فکر وتحقیق، جولائی-ستمبر2024
تلخیص
قرۃالعین حیدر نے نثری اصناف میں ناول، ناولٹ، افسانے،
ڈرامے کے تراجم تو کیے ہی، لیکن انھوں نے نثر پر ہی صرف اکتفا نہیں کیا بلکہ شاعری
کو بھی عزت بخشی اور قابل افتخار سرمایہ اس صنف میں بھی چھوڑا۔ غالب کی شاعری کا
ترجمہ سردار جعفری کے اشتراک سے تو کیا ہی، لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے اقبال،
فیض اور غالب کی غزلوں اور نظموں کا بھی ترجمہ کیا۔ اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ کا
ترجمہ 'New Temple' کے
نام سے کیا۔ فیض کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ
'Trees and Minarates of Blood' کے نام سے کیا۔ اور یہ
ترجمہ 18 اپریل 1971 کے السٹریٹیڈ ویکلی میں شائع ہوا۔ غالب کی فارسی غزل ’بیاکہ
قاعدۂ آسماں بگر دانیم‘ کو بھی اپنے مخصوص انداز میں انگریزی قالب عطا کیا۔ یہ
تو ایک مختصر سی داستان ہے جس کا تذکرہ میں نے یہاں کیا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے نثری
اور شعری سرمائے کو انھوں نے انگریزی پیکر میں ڈھالا ہے۔ یہ ایک مکمل تحقیق کا
مسئلہ ہے۔
ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا، یا اردو سے انگریزی میں،
شاعری کا کیا یا نثر کا، اصناف کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہیں بھی اس کی روح
کو مجروح نہیں ہونے دیا، نہ اسلوب کا تانا بانا ڈھیلا پڑا، نہ مکالمے میں کوئی
کمزوری آنے دی، نہ منظر نگاری میں، نہ جذبات کی عکاسی میں بے لطفی و بے کیفی پیدا
ہونے دی بلکہ تمام تقاضوں سے بہت سرخ روئی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوئی ہیں۔ اور ہر دو
زبان میں اپنے علم و فن اپنی ماہرانہ حسن کاری کا ایسا نمونہ پیش کیا ہے کہ آپ عش
عش کرتے رہیں۔
کلیدی الفاظ
قرۃ العین حیدر، تراجم، ناول، ڈرامے، کہانیاں، ہمیں
چراغ ہمیں پروانے، آدمی کا مقدر، آلپس کے گیت، ماں کی کھیتی، تلاش، کلیسا میں
قتل، تین جاپانی کھیل، بچوں کا ادب، My Temples Too، Fire Flies in the Mist، A Womens Life۔
————
قرۃالعین حیدر کثیرالجہت شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ بہ یک
وقت ایک افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی، مصور، ادیب، سوانح نگار، مترجم، تخلیق
کار، بچوں کی ادیبہ وغیرہ سب ہی ہیں۔ ہر میدان میں انھوں نے قابل قدر سرمایہ چھوڑا
ہے۔ لیکن ادب میں ان کی حیثیت بطور ایک منفرد فکشن نگار کے ہی مستحکم رہی ہے۔ ادب
کی دنیا میں ان کی دوسری ادبی مصروفیات یا دوسرے ادبی کارناموں کا ذکر یا تو برائے
نام ہوا ہے یا بالکل نہیں ہوا ہے۔ ان کی دوسری ادبی حیثیتوں کے بارے میں ادب کا
محدود حلقہ ہی واقف ہے۔ عام لوگوں کو کوئی علم نہیں ہے۔ ان ہی میں ایک اہم کام
ترجمہ نگاری کا بھی ہے۔
قرۃالعین حیدر نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے ہی ترجمہ
نگاری کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا۔ یہ بات کم حیرت انگیز نہیں ہے کہ قرۃالعین حیدر
نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے سے قبل ہی بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے اور انگریزی سے
اردو میں ترجمہ کرنے بہ یک وقت شروع کر دیے تھے۔ ان کی شائع شدہ بچوں کی پہلی کہانی
جس کا ذکر اکثر لوگوں نے کیا ہے، اگر اس پر یقین کر لیا جائے تو پہلی کہانی ’بی
چوہیا کی کہانی‘ بچوں کے اخبار ’پھول‘ میں 27 ستمبر 1938 میں شائع ہوئی۔ لیکن اس
کہانی کا کوئی سراغ ابھی تک نہیں ملا ہے۔ اس وقت قرۃالعین حیدر محض گیارہ سال کی
تھیں۔ ان کی بچوں کی پہلی کہانی جو مجھے دستیاب ہوئی ہے، اس کا عنوان ’لندن‘ ہے جو
اپریل 1940 میں شائع ہوئی۔ انھوں نے میٹرک 1941 میں پاس کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر
چودہ سال تھی۔ پہلا ترجمہ ایلیس اِن ونڈرلینڈ کا کیا جو رسالہ ’پھول‘ میں 1939 میں
قسط وار شائع ہوا۔ اس وقت بھی ان کی عمر گیارہ بارہ سال کے درمیان ہی رہی ہوگی۔
پھر یہ سلسلہ کبھی تھما نہیں اور تخلیق و ترجمے کا کام پہلو بہ پہلو خوش اسلوبی سے
چلتا رہا۔ ترجمہ نگاری پہلے شروع کی اور کہانیاں بعد میں لکھنی شروع کی۔ اس طرح قرۃالعین
حیدر نے انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی میں ترجمے کے سلسلے کو کبھی منقطع نہیں
کیا بلکہ تواتر سے یہ سلسلہ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے جاری رہا۔ قرۃالعین حیدر
کے ترجمے کی نوعیت کئی طرح کی ہے:
(الف) انگریزی سے اردو
(1)
بچوں کی کہانیاں (2) ناول (3) ڈرامے
(ب)
اردو سے انگریزی
(1) اپنی
کہانیاں (2) اپنے ناول (3) اپنی
ناولٹ
(4) اردو
شاعری (5) اردو افسانے (6) مشترکہ
پروجیکٹ
ان مختلف نوعیت کے تراجم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں
کہ قرۃالعین حیدر کو اس کام میں کتنی دلچسپی تھی اور کس انہماک اور لگن سے انھوں
نے دوسری زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کر کے اردو کی وراثت میں اضافہ کے ساتھ
ساتھ مغرب کے فکر و فن کی روشنی سے اردو والوں کے دل و دماغ کو بھی تازگی بخشی اور
دنیا میں ہو رہے تجربات سے واقف کرایا۔ ان کے کاموں کی وسعت اور رنگا رنگی کو دیکھتے
ہوئے میں نے ان کے تراجم کے قابل رشک کارناموں کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا ہے۔
چونکہ مقدار اور وصفی لحاظ سے بھی یہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اسے مختلف زمروں میں
تقسیم کرنے کے بعد ہی اس پر سنجیدہ گفتگو کی جا سکتی ہے اور اس میدان میں ان کی
فتوحات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر تو ان کے ترجمے کی نوعیت دو طرح کی ہے:
(1) انگریزی سے اردو
ترجمہ (2) اردو سے انگریزی
ترجمہ
(1) انگریزی سے اردو
ترجمہ: اس میں روسی اور امریکی ادیبوں کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کیا ہے، لیکن
یہاں بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے بہترین ادبی شہ پاروں کو اردو کا جامہ پہنایا ہے۔
اس میں بھی اصناف کے تناظر میں کافی تنوع ملتا ہے۔ افسانہ، ناول اور ڈراما۔ بچوں
کے ادب میں بھی کہانیاں اور ڈرامے دونوں شامل ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے روسی ادیبوں
کے فن پاروں کا ترجمہ روسی سے اردو میں نہیں کیا ہے بلکہ روسی ترجموں کے انگریزی
تراجم کو اردو قالب عطا کیا ہے۔ غیر ملکی شہ پاروں کے ترجمے کے حوالے سے میں یہ
بات پورے یقین کے ساتھ عرض کر سکتا ہوں کہ یہ مقدار و کمیت میں اتنا زیادہ ہے کہ
سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ملازمت کی مصروفیت اور تخلیقی فعالیت کے باوجود ترجمے کا
اس قدر کام کیسے کیا۔ اس کام کے لیے کس طرح وقت نکالا سوچ کر میں ششدر رہ جاتا
ہوں۔
اب ذرا غیر ملکی ادبی شہ پاروں کے تراجم پر ایک نظر ڈالیں۔
پہلا ترجمہ ہی بہت ضخیم ہے۔ ’ہمیں چراغ ہمیں
پروانے‘۔ اس کی ضخامت 592 صفحات ہے۔ یہ ہنری جیمس کی کتاب
'A Portrait of a Lady' کا ترجمہ ہے۔ بقیہ تراجم
کی اس فہرست کو دیکھیں تو آپ کو حیران کن خوشی ہوگی کہ اپنے تخلیقی سفر کے ساتھ
ساتھ اس کام کو اتنے وسیع پیمانے پر کس طرح انجام دیا۔
قرۃالعین حیدر نے انگریزی سے اردو میں درج ذیل کتابیں
ترجمہ کی ہیں:
1۔ آدمی
کا مقدر- میخائل شولوف۔ The Fate of a Man جنوری،1965
2۔ آلپس
کے گیت- واسل بائی کوف، اگست-1969
3۔ ماں
کی کھیتی- چنگیز اعتمادوفMother Earth, Chinghiz
Aitmatov، جولائی-1966
4۔ یودووکیہ-
ویراپانووا۔ Yevdokia
-1965
5۔ کلیسا
میں قتل (منظوم ڈراما)- ٹی ایس ایلیٹ۔ Murder in Cathedral،
نیا دور کراچی، شمارہ22-21،1960
6۔ تلاش-
ٹرومین کاپوٹ۔ Breakfast at Tiffany،
نیا دور کراچی، شمارہ20-19،1960
7۔ تین
جاپانی کھیل (نو ڈرامے)-نقوش لاہور-جون،1967
ان کے علاوہ ایک اور ترجمہ ’اورڈان بہتا رہا‘ بھی ان سے
منسوب ہے، جو کسی غلط فہمی کا نتیجہ معلوم پڑتا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مخمور
جالندھری نے کیا ہے، قرۃالعین حیدر نے نہیں۔ مجھے تلاش کے دوران جتنے بھی ترجمے دنیا
بھر کی لائبریری میں ملے وہ مخمور جالندھری ہی کے تھے۔ لہٰذا اس غلط فہمی کا ازالہ
ہو جانا چاہیے۔
ہمیں چراغ ہمیں پروانے: قرۃالعین حیدر کا پہلا ترجمہ
ہنری جیمس کا ناول ’پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ ہے، جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے اس
کا ترجمہ انھوں نے ’ہمیں چراغ ہمیں پروانے‘ کے نام سے کیا ہے۔ کتاب کا عنوان فراق
کے ایک مشہور شعر کے ایک مصرعے سے ماخوذ ہے۔ شعر یوں ہے:
دنیا دنیا عالم عالم تھے اک روز یہی ویرانے
وادی وادی جنگل جنگل چھان گئے ترے دیوانے
سامنے کی چیزیں بھی فراق انسان کو چونکا دیتی ہیں
بزم میں جاگتا خواب یہ دیکھا ہمیں چراغ ہمیں پروانے
(فراق
گورکھپوری)
ہنری جیمس نے یہ ناول 1881 میں تخلیق کیا۔ قرۃالعین حیدر
نے 1958 میں اسے اردو قالب عطا کیا۔ اور یہ ناول اسی سال مکتبہ جدید لاہور سے شائع
ہوا۔ دراصل یہ کہانی اذابیل نام کی ایک لڑکی کی ہے جو آزاد خیال اور جدید ذہن کی
مالک ہے۔ حالات کی وجہ سے اس کو قسمت ایسی جگہ پر لے آتی ہے جہاں اس کی آزادی
چھن جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پیسوں کی چمک دمک والی
اس دنیا میں ہر کچھ بہت ہی خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ زندگی بہت ہی تکلیف
دہ اور نہایت ہی پریشان کن ہوتی ہے۔ ناسٹلجیا ایک الگ انداز سے اس ناول میں موجود
ہے۔
اس ناول کا ترجمہ کرتے وقت قرۃالعین نے اردو زبان کے
تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے مواد میں رد و بدل اور حذف و اضافے سے کام لیا
ہے اور اردو والوں کے لحاظ سے ناول کے ان غیر ضروری حصوں کو جس سے ناول کا تھیم
اثرانداز نہ ہو، نکال دیا ہے۔ ترجمے میں ناول کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ کیا
گیا ہے۔ ترجمہ لفظی نہیں بلکہ آزادانہ کیا ہے اور قرأت میں روانی برقرار رہے اس
کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ ترجمہ نگاری کے حوالے سے قرۃالعین حیدر کی مزید خصوصیت
جاننے کے لیے یہ دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’تیسرے
پہر کے سائے طویل ہو چکے تھے۔ انگلستان کے اس خوبصورت دیہاتی محل کے پائیں باغ میں
اب چائے پی جا رہی تھی۔ دن ڈھل رہا تھا۔ غروب آفتاب میں ابھی دیر تھی۔ لیکن موسم
گرما کی لہریں مارتی دھوپ کا سیلاب دھیرے دھیرے نیچے اترتا جا رہا تھا۔ ہوائوں میں
بڑی رسیلی سی نرمی تھی۔ گہرے سبز رنگ کی مخملی گھاس پر پھیلی درختوں کی چھائوں
چپکے چپکے پورب کی طرف سرکتی جاتی تھی۔ ٹھہرائو، دھیرج اور آسائش کا وہ ناقابل
تشریح احساس فضا میں دبے پائوں داخل ہوتا جا رہا تھا جو جھٹپٹے کے لمحات کو ایک
مخصوص کیفیت بخشتا ہے۔ شام کے پانچ بجے سے لے کر رات کے آٹھ بجے تک کا وقفہ بذاتِ
خود ایک چھوٹی سی ابدیت ہے۔‘‘(ہمیں چراغ، ہمیں پروانے، ص 7)
ذرا مکالماتی جملے کے ترجمے کا حسن بھی دیکھیں:
’’وہ
میری بیوی کی شال ہے۔‘‘ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’واپس آئیں گی تو انہی کو
لوٹا دوں گا۔‘‘
’’لوٹا
کیوں دیں گے؟ آپ کی بیچاری ٹانگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ بیٹے نے کہا۔
’’چائے
کیسی ہے؟‘‘
’’ذرا
سی گرم ہے ابھی۔‘‘ بوڑھے نے نرمی سے جواب دیا۔
اور پھر بولے ’’لارڈ وار برٹن! میرے بیٹے نے میری بیماری
حیرانی میں بڑا ساتھ دیا ہے۔ خود علیل ہے لیکن میری خاطر اپنے اوپر جوکھم اٹھاتا
ہے۔ لارڈ وار برٹن کبھی تم بھی بیمار پڑتے ہو۔‘‘
لارڈوار برٹن ایک لمحے کے لیے سوچا کیے۔
’’جی
ہاں قبلہ! ایک بار خلیج فارس میں میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔‘‘
(ہمیں
چراغ ہمیں پروانے، ص 11)
اس میں قرۃالعین حیدر نے جس تخلیقی ذہانت کا ثبوت دیا
ہے، ذرا اندازہ کیجیے۔ جب ایک تخلیقی فنکار دوسرے تخلیقی فنکار کے فن کو دوسری
زبان میں ڈھالتا ہے تو مترجم مصنف کی تخلیقیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی
ہنرمندی سے اس فن پارے میں جان ڈال دیتا ہے اور قرۃالعین حیدر نے یہ کام اپنے تمام
تراجم میں بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ’ہمیں چراغ ہمیں پروانے‘ کا ترجمہ اس کا زندہ
جاوید ثبوت ہے۔
آدمی کا مقدر
دوسرا ترجمہ ’آدمی کا مقدر‘ میخائیل شولوخوف کا ناول
ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے اندوہناک واقعات پر مبنی ایک ایسے انسان کی کہانی ہے،
چوٹ سہنا اور ظلم برداشت کرنا جس کا مقدر بن چکا تھا۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا جب
وہاں کی ظلم رسیدہ عوام نے پوری جرأت اور پامردی سے ان حالات کا مقابلہ کیا جس کے
نتیجے میں نازی ازم کو شکست ہوئی اور اس کے ظلم و ستم سے عوام کو چھٹکارا حاصل
ہوا۔ اس کہانی پر
'One Man's Destiny' کے
نام سے بڑے پردے کی فلم بھی بن چکی ہے۔ 1957 میں جس کی نمائش بھی ہوئی تھی۔
میخائیل شولوخوف کا پورا نام میخائیل ایلکسنڈر وچ
شولوخوف ہے۔ یہ روسی نژاد مصنف ہیں۔ شولوخوف 1905 میں روس کے ایک گائوں بوکنواسکایا
میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور 1984 میں انتقال کیا۔ شولوخوف ابھی
زیر تعلیم تھے کہ 1918 میں بالائی ڈون کے علاقے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور وہ
بالشویک (سرخ) فوج میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے اپنی آنکھوں سے جنگی تباہی، جبر و
تشدد، انسانی جانوں کی ارزانی کے واقعات دیکھے۔ بعد میں اس تجربے اور مشاہدے کو
انھوں نے ناولوں کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کیا۔ میخائیل ایک حقیقت نگار ناول نویس
تھے۔ انھوں نے اپنے علاقے کے عوامی مسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ یہی وجہ
ہے کہ ان کی ادبی فتوحات کا معتدبہ حصہ سماجی مصائب کی عکاسی پر مشتمل ہے۔ انھوں
نے اپنے گائوں کے قریب بہنے والے دریائے ’ڈون‘ کے حوالے سے اپنے چار ناولوں کے نام
رکھے جو اس طرح ہیں:
1. The Silent Don - 1928
2. Quiet Flows the Don - 1934
3. The Don Flows home to the Sea - 1940
ان کے دو اور ناول ہیں:
4. Virgin Soil Upturned - 1932
5. They Fought for their Country - 1959
ان کے ان تمام ناولوں نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔
ان کا ناول ’آدمی کا مقدر‘ بھی جنگ کے موضوع پر ہے۔ ان
کے ادبی اعتراف میں ان کو 1941 میں اسٹالن ایوارڈ اور 1955 میں لینن ایوارڈ سے
نوازا گیا۔ 1965 میں ادب کا نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ 53 صفحات پر مبنی اس کہانی کا
ترجمہ 1965 میں مکتبہ جامعہ نے شائع کیا ہے۔ اس طرح یہ اردو میں منظر عام پر آیا۔
جس طرح تقسیم ہند کی وجہ سے اردو میں بہترین تخلیقات
وجود میں آئیں اسی طرح دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی وجہ سے روسی ادب بھی
مالا مال ہوا اور جنگ عظیم پر مبنی بہت عمدہ تخلیقات وجود میں آئیں۔ آدمی کا
مقدر ان میں ایک ہے جس کو قرۃالعین حیدر نے اردو کے قالب میں اپنے منفرد انداز و
اسلوب سے ڈھالا ہے۔
آلپس کے گیت
تیسرا ترجمہ ’آلپس کے گیت‘
کا ہے۔ آلپس کے گیت روسی ناول نگار واسل بائی کوف کی کتاب تھی جسے روسی سے انگریزی
قالب جارج ہانا (George Hanna) نے
عطا کیا تھا۔ انگریزی ترجمہ 1966 میں شائع ہوا تھا۔قرۃ العین حیدر نے اس کتاب
کو1969میں اردو قالب میں ڈھالا اور اسی سال اگست 1969میں یہ کتاب مکتبہ جامعہ نئی
دہلی سے طبع ہوئی۔ عنوان کتاب سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی شعری مجموعہ ہے۔ لیکن
درحقیقت یہ دوسری جنگ عظیم کے دل دہلا دینے والے واقعات پر مبنی کہانی ہے۔ واسل
بائی کوف دوسری جنگ عظیم کے بارے میں کہانیاں لکھنے پر مہارت رکھتا ہے۔ قرۃالعین حیدر
نے جارج ہانا کے انگریزی ترجمے کو اردو قالب عطا کیا ہے۔
یہ کہانی دو قیدیوں کے بارے میں ہے جو کسی طرح نازی کی
قید سے بھاگ جاتے ہیں اور آلپس کی پہاڑیوں کا رخ کرتے ہیں جہاں آزادی ان کی
منتظر ہے۔ اب کیا وہ وہاں تک پہنچ پائیں گے یا نہیں یہ تجسّس قاری کو پوری کہانی
پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ آلپس کے گیت میں جو بات سب سے خاص ہے وہ اس کی اردو نثر
ہے جس کی تراش خراش اور سنوارنے کا سہرا قرۃالعین حیدر کے سر جاتا ہے۔ یہ بات جارج
ہانا کے انگریزی ترجمے میں نہیں ہے۔ قرۃالعین حیدر کا ترجمہ اتنا دلچسپ ہے اور نثر
میں اتنی روانی ہے کہ قاری اس کی رو میں رواں ہو کر اس کے مطالعے پر مجبور ہوتا
ہے۔
قرۃالعین حیدر کی نثر کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے یہ
دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’اِدھر
آئو۔ ایوان نے دوبارہ کہا۔
’’نہیں۔‘‘
’’نہیں
کی بچی۔۔۔‘‘
اس نے جھپٹ کر لڑکی کو گود میں اٹھا کر اپنے کندھے پر
لاد لیا۔
جولیا ننھی سی چڑیا کی طرح پھڑپھڑانے لگی اور ایوان کے
گھونسے مارنے لگی۔ اس نے کچھ کہا جو ایوان کی سمجھ میں نہ آیا۔ اب ایوان نے اسے
اپنی پشت پر لاد لیا اور اس کے گھٹنے مضبوطی سے پکڑ لیے۔ یکایک جولیا نے مچلنا بند
کر دیا اور اپنی بانہیں ایوان کی گردن میں جکڑ دیں۔ ایوان نے اپنے رخسار پر اس کی
گرم سانس محسوس کی، پھر ایک جلتا ہوا آنسو اس کی گردن پر سے پھسل کر اس کے کالر میں
جذب ہو گیا۔‘‘ (آلپس کے گیت، ص 97)
’’گھاس
پر نیم دراز ایوان بار بار جولیا کی پشت پر، جو تمازتِ آفتاب سے جل رہی تھی، ہاتھ
پھیرتا رہا، جولیا اس کے سینے سے چمٹی ہوئی اسے اپنے جلتے ہوئے رخسار اس کے کندھے
کے زخم کے نشان سے رگڑتی رہی اور چند ناقابل فہم الفاظ بڑبڑاتی رہی۔ مگر ایوان ان
ناقابل فہم الفاظ کے معنی سمجھ رہا تھا۔ وہ ہنس رہا تھا۔ ہلکا پھلکا ہو کر فضا میں
تیر رہا تھا۔ آسمان مدہوش ہو کر زور زور سے چکر کاٹنے لگا۔ زمین ایک عظیم الشان ٹیڑھی
میڑھی طشتری کی مانند ترچھی ہو گئی۔ ایک عجیب پرافسوں اور مست کر دینے والی خوشبو
سارے میں پھیل چکی تھی۔‘‘ (آلپس کے گیت، ص 89)
یہ نثر اس طرح کی ہے کہ قاری کی توجہ اس سے نہیں ہٹتی
اور وہ مگن ہو کر پڑھتا چلا جاتا ہے۔ قرۃالعین حیدر کے ترجمے کے اسلوب کی خوبی پر
ہمارے ناقدین نے توجہ نہیں کی ہے۔ وہ ابھی قرۃالعین حیدر کی افسانوی زبان کی سحر
کاری سے باہر نہیں نکل پایا ہے۔ قرۃالعین حیدر کی نثر کا یہی جادو ہے جو قاری کو
پوری کہانی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اتنی عمدہ نثر کسی تخلیق کار کی ہی ہو سکتی
ہے۔ اسلوب کا یہ انداز کہ الفاظ موتیوں کی طرح ہار میں پروئے جا رہے ہیں کوئی
آسان کام نہیں۔ قرۃالعین حیدر کی نثر میں تہہ در تہہ معنی کی پرتیں جمی محسوس ہوتی
ہیں۔ ہر جملہ فلسفیانہ اور کئی جہتوں کا حامل ہوتا ہے۔ جس کا اندازہ درج بالا
اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے۔
آلپس کے گیت کے مصنف واسل بائی کوف کی پیدائش 19 جون
1924 کو بیلاروس میں ہوئی تھی اور 22 جون 2003 میں وہیں ان کا انتقال بھی ہوا۔
شروع شروع میں وہ کمیونسٹ حامی رہے۔ 1991 میں روس سے الگ ہو کر بیلاروس جب ایک الگ
ملک کے طور پر وجود میں آیا تو ان کا اختلاف بیلاروس کے پہلے صدر سے اس قدر بڑھا
کہ انھوں نے ملک چھوڑنے اور ہجرت کرنے میں ہی اپنی عافیت اور سلامتی سمجھی اور فن
لینڈ، جرمنی اور چیک ریپبلک میں زندگی کے باقی ماندہ دن گزارے۔ ان کی عوامی مقبولیت
کا یہ عالم تھا کہ ان کے جنازے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہوئے تھے۔
ماں کی کھیتی
قرۃالعین حیدر کا چوتھا ترجمہ ’ماں کی کھیتی‘ ہے۔ جو
روسی ناول نگار چنگیز اعتمادوف کی تخلیق ہے۔ چنگیز اعتمادوف ایک ماہر علم الحیوانات
تھا۔ ان کا پہلا ناول 'A Difficult Passage'،
1956 میں شائع ہوا۔ اس
کے بعد 'Face to Face'،
1957 میں شائع ہوا۔
1958 میں ’جمیلہ‘ جب شائع ہوا تو اسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی جس سے ان کو اس
بات کا شدید احساس ہوا کہ ان کی دنیا علم الحیوانات تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس
کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یکے بعد دیگرے ’سرخ رومال‘، ’پہلا استاد‘ اور
’ماں کی کھیتی‘ قلم بند کیا۔ جس نے روسی ادب میں خوبصورت اضافہ کیا۔ ان کی ادبی
صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے 1963 میں ان کی کتاب
'Tales of the mountains and steps' جو کہ ان کی compilation ہے، اس کتاب میں ان کی
اپنی درج ذیل کتابیں شامل ہیں: Jamila, The First Teacher, Farewell and
Gulsary پر انھیں ادب کا لینن پرائز بھی ملا۔ ان کی
درج ذیل ناولوں پر فلم بھی بن چکی ہے: پہلا استاد
(The First Teahcer) 1965، سرخ رومال
(Red Scarf) 1970، جمیلہ
(Jamila) 1969۔ وہ یوروپی اتحاد، ناٹو، یونیسکو وغیرہ میں
کرغستان کے سفیر بھی رہے۔
روسی ادب میں ان کی مقبولیت بنیادی طور پر ’جمیلہ‘ کی
وجہ سے ہوئی لیکن ’ماں کی کھیتی‘ کو بھی بے حد سراہا گیا۔ اس ناول کو اردو میں
منتقل کر کے قرۃالعین حیدر نے ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔ ایک ماں کی درد بھری کہانی
قرۃالعین حیدر کے منفرد اسلوب کی وجہ سے اور بھی جذباتی اور مسحور کن ہو گئی ہے۔قرۃ
العین حیدر کے اس ترجمے کا ناشر بھی مکتبہ جامعہ دہلی ہے۔ اس نے جولائی 1966میں
پہلی بار اسے شائع کیا۔
یودووکیہ
پانچواں ترجمہ ایک اور روسی مصنفہ ویراپانووا کی کتاب ’یودووکیہ‘ (Yevdokia) کا
ہے۔ اس کتاب کو فارن لینگویج پبلشنگ ہائوس ماسکو نے شائع کیا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت
کی کہانی ہے جس کے پانچ بچے ہیں اور وہ ان پانچوں بچوں پر اپنی ممتا نچھاور کرتی
ہے۔ یہ ایک مختصر لیکن پراثر ناول ہے۔ اتنا ہی پراثر اور دل کو چھو لینے والا
ترجمہ قرۃالعین حیدر نے اس ناول کا کیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ
شام کو جب نتالیہ کے باورچی خانے میں بیٹھ کر اپنا سبق یاد کرتی تو آندرے اس کو
دق کرتا رہتا۔ سر کھپانے کا فائدہ؟ لونڈیا ہو، بیاہ کر لوگی۔ ڈھیروں بچے ہو جائیں
گے۔ یہ سب پڑھا لکھا بھول جائیں گے اس وقت۔‘‘
’’ہرگز
نہیں۔‘‘ نتالیہ جواب دیتی۔
’’سب
بھول جائوگی، جغرافیہ، حساب، سب کچھ۔۔۔ میں بیاہ نہیں کروں گی۔‘‘
’’اجی
خوب کرو گی، اترائو مت۔‘‘
’’اماں،
دیکھو یہ آندرے کا بچہ مجھے تنگ کیے جا رہا ہے۔‘‘
’’اب
اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔‘‘ پودو کم نے ایک دن افسوس کے ساتھ کہا، آندرے چوتھی
جماعت میں فیل ہو گیا تھا اب وہ چودہ سالہ تیز طرار لڑکا تھا۔ ہر طرح کے کام کا
اسے شوق تھا سوائے پڑھائی کے۔ پانی بھر کر لاتا، لکڑیاں چیرتا، استری گرم کرتا،
برتنوں کی مرمت کرتا، یودووکیہ اس کی مدد کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتی تھی۔‘‘(یودووکیہ،
ص 28)
ناول ’یودووکیہ‘ میں ایک سماجی کہانی کو پیش کیا گیا
ہے۔ اس میں اگرچہ کردار بہت ہیں مگر پوری کہانی اور تمام تر واقعات ایک مرکزی
نسوانی کردار ’یودووکیہ‘ کے گرد گھومتی ہے۔ اس لیے اس ناول کا نام ویراپانووا (Vera Panova) نے یودووکیہ رکھا
ہے۔ ویراپانووا کا پورا نام ویرا فیوڈورونا پانووا ہے۔ وہ 1905 میں روس کے ایک شہر
روستو -اون- ڈان (Rostov-on-Don) میں
پیدا ہوئی وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اوائل عمری میں والد کا سایہ سر
سے اٹھ گیا تھا۔ کسمپرسی کی حالت میں تعلیم و تربیت ہوئی۔ اس کے باوجود 17 سال کی
عمر میں روستوو سے شائع ہونے والے اخبار ’ٹرودو وو ڈان‘
(Trudovoy Don) سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔
اس نے دو شادی کی۔ پہلے شوہر کا نام V. Staroselskaya اور
دوسرے کا
Vera Veltman ہے۔ ان دونوں کے نام سے ان کے مضامین
ملتے ہیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز کہانی سے ہوتا ہے۔ پھر ڈرامے لکھنے شروع کیے۔
ویرا پانووا بسیار نگار تھیں۔ انھوں نے بہت لکھا ہے۔
سوویت یونین میں ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان
کے تین ناولوں پر انھیں ریاستی انعامات بھی ملے۔ 1960 میں ان کے ایک ناولٹ ’سیر یوزہ‘
کو فلمایا گیا جو بے حد مقبول ہوا اور اسے فلم فیسٹیول کا سب سے بڑا انعام بھی
ملا۔ ان کے ایک اور ناول ’سیزن آف دی ائیر‘ پر بھی فلم بن چکی ہے۔ ویراپانووا کا
انتقال 1973 میں بمقام لینن گراڈ ہوا۔
کلیسا میں قتل
’کلیسا
میں قتل‘ (Murder in the Cathedral) ان
کا چھٹا ترجمہ ہے۔ یہ ٹی ایس ایلیٹ (T.S. Eliot) کا
مشہور منظوم ڈرامہ ہے۔ ایلیٹ بنیادی طور پر فلسفے کے طالب علم رہے ہیں۔ 26 ستمبر
1888 میں امریکہ میں پیدا ہوئے، جب پچیس سال کے تھے تو انھوں نے انگلستان کا رخ کیا۔
ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک اچھے ناقد
اور انگریزی زبان کے بڑے شاعروں میں ایک اہم شاعر تھے۔ ان کے ادبی کارناموں کو دیکھتے
ہوئے 1948 میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ’کلیسا میں قتل‘ ان کا ایک
اہم ڈراما ہے جو ایک حقیقی واقعے پر مبنی ہے۔ یہ واقعہ 1170 کا ہے۔ کینٹربری کلیسا
کے ایک پادری آرک بشپ طامس بیکٹ تھے، وہ نازی حکومت کے مخالفوں میں تھے۔ نازی
حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے وہ علمبردار تھے، جس کی وجہ سے ان کا قتل ہوا
تھا۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ مانے جانے والے
Edward Grin تھے۔ انھوں نے اس واقعے کے بارے میں اپنی
تحریروں میں بہت کچھ لکھا۔ ایلیٹ ان کا مداح تھا۔ اس نے ان کی تحریروں سے اثر قبول
کرتے ہوئے یہ ڈراما تحریر کیا۔ اس ڈراما میں نازی حکومت کے خلاف انفرادی تحریک کے
علمبردار طامس بیکٹ کی داخلی کشمکش اور ان کی شہادت کی کہانی بڑی شدت کے ساتھ بیان
کی گئی ہے۔ ڈرامے میں واقعے کی وقوع پذیری کا وقت 2 دسمبر سے 29 دسمبر 1170 کے درمیان
کا وقفہ ہے۔ یہ ڈرامہ دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی بار یہ ڈراما 1935 میں اسٹیج کیا
گیا۔ اس ڈرامے کے اردو ترجمے کی سب سے بڑی خوبی اس کی نثر ہے جس میں قرۃالعین حیدر
کو مہارت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی فن کاری کا ایسا جادو جگایا ہے کہ ایسا محسوس
ہوتا ہے ایلیٹ ان کی روح میں حلول کر گئے ہیں۔ یہ ترجمہ نیادور کراچی
شمارہ22-21،1960 میں شائع ہوا۔ اسے کتابی شکل میں کسی پبلشر نے شائع نہیں کیا ہے۔
تلاش
’تلاش‘
ٹرومین کاپوٹی کے انگریزی ناول 'Breakfast at Tiffany' کا
ترجمہ ہے۔ ٹرومین کاپوٹی امریکی ناول نویس، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار تھے۔ وہ
1924 میں نیو اولینز میں پیدا ہوئے۔ انھیں لکھنے لکھانے کا شوق بچپن سے تھا۔ سترہ
سال کی عمر سے لکھنا شروع کر دیا اور مختلف رسالوں میں شائع ہونے لگے۔ ان کے ناول
’شٹ اے فائنل ڈور‘ پر انھیں او سیزی پرائز بھی ملا۔ انھوں نے 1948 میں ایک ناول 'Other Voices, Other Rooms' بھی
لکھا۔ اسے غیر معین حالات میں کام کرنا اور لکھنا پسند تھا۔
کاپوٹی نے ڈرامے بھی لکھے اور فلم اسکرپٹ بھی۔ ’تلاش‘
اس کی بہترین کہانی شمار کی جاتی ہے۔ اس نے افسانہ نگاری کی دنیا میں خوبصورت کہانیوں
کا اضافہ کیا ہے۔
اس ترجمے کو سب سے پہلے ’نیا دور‘ کراچی نے شمارہ
19-20، 1960 میں شائع کیا۔ یہ ترجمہ ابھی تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہو سکا ہے۔
اس طرح ’نیا دور‘ کراچی نے سنہ 1960 میں قرۃالعین حیدر کے دو ترجمے ’کلیسا میں
قتل‘ اور ’تلاش‘ یکے بعد دیگرے شائع کیے۔ اس سے بھی ترجمے کے فن میں ان کی دلچسپی
اور ذوق و شوق کے ساتھ ان کے انہماک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تین جاپانی کھیل
’تین
جاپانی کھیل‘ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ جاپان کے تین کھیل، تین نوہ
ڈرامے ہیں۔ اور یہ ڈرامے اتنے دلچسپ ہیں کہ قرۃالعین حیدر کا اس طرف ملتفت ہونا اس
کے نیاپن کی دلیل ہی ہو سکتی ہے۔
قرۃالعین حیدر رقم طراز ہیں ’’جاپان کا نوہ ڈراما ساری
دنیا کے ڈرامیٹک آرٹ سے مختلف اور منفرد حیثیت کا مالک ہے۔ اسے اکثر قدیم یونانی
ٹریجڈی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مگر نوہ اور یونانی ٹریجڈی میں بھی بہت فرق ہے۔ وہ
جاپانی جنھوں نے آٹھویں صدی عیسوی میں ’چار کی رسم‘ کی اس لیے بنا ڈالی کہ چپ چاپ
بیٹھ کر لوبان کی خاموش آواز کو سنیں اور حضور قلب حاصل کریں۔ اس عجیب و غریب
آرٹ فارم کے خالق ہیں۔ آرٹ اہل جاپان کے نزدیک منجمد زین ہے، اور بدھ مت کا وہ
مدرسہ فکر ہے جس میں دھیان ہی سب کچھ ہے۔ ۔۔۔قصہ مختصر نوہ اسی جاپانی ذہن کی تخلیق
ہے۔ جس نے زین کو مقبول کیا، اس کی داغ بیل بہت پہلے پڑ چکی تھی مگر چودہویں صدی عیسوی
میں نوہ ڈراما پہلی مرتبہ پروہتوں نے تصنیف کیا، اور شروع شروع میں ہم عصر مغربی Miracle اور
Mystry تمثیلوں کی طرح یہ کھیل بھی مندروں میں اسٹیج
کیے جاتے رہے۔ شنتو، مندروں کے مذہبی رقص، درباری رزمیہ رقص اور بدھ مذہب کے متبرک
پنٹو مائم نے مل جل کر اس فن کو آگے بڑھایا۔ اس وقت بدھ مت کے مندروں میں ہندو
مذہب اور دینی اثرات کی عملداری تھی۔ اس لیے شروع شروع میں نوہ ڈراما شنتو حلقوں ہی
میں محدود رہا۔ شوکن عہد میں (جس میں فیوڈل وار لارڈز شہنشاہ سے سیاسی و فوجی طاقت
چھین کر ملک کے اصل حکمراں بن بیٹھے تھے اور محض برائے نام بادشاہت کرتا تھا) نوہ
کو عروج ملا۔ یہ بے حد رومانٹک دور تھا۔ طرح طرح کی دل آویز حکایتوں، دلآوری کے
قصوں اور افسانوں سے گونج رہا تھا۔ پندرہویں صدی میں نئی بدھ تہذیب نے، جو دھیان
اور فطرت کے شاعرانہ ادراک پر مبنی تھی، یعنی زین تھی، شنتو مندروں میں پرورش پانے
والے نوہ ڈرامے کو ایک اخلاقی مقصد اور نفسیاتی وسعت بخشی اور اسے ڈراما اور کیریکٹر
بنایا۔ شنتو الوہی رقص، درباری غنائیہ شاعری، دیہاتی نوٹنکی، رمزیہ شان و شوکت سبھی
چیزیں اس میں شامل ہو گئیں۔‘‘
نوہ شاستر کے لحاظ سے ایک تمثیل پانچ حصوں میں منقسم
ہوتی ہے۔ اس طرح نوہ ساری زندگی کا احاطہ کر لیتا ہے۔ نوہ ڈرامے میں ہیروئین کا
رول ہمیشہ مرد کرتا ہے۔ بقول قرۃالعین حیدر میرا یہ ڈراما ایک جاپانی رقاص کی وجہ
سے ممکن ہوا جسے میں نے ایک اسٹوڈیو میں ایک ڈرائنگ روم میں اور ایک بے حد چھوٹی سی
اسٹیج پر ناچتے دیکھا ہے۔ ڈرائنگ روم اور اسٹیج کی روشنی میں میں نے اس کی وہ المیہ
تصویر دیکھی ہے جس نے میرے تخئیل کے تار جھنجھنا دیے۔ ازرا پائونڈ نے انگنت نوہ
تمثیلیں ترجمہ کی ہیں۔ گو ترجمہ در ترجمہ سے بات نہیں بنتی، لیکن میں انہی میں سے
تین تمثیلیں یہاں پیش کر رہی ہوں۔
گویا یہ تین جاپانی کھیل یہ تین نوہ ڈرامے ہیں جن کی
فنکارانہ پیش کش سے متاثر ہو کر قرۃالعین حیدر نے یہ صنف اردو والوں سے متعارف
کرائی ہے۔ ڈرامے کے شروع میں اس کی تاریخ اور فن پر تفصیلی گفتگو کی ہے جس سے کچھ
اقتباسات میں نے اوپر پیش کیے ہیں۔ گویا اس فن کی جدت نے ہی قرۃالعین حیدر کو اس
جانب راغب کیا۔ یہ ترجمہ بھی ’نقوش‘ کے اکتوبر 1960 کے شمارے میں شائع ہوا اور اب
تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہو سکا۔ اس طرح 1960 میں قرۃالعین حیدر کے تین ترجمے
’کلیسا میں قتل‘، ’تلاش‘ اور ’تین جاپانی کھیل‘ نیا دور، کراچی اور نقوش لاہور میں
شائع ہوئے۔
قرۃالعین حیدر کے تمام تراجم فن ترجمہ نگاری کی خوبیوں
کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد اسلوب نگارش کی وجہ سے بھی پراثر اور دلکش معلوم
پڑتے ہیں۔ تخلیقی فن کاری کے جوہر سے مملو یہ ترجمے اردو ادب کے سرمایے میں اضافہ
تصور کیے جائیں گے اور اس شعبۂ ترجمہ نگاری میں بھی ان کا مقابلہ یا موازنہ کسی
سے کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ان کے ترجمے کی اسی خصوصیت کے پیش نظر انھیں جون 1974 میں
روس میں منعقد ہونے والی روسی زبانوں کے مترجموں کی بین الاقوامی کانفرنس میں روسی
ادب کے مترجم کے طور پر بلایا گیا۔ اس کانفرنس میں 34 ممالک کے 120 ادبا و مترجمین
مع برطانیہ، فرانس، اٹلی کے نمائندوں کے شریک تھے۔
اس تاریخ ساز سفر کی وجہ سے ’گلگشت‘ جیسا رپورتاژ وجود
میں آ سکا۔ اس سے لوگ روس کی تاریخ اور تہذیب و تمدن اور روسی ادب سے پورے طور پر
واقف ہو سکے۔ قرۃالعین حیدر کی ترجمہ نگاری کے وقیع کاموں کے پیش نظر 1969 میں انھیں
سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انھوں نے ادبی آدان پردان میں ہر دو ملکوں
کی عوام کو بھی ذہنی اور جذباتی طور پر ایک دوسرے سے قریب کرنے کی کوشش کی۔ ان کی
اس کوشش کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔
بچوں کا ادب
غیر ملکی ادب کے شہ پاروں
کے ترجموں کے زمروں میں اچھی خاصی تعداد بچوں کی کتابوں کی بھی ہے۔ بلکہ ترجمہ
نگاری کی اتبدا بچوں کی سلسلہ وار کہانی ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ سے ہوئی۔ سب سے پہلا
ترجمہ یہی ہے۔ یہ ترجمہ انھوں نے محض بارہ سال کی عمر میں کیا۔ یہ کہانی بچوں کے
رسالہ ’پھول‘ لاہور میں 1939 میں قسط وار شائع ہوئی۔ پھر یہ سلسلہ جاری رہا اور
درج ذیل تراجم سامنے آئے:
1۔ لومڑی
کے بچے (فرانٹک)- اوپیروفسکایا،مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی-1992
2۔ میاں
ڈھینچو کے لیے- (اشکا اور ملکا)، اوپیرو فسکایا
3۔ خیالی
پلائو- دی میدویدیف - اگست1967
4۔ ڈنگو-
آفریرمین - 1966
5۔ بھیڑیے
کے بچے- اوپیرو فسکایا
.6 شیر خاں- اوپیرو
فسکایا
.7 ہرن کے بچے (مشکا)
اوپیرو فسکایا
8۔ بہادر-
اوپیرو فسکایا
9۔ جن
حسن عبدالرحمان- ایل لاگن، اول- اکتوبر 1962
10۔جن حسن عبدالرحمان- ایل لاگن، دوم- اکتوبر 1962
بچوں کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے کے سلسلے میں قرۃالعین
حیدر کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ بچوں کی عمر، ان کی ذہنی استعداد، ان کی دلچسپی وغیرہ
کو ذہن میں رکھتے ہوئے بالکل سہل زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’آخر
کار آپریشن ختم ہوا۔ ابا نے اس پر دوا چھڑکی۔ مشکا نے بالکل نڈھال ہو کر سر ڈال دیا
اور بے ہوش ہو گیا۔ رات بھر مشکا وہیں پڑا رہا۔ صبح کو ابا کے سہارے لنگڑاتا ہوا
گھر واپس آیا۔ اس سال وہ ڈیڑھ سینگ والا بارہ سنگھا رہا۔ لیکن اگلے موسم بہار میں
اس کے پرانے سینگ جھڑنے لگے اور نئے شاندار سینگ اگ آئے۔‘‘(ہرن کے بچے، ص 26)
’’شروع
شروع میں فرانٹک ہمارے ساتھ گھر کے اندر رہتا تھا، لیکن ہم لوگ زیادہ وقت صحن یا
باغ میں گزارتے تھے۔ اس نے بھی سہمتے سہمتے برآمدے میں نکلنا شروع کر دیا۔ اب وہ
انسانوں سے مانوس ہو گیا تھا، لیکن کتوں اور بکرے کے بچے سے ڈرتا تھا۔‘‘(لومڑی کے
بچے، ص 270)
’’اس
قسم کی بہت سی تمنا میرے دل میں دبکی بیٹھی تھیں لیکن میں ان میں سے کسی کی بھی
اتنے سچے دل اور پوری شدت کے ساتھ تمنا نہ کر سکا تھا جتنی آج اس وقت چڑیا بننے
کے لیے کر رہا تھا۔‘‘(خیالی پلائو، ص 182)
حتیٰ کہ ایسی تمام کتابوں میں بچوں کی دلچسپی اور کہانی
یا قصے کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے تصاویر کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ پوری کتاب میں
قصے کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے باتصویر کتاب بنائی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ اصل
کتاب میں تصاویر ہوں، لیکن یہ تصاویر ہندوستانی پس منظر میں دی گئی ہیں۔ بچوں کی
کہانیوں کی کتابیں کل آٹھ ہیں۔ اس میں ’جن حسن عبدالرحمان‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔
دونوں حصے ضخیم ہیں اور بقیہ کتابیں اس کے مقابلے کم ضخامت کی ہیں۔ جنّ حسن
عبدالرحمان جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ ایک جنّ کی کہانی ہے جو ہزاروں برس سے ایک
تانبے کے مرتبان میں قید تھا اور یہ مرتبان تیراکی کے ماہر وولکا کوسٹل کوف نامی ایک
اسکولی لڑکے نے تیراکی کے دوران ندی سے برآمد کیا تھا۔ بچوں کی اس دلچسپ کہانی کو
روسی الف لیلیٰ کہا جاتا ہے۔ بوڑھے جنّ حطابچ کے متعلق مصنف کا کہنا ہے:
’’شہرزاد
کی داستانوں میں سے ایک میں، میں نے اس ماہی گیر کا قصہ پڑھا جس کے جال میں ایک
تانبے کی صراحی پھنس گئی تھی اور اس صراحی میں ایک زبردست جنّ ہزاروں برس سے قید
تھا۔ اس جنّ نے قسم کھا رکھی تھی کہ جو کوئی اسے آزاد کرے گا، وہ اسے انتہائی
دولت مند اور طاقتور بنا دے گا۔‘‘
ان دو حصوں میں اسی جنّ کی دلچسپ کہانی ہے۔ جانور اور
پرندوں سے بچوں کو ہمیشہ خاص دلچسپی رہی ہے۔ اس لیے بچوں کے ادب کا ایک بڑا حصہ
جانوروں اور پرندوں کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اسی دلچسپی کے پیش نظر قرۃالعین حیدر
نے بھی ایسی روسی کہانیاں جس میں جانوروں کا ذکر ہے، بچوں کے لیے روسی سے ترجمہ کی
ہیں۔ جیسے لومڑی کے بچے (فرانٹک)، میاں ڈھینچو کے بچے (اشکا ملکا)، ہرن کے بچے
(مشکا) یہ تینوں کہانیاں بچوں کے لیے کافی دلچسپ ہیں۔ ’بھیڑے کے بچے‘ کا ذکر بھی
ملتا ہے لیکن تلاش بسیار کے باوجود یہ کتاب مجھے دستیاب نہیں ہو سکی۔ کہانی کی ایک
اور کتاب ’بہادر‘ بھی دستیاب نہیں ہو سکی۔ ’خیالی پلائو‘ چند اسکولی بچوں کی ایسی
تمنا ہے جو ممکن ہونے والی نہیں ہے۔ اسی لیے اسے ’خیالی پلائو‘ کا نام دیا گیا جس
میں چند اسکولی بچے پڑھنے میں کمزور ہونے کی وجہ سے چڑیا بننے کی خواہش کر کے
آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ لیکن خیال صرف خیال ہی رہتا ہے، عملی طور پر
ممکن نہیں ہو پاتا۔ بچوں کی تمام کتابیں مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے طبع ہوئی ہیں۔
سنہ ماہ و سال اوپر فہرست میں درج کر دیا گیا ہے۔
اردو سے انگریزی
اپنے ناولوں کے: قرۃالعین حیدر نے عالمی ادب کے شہ
پاروں کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو سے انگریزی میں اپنی
تخلیقات کے بھی تراجم کیے ہیں۔ یہ بھی مقداری لحاظ سے کافی وقیع ہیں، جس کی تفصیل یہ
ہے۔
سب سے پہلے اپنے اول ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ کا ترجمہ 'My Temples, Too' کے نام سے کیا جسے
ثنا ایڈیٹوریل اینڈ پبلشنگ سروس، کراچی نے شائع کیا۔ تاریخ اشاعت معلوم نہیں ہو سکی
ہے۔ ہندوستان میں
Kali for Woman نے 2004 میں اسے شائع کیا۔
اس کے بعد اپنے متنازعہ اور مشہور زمانہ ناول ’آگ کا دریا‘ کا ترجمہ 'The River of Fire' کے نام سے کیا جسے
نیو ڈائریکشن، نیو یارک نے شائع کیا۔ ہندوستان میں اس کتاب کوکالی فار ویمن، حوض
خاص، نئی دہلی نے پہلے 1998 میں اور دوسری بار 2003 میں شائع کیا۔ ’آگ کا دریا‘
کا یہ ترجمہ اردو میں شائع ناول کا مختصر ترین ترجمہ ہے۔ قرۃالعین حیدر کا کہنا ہے
کہ اس ناول کا میں نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ دوبارہ تخلیق
(Recreation) کیا ہے۔ ایسا انھوں نے اس لیے کیا کہ اس
ترجمہ میں انگریزی قارئین کے لحاظ سے بہت سے باب حذف اور مختصر کر دیے گئے ہیں۔
ماہر مترجم پروفیسر اسدالدین کا کہنا ہے کہ ’’مصنفہ نے ترجمہ کرتے وقت ان عناصر کو
ناول سے نکال دیا جو تہذیبی طور پر خاص اردو کی وجہ سے ناول کا حصہ تھے اور ان
عناصر کا اضافہ کیا جو انگریزی زبان دانوں کی تہذیب کا حصہ ہیں۔ یہ ترجمہ نوبل
پرائز کی دوڑ میں شامل ضرور ہوا، لیکن انعام حاصل کرنے سے محروم رہا۔ اس سے بھی اس
ناول کی اہمیت و مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’آگ
کا دریا‘ کے بعد ان کا سوانحی ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ دو حصوں میں جون 1977 اور
جنوری 1979 میں شائع ہوا۔ پھر 1967 سے 1969 تک تیسرا نیا ناول ’آخر شب کے ہم سفر‘
گفتگو، بمبئی کے شمارہ اول تا چہارم میں چار قسطوں میں شائع ہوا۔ پھر سال 1979 میں
چودھری اکیڈمی، لاہور، پاکستان اور علوی بک ڈپو، ممبئی سے ایک ساتھ کتابی صورت میں
شائع ہوا۔ قرۃالعین حیدر نے اس ناول کی اہمیت کے پیش نظر اسے انگریزی قالب بھی عطا
کیا۔
'Fire Flies in the Mist' نام
کے اس ناول کو اسٹرلنگ پبلی کیشن نے 1994 میں شائع کیا۔ ان کے اس ناول کو عامر حسین
کے تعارف کے ساتھ Women Unlimited نے
2008 میں دوبارہ شائع کیا۔
اپنے ناولٹوں کے: قرۃالعین حیدر نے اپنے ناولٹوں میں سب
سے پہلے ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ کا ترجمہ
'A Woman's Life' کے نام سے کیا جسے 1979 میں چیتنا پبلی
کیشن نے شائع کیا۔ اس کے بعد ناولٹ ’چائے کے باغ‘ کو انگریزی قالب عطا کیا۔ 'The Garden of Sylhet' کے
نام سے یہ کتاب شائع ہوئی۔ ’ہائوسنگ سوسائٹی‘ کا ترجمہ ساہتیہ اکیڈمی نے شائع کیا
ہے اور یہ ناولٹ افسانوی مجموعہ ’پت جھڑ کی آواز‘ میں شامل ہے۔
اپنے افسانوی مجموعے: افسانوی مجموعوں میں قرۃالعین حیدر
نے سب سے پہلے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ افسانوی مجموعہ ’پت جھڑ کی آواز‘ کو
انگریزی قالب عطا کیا۔ اس مجموعے پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ 1967 میں تفویض کیا گیا
تھا۔ اس میں کل سات افسانے ’ڈالن والا‘، ’جلاوطن‘، ’یاد کی ایک دھنک جلے‘،
’قلندر‘، ’کارمن‘، ’ایک مکالمہ‘، ’پت جھڑ کی آواز‘ اور ایک ناولٹ ’ہائوسنگ سوسائٹی‘
شامل ہے۔ اس مجموعے کو ساہتیہ اکیڈمی نے 1994 میں
'The Sound of Falling Leaves' کے نام سے شائع کیا۔
دوسرا افسانوی مجموعہ
Kali for Women نے 2008 میں
Street singers of Lucknow and other stories کے
نام سے شائع کیا۔ اس کا تعارف عامر حسین نے لکھا ہے اور اس میں درج ذیل افسانے
شامل ہیں:
1. Street singers of Lucknow 2. The
story of Cathedrine
3. Confessions of Saint Flora of Georgia 4. The
Guest House
5. Beyond the speed of Light 6. A
Night on Pali Hill
7. Honour 8. The Missing Photograph
9. Tea Garden of Sylhet
اپنے افسانوں کا: ان دو افسانوی مجموعوں میں شامل
افسانوں کے علاوہ بھی قرۃالعین حیدر نے اپنے اور بھی افسانوں کا ترجمہ کیا ہے جو
السٹریٹیڈ ویکلی اور امپرنٹ بمبئی میں شائع ہوئے ہیں۔ اور انھیں کتابی شکل میں
شائع نہیں کیا جا سکا ہے۔ جیسے ڈالن والا، حسب نسب وغیرہ
اردو کے معروف افسانہ نگاروں کے افسانے: قرۃ العین حیدر
نے صرف اپنے افسانوں کو ہی انگریزی قالب عطا نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ہم عصر افسانہ
نگاروں کے افسانوں کو بھی انگریزی میں ترجمہ کر کے قارئین کے ایک وسیع حلقے سے ان
کو نہ صرف متعارف کرایا بلکہ عالمی ادب میں ان افسانہ نگاروں کی پذیرائی کرائی اور
اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو اپنے ہم عصر انگریزی فکشن نگاروں کے معیار و
اقدار پر جانچا پرکھا اور انگریزی فکشن نگاروں کو اردو میں لکھے جا رہے افسانوں کے
ٹرینڈ، ٹیکنک، موضوع اور معیار سے متعارف کرایا۔
انھوں نے بنگلہ زبان کے معروف فکشن نگار اور مشرقی
پاکستان کے ادیب سید ولی اللہ کی کہانی کا ’نائو‘ کے نام سے ترجمہ کر کے ’ماہ نو‘
لاہور میں نومبر 1958 میں شائع کرایا۔ مشہور کہانی کار ابوالفضل صدیقی کی کہانی کا
ترجمہ ’ڈیتھ آف اے فقیر‘ کے نام سے شائع کیا، جو السٹریٹیڈ ویکلی میں شائع ہوئی۔
انتظار حسین کی کہانی کا
'The Legs' کے
نام سے ترجمہ کیا جو ستمبر 1970 کے السٹریٹیڈ ویکلی میں شائع ہوئی۔ آغا بابر کی
کہانی ’نو رنگ‘ کا ترجمہ کیا۔ خالدہ اصغر کی کہانی ’سواری‘ کا ترجمہ 'The Wagon' کیا اور 24 ستمبر 1972 کے
السٹریٹیڈ ویکلی میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور کی کہانیوں
کو بھی انگریزی قالب عطا کیا۔ ان کہانیوں کا انگریزی ترجمہ کرتے وقت قرۃالعین حیدر
نے ان کے قارئین کی ذہنی سطح اور انگریزی زبان و ادب کے معیار کا پورا پورا خیال
رکھا ہے۔
اسی طرح ابن انشا کے مضمون ’اردو کی آخری کتاب‘ کو بھی
انگریزی قالب میں ڈھالا۔ وہ خود فرماتی ہیں:
’’اپنے
دوستوں کی اچھی تخلیقات کے علاوہ اگر مجھے کسی بھی ادیب کی کوئی چیز پسند آتی ہے
تو میرا جی چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں۔ میں نے السٹریٹیڈ ویکلی آف
انڈیا میں انتظار حسین، خالدہ اصغر، ابوالفضل صدیقی اور آغا بابر کے افسانے جو
مجھے بہت اچھے لگے فوراً ترجمہ کر کے شائع کیے۔ اس سے قبل میں ہاجرہ، خدیجہ اور کئی
ادیبوں کی چیزیں انگریزی میں ترجمہ کر چکی ہوں۔‘‘ (فن اور شخصیت، ص 212)
ترجمے کو وہ ایک تخلیقی عمل تصور کرتی ہیں۔ اس لیے
ترجمے کرنا ان کا پسندیدہ شغل ہے۔ وہ اس عمل میں بھرپور لطف اندوز ہوتی ہیں۔ وہ
ترجمے کو تخلیق کے دو بہ دو کا عمل قرار دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فن پارہ کسی بھی
زبان کا ہو، اگر ان کو پسند آ جائے تو پھر وہ زیادہ سے زیادہ قاری تک اسے پہنچانا
نیک عمل سمجھتی ہیں اور فوراً ترجمہ کرنے بیٹھ جاتی ہیں۔ اس طرح ان کے ترجمے کا
دفتر بھی کافی وسیع ہے اور اس میں طرح طرح کی چیزیں شامل ہیں۔
مشترک ترجمہ: دو کتابیں ایسی بھی ہیں جس کے ترجمے میں
قرۃالعین حیدر نے دوسروں کے ساتھ اشتراک کیا۔ جس میں ایک کتاب کا تعلق فکشن سے ہے،
دوسرے کا شاعری سے۔ فکشن کی کتاب کا نام ’اسٹوریز فرام انڈیا‘ ہے۔ اس میں ہندوستان
کے اہم فکشن نگاروں کی اہم تخلیقات کا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب قرۃالعین حیدر نے
خوشونت سنگھ کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ اور پھر اسے انگریزی قالب میں ڈھالا ہے۔ اس
کتاب کو اسٹرلنگ پبلی کیشن دہلی نے 1974 میں شائع کیا ہے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر غالب کا صد سالہ
جشن منانے کے لیے وزارت ثقافت حکومت ہند نے کل ہند سطح پر دانشوران ادب کی ایک کمیٹی
رفیق زکریا، ممبر آف پارلیامنٹ، چیئرمین شپ میں ’’یادگار غالب کمیٹی‘‘ کی تشکیل کی
جس میں اور ممبران کے علاوہ علی سردار جعفری اور قرۃ العین حیدر بحیثیت ممبر شریک
کیے گئے۔ اس کمیٹی نے حکومتی سطح پر’جشن غالب‘کے اہتمام کے ساتھ ساتھ غالب کی یاد
کو قائم و دائم رکھنے اور عوامی سطح پر غالب کی عظمت کو متعارف کرانے کے لیے غالب
کی شخصیت اور اس کی شاعری کو انگریزی میں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا
اور اس کا قرعہ فال سردار جعفری اور قرۃ العین حیدر کے نام نکلا۔ سردار جعفری نے
غالب کی شخصیت کو متعارف کرایا اور قرۃ العین حیدر نے غالب کی پانچ فارسی اور پانچ
اردو غزلوں کو انگریزی جامہ پہنایا۔ اس کتاب کا پیش لفظ بحیثیت چیئرمین کمیٹی رفیق
زکریا نے قلم بند کیا۔ اس طرح98صفحات کی ایک خوبصورت کتاب غالب کی شخصیت اور شاعری
پر وجود میں آئی۔ جشن یادگار کمیٹی نے صد سالہ تقریبات کے موقع سے غالب کو ایک
خوبصورت خراج تحسین پیش کیا۔
اسی طرح دوسری کتاب علی سردار جعفری کے اشتراک سے
انتخاب و ترجمہ کیا ہے۔ ’غالب اینڈ ہز پوئٹری‘ کے نام سے یہ کتاب 1970میں پاپولر
پرکاشن، بمبئی سے شائع ہوئی ہے۔
اسی طرح حسن شاہ کے فارسی ناول ’نشتر‘ کا انگریزی میں
ترجمہ کیا۔ یہ کتاب پہلی بار 'The Nautch Girl' کے
نام سے اسٹرلنگ پبلی کیشن، دہلی سے 1992 میں شائع ہوئی۔ اسی کتاب کا امریکن ایڈیشن
1995 میں ’ڈانسنگ گرل‘ کے نام سے آیا۔ اس کی ضخامت 112 صفحات ہے۔
قرۃالعین حیدر نے نثری اصناف میں ناول، ناولٹ، افسانے،
ڈرامے کے تراجم تو کیے ہی، لیکن انھوں نے نثر پر ہی صرف اکتفا نہیں کیا بلکہ شاعری
کو بھی عزت بخشی اور قابل افتخار سرمایہ اس صنف میں بھی چھوڑا۔ غالب کی شاعری کا
ترجمہ سردار جعفری کے اشتراک سے تو کیا ہی، لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے اقبال،
فیض اور غالب کی غزلوں اور نظموں کا بھی ترجمہ کیا۔ اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ کا
ترجمہ 'New Temple' کے
نام سے کیا۔ فیض کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ
'Trees and Minarates of Blood' کے نام سے کیا۔ اور یہ
ترجمہ 18 اپریل 1971 کے السٹریٹیڈ ویکلی میں شائع ہوا۔ غالب کی فارسی غزل ’بیاکہ
قاعدۂ آسماں بگر دانیم‘ کو بھی اپنے مخصوص انداز میں انگریزی قالب عطا کیا۔ یہ
تو ایک مختصر سی داستان ہے جس کا تذکرہ میں نے یہاں کیا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے نثری
اور شعری سرمائے کو انھوں نے انگریزی پیکر میں ڈھالا ہے۔ یہ ایک مکمل تحقیق کا
مسئلہ ہے۔
ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا، یا اردو سے انگریزی میں،
شاعری کا کیا یا نثر کا، اصناف کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہیں بھی اس کی روح
کو مجروح نہیں ہونے دیا، نہ اسلوب کا تانا بانا ڈھیلا پڑا، نہ مکالمے میں کوئی
کمزوری آنے دی، نہ منظر نگاری میں، نہ جذبات کی عکاسی میں بے لطفی و بے کیفی پیدا
ہونے دی بلکہ تمام تقاضوں سے بہت سرخ روئی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوئی ہیں۔ اور ہر دو
زبان میں اپنے علم و فن اپنی ماہرانہ حسن کاری کا ایسا نمونہ پیش کیا ہے کہ آپ عش
عش کرتے رہیں۔
ایک تخلیقی فن کار کے طور پر فکشن کے تراجم میں اس کی
تمام جزئیات و باریکیوں پر ان کی دسترس تو کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے۔ اور اس میدان
میں کمال فنکاری کا مظاہرہ بھی ترجمے کی سطح پر سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ پھر
اردو سے انگریزی میں ترجمہ پر ان کی دسترس کا جواز بھی اسی مناسبت سے سمجھ میں
آتا ہے۔ لیکن شاعری کی باریکیوں پر اتنی گہری نظر یقینا حیران کن ہے۔ اور یہیں پر
ان کی تخلیقیت کے جوہر نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ انھوں نے شعری روایات سے حسن
کارانہ آگاہی کا روشن ثبوت فراہم کیا۔ اس میدان میں بھی ترجمے کے جملہ تمام
تقاضوں سے پوری ذمے داری کے ساتھ عہدہ برآ ہوئی ہیں۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں
ترجمے کے فن میں جس مہارت کی ضرورت ہے یا جو مہارت ہونی چاہیے یا ہر دو زبانوں میں
جو دست گاہ حاصل ہونی چاہیے، یا جتنی دسترس کی ضرورت ہے، قرۃالعین حیدر کے تراجم
اس کی مکمل شہادت پیش کرتے ہیں۔ ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے۔ سب سے
دقیق مسئلہ زبان کا ہوتا ہے۔ ہلکی سی چوک سے بھی معنیاتی نظام درہم برہم ہو سکتا
ہے اور منشائے مصنف کے خلاف معنی بدل کر کچھ سے کچھ ہو سکتے ہیں۔ اس سطح پر مترجم
کو چاق و چوبند رہنا پڑتا ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم دوسری زبانوں کے افکار و اقدار سے
بھی آشنا ہوتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ دونوں زبانوں کی تہذیب اور ڈکشن کا ہوتا ہے۔
ترجمے میں اصل کی روح کو اس کے حسن کے ساتھ برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یعنی
ترجمہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کم از کم دو زبانوں کی تہذیبی روایتیں کارفرما ہوتی
ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے محض زبان کا ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ زبان کے پیچھے کارفرما
پوری تہذیبی اور روایتی فضا کو ذہن میں رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے ترجمے
تخلیق کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ان کی ذہانت، قوت تخئیل، اسلوب،
انداز بیان سب کارفرما ہوتے ہیں۔ ان تراجم سے ان کی زبان دانی کا بخوبی اندازہ لگایا
جا سکتا ہے۔ ترجمے کے جس رخ پر نظر جاتی ہے ان کی بے پناہ استعداد کا اعتراف کرنا
پڑتا ہے۔ اپنی مہارت اور دیدہ وری اور تخلیقی وژن کا جو ثبوت انھوں نے ان تراجم میں
پیش کیا ہے، اس سے قبل اس طرح کے شش جہتی ترجمے کی روایات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
یہ صرف اور صرف قرۃالعین حیدر کی اپنی قائم کردہ روایت ہے جو شاید انہی پر ختم بھی
ہو گئی ہے۔ رہتی دنیا تک ان کے ادبی ترجمے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہیں
گے اور اس میدان میں بھی ان کے منفرد کارنامے کی دھوم ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
Dr. Jameel Akhtar
B-102, Central Tower
Kela Nagar
Aligarh- 202001 (UP)
Mob.: 9818318512
E-mail:- jameelakhtar786@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں