13/2/25

علم اللغات اور لفظ اصلیات، ماخذ: عام لسانیات، مصنف: گیان چند جین

 اردو دنیا، جنوری 2025


عربی میں لغت کے معنی لفظ بھی ہیں اور ڈکشنری بھی۔ موخرالذکر مفہوم میں لغت کی جمع لغات کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو کی عام بول چال میں لغت اور لغات دونوں کو ڈکشنری کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ ان میں بھی سہولت اور اختصار کی خاطر ’لغت‘ بولنے کا زیادہ رواج ہے۔ یونانی زبان میں Lexis لفظ کو کہتے ہیں۔ اس سے Lexican بنا جس کے معنی لغات کی کتاب یا ذخیرۂ الفاظ قرار پائے۔ لاطینی میں dicere کے معنی کہنا ہیں جس سے dictionaries بنا اور جو انگریزی میں ڈکشنری ہوگیا۔ اس لفظ کے معنی لغات کی کتاب ہیں۔

لسانیات نے یونانی اصطلاح کو ترجیح دی ہے۔ لغت سے متعلق دو علوم ہیں یا ایک ہی علم کے دو پہلو ہیں۔ پہلے کو lexicologyکہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ علم اللغات یا لغاتیات ہوسکتا ہے۔ یہ نظریاتی شاخ ہے جس میں لغت تیار کرنے کے مسائل پر غور کیا جاتا ہے۔ اس کی عملی شاخ کو لغت نگاری (Lexicography) کہتے ہیں۔ یہ اطلاقی لسانیات کا عمل ہے۔

لغت کا موضوع ایک زبان کا ذخیرۂ الفاظ (Vocabolary) ہوتا ہے۔ اس کے تعین میں بہت سی دشواریاں آتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ذخیرۂ الفاظ میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے یعنی کچھ الفاظ معدوم اور کچھ اضافہ ہوتے جاتے ہیں۔ اس باب میں ان پہلوؤں پر بھی غور کیا جائے گا۔

لغت میں جہاں لفظ کے متعلق طرح طرح کی معلومات درج کی جاتی ہیں ان میں سے ایک اہم اور مفید اندراج لفظ کی اصل کے بارے میں ہوتا ہے۔ انگریزی میں اسے Etymology کہتے ہیں۔ اس باب کے آخر میں اس کے مسائل پر بھی مختصراً نظر کی جائے گی۔

امریکہ اور مغربی یورپ میں علم اللغات کو لسانیات کی باقاعدہ آزاد شاخ کی حیثیت نہیں دی جاتی۔ لسانیات کی کتابوں میں لغاتیات پر ابواب نہیں ہوتے۔ ان کے مقابلے میں روس میں علم اللغات اور لغت نگاری دونوں کو مطالعۂ زبان کے اہم شعبے مانے جاتے ہیں، چنانچہ ان کی لسانیات کی کتابوں میں علم اللغات پر مفصل غور کیا جاتا ہے۔ روسیوں میں علم اللغات کا مشہور عالم شیربا (Scherba) ہے جس نے اس علم پر نظریاتی حیثیت سے بھی لکھا اور عملی لغت نگاری بھی کی، مغرب میں لغت نگاری کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس کے اصولوں پر بھی لکھا گیا لیکن باقاعدہ مستقل سائنس کے طور پر نہیں۔

لغت کی ترتیب میں لفظ بنیادی اکائی ہے اور مارفیمیات کے باب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ لفظ کی تعریف آسان نہیں۔ بعض ماہرین نے لفظ سے ملتا جلتا Lexeme کا تصور پیش کیا ہے لیکن اس اصطلاح کے معنی پر اتفاق نہیں۔ Whoy نے اسے Stem یعنی بنیادی لفظ کے مساوی قرار دیا تھا، لیکن یہ صحیح نہیں۔  اس کے تعین میں بھی لفظ کی طرح دشواریاں ہیں اس لیے ہم لغت کی حد تک عام بول چال کے لفظ ’لفظ‘ سے کام چلائیں گے۔ کم ازکم ترسیمیات میں لفظ ’واضح‘ ہوتا ہے یعنی وہ روپ جس کو بقیہ مماثل روپوں سے فاصلہ دے کر لکھا جائے۔

ہم کسی شے کو دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں تو ایک طرف اس کا ذہنی تصور قائم کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسے ایک صوتی علامت دی جاتی ہے گو یہ صحیح ہے کہ نفسیاتی اکائی ’جملہ‘ ہے لفظ نہیں یعنی ہم ہر خیال ’جملے‘ کے پیرائے میں کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ مجرد تصورات کی اکائی لفظ ہے۔

زبان کے دو حصے ہوتے ہیں (1) لغات یعنی لفظیات (2) قواعد۔ لغات یا ذخیرۂ الفاظ میں لفظ مجرد تصور کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، قواعد ان کے آپسی رشتے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس طرح الفاظ کی —بھی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں (1) لغاتی لفظ اور (2) قواعدی لفظ۔ لغاتی لفظ بنیادی اور قائم بالذات ہوتے ہیں۔ اُلمان نے انھیں outo sematic یا Principal کہا ہے جب کہ قواعدی لفظ امدادی اجزا، حروف وغیرہ ہوتے ہیں۔ المان انھیں Syn-Semanzic یا Eccessory کہتا ہے۔ سیاق کے اعتبار سے بعض اوقات ایک موقعے پر جو لفظ خاص ہے دوسرے موقعے پر قواعدی ہوجاتا ہے، مثلاً        ؎

خاص لفظ

قواعدی لفظ

وہ یہاں رہتا ہے

وہ مجھے ستاتا رہتا ہے

یہاں سے جاؤ

کھاتے جاؤ

اس نے مجھے ایک روپیہ دیا

وہ مار پڑتے ہی بول دیا

زبان کے لغاتی لفظوں کا ذخیرہ بنا بنایا موجود ہے لیکن قواعدی لفظ بنتے رہتے ہیں۔ لفظ آفرینی کا تعلق قواعدی الفاظ سے ہے۔

لفظ اگر مجرد ہو تو محض ایک تصور پارہ ہے لیکن کلام میں استعمال ہوکر اس کے مخصوص سیاقی معنی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح لفظ کے معنی کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں (1) لغاتی (Lexical) معنی اور (2) قواعدی معنی۔ لغاتی معنی مجرد مفہوم ہوتے ہیں لیکن قواعدی معنی سیاق کے اعتبار سے ہوتے ہیں اور ان میں حسب استعمال کچھ نہ کچھ دلالت (Denotation) شامل ہوجاتی ہے۔ لغت نگار کو یہ قواعدی معنی پریشاں کرتے ہیں۔ ان پر آگے چل کر مزید اظہارِ خیال کیا جائے گا۔

انسائیکلوپیڈیا امریکنا کے مطابق لغت نگاری (Coinotation) سائنس نہیں کیونکہ اس میں معنی کے بہت سے فیصلے موضوعی (Lexicography) ہوتے ہیں یعنی انفرادی شعور کے مطابق درج کیے جاتے ہیں۔ ایک حد تک تلفظ تک موضوعی ہوتا ہے۔ روسی لغت نگار شیربا کا دعویٰ ہے کہ لغت نگاری تدوین نہیں تخلیق ہے لیکن ماہرین لغت کا یہ دعویٰ بلند بانگ معلوم ہوتا ہے۔

لغت نگاری کی پہلی منزل خزینۂ الفاظ کو جمع کرتا ہے۔ اگر کسی زبان کی پہلی بار لغت بنائی جارہی ہے تو اس کے لیے اہل زبان سے سن سن کر لفظ جمع کرنے ہوں گے۔ جائزے اور مشاہدے سے تمام الفاظ جمع کرنا تقریباً ناممکن سا ہے۔ اگر اس زبان میں کوئی تحریری ادب ملتا ہے تو اس ادب کی لفظیات کو لیا جائے گا۔ اگر کسی ایسی زبان کی لغت بنائی جارہی ہے جس میں پہلے سے لغت موجود ہیں تو اس کے لفظ تین سرچشموں سے جمع کرنے ہوں گے۔

(۱)      پہلے سے موجود لغت کی کتابیں (ب) ادب کو چھان پھٹک کر (ج) اہل زبان کی تقریر سے سن کر۔

جامع لغت تیار کرنے کے لیے ادبیات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اردو میں اس قسم کی کوشش ترقی اردو بورڈ پاکستان کی اردو لغت ہے۔

الفاظ کو جمع کرکے ان کے کارڈ بنائے جاتے ہیں اور انھیں فائل میں ترتیب دیا جاتا ہے۔ مغرب میں فیتوں (Tape) پر بھی فائل تیار کیے جاتے ہیں او ران کی ترتیب میں کمپیوٹر سے مدد لی جاتی ہے۔ لفظ کی تعیین میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:

(1)     بعض اوقات یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون سا روپ تہہ نشیں ہے اور کون سا اس سے مشتق مثلاً Life اور Line میں کون سا بنیادی ہے اور کون سا مستخرج۔

(2)     مشتق اور مستخرج روپوں میں یہ مشکل سامنے آتی ہے کہ کسے آزاد لفظ کی حیثیت سے دیا جائے اور کسے تہہ شین لفظ کے تحت رکھا جائے۔ روسی ماہر لغت شیربا نے مثال کے طو رپر لکھا ہے کہ روسی لغات Truba (شہنا) اور Trubal (شہنانواز) کو دو لغات قرار دیا جائے کیونکہ ایک بے جان شے کو ظاہر کرتا ہے، دوسرا شخص کو لیکن شہنا کی تصغیر کے لفظ Trubocka کو Truba ہی کے ذیل میں دینا چاہیے۔ اس کی تقلید میں دلی کے آر این شری واستو نے ہندی کے ذیل کے جوڑوں کو علیحدہ لغات کے طور پر درج کرنے کی سفارش کی۔

چام، چمار لوہا، لہار   سونا، سنار

لیکن ذیل کے جوڑوں کے دونوں ارکان کو ایک لفظ کے تحت ہی رکھا۔

آم، امیا (امری)۔ کھاٹ، کھٹیا۔ پل، پلیا

شیربا یا شری واستو کے اس بیان سے صرف ان دو روپوں کے بارے میں رہبری ہوتی ہے۔ کوئی عام اصول سامنے نہیں آتا۔ اردو کی مثال لیجیے کار سے کارواں، کارساز— کارروائی، کارستانی، کارکردگی، کاروبار، کارکن، کارندہ، بے کار، خودکار، ناکارہ، ہرکارہ، وغیرہ مستخرج ہیں۔ ان کے مفہوم میں کافی اختلافات ہیں۔ ان میں سے کن کو کار کے تحت درج کیا جائے اور کن کو علیحدہ لغت کے طور پر۔ ظاہر ہے کہ لغت نگار کا موضوعی فیصلہ ہی رہبری کرے گا۔ کوئی ایسا اصول نہیں بنایا جاسکتا جس کا ہر موقع پر یکسانی سے اطلاق کیا جاسکے۔

اردو لغات میں اس معاملے میں بہت لاپروائی برتی گئی ہے۔ دوسری لغات کو تو چھوڑیے ترقی اردو بورڈ پاکستان کی لغت میں ذیل کے تمام الفاظ کو علیحدہ علیحدہ درج کیا گیا ہے۔

اختصاص: اختصاصی

اختلاج: اختلاجی

اختیار: اختیارات، اختیاری

اخروٹ: اخروٹی

ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا ہر سطر کے تمام الفاظ کو ایک ہی لغت کے ذیل میں دینا چاہیے تھا۔

(3)     محاوروں کو کس طرح درج کیا جائے۔ میرے سامنے فیروز اللغات ہے اس میں آنکھ کے علاوہ آنکھ کے متعدد محاورے الگ الگ لغت کی پیش سے دیے گئے ہیں۔ محاوروں کے بارے میں یہ اصول ہونا چاہیے کہ محاورہ مرکزی لفظ کے تحت دیا جائے۔

(4)     کثیر معنوی لفظ کو ایک لغت کے طور پر نہ دے کر اسے ہر آزاد معنی کے لحاظ سے علیحدہ لغت قرار دیا جائے مثلاً ’بار‘ بمعنی بوجھ، با ربمعنی باریابی یا دخل اور بار بمعنی دفعہ یا مرتبہ کو تین علیحدہ لغات شمار کرنا چاہیے۔ بعض اوقات یہ طے کرنا دشوار ہوتا ہے کہ ایک لفظ کے دو معنی آزاد مفاہیم ہیں یا ایک دوسرے سے نکلے ہیں، مثلاً عرق بمعنی پسینہ اور عرق بمعنی کسی شے کا نچوڑ۔ آب بہ معنی پانی اور آب معنی چمک۔ سوز بہ معنی جلن اور سوز بہ معنی دادِ حل مثلاً سوز و گداز ہیں۔ ان تمام موقعوں پر لغت نگار اپنی لسانی حس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

(5)     علمی اصطلاحات کو کس حد تک زبان کے ذخیرے کا جزو مانیں۔ کیا انگریزی لغت میں سائنس، طب، انجینئرنگ وغیرہ کی اصطلاحات کو لیں اور اگر لیں تو کس حد تک لیں اور کہاں رک جائیں۔  حکومتِ ہند کے سائنسی اصطلاحات کمیشن نے ہندی کی کئی لاکھ اصطلاحیں وضع کردی ہیں۔ ترقی اردو بیورو اردو کے سلسلے میں یہی کام کررہا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں بھی اردو کی ہزاروں اصطلاحیں بنائی گئی تھیں۔ وہ عربی فارسی سے بجنسٖہ نہیں لی گئی تھیں بلکہ اردو میں وضع کی گئی تھیں۔ ہم انھیں اردو لغت میں  جگہ نہیں دیتے بلکہ وہ لفظ ہیں اور ہر لفظ کسی نہ کسی زبان کا ہوتا ہے۔

بہتر یہ ہے کہ اصطلاحات کو مخصوص علموں کی اصطلاحاتی لغت میں درج کیا جائے۔ عام لغت میں کون سی اصطلاحیں لی جائیں اس پر لغت کی قسموں کے سلسلے میں غور کیا جائے گا۔

(6)     متعدد الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو کسی زبان کے علاقے میں بولے جاتے ہیں لیکن تحریر میں استعمال نہیں کیے جاتے۔ ہر معیاری زبان کی ذیلی بولیاں یا معیار زبان کا تقریری روپ ایسے الفاظ فراہم کرسکتا ہے۔ بعض مصنف مثلاً میرامن، نظیراکبرآبادی، جوش ملیح آبادی ایسے تقریری الفاظ تحریر میں استعمال کرجاتے ہیں۔ کھڑی بولی کا علاقہ دلی اور مغربی یوپی کا ہے۔ وہاں کی بول چال کے ذیل کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’سنگوانا (کسی چیز کو محفوظ کرنا یا ہتھیالینا)، کھرسا (خشک گرمی کا موسم)، بلد (بیل)، جھوٹا (بھینسا)، کٹیا (بھینس کی بچی)، دھورے (پاس)، دھی (لڑکی)، دھیوتا (نواسہ)، دوہر (دوہری چادر)، بدھیا (بیل)، گیرنا (ڈالنا)، پلکیا (پلنگیا)، بال بانا (بالوں میں کنگھا کرنا)، بڑنا (داخل ہونا)

ان میں سے کن کو معیاری زبان کی لغت میں جگہ دی جائے اور کن کو نہیں۔ اتفاق سے ان میں سے ’سنگوانا‘، مصحفی نے ’بدھیا‘ نظیر سے ’کھرسا‘ حالی نے اور ’دوہر‘ اکبرالہ آبادی نے استعمال کیے ہیں ان کے استعمال کے بعد اردو لغت میں انھیں کیونکر نظرانداز کیا جائے۔

(7)     ہر زبان میں دوسری زبانوں کے بہت سے الفاظ دخل پاجاتے ہیں، ان میں سے کس کس کو حصولی زبان کے ذخیرۂ الفاظ کا جزو مانا جائے۔ نیشن، لٹریچر، اسکول، کالج، یونیورسٹی، انجینئرنگ، ایکسپورٹ، امپورٹ جیسے الفاظ کو اردو میں شامل کریں کہ نہیں۔ اہل اردو ان لفظوں کو لغت میں شامل متعددعربی و فارسی الفاظ سے زیادہ بہتر طریقے پر بولتے اور سمجھتے ہیں کیا مستند ادیبوں کی تحریروں میں مستعمل تمام بیرونی لفظوں کو لغت میں جگہ دی جائے۔ اکبر الہ آبادی کا شعر دیکھیے    ؎

ان کے دست ناز سے پائی ہے ٹی

اب کہاں باقی ہے ہم میں پائٹی

ٹی (چائے) اور پائٹی (Piety) کو اردو نہیں مانا جاسکتا۔ لغت نویس کو طے کرنا چاہیے کہ کون سے بیرونی الفاظ زبان میں رچ بس گئے ہیں۔ انھیں متن لغت میں جگہ دینی چاہیے۔ ادب میں استعمال شدہ دوسرے بیرونی الفاظ کو آخر میں ضمیمہ میں درج کرنا چاہیے۔

(8)     اس سے بھی بڑی مشکل ماخذ زبانوں یا مادر زبان کے الفاظ کی صورت میں آتی ہے۔ اردو لغت میں عربی فارسی کے اور ہندی لغت میں سنسکرت کے کن  الفاظ کو لیں اور کسے نہ لیں۔ اردو یا ہندی کی لغتوں میں ان کلاسیکل زبانوں کے وہ اجنبی الفاظ دکھائی دیتے ہیں جنھیں دختر زبان میں تقریر تو درکنار کوئی تحریر میں بھی استعمال نہیں کرتا۔

ہندی شبد ساگر میں اردو کے بیشتر الفاظ کو شامل کرلیا گیا ہے۔ ان میں عربی کے ایسے ایسے الفاظ داخل ہیں جنھیں ہندی والا تو در کنار معمولی اردو والا بھی نہیں سمجھ سکتا۔

اصول یہ ہونا چاہیے کہ مادر یا ماخذ زبانوں کے جو الفاظ مشتق زبان کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں صرف انھیں کو لیا جائے بقیہ کو نہیں، مثلاً اردو لغت میں عربی فارسی کے صرف وہ الفاظ شامل کرنے چاہئیں جو اردو کتابوں یا دوسری تحریروں میں استعمال ہوئے ہیں۔

(9)     ذخیرۂ الفاظ مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ کچھ الفاظ استعمال سے جاتے رہتے ہیں اور کچھ نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ بولی لغت میں متروک الفاظ کو حذف کرنا ہوگا لیکن معیاری زبان کی لغت میں انھیں بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ادبیات میں متروک الفاظ باقی رہتے ہیں۔ زبان یا بولی میں روز روز نئے Slang الفاظ جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ اسی سرعت سے مرتے بھی ہیں۔ لغت نگار کو ان کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ لغت پر دو تین سال میں نظرثانی کرنی چاہیے اور ہردس سال بعد ازسر نو لکھنی چاہیے۔

ذخیرہ الفاظ کو جمع کرنے کے بعدیہ طے کرنا ہوتا ہے کہ الفاظ کو کس ترتیب سے درج کیا جائے۔ چونکہ لغت پڑھنے کی کتاب نہیں ہوتی بلکہ حوالے کی کتاب ہوتی ہے اس لیے اس کے اندراجات ایسے ہونے چاہئیں کہ ضرورت پڑنے پر مطلوبہ لفظ بآسانی مل سکے۔ حروف تہجی کی ترتیب سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ یہ ترتیب پہلے حروف ہی پر نہیں جملہ حروف پر نظر رکھتی ہے۔ اب تمام عام ڈکشنریاں اسی ترتیب سے مدون ہوتی ہیں لیکن ماضی میں طرح طرح کے طریقے رائج رہے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1        اردو فارسی کی منظوم لغات میں الفاظ بغیر کسی ترتیب کے درج کیے جاتے تھے ملاحظہ ہو۔ خالق باری اور ا س طرح کی دوسری لغات۔ ان میں کسی مخصوص لفظ کوتلاش کرنا  امر محال ہے۔

2        فارسی کی قدیم لغات میں لفظ کے پہلے اور آخری حرف کو پیش نظر رکھ کر لفظو ںکے گروہ ترتیب دیے جاتے تھے۔ یہ بھی کافی دقت طلب تھا۔

3        ہندوستانی زبانو ںکی بعض قدیم لغات میں صرف پہلے حرف کی ترتیب سے لفظوں کو لکھ دیا جاتا تھا۔ اس میں قباحت یہ تھی کہ اگر الف سے دو ہزار لفظ شروع ہوتے ہیں تو الف سے شروع ہونے والے کسی ایک لفظ کو کھوجنے کے لیے دو ہزار لفظوں کو کھنگالنا پڑتا تھا۔ بعد میں لفظ کے دوسرے حرف کو بھی پیش نظر رکھنے لگے اور آخر میں تمام حروف کو۔

4        صوت رکنوں کی تعداد کے مطابق بھی لفظوں کی گروہ بندی کی جاتی ہے۔ قدیم ہندوستانی نیز چینی زبانوں کی ایک صوت رکنی لغت ملتی ہیں۔ بعض زبانوں میں سب سے پہلے ایک صوت رکن کے الفاظ درج کیے گئے اس کے بعد دو ارکان والے پھر تین والے پھر علی الترتیب اور زیادہ ارکان والے۔

5        سروالی زبانوں میں سر کے لحاظ سے بھی الفاظ کا اندراج کیا جاتا ہے۔

6        بعض لغتوں میں مادہ اور مشتق کی رو سے گروہ بندی کی جاتی ہے یعنی ایک مادہ دے کر اس کے تمام مشتقات درج کردیے جاتے ہیں۔

7        بعض اوقات خیال و مفہوم کے اعتبار سے لفظوں کے گروہ قائم کیے جاتے ہیں۔ اس میں دشواری یہ ہے کہ کوئی بھی دو آدمی اتفاق نہیں کریں گے کہ کس قسم کے الفاظ کو مقدم اور کسے موخر لکھا جائے مثلاً پہلے فلسفیانہ لطیف الفاظ ہوں یا روزانہ کی ضرورت کے ہوں یا اعضائے جسم کے ہوں یا کچھ اور۔ سنسکرت کے امر کوش میں لفظوں کو معنوی زمروں کی بنا پر درج کیا گیا ہے۔

8        بعض اوقات قواعدی گروہوںکے لحاظ سے لفظوں کو تقسیم کیا جاتا ہے یعنی اسما ایک جگہ، صفات دوسری جگہ، افعال تیسری جگہ وغیرہ۔ عربی میں مادّے کی تصریفی شکل کے لحاظ سے بھی لفظوں کی گروہ بندی کی جاتی ہے، مثلاً باب اسفحال کے الفاظ ایک جگہ تو تفصیل کے دوسری جگہ۔ اس قسم کی کتابیں لغت اور قواعد دونوں کا امتزاج ہوتی ہیں۔

فی الحال تلاش کی آسانی کی خاطر لفظو ںکو حروفِ تہجی کی ترتیب سے درج کرنا ہی رواجِ عام ہوگیا ہے۔

ذخیرۂ الفاظ کی تعیین اور لفظوں کی ترتیب کے بعد تیسری منزل لفظ کے ہجا یا املا کی ہے۔ بیشتر لفظوں کا املا طے ہوتا ہے لیکن متعدد کا مختلف فیہ ہوتا ہے۔ اردو میں اس مسئلہ کی وسعت ترقی اردو بورڈ کی کتاب املا نامہ یا رشید حسن خاں کی کتاب اردو املا سے واضح ہوگی۔ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں لفظوں کا املا بدلتا رہتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں کئی لفظوں کا املا مختلف ہے۔

 

مآخذ: عام لسانیات، مصنف: گیان چند جین، دوسرا ایڈیشن: 2003، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

لوک گیتوں کی زبان، اترپردیش کے لوک گیت، مصنف: اظہر علی فاروقی

  اردو دنیا، مارچ 2025 لوک گیت زیادہ تر مقامی بولی میں پائے جاتے ہیں اور ایک پردیش میں کئی کئی بولیاں علاقائی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا...