیف 1/203
68 تاریخ
ادب عربی احمد امین ص 141-142، تاریخ ادب عمر فروخ 1/196
69 تاریخ
ادب عربی، ازشوقی ضیف 1/303 70 تاریخ ادب عربی، از شوقی ضیف 1(1/302)
71 دیکھیے
تاریخ ادب عربی احمد امین ص 143 72 الجامع فی تاریخ الادب العربی، ص214
73 تاریخ
ادب عربی ازشوقی ضیف 1/304 74 الجامع فی تاریخ الادب العربی،ص214
75 دیکھیے
تاریخ ادب شوقی ضیف 1/304 76 تاریخ ادب عربی، ازعمر فروخ 1/195
77 الجامع
فی تاریخ الادب العربی ص401 78 الوسیط فی الادب العربی ص123
79 الوسیط
123، تاریخ ادب عربی، احمد اسکندری ص 217
80 الوسیط
فی الادب العربی ص124 81 الجامع فی تاریخ الادب العربی ص402
82
دیکھیے: شرح قصیدۃ کعب بن زہیر تبریزی ص5، شرح قصیدۃ کعب بن زہیر لابن حجۃ حموی
تحقیق علی حسین بواب ص7/16
83 تاریخ
ادب عربی ص 217 84 تاریخ ادب عربی 1/283
85 تاریخ
ادب 1/283 86 تاریخ ادب عربی، ازعمر فروخ 1/283
87 دیکھیے
الاستیعاب ص 93 88 اغانی 9/139
89 دیکھیے
معجم الشعراء الجاہلیین ص126
مآخذ
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،امام قرطبی، تصحیح وتخریج
عادل مرشد،دار الاعلام، 2002 پہلا ایڈیشن۔
الاغانی لابی الفرج الأصفہانی بتصحیح الاستاذ الشیخ
احمد الشنقیطی، مطبعۃ التقدم بشارع محمد علی بمصر،
تاریخ ادب عربی، احمد امین احمد اسکندری،اردو ترجمہ شمس
کما ل انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2017 پہلا ایڈیشن
تاریخ آداب اللغۃالعربیۃ، جرجی زیدان،مراجعہ وتعلیق
ڈاکٹر شوقی ضیف۔،دار الہلال
الجامع فی تاریخ الادب العربی (الادب القدیم)حنا فاخوری،
دارالجیل، بیروت لبنان،1986 پہلا ایڈیشن۔
تاریخ الادب العربی،تالیف شوقی ضیف، دار المعارف مصر،
24 واں ایڈیشن
تاریخ الادب العربی، تالیف عمر فروخ،دار العلم للملایین
بیروت،1981، چوتھا ایڈیشن
دیوان الخرنق بنت بدر،راوی ابو عمرو بن علاء، شرح وتحقیق
وتعلیق یسری عبد الغنی، دار الکتب العلمیۃ بیروت1990
دیوان زہیربن ابی سلمی شرح وتقدیم علی حسن فاعور، دار
الکتب العلمیۃ بیروت،1988)
دیوان طرفہ بن العبد تحقیق وشرح مہدی محمد ناصر الدین،
دار الکتب العلمیۃ،2002 دوسرا ایڈیشن۔
دیوان کعب بن زہیر، تحقیق علی حسین بواب، مکتبۃ المعارف
ریاض،1985
دیوان المرقشین المرقش الاکبر عمرو بن سعد، المرقش
الاصغر عمرو بن حرملہ، تحقیق کارین صادر، دار صادر بیروت،1998 پہلا ایڈیشن۔
شرح قصیدۃ کعب بن زہیرللامام یحی بن علی التبریزی، تحقیق
ف۔ کرنکو، تقدیم صلاح الدین منجد، دار الکتاب الجدید،1971 پہلا ایڈیشن۔
شرح قصیدۃ کعب بن زہیر لابن حجۃ حموی، تحقیق علی حسین
بواب، مکتبۃ المعارف، ریاض،1985 نیا ایڈیشن۔
شعراء العرب الفرسان فی الجاہلیۃ وصدر الاسلام، تالیف
الدکتور محمود حسن ابو ناجی،موسسۃ علوم القرآن، دمشق بیروت،پہلا ایڈیشن 1404ھ/1984ء
الشعر والشعراء، ابن قتیبہ، تحقیق وشرح احمد محمد شاکر،
دار المعارف مصر
طرفہ بن العبد حیاتہ وشعرہ،محمد الشیخ محمود صیام،
مقالہ ماجستیر،جامعۃ الملک عبد العزیز مکہ مکرمہ
العصر الجاہلی، الادب والنصوص المعلقات، الدکتور محمد
صبری الاشترمدیریۃ الکتب والمطبوعات الجامعیۃ، جامعۃ حلب، 1994
معجم الشعراء الجاہلیین، عزیزہ فوال،جروس برس،
لبنان،دارصادر للطباعۃ والنشر1998 پہلا ایڈیشن۔
المعلقات العشر واخبار شعرائہا، جمع وتصحیح احمد الامین
الشنقیطی،دار النصر للطباعۃ والنشر
الوسیط فی الادب العربی وتاریخہ، تالیف احمد الاسکندری،
الشیخ مصطفی عنانی، مطبعۃ المعارف، شارع الفجالہ، مصر، 1925/1343ھ، پانچواں ایڈیشن۔
Dr. Shams Kamal Anjum
Dept of Urdu, Baba Ghulam Shah Badshah
University
Rajouri- 185234 (J&K)
Mob.: 9086180380
Email.: drskanjum@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں