12/2/25

مخطوطہ شناسی اور ادبی تحقیق: تعریف و تفہیم اور اصول، مضمون نگار: امتیاز احمد

 اردو دنیا، جنوری 2025


مخطوطہ عربی زبان کا لفظ خط سے مشتق ہے جس کا معنی کسی مادی شے پر ہاتھ سے لکھا ہوا یا ٹائپ شدہ تحریری نمونہ کے ہیں۔نمونے کی یہ تحریر نقل بھی ہو سکتی ہے اور طبع زاد بھی، طویل بھی اور مختصر بھی،مفید بھی اور غیر مفید بھی۔ اصطلاحی معنی میں مخطوطہ کا اطلاق قلمی کتاب اورنسخے پر ہوتاہے۔یعنی وہ کتاب جو قلم سے لکھی گئی ہو۔ مخطوطہ لکھنے والے کو خطاط اور تحریر کو خطاطی کہتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین مخطوطہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر مخطوطہ کہلاتی ہے۔یہ تحریر ایک صفحے پر مشتمل ہو یا ایک ہزار صفحے پر، ایک سال پرانی ہو یا ایک ہزار سال، کاغذ پر لکھی ہو یا کھجور کی چھال پر، پتھر پر کندہ ہو یا ہڈیوں کے ٹکڑوں پر۔ بہرحال اسے تحقیق و تدوین کی زبان میں مخطوطہ کہا جائے گا۔‘‘1

بہرحال مخطوطے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ ہاتھ سے لکھا گیا ہو خواہ مصنف نے اسے بذاتِ خود لکھا ہو یا کسی کاتب سے نقل کرایا ہو۔

مخطوطہ شناسی یا تحریر شناسی ایک ہمہ گیر اور وسیع شعبۂ علم ہے جس کی اہمیت و افادیت ازمنہ گزشتہ سے مسلم رہی ہے۔ البتہ یہ شعبۂ علم جس قدر ناگزیر ہے اسی قدر اس کی تلاش و جستجو، قرأت و مطالعہ اور اصول و ضوابط دشوار کن اور اعصاب شکن بھی ہیں۔مخطوطہ کئی قسم کا ہو سکتا ہے۔ قلمی نسخہ، بیاض، مکتوب، مقالہ اور اس قبیل کی دوسری شکلوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ سید جمیل احمد رضوی مخطوطے کی اس نوعیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایسی دستاویز جو خطی ہو یا ٹائپ کی ہو (اس میں کاربن کی کاپیاں بھی شامل کی جاتی ہیں) اس میں خطوط، تاریں، روز نامچے، رسیدیں، ذاتی حالات، فہرستیں، اجلاس کی روئیدادیں، معاہدے، ٹیکس کے ریکارڈز، قانونی سرٹیفکیٹ (متعلقہ پیدائش، موت، شادی وغیرہ) ادبی کتب، تقاریر اور دوسری دستاویزات کے اصل مسودات جو شخصیات یا افراد سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘2

درج بالا تعریفات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی ایسا کاغذ، مٹی، مٹی کی تختی، کپڑا، انڈے کا خول، کانچ، لکڑی یا لکڑی کا تختہ، چمڑا، پتھر، درخت کا پتا یا چھال، دھات یا جانور کے جسم کی جھلی، جانوروں کی ہڈیوں یا ہاتھی دانت جس پر کوئی عبارت تحریری شکل میں مرقوم ہو یا کندہ کی ہوئی ہو تو اس کو مخطوطہ کہا جائے گا۔

مخطوطات کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جن میں سب سے پہلی قسم نسخہ اصلیہ (Original copy) کی ہے جسے مؤلف نے خود اپنے ہاتھ سے سپردقر طاس کیا ہو۔ اس کے بعد وہ نسخہ جو نسخہ اصلیہ سے نقل کیا گیا ہو۔ پھر فروعی نسخے جنھیں اصلی یا ثانوی نسخوں سے نقل کر کے تیار کیا گیا ہو۔ یہ مخطوطات در حقیقت بعد میں لکھی جانے والی کتابوں کے لیے مصدر اور سرچشمے کا کام کرتے ہیں۔ یہ جدید دور کی کتابوں کے لیے امھات کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ انسانی تہذیب و ثقافت کی اساس اور جدید تمدن کا شاندار ستون ہیں۔

مشرقی زبانوں بالخصوص عربی، فارسی اور اردو میں مخطوطات کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ ہمارا بیشتر قدیم علمی وادبی سرمایہ مخطوطات کی شکل میں ہے۔ قدیم تواریخ و تذکرے، سوانح وسیرت، داستانیں، مثنویات اور شعرا کے دواوین وغیرہ سب کے سب مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہیں۔ ان مخطوطات کے بغیر ہم اپنی ادبی روایات کی جڑوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ عہد قدیم کے شاعروں اور نثر نگاروں کی تخلیقات سے ہم مستفید نہیں ہو سکتے۔ مذہب سے قطع نظر مخطوطات میں ہمارے اسلاف کا جواد بی سر ما یہ محفوظ ہے وہ دراصل اپنے عہد کی معاشرتی اور تہذیبی دستاویز ہے۔ اس سے اپنا تعلق جوڑے بغیرنہ تو ہم اپنے ماضی کو بالاستیعاب سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے واقعات و انسلاکات سے کوئی نتیجہ مستنبط کر سکتے ہیں۔

انسانی ارتقا کی تاریخ متعین کرنے میں سب سے اہم اور بنیادی ماخذ مخطوطات ہیں۔  قدیم یونان و روم سے لے کر مصر، افریقہ، چین اور برصغیر ہند تک کی تاریخ انہی مخطوطات سے منعکس ہوتی ہے۔ انسانی ارتقا سے صرفِ نظر جب ہم ادبی حوالے سے اس کے دائرۂ کار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں زبان و ادب کے مختلف موضوعات سے متعلق تحقیق اور تدوین کا میدان نظر آتا ہے جہاں مخطوطات ایک اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ زبان و ادب سے متعلق مختلف شعرا و ادبا کے حالات زندگی قلم بند کرنا ہو، اصنافِ نظم و نثر پر خامہ فرسائی کرنا ہو، ادبی رجحانات و تحریکات کی تاریخی دستاویز سپردِ قلم کرنا ہو یا ادبی اداروں، تنظیموں، حلقوں اور دبستانوں کی تاریخ منضبط کرنا ہو ان سب کے لیے مخطوطات کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ ان مخطوطات کو مدون اور مرتب کرنے سے ہی ہمارے سامنے مطلوبہ اشخاص، اصناف، ادارے، دبستان اور رجحانات و میلانات نمودار ہوتے ہیں۔

اردو زبان میں تدوین یا ترتیب، عربی میں تحقیق اور انگریزی میں ایڈیٹنگ سے مراد مخطوطے کو صحیح صورت میں اس طرح پیش کرنا ہے جیسا کہ اس کے مصنف نے اپنے ہاتھوں سے اسے تحریر کیا تھا۔ یہ تدوین قابلِ مطالعہ و قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ مقررہ معیارات کے مطابق ہو۔

 تدوین، متن کی تصحیح و ترتیب کا ایک عملی فن ہے جس میں مدون اپنی پوری توجہ اور محنت سے کسی مصنف کی کتاب کو پوری صحت کے ساتھ ترتیب دیتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اصل متن کی تلاش کرتا ہے۔ خواہ وہ ایک جگہ ہویا اس کے اجزا منتشر حالتوں میں مختلف جگہوں پر ہوں، اسے فراہم کرتا ہے، پھر اس متن کو منشائے مصنف کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ متن کی ترتیب میں اسے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی اول تو وہ اس کی تصحیح کرتا ہے۔ تصحیح کے دوران اس متن کی پوری تحقیق اور چھان بین کرتا ہے، اسے تنقیدی زاویوں سے پرکھتا ہے، پھر اپنی رائے پیش کرتا ہے، حسب ضرورت متن کی وضاحت بھی کرتا ہے اس پر حاشیہ چڑھا کر اس کی تزئین کرتا ہے اور مقدمے کا اضافہ کر کے اس کی تکمیل کرتا ہے۔ اس طرح تدوین متن عملی طور پر فراہمی متن، ترتیبِ متن، تصحیحِ متن، تحقیقِ متن اور توضیحِ متن پر محیط ہے۔

مخطوطے کی تدوین کے کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں جن کو ملحوظِ خاطر رکھ کر تدوین کے کام کو بہ حسن و خوبی انجام دیا جا سکتا ہے۔ مدون کو معلوم ہونا چاہیے کہ ترتیب و تدوین کا مطلب نہ تو مخطوطے کی عبارات کو بدل کر زیادہ بہتر الفاظ میں نقل کرنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصود یہ ہے کہ مصنف کے اسلوب کو بدل کر کوئی اور زیادہ بہتر اسلوب اختیار کیا جائے  یا اگر مصنف نے کوئی نظر یہ خلاف واقعہ بیان کیا ہے اس کی تصحیح کر دی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترتیب و تدوین ایک تاریخی امانت ہے، اس کا اپنا تقدس اور حرمت ہے اور مخطوطہ اور اس کی عبارات مصنف کی امانت ہیں، ان میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں کیا جاسکتا۔

تدوینِ مخطوطہ کا پہلا اصول یہ ہے کہ جس مخطوطے کے متن کی تدوین کا ارادہ ہو اس کے بارے میں پہلے یہ معلوم کر لیا جائے کہ اس کے کتنے نسخے ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔جہاں جہاں وہ نسخہ موجود ہو وہاں وہاں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔

تدوینِ مخطوطہ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ حاصل شدہ نسخوں میں سے چند نسخوں کو منتخب کر لیا جائے۔ مثلاً اگر کسی مخطوطے کے دس نسخے دستیاب ہوئے ہیں تو ان میں سے تین یا چار نسخوں کو جو زیادہ اہمیت کے حامل ہوں، منتخب کر لیا جائے۔ حاصل شدہ نسخوں میں سب سے بہتر اور مستند کی درجہ بندی درج ذیل معیار پر کر لی جائے۔

l         سب سے مستند وہ نسخہ مانا جائے جو مصنف کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہو۔

l         مصنف کے نسخے سے نقل کیا ہوا نسخہ جسے خود مصنف نے پڑھا یا سنا ہو۔

l         وہ نسخہ جو مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو لیکن مصنف نے اس کو نہ پڑھا ہو۔

l         مصنف کے زمانے میں نقل کیا گیا نسخہ

l         مصنف کے زمانے سے قریب تر نسخہ

جب نسخوں کو منتخب کر لیا گیا اور ان میں سے کسی ایک کو بنیادی نسخہ بنا لیا گیا تو اب مدون حاصل شدہ تمام نسخوں کے متن کو ملائے اور ان کی عبارت کو  آپس میں مقابلہ کرے کہ تمام نسخوں کی عبارت ایک طرح سے ہے یا اس میں کچھ فرق ہے۔ اگر کوئی اختلاف نہ ہو تو کوئی بات نہیں لیکن اگر کوئی اختلاف ہو تو اس کو حاشیے میں نقل کر دیا جائے۔

تدوینِ مخطوطہ کا چوتھا اصول حواشی ہے۔ جب دستیاب نسخوں میں اختلاف پایا جائے تو اس کو بیان کرنے کے لیے حاشیہ چڑھایا جاتا ہے۔حاشیہ درج کرنے کے دو طریقے رائج ہیں؛ ایک طریقہ یہ ہے کہ جس صفحے کا حاشیہ ہے اسی صفحے کے فٹ نوٹ میں نمبر ڈال کر حاشیہ لکھ دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حاشیہ نمبر ڈالتے جائیں اور تمام حواشی ایک ساتھ کتاب کے اخیر میں نقل کر دیے جائیں۔

مدوّن اگر کسی قدیم شعرا و ادبا یا اصناف کے مخطوطے کو مدون کر رہا ہو تو وہ فرہنگ سازی کا اہتمام کرے۔ فرہنگ میں متعلقہ مخطوطہ کے مشکل الفاظ، اصطلاحات، تلمیحات، نامانوس اور متروک الاستعمال الفاظ کے معنی، تشریح اور مفہوم کی وضاحت کرے۔ اس کے علاوہ محاوروں کا مفہوم، متن میں مستعمل مشکل جملے، مصرعے اور فقروں کی توضیح بھی فرہنگ میں لکھے۔

تکمیل کتاب کے بعد مدون ایک مفصل مقدمہ تحریر کرے جس میں اس کتاب اور اس کے متعلقات کو زیرِ بحث لائے۔ مثلاً کتاب کی ادبی اہمیت، لسانی تجزیہ، مصنف کی سوانح، کاتب کی لیاقت، زیرِ نظر تمام نسخوں کی کیفیت، متعلقہ متن کی دریافت و بازیافت اور اس کام میں جن لوگوں نے ہاتھ بٹایا ہے ان کا شکریہ وغیرہ۔

تدوینِ مخطوطہ کے خاص اصول کی پابندی موضوع کی مناسبت سے کی جاتی ہے کیونکہ ہر موضوع کے تقاضے جدا گانہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نثری مخطوطے کی تدوین کر رہا ہے تو اس کے تقاضے جدا ہیں اور شعری مخطوطے کی تدوین کے تقاضے جدا۔

 مخطوطہ شناسی ادبی تحقیق کا بنیادی جزو ہے کیونکہ کسی صنف، شخصیت، دبستان  اور تحریک و رجحان پر تحقیق کے لیے اس سے متعلق مخطوطے کا موجود ہونا لازم ہے۔ تحقیق کا بنیادی مقصد حقائق کی تلاش،سچ کی جستجو، مناسب انداز سے واقعات کو ترتیب دینا اور خالص منطقی انداز سے نتائج نکالنا ہے۔اس کے لیے چاہیے کہ مخطوطے کے متن کے آداب کا خیال رکھا جائے۔

مخطوطے میں مندرج حواشی، مقدمہ، متن کا زمانۂ تحریر، مصنف اور اس کے عہد سے متعلق ضروری معلومات، داخلی شواہد کا تعین وغیرہ ایسے امور ہیں جن پر خاطر خواہ توجہ صرف کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح کسی شخص کو تدوین پر اس وقت تک دسترس نہیں ہو سکتی جب تک وہ تحقیق کا مزاج نہ رکھتا ہو۔ تدوین کے لیے مخطوطہ شناسی انتہائی ضروری شرط ہے۔ چونکہ تدوین تحقیق سے آگے کی منزل ہے اس لیے تدوین کے لیے مخطوطہ شناسی کو کافی اہم قرار دیا جاتاہے۔تحقیق کی طرح تدوین کے لیے بھی مخصوص مسائل،آداب اور ضابطے ہیںجس کے لیے مخطوطہ شناسی کا علم سب سے اہم ہے۔ جب کسی مخطوطے کو موضوع بنایا جاتا ہے تو اس کی اصلیت یا اسناد کے بارے میں سب سے پہلے اطمینان کرنا ضروری ہے۔

درج بالا توضیحات سے یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ بعض اشخاص کسی نہ کسی وجہ سے اصل متن کو چھپاکر یامسخ کرکے حالات و واقعات کو اپنی مرضی کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ ا س لیے ضروری ہے کہ جب تحقیق شروع کی جائے تو اصل متن تک رسائی حاصل کی جائے۔ تحقیق اور تدوین کے اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ مخطوطے کو پہچان لیا جائے اور اس کی پہچان مختلف طریقوں سے ہو سکتی ہے۔محقق کو چاہیے کہ وہ ایک سے زیادہ قلمی نسخے حاصل کرے۔ جب مختلف نسخے ہاتھ آجائیں تو یہاں سے اس کی مخطوطہ شناسی کا امتحان شروع ہو جا تا ہے کہ وہ اس میدان میں کتنی مہارت رکھتا ہے۔وہ کس نسخے کو اصل قرار دے اور کس کو ثانوی حیثیت دے اور کس کو ردّ کردے۔

محقق کو زیرِ تحقیق کتاب کے مخطوطے کو پہچاننے اور اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے داخلی اور خارجی شواہد سے کام لینا چاہیے۔ داخلی شواہد میں زیرِ تحقیق مخطوطہ کے دیباچہ اور متن کی اہمیت مسلم ہے۔ اور خارجی شواہد میں معتبر ذرائع، تاریخیں،تذکرے اور دوسری یادداشتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ مخطوطے کی حتمی شناخت کے بعد اس کے عہد اور زمان و مکان کے تعیّن کا مرحلہ آتا ہے۔  زیرِ نظر مخطوطہ کب اور کن حالات میں وجود میں آیا،اس کے جاننے سے موضوع کی بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں۔ مخطوطے کی بازیافت کا انحصار اس کی کیفیت پر بھی ہوتا ہے۔ مخطوطوں کو کیفیت کی بنا پر دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک مکمل و سالم، دوسرا ناقص۔ مکمل یا سالم مخطوطہ وہ ہے جس میں کسی تخلیق کا متن قابل قرأت حالت میں از ابتدا تا انتہا لفظ بہ لفظ پوری طرح موجود ہو۔ ناقص مخطوطہ وہ ہے جس میں متن بہ تمام و کمال موجود نہ ہو۔ ناقص مخطوطے کو پانچ زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔(1)ناقص الاول (2) ناقص الآخر (3) ناقص الاوسط (4)ناقص الطرفین (5) بوسیدہ یا کرم خوردہ۔

بعض اوقات مخطوطے میں مصنف کا نام درج نہیں ہوتا ہے۔ تخلیق کار از راہِ عاجزی و انکساری اپنا نام نہیں لکھتا ہے۔ اس صورت میں مخطوطے کے عنوان کو دیکھ کر اس کے فن کے مطابق مصنف معلوم کرنا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مخطوطات کی فہرستوں اور ترقیمات کو دیکھ کر مصنف کا نام معلوم کیا جاتا ہے۔ نیز بعض مخطوطات کے مشترک مصنف ہوتے ہیں۔

 تحقیق مخطوطے کا آخری مرحلہ قرأتِ متن کا ہے۔ کسی مخطوطے کے متن کا درست پڑھ لینا جس قدر ضروری ہے اس قدر دشوار بھی ہے۔بیشتر مخطوطات ایسی مخدوش حالت میں ملتے ہیں جن میں اغلاط کا طوفان ہو تا ہے۔

ایک محقق کو دورانِ تحقیق مخطوطات کو سمجھنے کے لیے انتہائی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک وہ مخطوطہ شناسی کے فن سے بخوبی واقف نہیں ہو تا تب تک وہ تحقیق و تدوین کے کام کو بخوبی سر انجام نہیں دے سکتا۔ اور نہ ہی قدیم متنوں کو اصول ِ تدوین کی مکمل پابندی کے ساتھ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ مستند نسخے کو ماخذ بنائے بغیر کسی اقتباس کو اس اعتماد کے ساتھ نہیں پیش کیا جا سکتا کہ اس سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ درست ہے۔ اس احساس نے صحت ِ متن کی اہمیت کو بڑھا دیا۔ محض یادداشت یا سماعت پر بھروسا کرکے متن پیش کر دینا یا کسی بھی سہل الحصول ثانوی ماخذ سے عبارتوں کو نقل کر دینا بہت آسان کام ہے۔ محقق کی ذمے داری ہے کہ وہ مخطوطے کے متن کے نقطوں، رموز و اوقاف اور اعراب و حرکات کا باریکی اور پوری توجہ کے ساتھ جائزہ لے اور اس کی صحیح قرأت کو نقل کرے۔ مالک رام مخطوطے کی صحیح قرأت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مخطوطہ پڑھنے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کاتب پورے الفاظ نہیں لکھتے۔ نقطے غائب یا غلط جگہ لگے ہوں گے، یائے معروف اور یائے مجہول میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ بعض اوقات لفظ یائے معروف اور یائے مجہول دونوں سے بامعنی ہو سکتا ہے (اگرچہ شاذ و نادر ہو)، اس صورت میں ایک کو ترجیح دے کر اسے متن میں لکھیے اور دوسری قرأت کو حاشیے میں لکھ کر تشریح کر دیجیے۔‘‘ 3

مخطوطہ شناسی اور تحقیق و تدوین کے فروغ نے احتیاط کو تقویت دی ہے ا ور اعتراض کرنا سکھایا ہے نیز اس بات کو بھی ضروری قرار دیا ہے کہ شعری عبارت ہو یا نثری اقتباس اس کو معتبر ترین ماخذ سے نقل کر نا چاہیے۔

متن کی تحریفات و تصرفات کتاب کے بار بار چھپنے کے سبب سے بھی ہو تی ہیں۔ اکثر کتابوں کی اولین اشاعتیں یا اہم اشاعتیں عام طور پر نہیں ملتیں۔ اس لیے جو ایڈیشن دستیاب ہو تے ہیں،ا ن سے کام لیا جاتا ہے۔ اس صورت میں متن کی تبدیلیوں کا امکان ہو تا ہے۔ اکثر صفحات اصل نسخوں کی طرف رجوع کرنے کی بجائے، پہلے کے شائع شدہ انتخابات سے یا ایسے دوسرے ثانوی یا غیر معتبر مآخذ سے نثر و نظم کے اجزا نقل کیے جاتے ہیں۔ یہ تدوین کے سراسر خلاف ہے۔ متن کو سند اور ثبوت کے طور پر اس وقت تک پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ معتبر نسخوں سے مقابلہ نہ کر لیا جائے، جب تک ایسے متنوں کو آداب تدوین کی پابندی کے ساتھ معرضِ طبع میں نہ لا یا جائے، ایسی صورت میں مخطوطے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،مگر جس طرح بار بار ذکر کیا گیا ہے، مخطوطے کا دستیاب ہو نا بہت اہم ہے لیکن تحقیق و تدوین کے لیے مخطوطہ شناسی اس سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ جب تک مخطوطے کی اصلیت کا پتا نہیں چلتا، تحقیق و تدوین کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔

حواشی

1        ڈاکٹر گیان چند جین، تحقیق کا فن، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1994، ص 568

.2       ڈاکٹر سلطانہ بخش(مرتبہ)، اردو میں اصولِ تحقیق -منتخب مقالات، اردو اکیڈمی، لاہور2021، ص 81

3        مالک رام، مخطوطات، تلاش، قرأت و ترتیب مشمولہ تحقیق و تدوین (سید محمد ہاشم)، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1978، ص:139

 

Imtiyaz Ahmad

Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9911752717

imtiyaz7262@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جنوبی ہند میں فکر غالب کا مینار: علامہ شاکر نائطی، مضمون نگار: ابوبکر ابراہیم عمری

  اردو دنیا، فروری، 2025 جنوبی ہند خصوصا تامل ناڈو میں مرزااسداللہ خان غالب کے فکر وفن کی آبیاری میں علامہ ابو صالح غضنفر حسین شاکر نائطی...