17/2/25

اہل تمل میں غالب شناسی، کلام غالب کے تمل تراجم کے حوالے سے، مضمون نگار: امان اللہ ایم بی

 اردو دنیا، جنوری 2025

مرزا غالب اردو کے آفاقی شاعر ہیں۔ ایک ایسا منفرد شاعر جس نے نہ صرف اردو والوں کو بلکہ پوری دنیا کے ادب سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ غالب نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو شاعری میں منتقل کیا اور اپنے تجربے دنیا تک پہنچائے۔ غالب کی شاعری کچھ ایسی سچائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے جن کا تمل دنیا کو ابھی تک علم نہیں ہے۔غالب کی شاعری کے دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ تمل ایک قدیم ترین دراوڑی زبان ہے لیکن اس میں بہت دیر بعد غالب کے منتخب کلام کاترجمہ ہوا ہے۔ غالب کے فارسی کلام کا انگریزی زبان میں جناب موسی رضا نے ترجمہ کیا ہے انگریزی کی وساطت سے تمل میں لتا رام کرشنن نے 'مرزا غالب : تویئرن اِدَژ’کَلِل وِرِی یمُ پُن نَگئی' کے نام سے ترجمہ کیا ہے جو2018 میں کویتا پبلی کیشنز چنئی سے شائع ہوا۔ غالب کی سوانح حیات کا تمل زبان میں سی ایس دیو نادھن نے ’اردو غزل اَرَسر مرزا غالب‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ جہاں تک اردو کلام کا سوال ہے یہ مکمل ترجمے زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوئے۔ میرے پیش نظر دو ترجمے ہیں ایک غالب کے اردو کلام ’دیوان غالب‘ کا راست ترجمہ ہے جو مخطوطے کی شکل میں ہے غیر مطبوعہ ہے جسے ڈاکٹر رفیق پاشا حسینی، سابق ڈائرکٹر، دوردشن کیندرا، تمل ناڈو نے ’ینپ پرلیم‘کے نام سے کیا ہے۔ دوسرا وہ ترجمہ جسے پروفیسر شری نواس رنگن، سابق پروفیسر، شعبہ انگریزی، و او چدمبرنار کالج، توتوکڈی، تمل ناڈو نے ’اردو کوینجر کوی کوئل غالبن کوی دیکل‘ کے نام سے کیا ہے۔ آخر الذکر ترجمے میں غالب کے منتخب کلام کی تشریح بھی شامل ہے۔یہ کتاب 2014 کو نیو سینچری بک ہاوز چنئی سے شائع ہوئی۔

غالب کے کلام سے کون محظوظ نہیں ہوسکتا ؟ غالب کی شاعری زمان و مکاں سے ماوراہے۔ تمل باشندوں کو غالب کے کلام کا چسکا بہت بعد میں لگا۔ تمل تہذیب میں مشاعرہ جیسی محفل کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جب یہاں کے باشندے شمال پہنچے تو وہاں انھیں مشاعروں میں شرکت کا اتفاق ہوا تب انھوں نے غالب کو تمل قاری سے متعارف کرانے کے بیڑا اٹھایا۔ غالب کی شاعری سے متاثر ایک تمل صاحب کہتے  ہیں؛

’’میں دس سال تک شمالی ہند میں رہا... اس دوران مجھے وہاں منعقد ہونے والے ’مشاعرہ‘ اور ہندی کوی سمّیلن میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اردو شاعر غالب کی 'غزل' نے مجھے مسحور کر دیا۔ مشاعرے میں امیروں سے لے کر عام دکانداروں تک کی شرکت سے بہت متاثر ہوا۔ ان کا بارہا  ’واہ واہ واہ‘ کہنے کا نرالہ اندازبہت پسند آیا۔‘‘

جناب پروفیسر شری نواس رنگن رقم طراز ہیں:

’’اسی پس منظر میں یہ معاملہ میرے ذہن میں آیا اور مجھے تمل میں غالب کے کلام کی تشریح پر اکسایا۔ اگر ہو بہو اس کا ترجمہ پیش کردیا جائے تو ذائقہ خراب ہو سکتا ہے۔ لیکن تمل لوگ شاید اس عظیم شاعر کی شاعری کو نہیں جانتے۔ ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جہاں تک ہو سکا میں نے ہر ایک شعر کی مختصر وضاحت اس لیے کی ہے کہ غالب کی شاعر ی کی بہت سی خصوصیات محض ترجمے کے ذریعے پیش نہیں کی جا سکتی اس لیے میں نے غالب کے صرف بہترین اشعار کا انتخاب کیا اور مختصر سی وضاحت پیش کردی ہے۔غالب کی غزلیں جو محبوب کی نزاکت، عشق و رومانوی تکنیک اور دنیا کی فطرت پر مرکوز ہیں، انتہائی قابل تعریف ہیں۔ اردو کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ غالب کی شاعری میں مٹھاس ہے۔ میری تشریحی تحریر میں شہد ہو یا نہ ہو، اہل تمل کو غالب کے ساتھ انسیت ہو تو کافی ہے۔ اس طرح میں یہ سوچ کر آپ کے سامنے یہ ترجمہ پیش کرتے ہوئے امیدکرتا ہوں کہ میری محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘

مرزا غالب کا اگرچہ تعلق ایک بڑے گھرانے سے تھا لیکن وہ تمام عمر غربت کا شکار رہے۔ انگریزی کے بڑے ادیبوں نے غالب کی شاعری کے تراجم اس طرح ترتیب دیے جیسے وہ انگریزی میں ہی تخلیق کیے گئے ہوں۔ آج بھی ان کی شاعری زندگی سے جگمگاتی ہے۔ ایہام گوئی،آپ بیتی، ناامیدی کو آئینہ بنانا مگر امید کو غالب رکھنا، زندگی کو ہر ممکن حد تک حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنا، سوچنے پر آمادہ کرنا، وصل کی ہوس کوعشق کی تقدیس میں بدلنا، سوز و گداز، تخیل سے بھرپور، انفرادیت،یہ تمام غالب کی شاعری کی وہ خصوصیات ہیںجنھیں مترجم نے ان پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہوئے غالب کے اشعار کو تمل کے قالب میں ڈھالاہے۔

جہاں تک دیوان غالب کا تعلق ہے ڈاکٹر رفیق پاشا حسینی نے غالب کے اشعار کو تمل رسم الخط میں منتقل کردیا ہے تاکہ اہل تمل غالب کے اشعار کو اسی آب و تاب کے ساتھ پڑھیں جیسے اردو والے اسے پڑھتے ہیں۔ حسینی صاحب کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اشعار کا ترجمہ تمل زبان میں تمل کی تہذیب سے قریب تر کیا ہے۔ اردو میں بحر، قافیہ وردیف کی پابندی ہے جبکہ تمل شاعری ان روایات سے مبرا ہے۔ انھوں نے اپنے ترجمے میں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے غالب کے کلام کو تمل کا جامہ پہنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چند اشعار یہاں بطور نمونہ زیر بحث لائے گئے ہیں ملاحظہ ہوں          ؎

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا        کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویرکا

تمل ترجمہ:

وَرَینْتَ چِتِّرَمْ …

یَارُٹَییَ پَٹَیپُّچْ چیرُکَّے ایتِرْتُّ

مُرَییِٹُکِرَتُ؟

اووّورُ اووِیَمُمْ،

کَاکِتَ آٹَییَے   اَنِنْتِرُکِّرَتُ؟

اس شعر کے ترجمے میں ’کاغذی پیرہن‘ کو تمل میں حاشیہ لکھ کر سمجھایاگیاہے کہ قدیم زمانے میں کچہری کو کاغذی لباس پہن کر جانے کا رواج تھا۔دنیا بے ثبات ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کاغذی تخلیق کرنے والے کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

تمل ترجمہ:

اُیِرْ پَرِکُّمْ کَٹُمَیپْ پَرِّ کیٹْکَاتے!

اِرَوَیپْ پَکَلَاکَّ...

مَلَییَیکْ کُٹَیتُّ آرَّیپْ پَایَوِٹَوینْٹُمْ؟

’جوئے شیرلانا‘ اس محاورے کا تمل میں خوب ترجمہ کیا گیا ہے۔’ تنہائی ‘میں ’رات کو کاٹنے‘ کو پہاڑ توڑ کر ندی کو راستہ بنانے کے کام انجام دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔

آگہی دامِ شیندن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریرکا

تمل ترجمہ:

اَرِوُ ایوَّلَوُتَانْ وَلَییَے وِرِتَّالُمْ

اینْ اُرَییِنْ آلَمْ

چِکَّاتَ اَنْہکَا - ‘‘ویرُمَیپَّرَوَے ”، !

’عنقا‘کو تمل میں حاشیہ لکھ کر سمجھایا گیا ہے کہ عنقا ایک خیالی پرندہ ہے جو اپنا بسیرا وہاں رکھتا ہے جو نظروں سے دور تخلیقی دنیا سے تجاوز منتہا جہاں کچھ نہ ہوتا ہے جسے ’عدم‘ کہتے ہیں۔ شاعری میں علامت کے طور پر مستعمل ہے۔

پروفیسر شری نواس رنگن نے غالب کے شعری مفہوم کو اہل تمل میں منتقل کرنے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے غالب کے اشعار کو ترجمہ کرنے سے پہلے اس نوعیت کی تمل شاعری سے متعارف کراتے ہوئے غالب کے شعر کی مختصر تشریح کی پھر اس کا تمل ترجمہ پیش کیا ہے۔ شری نواس نے بھی غالب کے اشعار کی قرأت کے لیے انھیں تمل رسم الخط میں تحریر کیا ہے لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں نظر آتے ہیں۔ تمل میں اردو کے اشعار کی قرات گنجلک معلوم ہوتی ہے۔ بہر کیف آپ کی کوشش کی داد دینی چاہیے۔

’کننہ داسن‘ تمل کے مشہور شاعر گزرے ہیں جنھوں نے زندگی کے ہر جذباتی لمحے کے لیے تمل زبان میں گیت لکھے ان سے متعلق کہاجاتا ہے کہ’کننہ داسن‘ اگر تمل ناڈو کے بجائے یورپ یا امریکہ میں پیدا ہوا ہوتا تو شاید وہ ادب میں نوبل انعام یافتہ بن جاتا اور بین الاقوامی سطح پراپنی پہچان بناتا‘۔ کننہ داسن کی مشہور زمانہ گیت تمل میں تییْوَمْ تَنْتَ وِیٹُ وِیتِیِرُکُّ (خدا کا دیا ہوا گھر سڑک ہے) کچھ حد تک غالب کے شعر سے قریب نظر آتا ہے۔

عاشق کا گریباں

خدا کی مخلوق میں بعض نسلیں خوش قسمت ہیں۔ انسانی نسل کو ہی لے لیجیے، انسان باقی تمام انواع پر حاوی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید فطرت اس کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ خدا انسان کو کچھ بے جان چیزوں کے لیے بھی مجبور کردیتا ہے۔ سائنسی ترقی سے دنیا سمٹ کر انسان کے ہاتھ میں آ رہی ہے۔ اگر وہ چا ہے تو دنیا کو تباہ کر سکتا ہے۔ اس طرح قوی و طاقتور انسان کو ایک ہاتھ کپڑا کس طرح بے بس کردیتا ہے تب اس کپڑے کی قسمت ہی کیا ہے۔ غالب نے کہا        ؎

حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

پورندرداسر نے کہا -"ایلّورُمْ اُلَیپَّتُ ایتَرْکَاکَ؟" سب کس کے لیے کام کرتے ہیں؟ اورُ چَانْ وَیِرُّکَّاکَ، اورُ چَانْ تُنِکَّاکَ" ایک بالشت پیٹ کے لیے کھانا، ایک بالشت کپڑے کے لیے۔ اوویئار نے کہا  'اُنْپَتُ نَالِ اُٹُپَّتُ نَانْکُمُلَمْ' بھوک مٹانے کے لیے ایک مٹھی کھانا جسم چھپانے کے لیے چارگرہ کپڑا'۔ سنگم دور کی شاعری ہے کہ’’ اُنْپَتُ نَالِ اُٹُپَّوَے اِرَنْٹے‘‘  پیٹ کے لیے دو دانے جسم کے لیے دو کپڑے ۔‘‘

اس شعر کی وضاحت میں مترجم کا کہنا ہے کہ ’’غالب اس کپڑے کی قدر میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ تمل کی کہا وت ہے ’کپڑا آدھا آدمی ہے‘۔ ’آٹَے پَاتِی آلْپَاتِی۔‘ یعنی شخصیت سازی میں نصف آدمی تو نصف لباس ہے۔ غالب نے محبوب کی دھڑکن کو محبوبہ کے لباس پر موقوف کیا ہے۔ عاشق کی دھڑکنوں کا سبب محبوب کا زیب تن ہے، اور اگر وہ چمک دمک، انداز اور دلکش رنگوں میں آرائش و زیبائش نہیں تو عاشق کیا لطف اٹھائے؟ ایک ہاتھ کپڑا ہی تو محبوب کی عصمت و ذلت پر قادر ہے۔‘تمل میں یوں ترجمہ کیا ہے        ؎

کَاتَلِیِنْ اُٹَلِلُلَّ

کَینِیلَتْ تُنِ اِتُتَانْ،

کَاتَلَنِنْ کَورَوَتَّیکْ

کَچِّتَمَایْ اَٹَکِّٹُتے

مترجم کا کہنا ہے کہ ’غالب کے متذکرہ بالا شعرکی نزاکت کا لطف اٹھائیں کہ عشق کے اظہار میںاس کے انداز بیان کی تعریف کریں۔شعر پڑھنے کے بعد، اس کی شعریت سے لطف اندوز ہوں یا شاعر کے کمال کی داد دیں ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ‘

 بصری لذت

اردو شاعری میں عشق ایک اہم موضوع ہے۔ تمل میں عشقیہ شاعری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ مترجم نے غالب کے درج ذیل شعر کی تفہیم کو تمل میں منتقل کرنے کے لیے جو وضاحت کی ہے ملاحظہ ہو           ؎

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

’’اس شعر میں غالب نے بتایا ہے کہ عشق کیا ہے۔ بہت سے شاعروں نے عشق کواپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ لیکن غالب نے عشق کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ایک نیا زاویہ  پیش کیا ہے۔ آگ لگانے کے لیے عام طور پر کسی فرد یا کسی آلے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن عشق اپنے آپ سے سلگنے کی طاقت رکھتا ہے۔ کسی کے قابو سے باہرہے۔ اگر عام آگ جلنا شروع ہو جائے تو فائر بریگیڈ اسے بجھانے میں مدد کر سکتی ہے۔ لیکن عشق کی آگ کو کوئی طاقت نہیں بجھا سکتی۔ اگر عشق کی آگ بھڑک جائے تو یہ مشعل شعلہ بن کر جلنے لگے۔ اس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور کبھی کم نہیں ہوتی۔ اردو میں ’عشق‘ کا مطلب لامحدود محبت ہے۔ عشق کی آگ لگانے سے نہیں لگتی۔ ایک بار لگ جانے کے بعد، کوئی تو توانائی ایسی نہیں کہ اسے بجھا سکے۔‘‘(غالبن کوی دیکل)

