اردو دنیا، دسمبر2024
قیوم خضر (6 دسمبر 1924- 12 مارچ 1988) کا شمار اپنے
دور کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں اپنی ذات میں انجمن کہا جاتا تھا۔ان کی شناخت
بیک وقت ایک منفرد اسلوب کے نثر نگار، ماہر لسانیات، محقق، صحافی اور شاعر کے طور
پر تھی۔ اردو زبان و ادب،صحافت اور سیاست کے تعلق سے ان کی جوخدمات رہی ہیں وہ وقت
گزرنے کے باوجودروز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے عصری سیاست،
صحافت اورادب کے میدان میں اپنے تعمیری اورتخلیقی ذہن کے ساتھ ساتھ اپنے گہرے
مطالعے ومشاہدے سے جتنی وسعت دی ہے، انھیں بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔
اردو
زبان وادب اور اردو صحافت کی خدمات کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والی یہ شخصیت
اب سے ٹھیک سو سال قبل یعنی 6 ؍
دسمبر1924 کو تاریخی شہر گیاکے موریاگھاٹ محلے میںپیدا ہوئی تھی۔ان کی خدمات کا کینوس
اتنا وسیع ہے کہ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے توا ندازہ ہوگا کہ قیوم خضر نے
اپنی پوری زندگی ادب و صحافت کے حسن و معیار کی آرائش وزیبائش کے لیے وقف کر دی تھی۔ انھوںنے اپنی زندگی خود کے بنائے
اصول، ضابطے کے ساتھ خودداری و تہذیبی اقدار کے ساتھ باوقار طریقے سے گزارتے ہوئے
اپنی تحریر، تحریک اورتقریر سے ادب،صحافت اور سیاست کے میدان میںاپنی ایک خاص
شناخت قائم کرنے میں کامیاب تھے۔ لیکن ان کی خدمات کاجائزہ جس طرح لیاجاناچاہیے
تھا اور وہ جس مقام کے مستحق تھے، افسوس کہ اس طرح جائزہ لیا گیا اور نہ ہی ا نہیں
وہ مقام دیا گیا، جس کے وہ مستحق تھے۔
قیوم خضر نے درجن بھرکتابیںتصنیف و تالیف کی تھیں، جو علم و ادب کے قیمتی خزانے سے کم نہیں ہیں۔
ان کی کتابوںخاص طورپر ’اردودرپن‘ (لسانیات)، ’اردو اورقومی ایکتا‘ ( لسانیات)،
’خضرراہ‘ (تصوف)، ’تنویرات‘ ( مختلف مضامین کا مجموعہ )، صادق پور، قربان گاہ،
آزادیِ وطن،مسلمان اورحالات حاضرہ، کلیدگم شدہ کی بازیافت، ارتعاش قلم ( مضامین )
وغیرہ میں جس طرح سماجی،صحافتی،ادبی، لسانی، تاریخی اور اسلامی تعلیمات کی معلومات
کے خزانے کوایک خاص حسن ومعیار کے ساتھ پیش کیا ہے،اس کی نظیر عہد حاضر میں ملنا
مشکل ہے۔ وہ اپنے نثری اسلوب کی انفرادیت کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔ اس اسلوب کی
سحرانگیزی ایسی تھی کہ وہ قاری کواپنی گرفت میںلے لیتی اورقاری اس میںڈوبتاچلاجاتا۔
قیوم خضر کا اصل نام شیخ عبدالقیوم تھا جن کا رشتہ
مشہور و معروف صحافی اور طنزو مزاح نگار انجم مانپوری سے بہت قریبی تھا۔مشہور
زمانہ ادبی رسالہ ’ندیم‘ کے بانی مدیر اور شہرہ آفا ق انشا ئیہ ’میر کلو کی گواہی‘
کے خالق انجم مانپوری دراصل قیوم خضر کے چھوٹے دادا تھے۔ اس لیے یہ بات کہی جا سکتی
ہے کہ علم و ادب اور صحافت انھیں ورثے میں ملی— ان کے والد کا نام شاہ محمد اختر
تھا۔ قیوم خضر کی بسم اللہ گھر پر ہی مولانا محمد اسمٰعیل مانپوری نے کرائی تھی۔
قرآن پاک اور اردو فارسی کی تعلیم مولانا تقی نے دلائی اور 1935میں قیوم خضر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی گئے، پھر اپنے وطن لوٹے اور تعلیم کا سلسلہ آ گے بڑھا۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی یہ سیاسی، سماجی، ملّی اورادبی طور پر بے حد متحرک اور
فعال ہو گئے تھے۔
قیوم خضر نے آزادیِ ہند میں اہم کردار ادا کیا اور خاص
بات یہ تھی کہ ا س میدان میں بھی انھوں نے اپنی انا اور خودداری کو برقرار رکھتے
ہوئے ایثار و قربانی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ذاتی نقصان اٹھایا لیکن کبھی بھی صبر و
تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ اس روش پر چلتے ہوئے انھیں ہمیشہ اپنی فقیرانہ روش اور
خودداری پر ناز رہا۔ بیباک اور جرأت مندانہ صحافت کی عظمت کے وہ ہمیشہ قائل رہے
اور ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ ’ عام صحافیوں کی طرح قلم کی سوداگری کبھی بھی میرا
پیشہ نہیں رہا‘۔ اپنی حق گوئی اور بیباکی کے لیے وہ مشہور رہے۔ انھیں اس بات کا بھی احساس تھاکہ ’ میری زبان کی
تلخی مصلحتوں کی منافقانہ شیرینی کو ایک لمحے کے لیے بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں
‘۔ان کی ان ہی خوبیوں کے باعث انھیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا گیا۔ یوں
تو ان کی درجنوں تصانیف موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ایک اچھے ادبی صحافی
کے طور پر تسلیم کی گئی ہے۔
اگست1950 سے قیوم
خضر نے گیا سے ماہنامہ ’اشارہ‘ کا اجرا کیا۔ اسی ادبی ماہنامے سے ان کی صحافتی
زندگی کا آغاز ہوا۔ سید شاہ لعل قادری اور ان کے دیگر کئی دوستوں نے ابتدائی دور
میں رسالے کو جاری رکھنے میں بے حد معاونت کی۔ قیوم خضر کی صحافتی زندگی تقریباً
پچیس برسوں پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنے رسالے کو عام صحافتی روش سے الگ ہٹ کر ایک
خاص مزاج و آہنگ سے متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ ’اشارہ‘ میں
ایک طرف جہاں ہندو پاک کے ہرمکتبۂ فکر کے مشاہیرشعروادب مثلاً سریرکابری،جمیل
مظہری، نوح ناروی، ڈاکٹر سیدمحمود، مانی القادری، اخترپیامی، حسن نعیم،قاضی
عبدالودود،شکیلہ اختر، تلوک چند محروم، شکیل الرحمن، احتشام حسین، رضانقوی واہی،اختر
اورنیوی، فضل حق آزاد، جوش ملسیانی، وغیرہ جیسے نامور قلمکاروں کی شمولیت ہوتی تھی،
وہیں ابوذر عثمانی، علیم اللہ حالی، سعیدہ وارثی، قمر اعظم ہاشمی وغیرہ جیسے نو
واردوں کی شعری و نثری تخلیقات بھی نمایاں طور پر شائع ہوتی تھیں۔ بعد میں یہی
نووارد ادب آسمان ادب کے درخشندہ ستارے بن کر جھلملائے۔اس سلسلے میں قیوم خضر نے
اپنی کتاب ’ محاسبہ‘ میں ’ صحرائے صحافت کی آوارہ گردی ‘ عنوان کے تحت لکھا ہے :
’’ میں نے اگست 1950میں جب پہلی بار اپنے وطن
مالوف گیا سے ماہنامہ اشارہ کا اجرا کیا تو میری صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔جس کا
سلسلہ پچیس برسوں یعنی 1975 تک قائم رہا۔
شروع ہی سے میں نے رسالہ کو عام صحافتی روش سے الگ ایک خاص مزاج میں ڈھالنے کی
کوشش کی۔ زیادہ تر صحافیوں کا عام طور پر یہ رویہ چلا آ رہا ہے کہ وہ مضامین کی
افادیت پر غور نہیں کرتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس مضمون نگار سے زیادہ مالی فائدہ
ہونے کی امید ہے۔ اگر غیر افادی مضامین ہونہار نو مشقوں کی ہمت افزائی کے لیے شائع
کیے جائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں تعلیم وتربیت کا پہلو مضمر ہے۔چنانچہ اشارہ میں جہاں
ملک کے مستند اور معتبر ادبا اور شعراکے مضامین نظم و نثر آپ کو ملیں گے ان نو
مشقوں اور نوجوان ادبا اور شعرا کی تخلیقات بھی ملیں گی جن کی نہ کوئی گنتی تھی نہ
پوچھ یعنی ادارہ اشارہ نے اپنی پالیسی کے پیش نظر صرف زبانی ہمدردی کا ا ظہار نہیں
کیا بلکہ تربیت کی خاطر نئی پود کے ادبی نونہالوں کی کچی پکی چیزوں کو چھاپ کر عملی
طور پر ایسی حوصلہ افزائی کی کہ ان میں سے بیشتر ادبا اور شعرا ایسے ابھرکر سامنے
آئے جو آگے چل کر آسمان ادب کے آفتاب و ماہتاب ثابت ہوئے۔ ‘‘ ( ’محاسبہ ‘ از : قیوم خضر، ص 121 )
’اشارہ‘ کے اداریے ہمیشہ ادبی، لسانی و سماجی
مسائل پر ہوتے تھے جو قارئین کے بڑے حلقے کومتاثر کرتے تھے۔ قیوم خضر کی زبان وبیان
میںایک خاص اندازہوتااوراپنی بات کووہ اس خوبصورت اسلوب کے ساتھ پیش کرتے تھے کہ
پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتی۔ اپنے رسالے کے مشمولات پربھی وہ کافی توجہ دیتے
تھے اورہمیشہ ایک معیاری رسالہ پیش کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے۔ اپنے اداریوں میں
ہمیشہ صحافتی حسن و معیار کے ساتھ ساتھ صحافتی تقاضوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ان کی
طرز نگارش میں اکثر مولانا آزاد کی خوبصورت اور معنویت سے بھرپور نثر کا پرتو
جھلکتا تھا۔ ’اشارہ ‘ کے پہلے شمارے اگست 1950 کا اداریہ ایسا تھا جس کے مطالعے کے
بعد بے اختیار مولانا آزاد کے اسلوب کی یاد تازہ ہو جاتی۔ ’اشارہ ‘ کے پہلے اداریے
کا یہ انداز بیاں دیکھیے:
’’رات کے پچھلے پہر تاریکی کو انگڑائیاں لیتے
دیکھ کر تمام تارے خوابوں کی بستی میں چھپ جاتے ہیں اور جب آکاش کے کناروں سے
سورج مسکراتا ہے تو ہوائیں لہرا اٹھتی ہیں۔کسمساتے ہوئے انسان بستروں سے جاگ پڑتے
ہیں۔ گویا سورج کی پہلی کرن انھیں ایک نیا دن ایک نئی جاگرتی ایک نئی زندگی کی طرف
اشارہ کرتی ہے۔ ہم نے نیند سے بوجھل پپوٹوں پر بیداری چھڑکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھیں
آنکھوں سے نیند کی مستی چھٹتی ہے یا نہیں؟ آج پھر ہم نے جوشش و راسخ و بیدل و
آزاد وشفق وشاد کی سرزمین کو بیداری حیات کا پیغام سنایا ہے۔ دیکھیں ڈوبی ہوئی
نبضوں میں ندگی کی حرارت پیدا ہوتی ہے یا نہیں ؟ آج پھر علم نے علم و ادب کے
ٹمٹماتے ہوئے کنول کی لو َ کو اکسانے کی جرأت کی ہے۔ دیکھیں لویں ایوان حیات
اپناتی ہیں یا نہیں ؟ ‘‘
ادبی ماہنامہ ’ اشارہ ‘ کو گیا سے نکلتے ہوئے ابھی چند
ہی برس ہوئے تھے کہ و قت اور حالات کی ستم ظریفی نے قیوم خضر کو 1953 میں گیا سے پٹنہ منتقل ہو نے پر مجبور کر
دیا یا یوں کہیں انھیں ہجرت کرنا پڑی اور پٹنہ میں جیسے ہی حالات کچھ معمول پر
آئے وہ اپنی روحانی تسکین کے لیے ایک بار پھر معاشی تنگدستی کے باوجود ادبی صحافت
کے میدان میں کود پڑے اور دسمبر1958 سے
دوبارہ ’اشارہ‘کی اشاعت پٹنہ سے شروع کر دی۔ دوسرے دور کی اشاعت میں کئی تبدیلیاںدیکھنے
کوملیں۔ مثلاً ’اشارہ ‘کے سرپرست مشہور کانگریسی رہنماعبدالقیوم انصاری، معاون عزیزعظیم
آبادی اورایڈیٹر قیوم خضر ہوئے۔ اس کی پرنٹ لائن پر اس طرح درج ہوا کرتاتھا۔
’’طابع وناشر ایم اے قیوم خضر نے لیبل لیتھوپریس
رمنہ روڈ،پٹنہ سے چھپواکر دفتر ’اشارہ ‘ صادق پور سرائے پٹنہ سے شائع کیا۔ ‘‘ فی
رسالہ قیمت 50 نئے پیسے اورسالانہ چندہ چھ روپے ہوا کرتا تھا۔ ’اشارہ‘ کی پیشانی
پر ’علم وادب کے نئے اشاروںکاعلمبردار ‘درج ہوتا تھا۔ دوسرے دور کے بعد بھی بڑھتی
مالی تنگدستی نے کئی بار اس کی اشاعت کو التوا میں ڈالا، لیکن قیوم خضر کی ہمتّ،
حوصلہ اورجنون ایک پھر انگڑائیاں لیتا اور وہ ایک نئے حوصلے اور امنگ کے ساتھ
’اشارہ ‘ کی اشاعت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے اور اپنی ذاتی ضروریات کو تج کر ’اشارہ‘
کو منظر عام پر لانے کی سعی کرتے۔ اپنی کسی کتاب میں انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ بیان
کیا ہے کہ ایک بار ان کے کرایے کے مکان میں ’اشارہ‘ کے سرکولیشن اور رسالے سے ہونے
والی آمدنی کی انکوئری کے لیے کچھ سرکاری عملہ اچانک تشریف لے آئے۔ آنے والے
سرکاری کارندوں نے رسالہ کے مدیر،معاون مدیر، سرکولیشن منیجر، ایڈورٹائزنگ منیجر،
اکاونٹنٹ وغیرہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ قیوم خضر نے بڑی عاجزی اور انکساری
کے ساتھ بتایا کہ یہ سب تن تنہا میں ہی ہوں اور اشارہ کے دفتر کا چپراسی بھی میں ہی
ہوں۔ سرکاری عملے کو ان کی بات پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ٹھیک اسی وقت پاس کی
چائے کی دوکان والا اپنے بقایہ پیسے کے تقاضے کے لیے آدھمکا۔ یہ دیکھ کر سرکاری
عملے کو ان کی بے بسی سے زیادہ ان کی بے کسی پر رحم آ گیا اور وہ سب معذرت کرتے
ہوئے واپس چلے گئے۔ ایسی تنگدستی اور معاشی بدحالی کے درمیان قیوم خضر اپنے اس
اردو کے ماہنامہ رسالے کو اپنے خون جگر سے سینچتے رہے اور ادبی صحافت کے میدان میں
ہمت و حوصلے کو جگاتے رہے۔ اسی کسمپرسی بھرے حالات سے گزرتے ہوئے ’اشارہ‘ تعطل کے
ساتھ شائع ہوتا رہا اور آخر کار اس ادبی ماہنامے نے شمارہ اگست 1967 دم توڑ دیا۔
ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی وضاحت قیوم خضر نے کچھ اس انداز سے کی ہے:
’’حصول اشتہارات کے مجوزہ منصوبے کے نا کام
ہو جانے کے بعد رسالہ پھر سنکٹ بھنور میں پھنس گیا اور تجر بے سے یہ بات ظاہر ہوئی
کہ کم پونجی والوں کو محض ذوق ادب کی دیوانگی میں رسائل و جرائد کا نکالنا ہر گز
ہر گز زیبا نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو اس راہ میں قدم رکھنا چاہیے جو مصاحبت اور
چاپلوسی کا فن نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو تو قدم رکھنے کا تصوّر بھی نہیں
کرنا چاہیے، جو گروپ بندی کر کے تگڑم بازیوں اور گھپلے بازیوں کے ہنر سے واقف نہیں۔
چنانچہ ان ہنر مندیوں سے عدم و اقفیت کی بنا پر تیسری بار بھی صحافتی میدان میں وہ
کامیابی نہیں ہوئی…‘‘ (محاسبہ قیوم خضر، ص128-29)
اس طرح قیوم خضر کے ماہنامہ ادبی رسالے ’اشارہ‘ کاسفر اگست 1950 سے شروع ہوکر اگست 1967 میںختم
ہوتاہے۔ لیکن تھک کر سپر ڈال دینا، قیوم خضر کی فطرت میں شامل نہیں تھا چنانچہ ایک
بار پھر انھوں نے ایک نئے جوش و ولولے اور ہمت وحوصلے کے ساتھ ’اشارہ‘ کو ہفتہ وار
کی شکل میں9جنوری 1974 سے شائع کرنا شروع کیا۔ اس ہفتہ وار میں قیوم خضر نے جوائنٹ
ایڈیٹر اپنے فرزند نشاط قیصر کو بنایا۔ لیکن جلد ہی پھر وہی حوصلہ شکن حالات ان کے
بڑھتے قدموںمیں زنجیریں ڈال دیں اور با لآخر23؍
اپریل 1975 کا آخری شمارہ نکال کر وہ
صحافتی میدان سے الگ ہو گئے۔ اپنے پسندیدہ صحافتی میدان سے سبکدوشی کے بعد اپنے
احساس و جذبات کا اظہار قیوم خضر نے یوں کیا تھا
:
’’
23 اپریل 1975 کو ہمیشہ کے لیے صحافت کے میدان سے کنارہ کش ہو
گیا۔وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ادب و صحافت کا روگ ایسا ہے کہ کینسر کی مہلک بیماری
اچھی ہو سکتی ہے مگر اس روگ سے نجات پانا ممکن نہیں۔ چنانچہ ہوا بھی یہی کہ ادبی
روگ نے صحافت کے بجائے تصنیف و تالیف کا رخ اختیار کر لیا اور جب علم و ادب کی
سرگرمیاں اس نئی راہ پر گامزن ہوئیں تو صحافت کی سعی نامشکور سے نجات مل گئی ‘‘
( ’محاسبہ ‘ قیوم خضر،ص 137 )
اردو صحافت کے تلخ و شیریں تجربات کے بعد انھوں نے اپنی
بقیہ زندگی کو پورے انہماک کے ساتھ زبان و ادب کی خدمات میںلگا دیا۔ اس دوران کی
کئی اہم تصانیف و تالیفات منظر عام پر آئیں۔جن کا تذکرہ میں نے مندرجہ بالا سطور
میں کیا ہے۔
قیوم خضر کی صحافتی زندگی کے روشن باب آج بھی اپنے حسن
و معیار، اسلوب، ندرت اور متنوع موضوعات کی وجہ سے یاد گار ہیں، جہیں فراموش نہیں
کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر ان کی جو صحافتی زبان تھی، وہ زبان بہت کم لوگوں کو میسر
ہوئی۔ قیوم خضر، مشہور نا قد پروفیسر عبد المغنی کے بے حد قریب تھے۔ وہ عرصے تک ان
کے ساتھ انجمن ترقی اردو کے رکن رہے اور اپنی سرگرم لسانی تحریک سے اردو زبان کو
بہار میں دوسری سرکاری زبان بنوا نے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
قیوم خضر کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ و مشاہدہ کیا
جائے تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ قومی یکجہتی ان کا مقصد حیات تھا۔انھوں
نے اپنے مختلف اداریوں، مضامین اور کتابوںمیں قومی یک جہتی کو کافی اہمیت دی ہے۔
اس تعلق سے ان کے مضامین بکھرے پڑے ہیں،لیکن جو مضامین کتابوںمیںجگہ پاسکے ہیں،ان
کامطالعہ اس امرکابین ثبوت ہے کہ قیوم خضر قومی یکجہتی کے ایک سچّے اور بے لوث
علمبردار تھے۔ انھوںنے اپنی پوری زندگی قومی یک جہتی کے لیے وقف کردی تھی۔
اردودرپن، اردواورقومی ایکتا، خضرراہ اور’تنویرات‘ وغیرہ میںمختلف عنوانات کے تحت
قومی اتحاد واتفاق پر انھوں نے کافی زور دیا ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر
سکتے ہیں کہ قیوم خضر کی سرشت میں ہی یکجہتی اور ہم آہنگی کا جذبہ شامل تھا۔اس
سلسلے میں ان کا یہ دعویٰ غلط نہیں تھا کہ:
’’ میں
نے قومی یکجہتی کے موضوع پر جتنے اداریے لکھے اور دوسروں کے جتنے مضامین چھاپے اس
دور میں شاید ہندوستان کا کوئی اردو ماہنامہ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔‘‘
(’ارتعاش قلم، از : قیوم خضر، ص 26 )
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قیوم خضر نے قومی یکجہتی کے
تعلق سے بہت سارے مضامین لکھے اور لوگوں سے لکھوائے۔ اپنے مضامین کے مجموعہ ’
محاسبہ ‘ کے معروضات میں بھی انھوں نے ’ قومی ایکتا۔ میرا مقصد حیات ‘ کو فوقیت دی
ہے۔ قومی یک جہتی کی یوں توہردورمیںاہمیت اورافادیت رہی ہے لیکن تقسیم ملک کے بعد
جب ہرطرف فرقہ واریت، نفرت اور عداوت کی کالی آندھیاںچل رہی تھیںاوربعض سیاسی
وسماجی شرپسند عناصر ملک کی فضاکومسموم کرنے کے درپے تھے ایسے وقت میں قیوم خضر نے
قومی مفاد کے لیے سیاسی، سماجی اورقومی فریضے کی ادائیگی کے لیے اپنی تحریروں سے
اس کالی آندھی کوروکنے کی کوشش کی اوردوستی، محبت، اتحاد واتفاق اور بھائی چارہ
کے لیے فضا کو سازگار بنانے میں اہم رول اداکیا تھا۔انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر
حصہ قومی یکجہتی کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے میں لگا دیا۔
قیوم خضر نے جہاں رام اورکرشن وغیرہ کی تعلیمات کی اہمیت
اور ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہیں انھوں نے
اہل صادق پور، ٹیپوسلطان، پیرعلی، شیخ گلاب وغیرہ کی قومی خدمات کے ساتھ ساتھ راکھی،ہولی
اوردسہرہ وغیرہ جیسے تیوہار کی روایات اورتاریخ بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی مثبت
کوشش کی ہے کہ یہ تمام شخصیتیں اور یہ تیوہار ہمیشہ دلوںکوجوڑنے اوربھائی چارگی کے
فروغ کے لیے جانے جاتے رہے ہیں۔
اردوزبان پر جب عصبیت حاوی ہونے لگی، اس وقت قیوم خضر
نے اپنافرض سمجھاکہ اس غلط فہمی کودور کرکے سازش کاپردہ فاش کیاجائے جواس زبان کے
وجود کے خاتمہ کے درپے ہے۔چنانچہ انھوںنے ’اردواورقومی ایکتا‘ کے نام سے ایک مکمل
اوربے حد معیاری کتاب لکھ ڈالی۔ جس میںاس زبان کی لسانی اور تاریخی اہمیت اور حیثیت
کوبتاتے ہوئے اس بات کی پوری طرح وضاحت کردی کہ یہ اردو زبان دلوں کو توڑنے والی
نہیں،بلکہ جوڑنے والی ہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اردوحاکموںکی انتہائی بے توجہی کے باوجود
عام جنتا کی زبانوںپرچڑھی اوردلوںمیںبیٹھی راج کررہی ہے۔موجودہ صدی میںاردوزبان
