اردو دنیا، جنوری 2025
اعزاز افضل قادرالکلام شاعر تھے۔انھوں نے کئی اصناف میں
طبع آزمائی کی۔ غزلیں، نظمیں، قطعات، مراثی، زخم صدا،ان پڑھ آندھی،قلم برداشتہ
اور بہہ رہی ہے فرات آنکھوں سے، کے نام سے منظرعام پر آچکے ہیں۔ ان کی مدت حیات،شاعری
اور شہرت کو دیکھتے ہوئے یہ سرمایہ بہت مختصر لگتاہے۔ ایسا لگتاہے انھوں نے کمیت
کے بجائے کیفیت پر توجہ دی ہے اور اردو کو مختصر مگر غیر معمولی شعری سرمایہ عطاکیا۔
اسی لیے ان کی شاعری کا کوئی ایساحصہ بمشکل ملے گا جسے غیر ضروری یا بھرتی کا قرار
دیا جائے۔ میری نگاہ میں اعزاز افضل بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی
غزلوں پر کلاسیکی اسلوب کا گہرااثر ہے۔ ان کی غزلوں میں لطیف جذبات،
وجدانی احساسات، انسانی نفسیات اور زندگی کی گہری حقیقتوں کا ادراک و انعکاس
ملتاہے۔
اچھی اور معیاری شاعری کی تین خوبیاں ہوتی ہیں۔ اول یہ
کہ اسے پڑھتے ہی طبیعت میں انشراح و انبساط پیداہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ قاری یا سامع
کے احساسات خفتہ میں بیداری آتی ہے اور تیسری یہ کہ وہ ذہنی سطح پر فکری ارتعاش
کا سبب بن جاتی ہے۔زخم صدا اور ان پڑھ آندھی کی شاعری یہ یقین دلانے میں کامیاب
نظر آتی ہے کہ اس کا شاعر فکری جہان اور شاعری میں احساس جمال کے رول سے نہ صرف
بہت اچھی طرح واقف ہے بلکہ ان کے استعمال پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ دبستان وحشت سے
تعلق، رنگ لکھنوی و پرویز شاہدی کی شاگردی کے باوجود اعزاز افضل نے اپنے لیے ایک
الگ راہ نکالی ہے جو کلاسیکی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ عصری حسیت اور نئی
آگہی کے تقاضے بھی پورا کرتی ہے اور یہ
راہ ان کی شاعری میں ابتدائی زمانے سے ہی ملنے لگتی ہے۔چنانچہ محض 15-16 سال کی
عمر میں لکھی ہوئی ان کی غزل کے اشعار میں نہ صرف ان کا اعتماد،تیور اور منفرد رنگ
دکھائی دینے لگتا ہے بلکہ تخیل اور لفظوں کے حسن استعمال کا وہ سلیقہ بھی ملتاہے
جو آنے والے دنوں میں ایک منفرد شاعر کی بشارت دیتا ہے۔ آپ بھی چند شعر دیکھیں ؎
نہ چھیڑو اس قدر مجھ کو کہ کھل جائے زباں میری
گزرتی جارہی ہیں حد سے اب خاموشیاں میری
بسے گا پھر سے گلشن میں مرا
اجڑا ہوا مسکن
نہ جائے گی نہ
جائے گی یہ کوشش رائیگاں میری
نہیں ممکن کہ مل جائے کسی سے میرا شعر افضل
انوکھا ہے بیاں
میرا ، نرالی ہے زباں میری
اور واقعی آنے والے دنوں میں ان کی شاعری نے اپنے
لہجے ،موضوعات اور اسلوب کی انفرادیت سے ایسا سماں باندھا کہ نہ صرف علامہ جمیل
مظہری،ل احمد اکبر آبادی اور محمد حسن جیسے اکابرین نے انھیں سراہا بلکہ
معاصرین میں سالک لکھنوی، علقمہ شبلی، قیصر شمیم، رونق نعیم اور مظہرامام نے
بھی ان کی انفرادیت کا اعتراف کیا۔ حرف صدا اور ان پڑھ آندھی کے مطالعے سے یہ حقیقت
سامنے آجاتی ہے کہ ایک زندہ اور متحرک شاعران کا خالق ہے۔اس نے ہمیشہ ادب کے صحت
مند رویوں کو لبیک کہاہے۔ا س نے ترقی پسندی کو بھی بنظر استحسان دیکھا اور جدیدیت
کے تازہ کار جھونکوں کو بھی خوش آمدید کہا۔ اس نے ہمیشہ مثبت ادبی نظریات کے لیے
اپنے دامن کو کشادہ رکھااور یہ یقین کیا کہ غزل میں زندگی کی دمک اور دھمک دونوں پیش
کی جاسکتی ہے۔ اعزاز افضل نے غزل میں جو کچھ لکھا ہے جذبے کی صداقت کے ساتھ
لکھاہے۔ ان کے احساسات کسی عالم تخیل کی چیز نہیں ہیںبلکہ ان کے آس پاس زندگی
کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔وہ کہتے ہیں ؎
مجھ سے پنہاں نہیں شہروں کی حقیقت افضل
لوگ ویرانوں میں رہتے ہیں در و بام کے ساتھ
اللہ راس لائے تمھیں یہ سبک روی
ہم بھی بہت تھے تیز خرام ائے مسافرو
مجھے قبلہ رخ بٹھا کر مرے ہاتھ اٹھانے والو
یہ یقین بھی دلادو کہ دعا قبو ل ہوگی
صداقتوں کی رہ گزر طویل ہے نہ مختصر
یہ قرب وبعد اپنے اپنے حوصلے کا کام ہے
عقل ہر راہ کو گل پوش کیے دیتی ہے
چاہتی ہے کہ کوئی نقش کف پا نہ بنے
طوفاں کو یورشوں سے بچاتے رہے چراغ
دامن کی سازشوں پہ کسی کی نظر نہ تھی
اعزاز افضل کے ان اشعار کو یا ان کے فن کو سمجھنے کے لیے
چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اعزاز افضل ترقی پسند تحریک کے ساتھ 1936 میں پیدا
ہوئے،ترقی پسندی ان کے دل ودماغ میں ساتھ ساتھ پلتی بڑھتی رہی، انھوں نے مشینی شہر
کو ظاہری رنگ وآہنگ کے ساتھ اقدار ی اور فکری طور پر بھی بدلتے ہوئے دیکھا۔ عملاً
اور پرجوش اشتراکی احباب کی دوہری انقلاب پسندی دیکھی۔ ذاتی زندگی میں انھیں اپنی
اہلیہ سے بے پناہ محبت تھی۔ یہ محبت عشق کے حدود کو چھو رہی تھی کہ 1960 میں ان کی
اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے یہ غم بڑے صبرو ضبط کے ساتھ برداشت کیا۔ انھوں نے
زندگی سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ شاید پوری طرح بر نہ آسکیں۔ وہ اصول پرست،
راست باز اور تصورات پر مرمٹنے والے شاعر ہیں اور دنیا کو اسی نگاہ سے دیکھنا
چاہتے ہیں۔ مگر افسوس دنیا شاعر کی نگاہ سے نہیں چلتی اس لیے شاعر کو حقیقت
سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ جھوٹ، بے ایمانی، ریاکاری، اخلاقی جرم اور داخلی کرب
کو اپنے شعروں کے پردے میں چھپانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے لہو سے کلام میں رنگ
بھرتاہے اور زمانے بھر کی تلخیاں اپنے دل ودماغ میں اتار کر اور اپنے آپ کو جلا
کر آبادیوں کو روشن کرتاہے۔احساس اور جذبے کی اس اندوہناک کیفیت کے بطن سے شاعری
کی روشنی پھوٹتی ہے جو معانی کے طلسمی خزانے بے نقاب کرتی ہے۔ اعزاز افضل کی شاعری
معانی کے ایسے ہی خزانوںسے مالا مال ہے۔وہ کہتے ہیں ؎
بڑا احسان ہے دارو رسن کا
میں اونچا ہو گیاہوں اپنے سر سے
مانا منز ل دور تھی ،رستے میں پیچ وخم بھی تھے
تم اکیلے تو نہیں تھے ساتھ آخر ہم بھی تھے
شام بلا کا سلسلہ اور طویل ہو تو ہو
جاگے ہوئوں کو رات کیصبح نے کیوں جگا دیا
علامہ شبلی نعمانی نے شعر کو ’مواد اور صورت ‘ کا
مجموعہ بتایا ہے۔ یعنی شعر میں بس دو چیزیں ہوتی ہیں مواد یعنی موضوع اور صورت یعنی
طرز ادا۔موضوعات میں جدت اور اچھوتے پن کی تلاش مشکل ہوتی ہے کہ شاید ہی کوئی فکر
،موضوع یا خیال ایسا ہو جو بیان نہ کیاگیاہو۔فکر کی جدت کا راز طرز ادا یا اسلوب بیان
کی جدت میں مضمر ہے۔ چنانچہ ہر بڑے شاعر نے اسلوب کی جدت سے فکر میں نیا پن پیدا
کرنے کی کوشش کی ہے۔غالب نے جب کہا تھا کہ ؎
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
ٍٍجو لفظ کہ غالب مرے اشعار میںآوے
تو اس کا اشارہ اسی جانب تھا کہ شاعراپنے ہر شعر میں
جہان معنی پیش کرنے کی کوشش کرتاہے۔اعزاز افضل نے اپنی غزلوں میں الفاظ کے
انتخاب و استعمال میں جو احتیاط برتی ہے وہ اسی طلسم خانۂ معنوی سے مربوط ہے۔
انھوں نے اپنی ہر غزل میں لفظوں کی حرمت کا خیال رکھاہے۔ انھوں نے نہ صرف الفاظ کی
اہمیت کو سمجھاہے بلکہ ان کی جذباتی، احساساتی سطح تک رسائی حاصل کی ہے۔ انھوں نے
الفاظ کونہ صرف گنجینۂ معنی کاطلسم بنایاہے بلکہ ان کے اندرون میں جھانک کراس میں
جہان معنی پیدا کیے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ الفاظ کا سپاٹ استعمال معنی کی دنیا
کو محدود کردیتاہے اور غزل کا شعر محض سادہ بیان یعنی Flat
Statement نہیں ہوتا۔ غزل کے شعر کی خوبی اس کی تہہ
داری ہے جو الفاظ کے ایمائی،اشاراتی اوررمزیہ استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اب درج ذیل
اشعار دیکھیے کہ اعزاز افضل نے اس میں جدت اسلوب سے معنی کے کیسے کیسے جہان پیدا کیے
ہیں ؎
دیکھا تو ہر جبیںپہ لکھا تھا خوش آمدید
آواز دی تو بند ہر اک دل کا در ملا
غربت میں جو کھلا ہوا زنداںکا درملا
بے خانماں یہ سمجھے کہ رہنیکو گھر ملا
دیکھنے والے کا انداز نظر تو دیکھو
اپنا چہرہ مرے چہرے پہ سجا دیتاہے
ان اشعار میں موضوعات نئے نہیں ہیں مگر شاعر کا
طرز اظہار نیا ہے۔ اس لیے شعروں میں ایک طرح کی جدت نظر آتی ہے اور قارئین کو یہ
اشعار اپنی طرف ملتفت کر لیتے ہیں۔افضل ان شاعروں میں ہیں جو جانتے ہیں کہ
الفاظ بجائے خود کچھ نہیں ہوتے،ان میں جان ڈالنا، انھیں زندگی کا لباس
پہنانا اور ان میںتہہ داری پیدا کرنا فنکار کا کام ہے۔افضل نے ان الفاظ کے بطن میںجھانک
کر ان کی حقیقت اور مزاج سے شناسائی حاصل کی ہے۔ ان کے بدلتے معانی اور کیف وکم پر
غور کیاہے اور تب زندگی کی سفاک حقیقتوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر شعری
اظہار کی زبان دی ہے۔اسی لیے ان کے الفاظ محض الفاظ نہیں رہ جاتے وہ نبض زیست
کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔ان کی شاعری میں زندگی کے کرب وبلا،انتشارو اختلال،جبر
وحوادث اور ستم کی جو زندہ تصویر یںملتی ہیں وہ ان کی لفظ شناسی کی ہی دین ہیں۔
یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ اعزاز افضل نے نئی طرز اور نئے اسلوب واظہار کی دھن میں
کبھی اشعار کو مغلق اور مشکل لفظیات سے گراں با رنہیں ہونے دیا۔ ترقی پسندی اور جدیدیت
کا دور دیکھ کر کچھ لوگ یہ خیال کرسکتے ہیںکہ ترقی پسند تھے اس لیے ان کی شاعری میںنعرہ،
پروپیگنڈاضرور ہوگا، یا جدیدیت سے متاثر
ہوئے تو اشعار کو چیستاں بنا دیتے ہوں گے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔اعزاز افضل نے شاعری
کے لیے نہ تو خطابی اور سادہ بیانیہ زبان استعمال کی ہے جس پر شعر برائے شعر کا
گمان ہو اور نہ ایسی علامتی و چیستانی زبان استعمال کی ہے کہ معنی کی تہہ داری اور
خیال کی پیچیدگی شعر کی ترسیلی قوت میں رکاوٹ بن جائے۔ افضل صاحب اپنے سادہ
اور سلیس اشعار میں بھی فصاحت کا وہ کمال پیش کرتے ہیں جس سے شعر کو شعر منثور کا
درجہ حاصل ہو جاتاہے۔مثال کے لیے یہ اشعار دیکھیے ؎
نیند میں بھی چادر کا اتنا پاس ہے تم کو
کچھ تو پائوں پھیلائو ،اس طرح نہیں سوتے
کیسی رات آئی ہے نیند اڑ گئی سب کی
منزلیںتھپکتی ہیںقافلے نہیںسوتے
اگرزحمت نہ ہو تو اک ذرا نیچے اتر آؤ
بلندی سے قدوقامت کا اندازہ نہیںہوتا
ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں لکھا ہے کہ اچھا شعر وہ ہے
جسے سن کر یہ محسوس ہو کہ ایسا ہم بھی کہہ سکتے ہیں مگر جب کہنا چاہیں تو
عاجز رہ جائیں اور شبلی نے انیس کی شاعری پرگفتگو کرتے ہوئے فصاحت کا درجۂ کمال یہ
بتایاہے کہ مصرعہ یا شعر کی صرفی ترتیب قائم رہے یعنی اس کی نثر نہ کی جاسکے۔ اب
اعزاز افضل کے مذکورہ اشعار دیکھیے۔ شاعر کی شائستہ بیانی اور سلاست نہ صرف
ان میںسہل ممتنع کی خصوصیات پیدا کررہی ہے
بلکہ انھیں شعر منثور کی صفات سے بھی مزین کر رہی ہے۔
اعزاز افضل کے مذکورہ اشعار سے یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی
چاہیے کہ انھوں نے غزل میں رمزیت، ایمائیت اور تہہ داری پیدا کرنے کے لیے پیکر
تراشی، محاکات، صنائع اور تشبیہات و استعارات سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے ان
سب کا استعمال غزل میں تغزل، تہداری اور معنویت پیدا کرنے کے لیے کیاہے مگر اس سلیقے
سے کہ شعریت اور فنکار ی مجروح نہ ہو۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے ؎
جب کسی دل میں نہ پائے بام ودر
شہر کو دشتِ بلا کہنا پڑا
روز ساحل کی جگہ منجھدار رکھ جاتاہے کون
ایک دریا ہر ندی کے پار رکھ جاتاہے کون
زندانیوں کے شور سلاسل کو کیا ہوا
خاموش کیوں ہو ،ائے درو دیوار کچھ کہو
جنوں کی آبلہ پائی کا حاصل لکھ دیا جائے
کسی زنداں کی پیشانی پہ منزل لکھ دیا جائے
اہل جنوں کا رقص مسلسل کب رکتاہے روکے سے
زندانوں میں شور سلاسل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
کل تک جو بادہ خوار تھے ہیں آج محتسب
اڑتی ہے خاک مئے کدۂ روزگار میں
ان اشعار میں ساغر،مقتل ،جنوں ،ستم ،لہو کی دھار،
منجھدار، خاک، دریا، بادہ خوار، مے کدہ وغیرہ جیسے استعارے اور ایون تصور،دشت بلا
،یاران قدح،جامہ دری، خارزارجنوں، شور سلاسل، جنوں کی آبلہ پائی، رقص مسلسل اور
دور شیشہ شکنی جیسی تراکیب حسن استعمال کے اعتبار سے نہ صرف نئی ہیں بلکہ احساسات
و جذبات کی تجسیم کرنے میں معاون بھی ثابت ہوتی ہیں۔غیر مرئی اشیا کی تجسیم کرنا
اور پھر ان میں تحرک پیدا کرنا خاصا جانکاہ عمل ہے۔ اس کے لیے استادی اور خلاقی کی
ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اعزاز افضل نے اپنے معاصرین میں سب سے الگ راہ نکالی ہے اور
اپنا نیا شناخت نامہ تیار کیاہے تو اس کی وجہ لسانی تازگی لیے ان کا اپنا اسلوب ہے
جو ان کی لفظیات اور زبان کے خلاقانہ استعمال سے پیدا ہواہے۔ان کے یہاں لسانی
تشکیلات کا گہر اشعور ملتاہے مگر اس شعورکا تعلق زبان کی توڑ پھوڑ سے نہیں ہے بلکہ
زبان کے اْس جدلیاتی نظام سے ہے جو فن پارے کو وسیع اور ہمہ گیر بناتاہے۔ اعزاز
افضل نے اپنی شاعری میں الفاظ، اصطلاحات اور تراکیب کو مہارت سے جدید پیکر عطا
کرکے غزل کی مروجہ فضا کو کسی حدتک تبدیل کرنے کی سعی کی ہے۔یہی خوبی ان کی غزلوں
میںیکرنگی اور سپاٹ پن کے بجائے بو قلمونیت اور تنوع پیدا کردیتی ہے۔
اعزاز افضل کی شاعری جہاں اسلوب اور لہجے کی سطح پر اپنی
انفرادیت کا احساس دلاتی ہے وہیں موضوعاتی اور فکری سطح پر بھی اپنی تازگی اور
توانائی کا احساس دلاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید دور کے انسان کی مجروح اور پیچیدہ
سائیکی کا گہرا اثر ہے۔ تنہائی، عدم تحفظ، زندگی کی بے معنویت، خوف کی نفسیات، مشینی
زندگی کی جبریت، عہدنو کی اضطرابی کیفیت، بنیادی ضرورتوں کا جبراور تہذیبی شکست وریخت
آزادی کے بعد عہدنو کے ایسے محرکات تھے جو ہر باشعور آدمی کے دل ودماغ کو الجھن
میں ڈال رہے تھے۔ اعزاز افضل جیسے فنکاروں نے ان باتوںکا کچھ زیادہ ہی اثر
قبول کیا اس لیے ان کی شاعری میں اس قسم کے محسوسات کا اظہار ملتاہے اور بعض جگہ
بڑی شد ومد کے ساتھ ملتا ہے۔ مگر ان کی فکر قنوطی نہیں ہے اس لیے ان کی شاعری
منفی رویوں کی شاعری ہر گز نہیں۔بلکہ یاس اور قنوطیت کے دھندلکے میں بھی امید کی
چاندنی چٹکاتی ہے اور زندگی کی بے معنویت کو تازہ معنویت عطا کرتی ہے ؎
زنداں میں سر کو دعوت زانو نہ دیجیے
دیوار ہی میں بنتاہے در،یہ نہ بھولیے
اے خیرہ سری نادم ہیں بہت آشفتہ بیانی پر اپنی
سورج کی ان الجھی کرنوںکو ہم گیسوئے جاناں کہتے ہیں
یعنی اگرچہ حالات مایوس کن ہیں، مسائل پیچیدہ اور عہد
الجھا ہواہے لیکن اسے اسی طرح سلجھایا جاسکتا ہے
جیسے گیسوئے جاناں۔انسان چاہے تو زنداں کی دیوار میں بھی اپنے سر کی ٹکر سے
دروازہ بنا سکتا ہے۔ انسان کی ہمت اور حوصلہ وہ طاقت ہے جو ہر مسئلے کو چٹکیوں میں حل
کرسکتی ہے۔ دراصل اعزاز افضل کو انسان او ر اس کی طاقت پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ
ارتقائے آدم اور عظمت انسان کے قائل ہیں۔وہ پستیِ آدم کو بھی رفعت انسان کہتے ہیں ؎
ہوتے ہیں ہزاروں خلد بریں ہر دانۂ گندم سے پیدا
اِس شان ِزوالِ آدم کو ہم
رفعتِ انساںکہتے ہیں
انسان کی سرشت میں ہے وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی
تلاش میں رہا ہے۔ انسان کا یہی جذبۂ ارتقاہے جو اسے منزل بہ منزل آگے بڑھا تا
رہا ہے۔تبھی تو اقبال نے کہاتھاکہ
؎
عروج آدم ِخاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہو اتارہ مہہ کامل نہ بن جائے
اعزاز افضل جب انسان کا یہ جذبۂ ارتقا دیکھتے ہیں تو
ان کی جبین عقیدت سلام کرتی ہے۔دیکھیے
؎
مری ارتقا کی منزل نہیں مہر وماہ افضل
ہے بلند کہکشاں سے مری شاخ ا?شیانہ
ایک کشت گندم میں کتنے خلد اگتے ہیں
آدمی کی پستی بھی کیا بلند پستی ہے
پا تو لیں ذرا قابو ،گردش ِزمیںپر ہم
اے فلک دکھائیں گے تجھ کو آسماں اپنا
خواب فروغ داغ دل دیکھ رہاتھا کل بشر
آج زمیں کے پائوں پر چاند نے سر جھکا دیا
احترام آدمیت کا یہ تصور کم از کم یہ ضرور ثابت کرتاہے
کہ اعزاز افضل ایک بیدار اور درد مند شاعر ہیں۔ وہ ایک خاص فلسفۂ حیات رکھتے ہیں
جو کہیں سے مستعارنہیں بلکہ ان کے ذاتی فکر و تدبر اور دردمند دل کا نتیجہ ہے اور
جس کی اساس عظمت آدم اور مثبت انداز فکر پر ہے۔ لیکن کمال فن یہ ہے کہ اپنے اِن خیالات
و افکار کااظہار کرتے وقت وہ رعنائی خیال، لطافت، شعریت اور تخلیقیت کا دامن
ہاتھوں سے نہیں جانے دیتے۔ فلسفیانہ خشکی او ر سپاٹ پن کا ان کے یہاں گزر نہیں۔
انھوں نے اپنے افکار اور اسلوب میںایک خوبصورت ہم آہنگی برقرار رکھی ہے جو ان کے
شعروں کو نہ صرف غنائیت اور موسیقیت عطا کرتی ہے بلکہ سطحیت اور سپاٹ پن سے بھی
دور رکھتی ہے۔
اعزاز افضل پر لکھنے والے اکثر ناقدین نے ان کی شاعری میں
عشق کے موضوع سے انکار کیاہے۔مگر میرا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی شاعری میں عشقیہ
موضوعات کم ہی سہی مگر ملتے ضرور ہیں۔ظاہر ہے ’عشق‘ غز ل کا اولین موضوع ہے ،اس کے
بغیر کوئی شاعر اپنی شاعری کی تکمیل کیسے کر سکتاہے۔بقول غالب ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
عشق ومحبت، ہجر و وصال اردو غزل کی وہ روشن اور بے مثال
علامات ہیں جن سے روایتی شاعری کا کوئی باب خالی نہیںہے۔ غزل میں ایسے جذبات و
احساسات کو لفظوں اور علامتوں کے پیکر میں کامیابی کے ساتھ ڈھالنا کوئی آسان کام
نہیں۔خوشی کی بات ہے کہ ترجیحی طور پر نہ سہی مگر اعزاز افضل نے یہ کام بخوبی
انجام دیا ہے۔ ان کے عشقیہ اشعار فرسودہ رومانی مفروضے سے یکسر الگ عشق کے عصری
اور روحانی تجربوں سے ماخوذ ہیں۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں ؎
جس قدر میں نے مٹائے تری یادوں کے نقوش
دلِ بے تاب نے اتنا ہی تجھے یاد کیا
آج اک عمر پہ یوں دل نے تجھے یاد کیا
دفعتاً نیند سے جیسے کوئی پیاسا جاگے
آج دل ہے کہ سر شام بجھا لگتاہے
یہ اندھیرے کا مسافر بھی تھکا لگتاہے
وہ کیا کریں گے جن کو نہیں اعتبار ِ حسن
ہم تو گزارلیں گے ترے انتظار میں
ہجر، یادیں، انتظار، اعتبار اوردل بے تاب جیسے عشق کے تلازمات کو اعزاز
افضل نے جس حسن وخوبی کے ساتھ برتاہے وہ کلاسیکی دروبست کا احساس دلاتا ہے۔ عشق
زندگی کا مرکزو محور ہے، اس کا احساس کسی شاعر کے یہاں نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے؟
اعزاز افضل کے یہاں بھی یہ جذبہ ہے مگر انھوں نے اپنے جمالیاتی احساس کے ذریعے
اس جذبے کی حدود کو وسیع کرتے ہوئے اس میںوسعت و بالیدگی پیدا کی ہے اور عرفان نفس
سے کام لے کرذاتی جذبے کو آفاقی و ہمہ گیر جذبہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا ان کی شاعری میں نہ
سطحی اور عمومی باتوںکا اظہار ہوا ہے اور نہ معشوق کے لب ورخسار، بوس وکنار اور اس
کی برائیوں کا بیان ہواہے۔ ان کے یہاںمعشوق ایک طاقت، امنگ اور امید بن کر
نمودار ہوتا ہے جوعاشق کو مضبوط اور حوصلہ مند بناتاہے تاکہ و ہ غم دوراں کو بہ
آسانی اٹھاسکے۔اسی لیے تو وہ کہتے ہیں
؎
یوں تو رہنے کو پریشانیِ خاطر ہی رہی
تیری زلفوں کو مگر میںنے بکھرنے نہ دیا
زندگی موت سے بدتر تھی پر ائے وعدۂ دوست
لذت کشمکش شوق نے مرنے نہ دیا
مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کی شاعری میںعشق کے انسلاکات
ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔
اعزاز افضل عشق،عظمت آدم اور انسان سے وابستہ موضوعات
کے علاوہ جن مضامین کو شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں وہ ہیں قدروں کا زوال، مادی
مہارت، زمانے کی بے چہرگی، مکروفریب، سیاست
کا سرد و گرم او رقول وفعل کا تضاد وغیرہ۔ وہ فکری اعتبار سے ترقی پسند تھے اور ایک
بہتر، پر امن، خوشگوار معاشرے کاخواب دیکھتے تھے۔مگر ہم جانتے ہیںکہ زندگی اور
معاشرہ عام انسان کے ساتھ اچھا سلوک کم ہی کرتاہے۔عام اور وضع دار انسان کی پوری
زندگی آزمائشوں میں گزرتی ہے۔ زندگی کے ایسے ہی تلخ تجربات نے افضل کی شاعری میں
ایک قسم کا طنزیہ لب و لہجہ پیدا کردیاہے۔ لفظوں کے فنکارانہ استعمال سے انھوں نے
ذہن ودل میں چھپی آگ کو نشتر کی طرح قاری کے ذہن ودل تک پہنچانے میں کامیابی
حاصل کی۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں
؎
یہ آپڑے ہیںکہاںتجربوں کی دھوپ میں ہم
اب اعتبار کسی چھائوں پر نہیں ہوتا
طوفاں کی یورشوں سے بچاتے رہے چراغ
دامن کی سازشوں پہ کسی کی نظر نہ تھی
اے زندگی بتا تجھے ٹھہرائیں کہاں ہم
تو آگئی ہے خانہ خرابوں کے شہر میں
وہ لوگ میری طرز سفر جانچ رہے ہیں
منزل کی طرف جن کو ہمکنا بھی نہیں آتا
اِن اشعار میں طنز کی کاٹ کہیں ہلکی اور کہیںتیکھی بہت
تیکھی ہے،جو آہستہ آہستہ احتجاج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔مگر خوبی یہ ہے کہ
طنزیہ و احتجاجی آہنگ کے باوجود شاعر نے کہیں بھی لطافت بیان کو مجروح ہونے نہیں دیاہے۔
طنز کا انسان کی انا سے گہرا رشتہ ہے۔انسان کی انانیت
اسے کسی کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیتی تو اس کے جذبات طنزیہ شکل میں سامنے
آتے ہیں۔اگر اعزاز افضل کی شاعری میںطنزیہ لب و لہجہ اپنے ہم عصر شعرا سے ہٹ کر
ملتاہے تو اس کی وجہ ان کی انفرادیت ہے جو پھیل کر انانیت تک پہنچ جاتی ہے۔مگر
افضل کی انا بیراگی نہیں ہے وہ خاص واردات اور خاص تجربات کی انا ہے۔ اس انا کے
اجمال میں باشعور، حساس اور صورت حال سے غیر مطمئن سماج کی تفصیل پوشیدہ ہے۔مثلاً یہ
اشعار دیکھیں ؎
خرد بھی اک مقام ہے ،جنوں بھی اک مقام ہے
جہاںسفر کی شام ہو وہیں مرا قیام ہے
ہم سے شوریدہ سری میں بھی نہ چھوٹا بانکپن
کج کلاہان خرد سے کج کلاہانہ ملے
وقت کی دھوپ ہمیں جذب نہ کرپائے گی
ہم وہ قطرے ہیں جو سورج کو نگل جائیں گے
چلو فلک سے ذرا رفعتِ زمیں دیکھیں
زمیں پہ رہ کے بہت اوجِ آسماں دیکھا
ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعزاز افضل کی شاعری
بظاہر بہت سلیس اور سیدھی سادی ہے مگر بین السطور بہت گمبھیر اور تفکیری ہے۔بقول
افضل ؎
فکر
پروردۂ آغوش زمیں ہے لیکن
میرے الفاظ میںڈھل جائے تو الہام لگے
اعزاز افضل کے شعری سرمائے میںنظمیں، قطعات اور مراثی
بھی ہیں، جہاںان کی فنکاری کی مزید جہتیں روشن ہوتی ہیں۔مگر میری گفتگو ان کی غزلیہ
شاعری تک محدود ہے۔ان کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتاہے کہ
اعزاز افضل کا شعر ی اظہار پختہ اور رچا ہوا ہے۔ کلاسیکیت، ترقی پسندی اور جدیدیت
کے امتزاج سے انھوں نے اعلیٰ درجے کی فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے لہجے اور افکار میں صلابت اور پختگی
ہے۔ وہ اپنی شاعری میں راست اور عریاں اظہار سے گریز کرتے ہیں مگر ابہام اور
رمز کی وہ صورت بھی نہیں جو شعر کو چیستاں بنا ڈالے۔اسلوب پرکشش اور اظہار
جاذب ہو تو شعر خود بخود فن کا اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے تو علامہ جمیل
مظہری نے ان کی ابتدائی شاعری کو ہی دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ’’ ان کے اشعار میں جو
رعنائی گہرائی اور گیرائی ہے وہ ان کی انفرادیت کی ضامن ہے‘‘ اور ممتاز نقاد محمد
حسن نے انھیں’اردو شاعری کی تیسری آواز‘ قرار دیاتھا۔خود اعزاز افضل کو اپنی شاعری
کی انفرادیت کا یقین تھا اسی لیے جب انھوں نے کہاتھا کہ ’’شاعری جب اپنی انتہا کو
پہنچ جاتی ہے تو ساحری بن جاتی ہے‘‘ تو یقینا ان کی نگاہ میں اپنی شاعری بھی
تھی جس نے ساحری کی منزل تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ وحشت کی وراثت،پرویز شاہدی کی
شاگردی اور سالک لکھنوی، علقمہ شبلی،قیصر شمیم اور رونق نعیم جیسے منفرد رنگ و
آہنگ والے شعرا کی موجودگی میں اپنے لیے ایک الگ راہ نکالنا اور دبستان
بنگال کی تاریخ میں اپنی واضح شناخت قائم کرناکوئی آسان کام نہیں ،مگر افضل کی
شاعری نے یہ کام کر دکھایاہے۔یہ الگ بات ہے کہ تاریخ وتنقید کے کوتاہ بیں مورخین
وناقدین کی نگاہیں ان کی تابناکی تک رسائی حاصل نہیںکر پاتیں۔مگر اب وقت بدل رہا
ہے، حاشیے پر لکھنے والے ناقدین و محققین بھی بیدار ہو رہے ہیں۔مجھے یقین ہے وہ
وقت ضرور آئے گاجب ایک دبستان تک محدود کردیے گئے اعزاز افضل جیسے معتبر، منفرد
اور ممتاز شعرا بھی شعرو ادب کی نمائندگی کریں گے اورمرکزی تاریخ میںاپنا نمایاں
مقام حاصل کریں گے۔ وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا۔اعزاز افضل نے یوں ہی نہیںکہا
تھاکہ ؎
خاک ہی سہی لیکن
ہے تو یہ جہاں اپنا
دیجیے زمیں ہم
کو، رکھیے آسماں اپنا
پا تو لیں ذرا قابو گردش زمیں پر ہم
اے فلک دکھائیں گے تجھ کو آسماں اپنا
Shahab Zafar Azmi
Dept of Urdu
Patna University
Patna- 800005 (Bihar)
Mob.: 8863968168
shahabzafar.azmi@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں