16/12/25

درشن سنگھ کی غزل گوئی،مضمون نگار: نذیر احمد کمار

 اردو دنیا،مئی 2025

معروف صوفی شاعر،مصنف اور ادیب درشن سنگھ دگل14 ستمبر1921 میں سید کسراں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وفات 30 مئی 1989 میں دہلی میں ہوئی۔ بی اے آنرزپنجاب یونیورسٹی لاہور سے،لیکن ڈپٹی سیکرٹری گورنمنٹ آف انڈیاکے طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اور شمیم کرہانی سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ 1938 سے شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔ درشن سنگھ نے قطعات بھی کہے ہیں رباعیاں بھی۔ غزلیں اور قصیدے بھی،غرض تمام اصناف سخن کو آزمایا ہے۔ اسی طرح ان کے اشعار کی گرمی ہر صنف سخن میں نمایاں ہے۔ زندگی کے تقاضوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے جذبات کے پاس آنکھیں بھی تھیں۔ ان کی محبت اندھی نہیں بلکہ وقت پڑھنے پر غم دوراں کے لیے غم جاناں کو ترک بھی کردیتے تھے۔

درشن سنگھ ایک سچے عاشق کی طرح دوئی کے پردے چاک کردینا چاہتے تھے اور تمام انسانوں اور خدا سے محبت کرنے والوں کو ایک مرکز پہ دیکھنا چاہتے تھے۔ان کی خاص بات یہ تھی کہ یہ نہ کسی تذبذب کے شکار تھے اور نہ ذہنی خلجان میں گرفتار اور نہ ہی ادھر ادھر بھٹکنے کے قائل تھے۔درشن سنگھ کے چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جس میں تلاش نور (1965)، منزل نور (1970)، متاع نور (1988)اور’جادۂ نور‘ (1992) قابل ذکر ہیں۔

انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پایے کے صوفی شاعر گزرے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے جو شاعری کی ہے اس کے پیچھے کس کاہاتھ ہے۔ اپنی شاعری کے متعلق ان کا نظریہ کیا تھا۔ اس حوالے سے ایک مضمون ’میرا نظریۂ شاعری‘ میں وہ خود اس بات کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:

’’میرا نظریۂ شاعری صرف ذہن کی یا فکر و مطالعے کی اپج نہیں۔ وہ میری زندگی سے پیدا ہے اور میری ذات وحیات تک ہی محدود نہیں، بلکہ ہمارے چاروں طرف انسانی زندگی کا جو بحر بیکراں موجزن ہے، اس سے جڑا ہوا ہے۔میری شاعری جو میری روح کی پکار ہے، دو عظیم رہنمایان حقیقت میرے مرشد پاک حضور بابا سادن سنگھ جی مہاراج اور والد بزرگوار سنت کر پال سنگھ جی مہاراج کی نظر کرم کی دین ہے۔ میرا نظریۂ شاعری اگر دو لفظوں میں بیان کیا جا سکے تو اس کے لیے صرف ’انسان دوستی‘ کا استعمال کافی ہو گا۔ یہاں میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ’انسان دوستی‘ سے میری مراد کسی مروجہ ازم (ISM) یعنی مسلک یا نظریے سے نہیں‘ بلکہ اس لافانی عنصر سے ہے جو انسان کے خمیر میں ہے، اور وہ بنیادی عنصر ہے محبت جو بنائے حیات اور تخلیق کا ئنات کا جو ہر ہے۔‘‘

(درشن سنگھ، شعری مجموعہ، متاع نور، ساون کرپال پبلی کیشنز، دہلی 1988، ص 37)

یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ نام و نمود اور شہرت کی طلب سے بہت دور رہے ہیں۔ ایک روحانی رہنما کے وہ عالمگیر شہرت اور مقبولیت کے مالک ہیں۔ان کے پیروکاروں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ ہیں۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بودھ، جین،پارسی لیکن ان مذاہب میں بھی وہ لوگ جو خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ بھی جو مادہ پرست ہیں۔غرض درشن سنگھ کا پیغام سب کے لیے ہے اور وہ سب کے دلوں کو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا انھیں ’انسان دوست‘شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔چند مثالیں           ؎

ملی وہ مے کہ میں سرشار ہو گیا ساقی

ہر آدمی سے مجھے پیار ہو گیا ساقی

گلے لگا لو ہر انسان کو کہ اپنا ہے

چلو تو راہ گزاروں میں بانٹتے ہوئے پیار

میں نے سیکھا ہے زمانے سے محبت کرنا

تیرا پیغام محبت مرے کام آیا ہے

اپنے ہی دوست کی توہیں جتنی ہیں یہ نشانیاں

دیر ملے تو سر جھکا،کعبہ ملے سلام کر

جوش مستی میں بغل گیر ہوں بچھڑے ہوئے دل

آج انسان کو انسان بنادے ساقی

درشن سنگھ کی شاعری انسانی جذبات، فلسفہ اور روحانی موضوعات پر گہری بصیرت فراہم کرتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں نہ صرف ذاتی تجربات کی جھلک ہے بلکہ سماجی اور روحانی مسائل پر بھی غور و فکر کی گئی ہے۔ درشن سنگھ کی شعری کائنات وسیع اور متنوع ہے، جس میں کئی اہم پہلو شامل ہیں۔ ’متاع  نور‘ میں موجود کلام کو کئی خانوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔

.1       روحانیت اور فلسفہ:

درشن سنگھ کی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔  ان کی تخلیقات میں خدا، کائنات، اور انسان کے درمیان تعلق کا گہرائی سے ذکر ہے۔ ان کی شاعری میں یہ سوالات بارہا اٹھائے جاتے ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور انسان اپنے وجود کو کس طرح سمجھ سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی غزلوں میں صوفیانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ جس میں خدا کی محبت، روحانی تجربات، اور انسان کے باطن کی پاکیزگی کی تلاش کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی غزلوں میں عشق حقیقی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ متاع نور میں لکھتے ہیں:

.1       ’’روحانیت جو میری زندگی کاجزو لاینفک یا اٹوٹ انگ ہے اسے موضوع سخن بنانے سے پہلے میں مروجہ روایتی انداز میں شاعری کرتا تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 52)

.2       ’’شاعری۔وہ کسی زبان میں ہو،طہارت فکر اور لطیف احساسات و جذبات کی چیز ہے۔اس کی آمد اس وقت ہوتی ہے جب روحانی ارتقا کی بلندیوں کو چھو لینے کی قدرتی خواہش تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 43)

خدا کو ڈھونڈتے رہنا ہی اصل زندگی ہے

یہ راہ عشق ہر اک راہ سے جدا ہے

مٹاکر مجھے آپ میں جذب کرلے

بقا کے لیے میں فنا چاہتا ہوں

نہاں ہیں تکمیل خود شناسی میں جلوہ ہائے خدا شناسی

جو اپنی ہستی سے بے خبر ہے،وہ آپ سے آشنا کہاں ہے

ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیںکہ عظیم شاعری صرف سنتوں، مہاتماؤں اور صوفی فقیروں نے ہی نہیں کی ہے بلکہ یک سوئی اور محویت ذات میں جب انسان ہم آہنگ ہوتا ہے تو وہ شعر کہتا نہیں،شعر اس پر نازل ہوتے ہیں۔یہی صورت درشن سنگھ کی شاعری میں ہے۔ان کی شاعری کو پڑھتے وقت اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ آمد کے شاعر ہیں،لیکن المیہ یہ ہے کہ ان پر بہت کم لکھا گیا ہے۔

.2       محبت اور انسانیت:

محبت، ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے، لیکن یہ محبت ذاتی یا جسمانی حدوں سے آگے بڑھ کر کائناتی محبت کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ان کے اشعار انسانوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ا ن کی غزلوں میں عشق کے لطیف جذبات اور جدائی کی کربناکی نہایت ہی دلکش انداز میں ملتی ہے۔چند اشعارملاحظہ ہو       ؎

ہر ایک خواب کے پیچھے کوئی حقیقت تھی

مگر وہ خواب نہ تعبیر تک پہنچ پائے

کوئی سالک ہے نہ مسلک بجز ایمائے سلوک

دل ہی کھینچے لیے جاتا ہے سرراہ گزار

نام ہے آدمی تو کیا، اصل میں روح عشق ہوں

 ساری زمیں ہے میرا گھر، سارا جہاں مرا وطن

.3       سماجی مسائل

درشن سنگھ نے اپنے دور کے سماجی مسائل کو بھی شاعری کے ذریعے اجاگر کیا ہے، جیسے ذات پات کا نظام، ظلم و ستم، اور سماجی نابرابری۔ ان کی شاعری میں مظلوموں کی آواز بننے کا عزم ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں سماج کے مسائل، طبقاتی تفریق، اور ظلم و ستم کوبھی بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری محروم طبقوں کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہے     ؎

 ہمارے حال پہ یہ ظلم کیوں روا رکھا

زمین ہماری تھی، پر حکم دوسرا رکھا

اٹھ رہا ہے اب زمانے سے محبت کا چلن

ہونے والا ہے جہان رنگ و بو زیروزبر

.4       سادگی اور گہرائی

درشن سنگھ کی شاعری میں سادگی کے ساتھ ساتھ ایک گہری معنویت موجود ہے۔ عام فہم زبان اور تشبیہات کے ذریعے پیچیدہ موضوعات کو آسانی سے بیان کرنے کا ہنر ان کو خوب آتا ہے۔ ان کے کلام میں سادگی، گہرائی، روانی اور پراثر جذبات سے بھرپور اشعار  ہیں۔ وہ عام الفاظ کے ذریعے پیچیدہ خیالات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری ان کے جذبات سے جڑ جاتا ہے       ؎

 یہ دل کی بات ہے، لفظوں میں کیوں کہیں اس کو

جو بات دل میں چھپی ہو، وہی حسیں اس کو

تجھے جو پوچھنا ہے پوچھ لے اے داور محشر

میں اپنے ساتھ اپنی بے زبانی لے کے آیا ہوں

ہزار آئے زمانے میں انقلاب،مگر

مزاج حسن کا بدلا نہ عشق ہی کا چلن

.5       تصوف اور فلسفیانہ پہلو:

ان کے کلام میں عشق حقیقی کا ذکر باربار آیا ہے، جس میں خدا کے ساتھ انسان کے تعلق کو مرکزیت دی گئی ہے۔ یہ عشق خودی سے نکل کر خدا کی معرفت حاصل کرنے کا راستہ ہے۔درشن سنگھ کی غزلوں میں فلسفیانہ گہرائی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار زندگی، موت، اور کائنات کے سوالات پر غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔تصوف کے حوالے سے رفعت سروش رقمطراز ہیں:

’’دنیا کی اعلیٰ شاعری کا بیشتر حصہ خداشناسی اور اس کے واسطے سے خود شناسی کے متصوفانہ مضامین پر مشتمل ہے اور چونکہ یہ موضوع کسی ایک فرقے، کسی ایک زبان، کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا موضوع نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ انسانی سماج کے دائرے کی طرح وسیع ہے جو شاید کل روئے زمین سے گزر کر چاند ستاروں تک بھی پہنچ جائے۔ اس لیے اس کی مقبولیت بھی ہمہ گیر ہے اور چونکہ اسرار خداوندی ہنوز سربستہ ہیں، اس لیے ابتدائے آفرینش سے آج تک متصوفانہ مضامین اورشا عری وقت کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ وہ آواز جو انسان کے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہے۔ شاعری کے لیے ایک اور شرط ہے۔ دل کی آواز ہونا اور جو شعر دل سے نہیں طلوع ہوتا وہ لفظوں کا مجموعہ ہو تو ہو۔ شعر نہیں ہوتا۔ تاثر سے خالی۔ بے کیف۔ شعر کی تخلیق کے لیے وجدانی کیفیت ہو نا ضروری ہے۔ بالخصوص صوفیانہ اور عارفانہ شاعری کے لیے تو گداز دل لازمی ہے۔ ورنہ شعر میں الفاظ ہوں گے۔ وزن ہو گا، ردیف و قوانی ہوں گے مگر شعریت نہ ہوگی، روح شعر سے عاری صرف تجسیم الفاظ ہوگی‘‘

(درشن سنگھ، شعری مجموعہ، متاع نور، ساون کرپال پبلی کیشنز، دہلی 1988، ص 18)

مذکورہ عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ درشن سنگھ کی شاعری،بالخصوص’متاع نور‘ میں ہمیں اسی طرح کے تاثرات و تجربات،روحانیت کے کشف و کمالات اور عبد و معبود کے باہمی پراسرار معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کا اعتراف انھوں نے خود کیا ہے:

’’میں آغوش تصّوف کا پروردہ ضرور ہوں، لیکن متصوّفانہ زندگی کو جامد و ساکن چیز نہیں سمجھتا تصّوف تزکیۂ نفس اور طہارت فکر کی کاوش وریاضت ہونے کے باوجود ایک ایسا جیتا جاگتا پیمانہ ہے جو شراب حیات سے لبریز ہے اور جس کی صہبائے سرمدی سے قوت حیات اور تحریک ارتقاملتی ہے۔ ہمارے پراچین ریشی منی اور ان کے بعد آنے والے سادھو، سنت، مہا تما، ولی، صوفی اور فقیر،ان ہی جذبات اور احساسات کو لے کر روحانیت کے راستے پر آگے بڑھے۔‘‘(ایضاً، ص 41)

 فنا کی راہ پہ چلنا بھی ایک فن ہے مگر

بقا کے راز کو سمجھو تو بات کچھ اور ہے

وہ سر کہ جس کو نہ سجدے سے تھی کوئی نسبت

نہ جانے کیوں ترے در پر دیر سے خم ہے

جزو سے کل کی طرف جن کا سفر ہے روز و شب

موت ان کی منزل مقصود کا اک نام ہے

کہا جائے تو درشن سنگھ کی غزلیں ان کے دور کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی شاعری اپنی سماجی اور سیاسی حسیت کا اظہار ہے، ساتھ ہی مظلوموں کی آواز بھی ہے۔ فطری جذبات کے اظہارکے علاوہ صوتی حسن اور غنائیت ان کی غزلوں میں نمایاں ہے۔خود ان کا مانناہے کہ:

’’شعر و نغمہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کلا یا فن۔ موسیقی ہو، شاعری ہو، مصوری ہو، نقاشی ہو یا رقص۔ خدا کی دین ہے۔ فنون لطیفہ کا جنم خدا کی حمد وثنا کے لیے، پر بھو کے گن گان کے لیے ہوا تھا لیکن وقت کے ساتھ ان کی اصل صورت بدل گئی۔ فنون لطیفہ میں سب سے اونچا درجہ سنگیت کو اور اس کے بعد دوسرا درجہ شاعری کو دیا گیا ہے۔ لیکن شاعری میں سنگیت کے دو اہم جزو’سر‘ا ور’ لے یا تال‘ آگے ہی موجود ہے ہی سے موجود ہیں۔ شاعری خدا کی دین اور روح کا سنگیت یانغمہ ہے۔میں نے ایک بند میں اس خیال کو یوں ادا کیا ہے    ؎

وہی ہے ساز کے پردے میں ’لحن میں ‘لے میں

اسی کی ذات کی پرچھائیاں ہر اک شے میں

نہ موج ہے نہ ستاروں کی آب ہے کوئی

تجلیوں کے ادھر آفتاب ہے کوئی

(ایضاً، ص 44)

مجموعی طور پرہم کہہ سکتے ہیں کہ درشن سنگھ کی غزل گوئی کے موضوعات محدود نہیں بلکہ آفاقی نوعیت کے ہیں، جو ہر دور اور ہر قاری کے لیے اہم ہیں۔درشن سنگھ فارسی زبان کے بھی عالم تھے تاہم انھوں نے جس شعری اظہار کو اپنایاوہ اردو اور اس میں بھی بالخصوص اردو غزل کو ہی اپنے مزاج اور افتاد طبع کے مطابق تصور کیا۔ ’متاع نور‘ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ ان کی غزلوں پر مشتمل مجموعہ ہے جس کا اسم اعظم ہی ’عشق‘ ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر شاعری اسی ایک لفظ’عشق‘ کی تفسیر ہے۔ یہ عشق انھیں کبھی زمان ومکان کی سیر کراتا ہے، تو کبھی انھیں کسی کی خلوت خاص میں باریاب ہونے کا مژدہ سناتا ہے، انھیں عوام الناس سے محبت کرنے کے لیے جہاں اکساتا ہے، وہیں ان کے دل میں سوزو گدازبھی پیدا کرتا ہے اور اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ خالق کا ئنات ایک ہے اور جب اس کی نظر میں کوئی کمتر اور بر تر نہیں تو بندگان خدا میں تفریق کیوں؟ سب انسان ایک عالمی برادری کے کنبے کے افراد ہیں۔ پھر رنگ ونسل، زبان و مذہب اور ملک وقوم کی دیواریں مصنوعی ہیں۔ ان دیواروں کا وجود نسل انسانی کی بقا کے لیے مضر ہے۔ رضائے خدا وندی کے برعکس ہے اور جب تک ان مصنوعی دیواروں کو، جو ملکوں اور قوموں نے ذاتی مفادات کی خاطر کھڑی کی ہیں، گرایا نہیں جائے گا، انسانیت موجودہ عالمی بحران سے نہیں نکل سکتی، یہ تاثرات درشن کی شاعری کے مطالعے سے ہی مرتب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چند ااشعار ملاحظہ ہوں          ؎

راز نہاں تھی زندگی راز نہاں ہے آج بھی

وہم و گماں ازل میں تھی،وہم و گماں ہے آج بھی

حسن سے بھی سوا ہے کچھ عشق کی روشنی ہمیں

 وہ ہے چراغ انجمن، یہ ہے چراغ رہ گزر

پر تو عین ذات ہیں، روشنیاں صفات کی

اصل میں دونوں ایک ہیں شیخ ہوں یا ہوں برہمن

کٹ گئی عمر محبت کے سفر میں لیکن

 صبح کو شام تمنا سے گریزاں دیکھا

یہ ہوس کے بندے ہیں نا صحا، نہ سمجھ سکے مرا مدعا

 مجھے پیار ہے کسی اور سے، مرا دل ربا کوئی اور ہے

درشن کی شاعری میں پیار کا جذبہ، محبت کی سرشاری اور عشق کا والہانہ پن ہے۔ یہی عشق ہے جو انھیں منزل بہ منزل لیے پھرتا ہے یہی عشق ہے جو ان پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ معبود حقیقی ایک ہے۔ مگر اس کے چاہنے والوں نے حرم و دیر کی تفریق پیدا کر کے دوئی کا رنگ پیدا کر دیا ہے۔درشن سنگھ ’عشق‘کی وہ شمع روشن کرنا چاہتے تھے جو ایک مقدس آتش کی طرح ان کے سینے میں جل رہی تھی، جس کی روشنی سے یہ جہاں روشن اور منور ہے۔ ان کے سامنے ایک منزل مقصود تھی۔ معرفت کی ایک راہ متعین تھی اور ان کے شعور و وجدان نے انھیں یکسوئی اور یقین کامل بخشا تھا کہ وہ ذات واحد اور لاشریک ہے جس کی طرف ان کے قدم بڑھ رہے تھیں۔ انسان کی معراج یہی ہے کہ وہ اپنے معبود کو پہچان لے، صالح عمل کرتارہے اور ایک ذرہ نور کی طرح آخر کار اس ’منبع نور‘ سے جاملے۔ یہی ان کی تعلیمات کا نچوڑ ہے، اور یہی ان کا مسلک حیات و نظریۂ شاعری ہے۔ان کی غزل گوئی پر رفعت سروش نے تبصرہ کتے ہوئے لکھا ہے:

’’ان کی شخصیت میں ایک بلند پایہ انسان اور اعلیٰ درجے کے شاعر کا امتزاج نظر آتا ہے۔انھوں نے اپنے اشعار کی آبیاری خون جگر سے کی ہے اور نصف صدی کی مشق سخن اور فنی ریاضت نے ان کلام کو معائب سے پاک اور محاسن شاعری سے مزین کردیاہے۔غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے جسے انھوں نے اپنے جگر سے جلا بخشی ہے۔اسی لیے وہ نہیں چاہتے کہ اس نازک اندام پر سفاکانہ تنقید مشق تیغ زنی کرے۔‘‘(ایضاً، ص 31)

 

Nazeer Ahmad Kumar

Research Scholar, Dept of Urdu

Kashmir University

Kashmir 190006 (J&K)

Mob.: 9797838904

kumarnazir.urscholar@kashmiruniversity.net


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

درشن سنگھ کی غزل گوئی،مضمون نگار: نذیر احمد کمار

  اردو دنیا،مئی 2025 معروف صوفی شاعر،مصنف اور ادیب درشن سنگھ دگل14 ستمبر1921 میں سید کسراں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وفات 30 مئی 1989 میں ...