وادب کی ترقی وکامیابی اورقومی یک جہتی کے سلسلے میںاس کے اہم رول کاجائزہ لینے کے
لیے ایک الگ مستقل کتاب کی ضرورت ہے …بہرحال …سطور بالاکی روشنی میںاب آپ خودہی فیصلہ
کیجیے کہ اردوفرقہ پرستی کی زبان ہے یاقومی یک جہتی کی…؟‘‘
(اردواورقومی ایکتا،ص77-78)
مضمون کی طوالت کے پیش نظر قیوم خضر کے ان مضامین کے
اقتباسات دینے سے گریز کررہا ہوں جن میںانھوںنے تواریخ کے حوالے سے اس بات کومکمل
طورپرثابت کردیاہے کہ اس ملک میںمختلف فرقوں، ذات، زبان، لباس اورتہذیب کے ہوتے
ہوئے بھی دوستی، محبت، اخوت،بھائی چارگی اور یک جہتی کی شاندار روایتیںرہی ہیں
اورصدیوںسے لوگ ایک دوسرے سے مل جل کررہتے آئے ہیںاوران تمام روایتوں نے مل کرایک
الگ گنگا جمنی تہذیب کوجنم دیاہے۔
قیوم خضر کی زندگی بامقصد زندگی رہی۔ انا، اصول، ضابطہ،
خودداری کے خمیر سے تیاران کی شخصیت کاایک مقصدحیات تھااور وہ تھاانسان دوستی،جس
کے لیے انھوںنے عمربھرکوششیںکیں،اپنی تحریر،تحریک اور تقریر سے اپنے مشن میںوہ ہمیشہ
مصروف و عمل رہے۔ ان کی ایک اور خصوصیت کا
ذکر عام طور پر نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ احساسات و جذبات کے تخلیقی اظہار کے لیے
شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ گرچہ شاعری ان کا میدان نہیں تھا لیکن قدرت نے انھیں جو
فکر و فن کی دولت ودیعت کی تھی اس کا تقاضہ تھا کہ وہ اپنے اظہار کے لیے شاعری جیسی
اہم صنف کا بھی سہارا لیں۔ قیوم خضر نے اپنی غزلوں، نظموں، قطعات اور مثنوی میں
وقتاً فوقتاً میں جو افکار وخیالات پیش کیے
ہیں اور جو بکھرے پڑے تھے۔ انھیں بڑی ہنر مندی سے ان کے فرزند اظہار خضر نے اپنے والد کے انتقال کے بعد یکجا کرکے ’تشنگی‘
کے نام سے شائع کیا تھا۔ جس کے مطالعے سے قیوم خضر کی حیات و کائنات کو مختلف
انداز اور نظریات کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کا اشارہ ملتا ہے۔ ان شعری افکار و
اظہار میں جہاں قیوم خضر کی جمالیاتی حس کی بیداری کا احساس ہوتا ہے وہیں عصری سیاسی،
سماجی اور معاشرتی انحطاط کا فنکارا نہ اظہار بھرپور معنویت کے ساتھ دیکھنے کو
ملتا ہے۔ قدروں کی پامالی، بدلتے وقت اور حالات کی تبدیلی اور سماجی رشتوں کے
بکھراؤ گزشتہ کئی دہائیوں سے شعرا کے
موضوعات رہے ہیں لیکن ان تبدیلیوں کو شاعر نے کس طور پر سمجھا اور برتا ہے اس کی
اہمیت اور انفرادیت ہوتی ہے اور ا س تناظر میں قیوم خضر کی شاعری کی اہمیت سے
انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
قیوم
خضر کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر ایسی شخصیت جو کہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھی
کو نہ صرف یاد کیا جائے بلکہ ان کے غیر مطبوعہ مضامین و مقالات کو شائع کر کے ان کی
عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا ئے۔
Dr Syed Ahmad Quadri
7 New Karimganj
GAYA- 823001 (Bihar)
Mob.: 8969648799
squadri806@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں