13/1/25

دہلی کی تہذیبی روایت کا امین بشیر الدین احمد دہلوی، مضمون نگار: نصرت پروین

 اردو دنیا، دسمبر 2024

بیسویں صدی کے ممتاز و مشہور ادیب، شاعر، ناول نگار، محقق، مورخ اور دانشور مولوی بشیرالدین احمد دہلوی کی پیدائش 4 اگست 1861اور وفات 23 اگست 1927 دہلی میں ہوئی۔ یہ شمس العلما ڈپٹی نذیر احمد کے اکلوتے صاحب زادے تھے۔ بشیر الدین احمد دہلوی تقریباً بیس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کتابوں میں ’اقبال دلہن 1908’حسن معاشرت‘ 1912 ’اصلاح معیشت‘ 1917 ’تاریخ بیجانگر‘1910 ’واقعاتِ مملکتِ بیجاپور، حصہ اول، دوم، سوم1915 ’واقعاتِ دارالحکومتِ دہلی،حصہ اول،دوم،سوم1919 ’نشاط عمر‘ 1911 ’عصائے پیری‘ 1914’حرز طفلاں‘ 1915 ’عزم بالجزم‘ 1921’شمع ہدایت‘ 1921’حکایت لطیفہ‘ 1925 ’لطائف عجیبہ‘ 1925 ’مجموعہ استاد‘ اور ’لکچروں کا مجموعہ‘ 1918 جس کے پہلے حصے میں 1888 سے 1895 تک کے 22 لکچرز اور اسی کتاب کے دوسرے حصے میں 1895 سے 1905 تک کے 22 لکچرز شامل ہیں۔ بشیر الدین احمد نے اپنے والد ڈپٹی نذیر احمد کے لکچرز کو یکجا کر کے دو جلدوں میں شائع کیا۔’مجموعہ نظم بے نظیر‘ میں بھی نذیر احمد کی ہی نظموں کو شائع کیا گیا ہے۔’فرامین سلاطین‘ 1926 میں خاندان سلاطین خلجی سے لے کر فرامین عادل شاہی بیجاپور کی یادگارِ فرامین اور فہرستِ تصورات ِعکسی وغیرہ شامل ہیں۔ ’لختِ جگر‘ حصہ اول اور دوم 1921، دیوانِ بشیر‘ ’انشائے بشیر‘ 1924،حیات قیصری ‘، ’تمثال الامثال‘، ’درد دل‘ رسالہ ’مس لیڈر‘ بھی شامل ہیں۔ ان تمام کتابوں کی فہرست مضامین سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے کارنامے کس درجہ وسیع اور بلند ہیں۔ان کتابوں کے مطالعے سے اس دور کی ادبی، سیاسی، سماجی،تہذیبی، اور اخلاقی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ کتابیں اس قدر اہمیت کی حامل ہیں جس میں اس عہد کی تاریخ اور اس کے کلچر سے ہمیں روبرو کراتی ہیں اور اتنا ہی نہیں یہ تمام تصانیف اس عہد کا آئینہ بھی ہیں جس میں 115 سال پرانی ہندوستانی تاریخ خصوصا دہلوی تہذیب و تمدن سے واقف ہو سکتے ہیں اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر بھی کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے انھوں نے جس زمانے میں اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اسے ہر لحاظ سے تبدیلیوں کا دور کہا جاتا ہے اور اس زمانے میں ان کی شہرت و مقبولیت سے بیش تر احباب واقف تھے لیکن آج کے دور میں ان کو ناول نگار کی حیثیت سے شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ان کی تاریخی کتاب ’واقعات در الحکومت دہلی‘ کی وجہ سے ہی محض ان کی شناخت ابھی تک برقرار ہے۔

بشیر الدین احمد دہلوی کا شمار اردو ناول کے اولین معماروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تمام تصانیف جن کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا اگر ہم ان پر ایک نظر بھی ڈالیں تو یہ واضح ہوگا کہ ان کی چند کتابیں اس صنف میں اولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ امریکی پادری ڈاکٹر سلوینس اسٹال  کی چار کتابوں کا انھوں نے اردو میں ترجمہ کیا جس کا عنوانات حرز طفلاں ، نشاط عمر، عصائے پیری اور شمع ہدایت ہیں۔ ان کتابوں میں نوجوان بچوں کی نفسیات کو باقاعدہ طور پر مکمل نفسیات کے پیرایے میں لکھی گئی ہم پہلی کتاب تسلیم کر سکتے ہیں۔ اس بات کی گواہی خود اس کے مصنف     بشیر الدین احمد دہلوی نے کتاب کے مقدمے میں دی ہے کہ اس موضوع پر ہندوستان میں کوئی کتاب اس وقت تک نہیں لکھی گئی تھی۔ کتاب کے مقدمے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کا ترجمہ مصنف نے بہت ڈرتے ڈرتے ہی کیا تھا۔ یہ تو ترجمے کی بات ہے لیکن بہت افسوس ہے کہ بیسویں صدی کے فکشن نگاروں نے بھی ان کو کس طرح فراموش کر دیا گیا۔

بشیر الدین احمد دہلوی کے ناولوں میں بعنوان اقبال دلہن، حسن معاشرت اور اصلاح معیشت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور ہر ایڈیشن میں کم از کم دو سے چار ہزار کتابیں منظر عام پر آئیں اور اس کے ساتھ ان ناولوں کی اس قدر پزیرائی ہوئی تھی کہ پنجاب،آگرہ اور اودھ کی ٹکسٹ کمپنیوں نے اپنے مدارس کے نصاب میں شامل بھی کیا تھا۔ لیکن ان کتابوں کو بھی فراموش کر دیا گیا۔ اگر ہم بیسویں صدی کے ناول نگاروں کا مطالعہ کریں تو بشیر الدین احمد دہلوی کے ناول کا ذکر کہیں نہیں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ انھوں نے اپنے والد ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی تقلید کرتے ہوئے منفرد اسلوب اور اسی طرز اظہار میں رسم و رواج کی ایسی نقاشی کی ہے جس میں دہلی کی تہذیب، رسم و رواج اور یہاں کے ثقافتی لوک گیتوں کی بہترین مثال پیش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن نکات کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے ان میں روایتی تعلیم کے فروغ، لندن کی آب و ہوا، نوجوان ذہن کی آبیاری اور فیشن طلب نئی باتوں کی اہمیت وغیرہ کا بھرپور نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ان کے ناولوں کا مطالعہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ ایسے موقعے پر صالحہ عابد حسین کا خیال آتا ہے جو انھوں نے اپنے مضمون بعنوان ’دلی کی خواتین تہذیبی و سماجی زندگی‘ میں رسم و رواج کی پابندی کے تعلق سے کیا خوب لکھا ہے، پہلے اسے ملاحظہ کریں پھر بشیر الدین احمد کے ناولوں سے اقتباس دیکھیے جس میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے:

’’اسی طرح میلاد باری باری سب اپنے اپنے گھروں میں کرتے... اس وقت عورتوں کی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت تھی اور ان کی تہذیبی زندگی کا یہ ایک بڑا جزو تھی۔ ایک حد تک آج بھی ہے۔ شادی بیاہ، منگنی، سانچق وغیرہ کی رسمیں تو اس تہذیب کی گویا جڑیں تھیں۔ زندگی میں چہل پہل اور خوشی اس سے پیدا ہوتی تھی۔ تعلقات اس میں بنتے اور بگڑتے تھے۔ روٹھنا، مننا اس میں ہوتا تھا۔ یہ تقریب سعید دو چار دس پانچ دن کی نہیں ہوتی تھی، مہینوں اس کی مصروفیت رہتی۔‘‘

(دلی کی تہذیب، صالحہ عابد حسین، اردو اکادمی، دہلی 2001، ص56)

اب بشیرالدین احمد دہلوی کے ناول’اقبال دلہن‘ سے ایک اقتباس دیکھیے جس میں رسم و رواج کو پیش کرتے ہوئے کتنی باریک بینی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ منگنی کی رسم کے بعد جس طرح شادی اور جہیز کی تیاریاں کی جاتی ہیں اسی طرح بارات آنے سے قبل ادا کی جانے والی ایک رسم ’سانچق‘ کی منظر کشی کتنی خوبصورتی سے کی گئی ہے، ملاحظہ کریں:

’’سانچق کی رسم بھی منگنی کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ جمعرات کو سانچق ٹھہری اور جمعہ کو بارات ہفتے کی وداع۔ بری پہلے سے طیار ]تیار[ تھی۔ خوان پوش، کشتی پوش اور تورے پوش ڈھک دیے گئے۔ سہاگ پُڑا الگ جھم جھم کر رہا تھا۔ گیارہ من میوہ، ڈھائی من مصری، چاندی کی قلعی کی چار ٹھلیاں دو میں دودھ اور دو میں شربت۔ بانس کی کھپچیوں کے سیکڑوں جو گھڑے رنگ برنگ کے کاغذات اور پنی سے منڈھے ہوئے ان میں چار چار نقشیں ٹھلیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس میں سونے چاندی کی دو کنگھیاں دو شیشیاں عطر سہاگ، ناگرموتھا، بال چھڑ صندل، زعفران وغیرہ خوشبودار چیزیں اور اکیس روپے دلہن کی بہنوں کے نیگ، چوتھی کا جوڑا، سرمے اور مسی کی دو بڑیاں، تیل اور گلاب کے چاندی کے کنٹر، سرخ ریشمیں ململ کا دوپٹہ اور اس ململ کے چولے کا سبز کپڑا۔‘‘

(اقبال دلہن، بشیرالدین احمد دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، 1913، ص 131)

اسی طرح سانچق سے قبل مائیو کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ناول نگار اس رسم کی بھی عمدہ تصویر کشی کرتے ہیں۔ ’اقبال دلہن‘ ناول میں چالیس ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ دسواں باب دلہن کی تلاش سے لے کر منگنی، جہیز کی تیاری، مائیوں بٹھانا، سانچق، بارات، رخصتی، ولیمہ، چوتھی، چالے سے لے کر بچے کی ولادت تک اتنے رسم و رواج کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جس طرح بیان کیا گیا ہے گویا اس میں دہلی کی تاریخی تہذیبی اور ثقافتی رسم و رواج اور یہاں کی لوک گیتوں کی ایک تاریخ تحریر کی گئی ہے۔ ایک بہترین ناول ماضی کی تاریخ اور حال کا ترجمان ہونے کے ساتھ مستقبل کے پوشیدہ راز اور حیات نو کے لیے پیغام بھی ہوتا ہے جو زندگی کو بہتر بنانے میں مزید حوالوں سے مددگار ثابت ہوتا ہے اور یہ خوبی ہی مقصد حیات کہلاتی ہے۔ اس اعتبار سے بشیرالدین احمد دہلوی کا ناول اس کی عمدہ مثال ہے۔ بشیرالدین احمد نے اپنے والد ڈپٹی نذیر احمد کی وراثت کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے مضبوط اور توانا بھی بنایا۔

بشیرالدین احمد دہلوی کے اہم معاصرین اور اس عہد میں لکھے گئے ناولوں کا اگر سرسری مطالعہ بھی کریں تو سب سے پہلا نام مرزا ہادی رسوا کا آتا ہے۔ بشیرالدین احمد اور رسواکے یہاں کردار، تکنیک اور اسلوب میں مماثلت ضرور پائی جاتی ہے لیکن رسوا کے ناولوں میں مکالماتی بیانیہ زیادہ درپیش ہیں۔ رسوا کا نسوانی کردار بعض صورتوں میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے اور بشیرالدین احمد محض اصلاحی پہلو اجاگر کر پاتے ہیں۔ ان کے کردار کا مقصد محض اسلامی مذہب کی راہ پر چل کر انسانی زندگی کی تزئین و تہذیب اور معاشرتی اخلاقی        و اشتراک کا یقین کرنا ہے۔ ہاں لیکن رسوا کے مقابلے بشیر الدین احمد شادی بیاہ اورا زدواجی زندگی کو زیادہ بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔ رسوا کے بعد اگر ہم عبدالحلیم شرر کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو شرر کے سماجی ناولوں اور بشیرالدین احمد دہلوی کے ناولوں کا پس منظر ایک جیسا ہی ہے۔ مذہبی آدمی یہ دونوں تخلیق کار ہیں۔ ’بدرالنساء کی مصیبت‘، ’آغا صادق کی شادی‘ اور ’اقبال دلہن‘ میں شادی بیاہ اور رسم و رواج کو پیش کیا گیا ہے لیکن بشیر الدین احمد نے ’اقبال دلہن‘ میں جس طرح رسم و رواج کی پابندی کی وہ شرر کے یہاں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس عہد کے بڑے تخلیق کاروں میں راشد الخیری کا نام بھی آتا ہے۔ ان دونوں کے ناولوں کی اشاعت عنقریب ہی ہے۔ تعلیم نسواں کی اشاعت اور اس کے فروغ میں روشن خیالی کا گہرا مشاہدہ جس طرح راشدالخیری کرتے ہیں اور تاریخی واقعات کو جن ہنرمندی سے بیان کرتے ہیں اس معاملے میں بشیرالدین احمد کمزور ہیں۔

بشیرالدین احمد اور راشد الخیری کے ناولوں میں مماثلت جہاں سب سے زیادہ پائی گئی ہے، وہ ان کی دہلوی نثر، دہلی کے سماجی اور تاریخی واقعات کا بیان ہے۔ مگر ان دونوں کی انفرادیت جس مقام پر قائم ہوتی ہے وہ راشدالخیری کے یہاں ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید رجحانات کو پیش کرنے میں ایک فنی نقطہ نظر کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ بشیرالدین احمد کے یہاں حال سے مستقبل کا سفر طے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان کا نقطہ نظر حال میں ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں اپنا فیصلہ خود کرنے کی صلاحیت کرداروں میں موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس عہد میں راشدالخیری ایک بڑے اہم تخلیق کار ہیں جن کے یہاں نذیر احمد کی طرز تحریر، زبان و بیان اور تمثیلی حالات و واقعات کو یا ان اثرات کو پیش کرنے میں بشیرالدین احمد سے زیادہ قریب وہ نذیر احمد کے ہو جاتے ہیں۔

سجاد حیدر یلدرم کا ناول ’ثالث بالخیر‘ اور بشیر الدین احمد کا ناول ’اقبال دلہن‘ موضوع کے لحاظ سے ملتے جلتے ہیں۔ ان دونوں ناولوں میں بیش تر حصہ ازدواجی زندگی کا شامل ہے، لیکن ایک میں مغربی معاشرت کی بھرپور عکاسی ہے اور ایک مشرقی معاشرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اپنے ناولوں میں داستانوی عناصر کا ان دونوں نے خوب استعمال کیا ہے۔ زیورات، کپڑے اور جہیز کا سارا سامان اور اس کے بیان میں بھی مماثلت زیادہ پائی جاتی ہے۔ فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے معاشرے میں جو برائیاں پھیل چکی تھیں اس کو یلدرم سے زیادہ بہتر طریقے سے دور کرنے کی کوشش بشیرالدین احمد کرتے ہیں۔ آخر میں اگر ہم پریم چند کے یہاں بھی دیکھیں تو یہ دونوں ہر لحاظ سے بہت مختلف ہیں لیکن پریم چند کے دو ناول، ایک ’ہم خرما اور ہم ثواب‘ اور دوسرا ’روٹھی رانی‘ کے عنوانات میں کہیں کہیں جہاں شادی اور   رسم و رواج کو بیان کیا گیا ہے وہاں مماثلت پائی جاتی ہے۔ پریم چند نے جہاں بھی رسم و رواج کی پابندی کی یا اس منظر کو پیش کیا وہاں ان کی نظر کردار کی حرارت پر زیادہ ہوتی ہے۔ بشیرالدین احمد ایسے موقع پر دہلی کے ایک معزز خاندان کے تمام مثبت رسم و رواج کو ہی پیش کرتے ہیں جس کا دائرہ مخصوص ہے مگر بشیر الدین احمد رسم و رواج کا بیان اور منظر کشی پریم چند سے زیادہ بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔

بشیرالدین احمد نے اپنے ناولوں میں دہلی کی تہذیبی و ثقافتی روایتوں کو اس طرح زندہ رکھا ہے کہ جس سے ہمیں اس وقت کی عورتوں کی مذہبی، سماجی اور تہذیبی زندگی کی عکاسی، دلی میں تقریبات کی دھوم دھام، مذہبی عقیدے کا سماجی زندگی میں کیا مقام تھا۔ میلاد کی محفلیں، شادی بیاہ منگنی، سانچق وغیرہ کی رسمیوں میں یہاں کی تہذیب کی جڑیں، جہیز اور بری کا سامان، دہلی کا دستور، شادی میں، سمدھنوں کی شان و شوکت اور نخرے،تانے بانے وغیرہ ان تمام چیزوں کا بیان دراصل یہاں کے کلچر میں جو چیزیں اخلاق اور زندگی میں شامل تھیں اس وقت یہاں کی خواتین کے لیے یہ بڑی اہم چیزیں تھیں۔ اس پر بشیرالدین احمد کو عبور حاصل ہے۔ اگر ہم دہلی کی تہذیبی روایت کا مطالعہ کریں تو دلی میں جو شادی بیاہ کے موقعے پر ایک دستور تھا خصوصاً جہیز لے جانے کا، وہ کس شان بان سے دولہا کے گھر سامان پہنچتا تھا جس میں مسرت و شادمانی کی فضا میں بہت ساری رسموں کو انھوں نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ اس وقت عورتوں کی زندگی میں شادی بیاہ کی بڑی اہمیت ہوتی تھی جو آج کے وقت میں مسائل کافی بدل چکے ہیں۔

مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بشیرالدین احمد نے اپنے ناولوں میں پرانی تہذیب، پرانی قدروں، پرانی رسموں اور اپنے بزرگوں کے بنے بنائے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نئی تعلیم اور نئے زمانے کے ساتھ بدلتی ہوئی دنیا کو بھی پیش کیا ہے۔ ان کے ناولوں میں جدید تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد نوجوان نسلوں میں ایک انقلاب کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن بشیرالدین احمد اس زمانے کے ڈھانچے اور اس زمانے کے کلچر، یہاں کی تہذیب، رہن سہن، ریت رواج وغیرہ کے بیان میں پہلے کی تہذیب اور بعد کی سماجی صورت حال اور ان میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ یہ پرانی تہذیب کے دلدادہ ہیں اور نئی قدروں کو بھی اپنے سینے سے لگاتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں کرداروں نے یہ ثابت کیا کہ اخلاقی اور تہذیبی قدریں اگر باقی رہتی ہیں تو پرانی اور نئی تہذیب کی آمیزش سے ایک نئے اور زیادہ دلکش رنگ و آہنگ کا کلچر پیدا ہوتا ہے جس کی بنا پر انسانیت کا ایک اور منفرد رنگ ابھرتا ہے۔ اس خوبیوں کی داد دینی ہوگی کہ بشیرالدین احمد نے اپنے ناولوں میںدلی کی عورتوں کی ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جس میںیہاں کی تہذیبی، مذہبی، اخلاقی، اور لسانی قدروں کو ان لوگوں نے اپنے سینے سے کس طرح لگا رکھا تھا،ا س کی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے۔ بشیرالدین احمد نے اپنے ناولوں سے یہ ثابت کر دیا کہ تہذیب کی تشکیل میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس بنا پر ہم بشیرالدین احمد دہلوی کو دہلی کی تہذیبی و ثقافتی روایت کا امین مان سکتے ہیں۔

بشیرالدین احمد نے اپنے سے قبل ناول کی تکنیک کو دیکھ اور سمجھ رکھا تھا اس لیے ان کے یہاں جدید تعلیم، ریاضی اور سائنس کی دلچسپی نے ایک شریف اور معمولی کردار جو کہ ناول’اقبال دلہن‘ میں اقبال مرزا کا ہے، اسے آئی اے اس کے امتحان پاس کرنے کے بعد لندن کے سفر کے لیے روانہ ہوا۔ان کے مزاج میں حقیقت بینی اور حقیقت نگاری بھی پیدا کر کے دکھائی۔ان خوبیوں کے ساتھ دہلی میں رہتے ہوئے یہاں کے اہل زبان کی اصل بول چال اور اس کی کھلی فضا نے ایک جاذب اور دلکش رنگ و آہنگ کو بھی دکھایا۔ایک خوبصورت نوجوان لڑکا جو کئی خوبیوں کا مالک اور ہر صلاحیت سے بھرپور اقبال مرزا وہ لندن کی آب و ہوا میں اپنی تہذیبی روایت کو برقرار رکھتا ہے لیکن ہندوستان آ کر ایک ایسے موڑ پر جب اس کی بیوی کو اولاد نہیں ہوتی تو یہ بغیر اطلاع یا اجازت کے دوسرا نکاح کر لیتا ہے۔ ایسے میںبشیر الدین احمد نے مرد کی نفسیات اور اس کے تخیل کے متضاد تصور میں حقیقی عنصر کو کس طرح ظاہر کیا یہ اہم ہے۔ان حالات اور گرد وپیش کے معاشرے کو جس طرح دکھایا گیا اس سے قدم قدم پر ان کی تخلیقی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ انھوں نے محض اپنے ناولوں میں خیالی قصے نہیں گڑھے ہیں بلکہ حقیقی واقعات میں فن کے مطابق ترمیم و تنسیخ بھی کی ہے۔واقعات کے انتخاب میں انھوں نے جگہ جگہ کردار سے وہ کام بھی لیا جس میں بڑے سلیقے اور ہنر مندی سے جب جیسے حالات ہوئے اس مطابق اس کا رخ بھی موڑلیا گیا جو بعض اوقات قاری کو حیرت میں بھی ڈال دیتا ہے۔ظاہرہے یہ تجربہ کہیں نہ کہیں مصنف کی زندگی میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔حقیقت کو بنیاد بنا کر تخلیقی عنصر کی مدد سے واقعات میں وہ لچک پیدا کر دی گئی ہے کہ ہمارے اندر ان کے ناولوں کو پڑھنے کا تجسس پیدا ہو جاتا ہے۔حالانکہ وہ زمانہ ناولوں کے سوانحی عنصر کا ہے کیونکہ اس دور میں کئی ناول ایسے لکھے گئے ہیں جس میں سوانحی عناصر نمایاں ہیں۔ان میں سرشار،شرر،رسوا اور بعد میں پریم چند کے یہاں بھی قصے ان کی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں۔ظاہر ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے اس کے اپنے تجربات اور مشاہدات سے بڑھ کر حقیقی اور جذباتی چیز شاید ہی کچھ اورہو سکتی ہو۔ اس لیے بشیر الدین احمد کے بیشتر ناولوں کی بنیاد مجھے ان کی اپنی زندگی کے واقعات سے ملتی جلتی بھی محسوس ہوتی ہے جس میں یہ اپنے معاصرین سے منفرد اور کامیاب نظر آتے ہیں۔

جیسا کہ بشیر الدین احمد نے لکھا بھی ہے کہ انگریزی کے ناولوں کا بھی مطالعہ کیا تھا کیونکہ قدیم انگریزی ناولوں میں منظر نگاری پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔انھوں نے اپنے ناولوں میں اس کی بھرپور تقلید کی ہے۔ناولوں کے علاوہ بھی الگ الگ مناظر کو پیش کیا گیا ہے۔اچھے اور برے دونوں طرح کے نمونے شامل کیے ہیں۔ طویل بیانات سے پرہیز کیا گیا ہے۔قدرتی مناظر کو انھوں نے بالکل نظر انداز کیا ہے۔مناظر کی جگہ پر جذبات نگاری کو زیادہ بہتر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ڈرامائی عناصر بھی نہیں دکھائے گئے ہیں اس لیے کہانی پہلے سے بنی بنائی محسوس ہوتی ہے۔ناول کی وہ خصوصیات جو انسانی زندگی کے بے ربط واقعات کو مربوط رکھ کر بے معنی و مقصد زندگی میں قدروں کی تخلیق اس طرح کرتی ہے جس سے ناول کی ہیت اور معنویت کا اندازہ ہوتا ہے وہ ناول کے کردار سے ظاہر ہوتی ہے۔یہ خوبیاں ناول کے اچھے کردار کے کاندھوں پر ہوتی ہے جو باقی کردار کی خوبیوں یا خامیوں کو اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ بشیر الدین احمد کو جو اس زمانے میں اتنا سراہا گیا تھا شاید ان خوبیوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ان کے کردار کے زندہ رہنے کی وجہ شاید اصلاحی و مقصدی خوبی ہی ہے۔ان کے ناولوں میں عورتوں کا کردار مرد کردار سے زیادہ طاقتور اور ایماندار ہے جو آخر دم تک دھوکہ نہیں دیتی اور وفا کی دیوی ثابت ہوتی ہے۔باغیانہ جوش ان کے نسوانی کردار میں کہیں نظر نہیں آتا۔تین عورتیں ان میں ایک بیوہ ماں دوسری بڑی بیگم اور تیسری چھوٹی بیگم کو کہ سوکن ہے یہ کردار کی تشکیل میں جو مشاہدے کی گہرائی اور نفسیاتی بصیرت نظر آتی ہے وہ مرد کردار پر بھاری ہے۔ یہ مثالی کردار مخصوص خیالات کو پیش کرنے میں اہم ہیں۔ان مثالی کرداروں سے ہم مرعوب تو ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کو احترام کی نظر سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔یہ انتہائی رنج و غم میں بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتی جس سے ان کے خاندان اور پرورش پر کوئی سوال اٹھائے جب کہ یہ ہر قدم بڑھانے کی اہل ہیں۔ ان کے مکالمے مختصر ہیں ان کے کردار نذیر احمد کے کرداروں کی طرح بحثوں میں نہیں لگے رہتے ان کے مکالموں میں حقیقی گفتگو کی خوبی بھی نظر آتی ہے۔

بیسویں صدی کا احاطہ کرتے ہوئے اردو ناول کے ارتقا میں جتنی اہم تنقیدی و تحقیقی کتابیں شائع کی گئی ہیں ان میں بشیر الدین احمد دہلوی کے کارناموں کو نظرانداز کیا گیا۔ ان تمام کتابوں کی اہمیت اور اس کی نوعیت منفرد ہے۔ علی عباس حسینی کی کتاب ’ناول کی تاریخ و تنقید‘، احسن فاروقی کی کتاب ’ناول کی تنقیدی تاریخ‘، سہیل بخاری کی کتاب ’اردو ناول نگاری‘ احسن فاروقی کی ایک اور کتاب ’ادبی تخلیق اور ناول‘، یوسف سرمست کی کتاب ’بیسویں صدی میں اردو ناول‘ شائع ہوئی۔ مجموعی طور پر ان تمام کتابوں میں ناول کا تنقیدی و تحقیقی یا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔ اگر ہم ان تمام کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت حیرت  ہوگی کہ بشیرالدین احمد دہلوی کے ناولوں کو کس طرح فراموش کیا گیا۔ اگر کسی نے ان کا نام ناول نگار کے طور پر لیا بھی ہے تو اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ واقعی ڈپٹی نذیر احمد کے صاحبزادے بشیرالدین احمد دہلوی ہی ہیں یا کوئی اور ہم نام ناول نگار ہیں۔ حالاں کہ بشیرالدین احمد دہلوی کے ناول مغربی اصولوں اور معیاروں کو عملی طور پر پیش کرنے میں بھی بہت آگے ہیں۔ بیسویں صدی کی امتیازی اور اہم خصوصیات ہمیں ان کے ناولوں میں ضرور نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں رسوا اور شرر کے علاوہ تقریباً تمام بڑے اہم ناول نگاروں کو توجہ میں نہیںلایا گیا تھا۔  بشیرالدین احمد دہلوی اس پورے عرصے میں مسلسل لکھتے پڑھتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد انسانی زندگی اور اس کے حالات کو بہتر بتانا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بیسویں صدی کی ناول نگاری میں بشیرالدین احمد دہلوی کا نام شمار کریں اور ان کے ناولوں پر گفتگو کریں کیونکہ انھوں نے اردو ادب کو بڑی صحت مند اور پائندہ روایات دی ہیں۔ خصوصیات کی بنا پر ان کے کارنامے بڑی قدر و اہمیت رکھتے ہیں۔ دہلی معاشرے کی ایسی مکمل جس میں دہلی کی تہذیب، روایت اور یہاں کی جیتی جاگتی جامع تصویر اور اس میں زندگی کا ہر پہلو، ہر جذبہ حقائق کو دیکھنے اور دکھانے اور اس کو اصل حالت میں پیش کرنے، فرد کی نفسیات، نفسیاتی زندگی کی پیش کش وغیرہ جیسی اہم خصوصیات کو برتنے کا فن بشیرالدین احمد دہلوی کے ناولوں میں بڑا دلکش اور منفرد ہے۔

 

Nusrat Perween

B-154, Abul Fazal Enclave,

Jami Nagar, New Delhi-110025

Mobile: 9015133636

Emai: nusrat.rizwan07@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...