13/1/25

انجم مانپوری ایک منفرد طنز و مزاح نگار، مضمون نگار: شبیر عالم

 اردو دنیا، دسمبر2024

طنزو مزاح نگاری میں کمال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب طنز و مزاح نگار زبان، زندگی اور زمانہ کے نشیب و فراز، مزاج اور سمت و رفتار کی بصیرت مندانہ آگہی کا حامل ہو۔ اردو میں رشید احمد صدیقی کے بعد یوں تو کئی طنزو مزاح  نگار منظرِ عام پر آئے لیکن جو شہرت اور قبولیت عام انجم مانپوری کو حاصل ہوئی،وہ کم لوگوں کو میسر آئی ہے۔    

انجم مانپوری ایک منفرد طنز و مزاح نگار ہونے  کے ساتھ ساتھ شاعر، ناقد اور صحافی بھی تھے۔ انجم مانپوری محلہ مان پور ( شہر’گیا‘ )میں  1881 میں پیدا ہوئے انجم مانپوری کی پیدائش کی تاریخ ان کے استاد بھائی جناب بسمل سہنسہاروی کے اس مصرع سے تصدیق ہوتی ہے۔

 سنہ ولادت من’ در صغیر1300ھ‘ ہست نہاں

  محلہ مانپور شہر گیا کے مشرق میں تاریخی ’ پھلگوندی‘ کے اس پار واقع ہے جسے اس وقت شہر کا درجہ حاصل تھا۔ انجم مانپوری کا اصل نام نور محمد تھا اور انجم تخلص کرتے تھے اور مانپور چونکہ ان کا آبائی وطن اور ان کی جائے پیدائش ہے اس لیے اپنے کو مانپوری کہتے تھے انجم مانپوری نے اپنے نام کا جو سجع کہا ہے اس میں بڑی خوبی و احسن طریقے سے تخلص بھی شامل کردیا ہے کہتے ہیں   ع

تاباں بود از نورِ محمد انجم

 انجم مانپوری کی ابتدائی عربی اورفارسی کی تعلیم اپنے وطن گیا میں ہوئی۔ اس کے بعد لکھنؤ گئے اور وہاں ندوۃ العلما میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہاں ان کی ملاقات سید سلیمان ندوی سے ہوئی جو ان کے ہم جماعت تھے۔ دونوں میں کافی دوستی ہوگئی اور یہ لوگ مدرسے میں ساتھ بیٹھ کردرس لیا کرتے تھے۔ انجم مانپوری کو عربی و فارسی زبان و ادب سے بے حد رغبت تھی انھوں نے اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مشاہیر و ادبا سے رجوع کیا۔ ندوۃ العلما  میں چند برس گزارنے  کے بعد مزید تحصیل علم کے لیے  مراد آباد تشریف لے گئے اور شاہی مسجد مراد آباد میں مولانا احمد حسن امروہوی اور مولانا محمود حسن سہوانی سے کسب فیض کیا اور  پھر اپنے وطن گیا واپس چلے آئے۔ ان کے اہل و عیال مانپور سے محلہ موریہ گھاٹ جو پرانا جیل خانہ سے مشہور ہے وہاں پر زمین خرید کر رہائشی مکان بنواکر مقیم ہوگئے۔ تعلیم مکمل کر نے کے بعد انجم مانپوری کی  سکونت  اس نئے مکان میں  ہی ہوئی۔ مگرشہر گیا میں سلسلہ تعلیم بھی جاری رکھا اور مدرسہ کنز العلوم میں داخل ہوکر علامہ عبد الوہاب صاحب فاضل بہاری سے عربی کی تعلیم کی تکمیل کی۔

 انجم مانپوری کی شخصیت دو خانوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ پہلا انجم اور دوسرا مانپوری۔ جب وہ اپنی تحریروں میں، تخلص انجم استعمال کرتے تو  انتہائی برد بار سنجیدہ شخص کی شکل میں رونما ہوتے ہیں لیکن جہاں تخلص مانپوری  استعمال کیا ہے۔ وہاں وہ سر سے پاؤں تک طنز و ظرافت کا مجموعہ نظر آتے ہیں۔ انجم مانپوری نے اپنے ایک شعر میں انجم اور مانپوری کے معجمے کو  خودہی  واضح کردیا ہے          ؎

سنجیدہ مضامین تو کبھی طنزو مزاح

گہہ انجم و گاہ مانپوری ہوں میں

دونوں مصرعوں میں خاص الفاظ کی ترتیب پر تھوڑے غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ سنجیدہ مضامین  کے لیے وہ تخلص انجم استعمال کرتے ہیں اور   اس نثر کو جو وہ مانپوری کے نام سے لکھتے ہیں، اسے  ’طنز و مزاح‘ قرار دیا ہے۔

1938 میں انجم مانپوری کا طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا پہلا انتخاب ’طنزیات مانپوری ( حصہ اول) کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں ’ میر کلوکی گواہی‘، ماما کی مصیبت، میری اسیری، ہاں میں ہاں، میرا روزہ، سکنڈ ہینڈموٹر، پاگل خانہ کی سیر، شادی کی تقریب، پنک آشرم، اڈیشنل وائف، میونسپل الیکشن، ہاتھی اور کرایہ کی ٹم ٹم کے عنوانات سے تیرہ مضامین ہیں۔ طنزیات مانپوری (حصہ اول ) کا مقدمہ سید وصی احمد بلگرامی ڈپٹی کلکٹر پلاموں نے تصنیف کیا۔ ’طنزیات مانپوری ‘ (حصہ اول) کے بعد ’طنزیات مانپوری‘ ( حصہ دوم ) 1940 میں منظر عام پر آیا۔ اس میں اپٹوڈیٹ شاعری، آنریری مجسٹریٹ، میری عید،تامرد نگفتہ باشد، ہوم پالیٹکس، و بال جان، اینٹی فادر کا نفرنس، سخن تکیہ، ایک ناگہانی دوست، اسٹوڈنٹ لائف، ہوسٹل لائف اور صاحب کا کتا کے نام سے بارہ مضامین شامل ہیں۔ آخری صفحے پر قطعہ ’تاریخ طنزیات مانپوری ‘ درج ہے جس کے آخری شعر سے ’طنزیات مانپوری‘ ( حصہ دوم) کی تاریخ نکلتی ہے۔ اس قطعہ کا آخری شعر ملاحظہ ہو         ؎

عیسوی تاریخ رقم کن احمد

طنزیات مانپوری روح افزائے مذاق        1940                             

اس کا مقدمہ مشہور شاعر علامہ جمیل مظہری نے لکھا ہے۔

انجم مانپوری کا تیسرا مجموعہ ’مطائبات مانپوری‘ 1952 میں شائع ہوا اس مجموعے میں ان کے 9مضامین کلکتہ ریٹرنڈ، میری لیڈری، میری پہلی اسپیج، دوستی، میرا سفر، انڈر گرائجویٹ، ٹیوشن، سفارش اور ہمارے داروغہ جی کے عنوانات سے شامل ہیں۔ اس کتاب کا مقدمہ خود انجم مانپوری نے لکھا تھا۔ اسی سال یعنی 1952میں ہی  ’طنزیات مانپوری ‘ ( حصہ اول) کا دوسرا اڈیشن بھی نکلا جس کا ہندی اڈیشن ’نورتن ‘ کے نام سے بھی سامنے آیا۔

مرنے کے بعد‘ انجم مانپوری کا چوتھا اور آخری مجموعۂ مضامین ہے۔ یہ مجموعہ1958 میں انجم مانپوری پبلشنگ ہاؤس کی جانب سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کو خود انجم مانپوری نے ترتیب دیا تھا لیکن اس کی اشاعت 27 اگست1958 کومانپوری کی وفات کے بعدعمل میں آئی۔

 انجم مانپوری کا پہلا انشائیہ ’میرکلو کی گواہی‘ کو اردو طنز وظرافت میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ اس انشائیے کا مرکزی کردار ’میر کلو‘ ہے جواپنی حاضر جوابی اور ذہانت کے لیے مشہور ہے’میر کلو‘ ہندوستان کے عدالتی نظام کے گرد جنم لینے والا ایک ایسا کردار ہے جس کی تخلیق میں مانپوری نے اپنا سارا کس وبل استعمال کردیا ہے۔ میر کلو ایک ایسا گواہ ہے جو ہر وقت  مقدمے کے سلسلے میں کام آتا ہے۔ میر کلو  ایک ایسا پیشہ ورگواہ ہے جو عام طور پر ہندوستان کی ہر عدالت میں مل جاتا ہے۔ یہ کردار عدالت کے تمام پیچ و خم سے واقف ہے۔ اس لیے وہ اچانک جملے کو بھی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ کردار مقدمے کی روح سے نابلد ہونے کے باوجود جب کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے تو فریق مخالف کے وکیل کے تابڑ توڑ حملے سے جرح میں نہیں ٹوٹتا اور اپنی ذہانت سے ہر سوال کو اس خوبصورتی کے ساتھ ٹالتا چلا جاتا ہے کہ آخرش فریق مخالف کاوکیل اپنے عجز کااعتراف کرلیتا ہے اور اس طرح یہ پیشہ ورگواہ کسی کے کام آجاتا ہے۔

یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

وکیل :میر کلو آپ کبھی جیل کی بھی سیر کرچکے ہیں؟

میرکلو:آج کل کون ایساخادم قوم ہے جو جیل نہ ہو آیا ہو۔

وکیل :آپ کوملک کی کس خدمت کے صلے میں یہ فخر حاصل کرنے کا موقع ملا؟

میرکلو:وہی قانون شکنی۔

وکیل:    کس قانون کوتوڑنے کی خدمت آپ نے اپنے ذمے لی تھی؟

میر کلو:گاندھی جی نے نمک کے قانون توڑنے کابیڑا اُٹھایا تھا بعض لیڈروں نے قانون جنگلات کی خلاف ورزی کی ذمے داری لی۔ میرے خیال میں سب سے زیادہ ضرورت قانون شہادت کی اصلاح کی ہے اس لیے میں نے اسی کو منتخب کیا۔۔۔۔۔

وکیل :ان کی عمر کیا تھی؟

میر کلو:یہی تیس اور ساٹھ کے درمیان ہی تھی۔

وکیل :یہ تیس اور ساٹھ کے درمیان کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ صاف کہیے وہ بوڑھے تھے یا جوان؟

میر کلو:عمر کے لحاظ سے تو بہت زیادہ بوڑھے نہیں تھے۔ مگر اکثر بیمار رہنے کی وجہ سے بوڑھے معلوم ہوتے تھے۔

وکیل:    بال سفید تھے یا سیاہ؟

میر کلو:نزلہ کی وجہ سے بال سفید ہوگئے تھے لیکن جب خضاب لگاتے تھے تو جوان معلوم ہوتے تھے۔1

مانپوری نے الفاظ و محاورات کااستعمال برمحل و برجستہ کیا ہے لیکن کہیں کہیں پر ٹھیٹھ مقامی یعنی اودھی محاورات کااستعمال کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فکر وفن کے سلسلے میں ان کا زاویۂ نظر عوامی زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں پیچیدہ تراکیب نہیں ملتی ہیں۔ بھاری بھرکم الفاظ کم سے کم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جاہل سے عالمانہ گفتگو کرنے کے قائل نہیں ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ عالم سے جاہلانہ گفتگو نہ ہو۔انجم ماپنوری کے تمام کردار زمینی ہیں ان کے یہاں حقیقی زیادہ ہیں اور مثالی کم استعمال ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کے واقعات کو مضحکہ خیز انداز میں بیان کرتے ہیں۔

میری عید‘ اس مضمون میں انجم مانپوری نے عید سے قبل پیش آنے والی گھریلو پریشانیوں کومزاحیہ پیرایے میں اُجاگر کیا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’اتنے کمسن لڑکے کونماز میں شریک ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں نے کہا نادان بچہ تھا غلطی سے مسجد دیکھنے چلاگیا۔ مجھے بھی کبھی آپ نے عید کے سوا یہاں دیکھا ہے؟ ایک حضرت نے ذراروکھے تیور سے پاس آکر کہا کہ آپ کے لڑکے نے چیخ چیخ کر سب کی نماز خراب کردی۔ اس پر مجھے غصہ آگیا میں نے بگڑ کر کہا کہ نماز میں رقت طاری ہونے پر گر یہ وبکاکرنے کے لیے کیاعمر کی بھی قید ہے؟ 2

بڑا ظرافت نگار وہی ہے جو اپنی ذات پر ہنسے اور دوسروں کوبھی ہنسائے۔ یہ جملہ انجم مانپوری پر صادق آتاہے۔ انھوں نے خود اپنی ذات کونشانہ بنایا ہے اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا اپنے طنز کے نشتر سے Operationبھی کیا ہے اور مزاح کا مرہم بھی لگایا ہے۔ ان کا مضمون ’میری عید‘ اسی کا متقاضی ہے۔ چنانچہ مسجد میں نماز کے دوران کسی نے ان کا جوتا غائب کردیالہٰذا سیڑھی پرپڑا پرانا جوتا جلدی سے پہن کر جانا چاہتے تھے کہ گھر پہنچ کر نوکر سے جوتا واپس سیڑھی پر پہنچوادیں گے۔ ’میری عید‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ایک خاں صاحب کی قسم کے آدمی صحن سے لپکتے ہوئے میرے نزدیک پہنچ کر لگے زور زور سے چلانے، اجی حضرت ! یہ کیا حرکت ہے یہ میرا جوتاہے لاحول ولاقوۃ شریفوں کی سی صورت اور یہ کرتوت، جوتے بھی چرانے تھے تو عید میں۔ایک سے ایک قیمتی اور خوبصورت نئے جوڑے پہن کر لوگ آئے ہیں۔ مجھ غریب کے پرانے جوتے پرکیوں نظر انتخاب پڑی۔ میں  جواب کیا دیتا کھسیانی صورت بناکر خفت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا معاف کیجیے گا۔ میراجوتا بھی بعینہٖ اسی قسم کا تھا میں نے اچھی طرح غور نہیں کیا اور غلطی سے اپنا جوتا سمجھ کر پہن لیا۔ خاں صاحب نے قہقہ لگاکر کہاغلطی کی ایک ہی کہی۔ دو انچ ڈھیلا جوتا پہننے کے بعد بھی آپ کو اپنے ہی جوتے کا شبہ رہا۔‘‘3

 بحیثیت مجموعی مصنف نے ’میری عید‘ میں ایک ایسے مسئلے کوموضوع بنایا ہے جس پر انجم مانپوری سے قبل کسی بھی مصنف کی رسائی نہیں ہوسکی اور یہی وہ طنزیہ پیرایہ ان کے مضامین کی کامیابی کا ضامن ہے۔

مرنے کے بعد‘ انجم مانپوری کا چوتھا اور آخری مجموعۂ مضامین ہے۔ یہ مجموعہ1958 میں انجم مانپوری پبلشنگ ہاؤس کی جانب سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ کو خود انجم مانپوری نے ترتیب دیا تھا لیکن اس کی اشاعت 27اگست1958 کومانپوری کی وفات کے بعدعمل میں آئی۔ ’مرنے کے بعد‘ میں مانپوری کے پانچ طنزیہ و مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔’ناخواندہ مہمان‘، ’مرنے کے بعد‘، ’انٹرویو‘، ’جھوٹ کا نباہ‘، ’اسٹیشن کی سیر‘لیکن     ان کا مضمون ’مرنے کے بعد‘ ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے بعض مشاہیر کی رائے میں ’میرکلو کی گواہی‘ کے بعد ان کامضمون ’مرنے کے بعد‘ ایک شاہکار طنزیہ تحریر ہے۔ ’مرنے کے بعد‘ 1952میں ڈھاکہ کے رسالے ’خاور‘ میں شائع ہوا تھا لیکن اس مضمون کی طنزیہ و مزاحیہ انفرادیت کی بنا پر اس مضمون کو اس زمانے کے کئی اردو رسالوں نے بھی شائع کیا۔یہ مضمون انشائیہ سے زیادہ ایک طنزیہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں انشائیہ کی طرح بات سے بات تو نکالی گئی ہے اور اس میں ذہن کی آزاد ترنگ کا اظہار بھی ہے لیکن ان تمام باتوں کو اور ترنگوں کوواقعاتی انداز میں ربط و تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔

مرنے کے بعد‘ میں مزاحیہ عناصر بھی ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے اس میں طنزیہ پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ اس مضمون میں انجم مانپوری نے اپنی موت کے بعد پیش آنے والے واقعات کی تصوراتی تصویر پیش کی ہے۔ اپنے مرنے کا ذکر مانپوری نے اس طرح کیاہے:

’’غالباً شب کے تین بجے ہوں گے کہ یکایک سینے میں کچھ درد محسوس ہوا اور معلوم ہوا جیسے کسی نے کلیجے کو چٹکی سے لے کر مسل دیا ہو منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی یہ درد ناک چیخ سُن کرگھر کے کل لوگ دوڑ پڑے ارد گرد جمع ہوکرگھبرائی آواز میں زور زور سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا کیسی حالت ہے۔ اب لاکھ کوشش کرتا ہوں مگر حلق سے آواز ہی نہیں نکلتی فوراً آدھ گھنٹے کے اندر کئی ڈاکٹر مع سول سرجن یکے بعد دیگرے بلائے گئے ان سب کے پہنچتے پہنچتے میں اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ہوگیا اور میری روح جسم سے علیحدہ کردی گئی۔4

انجم مانپوری نے زندگی کی سچائیوں کوبڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد اسباب اور اعزا حد درجہ رنج و غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور محفل میں ان کا ذکر ہوتا ہے لیکن مانپوری کے مطابق آج کی مادہ پرست دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ عزیز و اقارب دوست احباب مرنے والے کو سپردخاک کرکے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مضمون کے آخر میں مصنف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مرنے کے بعد کی یہ ساری کیفیتیں انھوں نے خواب میں دیکھی تھی۔

مرنے کے واقعہ کو مانپوری نے مضمون کے آخر میں کچھ اور دلچسپ بنادیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے جب اس خواب کاذکر دوستوں سے کیا تو دوستوں نے اس خواب کی خبر کو کمال مبالغے کے ساتھ پورے شہر میں پھیلادیا کہ واقعی میری روح پرواز کرگئی تھی اور عالمِ بالاسے پھرلوٹ آئی اور میں دوبارہ زندہ ہوگیا۔جو شخص بھی آتا مجھ زندہ مردے سے موت کے بعد کیا کیفیت ہوتی ہے دریافت کرنا شروع کردیتا انجم مانپوری نے یہاں اپنے چند دوستوں مثلاً میاں سمی،احقر،رضی، ولایت، محمود وغیرہ کاذکر کرتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز میں اس دنیا کو جہنم الستان اور آسمان کو  جنت الستان کی جیسی اصطلاحوں سے یاد کیا ہے اس طرح انھوں نے جسم کے لیے جسم الستان اور عالم ارواح کے لیے روحِ الستان کی ترکیبیں بھی واضح کی ہیں۔ان کے مضمون کا یہ حصہ طنزیہ بھی ہے مزاحیہ بھی اور عبرتناک بھی، یہ اقتباس دیکھیے:

’’محمود نے اپنے تمسخرانہ انداز کومتانت میں بدل کر کہا کہ آخر جنتستان سے پھر لوٹ کر اس دنیا جہنمستان واپس آنے کی کیا وجہ ہوئی میں نے بھی اس کی اس شرافت آمیز گفتگو کو نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا کہ بھائی صاحب اس جسمستان سے روحستان کے لیے یکایک روانہ ہونے کو ہوگیا، لیکن ان دونوں ممالک یعنی جنتستان اورہندوستان کے درمیان بیچ سرحد گورستان سے اب محض آپ لوگو ںکی محبت کی کشش لوٹا لائی حالانکہ سرحد تک پہنچانے اور سِی آف کرنے کے لیے جولوگ ساتھ گئے تھے ان لوگوں نے زبردستی ٹیل ٹال کر اس پار بھیجنے کی بہت کوشش کی بلکہ عین بونڈری کے ایک گڑھے میں ٹیل کر بھاگ بھی آئے مگر میں گرد جھاڑ کر ان کے پیچھے پیچھے واپس چلاآیا۔‘‘5

انجم مانپوری کے اس شاہکار طنزیہ و مزاحیہ مضمون میں طنز ومزاح کے پردے میں سنجیدہ سماجی اور تہذیبی حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان جب تک زندہ رہتا ہے۔ کس کس طرح اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنی ہزاروں خوش فہمیوں کو بھی پالتارہتا ہے دراصل مانپوری یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بقائے دوام کے لیے ضروری ہے کہ انسان عوام الناس کے فائدے و اصلاح کے لیے ایسی خدمات انجام دے کہ مرنے کے بعد واقعی ان کے غم خواروں کی تعدادکی ناکوئی حد ہو نہ حساب۔  اگر مانپوری کے ادب اور اردو طنز ومزاح میں  ان کے مقام اور مرتبے کا اندازہ لگانا ہو تو ’میرکلو کی گواہی‘، ’میری عید‘ اور ’مرنے کے بعد‘ کامطالعہ کافی ہوگا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انجم مانپوری ایک ایسے بلندپایہ طنزومزاح نگار ہیں جواردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کی پہلی صف کے فن کاروں میں شامل کیے جانے کا پورا حق رکھتے ہیں      ؎

راہ مضمون تازہ بند نہیں

تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن

(ولی)

حواشی

1     طنزیات مانپوری حصہ اول، میر کلو کی گواہی،مرتب مظفر بخاری،لاہور،ص 6-10

2        طنزیات مانپوری حصہ دوم،میری عید، ص 282

3        طنزیات مانپوری حصہ دوم،میری عید، ص 283-84

4        مضمون ’مرنے کے بعد‘ مجموعہ مرنے کے بعد،ص39

5        ایضاً، ص 47

 

         

 

Dr. Shabbir Alam

Dr. Bhim Rao Ambedkar College

University of Delhi

Delhi- 110032

Mob.: 9968492060

shabbirdu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...