12/2/25

بہار کے اردو ناولوں میں شہری زندگی کی عکاسی، مضمون نگار: محمد معراج عالم

 اردو دنیا، جنوری 2025


ہندوستان گاؤںمیں بسنے والا ملک ہے لیکن بہت تیزی سے گاؤں کے لوگ شہرکی طرف نقل مکانی کررہے ہیں کیونکہ ان کو لگتاہے کہ شہر میں وہ تمام سہولیات میسرہیں جو گاؤںمیں نہیں ہیں۔ دور سے دیکھنے والوںکوشہری زندگی میںبڑی چمک دمک اور آن بان نظر آتی ہے لیکن وہ نہیںجانتے کہ شہرمیںرہنے والوں کے سامنے کتنے مسائل ہیں۔ شہروںکاسب سے بڑا مسئلہ افزائش آبادی ہے یعنی جس تیزی سے شہروںکی آبادی بڑھ رہی ہے اتنے مسائل بھی کھڑے ہورہے ہیں۔ شہروںمیں رہنے والوں کے سامنے پانی، صفائی، ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ ٹریفک اوراسکول اور کالجوں کا بھی ہے۔ اس کے باوجود گاؤں سے شہرکی طرف لوگ تیزی سے آرہے ہیں۔جولوگ پہلے سے شہر میں آباد ہیں وہ تومسائل سے دوچار ہیں ہی لیکن جو نئے لوگ آرہے ہیںوہ ان مسائل میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔

شہرکی آبادی جس طرح بڑھے گی مسائل بھی بڑھتے جائیں گے اورشہر میںرہنے والاہرآدمی ان مسائل سے دوچار ہوگا۔

کہاجاتاہے کہ ادب سماج کاآئینہ ہوتاہے۔سماج میںجوکچھ رونماہوتاہے ادب پراس کابراہ راست اثر پڑتا ہے۔ جب ہم بہار کے اردوناولوں میںشہری زندگی کامطالعہ کرتے ہیں توپاتے ہیں کہ ابتداہی سے بہارکے ناول نگاروںنے اس کی طرف توجہ کی ہے۔ اردو کے ادیب زیادہ ترشہر میںآباد ہوتے ہیںاس لیے شہری زندگی کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ واقعات و حادثات کے چشم دیدگواہ ہوتے ہیں اس لیے اردوفکشن میںشہری زندگی کی عکاسی کوبڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔

بہار کا پہلا ناول نگار شادعظیم آبادی کوتسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کاناول ’صورۃ الخیال‘ 1876 میںمنظرعام پرآیا جب کہ ڈپٹی نذیراحمدکا ناول ’مراۃ العروس‘ 1869 میں شائع ہوا اسے اردو کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ ’صورۃ الخیال‘ کا اگر مطالعہ کریںتو اندازہ ہوگا کہ یہ بھی ایک اصلاحی ناول ہے۔ ولایتی ناول کامرکزی کردار ہے اوروہ اپنی زندگی کی کہانی خود سناتی ہے۔ شادعظیم آبادی، ڈپٹی نذیراحمدسے بے حدمتاثرتھے بلکہ یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ اس وقت کے تمام ناول نگار ڈپٹی نذیراحمدکی پیروی کرتے ہوئے اصلاحی ناول لکھ رہے تھے۔ ’صورۃ الخیال‘ میں شہری زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ ولایتی پٹنہ کی رہنے والی ہے اور اس کی شادی صاحب گنج میںہوتی ہے۔ پوراناول ان دونوںشہروںکے اردگرد گھومتانظرآتا ہے۔

رشیدۃ النسا کاناول ’اصلاح النسا‘(1896)  میں شائع ہوا جب کہ یہ ناول(1881) میں مکمل کرلیا گیا تھا۔ رشیدۃ النسا کے سامنے ڈپٹی نذیراحمدکاناول ’مراۃ العروس‘ بھی تھا اور شاد عظیم آبادی کاناول ’صورۃ الخیال‘  بھی۔ ان دونوںناولوں نے انھیںناول لکھنے کی طرف راغب کیا اور انھوںنے ’اصلاح النسا‘ جیسا ناول لکھا۔ اصلاح النسا میںبھی اصلاح کا پہلو غالب ہے۔  اس میںبھی دولڑکیاںہیںایک شریف اورایک بدمعاش۔

رشیدۃ النسا نے نہ صرف اصلاح کا پہلو سامنے رکھاہے بلکہ اس وقت کے مسلم گھرانوں میںجوکچھ ہوتا تھا اس کی طرف بھی اشارہ کیاہے۔یہ ناول شہرپٹنہ سے شروع ہوتا ہے اور وہیںختم ہوجاتاہے یعنی اس ناول میں بھی شہری زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔

سہیل عظیم آبادی کاصرف ایک ناول ’بے جڑکے پودے‘ 1972 میںشائع ہوا۔ اس میںچھوٹاناگپور کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس وقت چھوٹاناگپور میںکئی عیسائی مشنریاںکام کررہی تھیںاوریہ ناول اسی عیسائی مشنری کا احاطہ کرتا ہے۔ بے جڑ کے پودے میں عیسائیت کا پورا ماحول ہے۔ اس میںچرچ کا میدان، ڈورمیٹری، مشن کایتیم خانہ،مشن کمپاؤنڈ،عیسائیوںکی تہذیب وتمدن ان کی زندگی،چرچ اورکمیونیٹی کے مسائل، عیسائی دھرم کی تبلیغ واشاعت،لاوارث بچوں کی معصومی، رومن کیتھولک کی فیملی، روزولاکی آرام وآرائش سب کچھ ہے۔ سہیل عظیم آبادی نے بہت خوبصورتی سے یتیم خانے میںپرورش پارہے بچوں کو پیش کیاہے۔ سہیل عظیم آبادی نے پہلی بار عیسائی مشنری کو موضوع بنایا ہے۔ ناول ’بے جڑ کے پودے‘رانچی کے مشن سے شروع ہوتاہے اوررانچی کے مشن پرہی ختم ہوجاتاہے اس طرح یہ ناول رانچی میںرہ رہے اینگلو انڈین کی زندگی، رہن سہن اور طور طریقے کوپیش کرتا ہے۔

اختراورینوی کاصرف ایک ناول ’حسرت تعمیر‘ شائع  ہوا۔ یہ ناول بھی چھوٹاناگپور کے زندگی کوپیش کرتا ہے۔ اختراورینوی نے اس ناول میں بیسویںصدی کے مسلم گھرانے کو موضوع بنایا ہے۔ اس ناول میں چھوٹا ناگپورکے جغرافیائی حالات اوروہاں رہنے والے لوگوںکی زندگی کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔

شین مظفرپوری نے بہت سارے ناول لکھے جیسے ہزار راتیں، چاند کا داغ، کھوٹا سکہ، تین لڑکیاں ایک کہانی وغیرہ۔شین مظفرپوری کاناول’ہزارراتیں ‘ بے حدمقبول ہوا۔ ’ہزارراتیں‘کامرکزی کردار ایک لڑکی منی ہے جسے قسمت نے فٹ پاتھ سے اٹھاکربازار تک پہنچا دیا پھرفلموں میںقسمت آزمائی کرتی ہے اور آخر میں  لوٹ کراسی فٹ پاتھ پرآجاتی ہے جہاںاس نے زندگی شروع کی تھی۔ دراصل شین مظفرپوری نے طوائفوں کو سامنے رکھ کر کئی ناول لکھے یا پھر مسلم معاشرے کو سامنے رکھ کر ناول لکھے۔اس ناول میںپٹنہ اور ممبئی جیسے شہرکے حالات بیان کیے گئے ہیں۔

شکیلہ اخترکاصرف ایک ناول ’تنکے کا سہارا‘ منظر عام پر آیا ہے۔ ناول ’تنکے کا سہارا‘ میںجو مسائل اٹھائے گئے وہ یقیناقابل توجہ ہیں۔اس ناول میںبھی پٹنہ شہراپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

انورعظیم کاناول ’جھلستے جنگل‘1998 میںشائع ہوا۔ دوسراناول’پرچھائیوںکی وادی‘ ہے۔ یہ ناول زندگی سے بھرپور ہے کیونکہ اس میں مصنف نے اپنے مشاہدے کااظہار کیا ہے۔ لندن، روس، پیرس کی خوبصورتی کامشاہدہ کرنے کے بعد سب کچھ پرچھائیوں  جیسا لگتا ہے۔ ’پرچھائیوںکی وادی‘ میںنہ صرف شہری زندگی ہے بلکہ روس کے شہروںکی بھی زندگی ہے کیونکہ انورعظیم ایک عرصے تک سوویت یونین میںرہے اور وہاںکی زندگی کو بہت غورسے دیکھااس لیے اس ناول میںان کا تجربہ ومشاہدہ دیکھنے کوملتاہے۔

غیاث احمدگدی کاایک ناول ’پڑاؤ‘1980 میں شائع ہوا۔ ’پڑاؤ‘ میںافسانے کی تکنیک کوسامنے رکھا گیا ہے۔ غیاث احمدگدی نے جس طرح افسانے میں علامت واستعارے کا استعمال کیا اسی طرح ناول ’پڑاؤ‘ میںبھی کیا۔ ناول’ پڑاؤ‘کاکینوس بہت چھوٹاہے اس میںصرف تین کردارہیںاورانھیں تین کرداروں کے بیچ پورا ناول گھومتا ہے۔ اس ناول میںبھی شہری زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔

الیاس احمدگدی کاناول ’فائر ائیریا‘1996 میں شائع ہوا۔ اس ناول کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈبھی مل چکا ہے۔ اس ناول میںپہلی بار کوئلے کی کان میںکام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ کہانی گیاشہرسے شروع ہوتی ہے اورجھریامیںجاکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس ناول میںمزدوروںکااستحصال بھی ہے۔ ٹریڈ یونین بھی ہے اورکول فیلڈکے مالکوںکا ظلم و ستم بھی ہے۔ مزدروں کا ہمیشہ استحصال کیاگیاہے چاہے وہ جس فیلڈ میں کام کررہے ہوں۔ الیاس احمد گدی نے پہلی بار کوئلری کی زندگی کوپیش کیاہے کیونکہ اس سے پہلے وہاں کی زندگی کوکسی افسانہ نگاریا ناول نگار نے پیش نہیںکیاتھا۔الیاس احمدگدی نے کول فیلڈ کی زندگی کوبہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس لیے ’فائرایریا‘ جیسا ناول وہی لکھ سکتے تھے۔

عبدالصمدکاناول’دوگززمین‘1988میںشائع ہوا اور اس ناول کوساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا۔یہ ناول بہار شریف سے شروع ہوتاہے اورپٹنہ اوردوسرے شہروںکا احاطہ کرتا ہے۔آزادی کے بعدمسلمانوںکوجن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی عکاسی اس ناول میں کی گئی ہے۔مصنف نے ہجرت کے کرب کو پیش کیا ہے۔ بہار کے مسلمانوںکودوبار ہجرت کرنی پڑی ایک بار بنگلہ دیش اورجب وہ الگ ہواتوپاکستان۔  عبدالصمد نے پہلی بار بہارکے ان مسلمانوںکے درد کوسمجھاجوپہلے مشرقی پاکستان گئے اور پھربنگلہ دیش بننے کے بعدپاکستان جانے پرمجبورہوگئے۔

عبدالصمد کا دوسرا ناول ’مہاتما‘ ہے۔ جس  میں تعلیمی نظام میںجوبدنظمی ہے اور کرپشن ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعدبھی نوجوان بے روزگار رہتا ہے۔ ان سب کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیاہے۔ ’خوابوں کا سویرا‘ میں جاگیردارانہ خاندان کے افراد کی زندگی اور ان کے نظریات کو پیش کیاگیاہے۔ اس کے علاوہ عبدالصمد کا ناول ’مہاساگر‘، ’دھمک‘، ’بکھرے اوراق‘، ’شکست کی آواز‘اور’سسٹم‘میںبھی شہری زندگی کوپیش کیا گیا ہے۔

حسین الحق کے تین ناول ’بولومت چپ رہو‘ 1990، ’فرات‘1992 اور’اماوس میں خواب‘ 2017 میں شائع ہوئے۔ ’اماوس میںخواب‘ پرساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا۔ ’اماوس میں خواب‘ میںبھی  سیاسی، سماجی، تہذیبی  تبدیلیوں کے پس منظرمیںانسانی زندگی کے المیے کوپیش کیا ہے۔ یہ ناول اپنے موضوع اوراسلوب اورتکنیک کے لحاظ سے منفرد ہے۔ حسین الحق نے اس ناول میں ہندوستان کی جمہوری قدروںکے کھوکھلے پن کو اجاگر کیا ہے۔ اس ناول میںوہ سب کچھ ہے جوآج ہندوستان میں ہورہا ہے۔ حسین الحق نے اپنے تینوں ناولوں میں شہری زندگی کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

شفق کے تین ناول کانچ کابازی گر، بادل اور ’کابوس‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ’کانچ کا بازی گر‘ میںپہلی بار کسی ناول نگارنے ایمرجنسی کے حالات کو قلم بند کیا۔ لیکن علامتی انداز میں اگر یہ عام بیانیے میں لکھا جاتا تو شاہکار  ناول ہوتا۔ ’بادل‘ میں آج جوکچھ ہندوستان میں ہورہا ہے اس کو خوبصورتی سے پیش کیاگیاہے۔ان کے تینوں ناولوںمیںشہری زندگی موجودہے۔

شموئل احمد کا ناول ’ندی‘ 1999، ’مہاماری‘ 2005، ’گرداب‘ 2016 اور ’چمراسر‘2019 میںشائع ہوا اور ایک سوانحی ناول ’اے دل آوارہ‘2015میںمنظرعام پرآیا۔

شموئل احمدکے ناول ندی میںایک ایسی عورت کی کہانی ہے جوندی کی طرح جیناچاہتی ہے لیکن شادی کے بعداس کا شوہراس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کردیتا ہے جس سے وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ شموئل احمدنے اس ناول میں عورت کی ذہنی اور جسمانی آزادی کو خوبصورت اندا زمیں پیش کیا ہے۔ ناول ’ چمراسر‘ میںایک دلت اوراس کے احتجاج کو بہت خوبصورتی سے پیش کیاہے۔ان کے ناولوںمیںبھی شہری زندگی کی عکاسی ملی ہے۔

معین شاہدکے چارناول ٹھوکریں، جذبۂ دل، شیشۂ دل اور’شکست آرزو  ‘میںشہری زندگی کوپیش کیا گیا ہے۔

ذکی انورنے تقریباً پچاس ناول لکھے۔ ان رومانی اورداستانوی رنگ و آہنگ نے سارے ناولوںکامزاج برہم کردیا۔ کچھ جاسوسی ناول بھی انھوںنے لکھے اور ان کے سبھی ناولوں میں شہری زندگی کی عکاسی بھرپور طریقے سے ملتی ہے۔

ناول’آسمان سے آگے میں‘ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جومذہبی پابندیوںمیںرہتی ہے لیکن جب آزادہوتی ہے تووہ آسماںسے آگے تک پروازکرتی ہے۔

احمدصغیر کے چار ناول ہیں۔ انھوں نے اپنے چاروں ناولوںمیںشہری زندگی کو عمدگی سے پیش کیاہے۔

غضنفرکاناول ’پانی‘1989میںشائع ہوا۔اس میں پانی کو علامت کے طورپر پیش کیا گیاہے۔اس میں داستانوی طرزہے اور ناول نگار نے بتایاہے کہ پانی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگرآنے والے وقت میںپانی کی کمی ہوگئی توکیاہوسکتاہے۔بے نظیر جواس ناول کااہم کردار ہے پانی کی تلاش میں نکلتا ہے لیکن ہرجگہ اسے ناکامی ہی ملتی ہے۔وہ جن لوگوں سے ملتاہے ان کااپنانظریہ ہے اوربے نظیر کویہ بتانا چاہتے ہیںکہ پانی کی تلاش بے معنی ہے۔

غضنفرکادوسرا ناول ’کینچلی‘1993 میںشائع ہوا جس میںایک شوہراوربیوی کی کہانی ہے۔ اس ناول میں وینا کے کردار پربہت محنت کی گئی ہے۔اس نے وفادار بیوی کا کردار نبھایا ہے۔غضنفرکاسب سے اہم ناول ’دویہ بانی‘ہے جو2000 میںشائع ہوا۔دراصل یہی ناول غضنفرکی پہچان ہے۔یہ ارد وکا پہلادلت ناول ہے۔

غضنفرنے پہلی بار دلت مسائل کواٹھاکرایک اہم ناول لکھا ہے۔ غضنفر کا ناول ’فسوں‘، ’وش منتھن‘، ’مم‘، ’شوراب‘ اور ’مانجھی‘بھی ہے جس میںشہری زندگی کوپیش کیاگیاہے۔

پیغام آفاقی کا ناول ’مکان‘ 1989، ’پلیتہ‘2011 اور ’دوست‘ ان کی موت کے بعد2018میںشائع ہوئے۔ پیغام آفاقی کے ناول’مکان‘کی کہانی یہ ہے کہ میڈیکل کی ایک طالبہ جس کے والد کاانتقال ہوگیاہے اپنی بوڑھی ماںکے ساتھ دلّی میںرہتی ہے اس لڑکی کے بھی کئی خواب ہیںلیکن کمار جواس کے مکان میںکرایہ دار کی حیثیت سے رہ رہاہے اس کی نیت میں کھوٹ پیدا ہوجاتی ہے اوروہ مکان کوحاصل کرنے کی تیاریاں شروع کردیتا ہے۔ نیرا اور اس کی ماںکوجب کمار کی نیت کاپتہ چلتاہے توگھبراجاتی ہے اور یہیںسے شروع ہوتی ہے مکان مالک اور کرایہ دارکی جنگ۔یہ پورا ناول دلّی شہر کے حالات کا احاطہ کرتا ہے۔

پیغام آفاقی کا دوسرا ناول ’ پلیتہ‘ ہے جس میںایک سوپچاس سال پرانے درداورجبرکے رشتے کو آج سے جوڑکرایک نیا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ناول’دوست‘ میں میاں بیوی کی کہانی ہے یہ تینوںناول شہری زندگی کواحاطہ کرتی ہیں۔

کوثر مظہری کاناول ’آنکھ جو سوچتی‘ہے 2000 میں شائع ہواجس میںسیتامڑھی میں ہوئے فسادکوپیش کیا گیاہے۔

اچاریہ شوکت خلیل کاناول ’اگرتم لوٹ آتے‘ 2003 میں شائع ہوا۔اس ناول کا موضوع تقسیم ہند ہے۔ شبرامام کے دو ناول ’جب گاؤں جاگے‘ اور ’شاہین‘ منظرعام پر آچکے ہیں۔ محمدعلیم کے بھی دوناول ’جواماںملی توکہاںملی‘ اور ’ میرے نالوںکی گمشدہ آواز‘ میں بھی شہری زندگی کو پیش کیاگیاہے۔ آشاپربھات کا ناول ’دھند میںاگاپیڑ‘، ظفرعدیم کاناول ’یاسمین ‘، افسانہ خاتون کا ناول ’دھند میںکھوئی روشنی‘، نسرین ترنم کا ناول ’ثنا‘، نیلوفر کا ناول’آٹرم لین‘، علی امجدکاناول ’کالی ماٹی‘، خورشید انور ادیب کا ناول ’یادوںکے سائے‘، جاویدحسن کاناول ’سیاہ کاری ڈور میںابلیس‘ اوراقبال نظامی کاناول’آخرکب تک‘ میں بھی شہری زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ناولوںکاتقابلی مطالعہ کرکے ان ناولوںکامقام متعین کیا جائے تبھی ان ناولوںکے ساتھ انصاف ہوسکے گا۔

 

Md. Meraj Alam

New Aliganj

Near: Rose Palace

Gaya-823001

E-mail:merajalamgaya786@gmail.com

Mobile: 8789236712

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ہندوستان کے زمانہ قدیم و وسطیٰ کے کتب خانے، مصنف: بمل کمار دت، مترجم: سرتاج احمد عابدی

  اردو دنیا، مارچ 2025 کتب خانوں کے ارتقا کی تاریخ، تہذیب و تمدن کے ذہنی نشو و نما کا ایک ضروری باب ہے اور لائبریری کے فروغ اور علم کی ترو...