28/2/25

عبد الغنی شیخ کے افسانوں میں لداخ کی تہذیب و معاشرت، مضمون نگار: محمد شریف

 اردو دنیا، جنوری 2025

اردو زبان و ادب کے معروف محقق، تاریخ داں، افسانہ نگار، ناول نگار، انشاپرداز، سوانح نگارعبدالغنی شیخ مختصر علالت کے بعد 20 اگست 2024 کو سری نگر میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کو چ کر گئے۔ان کی وفات واقعی یہاں کی ادبی دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔عبدالغنی شیخ کا نام اردو زبان وادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ مقامی،ملکی اور بین الاقوامی سطح کے جانے مانے قلمکار اور درجنوں کتابوں کے مصنف کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ جموں و کشمیر اور لداخ کی سرحدوں سے باہر بھی علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو کی بقا اور لداخی تہذیب کی بازیافت کے لیے وقف کر دی تھی۔

عبدالغنی شیخ کی مختصر کہانیاں لداخ کے ثقافتی، سماجی اور سیاسی منظر نامے کو بڑے دلنشیں اور متاثر کن انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں عموماً شناخت، روایت اور تبدیلی جیسے موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں، جن کے ذریعے لداخی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہت گہرائی سے بیان کیا جاتا ہے۔ عبدالغنی شیخ کی مختصر کہانیوں کے ذریعے نہ صرف لداخ کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ اسے وسیع دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے، جس سے روایت اور جدیدیت کے درمیان پل بنایا گیا ہے۔ عبدالغنی کے افسانوں کے تجزیے سے اس بات کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے کتنی باریک بینی سے اپنے علاقے کی چھوٹی چھوٹی اور اہم باتوں کو پیش کرکے اردو زبان و ادب کے قارئین کو اپنی تہذیب و معاشرت سے روشناس کرایا ہے۔

عبدالغنی شیخ 5مارچ 1936کولداخ کے ضلع لیہہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قادر شیخ اور والدہ کا نام ساجدہ بیگم تھا۔ ابتدائی تعلیم لہیہ کے مقامی اسکول سے حاصل کی۔ میڑک کا امتحان بھی اسی اسکول سے سکینڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ جب 1951میں اس اسکول کا درجہ مڈل سے ہائی اسکول کیا گیا تو وہ لیہہ ہائی اسکول کے پہلے میڑک پاس طالب علم کہلائے۔ اس کے بعد عبدالغنی شیخ نے کشمیر یونیورسٹی سے1960ادیب فاضل اور بی اے آنرس کے امتحانات امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیے۔  1975 میں راجستھان یونیورسٹی سے ایم اے ہسٹری کی سند حاصل کی۔علاوہ ازیں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن دہلی سے صحافت میں پانچ ماہ کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔

عبدالغنی شیخ نے میڑک کا امتحان پاس کر نے کے بعد ڈیڑھ ماہ کے لیے بطور کلرک کی نوکری اختیار کی اور پھر  1952میں سرینگر میں ویٹرنری اسٹاک اسسٹنٹ کی ٹریننگ حاصل کرنے چلے گئے۔ وہاں ایک سال تک قیام کیا۔ 1954میں انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اینمل ہسبنڈری میں بحیثیت اسٹاک اسٹنٹ کیا۔

 1958کو عبدالغنی شیخ کا بطور ہیڈ ماسٹر ضلع لیہہ کے ایک گاؤں تمسگام میں تقرر ہوا جہاں انھوں نے تقریبا چار سال تک اپنے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد لیہہ میں ان کا تبادلہ ہوااورلیہہ اسکول میں ایک سال قیام کے بعد ان کی تقرری لیہہ کے مرکزی فیلڈ پبلسٹی محکمہ میں بطور فلیڈ پبلسٹی آفیسر ہوئی۔اس کے بعدانھوں نے1970میں پریس انفار میشن بیورو سرینگر میں بطور انفار میشن اسسٹنٹ جوائن کیا۔اس کے علاوہ وہ دوسرے عہدوں پر بھی فائزہ رہے۔20 نومبر 1992قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر اسلامیہ پبلک ہائی اسکول لیہہ میں بطور پرنسپل کام کیا۔

عبدالغنی شیخ کو بچپن سے ہی علم و ادب کا ذوق تھا اور بچپن سے مطالعہ ان کا مشغلہ بن چکا تھا۔ ساتویں جماعت میں انھوں نے کچھ نظمیں لکھیں اور ’پیام تعلیم ‘ میں پہلی بار ان کا لطیفہ چھپا جس سے استادوں کی طرف سے کافی داد ملی۔1957میں عبدالغنی شیخ کی پہلی کہانی ’لوسر اور آنسو‘ماہنامہ ’دیش‘ سرینگر میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ اسی سال لڑکیوں کے لیے ایک ڈراما ’جھانسی کی رانی‘ کے عنوان سے بھی لکھا۔ گاندھی جی کی صدسالہ برسی پر گاندھی جی کی حیات اور کارناموں پر ان کے پیش کردہ مسودے پر کلچرل اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا۔1971میں ان کی ایک اور کہانی ’مسکراہٹ  ہمارا ادب میں شائع ہوئی۔جس کابعد میں انگریزی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

عبدالغنی شیخ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ بہ یک وقت مورخ، تبصر ہ نگار، سوانح نگار، خاکہ نگار، ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب ہونے کے ساتھ فلسفہ تعلیم پر نظر رکھنے والے کی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ایک  طرف انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا روپ دیا تو دوسری طرف لداخ کی تاریخ کو زندہ رکھنے میں اہم کارنامہ انجام دیا۔جان محمد آزاد عبدالغنی شیخ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 ’’عبدالغنی شیخ لداخ کی دشت و سنگ سنسان برفانی سر زمین کی پیدا وار ہیں۔آپ کا بچپن اور لڑکپن لیہہ اور اس کے آس پاس کے اسی ماحول میں گزرا۔ آپ نے زوجیلا کے اس پار رہنے والے جفا کش اور تیرہ نصیب لوگوں کے درد کو اپنے وجود میںتحلیل کیا اور اپنے افسانوں اور ناولوں میں اس کا بھر پور اظہار کیا۔

(جان محمد آزاد: جموں و کشمیر کے اردو مصنفین، عبدالغنی شیخ، میکاف پرنٹرس دہلی، 2004، ص 203)

عبدالغنی شیخ نے لداخ کے حوالے سے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں’لداخ: تہذیب و ثقافت، لداخ کی سیر،  لداخ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں، دو را ہا، زوجیلا کے آرپار، ایک ملک دو کہانی، وہ زمانہ، دل ہی تو ہے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اردو دنیا کو لداخ کی تاریخ، ادب، طرز معاشرت،رسم و رواج، رہن سہن سے واقف کرانے میں عبدالغنی شیخ نے اہم کرار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوںنے گزشتہ آدھی صدی سے زیادہ مدت سے لداخ میںاردو ناول اور افسانے کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے افسانے، ناول، تنقید، تاریخ، خاکے، ادبی اور علمی مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی تخلیقات اور مضامین اردو کے مختلف رسائل آجکل، شمع، بیسویں صدی، شاعر، بانو، اردو دنیا، ایوان اردو، ہمارے ادب، شیرازہ، تعمیر،جد ید فکرو فن، سبق اردو، پمپوش، دیش وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں۔ جان محمد آزاد نے اپنی کتاب ’جموں و کشمیر کے اردو مصنفین‘  میں عبدالغنی شیخ کے بارے میں یوں تحریر کیا ہے :

’’پچھلی ایک دہائی کے دوران عبدالغنی شیخ نے ادیب کے علاوہ لداخیات کے ایک مقتدر محقق کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس دوران آپ کے افسانے اور کہانیاں ملک کے کثیر الاشاعت رسا ئل میں شائع ہو ئیں۔ شمع (دہلی) میں آپ کے نصف درجن افسانے شائع ہوئے۔ آپ کے فن میں اب خون جگر کی نقش گری صاف جھلکتی ہے آپ کی اختصار پسندی اور قطعیت آپ کے فن کی دو بڑی خصوصیات ہیں۔ادھر لداخ کے کلچر اور اس کی تاریخ پر آپ کے درجنوں مضامین پابندی سے ’شیرازہ‘ اور ’تعمیر‘ میں  شائع ہوتے رہے ہیںان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ لداخیات کے موضوع پہ ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔‘‘

(جان محمد آزاد: جموں و کشمیر کے اردو مصنّفین، عبدالغنی شیخ، میکاف پرنٹرس، دہلی 2004، ص 206)

 عبدالغنی شیخ نے لداخ جیسے بر فیلے علاقے میں اردو کے افسانوی ادب کو زندہ رکھا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگیوں سے اپنے افسانوں کا تانابانا تیار کیا ہے۔ وہ یہاں کے باشندوں سے متعلق واقعات کو ایک نئے انداز سے پیش کر کے لداخ جیسے علاقے کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کی زندگیوں کے نہ صرف مختلف رنگوں سے اردو دنیا کو روشناس کراتے ہیں بلکہ خود لداخ جیسی سنگلاخ زمین پر اردو کی آبیاری بھی کر رہے ہیں۔نور شاہ لکھتے ہیں:

’’ عبدالغنی شیخ کا سب سے بڑا کارنامہ  یہ ہے کہ انہوں نے لداخ جیسے برفیلے علاقے میں اردو افسانوی ادب کو زندہ رکھا اوراپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگی اور زندگی سے وابستہ ان گنت واقعات اور حالات کو منفرد انداز سے سمیٹا اور پیش کیا۔‘‘

(نورشاہ: جموں وکشمیر کے اردو افسانہ نگار، میزان پبلشرز، سری نگر، کشمیر، 2011، ص 87)

ان کے تین افسانوی مجموعے زوجیلا کے آرپار (1975)، دوراہا (1993) وغیرہ شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں شامل بیشتر افسانے لداخ کی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔

عبدالغنی شیخ نے اپنے آس پاس رونما ہونے والے واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے کلچر اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ افسانہ ’مسکراہٹ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخی ماحول اور منظر نگاری کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاہے۔ افسانے کی کہانی دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے  جو ایک ہی محلے کے دو کردار صنم اور انگموں ہیں۔ انگموں تہوار میں شرکت کے لیے سہلیوں کے ہمراہ جیپ میں گنپہ جا رہی تھی۔ تو صنم انگموں کو دیکھتے ہی اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ عبدالغنی شیخ اس کہانی میں لداخ کے پہاڑ، سڑک،برف اور گنپہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ’’جیپ باد صبا کے ایک مہکتے جھونکے کی طرح اس کے سامنے سے گزری اور صنم دل تھام کر رہ گیا۔ اس جیپ میں انگموں اور اس کی ہمجولیاں تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف بچے بالے، مرد، عورتیں خوبصورت اور نئے کپڑوں میں ملبوس پیدل میلہ دیکھنے جا رہے تھے۔جیپ اب پہاڑی کے دائیںجانب مڑی اور اس کی نظروں سے اوجھل ہوئی۔دور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مخروطی چوٹیاں برف کا سفید لبا دہ اوڑھے صبح کی خنک دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ زیر مرمت تارکول کی سڑک چھوڑ کر جیپ ریتیلے راستے پر آئی اور دھول کا ایک مرغولہ اٹھااوبڑ کھا بڑ راستے پر تھوڑی دیر ڈگمگاتی لڑکھڑاتی ہوئی پھر تارکول کی سڑک پر آئی... ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ گنپہ(خانقاہ)پہنچا۔چھتوں کے چھجوں،جھروکوں، کشادہ دیواروں اور آنگن کے ارد گرد ہزاروں مرد ،عورتیں، بچے بالے وسیع صحن میں ہونے والے دیو مالی رقص سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ‘‘

(عبدالغنی شیخ: زوجیلا کے آرپار، کشمیر مرکنٹائل پریس، ریذیڈنسی روڈ، سرینگر،1975، ص 9)

مذکورہ افسانے میں عبدالغنی شیخ نے جہاں ایک طرف لداخ کے کلچر کو نمایاں کیا ہے وہیں دوسری طرف لداخ کے گنپہ اور ستوپا کو بھی اجاگر کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

 ’’ایک مرتبہ انگموں دریچے سے غائب ہوئی۔ وہ دھکم دھکا کھاتا ہوا جلدی سے گنپہ کے عقب میں آیا اوردروازے کے پاس آکر کھڑا ہوا... زیوارت میں چمچماتی ہوئی عورتیں آجارہی تھیں، لیکن انگموں ان میں نہیں تھی۔سامنے ستوپا کے نیچے آدمی شراب پی رہے تھے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 11)

لداخ قدیم زمانے سے کھیل تماشوں، میلوں اور تہواروں کے لیے مشہور رہا ہے۔ لوسر لداخ کا ایک اہم تہوار ہے۔ جو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ افسانے ’ لوسر اور آنسو ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخ کی تہذیب و معاشرت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لوسر لداخیوں کا سالانہ تہوار ہوتا ہے۔ افسانے کی شروعات لوسر تہوار کے دن کی ٹھنڈی شام سے ہوتی ہے۔ ہرطرف لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ ملاحظہ کریں اقتباس:

’’ لوسر کی سہانی اور ٹھنڈی شام تھی۔ لڑکے، لڑکیاں خوش آئندآوازوں میں مَد ھر گیت گاتے ہوئے دیپ جلا رہے تھے۔

(بولو! بولو! خرلا بولو! سنگیس لابولو! چھوس لابولو! لامالا بولو! بولو!بولو!) ترجمہ: (اے دیپ جلو!اے دیپ جلو!محل کے حضور میں دیپ جلو!بْدھ حضور میں دیپ جلو! دھرم کے حضور میں دیپ جلو!عابد کے حضور میں دیپ جلو!اے دیپ جلو!اے دیپ جلو)مکانوں کی چھتوں اور بالاخانوں کے دریچوں پر دیپوں کی قطاریں جگ مگ جگ مگ کر رہیںتھیں۔ بازار میں بچوں، بوڑھوں،جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا۔جہاں سے بے ہنگم شور و غل کی آوازیں آرہی تھیں۔ کچھ کچھ لمحے کے بعد نوجوان لڑکے اور بچے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھٹے لہراتے اور ہشا لاہشا کی صدائیں بلند کرتے ہوئے کوچوں سے نمودار ہوتے اور بازار روشنی سے جگمگا اٹھتا۔کبھی کبھی فضامیں آتش بازیاں چھوٹ پڑتیں جن سے ان گنت جگنو کی طرح چمکتی ہوئی آگ کی پنکھڑیاں زمین پر جھل جاتیں۔گاہے گاہے کسی بلاخانے کی چھت سے سوز اور مدھ میںڈولی ہوئی شہنائیوں کی آوازیں بلند ہوتیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 35)

عبدالغنی شیخ نے لداخ کی سر زمین میںآنکھ کھولی اور یہاں کے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اپنے افسانوں میں کی ہے۔مذکورہ افسانے میں انگموں کے جذبات کو فنی مہارت سے پیش کرتے ہوئے یہاں کے چولہا، لوسر، پہاڑ اور ڑیمو گنپہ کو بھی نمایاں کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

 ’’آہ!اس سال لوسر کتنی کٹھنائیاں اور اداسیاں لے کر آیا۔ وہ سوچنے لگی۔پچھلے سال لوسر کے موقعے پر اس کی ماں زندہ تھی۔ اس کا شوہر گھر پر تھا۔ شوہر کا ایک دوست بھی تھا۔اور اس کی اپنی چہیتی سہیلی حمیدہ بھی گھر پر تھی۔اس دن گھر پر اچھے اچھے کھانے پکے تھے۔ لیکن اس سال ابھی تک چولہا ٹھنڈاپڑا تھا... پہاڑی پر واقع محل کے دریچے کی قندیلیں ہوا کے جھونکوں سے لرز رہی تھیں اوربلند ترین چوٹی پر واقع ڑیمو گنپہ تاریکی میں مستور تھا۔شمعوں کی چمکتی ہوئی ایک لمبی زنجیر اس کے وجود کی نشان دہی کر رہی تھی۔ ‘‘(ایضاً، ص 35)

افسانے ’آرزوئیں‘ لداخی تہذیب و ثقافت، تاریخ، رہن سہن اور لداخیت کے حوالے سے عبدالغنی شیخ کا ایک اہم افسانہ ہے۔اس کہانی کا کردار ’ کنزیز‘  ہے جو اپنی سہیلیوں نیما اور پدما کے ہمراہ من میں ایک بھائی کی تمنا لے کر سنگر گنپہ جاتی ہے۔کیونکہ بودھی مذہب میں پہلے ماہ کی پندرھویں اور سولہویں تاریخ ہر کسی کے لیے ایک خوش خبری لے کر آتی ہے۔اس لیے کنزیز بھی اپنی رسم کے مطابق ساری چیزیں لے کے مختلف گنپہ اور مندر میں جاکربڑے ادب سے نذرانہ پیش کرتی ہے اور بڑیلاما سے تعویذحاصل کر کے گھر واپس آتی ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ افسانے میں لداخ کی عورتوں کے روزمرہ گھریلو کام، پیرق، ڑیمو کی چوٹی، گنپے وغیرہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ جو لداخ کی قدیم تہذیب کے ورثے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کریں:

’’پندرھویں تاریخ کو کنزیز کی آنکھ بہت سویرے کھلی۔ کپڑے لتّے لگا کر بستر تہ کیا اوراپنے روزمرہ کے کام میں لگ گئی۔سب سے پہلے مٹی کا گھڑا اٹھائے نالے پر پانی لینے چلی۔تب تک ماں چولہا پھونکتی رہی۔ پھر کمرے سے دروازے تک صفائی کی طاق پر رکھے ہوئے کٹوروں اور تھالیوں کو صاف کرنے لگی،یہ اس کا روز کا کام تھا۔جو وہ کسی دوسرے پر چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنا کام پھرتی سے کر رہی تھی کیونکہ آج اس کو مقدس تیرتھوں کی یا تراکرنی تھی۔یہ سب مقدس تیرتھ اس کے گھر کے ایک میل کے فاصلے کی حدود میںتھے۔‘‘

(عبدالغنی شیخ: زوجی لا کے آرپار، افسانہ: آرزوئیں، کشمیر مرکنٹائل پریس، ریذیڈنسی روڈ، سرینگر، 1975ص، 73-77)

 ’آزمائش ‘ عبدالغنی شیخ کا لداخی تہذیب کے پس منظر میں لکھا گیا ایک رومانی افسانہ ہے۔اس میں لندن کی ایک لڑکی ’میری ‘ اور لداخ کا ایک لڑکا ’حامد ‘ کے درمیان محبت کی داستان کو پیش کیا گیا ہے۔میری لداخ میں آکرحامد سے لداخی زبان سیکھنا چاہتی تھی اور حامد میری سے انگریزی لب ولہجہ کو درست کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان کی ملاقاتیں روز کا معمول بن گئیں۔ ایک روز میری حامد سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو حامد میری سے کہتا ہے کہ میرا گاؤں لیہہ سے بالکل بدتر ہے۔ جہاں نہ کوئی سڑک،بجلی،رسٹوران،ریڈنگ روم وغیرہ ہے۔یہاں مصنف نے لداخ کے لیہہ شہر اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں کا تقابل کر کے لداخی رہن سہن،ان کے کچے مکانات کے علاوہ ان کی زندگی کی مشکلات کو بھی نمایاں کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’حامد رُک رک کر بولنے لگا، لیکن تم نہیں جانتی میری، جہاں میں رہتا ہوں وہ جگہ لہیہ سے بالکل بدتر ہے۔لہیہ میں سیاحوں کی آمد کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ یہاں موجودہ زمانے کی ساری بنیادی سہولتیںمیسر ہیں۔لیکن میرے گاؤں میں ابھی کوئی سہولیت نہیں، کوئی ریستوران نہیں، کوئی ریڈنگ روم نہیں، یہاں تک کہ بجلی بھی نہیں۔ دھول گرد، ریت میرے گاؤں کے تحفے ہیں۔گاؤں تک سڑک بھی نہیں جاتی۔ چنانچہ سنگ ریزوں اوردھول سے اٹی ہوئی چار کلو میٹر لمبی ایک ڈھلوان پگڈ نڈی پیدل طے کرنے کے بعد ہم اپنے گھر پہنچتے ہیں۔تو کیا ہوا؟ میری نے بیچ میں بات کاٹ دی۔ ہم کچے مکانات میں رہتے ہیں،جن کی نچلی منزل میں گائے کا تھان اور بھیڑ بکریوں کا باڑا ہوتا ہے۔کوئی ڈرائنگ روم نہیں، کوئی باتھ روم نہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 73)

عبدالغنی شیخ کے بیشتر افسانے لداخ کی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ لداخ میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے بیچ میں کئی میلوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی مسافر دن  بھر سفر کرنے کے بعد شام کو اگر اپنی منزل پر نہیں پہنچتا تو پاس کے گاؤں میں بلا جھجک کسی بھی گھر کے در پر دستک دیتے ہیں اور مسافر جس در پر بھی جاتا ہے اس گھر کے افراد خا نہ خوش اسلوبی کے ساتھ مہمان کے استقبال کے لیے ’دیا‘ لیے ہوئے دروازے تک آجاتے ہیں، کیونکہ اس وقت آج کی طرح بجلی نہیں تھی۔افسانہ ’ایک رات‘ میں ایک مسافر کے استقبال کا منظر ملاحظہ فرمائیں:

’’کون ہو ؟میں ایک پردیسی ہوں۔ایک رات کے لیے پناہ چاہتا ہوں۔ ایک جوان مردانہ آواز نے جواب دیا۔تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ نیم تاریکی میں دس بارہ سال کے چھوٹے لڑکے نے ٹمٹماتا ’دیا‘  دکھاتے ہوئے کہا۔ پردیسی اندر آجائیے۔ وہ چپکے سے پیچھے ہو لیا۔کمرے میں الاؤ جل رہا تھا۔ اس کے گرد ایک خاتون،چھ سات سال کا ایک گول مٹول بچہ اور ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔پردیسی نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور الاؤ کے قریب جنگلی ہرن کی کھال پر بیٹھ گیا۔‘‘

(عبدالغنی شیخ: دو ملک ایک کہانی، افسانہ: ایک رات، یاسمیں، فورٹ روڈ لیہہ، لداخ، 2015ص، 27)

لداخ ایک ٹھنڈا علاقہ ہے یہاں سال کے بیشتر مہینے سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ گرمی کا موسم مشکل سے تین مہینے ہوتا ہے لیکن ان دنوں میں بھی رات کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ اس لیے جب تک رات میں ایک کمبل کے اوپر رضائی نہ اوڑھے تو نیند بھی آرام سے نہیں آتی۔اس لیے یہاں مہمان کو سب سے پہلے سردی سے راحت پہنچانے کا بندوبست کر نے کے لیے چولھے میں آگ روشن کرتے ہیں یا اگر پہلے سے آگ لگی ہے تو اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں،تا کہ مہمان کو راحت محسوس ہو۔افسانہ ’ایک رات‘میں مہمان کی خاطر مدارات کرتے ہوئے عورت کہتی ہیں:

’’قریب آجاؤ بیٹا، ٹھیک طرح سے آگ تاپنا۔ عورت بولی اور بڑے لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا۔داوا! ان کو کمبل اوڑھانا اور لڑکی سے بولی، تم باہر سے سوکھی لکڑیاں لانا۔ بڑے لڑکے نے پردیسی کے پیچھے کمبل اوڑھا دیا۔ شاباش بھئی داوا۔ آج بڑی سردی لگی۔ نوجوان بے تکلفی سے بولا اور چھوٹے بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بچوں کی ماں سے مخاطب ہو کر کہا۔ آپ کے بچے بڑے پیارے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 28)

افسانہ’منظر نامہ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخی شادی کے رسم و رواج کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ لداخ میں شادی عام طور پر اکتوبر ،نومبر میں ہی منعقد ہوتی ہے، کیونکہ لداخ میں کوئی فنکشن ہال یا اس طرح کی کوئی مخصوص جگہ نہیںہے۔ اس لیے شادی کی تقریب کا اہتمام اگست میں فصل کاٹنے کے بعد ہی کسی کھیت میں مرد اور عورت دونوں کے لیے الگ الگ شامیانے لگائے جاتے ہیں۔اسی طرح باقی رسومات کو بھی انھوں نے اپنے افسانے میں پیش کیا ہے۔لداخ کی شادی کی رسومات وغیرہ میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔

عبدالغنی شیخ کاامتیاز یہ ہے کہ انھوں نے زبان و بیان کی آرائش و زیبائش سے بلند ہو کر اپنے عہد کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات کو گہرے شعور کے ساتھ سادہ، سلیس اور فطری اسلوب میں ایسی کہانیاں لکھیں جو اپنے عہد کی حقیقتوں کو سامنے لاتی ہیں۔

عبدالغنی شیخ نے لیہہ،کرگل اور دراس جیسے لداخ کے اہم مقامات کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ مذکورہ افسانے میں وہ کرگل، دراس اور بٹالیک کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’صدیوں پہلے جب سیمان کرگی نے دریائے سورو کے کنارے واقع یہ ویران جگہ اپنے بسنے کے لیے انتخاب کی۔سیمان کرگی اپنے دو بھائیوں اور برو رکے ہمراہ قدیم زمانے میں گلگت سے نقل مکانی کر کے جب یہاں پہنچا تو یہ جگہ پسند آئی اور یہاں بس گیا۔ اپنے نام پر اس جگہ کا نام کرگی رکھا جو بعد میںبگڑ کر کرگل بن گیا۔ پوئنی نے دریاپار اپنی بستی بسائی  اور اسی کے نام  کی نسبت سے یہ جگہ پوئنی کہلائی جو بعد میں کثرت استعمال سے پوئن بن گیا۔ تیسرا بھائی برور پیچھے نہیں رہااس نے کرگل کے پاس ایک نئی جگہ آباد کی جو برور کہلایا اور آج بارو کے نام سے جانا جاتا ہے۔کرگل کے اکثر دفاتر یہاں ہیں۔ کرگل کے ایک طرف دراس ہے تو دوسری طرف بٹا لیک ہے۔یہاں کے باشندوں کے آباو اجداد بھی صدیوں پہلے گلگت اور اس کے نواحی علاقوں سے آئے تھے۔ ‘‘

(عبدالغنی شیخ: دو ملک ایک کہانی، افسانہ پہلا خط، یاسمیں، فورٹ روڈ لیہہ، لداخ، ص 206)

عبدالغنی شیخ کے دیگر افسانے بھی لداخ کی تہذیب و معاشرت  کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے بزدل، بیوقوف، پاگل، مسکراہٹ، آزمائش، راز دل، یادیں، بدلاو ، کھودا پہاڑ، نکلا چوہا ، دل ہی تو ہے، مسافر، مرنا تیری گلی وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے افسانے اور کردار لداخی تہذیب و معاشرت کی روایت کو ابھارنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عبدالغنی شیخ کے افسانوں میں لداخ کے حالات، واقعات،ماحول اور معاشرے کے مسائل پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔جن کو انہوں نے بڑی دیانت  داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔

 

Dr. Mohd Shareef

Assistant  Professor, Dept. of Urdu

Government Degree College

Kargil- 194105 (Ladakh )

Mob.: 8899238784

Email: shareef.sharifi786@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...