16/12/25

شانتی رنجن بھٹاچاریہ: اردو ادب کا ایک سنجیدہ اور مخلص قلم کار،مضمون نگار: محمد اجمل حسین

 اردو دنیا،مئی 2025

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی ادبی زندگی کے پس منظر میں ان کی ابتدائی تعلیم، اردو اور بنگالی ادب سے وابستگی کے عوامل اور ان پر اثر ڈالنے والی شخصیات کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ان کے والد بیکنٹھ ناتھ تھے اور ان کی پیدائش 24 ستمبر 1930 کو ضلع فرید پور بھوجیشور کے مشورہ گاؤں میں ہوئی۔ شانتی رنجن نے اپنی ابتدائی تعلیم بنگالی میڈیم کے ذریعے اپنے گاؤں کے ایک اسکول سے شروع کی، جہاں انھوں نے دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ سات برس کی عمر میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہوگئے، جہاں ان کے والد ریلوے محکمہ میں ملازم تھے۔ حیدرآباد میں شانتی رنجن نے بردھنی ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس اسکول میں اختیاری مضامین میں اردو، تمل، اور تیلگو شامل تھے، لیکن شانتی رنجن نے اردو کو منتخب کیا۔ یہی زمانہ تھا جب ان کی اردو زبان سے وابستگی کا آغاز ہوا، جو بعد میں ان کی ادبی زندگی کی سنگ بنیاد ثابت ہوا۔ پھرسکندرآباد کے محبوب کالج  میں داخلہ لیا جہاں انھوں نے سکنڈری تک تعلیم حاصل کی۔ یہاں انگریزی کو پہلی اور اردو کو دوسری زبان کے طور پر منتخب کیا مگر والد کی مالی حالت خراب ہونے کے سبب تعلیمی سلسلہ یہیں پر رک گیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔

 البتہ حیدرآباد کے کثیر الثقافتی ماحول نے ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کی کثیر اللسانی ثقافت( جہاں اردو، ہندی، تیلگو، تمل اور دیگر زبانیں بولی جاتی تھیں) نے شانتی رنجن کو مختلف ادبی اور ثقافتی تحریکات سے روشناس کرایا۔ یہاں کی سماجی انصاف کی تحریکات نے ان کے ادبی ذوق کو مزید جلا بخشی اور اردو ادب سے ان کا رشتہ گہرا ہوتا گیا۔ پھر 1956 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد کلکتہ آگئے جہاں شانتی رنجن کی ادبی زندگی پر متعدد اہم شخصیات نے اثر ڈالا، جن میں ربندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام اور ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیگور کی شاعری اور ادب نے شانتی رنجن کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارا، جبکہ قاضی نذرالاسلام کی انقلابی شاعری نے ان کے ادبی نظریات کو جلا بخشی۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی کے ادبی اور لسانی تحقیقی کاموں نے شانتی رنجن کو بہت متاثر کیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی ادبی زندگی کے یہ پہلو ان کی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں، جنھوں نے اردو اور بنگالی ادب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا اور دونوں زبانوں کے ادبی حلقوں کو اپنی تحریروں سے متاثر کیا۔ ان کے ادبی تجربات، زندگی کے نشیب و فراز اور ان پر اثر ڈالنے والی شخصیات نے انھیں ایک منفرد ادبی مقام بخشا، جس نے انھیں ایک ممتاز ادبی شخصیت کے طور پر ابھرنے میں مدد کی۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ اردو ادب کے ایک مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے۔ مادری زبان بنگالی ہونے کے باوجود، ان کا اردو ادب سے گہرا تعلق تھا اور خود کو اردو کا ادیب کہلوانے میں فخر محسوس کیا۔ انھوں نے 1948 سے دوران تعلیم حیدرآباد میں ادبی کیریئر کا آغاز کیا۔ ابتدا غزل سے کی، لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف راغب ہو گئے۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کا افسانہ ’چونی‘ بنگال میں اردو کا پہلا سب سے مختصر ترین افسانہ مانا جاتا ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’شاعر کی شادی‘ اور’راہ کا کانٹا‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ’شاعر کی شادی‘  میں ایک ہی افسانہ ہے جو کہ کافی طویل ہے اور ’ راہ کا کانٹا‘مجموعہ میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں:  امر کہانی1، امر کہانی 2، شانتی مرگیا، سرمایہ کی ضرورت، ایک دن کا راجہ، راہ کا کانٹا، رام نگر، عورت اور ماں، لہریں، نوکری، مٹی کے بھگوان، جیت اور ’رام نام ست‘ یہ تمام افسانے ہندوستان کے موقر رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے اور بعد میں انھیں مجموعے کی صورت میں 1960میں بھٹا چاریہ پبلی کیشنز سے شائع کیا گیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی افسانوی تخلیقات کا تفصیلی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اشتراکی ادب کے علمبردار تھے۔ ان کی تحریروں میں ان کے سیاسی نظریات اور رجحانات کی جھلک واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے، جو ان کی گہری حسیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے افسانوں میں عموماً عام لوگوں، خاص طور پر محنت کش اور معاشرتی ظلم و ستم کے شکار افراد کی کہانیاں شامل ہیں، جو زندگی کی کٹھنائیوں اور غربت کے تلخ تجربات کا سامنا کر رہے ہیں۔

 مختصر یہ کہ ’راہ کا کانٹا‘  شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے افسانوں کا ایک مختصر مگر جامع مجموعہ ہے۔ ان افسانوں میں انھوں نے فن کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے اور ہر کہانی کو اس کے موضوع کے مطابق ماحول فراہم کیا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور عام بول چال کی عکاسی کرتی ہے، جو ان کی فنکارانہ صلاحیت کا عکاس ہے۔ موضوعات کو پیچیدہ بنانے کے بجائے انھوں نے انھیں آسان الفاظ میں پیش کیا ہے، جس سے قاری کو روزمرہ زندگی کے حالات کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔

راہ کا کانٹا‘ اور ’شاعر کی شادی‘ کے افسانوں کے علاوہ، شانتی رنجن نے دیگر متعدد افسانے بھی تخلیق کیے ہیں جو کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں، جیسے پانی، اندھے کی لاٹھی، تاوان، یاتری کی واپسی، بدلتے پرچم اور دونوں طرف ہو آگ وغیرہ۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے اپنے ادبی سفر کی شروعات شاعری، مختصر ناول، اور افسانہ نگاری سے کی۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’راہ کا کانٹا‘ ان کی ابتدائی تخلیقات میں شمار ہوتا ہے، مگر اس مجموعے کے بعد ان کی افسانہ نگاری کا سفر یہیں پر ٹھہر جاتا ہے اور شانتی رنجن افسانہ نگاری کو جاری رکھنے کے بجائے اپنی توجہ تحقیق اور ترجمہ نگاری کی طرف مرکوز کر لیتے ہیں۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا ترجمہ اور لسانی مطالعہ اردو اور بنگالی ادب کے درمیان ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ انھوں نے دونوں زبانوں کے ادبی خزانے کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے کئی اہم کتابوں کا ترجمہ کیا۔ ان کے ترجمے نے نہ صرف دونوں زبانوں کے ادب کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد کی بلکہ دونوں زبانوں کے درمیان ثقافتی تبادلے کو بھی فروغ دیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مختلف بنگالی کتابوں کو اردو میں اور اردو کتابوں کو بنگالی میں ترجمہ کیا۔ ان کے ترجمے میں بنگالی ناول ’آروگیہ نکیتن‘ کا اردو ترجمہ ’گلشنِ صحت‘  کے نام سے کیا گیا، جس میں بنگالی ثقافت اور سماجی حالات کو اردو قارئین کے لیے بامعنی انداز میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح انھوں نے ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی کی کتابوں ’سنسکرت کی‘  اور ’پتھ چلتی‘ سے منتخب سات مضامین کا اردو ترجمہ ’بکھرے ورق‘ کے عنوان سے کیا، جس کے ذریعے بنگالی زبان کی لسانی، تاریخی اور ادبی جہات کو اردو قارئین تک پہنچایا گیا۔  شانتی رنجن نے رانی چند کے بنگالی سفرنامے ’پورن کمبھ‘ کا اردو ترجمہ کیا، جو بنگالی روایات اور ثقافتی تاریخ کی خوبصورت تصویر کشی کرتا ہے۔ اس ترجمے میں بنگالی تہذیب کو اردو زبان میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ انھوں نے ڈاکٹر سکمار سین کی بنگالی تصنیف ’تاریخ بنگلہ ادب‘ کا بھی اردو ترجمہ کیا، جس میں بنگالی ادب کی تاریخ اور اہم تحریکات کو اردو قارئین کے لیے سہل اور مفصل انداز میں پیش کیا گیا۔

ترجمہ کرتے وقت شانتی رنجن کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، جیسے دونوں زبانوں کی مخصوص محاوراتی زبان اور ادبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اصل متن کی معنویت کو درست طریقے سے منتقل کرنا۔ انھوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ترجمہ شدہ متن اردو قارئین کے لیے اتنا ہی جاذبِ نظر ہو جتنا کہ اصل بنگالی متن بنگالی قارئین کے لیے تھا۔

بھٹاچاریہ نے اردو اور بنگالی زبانوں کے تعلقات کو ایک وسیع تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کے نظریات کے مطابق، زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ثقافتی ورثے اور سماجی شناخت کی بھی مظہر ہے۔ انھوں نے دونوں زبانوں کے لسانی، تاریخی، اور ثقافتی روابط کو سمجھنے کے لیے ایک جامع اور متوازن مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک، ترجمہ نگاری نہ صرف ادب بلکہ دونوں زبانوں کے ثقافتی اور سماجی تناظر کو بھی قریب لانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

 بھٹاچاریہ کی ترجمہ نگاری اور لسانی مطالعہ اردو اور بنگالی ادب کے درمیان ایک پل کے طور پر کام کرتا ہے، جو دونوں زبانوں کی تفہیم اور قدردانی کو فروغ دیتا ہے۔ ان کی محنت اور لگن نے اردو اور بنگالی زبانوں کے ادب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جو ان کی ادبی خدمات کا ایک بہترین نمونہ ہے۔

شانتی رنجن نے خصوصاََ اردو اور بنگال کو اپنے تحقیقی موضوع کے طور پر منتخب کیا اور اس  میں انھوں نے اپنی انفرادی پہچان بنائی اور مغربی بنگال میں تحقیق کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر خلیق انجم شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تحقیقی کوششوں اور اردو ادب کے لیے ان کے گراں قدر خدمات کا بھرپور اعتراف کرتے ہیں:

’’شانتی رنجن بھٹا چار یہ اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب ہیں تقریبا چالیس برسوں سے اردو زبان وادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ چونکہ بھٹاچاریہ صاحب کی مادری زبان بنگالی ہے، اس لیے انھوں نے اردو میں ایسا کام خاصے پیمانے پر کیا ہے جس میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کا علم آیا ہے۔ انھوں نے بنگال میں اردو ادب اور اردو زبان کے موضوعات پر بھی کئی کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کے علاوہ بھٹا چاریہ صاحب نے کچھ بنگالی کتابوں کے اردو میں اور کچھ اردو کتابوں کے بنگالی میں ترجمے کیے ہیں۔ بھٹا چاریہ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ اور ذہین ادیب ومحقق ہیں جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘

(پیش لفظ مشمولہ،مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل، مطبوعہ، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی1989)

بھٹا چاریہ کی تحقیقاتی تصانیف میں شامل کتابیں بنگال میں اردو کے مسائل، اردو اور بنگال، بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات، آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو، بنگال میں اردو زبان و ادب (چند مضامین)، غالب اور بنگال، اردو ادب اور بنگالی کلچر، اقبال، ٹیگور اور نذرل: تین شاعر ایک مطالعہ، مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل، مختصر تاریخ ادب بنگلہ، مغربی بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ: ایک لسانی مطالعہ، تذکرہ شعرائے ٹالی گنج، ربندر ناتھ ٹھاکر: حیات و خدمات، آزادی کے بعد بنگال میں صحافت، خواتین بنگال کی اردو خدمات، آفتاب علم و ادب: ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی حیات و خدمات،کلکتہ میں اردو کا پہلا مشاعرہ اور پرنس دلن کا یادگار مشاعرہ اور پختونستان کا مطالبہ وغیرہ ہیں۔

شانتی رنجن نے اکثر تخلیقات و تصنیفات میں، بنگال اور اردو زبان و ادب اور اس کے مسائل کو اجاگر کرنے  اور ان کے حل کی تجاویز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

شانتی رنجن نے تنقید کے میدان میں بھی قابل قدر کام انجام دیا۔ ان کی تنقیدی بصیرت کو سمجھنے کے لیے ان کی کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل: تین شاعر، ایک مطالعہ‘ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں بھٹا چاریہ نے اقبال، رابندر ناتھ ٹیگور، اور قاضی نذر الاسلام کے عہد کے سیاسی اور سماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی تنقید میں معاشرتی، معاشی، اور ثقافتی پہلوؤں کا جامع تجزیہ شامل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، فنکار اپنی تخلیقات کو سماجی اور ثقافتی پس منظر سے جدا نہیں کر سکتا، کیونکہ کوئی بھی فن پارہ ان ہی عوامل سے متاثر ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بھٹا چاریہ نے اس بات کا خوب ادراک کیا ہے اور اس تناظر میں اپنی تنقید کو پیش کیا ہے۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نہ صرف ایک ممتاز محقق اور مترجم تھے، بلکہ انھوں نے صحافت کے میدان میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ حیدرآباد سے کلکتہ منتقل ہونے کے بعد، انھوں نے 1956 میں اپنے دوست خلیل احمد کی مدد سے ایک پریس قائم کیا۔ اسی سال انھوں نے کلکتہ میں جھاؤتلہ روڈ کے ایک پریس سے ’فلم ویکلی‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار کا اجرا کیا، جو فلمی دنیا کی خبروں اور تجزیوں پر مبنی تھا۔ تاہم، طبیعت کی ناسازی کے باعث شانتی رنجن کو اس اخبار سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی اور وسیم الحق نے اس کی ادارت سنبھالی۔ بعد میں، جسیم الحق نے وسیم الحق کے بعد اس اخبار کی ادارت کی ذمے داری لی، لیکن چند مصروفیات کے سبب 1982 میں یہ اخبار بند ہو گیا جیسا کہ شانتی رنجن لکھتے ہیں:

فلم ویکلی‘ سن اجرا 1956 کو تقریبا دو سال تک راقم الحروف نے نکالا اور اس کے بعد جب میں بیمار پڑ گیا تو میرے محترم دوست جناب وسیم الحق صاحب کو فروخت کر دیا۔ عرصے تک وسیم صاحب اسے نکالتے رہے ہیں اور آج کل ان کے چھوٹے بھائی اسے نکال رہے ہیں۔‘‘

(آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو،شانتی رنجن، روشن پریس، سریناتھ بابو لین، کلکتہ، اکتوبر 1973، ص55)

شانتی رنجن نے 1963 میں ’جام جم‘ کے نام سے ایک اور ادبی اور ثقافتی مواد پر مبنی پرچہ بھی جاری کیا، جو چند ماہ بعد بند ہو گیا۔ بقول شانتی رنجن:

جام جم‘  مدیر راقم الحروف، پہلا شمارہ یکم مئی 63ء کو نکلا۔ صرف پانچ شمارے نکلے، چونکہ اس کے بعد مجھے سرکاری ملازمت مل گئی اور میں نے اسے بند کر دیا۔ 15 اگست 63ء کا خصوصی شمارہ اس کا آخری شمارہ رہا ہے۔‘‘

(ایضاً، ص 15)

لیکن شانتی رنجن کی صحافت سے گہری دلچسپی نے انھیں مختلف اخبارات و رسائل کے ساتھ منسلک رکھا۔ انھوں نے صحافت کے موضوع پر متعدد مضامین تحریر کیے، جو بعد میں ان کی کتابوں میں شامل کیے گئے۔ ان کی کتاب ’بنگال میں اردو صحافت‘ کو مغربی بنگال اردو اکادمی کی سفارش پر لکھا گیا اور یہ کتاب بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ، ارتقا، اور مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے پیش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے 1993 میں شانتی رنجن کی وفات کے باعث یہ کتاب ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی، تاہم بعد ازاں رئیس احمد جعفری نے اس کتاب کو ترمیم کے ساتھ 2003  میں شائع کیا۔ اس کتاب نے بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ کو محفوظ رکھنے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی صحافتی خدمات ان کی اردو زبان اور صحافت سے محبت، ان کے عمیق علمی مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی تحریریں اور کتابیں بنگال میں اردو صحافت کے طالب علموں اور محققین کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔

الغرض شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو ادب کے ایک مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو اور بنگالی ادب کے درمیان پُل کا کام کیا۔ ان کے افسانے اور تحقیقی و تنقیدی تصانیف ومضامین اور تراجم ان کی گہری ادبی بصیرت اور سماجی مسائل کے تئیں دلبستگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ’راہ کا کانٹا‘ اور ’شاعر کی شادی‘  جیسے افسانوی مجموعے ان کی فنی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جبکہ ان کے تحقیقی، تنقیدی، ترجمہ نگاری اور صحافتی کاموں نے اردو ادب اور بنگالی ثقافت کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم کیا۔ شانتی رنجن نے اپنے ادبی سفر میں اردو اور بنگال کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ان کے حل کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ ان کی تنقید اور تحقیق دونوں میں ادبی، سماجی، معاشرتی، معاشی، اور ثقافتی پہلوؤں کا جامع تجزیہ شامل ہے، جو ان کے ادبی نظریات کی گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔


Mohd Ajmal Hussain

H.  No.162, Meharban

Gali Behind the Irani Tea

Okhla Village, Jamia Nagar Okhla

New Delhi 110025

Mob.: 8285144903


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

یوگا کی روحانی اور مادی اہمیت ،مضمون نگار: عبدالعلیم

  اردو دنیا،جون 2025 موجودہ حالات و معمولات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج کا انسان ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے بے اطمین...