اردو دنیا، جنوری 2025
سبرامنیم بھارتی، ایک تامل مصنف، شاعر، صحافی، آپ بیتی نگار، ہندوستانی مجاہد جنگِ آزادی، سماجی مصلح اور کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ ان کو ’مہاکوی بھارتی‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ وہ جدید تامل شاعری کے علمبردار تھے اور انھیں تامل ادب کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ زبانیں انگریزی، فرانسیسی، سنسکرت، تیلگو اور بطور خاص تمل رہی ہے۔ تمل ادب پر بھارتی کا اثر غیر معمولی ہے، کیونکہ انھوں نے سیاسی، سماجی اور روحانی موضوعات پر بھرپور انداز میں اپنی خدمات کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے خواتین کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کی حمایت کی۔ انھوں نے بیواؤں کی دوبارہ شادی کی حمایت کی اور کم عمری کی شادی کی مخالفت کی۔سبرامنیم بھارتی 11 دسمبر 1882 کو ایٹیاپورم، ترونلویلی
ضلع، تامل ناڈو برطانوی ہند (موجودہ توتوکڈی ضلع، تامل ناڈو، بھارت) تامل ناڈو میں
پیدا ہوئے۔ ان کے والد چناسامی ایر اور والدہ لکشمی امل تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم
تامل اور انگریزی زبانوں میں ہوئی۔ سبرامنیم بھارتی کی ماں لکشمی امل کا انتقال
1887 میں ہوا جب وہ پانچ سال کے تھے۔ اس طرح، ان کی پرورش ان کے والد اور دادی
بھاگیرتھی امل نے کی۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ انگریزی اور ریاضی سیکھیں اور
انجینئر بنیں۔ گیارہ سال کی عمر میںجب وہ اسکول میں تھے، انھوں نے شاعری کے لیے
اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے وہ ’بھارتی‘ (علم کی دیوی
سرسوتی کی برکت) کے نام سے مشہور ہونے لگے۔ انھوں نے 1897 میں پندرہ سال کی عمر میں
چیلمل نامی خاتون سے شادی کی۔ 1898 میں ان
کے والد کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اتیا پورم کے راجا کو اس کی اطلاع دی اور ان
سے مالی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی۔ اتیا پورم میں کچھ وقت کام کرنے کے بعد،
بھارتی نے نوکری چھوڑ دی اور کاشی چلے گئے۔ وہ تقریبا چار سال تک بنارس کی ایک
خانقاہ میں رہے۔ وہاں قیام کے دوران بھارتی کو روحانیت اور قوم پرستی کے بارے میں
پتہ چلا۔ انھوں نے سنسکرت، ہندی اور انگریزی سیکھی۔ انھوں نے بال بڑھانا اور پگڑی
پہننا شروع کر دیا۔بھارتی 1901 میں بنارس سے واپس آئے اور اتیا پورم پیلس میں
شاعر کے طور پر کام کیا۔ اسی سال، ان کے گانے ویویکا بانو میں شائع ہوئے۔ بعد میں
انھوں نے سودیسا میتھیرن میگزین میں ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے شمولیت اختیار
کی۔ دسمبر 1905 میں بنارس میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس سے واپسی پر، ان کی
ملاقات سوامی وویکانند کی روحانی جانشین سسٹر نویدیتا سے ہوئی۔ انھوں نے سبرامنیم
بھارتی کو خواتین کی آزادی اور خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے کی ترغیب دی۔ عورتوں کی
آزادی نے بھارتی کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔ بھارتی نے نویدیتا کو شکتی کا مظہر
سمجھا اور اسے اپنا گرو تسلیم کیا۔ بعد میں انھوں نے دادا بھائی نوروزی کے تحت انڈین
نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں شرکت کی، جس نے ہندوستانی آزادی کے لیے لڑنے
اور برطانوی سامان کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔
سبرامنیم بھارتی کی ادبی زندگی کی شروعات شاعری سے ہوئی۔
انھوں نے تامل زبان میں شاعری کی اور اپنے کاموں میں تحریکِ جنگِ آزادی اور سماجی
انصاف کی وکالت کی۔ انھوں نے کئی کتابیں اور گیت لکھے ہیں جن میں پنچالی سپاتھم،
کنن پاٹو، کوئل پاٹو، پاپا پاٹو، پتنجلی یوگا سوترا (تمل ترجمہ)، بھگوت گیتا (تمل
ترجمہ)، چناسیرو کلیئے، ونیاکر ننمنی ملائی، ودوتھلائی گانے اور پوتھیا اتھیسوڈی
شامل ہیں۔ ان کے مشہور کاموں میں پنچالی سبتھم، کوئل تھوگائی اور ’واکام‘ شامل ہیں۔پنچالی
سبتھم ایک شاہ کار ہے، جس میں ہندوستانی آزادی کی جدوجہد کو بھارت جنگ اور پنچالی
کو بھارت ماتا کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ یہ ویاس کے مہابھارت کا ترجمہ ہے۔ اس میں
ادبی اور شاعرانہ خوبصورتی موجود ہے۔ ان کے مشہور کاموں میں کوئل پاٹو، پاپا پاٹو،
چناسیرو کلیئے، پوتھیا آتھیچوڈی، ونیاکر ننمنی مالائی اور کنن پاٹو شامل ہیں۔ انھوں نے پتنجلی کے یوگا سوترا اور بھگوت گیتا
کا تمل زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ سبرامنیم بھارتی کی کتاب پوتھیا اتھیسوڈی ایک تامل
قانون کی کتاب ہے۔ یہ 20 ویں صدی میں سبرامنیم بھارتی نے اوویار کی کتاب آتھیچوڈی
کی طرح خوبصورت پیرائے میں لکھا تھا۔ اس کی ساخت اتھی چوڈی سے ملتی جلتی ہے۔ مجموعی
طور پر اس میں 111 ہدایات ہیں۔ یہ مختصر جملے یاد کرنے میں آسان ہیں۔ انھوں نے
سودے سمیرن، دی ہندو، بالابھارتا، وجے، چکرورتی اور انڈیا سمیت کئی رسالوں اور
اخبارات کے لیے لکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے قومی ترانے، آزادی کے گیت،
بھجن، حکمت کے گیت اور کہانیاں لکھیں۔
سبرامنیم بھارتی نے تحریک جنگِ آزادی میں بھی حصہ لیا۔
انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف لڑائی لڑی۔ جب 1908 میں برطانوی حکومت نے سبرامنیم
بھارتی کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تو بھارتی پانڈیچیری چلے گئے، جو اس وقت ایک
فرانسیسی علاقہ تھا۔ اور وہ 1918 تک تقریبا دس سال تک رہے۔ پانڈیچیری جلاوطنی کے
دوران وہ اروند اور لاجپت رائے جیسے آزادی کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں رہے۔
بھارتی نے پانڈیچیری کے تامل نوجوانوں کو قوم پرستی کی طرف رہنمائی کی، جس سے
برطانوی حکومت کی ناراضگی میں اضافہ ہوا۔ نومبر 1918 میں برطانوی ہندوستان میں
دوبارہ داخل ہونے کے بعد قید کیا گیا۔ انھوں نے جیل میں آزادی اور قوم پرستی پر
لکھنا جاری رکھا۔
سبرامنیم بھارتی نے ایک صحافی کے طور پر اپنے صحافتی کیریئر
کا آغاز نومبر 1904 میں ’سودے سمیرن‘ سے کیا۔ انھوں نے مئی 1906 میں ’انڈیا‘ کا
آغاز کیا اور انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ تامل صحافت کی قیادت کی۔ اپنے موقف کے
اظہار کے لیے ’انڈیا‘ کو سرخ کاغذ پر چھاپا گیا اور اس میں پہلا تامل سیاسی کارٹون
پیش کیا گیا۔اپریل 1907 تک انھوں نے تامل ہفتہ وار ہندوستان اور انگریزی اخبار
بالا بھارتم میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ یہ رسالے اس دور میں بھارتی کی
تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ تھے۔ بھارتی اپنے ایڈیشنز میں اپنی نظمیں شائع
کرتے رہے۔ ان کے گیتوں میں قوم پرستی سے لے کر خدا اور انسان کے درمیان تعلق کے
بارے میں خیالات کا مختلف موضوعات و پیرائے میں احاطہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے روسی
انقلاب اور فرانسیسی انقلاب پر بھی لکھا۔1908 میں انگریزوں نے چدمبرنار کو گرفتار
کر لیا۔ بعد میں بھارتی کے روزنامہ ’انڈیا‘ کے مالک کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
سبرامنیم بھارتی کو بھی گرفتار کیے جانے کا امکان تھا بلکہ وارنٹ بھی جاری کیا گیا
تھا، اس لیے وہ پانڈیچیری چلے گئے جہاں انھوں نے تمل روزنامہ انڈیا اور وجے، ایک
انگریزی ماہنامہ، بالابھارتھم، اور ایک مقامی ہفتہ وار، سوریودیام کی تدوین اور
اشاعت کی۔ انگریزوں نے ان رسالوں کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کی۔ 1909 میں برٹش انڈیا
میں انڈیا اور وجے دونوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پانڈیچیری میں سبرامنیم بھارتی
کو تحریک آزادی کے انقلابی ونگ کے رہنماؤں جیسے اربندو اور لالہ لاجپت رائے سے
ملنے کا موقع ملا۔ بھارتی نے آریہ اور کرما یوگی جیسے رسالوں کی اشاعت میں اروند
کی مدد کی۔ یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے ویدک ادب کا مطالعہ شروع کیا۔1912 میں ان کی
مشہور تصانیف کوئل پاٹو، پنچالی سبتھم اور کنن پاٹو کی تالیف ہوئی۔ انھوں نے پتنجلی
کے یوگا سوترا اور بھگوت گیتا کا تمل میں ترجمہ کیا۔
بھارتی کو جدید تامل ادب کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا
ہے۔ انھیں ’مہاکاوی‘ (’عظیم شاعر‘) کے قلمی
نام سے جانا جاتا ہے۔ پچھلی صدی کے ادبا و شعرا کے برعکس، بھارتی اکثر سادہ الفاظ
استعمال کرتے تھے۔بھارتی نے گرامر کے اصولوں کو توڑا اور تمل کو ایک جدیدیت کی راہ
دی، جسے پودھو کویتائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں جدید خیالات
اور تکنیک کا اظہار کیا۔
بھارتی کی شاعری ایک ترقی پسند، اصلاح پسند آئیڈیل کا
اظہار کرتی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی قوم پرستی، محبت، بچپن، فطرت اور تمل زبان کی
عظمت جیسے مختلف موضوعات پر ہزاروں نظمیں لکھیں۔ انھوں نے شری اربندو، بال گنگادھر
تلک اور سوامی وویکانند جیسے ہندوستانی قوم پرست مصلحین کی تقاریر کا بھی ترجمہ کیا۔
اپنی مادری زبان تمل میں انھوں نے ایک نظم
لکھی ’’ہم جتنی بھی زبانیں جانتے ہیں ان میں
سے ہمیں تمل جیسی کوئی زبان نہیں ملے گی۔‘‘ بھارتی کو ’قومی شاعر‘ کہا جاتا ہے کیونکہ
انھوں نے جدوجہد آزادی کے دوران قومی جذبات کے ساتھ بہت سی نظمیں لکھیں اور لوگوں
کو متحد کیا۔
سبرامنیم بھارتی کا انتقال 38 سال کی عمر میں چنئی میں ہوا۔
ان کی موت سے کچھ مہینے پہلے، انھیں ایک ہاتھی لاونیا نے دھکا دیا تھا۔ مدراس کے
علاقے ٹرپلکین کے پارتھا سارتھی مندر میں جب وہ ناریل چڑھا رہے تھے۔ اس واقعے میں انھیں چوٹیں آئیں۔ اگرچہ وہ بچ
گئے، لیکن ان کی صحت تیزی سے خراب ہوئی۔11 ستمبر 1921 کو رات ایک بجے انتقال ہو گیا۔
ان کی آخری رسومات میں صرف 14 افراد نے شرکت کی۔سبرامنیم بھارتی کی موت ہندوستانی
آزادی کی جنگ کی تحریک اور تامل ادب کے لیے ایک بڑا نقصان تھا۔ سبرامنیم بھارتی کی
موت کے بعد بھی برطانوی حکومت نے انڈیا میں ان کے گیتوں پر پابندی لگا دی اور ان کی
کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ 8 اور 9 اکتوبر 1928 کو مدراس قانون ساز اسمبلی میں ایک
تفصیلی بحث ہوئی جس میں ستیہ مورتی اور دیگر نے حصہ لیا۔ سبرامنیم بھارتی نے اپنی
زندگی کے آخری سال ٹرپلکین کے ایک گھر میں گزارے۔ اس گھر کو 1993 میں تمل ناڈو
حکومت نے خریدا اور تزئین و آرائش کی اور اس کا نام ’بھارتی ایلم‘ رکھا گیا۔ اتیا
پورم میں ان کا پیدائشی گھر اور پانڈیچیری میں ان کی رہائش گاہ کو یادگار کے طور
پر برقرار رکھا گیا ہے۔ ان کی جائے پیدائش اتیا پورم میں بھارتی کا سات فٹ اونچا
مجسمہ، منی منڈپم اور ان کی زندگی کی تاریخ پر ایک تصویری نمائش بھی لگائی گئی ہے۔
سال 1987 میں مصنفین کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ سبرامنیم بھارتی ایوارڈ شروع کیا گیا
تھا۔ یہ ایوارڈ حکومت ہند کی انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کی طرف سے ہر سال ادب کے
بہترین مصنفین کو دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھارتیار یونیورسٹی کوئمبٹور میں 1982 میں
قائم کی گئی تھی۔ ان کے مجسمے کئی مقامات پر نصب کیے گئے ہیں۔ متعدد سڑکوں کے نام
ان کے نام پر رکھے گئے ہیں، جن میں چینئی و کوئمبٹور میں ’بھارتیار سلائی‘ اور نئی
دہلی میں ’سبرامنیم بھارتی مارگ‘ شامل ہیں۔بہت
سے اسکولوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں کے نام ان کے نام پر رکھے گئے ہیں۔
بھارتی کا وژن منفرد اور مؤثر ہے۔ ان کا کردار اور ان کا
کام آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا رہے گا۔ سبرامنیم بھارتی کا مطالعہ اس اعتبار
سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مہاکوی سبرامنیم بھارتی ملک کے اعلیٰ عہدے جیسے: یو
پی ایس سی، آئی اے ایس، امتحان کے لیے سب سے اہم موضوعات میں سے ایک ہے۔ اس میں
’ہندوستانی تاریخ - اہم شخصیات‘ (جنرل اسٹڈیز1) کے نصاب اور یو پی ایس سی ابتدائی
امتحان میں قومی اہمیت کے موجودہ واقعات کے ایک اہم حصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نے ہندوستانی ادب کے معمار: مہا کوی سبرامنیم بھارتی کے 100 ویں سالگرہ پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے
بھارتی کو غیر معمولی شخصیت قرار دیا اور کہا کہ ’’قوم کے لیے کثیر جہتی خدمات،
سماجی انصاف اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ان کے عظیم نظریات کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ نیز ہر سال 11 دسمبر کو کثیر لسانیات اور مجاہد
آزادی مہاکوی سبرامنیم بھارتی کے یومِ پیدائش کے موقع پر ’بھارتی بھاشا دِوس‘
منانے کا اعلان کیا گیا۔
حوالہ جات
1 کتاب(تامل): تامل ادب کی تاریخ
2 مصنف۔ ڈاکٹر ایم اروناچلم و پروفیسر راجہ وردراجا
3 کتاب (تامل): مہاکوی بھارتیار(نظموں کا مجموعہ) مرتب: وائی۔
گووندن
4 کتاب (انگریزی): بھارتی، مصنف: پریما نندا کمار
Dr. Mohd Tayyab Ali
Dept. of Urdu, The New College
Peter's Road, Royapettah
Chennai- 600014 (Tamil Nadu)
Mob.: 8870612461
tayyabali@thenewcollege.edu.in
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں