اردو دنیا، جنوری 2025
مولانا کانام نذیر احمد تھا۔ان کی وِلادت 1830 میں ضلع
بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہڑ پرگنہ افضل گڑھ نانہال میںہوئی۔ان کی تاریخ
پیدائش کے متعلق محققین میں اختلاف رہاہے لیکن 1830ہی راجح ہے۔ نذیراحمدکے نانا
قاضی غلام علی شاہ کے انتقال کے بعد خاندانی جھگڑے کی وجہ سے ان کی والدہ اپنے
سسرال بجنور منتقل ہوگئیں۔اس وقت نذیراحمد کی عمرمحض 4 برس تھی۔ نذیراحمدکاتعلق
بڑے علمی جاہ و حشمت والے گھرانے سے تھا،آپ کا رشتہ شاہ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے خلیفہ،
معروف بزرگ شاہ عبد الغفور اعظم پوری کے خاندان سے تھا۔ آپ کے والد مولوی سعادت
علی معلم اورباوضع بزرگ تھے انھوںنے اپنے سسرال میں ہی سکونت اختیارکرلی تھی۔ آپ
کے اجداد ایک زمانے تک مسندِ قضا پرفائز رہے لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ مالی
طورسے کمزورہوگئے۔ مولوی نذیر احمدکی خدمات ادبی،دینی اور ایڈمنسٹریٹو (آفیسر) تینوں
میدانوں میںہے،لیکن ادبی دنیا میںانھیں جو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ کسی اورمیدان میں
نہیںمل سکی، اگرچہ انھیں عالم،مقرر اورمترجم کی حیثیت سے بھی بڑے احترام کی نگاہوں
سے دیکھا جاتاہے۔ اردو ادب میںمولاناکی عظمت کئی پہلوؤں سے تسلیم کی جاتی ہے۔
اردومیںناول نگاری کی بنیاد ڈالی، سب سے پہلے خواتین کے لیے ادب کی تشکیل کی،
عورتوںکی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی اس طرح انھوں نے تانیثیت کا منشور بھی مرتب
کیا اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ ’تعزیرات ہند‘کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں
بہت مقبول ہوا، اس کے علاوہ قانونِ انکم ٹیکس اور قانونِ شہادت کا بھی ترجمہ کیا،
قرآن مجید کا بامحاورہ اور سلیس زبان میں اردو ترجمہ کیا، جو بہت مقبول ہوا، جس
کے متعدد اِیڈیشن شائع ہوئے اورآج بھی ہورہے ہیں۔ان کی ایک کتاب ‘ مطالب القرآن
’ اس میں اسلامی عقائد کی تشریح کی گئی ہے، ان کی کتاب الحقوق و الفرائض 3 جلدوں
پر مشتمل ہے جلد اول میں حقوق اللہ، جلد دوم میں حقوق العباد اورتیسری جلد میں
آداب و اخلاقیات سے بحث کی گئی ہے، انھوں نے ایک پادری کی کتاب ’امہات المؤمنین
‘ کے جواب میں ’امہات الامہ‘ لکھی۔ ان کے ناول مراٖ ۃ العروس، بنات النعش، توبۃ
النصوح، فسانہ مبتلا، ابن الوقت، ایامی اور رویائے صادقہ کو غیر معمولی مقبولیت
حاصل ہوئی۔ انگریزی حکومت نے انھیں 1897میںشمس العلماء کا خطاب دیا۔1902 میں ایڈنبرا
یونیورسٹی (برطانیہ) نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910 میں پنجاب یونیورسٹی
نے ڈی۔او۔ ایل کی ڈگری تفویض کی۔ریاست حیدرآباد نے انھیں غیور جنگ کے خطاب سے بھی
نوازاتھا جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔
نذیراحمدنے ابتدائی تعلیم
و تربیت اپنے والدِ محترم جناب مولوی سعادت علی سے حاصل کی۔وقت کے جید عالم دین
مولانا نصر اللہ خان جنھیں عربی زبان پرقدرت حاصل تھی اورآپ ڈپٹی کلکٹر کے عہدے
پر بھی فائز تھے،ان سے عربی،صرف و نحو اور منطق وفلسفے کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔نذیراحمدکو
محض نو برس کی عمرمیں تحصیل علم کی غرض سے دہلی بھیجاگیا۔ اورنگ آبادی مسجد کے
مدرسے میں داخل ہو گئے جہاںانھیںبہترین اساتذہ ملے،1857 کے خلفشار میں انگریزوں نے
اس مسجد بلکہ پورے محلے پنجابی کٹرہ کوہی نیست ونابودکردیا یہ پنجابی مسلمانوںکا ایک
خوشحال محلہ تھا۔اِس وقت پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن اسی جگہ پر واقع ہے۔وہ مسجد بھی
ریلوے کی توسیع کی نذرکردی دگئی۔ نذیراحمدنے اسی مسجدکے متولی، مستند اورمعتبرعالم
دین مولانا عبدالخالق محدث اورمیاں نذیر حسین محدـث
وغیرہ سے درس لیا۔ مولانا عبدالخالق کا انتقال 1845 میںہوگیا۔شاہ عبدالعزیز مکہ
ہجرت کرگئے۔اب اس ادارے کی آبیاری سیدالسادات، استادالاساتذہ میاں نذیرحسین محدث
دہلوی (1805-1902) نے ہی 1842 سے1857تک کی۔اوراس آب وتاب کے ساتھ اس مدرسے کی ذمے
داریاں سنبھالی کہ چاردانگ عالم میں اس کی شہرت نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑدیے۔
اس وقت پورے عالم اسلام میں علم حدیث کا اس سے بڑاکوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔یہ وہی
عہدزریں ہے جب نذیراحمدنے حصولِ تعلیم کی غرض سے اس ادارے کا رخ کیا۔
اردو،عربی اورفارسی پرتومولانا کومادری زبان کی طرح
قدرت حاصل تھی،اس کے علاوہ انھیں انگریزی، تیلگوبھی اچھی خاصی آتی تھی، قیامِ حیدرآبادکے
دوران مولانا نے تیلگوکتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں، اس کے علاوہ انھوںنے پنڈت ’کنج
من‘ سے باضابطہ سنسکرت بھی سیکھی تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد کی بیشتر کتابیں بہت مقبول
ہوئیں۔ ان کی کتابوں کا انگریزی کے علاوہ پنچابی، کشمیری، مراٹھی، گجراتی اوربنگلہ
وغیرہ زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔
دلی کالج میں کوئی تقریب گرم تھی اتفاق سے اسی دن ٹہلتے
ہوئے نذیراحمد دلی کالج جا پہنچ گئے۔ عربی کے ایک مشہور عالم مفتی صدرالدین آزردہ
(پ 1789، 16جولائی 1868)زبانی امتحان لینے
وہاں تشریف فرماتھے۔ بھیڑ میں شامل نذیر احمد پھسل کر گر پڑے۔ پرنسپل نے دیکھا تو بڑھ
کے دل جوئی کی اور یو نہی پوچھ لیا کہاں اورکیا پڑھتے ہو؟ نذیر نے جواب دیا
’’پنجابیوں کے کٹرے کی مسجد میں معلقات پڑھ رہا ہوں ( عہد جاہلیت کے عرب شعرا کے
قصائد کا ایک مجموعہ جو سبعہ معلقہ کہلاتا ہے)۔
پرنسپل صاحب نے موٹی سی کتاب کا نام سنا اور حیرت سے ان
کے چھوٹے سے قد کو دیکھا نذیر احمد کا ہاتھ پکڑا اور مفتی صاحب کے سامنے لے جا کے
کھڑا کر دیا اوران سے کہاں ’’مفتی صاحب یہ لڑکا کہتا ہے میں معلقات پڑھتا ہوں۔ ذرا
امتحان لے کر تو دیکھیں‘‘ مفتی صاحب کے سوالات کا نذیر احمد نے بڑے اعتماد کے ساتھ
جواب دیا۔ بالآخر پوچھا گیا ’’کالج میں پڑھو گے؟‘‘ نذیراحمدنے اپنے سابقہ حالات
کے پیش نظر سوال کیا ’’ یہاں مجھے کیا کیاکام کرناپڑے گا ؟‘‘ جواب ملا ’’پڑھنا
ہوگا۔ اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘ مولانا خوشی سے آمادہ ہو گئے۔ چار روپے مہینہ وظیفہ
مقرر ہوا۔ خود داخلہ لیا اور اپنے بھائی کو بھی داخل کرا دیا۔ دلی کالج میں انھوں
نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ اس طرح نذیر احمد 1845میںدلی کالج کی
عربی جماعت میں داخل ہوئے۔ اس زمانے میں سید احمد خاں فارسی، منشی ذکاء اللہ حساب
اور پیارے لال انگریزی کی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے۔ اب معاشی اورذہنی سکون کے
ساتھ علم حاصل کرنے کا موقع میسرآیا تو تیز رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کرنے
لگے۔اپنے شوق،محنت و لگن اورکوشش سے اپنی جماعت والوں میں سب سے ممتاز ہوگئے۔کالج
میں داخلے کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ دونوں بھائیوں کو آٹھ
روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اسی رقم میں اپنی گزربسر بھی کرنی تھی اور اپنے
خاندان کی کفالت بھی۔ 1854 میں ان کی تعلیم مکمل ہوتی اس سے پہلے ہی ملازمت کی فکر
دامن گیر ہوگئی۔
نذیراحمدنے اپنی پہلی نوکری کا آغاز بحیثیت ِمدرس، ضلع
گجرانوالہ کیا، مگر دہلی تہذیب کے پروردہ نذیر احمدکوپنجاب کی فضاراس نہ آئی
اوردوسری ملازمت کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بہرحال کانپور میں 80روپئے ماہوارپر
ڈپٹی انسپکٹرمدارس کی حیثیت سے ان کا تقررہوگیالیکن کیپٹن فلرسے ان بن کی وجہ سے
مستعفی ہوکردہلی آگئے اس دوران 1857کا دردناک خونی سانحہ وقوع پزیرہوا۔ندیراحمدنے
خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے انگریزی میںاچھی مہارت واِستعداد پیدا کر لی
اورسرولیم کے ایماں پرانھیں ڈپٹی انسپکٹرکے ساتھ ساتھ ترجمے کی ذمے داریاں بھی تفویض
کی گئیں۔ اس طرح انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے معرض وجودمیں آیا
جو سرکاری حلقوں میںبہت مقبول ہوا اور آج بھی استعمال ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ اسی کے
صلے میں آپ کو 1861 میں تحصیلدار مقرر کیا گیا اورکانپوربھیج دیاگیا۔اس کے علاوہ
انھوں نے قانونِ انکم ٹیکس اور قانونِ شہادت کا بھی ترجمہ کیا۔ بعدازاں ڈپٹی
کلکٹرکا امتحان اول نمبرسے پاس کرکے 1863 میں ڈپٹی کلکٹر ہوئے، گورکھپور، جالون
اوراعظم گڑھ وغیرہ میں اپنی ملازمت کرتے رہے۔
سر سالار جنگ اول،نظام دکن نے نذیراحمدکی شہرت سن کران
کی غیرمعمولی صلاحیت کے پیش نظر اورسرسید
احمد خاں کے توسط سے انھیں ریاست حیدر آباد دکن میںملازمت کی پیشکش کی۔ نذیراحمد
27 اپریل 1877 کو حیدرآباد پہنچے۔نواب محسن الملک کے یہاںمقیم ہوئے اور وہاں بحیثیت
ناظم بندوبست ان کا تقرر ہوا۔ یہاں ان کی تنخواہ 1250روپے تھی،انھیں دفاتر کا
معائنہ اور کار کردگی کی مفصل روداد پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ نذیر احمد نے بڑی
محنت و لگن سے کام کیا اس لیے انھیں ترقی ملتی گئی اوران کی تنخواہ 1750روپے
ماہانہ ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے بعدسمت شمال کے منصرم صدر تعلقہ دار بنادیے گئے۔یہاںانھوںنے
بہت سے عزیزو اقرباکو اہم مناسب اور عہدوںپرفائز بھی کروایا۔ سرسالار جنگ اول کے
آخری زمانے میں نذیر احمد مجلس مال کے رکن مقرر ہوئے۔ اس دوران انھوں نے نظام دکن
کے بچوں کو پڑھانے کی ذمے داری نبھائی۔اس طرح1877 سے 1885تک تقریبا آٹھ برسوںتک
مولوی نذیراحمد حیدرآباد میں اعلی عہدوںپرفائز رہے۔ سالار جنگ نظام حیدرآباد کی یکم
فروری کو وفات کے بعد وزارت و اقتدار کی کش مکش شروع ہوئی اور ہر طرف سازشوں کے
جال بچھ گئے۔ وہاںکے حالات تیزی سے بدلے تونذیراحمد بددل ہوکر 25 فروری 1885کو
مستعفی ہوکر دہلی آگئے۔ نظام سرکار کی جانب سے مولوی نذیر کی خدمات کے اعتراف میں
ماہانہ چھ سو روپے پنشن مقررکی گئی جو انھیںتاحیات ملتی رہی۔
حیدر آبادمیں ملازمت کے دوران تصنیف و تالیف کا جو
سلسلہ منقطع ہو گیا تھا دہلی واپس آنے کے بعد انھیں وہ موقع دوبارہ فراہم ہوا۔
سبکدوشی کے بعد مولوی نذیراحمد نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کردی۔ اس
کے بعد ان کی ناول نگاری کا دوسرا دور شروع ہوا اور یکے بعد دیگرے چار ناول
(محصِنات یا فسانہ مبتلا، ابن الوقت، ایامی اور رویائے صادقہ) لکھے۔ انھوں نے علی
گڑھ تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سرسید اور علی گڑھ تحریک سے ان کے روابط
بہت پرانے تھے۔ مولوی نذیراحمدنے میدانِ خطابت میںاپنی بلند آہنگی، مسحورکن آواز،علمی،اصلاحی
انداز اورپرجوش خطابت سے عوام و خواص کو مسحور کیا۔ نذیر احمد کے خطبات، ان کی غیرمعمولی
ذہانت،وسعت معلومات و مطالعہ، حقیقت پسندی اور زمانہ شناسی ان کی خطابت کا طرۂ
امتیاز ہیں۔
اردو ادب میں وہ ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
ان کی کتابیں : مراۃالعروس، بنات النعش،
توبۃ النصوح، فسانۂ مبتلا، ابن الوقت، ایامی اور رویائے صادقہ کو غیر
معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ذیل میں ان کی اہم تصانیف کا مختصراورجامع تعارف پیش کیا
جارہا ہے۔
مراۃ العروس (1869)
اردوزبان کا پہلا سب سے مشہور ناول ہے۔مولوی نذیراحمد دراصل اپنی بچیوں کی تربیت
کے لیے ایک ایسی کتاب تحریر کرناچاہتے تھے جسے پڑھ کر ان کے اخلاق و کردار میں
شائستگی اور اعمال میں درستگی پروان چڑھ سکے۔اسی مقصد سے انھوں نے قلم برداشتہ
لکھنا شروع کیا اور اپنی بڑی بیٹی سکینہ کو دوچار صفحے لکھ کردے دیتے اور جب وہ
اسے پڑھ لیتیں تو مولوی صاحب آگے لکھ کردے دیتے
اور جب یہ کتاب اپنے تکمیل کوپہنچی تو اردو میں ناول نگاری کی ابتدا ہوچکی
تھی۔اس ناول میںدہلی کے متوسط شریف مسلمان گھرانوں اوران کی مستورات کے سماجی اور
اخلاقی حالات کا مفصل حال پیش کیا ہے۔اس ناول کامقصد مسلمان بچیوں کی اخلاقی اور
امورخانہ داری میں اصلاح ہے۔ناول کی خصوصیات میں عورتوں کی امتیازی زبان اور کردار
نگاری ہے۔ اس ناول کے کردار اکبری اور اصغری آج بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اس کے
اہم کردار: اکبری، اصغری،دور اندیش خان، خیراندیش خان، اکبری اور اصغری کی ساس،
ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل۔ سیٹھ ہزاری مل، تماشا خانم، حسن
آراء، جمال آرا، شاہ زمانی بیگم، سلطانی بیگم، سفہن، جیمس صاحب،کٹنی وغیرہ ہیں۔نذیر
احمد نے اپنے ناولوں میں اس بات کا پورا التزام کیاہے کہ قصہ سبق آموز ودلچسپ
ہو۔ساتھ ہی گھریلومسائل، امورخانہ داری اور رشتوںکی نفسیات سے متعلق اصلاحات ممکن
ہوسکیں۔ ’مراۃالعروس ‘ کا انگریزی ترجمہ
1903 میں لندن سے شائع ہوا۔ حکومت نے اس ناول پرمولانا کو ایک ہزار روپے کے انعام
سے نوازا تھا۔
بنات النعش(1873) نذیراحمدکا دوسراناول ہے یہ دراصل
’مراۃ العروس‘ کا دوسرا حصہ ہے جس کانام ’بنات النعش‘ہے۔ اس میں نذیر احمد کا وہی
انداز،وہی زبان،وہی موضوع ہے۔اس کا مرکزی کردار حسن آرا ء ہے، جو اصغری کے قائم کیے
اسکول میں تعلیم پاکر زندگی میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ اس ناول کے ذریعے نذیر احمد
نے خانگی زندگی میں عورتوں کی قدروقیمت اور مردوں کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں
ان کے کردار کی اہمیت کوواضح کیا ہے۔اس کے علاوہ اس کردار کے ذریعہ نذیر احمد نے
معلومات عامہ کی تعلیم بھی دی ہے۔ مراۃالعروس کا مرکزی کردار اصغری خانم نے بچیوں
کی تعلیم و تربیت کاذمہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھر پر ہی انھیں مختلف علوم اور امور
خانہ داری سے متعلق تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔اس ناول میں نذیر احمد نے تعلیم
نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔اس میں ناول نگار نے مختلف سائنسی مضامین مثلاً
رنگوں کی خصوصیات، زمین کا حجم، علم التاریخ، علم الجغرافیہ، اجرام فلکی وغیرہ سے
متعلق معلومات کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے۔
توبتہ النصوح(1877)تیسرا ناول ہے۔اس ناول کومولوی نذیر
کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا موضوع اولاد کی تربیت ہے جس میں واضح کیا گیا
ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ ناول
مکالمے کی شکل میں ہے۔اس ناول میں گھریلو ناچاقیوں کو ختم کرنے اور اپنے بچوں کو کیسے
راہ راست پر لائیں، اس کی طرف واضح اشارے موجود ہیں۔ کتاب بارہ فصلوں پر مشتمل ہے۔
ہر فصل کاعنوان الگ ہے۔مقصدیت سے بھرپور اس ناول میں وعظ،پند ونصیحت اور بیان پر
زور زیادہ ہے۔ ناول کا مرکزی کردار نصوح خواب میں اپنی موت اور اپنا حشر دیکھتا
ہے،بیدار ہونے پر یہ کیفیت اس پر غالب آجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر اور
معاشرے کی اصلاح کے لیے کیاکیا جتن کرتا ہے،وہ اس ناول کا موضوع ہے۔ 1884 میں ’توبۃ
النصوح‘ کا ترجمہ سر ولیم میور کے دیباچے
کے ساتھ شائع ہوا۔
’
فسانہ مبتلا‘ 1885(محصِنات،اصل نام) نذیر احمد کا چوتھا
مشہور معاشرتی اوراصلاحی ناول ہے۔اس میں پراناجاگیر دار طبقہ دکھایا گیا ہے جس کی
مضبوط علامت غیرت بیگم ہے۔مبتلا جو اس طبقے کی نمائندگی اپنے عیاش رویے سے کرتا
ہے۔’ہریالی ‘رذیل پیشے سے تعلق رکھنے کے باوجودسلیقے میں غیرت بیگم سے بہتر ہے۔ا س
ناول میںنذیر احمدنے ذات پات کاجاہلانہ نظام اورایک سے زیادہ شادیوںکے مضر اثرات
ومسائل کو بڑے سلیقے اور منطقی انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ماہرحکیم و نباض کی طرح
معاشرے کی تمام خرابیوں اورمسائل کی حقیقت کوواضح کرتے ہیں۔جہاں’ایامی‘ میں بیواؤںکے
نکاح اوردوسری شادی کی ضرورت پرزوردیتے ہیںوہیں اس ناول میں بلاوجہ تعدد ازدواج کی
سرزنش کرتے ہوئے اس کی خامیوں اور منفی اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ اِس حقیقت کوبھی
واضح کرتے ہیں کہ شادی کی بلاضرورت خواہشات جنسی بے راہ روی ہے۔ اس ناول میں نذیر
احمد نے نچلے متوسط طبقے کی پیشکش کے ساتھ ان کی اصلاح چاہی۔وہ نچلے اور بالائی
طبقے کے درمیانی فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے۔مبتلا اور عارف اس ناول کے کلیدی کردار
ہیں جن کے درمیان بحث و مباحثے کے ذریعے نذیر احمد نے اس شرعی مسئلے کی عصری معنویت
کوواضح کیا ہے۔مبتلا عقد ثانی کے حق میں تمام تر شرعی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے جب
کہ عارف اس سے اختلاف کرتا ہے اور اپنے دلائل پیش کرتا ہے۔ ناول کچھ اس انداز سے
آگے بڑھتا ہے کہ مبتلا کا عقد ثانی ہوجاتا ہے اور مروجہ سماجی پس منظر میں اس کے
برے نتائج سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ناول قاری پر یہ تاثرقائم کرتا ہے کہ کثرت
ازدواج میں شرعاً کوئی عذر نہ صحیح مگر سماجی و معاشی نقطہ نگاہ سے اس کی برائیوںسے
ہوشیاررہناضروری ہے اوربلاضرورت دوسری شادی سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
ابن الوقت1888’ابن الوقت‘ نذیراحمدکا پانچواں اور بہت ہی
مشہور ناول ہے،جس میں مغربی تہذیب و تمدن کی نقالی پر طنز کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں
کے خیال میں اس میں سر سید احمد خان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔مگر ڈپٹی نذیر
احمد نے اس کی تردید کی ہے کیوں کہ وہ خود سر سید کی تحریک سے نہ صرف متاثر تھے
بلکہ سر سید کے مشن میں ان کے معاون رہے بلکہ اس کی تبلیغ اور ترویج کے لیے ہمیشہ
سرگرم رہتے تھے۔وہ سر سید کی تمام علمی کاوشوں کے قدرداں تھے اور مسلم ایجوکیشنل
کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اہم قومی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ بنیادی طورپر اس ناول میں
ابن الوقت کی کہانی بیان کی گئی ہے جو انگریزی تہذیب و تمدن کا دل دادہ ہے، تقلید
مغرب کو باعث شرف جانتا ہے۔ وضع قطع، نشست و برخاست،گفتار و کردارہرپہلوسے اس کی
شخصیت مغربی معاشرے کی چلتی پھرتی تصویر نظرآتی تھی۔ یہ ناول دراصل 1857 کی تحریک
آزادی کے پس منظر میں لکھا گیاہے۔اس تحریک کے دوران جہاں بہت سے ہندوستانیوں
خصوصاً مسلمانوں پر انگریزی حکومت کا عتاب نازل ہواوہیں بہت سے صاحب اقتدار بھی اس
کی چپیٹ میں آئے۔ان ہی میں ایک افسر مسٹر نوبل ہیں جو انتہائی زخمی حالت میں ابن
الوقت کومل گئے اور وہ ان کی اچھی تیمارداری کرکے مسٹر نوبل کی جان بچاتا ہے۔اس
خدمت سے خوش ہوکر ابن الوقت کو جاگیر و ملازمت اور منصب عطا کیا جاتا ہے۔ ابن
الوقت اس کے بعدپوری طرح مغربی معاشرت کی تقلیدمیںگم ہو جاتا ہے۔ لیکن نوبل صاحب
کے ولایت جاتے ہی بعض وجوہات کی بنا پر حکومتی افسران کے عتاب کا شکار ہوجاتا ہے۔
انگریزی تہذیب ومعاشرت کی اندھی تقلید اخراجات میں اضافے کاسبب بن جاتاہے۔ اورقرض
کی وجہ سے جائداد تک کو فروخت کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ ’ابن الوقت‘ ایک مکمل
معاثرتی ناول ہے، اس ناول کے ذریعے یہ واضح پیغام بھی دیاگیاہے کہ علوم وفنون سے
استفادہ اپنی جگہ ضروری ہے لیکن مغربی معاشرت سے بے جامرعوبیت اوراندھی تقلیدحماقت
ونادانی ہے۔
ایامیٰ(1891)نذیراحمدکاچھٹا ناول ہے۔آزادی بیگم اِس
ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ایک روشن خیال خواجہ صاحب کی بیٹی ہیں۔ ماں ہادی بیگم
قدامت پسند عورت ہے جسے اپنی بیٹی کی بنیادی اور فطری ضرورتوں سے زیادہ سماج کے
نام نہاد رسوم کی فکر دامن گیررہتی ہے۔ لفظ ایامیٰ سورۃ نورکی آیت 32سے لیاگیاہے
’اَیامیٰ‘ کا لغوی معنی مردِ بے زن یا زنِ بے مرد یعنی غیرشادی شدہ کے ہیں۔یہاں اس
لفظ سے بیوہ مراد لی گئی ہے۔اس ناول میں نذیر احمد نے ایک مسلمان بیوہ کی کہانی کو
بنیاد بناکربیواؤں کی دردناک زندگی اوران کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے اس کا حل بھی
پیش کیاہے۔ یہ اصلاح معاشرہ پرمبنی یہ ناول ہے۔
مولوی نذیر احمد نے بیوہ عورت کے تمام مسائل کو ’آزادی
بیگم‘ کی زبانی بیان کیا ہے۔ ناول میں نذیر احمد نے عورت کی پیدائش سے لے کر موت
تک کی داستان کو نفسیاتی انداز میں عورت کے احساس ونفسیات کو حقیقی پیرائے میں بیان
کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نذیرکو سفاک حقیقت نگاری پر ملکہ حاصل ہے۔مولوی نذیر
نے اس بات کوبھی بخوبی واضح کیاہے کہ شوہر کے انتقال کے ساتھ عورت کی جنسی ضروریات
کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔نکاح ثانی کو نذیر احمد نہ صرف بیواؤں کے مسائل کے حل کے
طور پر پیش کیاہے اور عورتوں کو جائداد میں باضابطہ حصہ نہ ملنے، شادی کی مشکلات
وغیرہ مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
نذیر احمد نے انگریزی اور
ہندوستانی سوسائٹی کا موازنہ بھی کیاہے۔ اس ناول کا پلاٹ گٹھا ہوا ہے، مگر بعض جگہوں
پر’ آزادی بیگم‘ کی تقریر نے اس کے توازن
کو مجروح کردیا ہے۔کردار نگاری میں ڈپٹی نذیر نے مختلف طرح کی فنی تدبیریں اختیار
کی ہیں۔ کبھی انھوں نے خود کرداروں کا تفصیلی تعارف کرایا تو کبھی کرداروں کے مزاج
اور ان کی خاصیتوں پر روشنی ڈالی۔
’رویائے
صادقہ‘1894ڈپٹی نذیر احمد کا ساتواں اور آخری ناول ’رویائے صادقہ‘ ہے۔ اس ناول میں
مرکزی کردار صادقہ ہے جو سچے خواب دیکھتی ہے۔
ناول کی ہیروئن صادقہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہوجاتی ہے کہ اس پر جنات کا
اثر ہے۔اسی وجہ سے بائیس برس تک اس کی شادی نہیںہوپاتی۔بالآخر علی گڑھ کالج کے
طالب علم سید صادق سے اس کا رشتہ طے پاتاہے۔ ناول کا اہم ترین کردارصادق ہر مسئلے
کو عقلی دلائل کی بنیاد پر حل کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ بے جا تعقل پسندی کی وجہ سے
صادق مذہب کے سلسلے میں الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔اسی دوران صادقہ ایک ایسا خواب
دیکھتی ہے جس خواب میں ایک بزرگ صادق کے تمام سوالوں کا جواب دیتے ہیںاور اس کا
ذہن الجھنوںسے نجات پاجاتا ہے۔ اس ناول کا مقصد مسلم معاشرے میںموجودغلط رسوم
وعقائد کی اصلاح ہے۔
ڈپٹی نذیراحمدکے ناولوںکا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ وہ
بامقصداصلاح کے ذریعے مردوزن میںتعلیم کوعام کرکے ایک بہترین مثالی معاشرے کی تشکیل
چاہتے تھے۔ ان کے تمام ناول اصلاحی اوربا مقصد ہیں۔ نذیراحمد کے ناول زندگی کارشتہ
ادب سے اورادب کا رشتہ زندگی سے استوار کرتے ہیں۔ ان کے ناولو ںمیں زندگی کے مسائل
کا حل نظر آتاہے اور قاری کوان کے ناول سے افسانوی لطف وانبساط بھی حاصل ہوتا ہے۔
متوسط طبقے کے گھرانوں کی جتنی سچی اور بے لاگ تصویران کے ناولوںمیں نظرآتی ہے کہیں
اور ملنا بہت مشکل ہے۔ اردو ناول نگاری کے موجدنذیراحمدکے سامنے ناول کے فنی اصول
و قوائدنہیںتھے یعنی اس وقت تک ناول کے فن اوراصول کا تعین نہیں ہواتھا اس لیے نذیراحمدنے
اس صنف کواپنی فہم و فکر کے مطابق ایک مخصوص سمت عطا کی۔ معاشرے کی بد اخلاقی،بے
راہ روی، مغرب کی اندھی تقلید،مذہب سے دوری، شادی بیاہ،تعلیمی مسائل اور اولادوں کی
تربیت وغیرہ مضامین کوموضوع بحث بناکرناول کی شکل میںادب اورسماج کی غیرمعمولی
خدمت سرانجام دی۔آج بھی نذیر احمد کے ناولوں سے نئی نسل عبرت حاصل کر سکتی ہے اور
بلاشبہ عصر حاضر میں بھی نذیر احمد کے ناولوں کی معنویت مسلم ہے۔ ان کی ایک اہم
کتاب امہات الامہ بھی ہے جس کا تعارف مناسب معلوم ہوتاہے۔
’امہات
الامہ‘1897 پادری معظم احمد شاہ شائق کی
کتاب’ امہات المومنین ‘کے رد میں لکھی اہم کتاب ہے۔مولوی نذیر کی زندگی کی یہ آخری
تصنیف ہے۔ مذکورہ کتاب میں پادری نے ازواج مطہرات کے کردارکشی کی تھی۔ مولوی نذیر
نے امہات الامہ میں اسی کتاب کا مفصل جائزہ لیا ہے اور علمی اورعقلی تنقید کی روشنی
میں مسیحی پادری کے اعتراضات کا معقول جواب دیا۔
تاہم انھوں نے بعض جگہوں پر مقدس ہستیوں کے ناموں کے
ساتھ ضروری آداب والقاب نہیں لکھے اور بعض فقرے جوکہ لسانی اعتبار سے درست تھے لیکن
انھیں ہتک آمیز سمجھ لیا گیا۔نتیجتاً کتاب شائع ہوتے ہی دہلی کے مسلمانوں میںاس
پرغم وغصے کا ماحول بن گیا۔
نذیر احمدکی تحریر و تقریرکا اسلوب سادہ، رواں، بے تکلف
وبے ساختہ ہے۔ان کا اندازمکالماتی ہونے کے ساتھ ساتھ بامحاورہ بھی ہے انھیںعورتوںکی
زبان لکھنے میں کمال کی مہارت حاصل تھی۔ نذیرکی لفظیات اوراندازبیان میںدہلی کی ٹھیٹ
ٹکسالی زبان اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جلوہ گرنظرآتی ہے۔نذیراحمدکی تحریروں میں
محاورات کے عمدہ اوربرملااستعمال کے سبب عمدہ تاثیرپیداہوگئی ہے لیکن کئی دفعہ
محاورات کی بہتات سے ان کی زبان غیررواں اور بوجھل بھی ہوجاتی ہے۔ اس دورکی مناسبت
سے عربی فارسی لفظیات کے بکثرت استعمال کی وجہ سے بھی کئی دفعہ ان کی تحریر ادق
ہوجاتی ہے۔ نذیراحمد کا اصل کمال یہ ہے کہ انھوںنے مافوق الفطری رنگوں،کرداروں
اورفضاؤں سے الگ سے گِرد وپیش کی دنیا سے زندگی کے وہ حقیقی کردار جو قابل اعتنا
نہیں تھے انہی کرداروںمیں حقیقت واصلیت کا رنگ بھرااورایسی شاہکارافسانوی دنیا تخلیق
کی جس کے سب گرویدہ ہوگئے۔یہ بھی انہی کا کمال ہے کہ جب ساری دنیا بادشاہوں،
شہزادوے، شہزادوں، جنوں اور پریوں کی خیالی دنیاکے قیدی تھے۔اہل علم اورعوام و
خواص ابھی تک مقفیٰ ومسجع عبارتوںکے سحرمیںتھے،حکومت بدل رہی تھی بادشاہ غلام
ہورہے تھے ایسے میں نذیر احمد نے مذہبی پیرائے میں عوام کو زندگی سے جوڑنے کی کامیاب
کوشش کے لیے جس زبان وبیان کی ضرورت تھی ڈپٹی نذیراحمدنے اس کا استعمال کیا۔ڈپٹی
نذیر احمد کی انشاپردازی اپنے عہدکے ادیبوںمیں سب سے زیادہ مضبوط انداز میں اپنی
بات کہنے کا سلیقہ رکھتی ہے۔ان کی تحریرو تقریر ظرافت وزندہ دلی کے جواہرات سے پرہیں
جو اکثر آپ کوزیرلب مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ساتھ ہی وہ اپنی تحریرو تقریرمیں
طنز سے بجھے ہوئے تیروںکو چلانے سے وہ ہرگز نہیں چوکتے۔
نذیر احمد نے بہت سی علمی اورمذہبی کتابیں بھی تحریرکی
ہیں ساتھ ہی انھوںنے بہت سے عمدہ تراجم بھی چھوڑے ہیں۔وہ دور جب کہ وطن عزیز مغربی
علوم و فنون سے واقف ہی ہورہاتھااور دوسری زبانوں سے ترجمے کے لیے اصطلاحات
موجودنہیں تھیں۔نذیر احمد نے انگریزی کتابوںاور علمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کیاجبکہ
ان کے پاس تراجم کی روایت موجودنہیں تھی پھر بھی جس حسن و خوبی سے انھوں نے ترجمہ
نگاری کے کام کو سر انجام دیا وہ غیرمعمولی ہے۔مولانا کی عربی، فارسی، انگریزی
اوردوسری زبانوں پر دسترس نے انھیں انگریزی کواردو اصطلاحات کے قالب میںڈھالنے میںمددکی۔
ان کی علمی عظمت واہلیت اوربیان پران کی قدرت ترجمہ قرآن میں بھی دیکھی جاسکتی
ہے۔ انھوں نے قرآ ن مجید کا آسان اوربامحاورہ ترجمہ 1805 میں کیا۔ ڈپٹی صاحب کے
ترجمے میں محاوروں کی بہتات ہے، ان کی کثرت، کبھی کبھی حسن کی بجائے عیب بن گئی۔ عربی
اور فارسی الفاظ کا استعمال اس دور کی مناسبت سے بکثرت ہواہے۔ ایک بہترین ترجمہ
ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس کی لاتعداد اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے جو آج تک
طبع ہورہے ہیں۔روزنامچہ مصائب غدر’ ولیم اڈوارڈس‘ کی سرگزشت 1857 ہے جو اس نے انگریزی
میں روزنامچہ کی حیثیت سے لکھ کر چھپوایاتھا جس کا ترجمہ بھی ڈپٹی نذیر احمد نے
مصائب غدر کے نام سے کیا ہے۔ جہاںمولوی نذیراحمدنے ’تعزیرات ہند‘ کے نا م سے(انڈین
پینل کوڈ) بہترین ترجمہ کیا۔اس اہم کارنامے پر انھیں ہزار روپے کا انعام بھی دیاگیا،ا
س کتاب کے گیارہ ترجمے ہوئے لیکن نذیراحمدکا ترجمہ سب سے بہترقرار پایا۔وہیں،ضابطہ
فوجداری،قانونِ انکم ٹیکس1861،قانونِ شہادت 1863
اور سموات 1876 جیسے اہم ترجمے پیش کرکے مولانا نے عوام وخواص کے لیے بڑا
کام سرانجام دیا۔ اس کے علاوہ مولوی صاحب نے بہت سی درسی اور مذہبی کتابیں تحریرکیں
جن میں سے کچھ کتابیں اس طرح ہیں ’مواعظ حسنہ‘ الحقوق و الفرائض(تین جلدیں)
اجتہاد، منتخب الحکایات،تاریخ دربار تاج پوشی،مذہبی اور درسی کتابوں میں چندپند،
نصابِ خسرو، صرفِ صغیر، مبادی الحکمت، رسم الخط، مایغنیک فی الصرف، غرائب القرآن
ساتواں جہازی سائز ایڈیشن، اتمام حجت، اجتہاد، ادعیۃ القرآن، دہ سورۃ، ہفت سورۃ،صرف
صغیر، رسم الخط، مبادی الحکمت، (مبادیات منطق پرمختصر رسالہ) نصاب خسرو (الفاظ یادکرنے
کی تدبیرکے لیے اٹھائیس صفحوںپرمشتمل نظم )۔ اس کے علاوہ بہت سے لیکچر جن کی تعداد
44 بتائی جاتی ہے دہلی اورلاہورسے متفرق اوردوجلدوںمیںشائع ہوئے۔ بڑے عمدہ موضوعات
پران کی تقریریںہیں۔ ان کے اندر بہت سی خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی تھیںلیکن ان
کی پوری زندگی طالب علموں اور علمی کاموں کے لیے وقف تھی۔کتابیں نہیںتھی توخودتیارکیں۔عوام
و خواص اوراساتذہ کے لیے مثالی شخصیت تھے۔مولوی نذیراحمد پر بالآخر دائیں جانب
فالج کا حملہ ہوا، حکیم اجمل خاں نے ان کاعلاج کیا لیکن آپ 3مئی کی درمیانی رات
جمعہ کے دن1912کو دہلی میں وفات پا گئے اورنئی دہلی ریلوے اسٹیشن اورنبی کریم دہلی
سے قریب’باقی باللہ‘ قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
حوالہ جاتی کتب
1 آثارالصنادید:
سرسیداحمدخان
2 اردو
کا پہلا ناول نگار:اویس احمد ادیب بی اے(آنرز) ہندوستانی اکیڈمی 1934 الہ آباد
3 حیات
النذیر: سید افتخارعالم بلگرامی طباعت
1912
4 ڈپٹی
ندیر احمد (کتابیات):ڈاکٹرافتخاراحمدصدیقی
5 ڈپٹی
مولوی نذیر احمد کی علمی خدمات: ڈاکٹر
ماجد الاسلام
6 ڈپٹی
نذیر احمد کی کہانی :مرزافرحت اللہ بیگ
7 نذیراحمد(ادب
کے معمار):نورالحسن نقوی، ساہتیہ اکادمی 1984
8 واقعات
دارالحکومت دہلی:بشیرالدین احمد دہلوی
9 نذیراحمدکے
ناول:ڈاکٹراشفاق محمدخاں1979 مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی
Dr. Mohammad Adam
Assistant Professor (Contructual), Dept
of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Mob.: 9871716440
adam904@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں