3/9/25

اردو کا نند لال، جو نیرنگ سرحدی بن کے چمکا، مضمون نگار: شفیع ایوب

 اردو دنیا، اپریل 2025

نند لال نیرنگ سرحدی اردو کے بڑے عاشق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ بطور مدرس اور بطور شاعرپوری زندگی اردو کی خدمت میں گزار دی۔ لیکن اردو حلقے میں جو پذیرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ انتقال کے بعد رفتہ رفتہ گمنامی کے اندھیروں میں کہیں کھو گئے تھے۔ بھلا ہو نیرنگ سرحدی کے بیٹے نریش نارنگ کا کہ انھوں نے ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی سے رابطہ کیا۔ کناڈا میں اردو زبان و ادب کے علم بردار ڈاکٹر سید تقی عابدی نے برسوں کی تحقیق کے بعداکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نندلال نیرنگ سرحدی کا تمام کلام یکجا کر کے تقریباً گیارہ سو صفحات پر مشتمل ضخیم کلیات شائع کر دی۔اس طرح ایک بار پھر نند لال نیرنگ سرحدی کے کلام کے حوالے سے اہل نظر نے اپنی آرا کا اظہار کرنا شروع کیا۔نند لال نیرنگ کی زندگی کئی نشیب و فراز سے گزری۔ لیکن زندگی کے ہر موڑ پر وہ اردو سے محبت کو اپنا مقصد حیات بنائے رکھا۔ لیکن ناقدین ادب نے نند لال نیرنگ کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ کلیات نیرنگ سرحدی ’ تعمیر بقا‘ کے مرتب ڈاکٹر سید تقی عابدی ان لفظوں میں اپنی شکایت درج کرتے ہیں:

’’ وہ شاعر فطرت جس نے پانچ سو کے قریب غزلیں، نظمیں، قطعات، مثنویات اور رباعیات سے گلستانِ اُردو کو رنگیں کر دیا، جس نے درجنوں آزادی اور آزادی خواہوں انسانیت اور وطن دوستی پر منظومات لکھے وہ کیوں گمنامی اور بے چارگی کی زندگی گزار کر چلا گیا۔ ہم متشاعروں کے کلام کے اشتہار کے انبار تو دیکھتے ہیں لیکن کیوں ایک فطری شاعر کے کلام کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئیں اور خود شاعر اس کے کلام کے چھپنے کی آرزو لے کر اس بیداد دنیا سے چلا گیا۔ ‘‘

 ( تعمیر بقا، نیرنگ سرحدی، ص 10)

نند لال نیرنگ سرحدی 6فروری 1912کو غیر منقسم ہندوستان کے مندھرا، ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سادھو رام اور دادا کا نام کالے رام تھا۔ ان کے دادا کالے رام میونسپل کمیٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں داروغہ چنگی تھے۔

ایسے پرگو اور استادانہ مہارت رکھنے والے شاعر کے بارے میں یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ انھوں نے شاعری کا آغاز کب کیا ؟ اس سلسلے میں ’ میری شاعری‘ کے عنوان سے مارچ 1967میں لکھا ہوا ان کا ایک مضمون موجود ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں:

’’میری شاعری کی ابتدا جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، میرے کرم فرما مولانا عطاء اللہ خان صاحب کی زیر نگرانی ہوئی۔ وہ خود ایک بہت بڑے عالم اور اعلیٰ پایہ کے ادیب اور شاعر تھے،اسی زمانے میں جناب منشی تلوک چند صاحب محروم سے ملاقات ہوئی جو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مقامی اسکول میں نائب مدرس ہو کر تشریف لائے تھے۔ ان کی خدمت میں رجوع کیا۔ انھوں نے بھی میری حوصلہ افزائی فرمائی اور چند سادہ باتیں جو بنیاد شاعری کے لیے ضروری تھیں میرے ذہن نشیں کرائیں اور مجھے باقاعدہ لکھنے کے لیے ہدایت فرمائی۔ ‘‘  ( تعمیر بقا، ص 154)

نند لال نیرنگ سرحدی پیشے سے معلم تھے۔ تمام زندگی تنگ دستی میں گزاری۔ اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ شعر و ادب کو اپنی زندگی میں سب سے عزیز رکھا۔ اردو اور ہندی کے علاوہ پشتو، فارسی، سنسکرت وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اردو تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ لوگ انھیں اردو تہذیب کا نقیب کہتے تھے۔ سفید پاجامہ اور کالی شیروانی پسندیدہ لباس تھا۔ سر پر اکثر شینل کی ٹوپی ہوتی اور ہاتھ میں کشمیری چھڑی۔ بڑے محنتی اور جفا کش تھے۔ صبح جلدی سوکر اٹھ جاتے تھے اور عام طور پر رات بارہ بجے سے پہلے نہیں سوتے تھے۔ مطالعے کے شوقین تھے۔ مشاعروں میں خوب شرکت فرماتے لیکن کبھی کسی سے عرض تمنا نہیں کرتے۔ خود بھی مشاعرے منعقد کرتے جس میں ملک کے ممتاز شعرائے کرام شرکت فرماتے تھے۔

نند لال نیرنگ سرحدی کلاسیکی شعرا کے کلام کا خوب مطالعہ کرتے تھے۔وہ اس بات کی اہمیت سے واقف تھے کہ میر، سودا، درد، انیس، غالب، مومن، ذوق، داغ، اقبال وغیرہ کا مطالعہ کسی بھی شاعر کے لیے ناگزیر ہے۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا کے کلام پر تضمین بھی کی ہے۔ تضمین نگاری آسان نہیں ہے۔کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہی تضمین نگاری کے فن سے انصاف کر سکتا ہے۔نیرنگ سرحدی نے خواجہ میر درد کی مشہور غزل کے تین شعروں پر مخمس میں تضمین کی اور اس تضمین کا نام ’ نغمۂ توحید ‘ رکھا۔ انھوں نے مرزا غالب کے اشعار پر بھی تضمین کی ہے۔ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامیاب تضمین نگار تھے۔ تعمیر بقا کے مرتب ممتاز شاعر و ادیب ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں:

’’تضمین و ہ شعر یا نظم ہے جس میں شاعر کسی شاعر کے مصرعے یا شعر پر اپنے مصرعے جوڑ دیتا ہے۔ نیرنگ نے اساتذہ میں خواجہ میر درد اور مرزا غالب کی غزل کے چند منتخب شعروں پر تضمین باندھی ہے۔ انھوں نے بسمل سعیدی کی غزل کے شعر پر دو مصرعے اضافہ کر کے قطعہ بنا دیا          ؎

      جس سے نہ بجھے تشنگی  اے حضرت نیرنگ

اس  ساغر  مئے  کو کبھی ساغر نہیں کہتے

کعبہ میں مسلماں کو بھی  کہہ دیتے ہیں کافر

 بُت  خانہ  میں  کافر کو بھی  کافر نہیں کہتے

(تعمیر بقا، ڈاکٹر سید تقی عابدی، ص 253)

نیرنگ سرحدی غالب کے بڑے عاشق تھے۔ ان کے بیٹے نریش نارنگ نے اپنے کئی انٹر ویوز میں بتایا ہے کہ نیرنگ صاحب ہمیشہ غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں غالب کی بڑی سی تصویر لگا رکھی تھی۔ غالب کی چھوٹی بحر کی ایک مشہور غزل کے چھے اشعار پر مخمس کی ہیئت میں تضمین کیا ہے۔ مطلع کا بند دیکھیے     ؎

 

جوشِ  شباب میں اسے سرشار دیکھ کر

ذرے میں ایک حسن کا انبار دیکھ کر

پیش  نگاہ  مطلع  ِ انوار  دیکھ  کر

کیوں جل گیا نہ تاب ِ رُخِ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

نیرنگ سرحدی کے شعری سرمائے میں نظموں، غزلوں، قطعات وغیرہ کے ساتھ حمد، نعت،منقبت سبھی کچھ ہے۔ مناجات کے اشعار دیکھیں تو نہ صرف نیرنگ سرحدی کی قادر الکلامی عیاں ہوتی ہے بلکہ ان کا صوفیانہ مزاج بھی سامنے آتا ہے۔ نیرنگ سرحدی ایک طرف بھکتی تحریک سے متاثر تھے تو دوسری طرف مولانا روم کی مثنوی کو اپنے دل کے قریب پاتے تھے۔ انھوں نے جو مناجات لکھی ہے اس میں خالق کائنات کی حمد، وحدت کے حوالے سے اس کی عظمت کے ذکر کے ساتھ ساتھ مخلوقات اور کائنات پر اس کے اختیار اور اقتدار کا ذکر بھی ہے۔ مسدس کی شکل میں آٹھ بند کی ایک نہایت پُر اثر اور درد انگیز مناجات ان کے مجموعے میں شامل ہے۔ بطور نمونہ صرف ایک بند یہاں پیش کیا جاتا ہے     ؎

درد مندوں  کی دوا،  اور شفا کے مالک

خالق ہر دو جہاں، ارض و سماء کے مالک

صاحب  فقر و غنا،  شاہ و گدا کے مالک

واقف  راز  فنا،  دار  بقا  کے  مالک

ہیں  گل و خار ترے،  سر و سمن تیرے ہیں

خشک و تر تیرے ہیں صحرا و چمن تیرے ہیں

سہل ممتنع میں شعر کہنا بھی قیامت ہے۔ نیرنگ سرحدی چونکہ ایک استاد شاعر تھے، اس لیے ان کے کلام میں ہر رنگ کے اشعار موجود ہیں۔

تذکروں کی ایک اصطلاح ہے سہل ِممتنع۔ عہدساز شاعر حسرت موہانی نے لکھاتھا کہ ’’سہلِ ممتنع سادگی حسن و بیان کی اس صفت کا نام ہے جس کو دیکھ کر ہر شخص بظاہر یہ سمجھے کہ یہ بات مرے دل میں بھی تھی اور ایسا کہنا شاعر کے لیے آسان ہے مگر جب خود کوشش کرے ویسا لکھنا چاہے تو نہ لکھ سکے۔ ‘‘ کسی شاعر کے کلام میں سہلِ ممتنع کے اشعار کا پایا جانا بھی اس کی ایک بڑی خوبی ہے۔ ڈاکٹر ظہیر رحمتی لکھتے ہیں:

’’ اصطلاح میں سہل ممتنع ایسے کلام کو کہتے ہیں جس میں نازک، بلند اور دقیق خیال کو بھی آسان، سلیس اور مانوس الفاظ میں اس قدر سادگی اور صفائی کے ساتھ باندھا جائے کہ وہ خیال و شعر عام و معمولی لگنے لگے یعنی قاری اور سامع کو مفہوم کی ترسیل اس طرح ہو جائے جیسے ایک عام بات کی ترسیل ہو جاتی ہے۔ سہل ممتنع کی تعریف یہ ہے کہ ایسا شعر جس کی نثر نہ کی جا سکے یعنی اس میں اتنی سادگی و عمومیت ہو کہ نثر میں کچھ بیان کرنے کے لیے باقی ہی نہ رہے،سہل ممتنع کا شعر کہلاتا ہے۔ ‘‘

(ظہیر رحمتی، غزل کی تنقیدی اصطلاحات، ص 327)

بطور نمونہ چند اشعار پیش کرتا ہوں        ؎

محبت  میں جفا  ہوتی رہی ہے

نہ جانے کیا خطا ہوتی رہی ہے 

کسے معلوم میرے دل کی حالت

تری محفل میں کیا ہوتی رہی ہے

ہمیشہ بزم میں واعظ کے ہوتے

پراگندہ  فضا  ہوتی  رہی ہے

جہاں پڑھنے گئے نیرنگ وہاں پر

غزل پر واہ وا ہوتی رہی ہے 

نیرنگ سرحدی بنیادی طور پر ایک معلم تھے۔ وہ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ تھے اور اخلاقی قدروں پر زور دیتے تھے۔ وہ حضرت انسان کی عظمت کو پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر کا شاعر کئی مرتبہ معلم ِ اخلاق بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ خصوصی طور پر انھوں نے اپنے قطعات میں اخلاقی درس دیا ہے۔ کلام نیرنگ سرحدی کے مرتب، ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تحقیق کے مطابق نیرنگ سرحدی کے قطعات کی تعداد تقریباً ایک سو اسّی ( 180) ہے۔ نیرنگ نے کچھ قطعات فارسی میں بھی لکھے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ انسان یعنی حیوانِ ناطق اگر اخلاق اور کردار کی دولت سے مالامال ہے تبھی اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہے۔

خود غرضی اور احسان فراموشی بھی ہماری اخلاقی گراوٹ کے سبب معاشرے میںموجود ہے۔ یہاں بیشتر احباب چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ہم جذبۂ احترام کے ساتھ کسی کو سلام کرنے والے بنیں۔ اس بات کو نیرنگ سرحدی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس قطعہ میں پیش کیا ہے      ؎

کوئی جھک کر سلام کرتا ہے

ظاہراً احترام کرتا ہے

ظاہراً احترام کرتا ہے

بے  غرض آج کل  زمانے میں

کون کس کو  سلام کرتا  ہے

نیرنگ سرحدی کا ماننا تھا کہ شاعر کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہوتا ہے۔ وہ خود ایک نیک دھارمک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ سبھی مذاہب کا احترام کرتے تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے یہی پیغام دینے کی کوشش کرتے رہے کہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب تصور کیا جائے۔ انھوں نے ہر مذہب کے تہواروں کے حوالے سے نظمیں لکھیں۔ ہر مذہب کے مذہبی رہنمائوں کو اپنی شاعری کے ذریعے خراج ِ عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے گرو نانک صاحب، گرو گوبند سنگھ، مہاویر سوامی اور مہرشی دیانند کے بارے میں جس عقیدت سے نظمیں لکھی ہیں اُس سے نیرنگ سرحدی کی رواداری اور وسعت ِ قلب کا ثبوت ملتا ہے۔ عید کے موقعے پر غزل کی ہیئت میں جو نظم انھوں نے لکھی تھی اسے بڑی عقیدت سے سنایا کرتے تھے۔ چند اشعار دیکھیں           ؎

نگاہِ  لطف  و  کرم  ہو  تو  عید  ہوتی   ہے

نصیب  دولت ِ  غم  ہو   تو  عید  ہوتی  ہے

عُروجِ عشق  یہی  ہے تمہارے نام کے ساتھ

ہمارا   نام   رقم    ہو   تو   عید   ہوتی  ہے  

جبینِ شوق  نے  سجدے کہاں  کہاں نہ کیے

تمہارے  در پہ جو  خَم  ہو  تو عید  ہوتی  ہے

نِشاطِ شعر  و  سخن  میں یہی  تو  ہے  نیرنگ 

زباں ہو،  زورِ قلم   ہو  تو  عید  ہوتی  ہے 

مشرق و مغرب کی جو کشمکش ہمیں علامہ اقبال کی شاعری میں ملتی ہے، اس کا پَرتَو نیرنگ سرحدی کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں نہ مشرق سے بیزار ہونا ہے نہ مغرب کی اندھی تقلید کرنی ہے۔ بلکہ یہ یاد دلایا کہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شب کو سحر کیا جائے۔ علامہ اقبال کی اس فکر کو نیرنگ سرحدی نے بھی اپنی شاعری میں برتا ہے۔ بے شک وہ مشرق کے دلدادہ ہیں لیکن مغرب کی ترقی سے مشرق کو سنوارنا بھی چاہتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ہے ’’کسی دوست کی امریکہ سے واپسی پر ‘‘۔ مسدس کی شکل میں چھہ بند پر مشتمل نظم میں ایک مثبت پیغام ہے۔ اس نظم میں امریکہ کی مادی ترقی کا ذکر بھی ہے اور اپنے وطن کی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کا بیان بھی ہے۔  چند اشعار پیش خدمت ہیں          ؎

ملک امریکہ سے آنا ہو مبارک نوجواں

تیری اس توقیر پر شاداں ہے ہر خورد و کلاں

سیر کی ہے تونے  امریکہ کے  ارضِ پاک کی

تونے دیکھی ہے زمیں واشنگٹن، نیو یارک کی

لوگ کہتے ہیں نرالی ہے وہاں کی سرزمیں

کوہ دَریا کے مناظر ہیں وہاں سحر آفریں

کیا کوئی دریا وہاں پر ہمسرِ جمنا بھی ہے

کیا ہمالہ کی بلندی ہے وہاں گنگا بھی ہے

تاج کی صورت عمارت کوئی دیکھی ہے وہاں

ہے  زمینِ ہند  پر  جو  یادگار ِ  شہہ  جہاں 

کیا وہاں بھی دفن ہے کوئی  محبت  کا  نشاں

جس کے آگے سر جھکاتے ہوں زمین و آسماں

 تُونے  امریکہ  کے  علم و فن  سے  پائی  آگہی

تجھ کو  بھارت  میں  نظر  آئے  اگر  کوئی کمی

منتشر کر  دے  وہاں  علم  و  ہنر  کی  روشنی 

روشنی  میں  ہو  اضافہ تاکہ  تیری  ذات  سے

پار   بیڑا   ہند  کا   ہو  قلزم ِ  ظلمات   سے

ایسی بہت سی عمدہ نظمیں نیرنگ  سرحدی کے یہاں ملتی ہیں جن میں وطن سے محبت کا پیغام دیا گیا ہے۔ وہ اپنی نظموں میں شانِ وطن اور عزمِ جوانانِ وطن کے گیت گاتے ہیں۔ وہ وطن سے محبت کا درس دیتے ہیں اور اہنسا کا پاٹھ پڑھاتے ہیں۔

چند نامساعد حالات کے سبب نیرنگ سرحدی کا کلام ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ اس بات کا انھیں قلق تھا۔ لیکن وہ اپنے کلام کی اشاعت کے لیے کسی کے سامنے اظہار ِ تمنا نہیں کر سکتے تھے۔ ایک خودداراور قناعت پسند شاعر کے لیے یہ بہت مشکل کام تھا۔ اہلِ جہاں نے اس کرب کو محسوس نہیں کیا اور وہ خود اپنی زباں سے اظہار نہ کر سکے لیکن اپنے کئی اشعار میں انھوں نے اس کرب، بے چینی اور تڑپ کو بیان کیا ہے۔ انھیں اس بات کی فکر ضرور تھی کہ ان کے بعد ان کے کلام کا کیا حشر ہوگا۔اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شاعری ان کی زندگی ہے۔ شاعری کے بغیر وہ ادھورے ہیں۔ وہ کہتے ہیں        ؎

 

نیرنگ ! شاعری  تھا  مرا  مقصد ِ  حیات

معلوم کیا ہو حال مرا شاعری  کے  بعد

ایک مدت تک مصائب، آلام، تنگ دستی اور تنگ حالی کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد نند لال نیرنگ سرحدی کو شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ اب سامانِ سفر باندھنے کا وقت ہو چلا ہے۔آخری وقت میں بھی یاس اور مایوسی سے اپنا دامن بچاتے ہیں لیکن حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں        ؎

  اَب  نہ  پہلی  سی  شان  باقی  ہے

ہے  غنیمت کہ جان   باقی  ہے

سب  بلائیں  تو  دیکھ  لیں   نیرنگ

موت کا امتحان باقی ہے

5فروری 1973شام کے سات (7)بجے، حرکت قلب بند ہو جانے سے نیرنگ سرحدی کا انتقال ہوا۔

 

Dr. Shafi Ayyub (Shafi Uzzama Khan)

Centre of Indian Languages,

SLL&CS / JNU

New Delhi . - 110067

Mobile : 8860248513

shafiayub75@rediffmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025 جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے ...