27/2/25

لکھنؤ کے عمارات و باغات، ماخذ: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، مصنف: مرزا جعفر حسین

 اردو دنیا، جنوری 2025

لکھنؤ کو باغوں اور مرغزاروں کا شہر کہا جاتا تھا۔ فرمانروایانِ اودھ کو خوش نما باغات لگانے اور بلند و بالا، حسین و جمیل، مستحکم و استوار عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا۔ آصف الدولہ نے لکھنؤ آتے ہی اپنے عالیشان محل موسومہ’دولت خانہ‘ میں اقامت فرمائی تھی۔ یہ محل مچھی بھون قلعہ کے نزدیک تیار کرایا گیا تھا۔ مچھی بھون کا قلعہ مسمار ہو گیا لیکن ’دولت خانہ‘ در و دیوارِ شکستہ کی شکل میں اب تک موجود ہے اور شیش محل کے نام سے موسوم ہے۔ اس محل کی عظمتِ پارینہ کے نشانات بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک موجود تھے جن کو دیکھنے اور نوابانِ شیش محل کے درباروں میں شرکت کرنے کا شرف صدہا مرتبہ راقم کو حاصل ہوا تھا۔ نوابانِ شیش محل کے مورثِ اعلیٰ نواب حکیم مہدی کو غازی الدین حیدر کے دربار میں تقرب حاصل تھا۔ ان کا محل چار باغ میں اس مقام پر تھا جہاں آج ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ اس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے حکیم مہدی کی املاک حاصل کی گئی تھی اور بالعوض شیش محل دیا گیا تھا۔ یہ محل دولت خانۂ آصفی کاایک حصہ تھا۔ اس کے کھنڈرات اب بھی پرانی عظمتوں کی یاد دلاتے ہیں اور نوابانِ شیش محل کے ورثا اسی میں آباد ہیں۔ ذی مقدرت حضرات اپنے اپنے مقام ہائے سکونت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

آصف الدولہ کو سیر و شکار کا شوق تھا۔ اس ذوق کی آسودگی کے لیے انھوں نے ببیا پور میں ایک محل بنوایا تھا اور چنہٹ میں ایک کوٹھی موسومہ نزہت بخش تعمیر کرائی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل تک ان عمارتوں کے آثار موجود تھے۔ امتدادِ زمانہ سے ان پر کیا گزری اور اب کیا حالت ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اس جلیل القدر حکمران کی ممتازِ زمانہ یادگاریں بڑا امام باڑہ اور رومی دروازہ اب تک موجود ہیں۔ آصف الدولہ اپنے اسی امام باڑے میں مدفون ہیں اور ان کی قبر اب تک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ پچاس ساٹھ برس قبل تک ہم لوگ برابر وکٹوریہ پارک گھومنے کے لیے جاتے تھے اور اسی دوران اس امام باڑے کی زیارت کے لیے رومی دروازے سے گزرتے ہوئے جایا کرتے تھے۔ یہ شوق زیارت اس لیے زیادہ تھا کہ اس زمانے میں امام باڑے پر زبوں حالی طاری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جدید اصلاحات کے بعد اب اس کی حالت سدھر گئی ہے اور یہ عدیم المثال عمارتیں اپنی فنکاری و صنعت کاری کی عظمتوں سمیت برقرار ہیں۔ آصف الدولہ کے زمانے کا ایک باغ موسومۂ عیش باغ بھی تھا جس کی تعریفیں راقم نے اپنے بزرگوں سے سنی تھیں لیکن اب وہاں ایک بڑا محلہ آباد ہے اور اسی کے وسط میں چھوٹی لائن کا ریلوے اسٹیشن تعمیر ہے جو ایک زمانے میں بڑی اہمیت کا مالک تھا۔ یہ اہمیت اس ریلوے لائن کے چار باغ تک بڑھ جانے کے سبب سے بہت کم ہو گئی ہے۔

اسی زمانے کی یادگاریں لامارٹینر کی عمارتیں بھی ہیں جن میں مارٹن صاحب کی کوٹھی عجائبات میں شمار کی جاتی تھی۔ آصف الدولہ کو یہ عمارات اتنی پسند آئیں کہ انھوں نے فی الفور خریداری کا ارادہ کر لیا تھا لیکن قیمت کے سلسلے میں ہنوز گفتگو جاری تھی کہ نواب کا انتقال ہو گیا۔ مارٹن کی یادگار لامارٹینر کالج انگریزوں کے زمانے میں اپنے شباب پر تھا اور بڑی شہرت کا مالک تھا۔ عمارتوں کی داشت و پر داخت بھی توجہ سے ہوتی تھی لیکن پہلی سی توجہ اب نہیں ہے۔

سعادت علی خاں نے اپنے دورِ اقتدار میں غالباً تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ عمارات بنوائی تھیں خود اپنی اقامت کے لیے فرحت بخش اور حیات بخش کوٹھیاں تعمیر کرائی تھیں جو اب بھی چھوٹی چھتر منزل اور موجودہ ہائی کورٹ کی عمارت کے درمیان موجود ہیں۔ لال بارہ اپنے دربار کے لیے تعمیرکرائی تھی اور ٹیڑھی کوٹھی انگریز ریذیڈنٹ کی سکونت کے لیے بنوائی تھی۔ غدر کے بعد یہ عمارات بھی انگریزی حکومت کے قبضے میں آ گئی تھیں فرحت بخش اور متعلقہ عمارات میں اب محکمہ صحت کے ڈائرکٹر کا مرکز اور دیگر دفاتر ہیں، ٹیڑھی کوٹھی میں چیف کورٹ آف اودھ کے چیف جج رہا کرتے تھے لیکن اب وہاں ٹرانسپورٹ کے دفاتر ہیں اور پرانی ہیئت بالکل نظر نہیں آتی۔ ان عمارات کے علاوہ سعادت علی خاں نے دریا پار دل آرام کوٹھی ، دلکشا کوٹھی تعمیر کرائی تھی اور موتی محل کی اصل عمارت بھی انھیں کی حیات میں مکمل ہو چکی تھی۔ دل آرام کوٹھی اور دلکشا کوٹھی کے نمایاں آثار میرے عنفوان شباب تک موجود تھے۔ ممکن ہے کہ دلکشا میں اب بھی کچھ کھنڈرات نظر آ جائیں لیکن اب وہاں پورا محلہ آباد ہے اور ایک بڑی کالونی بن گئی ہے۔ موتی محل کی تکمیل غازی الدین حیدر نے کر دی تھی او ریہ مقام اب بہت اچھی حالت میں ہے۔ عمارات میں اضافے ہوئے ہیں اور باغ بھی اچھی حالت میں ہے تو اس کا رقبہ بہت کم ہو گیا ہے۔

متذکرہ بالا عمارات کے علاوہ کوٹھی نور بخش اور خورشید منزل بھی سعادت علی خاں ہی کی طرف منسوب تھیں اور چار باغ بھی انھیں کا لگوایا ہوا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک دوسرے سے متصل چار باغ تھے اسی لیے یہ نام دیا گیا۔ اودھ کے حکمرانوں کو اپنے گھوڑوں کے لیے بھی عالیشان عمارات بنوانے کا ذوق تھا۔ سعادت علی خاں نے چوپڑاصطبل بنوایا تھا جو بڑی شہرت کا مالک تھا۔ واجد علی شاہ کے دور میں سلاخوں والا اصطبل مشہور تھا۔ غدر کے بعد اسی اصطبل میں دیوانی کچہری قائم ہوئی تھی جہاں مجھے برسوں وکالت کرنے کا شرف حاصل تھا۔ اب اس عمارت کا کوئی نشان باقی نہیں ہے اور نئی عمارت بن کر قریب قریب تیار ہو چکی ہے۔

سعادت علی خاں نے اپنے مقبرہ کا کوئی انتظام اپنی زندگی میں نہیں کیا تھا۔ وفات کے بعد وہ اسی علاقے میں مدفون ہوئے جہاں ان کی بیگم کا مزار اب تک چھتر منزل کے حدود میں موجود ہے۔ یہ عمارت ان کے جانشین غازی الدین حیدر نے بنوائی تھی ۔ یہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے دلی کی سلطنت کا قلادۂ اطاعت دور کرکے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی بہترین اور ممتاز زمانہ تعمیر شاہ نجف ہے جو حضرت علی ؓ کے مزارِ مبارک کی اصلی شبیہ ہے۔ بادشاہ اور ان کی بیگم اسی متبرک عمارت میں مدفون ہیں اور خود انھیں کے عطیات کی بدولت شاہ نجف اب بھی مقتدر حیثیت کا مالک ہے۔ غازی الدین حیدر کے بعد نصیر الدین حیدر سریر آرائے سلطنت ہوئے تھے انھوں نے حضرت گنج کے علاقے کی بنیاد ڈا لی تھی اور خود اپنے لیے ایک کربلا ڈالی گنج پار میں بنوائی تھی جہاں وہ مدفون ہیں۔ یہ کربلا بہت بڑے رقبے میں واقع ہے لیکن اس کی ترقی و فلاح کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔ چنانچہ حالات روز بروز خراب ہوتے رہے تھے۔ موجودہ صورت حال بہر حال بہتر ہے۔

آخری تین تاجدار محمد علی شاہ، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ تھے۔ محمد علی شاہ کا تعمیر کردہ امام باڑہ جو چھوٹا امام باڑہ کے نام سے موسوم ہے اور جہاں وہ خود مدفون ہیں ایک انتہائی اور سجی سجائی دلہن کہلانے کا مستحق ہے۔ انھوں نے اپنی حیات میں اس امام باڑے کی بقا اور فلاح کا اتنا مکمل انتظام کر دیا تھا کہ اُس کا کاروبار بڑے اور منظم پیمانے پر اب تک برقرار ہے۔ زمانے کی ستم شعاریوں نے بہت کچھ دخل اندازی کر دی ہے لیکن پھر بھی اس امام باڑہ کی عظمت بہت بڑی حد تک برقرار ہے۔ البتہ محل وقوع میں نظارگی کا جو حسن و جمال بادشاہ نے اس امام باڑے میں پیدا کرنا چاہا تھا وہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ اس امام باڑے کے ایک جانب عالیشان اور بہت خوبصورت جامع مسجد ہے۔ بادشاہ نے دوسری جانب ست کھنڈا تعمیر کرانے کا ارادہ کیا تھا۔ سات منزل کی ایک کے اوپر دوسری منزل اور ساتویں منزل کے اوپر عالیشان قبّہ بن جانے کے بعد امام باڑے کا حسن دوبالا ہو جاتا لیکن چند منزلوں سے زیادہ عمارت نہیں بن سکی۔ اس کے منہدم کھنڈرات اب تک موجود ہیں۔ بعض لوگوں کو ست کھنڈے کا نام بھی یاد ہے لیکن اس کے معرضِ وجود میں آنے کا حال دنیا بھول چکی اور غالباً آثار منہدم ہو جانے کے بعد ست کھنڈے کا نام بھی فراموش ہو جائے گا۔

امجد علی شاہ کی زیادہ تر توجہ حضرت گنج کے علاقے پر مبذول رہی۔ وہاں کی پرانی عالیشان عمارتیں انہی کی کرم گستری کا نتیجہ تھیں اور سبطین آباد کا ایسا عظیم المرتبت علاقہ انھیں کی بدولت معرض وجود میں آیا تھا۔ یہاں ان کی ابدی خواب گاہ ہے جس کا احترام کرتے ہوئے اُن کے بعد ان کے جانشین واجد علی شاہ نے یہ تمام عمارات بنوائی تھیں جن کے داخلے کا عظیم الشان صدر دروازہ اب تک مال روڈ کے اوپر اپنی عظمت ِ پارینہ کی یاد دلاتا ہے لیکن گذشتہ ساٹھ ستر برس میں پے در پے جو شرمناک و عبرتناک واقعات و حالات رونما ہوئے وہ سبطین آباد کے حال زار پر ہم کو خون کے آنسو رلاتے ہیں اور کہنا پڑتا ہے کہ اچھا ہوا واجد علی شاہ اس سرزمین پر دفن نہیں ہوئے۔ اس آخری تاجدار نے چھتر منزل اور قیصر باغ کی عمارات اپنی مایۂ ناز یادگاریں چھوڑی تھیں۔ ایک کو چھوٹی چھتر منزل کہا جاتا ہے کہ غفلت و جہالت کی بدولت منہدم ہو گئی۔ اصلی چھتر منزل انگریزوں کے دور میں یونائٹیڈ سروس کلب کے استعمال میں آتی تھی لیکن اب فلاح عامہ کا کاروبار وہاں جاری ہے اور معالجات ایجاد کرنے کا مرکزی محکمہ کامیابی کے ساتھ تجربات میں مشغول ہے۔ قیصر باغ اپنی اصل چہار دیواری میں بہت کچھ کھو چکا ہے۔ اس کے شمالی اور جنوبی صدر دروازے ایک مدت قبل ختم ہو چکے تھے۔ اس کے چاروں طرف جو خوش نما اور دیدہ زیب راستے مشرقی انداز میں بنائے گئے تھے وہ ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ میری طالب علمی کے زمانے تک چھتر منزل سے قیصر باغ تک اور قیصر باغ کے مغربی پھاٹک کی سمت بھی نیز مشرق میں مینا بازار گیٹ تک دو رویہ منہدی کے درختوں کی جھاڑیاں موجود تھیں جو خوش نمائی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ نئی سڑکوں کی تعمیر میں ہمارا مشرقی انداز خوش نمائی فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ قیصر باغ کی عمارتیں اودھ کے تعلق داروں کو تقسیم کر دی گئی تھیں اس لیے محفوظ اور اپنی اصلی رنگ و صورت میں ہیں۔ وسطِ قیصر باغ میں سفید بارہ دری ہے جس کا نام بادشاہ نے ’’ قصر عزار‘‘ رکھا تھا یہاں تعلق دارانِ اودھ کی انجمن کا دفتر ہے اور بڑی حد تک اچھی حالت میں ہے۔ لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ وہ چھوٹی سنگ مرمر کی سفید بارہ دری جواب بنارسی باغ میں نصب ہے ابتدا ء ً قیصر باغ ہی میں تھی اور جو چاروں پتھر والے پر یوں کے مجسمے وہاں ہیں وہ بھی اسی بارہ دری کے چاروں جانب نصب تھے۔ واجد علی شاہ بیشتر راتوں کو موسم گرما میں اسی چھوٹی بارہ دری میں آرام فرما لیتے تھے۔ انتزاعِ سلطنت کے بعد راتوں کو بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور آنے والے زار و قطار روتے تھے لہٰذا انگریزی حکومت نے اس بارہ دری کو بنارسی باغ منتقل کر دیا جہاں شہریوں کا پہنچنا دشوار ہو گیا تھا۔

شاہانِ اودھ سے متعلق مندرجہ بالا واقعات کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ آصف الدولہ کے بعد ان کے جا نشینوں نے وسط لکھنؤ کے علاقوں کو ترقی دینے کی کوشش کی تھی اور آخری دور تک یہ توجہ مشرقی منزل تک پہنچ گئی تھی۔ پرانی آبادی بہرحال مغربی علاقو ں ہی تک محدود رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کی پرانی معاشرت کا اثر اب تک مغربی لکھنؤ میں بڑی حد تک موجود ہے۔

شہر کے باغات اور مرغزاروں کی تعداد انھیں ناموں تک ختم نہیں ہوتی جو متذکرہ بالا حالات میں پیش کیے گئے ہیں۔ میرے لڑکپن بلکہ عنفوان شباب تک عالم باغ، صفدر باغ، سندر باغ، بندریا باغ، ڈالی باغ، بنارسی باغ، سکندر باغ، کمپنی باغ اور دیگر چند باغات کا تفریح گاہوں میں شمار تھا اس زمانے میں رؤسا ،شرفا ،عوام اور تمام شہری علاوہ تاجروں اور دکانداروں کے شام کو ہوا خوری کے لیے نکلتے تھے۔ ہر محلے میں یا اس کے قریب کوئی بڑا باغ یا مرغزار تھا۔ آبادی بڑھی اور نئے محلے تعمیر ہوئے تو ان باغات کے نام پر محلے تعمیر ہو گئے۔ جیسے چار باغ، نظر باغ، عیش باغ ، عالم باغ، صفدر باغ، سندر باغ، ڈالی باغ، بندریا باغ وغیرہ۔ بنارسی باغ میں زندہ عجائب گھر کھلا اور سکندر باغ میں محکمۂ نباتات قائم ہو گیا ۔ بادشاہ باغ میں کیننگ کالج قائم ہوا۔ جس زمانے میں مجھے وہاں تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل تھا ایک بڑے رقبے میں امرود وغیرہ کے باغات موجود تھے۔ لیکن اب ان کی جگہ عمارات تعمیر ہو گئی ہیں۔ اسی باغ میں ایک بارہ دری اور ایک عالیشان کوٹھی تھی جو کبوتر والی کوٹھی کہلاتی تھی۔ بارہ دری اندر اور باہر سے بہت خوبصورت تھی۔ اس پر اسی زمانے میں ادبار آنا شروع ہو گیا تھا۔ میرے زمانے میں یہاں علوم مشرقیہ کی تعلیم ہوتی تھی۔ بعد ازاں یہاں چار خانہ قائم ہو گیا تھا۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے وجود میں آنے کے بعد پہلے وائس چانسلر کبوتر والی کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس کی شکل بدلی اور اب وہاں رجسٹرار کے دفتر سے متعلق کمرے تعمیر ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پچاس برس میں دیکھتے دیکھتے پرانے طرز کے تمام باغ اور لالہ زار ختم ہو گئے اور نئے نئے پارک معرضِ وجود میں آ گئے ہیں۔ اس طرح ہماری مشرقی تہذیب کے ظاہری نمونے بھی اب شہر میں نظر نہیں آتے۔

 

ماخذ: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، مصنف: مرزا جعفر حسین، دوسری اشاعت: 2023، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...