اردو دنیا، جنوری2025
ہندوستان کی قدیم تہذیب مصر، عراق و عرب اور یونان کی
تہذیبوں سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس کی روایات اس وقت تک مسلسل برقرار رہی ہیں،
ماہرین آثارِ قدیمہ کی آمد سے قبل مصر یا عراق کے کاشتکار کو اپنے آبا و اجداد
کے تمدن کا کوئی علم نہیں تھا اور یہ بھی مشکوک ہے کہ اس کا یونانی ہمعصر بھی قدیم
اینتھس کی شان و شوکت کے متعلق خواب جیسے خیالات کے علاوہ بھی کچھ رکھتا تھا،
دونوں ہی ملکوں میں ماضی سے تقریباً مکمل انقطاع رہا، برعکس اس کے یورپ کے جو سیاح
ابتدا میں ہندوستان آئے وہ ایک ایسے تمدن سے روشناس ہوئے جسے اپنی قدامت کا پورا
شعور تھا۔ یہ ایک ایسا تمدن تھا جسے اپنی قدامت کے سلسلے میں غلو تھا اور جس کو یہ
غرہ تھا کہ اس میں کئی ہزار سال سے کوئی بھی اصولی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے آج
بھی ان قصور اور کہانیوں میں جو کہ معمولی سے معمولی ہندوستانی جانتا ہے ایسے خیالی
سرداروں کے نام ملتے ہیں جو تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح میں رہے ہیں اور راسخ
العقیدہ برہمن اپنی روزانہ کی عبادات میں ایسی مناجاتیں پڑھتا ہے جو اس سے بھی
پہلے منظوم کی گئی تھیں، دراصل ہندوستان اور چین دنیا میں قدیم ترین مسلسل تمدنی
روایات رکھتے ہیں، اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک یورپ کے لوگوں نے ہندوستان
کے قدیم ماضی کا مطالعہ کرنے کے سلسلے میں کوئی خاص کوشش نہ کی اور اس کی ابتدائی
تاریخ کا علم ان کو صرف یونانی اور لاطینی مصنّفین کی تصانیف کے مختصر اقتباسات سے
ہوتا تھا۔ اس جزیرہ نما میں صرف چند لگن رکھنے والے مبلغین نے معاصر ہندوستانی
زندگی کی گہری واقفیت اور یہاں کی بولیوں پر بھرپور قدرت حاصل کی مگر انھوں نے بھی
حقیقتاً کوئی کوشش ان لوگو ںکے تمدن کے تاریخی پس منظرکو سمجھنے کی نہیں کی جن میں
وہ تبلیغ و اشاعت کا کام کررہے تھے۔ انھوں نے اس تمدن کو اس کی ظاہری ہیئت کے
بموجب قبول کرلیا اور اس کو بہت قدیم اور غیرمعتبر سمجھ لیا۔ ان کا ہندوستان کے
ماضی کا مطالعہ صرف اس طریقۂ غور و فکر تک محدود تھا جو کہ ہندوستانیوں کو نوح کی
اولاد اور انجیل مقدس کی معدوم سلطنتوں سے وابستہ کردیتا تھا۔
دریں اثنا چند مسیحیوں نے ہندوستان کی کلاسیکی زبان
سنسکرت پر قدرت کاملہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے فادر ہینکسلڈن نے
جنھوں نے 1699 سے لے کر 1732 تک مالابار میں کام کیا۔ پہلی سنسکرت قواعد کی کتاب ایک
یورپی زبان میں ترتیب دی جو اگرچہ مخطوطے کی شکل ہی میں رہی لیکن اس کا استعمال اس
کے بعد والو ںنے کیا۔ دوسرانام ہے فادر کورٹا وکاجو کہ اول طالب علم ہے جس نے کہ
سنسکرت اور دوسری یورپی زبانو ںکے درمیان ایک ہم رشتگی کا پتہ لگایا اور یہ خیال
ظاہر کیا کہ ہندوستان کے برہمن جافیت کے لڑکوں کی اولاد ہیں جس کے بھائی مغرب کی
طرف ترکِ سکونت کرکے چلے گئے تھے، بایں ہمہ ان یسوعیوں نے اپنے مطالعہ کے باوجود
ہندوستان کے ماضی سے کوئی حقیقی واقفیت نہیں حاصل کی، علم الہند کی بنیادیں
آزادانہ طور پر ہندوستان کے ایک دوسرے حصے میں دوسرے ہاتھوں کے ذریعے رکھی گئیں۔
1783
میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک
شخص سرولیم جونز (1746 تا 1794) کلکتہ میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے آیا، اس
زمانہ میں وارن ہسٹنگنز، ہندوستان کا گورنر جنرل تھا جو خود بھی مسلم اور ہندو
دونو ںہی تمدنوں سے گہرا تعلق خاطر رکھتا تھا۔ جونز ایک ایسا ماہر السنہ تھا جو
عبرانی، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ساتھ پہلے ہی سے اہم تر یورپی زبانوں کو
جانتا تھا، مزید برآں اس نے اس نامکمل
مواد کی مدد سے جو اس زمانہ میں یوروپ میں میسر آسکتا تھا۔ چینی زبان کی شدبد بھی
حاصل کرلی تھی، ہندوستان آنے سے قبل اس نے فارسی اور دیگر یورپی زبانوں کا باہمی
رشتہ سمجھ لیا تھا۔ اس نے اٹھارہویں صدی عیسوی کے اس متشدد نظریہ کو مسترد کردیا
کہ یہ ساری زبانیں عبرانی سے نکلی ہوئی ہیں جو منارہ بابل میں مسخ ہوگئیں، اس
متشدد عقیدہ کی بجائے جونز نے یہ نیا خیال ظاہر کیا کہ فارسی اور یورپی زبانیں ایک
ایسی مشترکہ زبان کے بطن سے وجود میں آئی ہیں جو عبرانی نہیں ہے۔ان معدودے چند
انگریزوں میں سے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے بنگال کا نظم و نسق انجام دیتے
تھے، صرف ایک شخص چارلس ونکنس (1749 تا 1836) ہی ایک ایسا فر دہے جس نے کسی نہ کسی
طرح سنسکرت سیکھ لی، ونکنس اور بنگالی پنڈت دوستوں کی مدد سے جونز نے اس زبان کو سیکھنا
شرو ع کیا، یکم جنوری 1784 کو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا قیام جونز کی تحریک پر
عمل میں آیا اور وہ خود ہی اس کا صدر ہوا، اس سوسائٹی کے جرنل مسمی ’ایشیاٹک ریسرچرز‘
میں ہندوستان کے ماضی کو عدم سے وجود میں لانے کے پہلی مرتبہ صحیح اقدامات کیے
گئے، نومبر 1784 میں انگریزی میں ایک سنسکرت تصنیف کا براہِ راست پہلا ترجمہ ونکنس
کی ’بھگوت گیتا‘ مکمل ہوا۔ 1787 میں ونکنس نے دوسرا ترجمہ ’ہتواپدیش‘ کا پیش کیا۔
اس کے بعد 1789 میں ونکنس نے کالی داس کی شکنتلا کا ترجمہ کیا جس کی بیس سال کے
عرصے میں پانچ انگریزی اشاعتیں ہوئیں، اس کے بعد 1792 میں انھوں نے ’گیت گووند‘ کا
ترجمہ کیا اور پھر منو کی کتاب قانون کا (یہ جونس کے مرنے کے بعد 1794 میں انسٹی ٹیوٹس
آف ہندولا‘ کے نام سے شائع ہوئی) اس کے بعد ایشیاٹک ریسرچز میں متعدد کم اہمیت
والے تراجم شائع ہوئے۔
اس طرح جونز اور ونکنس صحیح معنوں میں علم الہند کے
ابوالآبا تھے، کلکتہ میں ان کی پیروڈی ہنری کول بروک (1765 تا 1837) اور ہوریس ہیمین
ولسن (1789 تا 1860) نے کی، ان رہنماؤں کی مولفات میں فارسی کے ایک فرانسیسی عالم
انکوتل دووپران (Anqwill Dupphon) کی
خدمات کو بھی شامل کرنا ضروری ہے جس نے 1786 میں سترہویں صدی عیسوی کے ایک فارسی
نسخے سے چار اپنشدوں کا ترجمہ شائع کیا، مکمل مخطوطہ کا ترجمہ جو پچاس اپنشدوں پر
مشتمل ہے، 1801 میں منظرِ عام پر آیا۔
ان تراجم کی بنا پر یورپ میں سنسکرت ادب سے دلچسپی
بڑھنا شروع ہوئی، 1795 فرانسیسی جمہوریہ کی سرکار نے اِکولی ڈس لینگس اور پینتالیس
ورنٹیس (Ecoledes Langues Orien Tales Vivantes) قائم
کی اور وہاں الگزنڈر ہملٹن (1762 تا 1824) جو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے بانی
اراکین میں تھااور جو 1803 میں پیس آف ایمنس
(Peac of Aiens) کے خاتمے پر فرانس میں پیرول پر مقید
تھا، یورپ میں سنسکرت کی تعلیم دینے والا پہلا شخص تھا۔ ہملٹن ہی سے پہلے جرمنی
نژاد سنسکرت داں فریڈ رخ شلگل نے یہ زبان سیکھی، 1814 میں پہلی بار کالج ڈفرانس (College Defrance) میں سنسکرت کی پہلی
یونیورسٹی چیئر قائم ہوئی اور اس پر لیونا رودی چیزی متمکن رہے جب کہ 1818 سے جرمنی
کی بڑی دانش گاہوں نے پروفیسر شپ بھی قائم کرنا شروع کردی، برطانیہ میں سب سے پہلے
سنسکرت کی تعلیم 1805 ہرٹ فورڈ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیتی کالج میں دی گئی۔
سنسکرت کی سب سے پہلی انگلش چیربوٹن پروفیسر شپ آکسفورڈ میں قائم ہوکر 1832 میں
پر ہوئی جب یہ اعزاز ایچ ایچ ولسن کو بخشا گیا جو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا
اہم رکن رہ چکا تھا، اس کے بعد متعدد چیرز لندن، کیمبرج ارایڈنبرا میں قائم ہوئیں
او رپھر یورپ اور امریکہ کی مختلف دانش گاہوں میں قائم ہوئیں۔
1816
میں بویریا کے ایک باشندے فرانز پوپ (1791 تا 1867) نے
سرولیم قونز کے اشارات کی بنیاد پر سنسکرت اور یورپ کی کلاسیکی زبانو ںکے مشترکہ
سرچشمے کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح تقابلی لسانیات ایک علیحدہ
علم ہوگیا، 1821 میں فرانسیسی سوسائٹی ایشیاٹک
(Societe Asiatique) کا قیام پیرس میں عمل میں آیا۔ اس کے
دو سال بعد لندن میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی قائم ہوئی۔ اس آغاز سے قدیم ہندوستانی
ادب کی تدوین و مطالعہ کا کام پوری انیسویں صدی عیسوی میں پھیل گیا، انیسویں صدی عیسوی
کے یورپ میں ماہرین علم الہند کا غالباً سب سے بڑا کارنامہ وہ ضخیم سنسکرت جرمن
لغت ہے جس کو عام طور پر ’سینٹ پیٹرسبوگ لکسی کان‘ کہا جاتا ہے اور جو کہ جرمن
علما اوٹوبوتھ لنگ اور ریوڈالف راتھ کی مرتبہ ہے اور جس کو روسی امپریل اکادمی آف
سائنسز جستہ جستہ 1852 سے لے کر 1875 تک شائع کرتی رہی، سنسکرت کے مطالعہ میں
انگلستان کا عظیم ترین اضافہ رگ وید کی شاندار اشاعت اور ’مشرق کی مقد س کتابیں‘ Sacred Books of
The East کے ثقہ محشی تراجم کے سلسلوں کی اشاعت ہے۔
ان دونوں ہی کی تدوین عظیم جرمن نژاد سنسکرت کے عالم فریڈرخ میکس ملر (1823 تا
1900) نے جس نے اپنی کارکردگی کی زندگی کا بیش ترین حصہ آکسفورڈ میں تقابلی لسانیات (Comparative Philogy) کے پروفیسر کی حیثیت
سے گزارا۔
دریں اثنا قدیم ہندوستانی تمدن کا مطالعہ ایک دوسری سمت
میں بڑھ رہا تھا، ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے ابتدائی سارے کام تقریباً مکمل طور
پر ادبی اور لسانی تھے اور انیسوی صدی کے زیادہ تر ماہرین علم الہند مخطوطات پر
کام کررہے تھے، بہرحال انیسویں صدی عیسوی کی ابتدا میں بنگال سوسائٹی نے اپنی تھوڑی
بہت توجہ ہندوستان کے ماضی کی مادّی یادگاروں کی جانب منعطف کرنا شروع کی کیونکہ ایسٹ
انڈیا کمپنی کے پیمائش کنندگان نے مندروں، غاروں اور خانقاہوں کے متعلق اطلاعات
فراہم کیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ پرانے سکے اور ان مخطوطات کے مندرجات کی نقول پیش کیں
جو بہت پہلے دستبرد زمانہ کی نذر ہوگئے تھے، موجودہ مخطوطات کی تعبیر کی مدد سے
پرانے مخطوطات کی تعبیر بھی بتدریج ہونے لگی یہاں تک کہ 1837 میں ایک ذہین و ہوشیار
مبتدی یعنی کلکتہ کی ٹکسال کے ایک افسر اور ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے سکریٹری
جیمز پرنسپ نے سب سے ابتدائی برہمی دور کے ایک مخطوطہ کی تشریح و تعبیر کیے اور
شہنشاہ اعظم اشوک کے پتھروں پر کندہ فرمانوں کو پڑھنے میں کامیابی حاصل کی، اس تعبیر
و تشریح کے میدان میں پرنسپ کے ساتھیوں میں راول انجینئرز کا ایک نوجوان افسر
الگزنڈر کننگم تھا جو ہندوستانی آثار قدیمہ کے ابوالآبا کہا جاتا ہے، 1831 میں
ہندوستان آنے کے بعد کننگم کو اپنے فوجی فرائض ادا کرنے کے بعد جو بھی وقت ملتا
تھا اس کا ایک ایک لمحہ اس نے قدیم ہندوستان کی مادّی یادگارو ںکے مطالعہ کے لیے
وقف کردیا، جب 1862 میں ہندوستانی حکومت نے آر کیا لوجیکل سرویر کی ایک آسامی
قائم کی تو اس پر کننگم کا تقرر ہوا۔ 1885 میں اپنی سرکاری خدمات سے سبکدوش ہونے
کے وقت تک اس نے مکمل یکسوئی کے ساتھ ہندوستان کے ماضی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی،
اگرچہ اس نے کوئی حیرت انگیز دریافتیں نہیں کیں اور اگرچہ موجودہ آثارِ قدیمہ کے
معیار کے مطابق ان کا طریقہ کار غیرترقی یافتہ اور بھدا تھا لیکن اس میں شک نہیں
ہے کہ وسر ولیم جونز کے بعد علم الہند اس میدان کے کسی اور رہ پیما کے مقابلہ میں
جنرل سرالگزنڈر کننگم کا زیادہ ممنون ہے، کننگم کو متعدد دوسرے رہنماؤں کی مدد
حاصل تھی اور اگرچہ حکومت کی ناکافی اور قلیل امداد کی وجہ سے آرکیالوجیکل سروے کی
سرگرمیاں انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں تقریباً ختم ہوگئیں لیکن پھر بھی 1900 تک
بہت سی عمارات کا سروے کیا جاچکا تھا اور بہت سے کتبات پڑھے جاچکے تھے اوران کا
ترجمہ بھی ہوچکا تھا۔
صرف بیسویں صدی عیسوی میں ہی آثارِ قدیمہ کی کھدائی
کاکام بڑے پیمانے پر شروع ہوا، ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن کی ذاتی دلچسپی کا
ممنون ہونا چاہیے کہ 1901 میں آرکیالوجیکل سروے کی اصلاح ہوئی اور اس میں وسعت پیدا
کی گئی اور ایک نوجوان ماہر آثارِ قدیمہ جان (جو بعد ’سرجان‘ ہوا) مارشل کو اس کا
ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا، ہندوستان کا طول و عرض رکھنے والے ایک ملک کے لیے
محکمۂ آثارِ قدیمہ اب بھی افسوسناک حد تک مختصر اور مفلس تھا لیکن مارشل نے
متعدد ماہر معاونین کی خدمات حاصل کیں اور اس کے پاس کھدائی کے لیے اس پیمانہ پر
مالی وسائل تھے جو اس سے قبل نہیں تھے، پہلی بار ہندوستان کے قدیم شہروں کے نشانات
منصۂ شہود پر آنے لگے، علم آثارِ قدیمہ نے اپنا کام سروینگ (Surveying) اور قدیم یادگاروں کے
تحفظ سے ممیز ہوکر صحیح معنوں میں شروع کردیا، سرجان مارشل کی سربراہی میںآرکیالوجیکل
سروے آف انڈیا کی عظیم ترین فتح بلاشبہ تہذیب سندھ کی دریافت تھی، ہندوستان کے قدیم
ترین شہروں کی پہلی علامات کننگم نے دریافت کیں جنھوں نے عجیب و غریب ناقابل شناخت
مہریں پنجاب میں ہڑپا کے مضافات میں پائیں، 1922 میں آرکیالوجیکل سروے کے ایک
ملازم آر ڈی بنرجی نے مزید کچھ مہریں سندھ میں موہن جوداڑو کے مقام پر پائیں اور
اس امر کو تسلیم کیا کہ یہ عظیم تر قدامت ماقبل آریائی تہذیب کی یادگار ہیں،
سرجان مارشل کے زیرِ ہدایت 1924 سے لے کر ان کی سبکدوشی کے وقت یعنی 1931 تک ان
مقامات کی باقاعدہ کھدائی ہوتی رہی، کھدائی کا کام مالی عسرت اور دوسری جنگ عظیم کی
وجہ سے معرضِ التوا میں پڑگیا، لیکن جنگ کے معاً بعد سرآر، ای، ماریٹر وہیلر کی
مختصرالوقت سربراہی میں ہڑپا کے مقام پر مزید اہم دریافتیں ظہور پذیر ہوئیں، اگرچہ
یہ مقامات اب بھی کسی طور سے پوری طرح صاف نہیں کیے جاسکے ہیں۔
ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، بہت سے مٹی کے تودے جن کی
کھدائی نہیں ہوئی ہے، ہندوستان کے ماضی کے تاریک گوشوں پر کافی روشنی ڈال سکتے ہیں
اور اب بھی بہت سے نہایت ہی اہم نادر مخطوطات دور رس کتب خانوں میں کرم خوردہ
ہورہے ہیں، ہمیں ہندوستان، پاکستان اور لنکا ایسے غریب ملک ہیں جنھیں بری طرح سے
مالی امداد کی ضررت ہے تاکہ وہ اپنے غریب عوام کے معیار زندگی کو بلند کرسکیں لیکن
اس وقت بھی جو کچھ وسائل ان ممالک کو فراہم ہیں ان ممالک کے محکمہ جات آثارِ قدیمہ
پورے طور پر اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اپنے ماضی کے رخ سے نقاب اٹھائیں۔
پچھلی صدی عیسوی میں خود ہندوستانیوں نے بھی بہت سے
قابل قدرکارنامے انجام دیے، بالخصوص سنسکرت داں اور ماہرِ علم کتبات ڈاکٹر
بھاؤداجی، ڈاکٹر بھگوان لال اندراجی، ڈاکٹر راجندر لال مترا اور عظیم سرآر، جی،
بھنڈارکر، اس اعتبار سے علم الہند کے ضمن میں پہلی ابتدا خود ہندوستانیوں کی طرف
سے ہوئی۔ ہند کے ماہرین اس وقت بڑی تیزی سے عظیم مہابھارت کی پہلی تنقیدی اشاعت میں
مصروف ہیں اور انھوں نے ضخیم پونا سنسکرت لغت پر کام شروع کردیا ہے جو مکمل ہونے
کے بعد ساری دنیا میں غالباً علم لغت پر سب سے بڑا کام ہوگا، اس وقت محکمہ آثارِ
قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل ایک ہندوستانی (ڈاکٹر اے گھوش) ہیں اور آج ایک یوروپی ماہر
علم الہند اہلِ ہند کا مددگار اور دوست نقاد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے
وقت میں جب کہ ایشیا میں ایک صدی اور اس کے نصف پر یورپی تسلط کے خلاف ردعمل ہورہا
ہے اور ایک نیا تمدن جو مشرق و مغرب کے تمدنی و تہذیبی عناصر کا ایک مرکب ہوگا جنم
لے رہا ہے، ایک یورپی طالب علم علم الہند کے میدان میں اپنا مفید کردار اداکرسکتا
ہے۔
ماخذ: ہندوستان کا شاندار ماضی، مصنف: اے ایل باشم،
مترجم: ایس غلام سمنانی، سنہ اشاعت: 1982، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،
نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں