26/12/25

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

 اردو دنیا،جولائی 2025

تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصوف نے جہاں اخلا ق و اعمال کو متاثر کیا،وہیں شعرو ادب پر بھی اپنے لازوال نقوش ثبت کیے۔شاعری کی دیگر تمام اصناف کے بالمقابل غزل پر اس کا گہرا اثر پڑااور صنف غزل بھی دوسری تمام اصناف ادب کے مقابلے میںپیش قدمی کرتے ہوئے تصوف کا دامن تھام لیتی ہے۔دونوں ایسے مدغم ہوئے کہ نا تو تصوف ہی غزل کی جدائی قبول کرتا ہے اور ناہی غزل اس کا دامن چھوڑتی ہے۔جس طرح شاعری میںتصوف کے شامل ہونے پر شاعری کو متنوع مضامین ملے۔ غزل میں تصوف کے رموز و نکات کھل کر بیان کیے گئے، یہاں تک کہ اس کے دقیق مسائل چند مصرعوں میں بیان ہونے لگے۔ گویا اب تصوف کو اظہار کے لیے دہن میسر آ گیا تھا۔ وحدت الوجود جیساعظیم الشان نظریہ جس کی تفصیل کیلیے کئی ضخیم جلدیں بھی کم ہیں،وہ چند مصرعوں میںنظم کیا جانے لگا۔مثلاً غالب کا یہ شعر دیکھیے      ؎

دہر جز جلوئہ یکتائی معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں

اسی طرح بیدم شاہ وارثی کا یہ شعر بھی        ؎

ہر شے میںدیکھتا ہوں جھلک حسن یار کی

مشتاق کو تمیز نہیں نور و نار کی

 غزل میں تصوف کی شمولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان دونوں میںمزاج ومذاق کے اعتبار سے ہم آہنگی اور یک رنگی تھی۔جس کے سبب غزل نے تصوف کے تمام استعارات و خیالات کو اس کے پورے لوازمات کے ساتھ قبول کیا، اسی مناسبت کی بنا پر تصوف غزل کے پورے منظر نامے بلکہ اس کی سرشت کا ایک خاص جز بن گیا۔

دیکھا جائے تو تصوف اور شاعری کا بظاہر کوئی ربط نظر  نہیں آتا۔ تصوف سراپا اخفا ئے حال ہے،شاعری سراپا ظہور، شاعری، جس میں تصنع، تکلف اور ناز و انداز ہے۔ اس کے برعکس تصوف، جہاں تواضع، اخلاص، فنائیت، نیازاور گوشہ نشینی ہے۔ ایک طرف سراسر ریا و نمود، محفل و انجمن کی آرائش و زیبائش ہے، وہیں دوسری جانب حجرہ نشینی،دنیا و مافیہا سے قطع تعلق اور خود کو گوشہ نشین بنا لینا ہے۔

 ان دونوں کے اختلاط سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے، کہ شاعری کے علاوہ دوسری کوئی زبان مسائل تصوف کو اتنے سہل انداز میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ سالک کے قلب پر کوئی کیفیت گزرے، اظہار حال کسی صورت جائز نہیں، بلکہ بعض اوقات یہ فعل تنزل اور بعد کا سبب بن جاتا ہے۔منصورحلاج اس کی اولین مثال ہے (اگرچہ اس واقعہ کی نوعیت الگ تھی اور حلاج پر بعد والی بات منطبق بھی نہیں ہوتی،لیکن اظہار کے سبب ہی انھیں تکالیف سے دوچار ہونا پڑاتھا) اگر سالک سوزش عشق کا اظہار نہ کرے (جو کہ من و عن وہ نہیںکر سکتا) تو بقو ل غالب ’پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے‘کا مصداق ہو جاتا ہے۔ اس وقت شاعری کی زبان ہی وہ ذریعہ ہے، جوسالک کے احوال کو دہن عطا کرتی ہے۔ اوراس کی باطنی کیفیات کا پاس رکھتے ہوئے مجاز و کنایہ کے قالب میںوہ سب کچھ بیان کر دیتی ہے، جنھیں وہ کھل کر نہیںکہہ سکتا تھا۔ جسے عارفین توبخوبی سمجھتے ہیں لیکن غیر عارف کی سمجھ سے وہ بالا ہوتی ہے۔

انھیں کیفیات کو مخفی رکھنے کے لیے صوفیا نے تصوف کی کچھ مخصوص اصطلاحات وضع کیں، جنھیں اردو شعرا نے بڑی فراخ دلی سے نہ صرف یہ کہ قبول کیا بلکہ انھیںپوری اردو شاعری کا جز و لاینفک بنا دیا۔ اردو غزل پر تصوف کی اصطلاحات و استعارات اثر انداز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی،کہ وہ فارسی شاعری سے براہ راست متاثر ہوئی۔ فارسی میں صوفیانہ خیالات کی ترجمانی، حقائق ومعارف کی آگہی اور مشاہدات کی اتنی شدت اور کثرت تھی، کہ اردو زبان و ادب اس سے دامن نہ بچا سکے۔ وہ خیالات اردو شاعری میںفنی تقاضوں کے ساتھ داخل ہوئے،جو حکیم سنائی، عطار، رومی وغیرہ کی عارفانہ مثنویوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ اسی طرح سعدی، حافظ، عراقی، امیر خسرو اور جامی کی فارسی غزلوں میں عشق حقیقی کی جھلک، مظاہر خداوندی اور واردات قلبی کی جو کیفیات نظر آتی ہیں، وہی بعد کے زمانے میں اردو غزل پر بھی اثر انداز ہوئیں۔احمد جامی کا یہ شعر دیکھیے        ؎

کشت گان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب جان دیگر ست

ترجمہ:  جو لوگ (رب کی) تسلیم و رضا کے خنجر سے قتل ہو جاتے ہیں، انھیں ہر زمانے میں غیب سے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے۔

شاعری میں استعارے کی زبان اس کے حسن میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔یعنی لفظ کے معنی عام مفہوم سے ہٹ کر لیے جاتے ہیں،جیسے شمع پروانہ، یا لیلیٰ مجنوں،جو کہ شعری زبان میں مختلف معنی رکھتے ہیں۔  ادب کا ایک ادنی طالب علم بھی شمع کے معنی موم بتی،یا پروانے کے معنی اس کیڑے کے نہیں لیتا،جو موم بتی کے گرد چکر لگاتا ہے، بلکہ ذہن فوراً عاشق اور محبوب کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔اسی طرح لفظ ’ادب‘ لٹریچر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن معاشرتی زندگی میں احترام کے معنی بھی مراد لیے جاتے ہیں۔اسی اصول کے تحت اردو شاعری میں مستعمل اصطلاحات کو جس وقت عرفان و آگہی کے پیرائے میں بیان کیاگیا، ان کے مفاہیم میں فصاحت وبلاغت کے ساتھ تاثیر اور تاثر پیدا ہو ا۔جہاںرندی و مے خانہ، ساقی و شراب، جیسے موضوعات مخرب اخلاق شمار کیے جاتے تھے۔ وہیں رندی ومئے کشی کے مخصوص الفاظ، حقائق و معارف کے ترجمان بن گئے۔ شراب کے جس قدر لوازمات ہیں، مثلاً میکدہ، جام و صہبا، سبو، شیشہ، صراحی، خمار، نشہ، صبوحی اور سرور وغیرہ۔ تصوف نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی، پھر یہی استعارات عزت و وقار کے ساتھ استعمال ہوئے۔ اب لفظ مے فروش ’ساقی یا پیر مغاں‘ اورلفظ جام ’دل‘ کے معنی سے موسوم ہوا۔ جیسے لفظ میکدہ مرشد کی قیام گاہ کے یا خدا کے گھر سے معروف ہوا، اسی طرح نشہ، سرور، اورنغمہ ان سب کیفیات سے مبدل ہو گئے  جو ایک سالک پر دوران وجد وحال طاری ہوتے ہیں۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

’’تصوف کا یہ اعجاز تھا کہ وہ الفاظ جو رندی اور عیاشی کے لیے خاص تھے،حقائق اور اسرار کے ترجمان بن گئے۔ساقی کا لفظ ہر زبان میں اس بد پیشہ شخص کے لیے موضوع ہے جس کی بدولت سیکڑوں آدمی لباس عقل سے عاری ہو جاتے ہیں اور سوسائٹی کے ذلیل ترین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں،لیکن تصوف میں یہی شخص مرشد کامل اور عارف اسرار ہے۔‘‘

(شعر العجم،حصہ پنجم،شبلی نعمانی )

خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے اسی مضمون کو اس طرح باندھا ہے         ؎

جو میخانہ میں ہے ام الخبائث حضرت واعظ

پہنچ جاتی جو حجرے میں شراب الصالحیں ہوتی

متصوفین شعرا کے یہاں شراب اور نشہ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے، جس سے عرف عام میں یہ تاثر لیاجاتا ہے کہ میخانہ اور اس کے لوازمات ان حضرات کو زیادہ مرغوب ہیں۔ اسی طرح بت، کافر، صنم، بتخانہ، دیر، برہمن وغیرہ الفاظ اس طرح استعمال ہوئے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ بت پرستی ان لوگوں کا شعار ہے اور ایمان کے مقابلہ میں ان لوگوں نے مذکورہ باتوں کو زیادہ ترجیح دی ہے۔مثلاً لفظ ’بت‘ مجازی اور صوفیانہ شاعری دونوں میں کثرت سے مستعمل ہے۔ ساتھ ہی اس کے متعلقات بھی جیسے، بتکدہ، بتخانہ، ناقوس،بت پرست وغیرہ،مختلف مواقع کے لحاظ سے الگ معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ شعرائے مجاز اسے محبوب کے معنوں میںلیتے ہیں۔چونکہ بت پتھر کا ہوتاہے اس لیے اس میں سنگ دلی اور ستمگری کا عنصر ہونا لازمی بات ہے اور یہ ہمیشہ سے شعرا کا مقبول موضوع رہا ہے۔ داغ لفظ ’بت‘کو مجاز کے پیرائے میں کس طرح باندھتے ہیں،اس شعر میں دیکھیں          ؎

نہ سمجھا، عمر گزری اس بت کافر کو سمجھاتے

پگھل کر موم ہو جاتا اگر پتھر کو سمجھاتے

مگر صوفیا’بت‘ کو بہت وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں،چونکہ کائنات کی ہرایک چیز اس واحد مطلق کا مظہر ہے، اسی لیے ہر شے صوفیا کے نزدیک بت ہے یا یوں کہیے کہ ہر وہ چیز جو وصول الی اللہ میں واسطہ اور ذریعہ بنے ’بت‘ ہے۔یہی وجہ ہے کہ عارفین مجازی کو بھی حقیقی رنگ میں دیکھتے ہیں اور دنیا کی ہر ایک شے کو عشق حقیقی کی علامت سمجھتے ہیں۔جیسے مجنوں کے نزدیک دن کی روشنی، لیلیٰ کے حسن کا جلوہ اور رات کی سیاہی، لیلی کی زلفوں کا پرتو تھا، اسی طرح عارفین بھی ہر ایک رنگ میں اسی کی جلوہ نمائی دیکھتے ہیں۔اسی ضمن میں شاہ نیاز احمد بریلوی کی غزل کا یہ مطلع ملاحظہ ہو       ؎

کافر عشق ہوں میں بندئہ اسلام نہیں

بت پرستی کے سوا اور مجھے کچھ کام نہیں

اور میر کا وہ مشہور زمانہ شعر         ؎

میر کے دین و مذہب کو، پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا 

ان اشعار میںیا اسی قبیل کے دوسرے شعروں میں قشقہ، دیر، ترک، وغیرہ اصطلاحات بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہیں۔ 

صوفیانہ شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ وصل و ہجر کی کیفیات میں بھی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ اور نا ہی ایسے الفاظ و استعارات کو بروئے کار لاتی ہے، جو نزاہت و متانت کے خلاف ہوں، جیسے عیش، جوانی، رقیب، معانقہ، چلمن، رسوا، آنچل،  مہندی، کمر، دہن، تل وغیرہ۔ یہ سب وہ اصطلاحات ہیں جن کا تعلق خارجی کیفیات سے ہے، چونکہ صوفیانہ شاعری فحش خیالات و الفاظ  سے پاک ہوتی ہے اور تصوف میں عریانیت اور فحش نگاری سے کلی طور پر احتراز کیا جاتا ہے۔ شبلی نعمانی کہتے ہیں:

صوفیانہ شاعری کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان الفاظ اور خیالات سے با لکل پاک ہوتی ہے جو پاکیزگی اور نزاہت اور تہذیب و متانت کے خلاف ہیں،مثلاً بوس و کنار، آغوش وغیرہ۔ کیونکہ تصوف میں عشق حقیقی کا بیان ہوتا ہے اور عشق حقیقی کو ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘(شعرالعجم حصہ پنجم،شبلی نعمانی )

بیدم شاہ وارثی کا وہ قطعہ بھی دیکھیے، جس میں انھوں نے شیشہ و پیمانہ، شکست توبہ، طاق حرم، بت خانہ جیسے استعارات کواس طریقہ سے پیش کیا ہے،کہ ذہن بالکل بھی جام و مینا، رندی و معصیت کی جانب نہیں جاتا، بلکہ توجہ محبوب حقیقی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ قطعہ ملاحظہ فرمائیں        ؎

شکست توبہ کی تقریب میں جھک جھک کے ملتے ہیں

کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشے سے پیمانہ

نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ

جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ 

اسی قبیل کے چند شعرملاحظہ فرمائیں،جن میں مذکورہ استعارات کو بروئے کار لایا گیا،لیکن ان سبھی الفاظ کو اس خوبی و کمال سے برتاگیا کہ ہر ایک لفظ کے معنی، عرفان و آگہی کے مرقع کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ امیر مینائی کہتے ہیں        ؎

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی

مرا نشہ کیوںاترتا، مجھے کیوں خمار ہوتا

اصغر نے یوںبیان کیاکہ        ؎

حیران ہے زاہد مری مستانہ ادا سے

سو راہ طریقت کھلی اک لغزش پا سے

جگرنے کہا          ؎

ہر دل ہے تیری بزم میں لبریز مے عشق

اک اور بھی پیمانہ سے پیمانہ بنا دے

ریاض خیر آبادی جو کہ خمریات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،کہتے ہیں         ؎

کوئی مست میکدہ آ گیا، مئے بے خودی وہ پلا گیا

نہ صدائے نغمئہ دَیر اٹھی نہ حرم سے شور اذاںاٹھا

گئے ساتھ شیخ حرم کے ہم، نہ کوئی ملا نہ لیے قدم

نہ تو خم بڑھا، نہ سبو جھکا، جو اٹھا تو پیر مغاںاٹھا

تصوف نے اردو شاعری کی نشونما میں صرف اصطلاحات سے ہی کام نہیں لیا، بلکہ اس کے مروجہ اصولوں کو بھی جلا بخشی، اس نے جذبات کے ساتھ احساسات اور افکار کو بھی متاثر کیا۔تصوف کی اصطلاحات، تشبیہات اور استعارات ار دو شاعری، خصوصاً غزل میںاس کثرت سے داخل ہوئے کہ وہ فن شاعری کا اعجاز معلوم ہونے لگے۔ اس کثرت کاایک سبب یہ بھی ہے کہ تصوف کے مسائل دقیق اور پیچیدہ ہوتے ہیں، اس لیے نثر میں ان کا بیان آسان نہیں۔ مثلاًمسئلہ وحدت الوجود کی تعریف نثر میں میکش اکبر آبادی کی زبان میںملاحظہ کیجیے :

’’صوفیا کے نزدیک وجود یعنی ہستی ہی حق ہے، اس کی کوئی شکل نہیں ہے نہ حد ہے، لیکن اس کا ظہور شکلوں ہی میں ہوتا ہے۔ موجودات کا ایک ذرہ بھی اس وجود کا غیر نہیں ہے۔یہ وجود ایک ہے اور خارج میں وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔وہ کسی صورت میں بھی ہو۔‘‘ (مسائل تصوف از میکش اکبر آبادی،ص 60)

اس نظریہ کو جس وقت شاعری کے پیرائے میں بیان کیا گیا، تب اس کا بیان نہ صرف یہ کہ آسان ہو ا، بلکہ پرلطف بھی ہو گیا۔ وحدت الوجود کے مسائل اب چند مصرعوں میں بیان ہونے لگے۔ میر کا یہ شعر دیکھیے       ؎

پایا نہ یوں کے کریے، اس کی طرف اشارہ

یوں تو جہاں میں ہم نے، اس کو کہاں نہ پایا

اورشاہ نیاز بریلوی  کہتے ہیں          ؎

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا

کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

اسی طرح اصغر گونڈوی نے کہا         ؎

ازل میںکچھ جھلک پائی تھی اس آشوب جانم کی

ابھی تک ذرے ذرے پر ہے حالت رقص پیہم کی

تصوف کا یہ رجحان اتنا بڑھا کہ مجازی غزلوں میںبھی عشق و مستی،حقیقت و معرفت کی جھلک دکھائی دینے لگی اور صورت حال یہاںتک پہنچی کہ حقیقت و مجاز میں فرق کرنا دشوار ہو گیا۔حتیٰ کہ محبوب کے سراپے میں بھی حسن مطلق تلاش کیا جانے لگا۔انعام اللہ خاں یقین کا یہ شعر دیکھیے         ؎

خدا کی بندگی کہیے اسے یا عشق معشوقی

یہ نسبت ایک ہے، سوسو طرح تعبیر کرتے ہیں

 تصوف نے غزل کو ایک زرخیز زمین عطا کی، لیکن وہ شعرائے لکھنو میں اپنا وہ مقام نہ بنا سکا جو اس کا حق تھا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ شعرائے لکھنو نے جبر و استبداد اور ناکامی و محرومی کا وہ زمانہ نہیں دیکھا جس میں شعرائے دہلی کی تربیت ہوئی تھی۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ وہ معاشی طور پر فارغ البال تھے،ہر طرف مال و دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت کا ماحول تھا،گویا ’’ہر شب شب  برات ہر روز روز عید ‘‘تھا۔نشاط و سرور کے اس ماحول میں تصوف کا نہ ہونا کوئی امر محال نہ تھا۔ بالمقابل شعرائے لکھنو کے، شعرائے دہلی کے کلام میں، دہلی کے نا مساعد حالات اورصوفیا کی کثرت کی بنا پر درد آگینی، نالہ وفریاد،آہ و بکا جیسے عناصر پایا جاناایک فطری بات تھی۔ لیکن شعرائے لکھنو میںیہ عوامل مفقود ہونے کے باعث ان کے کلام میں تصوف معدوم ہے مگر اس کے با وجود بھی دبستان لکھنو میں ایسے بہت سے شاعر تھے جو اردو میں کلاسیکی روایات کے علمبردار تھے اور جن کے یہاں تصوف کا رنگ خاصہ گہرا ہے۔ جن میں خاص طور پر خواجہ حیدر علی آتش، امیر مینائی، شاہ نیاز احمد بریلوی،امیر اللہ تسلیم،شاہ افضل الہ آبادی اور متاخرین میں نثار اکبر آبادی،آسی غازی پوری،بیدم شاہ وارثی، شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی،جیسے شعرانے اپنے کلام کے ذریعہ تصوف کی اس شمع کو جلائے رکھا جسے شاہ ابو سعید ابوالخیر نے روشن کیا تھا۔ ان تمام باتوں کے علاوہ متصوفانہ شاعری کے چند اہم عناصر ایسے بھی تھے، جنھوں نے ہمارے معاشرتی اور سماجی اقدار پربھی خوشگوار اثرات ڈالے،جن سے اخوت،مساوات اور انسان دوستی جیسے اخلاق نے رواج پایا۔


Abdur Rahman Shafi

Research Scholar, Dept. of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 7017903577

abdurrehmanmalik70@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...