تمل ترجمہ

ایرِّنَالْ ایرِیَاتَ

اَنَیتَّالُمْ اَنَییَاتَ

ایچَّکْتِ کونْٹُمْ

جییِتِّٹَ مُٹِیَاتَ

ایتو اورْ تِییَے کَاتَلَے

اینْکے پیرَّتُ مَنِتَ اِنَمْ؟

خون کے آنسو

’رتھا کنیر‘1954  کی ایک تمل فلم ہے جس کی ہدایت کاری کرشنن پنجو نے کی تھی، در اصل یہ تمل ڈرامہ ہے جسے تھنگراج نے لکھا تھا۔ تھنگراج کے اسی نام کے ڈرامے پر مبنی، فلم میں ایم آر رادھا، سری رنجانی اور ایس ایس راجندرن، چندرابابو، ایم این راجم اور ایس آر جانکی کے ساتھ معاون کردار ادا کیاہے۔ یہ فلم تمل سنیما میںبہت پسند کی گئی۔

’رتھا کنیر‘ کا مطلب بھی خون کے آنسوہے۔ اس نام کے ساتھ تمل میں آنے والی فلم ’اِرَتَّکَّنِّیرْ‘کا موضوع بھی جذبات کا اظہار ہے۔ غالب گویا ہیں            ؎

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

 میں رگوں میں بہتے خون کو خون نہیں سمجھتا۔ خون کا حقیقی کردار تو یہ کہ وہ جذبہ و احساس کی نمائندگی کرے اور آنسو بن کر مقدس آنکھ سے ٹپکے ور نہ تووہ لہوکیا ہے؟یہ شعرنہ صرف اردو والوں کے لیے بلکہ اب اہل تمل کے لیے بھی جذباتی طور پر دل کو چھو لینے والا ہے۔ اس شعر کا تصور یہ ہے کہ آنسو خوشی ہوں یا غم کے دونوں جذبات کی حدوں کو چھوتے ہیں۔اسی کیفیت کو کم و بیش ترو ولور نے یوں کہا ہے ؛ ’اَنْبرکُّمْ اُنْٹو اَٹَیکُّمْتَالْ آرْوَلَرْ پُنْکَنِیرْ پُوسَلْ تَرُم‘ (دل میں محبت کو بند نہیں کیا جا سکتا، وہ اذیت میں پیارے کے آنسوؤں سے نکلتا ہے۔)غالب کے شعر کا تمل ترجمہ یوں ہے کہ      ؎

اِرَتَّ نَالَتِّلْ اوٹُکِنْرَتُ

اُنْمَے اِرَتَّمَا؟- اِلَّے! اِلَّے!

اُنَرْچِّ مِکُتِیِلْ وَلِیُمْ کَنِّیرے

اُنْمَے اِرَتَّمْ!

آدمی کاانساں ہونا

غالب نے انسانی زندگی کی کیفیات اور نفسیات کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ آدمی کو انسان بننے کے لیے جو دلیل پیش کی وہ کمال کی ہے۔ انسانیت پر مضمون آفرینی کا اندازہ اہل تمل نے غالب سے کیسے سمجھا ہے ملاحظہ ہوں :

’’روسی شاعر نے کہا کہ آدمی پرندے کی طرح اڑنا اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن انسان بن کر زندگی گزا رنا نہیں سیکھا۔ غالب نے روسی شاعر کے زمانے سے پہلے کی ایک غزل میں اسی خیال کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کہنے کا انداز الگ ہے۔ غالب کے اس شعر میں کیا شان ہے! شاعری میں کیا جان ہے!‘‘

غالب کے اشعار کے تمل تراجم سے یہ کیفیت یوں محسوس ہوتی ہے کہ’ چاند پر قدم رکھنااب کوئی مشکل کام نہیں،سیکڑوں منزلہ عمارت بناناکوئی مشکل نہیں۔ انسان بہت سے حیران کن مشکل کام آسانی سے انجام دے رہا ہے، لیکن آسان کام کرنا انسان کے لیے مشکل نظر آتاہے جیسے صبر کرنا، دوسروں کی غلطیوں کو برداشت کرنا، دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا، چھوٹے چھوٹے احسان کرنا اور دوسروں کو دھوکہ نہ دینا جیسے آسان کام کرنا انسان کے لیے مشکل معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسروں کو تکلیف ہو تو دور سے تماشائی بن کر ہنسنا کوئی انسانیت ہے؟انسانیت کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں تو ان سب کے بغیر انسان انسانی عظمت کو حاصل کیسے کرسکتا ہے۔اسی مفہوم کو غالب نے دو مصرعوں میں خوبصورتی سے بتایا ہے کہ اس قسم کی انسانیت کا حصول کتنا مشکل ہے۔‘‘

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

 آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تمل ترجمہ

مَنِتَنْ!

اَرِیَ چییَلُمْ اَوَنُکُّ ایلِتَاکُمْ!

مَنِتَنَاکَ وِلَنْکُتَلْ...

اَتُتَانْ اَوَنُکُّ اَرِیَ چییَلَاکُمْ!

مذکورہ تمل ترجمہ کا مطالعہ ہمیں یہ احساس دلارہا ہے کہ مترجم نے غالب کے شعر کو کتنی گہرائی سے سمجھا ہے،مترجم رقمطرازہے :

’’آدمی یہ سمجھتا ہے کہ محض آدمی اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پتہ نہیں ہم کب انسانیت والے آدمی بن جائیں گے جیسا کہ غالب کی توقع ہے۔ اس شعر میں امیدکی کمی نظر آتی ہے۔اگر امیدکو تقویت دینا ہے تو ہر شخص کوچاہیے کہ ہر روز کم از کم کچھ انسانی بنیادوں پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ غالب کی نظر میں ناانصافی کا بہادری سے مقابلہ کرنا۔ دوسروں کو تکلیف نہ دینا۔ خود غرضی کودور کرنا۔ سماج کے لیے دن میں کم از کم ایک گھنٹہ مختص کرنا۔ ہسپتالوں میں بیمار لوگوں کی عیادت کرنا۔ سماجی خدمت کے لیے آمادہ ہونا۔ لالچی نہ ہونا وغیرہ اگرچہ یہ تعلیمات اکثر سنی جاتی ہیں، لیکن یہ انسانیت کو ترقی دینے میں کارگر ثابت ہو گی۔‘‘ (غالبن کوی دیکل)

 دل ہی تو ہے

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

تمل ترجمہ :

"اِتَیَمْ تَانے اَتُو، ویتَنَییَے نِرَپَّ مُٹِیَاتَ

کَلْ اَلَّوے!"

اینَّے ایلَنَمْ چییْتَالْ آیِرَمْ تَٹَوَے اَلُوینْ!     

اسی شعر کا ایک اورتمل ترجمہ یوں بھی ہے        ؎

اِٹُّ نِرَپَّ اِٹَمْ اِرُکِّنْرَ

اِتَیَنْتَانے اِتُ! کَلِّلَّییے!

ویٹِّچْ چولَّالْ ویتَنَے تَنْتَالْ

آیِرَمْ تَٹَوَیکَلْ اَلُتِٹُوینْ!

اس شعر کو ’دل ہی تو ہے پتھر نہیں ‘ کے عنوان کے تحت ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کی تمل تشریح اس طرح کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہوں:

’’دل کیا پتھر ہے؟ یہ مت سوچیں کہ آپ اس عنوان کو پڑھنے کے بعد ہمدردی کے بارے میں بات ہوگی۔ غالب نے اس شعر میں دل کا موازنہ ایک مختلف پتھر سے کیا ہے۔ پتھر اتنا ٹھوس ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز نہیں رہ سکتی۔ جذبات اس کے اندر سمائے نہیں جا سکتے۔ غالب کے دل میں جب یہ احساسات اترتے ہیں تو وہ احساسات درد کا باعث بنتے ہیں۔جب کوئی ہمارا مذاق اڑاتا ہے تو اس کا اثر ہمارے دل پر پڑتا ہے تو ہم اس کی وجہ سے روتے ہیں۔ رونا دل کی تکلیف کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ غالب کو قرض کی ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ غربت میں ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔ اردو مشاعروں میں اِدھر اُدھر اُن کی مخالفت بھی ہوئی۔ ان کے دوست ان کا مذاق اڑاتے رہے تو غالب کا دل بھر آیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر غالب نے قلم کو اپنے تجربے کی سیاہی میں ڈبو کر لکھا ہے اور غالب نے کتنی خوبصورتی سے کہا کہ رونا مصائب کا تریاق ہے۔‘‘ (غالبن کوی دیکل)

راہ پرخار

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

تمل ترجمہ

اینُّٹَییَ کَالْکَلِنْ اوچَے کیٹُّ

اِتَیَمْ نَٹُکَّمْ کونْٹَتُ!

 مُلْ نِرَینْتَ پَاتَییِلْ پووَتُ کَنْٹُ

اُلَّمْ مَکِلْچِّ کونْٹَتُ!

اردو کے شارحین غالب نے مذکورہ شعر کی تشریح اپنے انداز سے کی ہے لیکن ایک تمل ادیب جس نے غالب کو سمجھا، غالب کی راہ پرخارکو دیکھ کر متذکرہ بالا شعرکی تمل تشریح یوں کی ہے؛

’’جب انسان پر مصیبتیں کئی سمتوں سے حملہ آور ہوتی ہیں تو وہ لڑکھڑا جاتا ہے۔ بیماری، قرض، دفتر میں دوست نمادشمنوں کی خیانت، نتائج پر غور کیے بغیر اعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانیاں، ایسی پریشانیوں میں رہتے ہوئے آدمی کچھ خوف سے کانپ جاتا ہے۔ جب وہ تنہا ہوتا ہے تو وہ سنجیدہ سوچ میں مشغول رہتا ہے لیکن دل میں یہ سوال بے چینی کا سبب بنتے ہیں کہ قرض کی ضامن جائیدادمقبوض تو نہیں ہوجائے گی؟ دشمن سے جان کو خطرہ تو نہیں ہوگا؟رشتے دار مذاق تو نہیں اڑائیں گے؟نوکری ہاتھ سے نکل جائے گی؟نا اہل سمجھ کر کیا بیوی بچے ہم سے دور ہوجائیں گے؟ ایک ایسی گھبراہٹ کا ماحول غالب رہتا ہے تب ہم چلتے ہیںتو کیاہمارے قدموں کی آہٹ سے ہمیں خوف نہیں پیدا ہوتا؟ انگریزی شاعر الیگزینڈر کہتا ہے 'میں خود اپنے قدموں کی آواز سے ڈر گیا'۔تو ایسے میں راہ پر کانٹوں کے سوا کچھ نہیں۔  مستقبل کی کوئی امیدبھی نہیں ہے۔ ایسے پر خطر ماحول میں یہ تذبذب ہوگا کہ پیر کا خیال رکھنا ہے یا موجودہ پریشانی کا خیال؟کسی بھی حالت سے گزرنا ہی ہے،تب آپ چلیں گے توراہ ہموار پائیں گے اور تناؤکو کم محسوس کریں گے۔ لگتا ہے غالب نے اسی کیفیت کے تجربے سے گزر کر شعر تخلیق کیا ہے۔‘‘(غالبن کوی دیکل)

الغرض اردو زبان اور اردو شاعری کا جادو ہے کہ اس کے پڑھنے اور سننے والے پر ضرور اثر کرتا ہے۔ غالب کے اشعار کے تمل تراجم اہل تمل پر اتنے اثر انداز ہوئے کہ  اس سے تمل شعرا کے اندر اردو غزل سے بھی دلچسپی بڑھنے لگی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمل کے شعرا نے اردو کے کلاسیکی اور جدید شعرا مثلاًمیر،مومن، غالب، بہادرشاہ ظفر، داغ، شیفتہ ، علامہ اقبال، سیماب اکبر آبادی، ناصر کاظمی، جگر، آنند نرائن ملا اور فیض کامنظوم ترجمہ پیش کیا ہے۔کوی کو عبدا لرحمن تمل زبان کے جدید شعرا میں اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے۔آپ نے تمل کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اپنی تمل شاعری کی بدولت ملک الشعرا کاخطاب حاصل کیا۔آپ نے علامہ اقبال، بہادرشاہ ظفر اور فیض احمد فیض جیسے مشہور شعرا کے منتخب کلام کا تمل میںترجمہ کیا ہے۔علاوہ ازیں‘ تمل شاعری میں صنف ِ غزل اورہائیکو کو رواج دینے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔اس طرح سے اہل تمل نے جب غزلیں سنیں تو تمل میں ’تمل غزل ‘ کے نام سے اتنے اشعار تخلیق کیے کہ آج سو سے زائد ’تمل غزل ‘کے شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایروڈو تمل انبن، شری نواس، چنی ملے دنڈہ بانی وغیرہ تمل کے معروف غزلیہ شعرا ہیں۔ ان میں سے اکثر غالب کی غزلوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اگر غالب کا مجموعہ کلام پوری طرح سے تمل عوام میں بہ زبان تمل تشریح کے ساتھ ہاتھ آجائے تو اس سے استفادے کے مواقع میسر ہوسکتے ہیں۔ نیز ’ تمل غالب‘یا ’تمل غالبیات‘ کا میدان وسیع ہوتا چلا جائے۔ اب ہمیں مطالعات غالب کے لیے ایک نیا باب وا ہوتا نظر آتا ہے۔

مآخذ و مراجع:

1        اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ،1999سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ۔

2        The Smile on Sorrow's Lips: Selected Verses from Ghalib's Persian Poems With Urdu and English Poetic Translations, Translated by  Moosa Raza, Published by Createspace Independent Pub (24  June  2015)

3        مرزا غالب : تویئرن ادژکلل وری یمُ پُن نگئی،  لتا رام کرشنن،2018ء ناشر کویتا پبلی کیشنز چنئی۔

4        اردو غزل ارسر مرزا غالب، سی ایس دیو نادھن۔2017، یونیورسل پبلی کیشنز، چنئی۔

5        اردو کوینجر کوی کوئل غالبن کوی دیکل، شری نواس رنگن، مطبوعہ2014، ناشر: نیو سینچوری بک ہائوزلمیٹڈ، چنئی۔

6        دیوان غالب کامل، مرتبہ، کالی داس گپتا رضا۔

7        ینپ پرلیم: ڈاکٹر رفیق پاشا حسینی،  (غیر مطبوعہ )

8        تمل زبان میں اردو تخلیقات کے تراجم، ڈاکٹر امان اللہ ایم بی، ’اردو دنیا‘ ستمبر 2017۔

9        شرح دیوان غالب، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، عشرت پبلشنگ ہائوس، لاہور1959۔

10      بیان غالب، شرح دیوان غالب، آغا محمد باقر، کتابی دنیا، دہلی، 2000۔

 

 

Dr. Amanulla M.B

Chairman of Urdu,

Dept. of Arabic, Persian and Urdu

University of Madras, Chennai - 600005.

Email:dramanullashah2@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

لوک گیتوں کی زبان، اترپردیش کے لوک گیت، مصنف: اظہر علی فاروقی

  اردو دنیا، مارچ 2025 لوک گیت زیادہ تر مقامی بولی میں پائے جاتے ہیں اور ایک پردیش میں کئی کئی بولیاں علاقائی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا...