14/1/25

ہندوستانی تہذیب کا عکاس نظیر اکبر آبادی، مضمون نگار: حنا کوثر

 اردو دنیا، دسمبر 2024

نظیر اکبرآبادی کا اصل نام سید ولی محمد اور تخلص نظیر تھا۔ والد کا نام محمد فاروق، والدہ نواب سلطان خاں قلعہ آگرہ کی بیٹی تھیں۔ نظیر اکبرآبادی کے والدین کی تیرہ اولادیں تھیں لیکن کوئی زندہ نہیں بچی، صرف نظیرزندہ رہے۔ ان کی پرورش والدین نے بڑے نازو محبت سے کی۔ ولادت 1735 کو دہلی میں ہوئی۔ وہ محض 4 سال کے تھے کہ 1739 میں احمد شاہ ابدالی اور 1747میں نادرشاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا، چاروں طرف تباہی اور بربادی پھیل گئی اسی سبب وہاں کے باشندے دہلی چھوڑ کر دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہے تھے۔ نظیر اکبر آبادی کو ان کی والدہ اورنانی دہلی سے لے کر اکبر آباد (آگرہ)آگئیںاور یہاں کے محلہ تاج گنج میں نوری دروازے کے نزدیک ایک مکان لے کر رہنے لگیں۔ یہیں پر نظیر کی شادی محمد رحمان کی بیٹی ظہور النسا بیگم سے ہوگئی۔ان کی دواولادیںایک لڑکا گلزار علی اور بیٹی امامی بیگم تھیں۔نظیر اکبرآبادی کی شخصیت بہت ہی پروقار تھی،وہ ایک سیدھے سچے، خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے۔ انھوں نے اپنی نظم کے ذریعے اپنی شخصیت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے: چند اشعار ملاحظہ ہو     ؎

کہتے ہیں جس کو نظیر ٹک اس کا بیاں

تھا وہ معلم غریب بزدل و ترسندہ جاں

پست روشن، پستہ قد،سانولہ،ہندی نژاد

تن بھی کچھ ایسا ہی تھا قد کے موافق درمیاں

ماتھے پہ ایک خال تھا چھوٹا سا مسّے کے طور

تھا وہ بڑا آنکھ اور ابروؤں کے درمیاں

جتنے غرض کام لیں اور پڑھانے کے سوا

چاہیے کچھ اس سے ہوں اتنی لیاقت کہاں

فضل سے اللہ نے دیا اس کو عمر بھر

عزت و حرمت کے ساتھ پارچہ و آب و ناں

نظیر نے اپنی بیشتر نظموں میں اکبرآباد کا ذکر کیا ہے کیونکہ انھیں اپنے وطن سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ آزاد طبیعت کے مالک تھے۔ خودداری ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی اس لیے اپنے عہد کے مشہور روساء کی دعوت پر کبھی ان کے یہاں نہیں گئے۔اپنی مرضی سے معلمی کے لیے متھرا گئے لیکن جلد ہی وہاں سے لوٹ آئے،آگرہ میں چند روز بھاؤ قلعہ دار کو درس، بعد ازاں محمد علی خاں کے بچوں کو تعلیم دینے لگے لیکن یہاں بھی ان کی طبیعت نہیں لگی۔ راجا ولاس رائے کے بچوں کو 17روپے ماہانہ تنخواہ پر اپنے گھر کے سامنے نیم اور بیری کے درخت کی چھاؤں میں بوری پر بیٹھا کر پڑھاتے تھے۔ اپنی بقیہ عمر انھیں درختوں کے سایہ میں گزارد ی۔ بالآخر 1826 کو فالج کا دورہ پڑنے کے سبب 16 اگست 1830 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

نظیر اردو کے پہلے شاعر ہیں جس نے صحیح معنوں میں اردو شاعری کو زندگی اور اس کے مسائل کا ترجمان بنایا۔اگر یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ اردو شاعری میں زندگی اور خارجی دنیا کی صحیح نمائندگی کا آغاز نظیر اکبرآبادی کی شاعری سے ہوا۔ انھوںنے کسی خاص طبقے کو نہیں بلکہ ہر طبقے کے انسا ن اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری میں شامل کیا۔ نظیر نے اردو شاعری کے ذریعے عوام کو بہت کچھ عطا کیا اور عام انسان کی زندگی کو اپنے فن کی اساس بنایا۔

نظیر نے غزل کے زمانۂ عروج میں جب غزل کوہر شاعراپنے کلام کاحصہ بنائے ہوئے تھا، اُس وقت انھوں نے نظم کو اظہار خیال کا بھرپور وسیلہ بنایا، اس لیے ہم انھیں نظم گوئی کا مطلع اول قرار دے سکتے ہیں۔ وہ اپنے دور کے تنہا شاعر ہیں جنھوں نے روایت سے ہٹ کر شاعری کی اور غزل کے اس دور میں صنف نظم کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ :

’’نظیر جیسا شاعر جو اپنے عام انداز میں روایت شکن ہے۔ غزل کے بجائے نظم اختیار کرتا ہے۔‘‘

ولی کے شمالی ہند آنے کے بعداردو شاعری میں غزل کی حکمرانی رہی ہے۔ نظیر اکبرآبادی نے ولی سے لے کر غالب تک کے زمانے کو دیکھا، ان کے مقلدین میں آبرو، ناجی،یک رنگ، مضمون، شاکر اور احسن تھے۔ ان سبھی شعرا نے غزل سرائی کی اور ایہام گوئی سے کام لیا۔اس کے بعد مظہر جانِ جاناں اور خان آرزو نے زبان میں ندرت اور سادگی پیدا کی۔پھر حاتم اور ان کے بعد سودا ومیر کاعہد آتا ہے۔میر غزل کے بادشاہ تھے، قصیدہ گوئی کے میدان میں کوئی شاعر سوداکا مقابلہ نہیں کر سکتا۔میر حسن نے سحر البیان لکھ کر حیات جاوید حاصل کی، لیکن ان سبھی شعرا نے عموماً روایتی اصناف شاعری پر ہی توجہ صرف کی۔اس کے برعکس نظیر ہی ایک ایسے شاعر تھے جنھوںنے عام مروجہ روایت سے ہٹ کر شاعری کی۔ان کے متعلق ابواللیث صدیقی تحریر فرماتے ہیں :

’’اس دور میں نظیر کا وجود ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک پھیلے ہوئے ریگستان میں ہرے بھرے نخلستان کا ہوتا ہے۔‘‘2

نظیر ایک فطری شاعر تھے انھوںنے جو کچھ بھی تحریر کیا اپنی فطری صلاحیتوں کے سبب کیا اس لیے وہ اپنے دورکے بے نظیر شاعر کہلائے۔اپنی بیشتر شاعری عوام کے لیے لکھی جو کچھ ان کی نظروں کے سامنے موجود رہا یہی ان کے کلام کے موضوعات بنے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری فطری ہے۔ انھوںنے اپنے کلام کو یکجا یا جمع کرنے کی کبھی فکر نہیں کی۔وہ راہ چلتے نظمیں کہہ دیا کرتے تھے۔ عوام ان سے طرح طرح کی فرمائش کرتی،بچے نے کہا تو نظم لکھ دی، فقیر آیا اس کے لیے صدا لکھ دی،کوئی شاعر آیا غزل لکھوا لے گیااور جس شے پر مزاج بن گیا نظم کہہ دیتے۔ہندوستان کے تمام مذہب انھیں پسند تھے اور ہر موسم ان کو اچھا لگتا تھااس لیے انھوںنے اپنی نظموں کے ذریعے روز مرہ، عوامی زندگی، ہندوستانی موسموں اور تہواروں کی عکاسی بڑے اچھوتے انداز میں کی۔ہندوستانی رسم و رواج، عادات و اطوار، میلوں، ٹھیلوں کا بیان جتنی خوش اسلوبی کے ساتھ نظیر کے یہاں نظر آتا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے شعرا کے یہاں دیکھنے کوملتی ہو۔نظیر کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ان کا رنگ منفرد تھا کیونکہ انھوںنے روایت سے ہٹ کر عوام کے لیے شاعری کی۔گلشن بے خار میں شیفتہ ان کی شاعری سے متعلق لکھتے ہیں :

’’اس کے بہت سے اشعار بازاری لوگوں کی زبانوں پر ہیں،لیکن ان اشعارکی وجہ سے ان کو شاعروں میں نہیں گنا جاسکتا۔‘‘3

نظیر اکبر آبادی کا انداز منفردتھا۔انھوں نے جس زمانے میں آنکھیں کھولی وہ بڑاپُرآشوب دور تھا۔ نادرشاہ اور احمد شاہ ابدالی کے ناگہانی حملوں نے دہلی کو بالکل تباہ و برباد کردیا۔ ادھر جاٹوں نے بھی بغاوت کردی، انھیں اسباب کی وجہ سے ملک میں ایسی تباہی پھیلی کہ اقتصادی اور سماجی نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ نظیر، اکبرآباد میں رہتے ہوئے بھی اس تباہی و بربادی کے المناک واقعے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں نے متعدد نظموں میں ان حالات کی عکاسی کی ہے۔ان کی مشہور نظم ’شہر آشوب‘میں سماجی شعور اور انسانی درد مندی کی بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس نظم میں انھوںنے زوالِ تہذیب پر افسوس ظاہر کیا ہے، عام انسانوں کے درد کو اپنا سمجھ کر حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ کیا ہے۔نظم کی بنیاد بے روزگاری پر ہے بند ملاحظہ ہو      ؎

بے روزگاری نے یہ دکھائی ہے مفلسی

کوٹھے کی چھت نہیں ہے یہ چھائی ہے مفلسی

دیوار و در کے بیچ سمائی ہے مفلسی

ہر گھر میں اس طرح سے پھر آئی ہے مفلسی

پانی کا ٹوٹ جاوئے ہے جو اک بار بند

نظیر نے دنیا کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا بھی۔ وہ عام لوگوں سے بہت قریب تھے یہی وجہ ہے کہ انھوںنے اپنی نظموں میں عوامی زندگی کو موضوع کے طو رپر پیش کیا۔ ان کی شاعری کا تعلق عوامی زندگی سے ہے، اسی لیے انھوںنے وہی زبان استعمال کی جو عوام میں رائج تھی۔ ان کی نظموں کے اہم موضوع جو عوامی زندگی کی دلچسپیاں، ہنگاموں،عادات و اطوار، رسم و رواج، خیالات و عقائد اور نفسیات کی مرقع کشی بھی ہیں۔نظیر عام طبقے سے بخوبی واقف تھے۔ وہ ان کے ہر سیر تماشا، میلہ ٹھیلہ، جلوس و جلسہ میں شریک رہتے تھے۔ انھوںنے مختلف تہواروں مثلاً ہولی، دیوالی، راکھی، جنم کنھیا، درگا جی کے درشن، عید، شب رات وغیرہ پر نظمیں تحریر کیں۔ اس و جہ سے ان کی شاعری میں مقامی رنگ جا بجا نظر آتاہے۔ ان کے کلام میں فرسودہ و عشقیہ داستان کی جگہ روزمرہ کے عام مسائل پائے جاتے ہیں۔ جو چیزیں آنکھوں کو نظر آجاتی نظیر ان کی عکاسی اپنے الفاظ میں کردیتے جس میں ان کا منفرد انداز پایا جاتا ہے۔موت، خوشامد، تسلیم، رضا، دنیا، سواریاں، کی کڑی اور پنکھیا وغیرہ ان گنت نظمیں ہیں۔ جو اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ انھوںنے اپنی نظموں کے ذریعے مساوات کا پیغام دیا ہے۔ مشہور و معروف نظم ’آدمی نامہ ‘ کے اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظم’ آدمی نامہ‘ کے متعلق ڈاکٹر ابواللیث کا خیال ہے کہ :

’’آدمی نامہ انسان دوستی کا ایسا منشور ہے جس میں نظیر کی کہانی پہلی مرتبہ انسان محض انسان کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔‘‘4

نظیر خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ انھوںنے ہندی زبان میں بہت کچھ لکھا، وہ ہندوستانی زبان استعمال کرتے تھے۔ ’لنڈرے‘ جیسے لفظ کا استعمال ’بگلا بھگت‘ جیسے ہندی محاورے کی بھر مار و تشبیہ، استعارے اور تضاد کابرمحل استعمال شاید ہی دیگر شعرا کے کلام میں دیکھنے کوملے۔اس کی عمدہ مثال نظم ’دنیا بھی کیا تماشا ہے‘  جس کے اشعار پیشِ نظر ہیں           ؎

بطخوں کی لمبی گردنیں مورست لنڈورے ہیں

سفید کوئے ہیں چیلوں کے رنگ بھورے ہیں

جو سادھو سنت ہیں پورے سو وہ ادھورے ہیں

کپٹ کی ندی پہ بگلے بھگت کے پورے ہیں

نظیر نے اپنی شاعری میں ہندوستانی زبان استعما ل کی ہے۔ان کی شاعری میں تشبیہ و استعارے کا استعمال جا بجا دیکھنے کوملتا ہے ساتھ ہی انھوںنے مناظر فطرت کی عکاسی بڑے خوبصورت اندازمیں کی ہے۔ ان کے یہاں ایک قسم کا تضاد بھی نظر آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ لوگوں کو دنیا سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتے ہیں، زندگی کی عیش و عشرت اور رنگ رلیوں سے فیض اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں اور دوسری جانب دنیا کی بے ثباتی اور موت سے ڈرا کر دنیا والوں کی تمام خوشیاں چھین لیتے ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر احتشام حسین رقمطراز ہیں :

’’نظیر کے یہاں ایک قسم کا تخلیقی تضاد نظر آنے لگتا ہے …ایک طرف تو نظیر نے دنیا سے لطف اندوز ہونے پر زور دیا ہے عیش و مسرت کو اکساکر اس دنیا کو رنگین بنانے کی دعوت دی ہے۔ زندگی کے لطف اور جوانی کی سیر،مستیوں کی طرف اشارہ کر کے رنگ رلیوں میں حصہ لینے کی جانب مائل کیا ہے اور دوسری طرف موت، خدا،نیکی اور بدی، فنا اور عقبیٰ سے ڈرا کر عیش و مسرت کی تخلیقی لذت بھی ہم سے چھین لیتے ہیں۔‘‘5

نظیر نے زندگی اور موت کا ایسا تصور پیش کیا ہے کہ چاہے جس حالت میں زندگی بسر کرو لیکن ایک روز موت ضرور آنی ہے۔ اپنی مشہور نظم ’موت‘ میں وہ یوں بیان کرتے ہیں          ؎

پہنا کسی نے خوب لباس عطر کا بھرا

یا چیتھڑوں کی گدڑی کوئی اوڑھ کر پھرا

آخر کو جب اجل کی چلی آن کر ہوا

اولے کے جھونپڑے کو کوئی چھوڑ کر چلا

باغ و مکاں، محل کوئی بنوا کے مرگیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر ایک آکے مرگیا

ہندوستان میں عوام کا بنیادی اور خاص مسئلہ مفلسی اور غریبی رہا ہے۔ اس مسئلے کو انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے متعدد جگہ بیان کر کے پورے ملک کا نقشہ کھینچا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ عہد حاضر تک موجود ہے۔یہی سبب ہے کہ ترقی پسند شعراء نے سب سے زیادہ فیض نظیر کے کلام سے اٹھایا تھاکیوںکہ ان تمام مسائل کو نظیر نے اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔نظم ’دربیان مفلسی‘ کے بند سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوںنے عام آدمی کی زندگی کو بہت نزدیک سے دیکھاتھا     ؎

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی

کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی

پیاسا تمام روز، بٹھاتی ہے مفلسی

بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی

نظیر کی شاعری کا محور ہندوستانی دیہات رہا ہے۔ دیہاتیوں اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والے مصالحے وغیرہ کے ایسے الفاظ جن کو اس عہد کے شعرا نے کم تر اور بازاری سمجھ کر چھوڑ دیا تھا انھیں الفاظ کو نظیر نے اپنی زیست بنایا۔ بدھیا، بیل، بھیسا، آگ، دھواں، گیہوں،مٹر،شکر، مصری، قندگری، سانبھر، سونٹھ، مرچ، کیسر،لونگ، سپاری جیسے الفاظ کا استعمال کوئی نہیں کرتا تھا۔انھوںنے اپنی مشہورنظم ’بنجارہ نامہ ‘ میں ایسے الفاظ کا بخوبی استعمال کیا ہے          ؎

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شترکیا گوئیں،پلا سربھارا

کیا گیہوں،چاول،موٹھ،مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اردو ادب کی ابتدا میں ادب اطفال پر لکھنے والوں میں امیر خسرو، میر،غالب، نظیر،حالی، محمد حسین آزاد اور اس کے بعد اقبال، پریم چند،اسماعیل میرٹھی،چکبست، حامداللہ افسر کی تخلیقات بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ان تمام ادیبوں میں صرف نظیر اکبرآبادی ہی واحد ایسا نام ہے جو معیاری ادب اطفال پرکھرا اترتا ہے۔ ان کی مشہور نظمیںہرن کا بچہ، گلہری کا بچہ، ریچھ کا بچہ، پتنگ بازی، کبوتر بازی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات کو عام کرتی ہیں۔ اس کے متعلق محمود الرحمن تحریر فرماتے ہیں:

’’صحیح معنوں میں نظیر اکبرآبادی وہ پہلے شخص ہیں جنہوںنے بچوں کے ادب کو مذہب اور نعت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کی بزم میں پہنچایا ہے جہاں ان کے احساسات و جذبات نمایاں ہیں۔‘‘6

نظیر نے معاشرے میں پھیلی ہوئے بخل و لالچ جیسی برائیوں کا احتجاج بھی اپنی نظموں کے ذریعے کیا ہے۔اس بند کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہو جائے گاکہ نظیر معاشرے میں رہ رہے ہر فرد کو نصیحت کر رہے ہیں کہ وہ بخل سے کنارہ کشی اختیار کرے،ملاحظہ ہو       ؎           

دولت جو ترے پاس ہے رکھ یاد تویہ بات

کھا تو بھی اور اللہ کی راہ میں کر خیرات

دینے سے رہے اس کے ترا اونچا سدا ہاتھ

اور یہاں بھی تری گزرے گی سو عیش سے اوقات

اور  واں بھی تجھے سیر دکھلائے گی بابا

ہمارا ہندوستان ملی جلی تہذیب کا گہوارا ہے یہی وجہ ہے کہ نظیر کو ہندوستانی اقوام سے محبت تھی۔ انھوںنے اپنی شاعری میں ہر قوم کے تہواروں کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میںکیا وہ اپنی شاعری میں ہندوستانی جھلک پیش کرنا چاہتے تھے۔ہندی الفاظ پر انھیں کافی عبور حاصل تھا اس لیے انھوںنے ہندوستانی تہذبی کی عکاسی بڑے اچھے ڈھنگ سے کی ہے۔کرشن کنہیا، راجا کنس، گرونانک اور حضرت شیخ سلیم چستیؒ پر انھوںنے اچھی نظمیں لکھیں ہیں۔جن کے ذیل میں چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں          ؎

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں،تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی لی

——

دوستوں کیا کیا دیوالی میں نشات و عیش ہے

سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایان ہے شے

——

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

——

ابر کرم سے تیرے دائم ہے سبز و خرم

عالم کا سب گلستاں حضرت سلیم چشتی

نظیر اکبر آبادی کو ملک کی ہر شے سے الفت تھی اس لیے اپنی نظموں کے ایسے عنوانات کا انتخاب کیا جس کا تعلق ہندوستان سے ہے۔مناظر قدرت کا نظارہ بڑے خوبصورت پیرائے میں کیا۔بادل کی نوبتیں، جھینگرکی آوازیں، پپیہے کی پی پی، مینڈک کی ملار، برسات کے موسم میں کس طرح لطف دیتی ہیں جن سے ہم مزہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ تمام مناظر اور اشیا ہمیں کسی دیگر ملک میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔برسات کے موسم کا ذکر انھوںنے اس طرح کیا کہ پورا منظر آنکھوں کے سانے گھومتاہوا دکھائی دیتا ہے۔ بند ملاحظہ ہو      ؎

بادل لگا ٹکوریں نوبت کی گت لگاویں

جھینگر جھگار اپنی سرنائیاں بجاویں

کہ شور مور، بگلے جھڑیوں کا مینا بلاویں

پی پی کریں پپیہے، میڈک ملارے گاؤیں

کیا کیا مچی ہے یارو برسات کی بہاریں

نظیر کی شاعری میں ہندوستانی معاشرے کی ہر چھوٹی بڑی شے کے عناصر موجود ہیں۔انھوں نے اپنی نظمیں صاف و سلیس زبان میں تحریر کیں تاکہ عام قاری کو بآسانی سمجھ میں آسکے۔ان کے کلام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد انھیں خالص ہندوستانی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ جب نظم جدید کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو انجمنِ پنجاب کے حوالے سے محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کی خدمات کو اس تحریک کے نقطۂ آغا ز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس تحریک کے آٖغاز سے قبل نظیر اکبرآبادی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شاعری کو ادبی معیار پر پرکھ کر دیکھیں تو نظیر اکبر آبادی کی قدرو قیمت اپنے آپ مسلم ہو جائے گی۔

حواشی

1        نظیر اکبر آبادی ان کا عہد اور شاعری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، اردو اکادمی سندھ کراچی،ص 28

2        ایضاً، ص 28

3        گلشن بے خار، شیفتہ

4        نظیر اکبر آبادی ان کا عہد اور شاعری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، اردو اکادمی سندھ کراچی،ص101

5        تنقیدی جائزے،احتشام حسین،ص 186

6        آزادی کے بعد بچوں کا ادب، محمود الرحمن،مشمولہ ماہنامہ کتاب، لاہورجنوری 1976، ص 9

 

Dr. Hina Kausar

Add : Kausar Villa, Gali No 2

New Abadi Brola Zafra Abad

Aligarh- 202201 (UP)

Cell.:  9319215561

hkhenakausar1@gmail,com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...