14/2/25

طلبا کی تعلیم پر گھر اور اسکول کے ماحول کا اثر، مضمون نگار: شفاعت احمد

 اردو دنیا، جنوری 2025



پروفیسر فنڈلے نے اپنی کتاب The School  میں تعلیم کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ’’تعلیم ان تدابیر اور وسائل کے مجموعے کا نام ہے،جو نوعمروں کو تمدنی زندگی کا اہل بنانے کے لیے بالارادہ کام میں لائے جاتے ہیں اور جن کے ذریعے ان کے دماغوں کو بعض خاص اثرات اور مقاصد سے متاثر کیا جاتا ہے‘‘۔

(بحوالہ اصول تعلیم،خواجہ غلام السیدین،ص42،مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان2023)

اس تعریف سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں معاشرے کے بالغ اور سمجھ دار افراد اور جماعتوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور انھیں اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تبھی طلبا اپنے تعلیمی مقاصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔وہ لوگ اور جماعتیں جو طلبا کی تعلیمی و تربیتی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں،انھیں مجموعی طورپر دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلا تو والدین اور بچوں کے سرپرستوں کا زمرہ ہے اور دوسرا اسکول،  درس گاہ اور اساتذہ کا زمرہ ہے۔یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت اسی وقت کماحقہ انجام پا سکتی ہے جب یہ دونوں زمرے سرگرمی کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں گے۔

یہ تو واضح حقیقت ہے کہ بچے کے سیکھنے کا عمل اصلاً اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے اور افرادِ خاندان کے طرزِ معاشرت کا جو اثر بچے پر شروعاتی زندگی میں پڑتا ہے، وہی آگے چل کر اس کی پختہ عادتوں اور اخلاقیات کا حصہ بن جاتا ہے۔پہلے ماں کی گود میں اور پھر دوسرے گھر والوں کے ذریعے ایک بچہ ابتدائی حرکات و مشاغل سیکھتا ہے اور ساتھ ہی اخلاقی اور معاشرتی تربیت بھی زیادہ تر گھر میں ہی عمل میں آتی ہے۔یہیں وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ کس طرح گھر میں رہنے والے بہت سے لوگ مشترکہ مقاصد کی تکمیل کے لیے محنت اور کوشش کرتے ہیں اور جب تک ہر فردِ خانہ اس حوالے سے اپنے حصے کا کام نہ کرے گھر کا نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔اس ماحول میں اگر ایسی چیزیں موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھاکرایک بچہ یا طالب علم اپنی آنے والی زندگی کی بہتر منصوبہ بندی اور اپنی شخصیت کی تشکیل کرسکتا ہے تو یقینا یہ چیزیں اس کے حق میں خوشگوار کہلائیں گی، لیکن اس کے برعکس اگر اس کی خاندانی روایت میں  تنگ نظری پائی جاتی ہو،گھر کے بڑے بزرگوں کے سامنے  بچوں کی تربیت کے حوالے سے کوئی اخلاقی اصول نہ ہو اور وہ ہمیشہ بچے کو دبانے اور بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہوں،تو اس ماحول میں جو بچہ پرورش پاتا ہے اس کی شخصیت میں مضبوطی،خود اعتمادی نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنی آنے والی زندگی میں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہوگا اور چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے سے پہلے بھی اسے ہزار دفعہ سوچنا پڑے گا کہ اسے کرے یا نہ کرے۔اس کی شخصیت کا اخلاقی پہلو بھی کمزور ہوگا اور وہ معاشرے کے لیے کوئی قابل ذکر عمل انجام نہیں دے سکتا۔یہ نکتہ قابل غور ہے کہ  بنیادی طور پر طلبا  کی تعلیم و تربیت  میں گھریلو ماحول دو طرح  سے اثر انداز ہوتا ہے۔ایک تو والدین کے باہمی تعلقات اور ان کے عملی مظاہرے بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں دوسراگھر کا معاشی یا اقتصادی ماحول۔ اگر والدین  کے باہمی تعلقات اچھے ہیں اور وہ اپنے چھوٹے بڑے مسئلوں کو باہمی افہام و تفہیم اور خوشگوار طریقے سے حل کر لیتے ہیں،اسی طرح وہ ایک دوسرے کی ضرورت کے ساتھ ہی ایک دوسرے کی طبیعت اور مزاج کو سمجھتے اور اسی کے مطابق ایک دوسرے سے برتاؤ کرتے ہیں ،تو اس ماحول میں جو بچہ تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے وہ نتیجہ خیز اور خوشگوار ہوتا ہے،کیونکہ ایک تو والدین کے باہمی برتاؤ اور رویے کا اس پر اچھا اثر مرتب ہوتا ہے، دوسرے جب والدین یا ان  میں سے کوئی ایک بچے کو کچھ سکھانا چاہے گا تو وہ پوری آمادگی اور خوشی کے ساتھ سیکھنا چاہے گا۔ اس کے برعکس اگر والدین کے باہمی  تعلقات اچھے نہیں ہیں ،وہ  بچوں کے سامنے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں،انھیں اپنے مسائل کو بحسن و خوبی حل کرنے کی تدبیر نہیں آتی اور قدم قدم پر انھیں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے، تو ایسے ماحول میں بچے کی تعلیم و تربیت یقینا ناقص ہوگی اور اگر وہ انھیں نہایت سنجیدگی کے ساتھ کچھ سکھانا چاہیں گے تب بھی جو گھر کا ماحول ہے، وہ اس کی راہ میں حائل ہوجائے گا اور اس کی تعلیم و تربیت میں کمی رہ جائے گی۔ کمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا بچہ تعلیم ہی حاصل نہیں کر سکتا، ہوسکتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرلے، بڑی ڈگریاں حاصل کرلے اور معاشی آسودگی کے وسائل بھی اسے حاصل ہوجائیں، مگر تعلیم کا جو مقصد  ہے یعنی فرد کواچھی  اور مفید تمدنی زندگی کا اہل بنانا، وہ نہیں ہوپائے گا اور وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں  حاصل کرنے اور بہت زیادہ مال و اسباب کمانے کے باوجود معاشرے کے لیے یا خود اپنے گھر اور خاندان کے لیے ایک مفید اور مؤثر عامل نہیں بن سکتا،اس لیے کہ تعلیم و تربیت کی بالکل ابتدا میں اس کی شخصیت میں جو نقص رہ گیا تھا وہ اس کی عمر کے ساتھ بڑھتا ہی جائے گا ،کبھی دور نہیں ہوسکے گا۔

(مفتاح الدین ظفر،تعلیمی نفسیات،ص 190،مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند1943)

گھر کے ماحول کا دوسرا پہلو معاشی حالات سے وابستہ ہے۔انسان کے معاشی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اگر کوئی شخص روزگار سے وابستہ ہے تب بھی مہنگائی،گھر میں کسی کے بیمار پڑنے یا کسی اور وجہ سے بعض دفعہ اس کی معاشی حالت خراب ہوجاتی ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں تو زیادہ تر گھرانے نچلی معاشی سطح پر زندگی گزارتے ہیں اور ایسے والدین کے لیے  نہ صرف بچوں کی  کھیلنے اور کھانے کی خواہشات پورا کرنامشکل ہوتا ہے ،بلکہ اس کی تعلیمی  سرگرمیوں میں خرچ ہونے والی رقم جٹاپانا بھی بعض دفعہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس وقت انھیں  مزید پریشانی اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہاں سے بچے بہترین تعلیم حاصل کے نکلیں گے۔اس سلسلے میں والدین کو چاہیے کہ وہ  اپنی مالی حیثیت و استطاعت کے مطابق ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ اگر ان کی معاشی حالت اچھی ہے اور وہ بہت مہنگے اسکول میں اپنے بچے کو پڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں، لیکن اگر ان کا تعلق متوسط سماجی طبقے سے ہے یا نچلے سماجی طبقے سے ہے تو انھیں پہلے اپنی گھریلو معاشی حالت کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے مطابق ہی بچے کے لیے تعلیمی ادارے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کوئی  ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے ان کی  معاشی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو۔نیز بچے کے لیے تعلیمی ادارے کا انتخاب کرتے ہوئے وہاں کے تعلیمی معیار کو دیکھنا چاہیے، اونچی اونچی عمارتوں اور مہنگی فیس والے اسکولوں میں کوئی ضروری نہیں کہ تعلیم بھی اچھی ہوتی ہو۔اسی طرح اچھے تعلیمی نتائج کے لیے بچے کے اندر شوق و لگن اور دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

دوسری اہم جگہ جس کے ماحول کا بچوں پر اثر پڑتا ہے وہ اسکول ہے۔اسکول صرف ایسی جگہ نہیں ہے جہاں متعینہ نصاب یا تعلیم کے مختلف مراحل میں کچھ طے شدہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، بلکہ بقول پروفیسر ہاورتھ(Howerth)یہ خود ایک چھوٹی سی دنیا ہے اور اس میں وہ تمام مشاغل اور عمدہ اثرات مہیا کیے جانے چاہئیں جن کی تمدنی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔ (اصول تعلیم،ص 34) البتہ باہر کی دنیا اور اسکول کی دنیا میں ایک بنیادی فرق ہے۔وہ یہ کہ ہم باہر کی دنیا میں مختلف قسم کے اثرات کے درمیان کما حقہ فرق نہیں کر سکتے۔اس میں بری اور بھلی،نیک اور بد ہر قسم کی نشوو نما کے اثرات و عوامل موجود ہوتے ہیں۔ایسے میں ایک نوعمر اور بچے کے لیے بغیر کسی امداد اور رہنمائی کے فائدہ اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔اسی وجہ سے تعلیمی اداروں کے قیام کا تصور معاشرے میں فروغ پاتا ہے تاکہ بچوں کی شخصیتیں ایسے ماحول میں نشوونما حاصل کریں،جہاں برے اثرات نہ پائے جائیں، ایسے عوامل نہ پائے جائیں جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس لیے اسکول کوانسانی تمدنی ماحول سے ایسے اجزا و عناصر کا انتخاب کرنا چاہیے جو بچوں کی تربیت کے لیے خاص طورپر اہمیت کے حامل ہوں اور ان کی زندگیوں سے ہم آہنگ ہوں۔پھر ان اجزا و عناصر کو اس طرح مرتب انداز میں پیش کرنا چاہیے کہ بچہ اپنے شوق و دلچسپی سے نئی نئی چیزیں سیکھے ،نئی نئی معلومات حاصل کرے اور رفتہ رفتہ انسانی مشاغل کو سمجھ بوجھ کر برتنے کے قابل ہوجائے۔ نصاب کی تدوین اور اسکول کی تمام سرگرمیوں کی تشکیل میں اسکول انتظامیہ اور معلمین کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ تمدنی زندگی کے اہم عناصر کو سادہ اور دلچسپ انداز میں اسکولی زندگی کا حصہ بنائیں اور انھیں اس طرح مرتب کریں کہ جوں جوں طالب علموں کی عمر اور تجربات میں ترقی ہو،وہ زندگی کے مشکل اور پیچیدہ مسائل و مشاغل کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتے جائیں۔ان سرگرمیوں کو اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ انھیں کرتے ہوئے بچے پوری دلچسپی لیں اور ان کے کرنے سے انھیں مسرت حاصل ہو۔

اسکول کے ماحول کو ایسی چیزوں اور سرگرمیوں  سے پاک ہونا چاہیے جو طلبا کی ماغی نشوو نما اور ان کے سماجی عادات و اطوار پر برے اثرات مرتب کرنے والے ہوں۔اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کا یہ فرض ہے کہ وہ تمدنی ورثے میں سے ان چیزوں کو اسکولی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں جو نئی نسل کی تربیت اور آئندہ معاشرے کی ترقی میں معاون ثابت ہوں۔ہمارے دور میں یہ انتخاب خصوصاً ضروری ہوگیا ہے،کیونکہ ہر شعبۂ زندگی میں ایسی ہوش ربا ترقی اور تبدیلی واقع ہورہی ہے اور علوم و فنون کے شعبوں میں اتنا پھیلاؤ پیدا ہورہا ہے کہ اب کوئی انسان تمام علوم کو حاصل نہیں کر سکتا،اس لیے طلبا کی دلچسپی اور ان کے ذوق و شوق کے مناسب مضامین کا انتخاب اور اسی طرح زمانے کی تبدیلیوں اور تقاضائے عصر کے مطابق وقتاً فوقتاً نصابِ تعلیم کی جانچ پڑتال کرتے رہنا ضروری ہے۔کیوں کہ اس برق رفتار عہد میں اگر نصابِ تعلیم کو کسی طے شدہ ڈگر پر چلایا جائے اور اس  کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر نہ کیا  جائے تو نصابِ تعلیم میں بہت سی رطب و یابس چیزیں جمع ہوجائیں گی،جن کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے۔

اسکول کے ماحول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں تمدنی ماحول کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی اور توازن پیدا کیا جائے۔ (پروفیرس ڈیوئی، Democracy and Education، ص 24) اکثر بچے کے گھر اور پڑوس کا ماحول بہت محدود ہوتا ہے اور اس میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ اس کی مجموعی تربیت کرسکے۔ مثال کے طورپر اگر ایک بچہ کسی مزدور کے گھر پیدا ہوتا ہے تو اس کا گھر اور آس پاس کا ماحول اسے مزدوری کی ہی ترغیب دیتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی بچہ کسی ایسے گھر میں آنکھیں کھولتا ہے جو جاگیر دار یا زمیندار ہے اور جو ہے تو مالدار مگر اس کے افراد کسی  صنعت و حرفت سے وابستہ نہیں ہیں، تو وہ بچہ صنعت و محنت کے سارے سسٹم سے ناواقف رہتا ہے، اسے گھر سے نکلے بغیر یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے لوگ کیا کیا کرتے ہیں۔یہی حال دوسرے کسی خاص پس منظر والے خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کا ہوگا۔یعنی وہ جس ماحول میں پیدا ہوگا،اس کے ذہن میں اسی سے متعلق خیال یا عمل کی تحریک پیدا ہوگی،اس سے الگ وہ نہیں سوچ سکتا ہے۔البتہ اسکول ایسی جگہ ہے،جس کا ماحول ایسا منظم اور متنوع ہوتا ہے جس میں ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے کی مناسب نشوو نما کا انتظام ہوتا ہے اور اس بات کا التزام ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ طلبا مختلف قسم کی دماغی و جسمانی سرگرمیوں میں شریک ہوسکیں اور ہمہ جہت تربیت حاصل کرسکیں۔اس لیے اسکول کا ماحول اس حوالے سے آزادانہ ہونا چاہیے، جہاں طلبا اپنی تعلیم کے زمانے میں بغیر کسی پابندی اور روک ٹوک کے مختلف قسم کے تجربے کرسکیں اور زندگی کی مختلف راہوں سے آگاہ ہوسکیں۔

اسی طرح اسکول کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ ہر طالب علم کی طبیعت میں ان تمام اثرات کو ہمہ جہت انداز میں منظم کرے جو مختلف معاشرتی اداروں میں شرکت کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر گھریلو زندگی میں الگ ضابطۂ اخلاق نافذ ہوتا ہے اور فطری طورپر ہر بڑا چھوٹا اسی پر عمل کرتا ہے،جبکہ گھر کے باہر گلی اور بازار وغیرہ میں انسان کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے،دکانوں اور کارخانوں میں الگ انداز سے سوچا اور عمل کیا جاتا ہے اور مذہبی معاملات میں مختلف اپروچ اختیار کیا جاتا ہے۔اس طرح ایک ہی شخص جب ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں جاتا ہے تو اس کی طبیعت پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس لیے  اسکول کا فرض ہے کہ وہ بچے کی طبیعت میں استقلال اور وحدت تاثر کا رنگ پیدا کرے۔ اگر اسکول میں تربیت کا نظام اچھا ہے تو اس کی وجہ سے بچے کی زندگی میں ایسے اصول و قوانین جاگزیں ہوجائیں گے جو  آئندہ زندگی میں اسے راہِ راست پر چلائیں گے اور اس وقت اس کی صحیح رہنمائی کریں گے جب بیرونی ماحول کا تنوع اور مختلف قسم کی ترغیبات انسان کو عمل اور ردعمل کی مختلف سمتوں میں کھینچتی ہیں اور انسانی عقل حیرانی و آشفتہ سری سے دوچار ہوجاتی ہے۔

اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بچوں کی تعلیمی و تربیتی زندگی میں اسکول اور گھردونوں کے ماحول کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے ،چنانچہ جہاں والدین اور دوسرے سرپرستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں نہایت فعال اور مفید کردار ادا کریں، وہیں اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ طلبا کو محض نصاب رٹانے کے بجائے ان تمام عناصر پر توجہ دیں، جن پرطلبا کی علمی،سماجی و تمدنی زندگی کی بنیاد ہے اور جن سے تعلیم کی تکمیل کے بعد انھیں قدم قدم پر واسطہ پڑنے والا ہے۔

حوالہ جات

.1       Findlay, J.J. (1923): The School: An Introduction to the Study of Education. FB & c Ltd, Dalton House, 60 Windsor Avenue, London.

.2       Schopler, J. Weisz, J. King Morgan C. (1993), Introduction to Psychology Y. New Delhi: Prentice Hill of India Pvt. Ltd.

.3       پروفیسر محمد شریف خاں (2004) جدید تعلیمی نفسیات، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ

.4       ملک محمد موسیٰ شاذیہ رشید (2008) تعلیمی نفسیات اور رہنمائی، جوران پبلی کیشنز لاہور۔

.5       طلعت عزیز(2013)، تعلیمی نفسیات ،مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی۔

 

Dr. Shafayat Ahmad

Associate Professor

Maulana Azad National Urdu University

School of Education & Training

College of Teacher Education

Barbhanga- 846002 (Bihar)

Mob.: 7091490018

shafayatahmad@manuu.edu.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

لوک گیتوں کی زبان، اترپردیش کے لوک گیت، مصنف: اظہر علی فاروقی

  اردو دنیا، مارچ 2025 لوک گیت زیادہ تر مقامی بولی میں پائے جاتے ہیں اور ایک پردیش میں کئی کئی بولیاں علاقائی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا...