18/2/25

تمل ادب کا شاہکار’تروکرل‘ میں درس اخلاقیات، مضمون نگار: عائشہ صدیقہ جے

 اردو دنیا، جنوری 2025

تمل زبان دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کا تعلق دراوڑی زبانوں کے خاندان سے ہے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ دراوڑ قوم نہایت ترقی یافتہ اور مہذب قوم تھی۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ میں کھدائی کے نتیجے میں جو کچھ کتبے دستیاب ہوئے تھے ان پتھروں پر کندہ نقوش میں جس زبان کا نقش ملتا ہے وہ تمل رسم الخط سے قریب ہے۔ ہندوستان میں دراوڑیوں   نے جنوب میں بود و باش اختیار کی اور  ان کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب، ثقافت اور زبان کا ارتقا  جنوبی ہند میں مسلسل ہوتا رہا۔  تمل زبان نے زمانے کا ساتھ دیا اورحسب ضرورت خیالات،نظریات، لفظیات اور سماجی و سیاسی اثرات قبول کیے۔ اسی لیے  اس زبان میں جہاں ایک طرف   ہندومت، جین مت،بدھ مت، عیسائی مذہب اور مذہب اسلام کے اثرات  پڑتے رہے تو  وہاں لسانی اعتبار سے  بھی سنسکرت سے لے کر جدید ترین زبان اردو تک کے اثرات بھی اس میں ملتے ہیں۔  اس زبان کے بولنے والے شروع سے انصاف پسند، رحم دل، دیانت دار اور انسانی قدروں کے پاسدار رہے ہیں۔

تمل ناڈو کی قدیم حکومتیں چیرا،چولا اور پانڈیا نے  ہمیشہ علم و ادب کی قدر دانی اور سرپرستی کی۔شعرا و ادبا کو آزاد فضامیں پھلنے پھولنے کا پورا موقع فراہم کیا تھا۔  تروکرل کو تمل  ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

’تروکرل‘ تمل ادب کی ایک شاہکار تصنیف ہے جسے تروولّور نے تقریباً دو  ہزار سال پہلے تصنیف کیا  تھا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ شاہکار دو ہزار قبل مسیح سے کچھ پہلے تصنیف کیا گیا ہے۔ اس مقدس تصنیف کو تمل ادب میں بہت اونچا مقام حاصل ہے۔

  تمل قوم کے ہر گھرمیں اس تصنیف کو  مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نصابی کتابوں اور تمل ناڈو کے  پبلک ٹرانسپورٹ  میں بھی  ’تروکرل‘  کے ابیات چسپاں کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گویا تمل قوم کی زندگی میں ’تروکرل‘  کا موجود ہونا ان کے لیے  بڑی سعادت  کی بات ہے وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ ’تروکرل‘ ایک عظیم اور قدیم شاہکار ہے اس تصنیف پر شارحین نے سیکڑوں کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ’تروکرل‘  کا ترجمہ نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں ہوا بلکہ عالمی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے کیے گئے۔ حتیٰ  کہ عربی زبان میں بھی    ’تروکرل ‘ کا  ترجمہ کیا گیا ہے۔

’تروکرل’ کے جتنی بھی زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر انگریزی ترجمے کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں۔ جہاں تک  اردو میں تروکرل کے منظوم اور منثور ترجمے ہوئے ہیں وہ  اکثر و بیشتر راست ترجمے ہیں کیونکہ  اردو کے ان مترجمین کو تمل زبان سے اچھی خاصی واقفیت تھی۔ تمل چونکہ یہاں کی  علاقائی زبان ہے اس لیے یہاں کے مسلمان بھی اس زبان سے آگہی رکھتے ہیں۔ 

’تروکرل‘ کے  اردو مترجمین میں  سب  سے پہلے  پروفیسر عظمت اللہ سرمدی، پروفیسر حسرت سہروردی، مولانا اسماعیل رفیعی، حضرت مختار بدری اور ڈاکٹر امان اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سب سے پہلے  پروفیسر عظمت اللہ سرمدی  نے منتخب اشعار کے منظوم ترجمے کا بیڑا اٹھایا مگر اس کی تکمیل نہیں ہوپائی۔ ’تروکرل ‘ کا اردو زبان میں نثری ترجمہ پروفیسر حسرت سہروردی نے سلیس اردو میں ’کرل‘  کے نام سے  کیا جسے ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی نے 1965میں شائع کیا، جس کو اردو میں اولین ترجمے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس کے علاوہ مولانا اسماعیل رفیعی پرنامبٹی نے ’تروکرل‘ کے منتخب ابواب کا منظوم  اردو ترجمہ ثلاثیات کی ہیئت میں کیا ہے، مگر اس کو  وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے  جس کا تذکرہ علیم صبا نویدی کی کتاب ’تمل ناڈو میں اردو‘  میں ملتا ہے۔

علاقہ کرشنگری کے مختار بدری نے ’تروکرل‘ کا مکمل  منظوم ترجمہ ’لفظ لفظ گہر‘ کے نام سے کیا ہے جسے تمل ولرچی ایکّم، چنئی کے مالی تعاون سے شائع کیا گیا۔  تروکرل کے ہر شعر کو انھوں نے اردو میں قطعہ کی شکل میں ڈھالا ہے۔

ڈاکٹر امان اللہ ایم بی نے ’تروکرل ‘  کا تمل زبان سے براہ راست اردو میں ’ مخزن حیات‘ کے نام سے   2022 منظوم ترجمہ کیا ہے۔ 

یہ چاروں ترجمے اپنی نوعیت کے منفرد ترجمے ہیں۔  ان کے مطالعے سے پتہ  چلتا ہے کہ یہ تصنیف کتنی اہمیت کی حامل ہے۔  اس کے علاوہ دنیا کی 80 زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے ہیں۔

’تروکرل‘  قدیم زمانے کے  ادب پاروں میں سے ایک  بے مثال ادب پارہ ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ ’تروکرل ‘ کا زمانہ دوسری صدی  بعد ِمسیح کا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس کا تعلق پہلی صدی قبل مسیح سے ہے۔ بدقسمتی سے تروکرل کے مصنف کے متعلق تفصیلات بہت زیادہ معلوم نہ ہوسکیں۔ مصنف کا نام بھی بطور قیاس دیا گیا ہے۔  تروولّور ان نایاب اور عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے جن کی روحانی ہمہ گیری مذاہب و ملل سے بلند تھی اور کسی بھی قسم کے تعصب  میں  ملوث نہیں تھی۔

تروولور کی تمام تر شاعری اخلاقی تعلیمات اور انسانی نفسیات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے جس میں بھٹکے ہوئے انسانوں کو عملی جد و جہد کی تاکید کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بچنے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ ’تروکرل‘   اگر چہ ایک مقدس ادب پارہ  ہے لیکن  یہ تصور حیات کا  ایک مکمل ضابطہ بھی ہے۔ اسی لیے اس میں زندگی کے ہر مسئلے کو عملی سطح پر بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ’تروکرل‘  تین حصوں ارم (اخلاقیات)، پورول (حکومت، معاشرہ، سماج) ، انبم  (یعنی محبت)  پر مشتمل ہے۔  زمین اور آسمان کے درمیان کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو اس  ادب پارے کا حصہ نہ بنا ہو۔

1330 کرلوں(ابیات)  پر مشتمل اس تصنیف کو   133 عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے۔  ہر عنوان کے تحت دس دس اشعار لکھے گئے ہیں جن میں اچھائیوں کی تعریف، گھریلو زندگی، بیوی کا کردار، اولاد، محبت، مہمان نوازی و تواضع، احسان مندی، مساوات، خودی، اخلاق کی پاسداری، بدکاری، حسد اور شک، استغنا، غیبت، بیہودگی، برائی سے گریز، سخاوت، عظمت،رحم، دغا بازی، چوری سے پرہیز، راست بازی، غصہ سے احتراز،مردم آزاری، ادراک، اچھی صحبت، بری صحبت سے احتراز، رحم دلی وغیرہ شامل ہیں۔

اس شاہکار کا   پہلا حصہ اڑتیس ابواب پر مشتمل ہے جس میں گھریلو اور مجرّد زندگی میں انسان کے فرائض پر  سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ ستر ابواب پر مشتمل ہے جس میں حکومت کرنے کے مختلف طریقوں اور نوعیتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کو تحقیق اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس میں صرف شہزادوں اور ان کے مصاحبوں ہی سے خطاب نہیں کیا گیا ہے بلکہ ایسی ایسی فائدہ مند باتیں بتائی گئی ہیں جن سے عوام بھی مستفیض ہوسکتے ہیں۔

تمل قوم کے نزدیک تروولور تمل ادب کا وید ہے۔ جو مقام ہندووں کی مقدس کتاب ’وید‘  کو حاصل ہے وہی مقام تمل قوم میں’تروکرل‘ کو بھی حاصل ہے۔ تمل بولنے والے تروکرل کو  اپنا  لسانی وقار سمجھتے ہیں  کیونکہ اس میں نہ صرف اخلاقیات کا درس دیا گیا ہے بلکہ دنیا میں زندگی گزارنے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔

’تروکرل‘ میں علم کی اہمیت پر  جو  زور دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس کرل سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔

  کرل  400  کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

’’علم کا نہ ہونا سب سے بڑا نقصان ہے۔ جو شخص علم سے عاری ہوتا ہے دنیا کبھی اس کی قدر نہیں کرتی۔ جاہل اپنے ہی ہاتھوں سے چند ایسی مصیبتوں کا شکار ہوجاتے ہیں جو  وہ اپنے دشمنوں کو بھی نہیں پہنچا سکتے۔‘‘

انسان کے پھول جیسے دل میں بسیرا کرنے والے خدا کے چرنوں سے چمٹنے والا ہی زندہ جاوید ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو نفرت اور خواہشات سے بلند تر خدا کے چرنوں میں  بسیرا کرتے ہیں ہمیشہ دنیا کی مصیبتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

’تروکرل ‘ کے ’بابِ  اخلاقیات ‘ میں تروولور نے  آج سے تقریبا دو ہزار سال پہلے ایسی نایاب باتیں بتائی ہیں  جن پر عمل پیرا ہوکر انسان ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔

’تروکرل‘ کا تیسرا باب محبت  پر مشتمل ہے۔ محبت ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو یا نہ ہو مگر ہر ذہن میں محبت کا ایک دھندلا یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے۔ ولوور ایک ایسا فنکار ہے جس کے کلام میں عشق کا تصور مختلف صورتوں میں پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

میرا زیر بحث موضوع چونکہ اخلاقیات ہے اس لیے میں اخلاقیات کے باب  کے تحت اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہوں گی۔’باب اخلاقیات ‘ میں  تروولور کہتے ہیں کہ اچھے اخلاق آدمی کو خیر کی جانب لے جاتے ہیں۔ راست بازی سے بڑھ کر کوئی بھی چیز تروولور کے نزدیک اچھی نہیں ہے۔ اچھے کام کرنے کے لیے ہمیشہ مستعد رہنے کی تاکید کرتے ہیں دل کی صفائی تمام نیکیوں کا حاصل ہے۔ علاوہ اس کے سب دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔ حسد، حرص اور غصہ یہ ایسی مخرب ِاخلاق  چیزیں ہیں جن پر قابو پا کر ہی انسان اچھائی حاصل کرسکتا ہے، ترو ولور کہتے ہیں :

کرل131- کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

اچھے کام کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہی نیک کام مرنے کے بعد آخرت کی دولت بن جاتے ہیں۔  جو شخص اچھے کام کرتا رہے گا   آنے والے کل  میں یہی عمل اس کے کام  آئیں گے۔

 اچھے اخلاق انسان کی بلندی کے ضامن ہوتے  ہیں اس لیے اخلاق کی حفاظت لازمی ہے۔ ہمیشہ اپنے اخلاق پر نظر رکھنے کی تروولور نے تاکید کی ہے کیونکہ دنیا میں اس سے بڑھ کر انسان کا کوئی وصف ہو نہیں سکتا۔ اچھے اخلاق ، اچھے خاندان کا پتہ دیتے ہیں اور برے اخلاق کو اختیار کرنے سے اچھے خاندان پر بھی آنچ آجاتی ہے۔ اچھے اخلاق سے خوشبوؤں کے چشمے ابلتے ہیں جبکہ بد اخلاقی نا ختم ہونے والی مصیبتوں سے انسان کو  دو چار کرتی ہے۔ اقبال مندی جو اخلاق کا پہلا زینہ ہے ہمیشہ اچھے انسانوں کا استقبال کرتی ہے۔

تروولور صبر کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین یوں کرتے ہیں ، ملاحظہ کیجیے۔

کرل152جس کا ترجمہ یوں ہے:

با اخلاق انسان کی زبان سے کسی بھی حالت میں برے الفاظ نہیں نکل سکتے، چاہے  دنیا اس پر کتنا ہی ظلم ڈھائے۔ با اخلاق لوگ صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے چاہے ان کے ساتھ بْرا برتاو کیوں نہ کیا جاتا ہو۔ تروولوراس ضمن میں صبر کے ساتھ در گزر کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

  تروولور نے ’کرل‘ میں  اخلاقیات  کے درس  میں جو پیغام دیا ہے اس کے  چند اشعار نمونے کے طور پر پیش کررہی ہوں، ملاحظہ کیجیے۔

کرل108 کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’’کسی کے احسانات کو بھلا دینا اچھے اخلاق کا شیوہ نہیں ہے، لیکن ان کے نقصانات کو فوراًبھول جانا  بڑی بات ہے جو کسی  اورسے پہنچے ہوں۔‘‘

تروولور برائی کے گریز کے عنوان کے تحت یہ اخلاقی درس دیتے ہیں کہ عقل مندوں کی نظر میں وہی شخص قابل ستائش ہے جو برائی کا جواب بھلائی سے دیتا ہے۔  ایک اور کرل میں وہ یہ درس اس طرح  دیتے ہیں ۔

کرل  217  کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔

’’مصیبت اور برائی اس شخص کے قریب تک نہیں آتی جو راستی کا دامن تھام لیتا ہے ۔‘‘

تروولور کے اخلاقی  درس کی ایک اور مثال دیکھیے۔

کرل 103 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’کسی پر احسان کی امید پر احسان کرنا احسان کا مذاق اڑانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا یہ دنیا بادل کے احسان کا بدلا ادا کرسکتی ہے۔‘‘

اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ جو شخص حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتا ہے وہی سرخ رو ہوتا ہے اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی۔

ان کے علاوہ بھی تروکرل میں اخلاقیات پر مشتمل ایک ایسا خزانہ پوشیدہ ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاسکتی ہے۔  مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تروولور کی تصنیف میں کامیاب زندگی گذارنے کے ایسے اقوال موجود ہیں جن کی طرف محققین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 ماخذ و مصادر

l         مدراس میں اردو: نصیر الدین ہاشمی۔ حیدر آباد دکن1938

l         دکن میں اردو: نصیر الدین ہاشمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی1985

l         کرل: پروفیسر حسرت سہروردی ، ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی،  1965

l         تمل ناڈو میں اردو‘:علیم صبا نویدی۔تمل ناڈو اردو پبلی کیشنز، مدراس1998

l         ہسٹری آف تمل لٹریچر: ڈاکٹر شری نیواسن، تمل ورلچی ایکّم، چنئی

l         لفظ لفظ گہر: حضرت مختار بدری، تمل ولرچی ایکّم، چنئی

l         مخزن حیات : ڈاکٹر امان اللہ ایم۔بی۔ شعبہ اردو مدراس یونیورسٹی،چنئی2022

l         تاریخ ادب اردوتمل ناڈو: علیم صبا نویدی،تمل ناڈو اردو پبلی کیشنز، چنئی2017

 

Ayesha Siddiqua J

Asst Prof. Dept of Urdu

TAW Cellege for Women

Solur- 635814

Ambur (Tamilnadu)

Mob.: 9994468456

ayeshadoulath555@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

لوک گیتوں کی زبان، اترپردیش کے لوک گیت، مصنف: اظہر علی فاروقی

  اردو دنیا، مارچ 2025 لوک گیت زیادہ تر مقامی بولی میں پائے جاتے ہیں اور ایک پردیش میں کئی کئی بولیاں علاقائی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا...