26/12/25

تعلیم میں سائنس،،مضمون نگار: دیپک کمار، مترجم: سہیل احمد فاروقی

 اردو دنیا،جولائی 2025

ارضیات اور علم معدنیات کی تعلیم

دربار نے 1885 کے وسط میں ارضیات کے لیے پروفیسر شپ کے عہدے کی تجدید میں کامیابی حاصل کرلی لیکن اس کے بعد بھی وہ عہدہ خالی پڑا رہا کیونکہ کوئی موزوں آدمی نہیں مل سکا۔ قدرتی علوم کے تمام معاملات میں پریزیڈنسی کالج کی غربت پر ترس کھا کر Oldham نے 1862 میں خالی اسامی کے متبادل کے طور پر خود جی ایس آئی میں اسکول آف ایپلائڈ سائنس کے ایک مرکز کے قیام کا مشورہ دیا تھا۔ یہ مشورہ حکومت کو منظور نہ تھا۔ یہ خوف لاحق تھا کہ تدریس کا بار گراں ماہرین ارضیات کو ان کی ارضیاتی سرگرمیوں کے بنیادی مقصد سے ہٹادے گا۔ 1869 میں اولڈ ہام نے اپنی پیشکش کی تجدید کی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ کم از کم دو طلبا کو سرکاری خرچ پر ہر سال ٹریننگ دی جائے۔ یہ تجویز بھی شعبہ مالیات نے مسترد کردی جس نے اپنی عقل کے زعم میں یہ مضحکہ خیز تجویز پیش کی کہ وظائف کے بجائے یونیورسٹی کو چاہیے کہ حوصلہ افزائی کے طور پر اضافی نمبر دے۔ یونیورسٹی نے بجاطور پر اس کا یہ جواب دیا کہ ارضیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبا کی حوصلہ افزائی کا یہ طریقہ اس منصوبے کو برباد کر دے گا جس کی بنیاد پر یونیورسٹی کے امتحانات کرائے جاتے ہیں اور یہ معاملہ وہیں رکا رہا۔

تاہم ستمبر1880 میں حکومت نے مقامی معاشرے کے بہتر تعلیم یافتہ طبقوں میں ایک ذہنی سائنسی رویے کی حوصلہ افزائی کا عزم کیا اور بنگال، مدراس اور پنجاب کی حکومتوں سے کہا کہ ارضیاتی ٹریننگ کے انتظام کے وسائل کے متعلق اپنی تجاویز حکومت کو دیں۔ اپنے جواب میں بنگال کے ڈی پی آئی نے اسے ترجیح دی کہ طلبا کو طبیعیات یا نباتیات کی تعلیم دی جائے جس میں کہ عملی مظاہرے کے ذرائع ارضیات کے مقابلے میں فوری طور پر دستیاب تھے جس میں ان ذرائع کا یقینا فقدان تھا۔ نیز یہ کہ اس بات میں کوئی معقولیت نہیں تھی کہ ارضیات پڑھانے کے لیے انگلینڈ سے ایک اختصاص یافتہ پروفیسر بلانے کے اخراجات برداشت کیے جائیں سوا اس کے کہ ارضیات کو تعلیم کے ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھنے والے ہندستانیوں کے لیے روزگار کی فراہمی کا کوئی امکان ہو۔ بنگالی کردار و شخصیت کا بھی ہوا کھڑا کیا گیا اور اسے ناممکن قرار دے دیا گیا کہ بنگالی طلبا ارضیات جیسے گنجلک مضمون کو محض سائنس سے محبت کی خاطر پڑھیں گے۔مدراس کا ڈی پی آئی بھی مختلف وجوہ سے ہی سہی بنگال میں تعینات اپنے ہم منصب کے انداز پر سوچ رہا تھا۔ اسباب یہ تھے کہ اولاً ارضیات جیسی اطلاقی سائنس کیمیا، طبیعیات اور حیاتیات کے معقول سابق علم کا متقاضی تھا جس کا انتظام نہ ہو سکا اور دوسرے یہ کہ اس پریزیڈنسی کے اہم تعلیمی مراکز ان مقامات پر واقع تھے جن کا ارضیاتی ڈھانچہ میدانی مظاہروں اور ہدایات کے لیے معقول امکان فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ حکومت پنجاب نے بھی ارضیات میں اس وقت تک کے لیے لیکچرز منعقد کرنے پر نا آمادگی ظاہر کی جب تک کہ طبیعیاتی سائنس کے معیار میں بہتری نہ آجائے۔

ان مایوس کن رپورٹوں کے عین برعکس میور سینٹرل کالج الہ آباد کے پرنسپل اے ایس ہیریسن کی طرف سے دسمبر 1880 میں پیش کردہ میمورنڈم تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ارضیات کی کلاسوں کے لیے نمایاں طور پر ایک پروفیسر کا عہدہ مخصوص کیا جائے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اس کی بھی وکالت کی کہ اگر باصلاحیت طلبا کو ارضیات کی طرف متوجہ کرنا ہے تو دو سال کی تعلیم کے دوران 40 یا 50 روپے ماہانہ کے دس بارہ وظائف طلبا کو دینے ہوں گے۔

اولڈ ہام کے جانشیں ایچ بی میڈیکوٹ کو ارضیات کے اور حیاتیات قدیمہ، علم معدنیات اور پٹرولیات جیسی اس کی دیگر شاخوں میں خصوصی کورسوں کا آغاز کرنے سے سخت اختلاف تھا اور اس لیے وہی بہانہ تھا یعنی ہندستانیوں کا ذہنی دیوالیہ پن۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جہاں تک بی ایس آئی کا تعلق ہے ہندستانی کالجوں میں میں ارضیاتی ٹریننگ کے خصوصی انتظامات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ محکمہ صرف پندرہ گریڈ یافتہ افسروں کی ہی تقرری کرتا ہے اور یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اس کی بنیاد پر خصوصی کلاسیں کھولنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ گورنر جنرل نے ان خیالات سے اتفاق کیا۔ اس طرح ارضیات کی تعلیم کھٹائی میں پڑی رہی اور آخر 1893 میں پریزیڈینسی کالج کلکتہ میں ارضیات کی پروفیسر شپ قائم ہوئی اور بعض طلبا ارضیات میں آنرز کے ساتھ بی اے کا امتحان دینے لگے۔

انگلینڈ میں 1851 میں کان کنی اور ارضیاتی تعلیم کا ایک اسکول قائم ہوچکا تھا پھر بھی 1857 میں مائننگ ایسوسی ایشن آف گریٹ برٹین نے کان کنی والے ہر ضلع میں مرکزی مائننگ کالج اور مائننگ اسکول کا مطالبہ کیا۔ ہندستان میں 1904 سے پہلے کسی بھی طرح کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ اگر چہ ملک کے معدنیاتی وسائل کو کام میں لانے کے میدان میں حیرت ناک تبدیلیاں آچکی تھیں۔ 1901 کے مائنس ایکٹ نے کانوں کے منیجروں اور سپروائزروں کے لیے کسی نہ کسی شکل کی مائننگ کی تعلیم لازمی قرار دے دی تھی لیکن سوال یہ تھا کہ اس طرح کی ٹریننگ کہاں سے حاصل کی جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے حکومت سے کان کنی کا ایک ضلعی سطح کا اسکول کھولنے کی فرمائش کی۔ بنگال گورنمنٹ کی طرف سے ایک کمیٹی اس تجویز پر بحث کے لیے مقرر ہوئی۔ جی ایس آئی کے ڈائر کٹر ٹی ایچ ہالینڈ اور کانوں کے دو انسپکٹر اسٹوینر اور گرنڈی نے خصوصی اسکول کے قیام کی حمایت کی۔ لیکن زیادہ بارسوخ سول حکام نے اس بنیاد پر تجویز کو مسترد کر دیا کہ ایسے اسکول کی حقیقتاً کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی تھی۔ دلاسہ دینے کے لیے شپ پور انجینئر نگ کالج میں کان کنی کی ایک کلاس کھول دی گئی۔

نباتیات اور علم جنگلات کی تعلیم

نباتیاتی تحقیقات پر ہندستان میں کمپنی کی موجودگی کے ابتدائی سالوں سے ہی خاصی توجہ دی جارہی تھی لیکن اس کے تعلیمی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔ کلکتہ میںنباتیات کی تعلیم کو صرف طب کے نصاب میں جگہ دی گئی تھی۔ 1863 میں جب طبیعیاتی علوم کو کلکتہ یونیورسٹی کے بی اے امتحان کے لیے اختیاری قرار دیا تو نباتیات کا کوئی مقام نہیں تھا۔ اس کے بعد اس کورس میں نباتیات کو اختیاری مضمون کا درجہ دیا گیا۔ مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیوں نے بھی اس مضمون کا کسی حد تک اعتراف کیا۔ لیکن مدراس یونیورسٹی کے طب کے کورس میں نباتیات پر ایک لکچر بھی نہیں رکھا گیا۔

جارج واٹ کو 1873 میں نباتیات کے پروفیسر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کلکتہ بھیجا گیا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ مقامی حکومت نے ایسی کسی پروفیسر شپ کو باقی رکھنے کا خیال ترک کر دیا تھا اور ان سے نباتیات کے بجائے کیمیا پڑھانے کے لیے کہا گیا اور وہ آٹھ سال تک کیمیا پڑھاتے رہے۔ نباتیات کو کورس میں اختیاری مضمون بنادیے جانے کے بعد بھی کالج نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ نباتیات اور ارضیات پڑھانے کے بجائے جس میں باغیچوں میں کام کرنا اور دورے کرنا پڑتا انھیں طبیعیات اور ریاضی کی تدریس کا انتظام کرنا آسان تر لگا۔ ڈھاکہ کالج کے پرنسپل نے 1875 میں نباتیات کے موضوع کو ہٹانے کی درخواست کی مگر اس وقت بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر رچرڈ ٹمپل نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ البتہ انھوں نے کلکتہ میڈیکل کالج میں منعقد ہونے والے نباتیات کے لکچروں کی تعداد چالیس سے گھٹا کر بیس کردی۔ ایسا انھوں نے کلکتہ  بوٹانک گارڈن کے سپرنٹنڈنٹ جارج کنگ کی خوشنودی کے لیے کیا تھا جو وہاں لکچر دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے لیے زیادہ وقت نہیں دینا چاہتے تھے۔ ڈی پی آئی اور میڈیکل کالج کی کونسل نے اس پر احتجاج کیا جو ناکام رہا۔ دیگر کالجوں میں مثلاً پٹنہ ، راج شاہی، ہگلی اور کٹک میں نباتیات خاصا مقبول مضمون تھا۔ مگر 1882 میں عضویات کے اضافے نے اس مضمون کو مشکل بنا دیا اور اس کی مقبولیت ماند پڑنے لگی۔ پٹنہ اور راج شاہی میں نباتیات کی کلاسیں موقوف کر دی گئیں۔ ہگلی کالج میں 1887 میں صرف پانچ طلبا نے نباتیات کا مضمون اختیار کیا اور پرنسپل نے اس کے خاتمے کے لیے کہہ دیا۔ ڈی پی آئی، ایلین کرافٹ نے وسعتِ نظر سے کام لیتے ہوئے اس بنیاد پر اس موضوع کو برقرار رکھنا چاہا کہ حکومت کو مختلف مضامین کا انتخاب کھلا رکھنا چاہیے۔ لیکن اس دلیل پر کسی نے کان نہ دھرا اور جی ایس آئی نے ’’حقیقی ضرورت نہیں ہے‘‘ کے عام عذر کی بنیاد پر ایک بار پھر ان کلاسوں کو ختم کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پریزیڈنسی کالج کو چھوڑ کر بنگال کے کسی بھی کالج میں نباتیات کے مضمون کے ساتھ انصاف نہ ہو سکا۔

نباتیات کا مضمون جنگل بانی کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ در حقیقت یہ جنگل بانی اور زراعتی تجربات دونوں کو ذہنی اساس فراہم کرتا تھا۔ رچرڈ ٹمپل نے اس کو محسوس کر لیا تھا اور وہ جنگل بانوں کو نباتیات کی تربیت دینا چاہتے تھے۔ برانڈ مین نے 1878 میں دہرہ دون میں سنٹرل فارسٹ اسکول کے قیام کی تجویز پیش کی اور جی او آئی نے اس تجویز کو منظور کر لیا۔ اسکول کو فوری کامیابی حاصل ہوئی اور نظری تعلیم 1881 میں شروع کر دی گئی۔ یہاں پڑھائے جانے والے مضامین میں درخت پروری (Sylviculture) سرو نیگ، نباتیات، مبادیات کیمیا، طبیعیات اور قانون شامل تھے۔ یہ کورس صرف فارسٹ رینجر کے سر ٹیفکیٹ کے لیے کام کرنے والے ہندستانیوں کے لیے کھلا ہوا تھا۔ تمام اعلیٰ حکام یوروپی نژاد تھے جنھوں نے نینسی (Nancy) میں  French Ecole Forestiere ٹریننگ حاصل کی تھی۔ نظری تعلیم کا انتظام انگلینڈ کے کو پر زہل کالج میں ہو سکتا تھا لیکن عملی تربیت کے لیے انھیں نینسی جانا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک محدود پیمانے پر بھی دہرہ دون کا اسکول ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا اور اس سے جنگل بانوں کو زیادہ منظم انداز میں مشاہدات و تجربات کرنے کا حوصلہ ملا۔ مگر پیشہ ور ماہرین نباتیات اپنے اس مضمون کو اور بہتر انداز سے پڑھانا چاہتے تھے۔ ریونیو سکریٹری جے ولسن نے اس کا اعتراف کیا کہ یہ بات حکومت ہند کے لیے باعث شرم ہے کہ ہندستان میں اتنے خوبصورت اور بیش قیمت جنگلات ہونے کے باوجود اس ملک میں فارسٹ سائنس کے فروغ کی سمت میں کوئی ایسا کام نہیں ہوا جو اسے ’فارسٹ پریکٹس‘ سے ممتاز کر سکے۔ اس بد نما داغ کو مٹانے کا وقت آ پہنچا ہے۔ 1906 کے اوائل میں اسکول کو کالج کا درجہ دیا گیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کا نام امپیریل فارسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ رکھا گیا جو تحقیق کے میدان میں اس کی پیش قدمی کا اشارہ تھا۔

زراعت اور امراض مویشیان کی تعلیم

برطانوی حکومت شاید دنیا کی سب سے بڑی جاگیر کی مالک اور اس کی واحد استفادہ کنندہ تھی۔ اس کے باوجود اس نے ایک لمبے عرصے تک زراعت کے شعبے میں سائنسی تعلیم کو نظر انداز کیا۔ کمپنی نے عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور جب برطانوی تاج نے اقتدار سنبھالا تو کسی حد تک امید قائم ہوئی۔ 1860 کی دہائی میں لینڈ ہولڈرز ایسوسی ایشن اور برٹش انڈین ایسوسی ایشن نے بار بار اس طرح کی تعلیم کے آغاز کا مطالبہ کیا۔ لیکن حکام صرف زبانی ہمدردی جتاتے تھے اور طرح طرح کے عذر پیش کرتے تھے۔ حکومت مدراس نے ایک قابل ذکر اقدام کیا اور 1865 میں سیدا پیٹ (Saidapet) کے مقام پر کم از کم جنوبی ہند کی ضروریات کے لیے موزوں تصور کی جانے والی کم معروف مشینوں، آلات، کھادوں، فصلوں، کچر کے طریقوں اور پالتو جانوروں وغیرہ کی صلاحیت کو جانچنے کی سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے ایک تجرباتی فارم قائم کیا۔ جب اس کے سپرنٹنڈنٹ رابرٹسن نے اس طرف اشارہ کیا کہ کس طرح ادب کی تعلیم نے اس کے بہترین افراد سے اسے محروم کر دیا تھا اور انھوں نے ایک زرعی کالج کے قیام کا تقاضا کیا تو مدراس ریونیو بورڈ نے اس بنیاد پر ان سے اتفاق نہیں کیا کہ ہندستان کی ’بے وقعت‘ زراعت بھی 30 ملین افراد کا پیٹ بھر رہی تھی،چاول، کپاس، چینی، تلہن اور برآمدی تمباکو کی زائد پیداوار دے رہی تھی اور 4½ملین اسٹرلنگ کا ریونیو ادا کر رہی تھی۔ مگر رابرٹسن اپنے مطالبے پر اڑے رہے اور 1876 میںسیدا پیٹ میں ایک زرعی کالج قائم ہو گیا۔

اسی سال بہار میں پٹنہ کالج کی جوڑی کے طور پر ایک اور زرعی کالج کی تجویز رکھی گئی۔ اس وقت بنگال کے ڈی پی آئی نے یہ قبول کیا کہ چونکہ ان کے سامنے رہنمائی کے لیے کوئی نظیر نہیں تھی امریکی اور یورپی نمونوں کی تقلید کرنی پڑے گی۔ Cinencester کو بہت زیادہ نظریہ زدہ سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ Massachusetts کو شدید طور پر تجربہ پسند قرار دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے بلجیم کی مثال کو ترجیح دی جس کی تقلید جزوی طور پر کی جاسکتی تھی۔ جزوی طور پر اس لیے کہ انھیں خوبصورت تجربہ گاہ، وسیع کفایتی میوزیم، قیمت سے قطع نظر حکومت بلجیم کی طرف سے کالجوں کو فراہم کردہ سائنسی آلات کی خاطر خواہ تقلید دیکھنے کی کوئی امید نہ تھی۔ لیکن جزوی تقلید بھی ہوتی نظر نہ آئی۔ اس کے بجائے پٹنہ میں ایک صنعتی اسکول قائم کیا گیا اور منظر پوسا میں منتقل ہو گیا جہاں حکومت تمباکو کے کلچر کا تجربہ کر رہی تھی۔ لیفٹیننٹ گورنر رچرڈ ٹمپل اس فارم کو مستقل طور پر رکھنا اور عضویاتی نباتیات اور زرعی کیمیا سے متعلق سائنسی تجربات کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہاں تمباکو کے تجربے کی ناکامی نے حکام کو مایوس کر دیا اور اس طرح ہندستانیوں کو زرعی علوم سکھانے کی کوشش پررقم خرچ کرنے کی عدم افادیت کا آسان بہانہ مل گیا اور پوسا اسٹیٹ تمباکو کی کاشت کے لیے ڈنلپ کمپنی کے Ms. Beggکو پٹے پردے دی گئی۔

زرعی سائنس کے لیے اپنے ذوق و شوق کو رچرڈ ٹمپل نے بمبئی پریزیڈنسی منتقل کیا۔ 1879 میں پونا سول انجینئرنگ کالج میں ایک زرعی کلاس کھولی گئی اور اسی طرح کی کلاسیں مرکزی ضلعی اسکولوں میں بھی کھولی گئیں۔ ٹمپل معاملت دار اور کارکن جیسے ہندستانی ریونیو افسروں کو زرعی علم کی تشہیر کا موثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ بمبئی یونیورسٹی زراعت میں ایک ڈگری کورس چلائے۔ لیکن یونیورسٹی نے ڈپلوما سے زیادہ کسی ڈگری کے لیے آمادگی سے انکار کر دیا۔ آگے چل کر Voelcker کو یہ ڈپلوما کورس ایک ادھورے گھر جیسا لگا جو کچھ نہ ہونے سے تو بہتر تھا لیکن ڈگری کے برابر نہ تھا۔ یہ تمام انتظامات نچلے گریڈوں میں ملازم رکھے گئے ہندستانیوں کے لیے تھے۔ ضرورت اس کی تھی کہ اونچے گریڈوں میں زراعت میں سائنسی اور عملی تربیت یافتہ افسران کا تناسب بر قرار رکھا جائے۔ 1881 کے کمیشن برائے قحط سالی (Famine Commission) نے  پہلے آئی سی ایس کے پروبیشنروں کے لیے نظریاتی ٹریننگ کی تجویز رکھی اور پھر کسی زرعی کالج میں ان میں سے چند افراد کی عملی ٹریننگ کی۔ حکومت ہند نے تجویز کو نا قابل عمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور سکریٹری آف اسٹیٹ نے یہ دعویٰ کیا کہ کوئی سطحی نظریاتی ٹریننگ نہ صرف یہ کہ بے فائدہ بلکہ کسی سول سرونٹ کے لیے نقصان دہ بھی ہو گی۔ کیونکہ وہ ہندستان میں منصفی اور انتظامیہ کے افسران کی کار کردگی کے لیے ضروری سمجھے جانے والے مضامین کے مطالعے سے اس کی توجہ ہٹا دے گا اور وقت بھی ضائع کرے گا۔

دریں اثنا حکومت بنگال نے رائل ایگری کلچرل کالج سائرن سٹر میں 200 پاؤنڈ سالانہ کے دو خصوصی وظیفے قائم کیے جو ڈھائی سال تک کلکتہ یونیورسٹی کے سائنس گریجویٹوں کو ملتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر ممکن یا مطلوب حد تک مغربی تحقیق کے واثق نتائج کو مشرقی روایت پر چسپاں کرنے کے لیے کالجوں اور اسکولوں کے قیام کی تمہیدکے طور پر ماہرین کی ایک جماعت کی تشکیل کی جائے۔ یہ ایک اہم اقدام تھا اور وہ حکومت ہند کی طرف سے نہیں بلکہ مقامی حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا۔ جب سالسبری کے ایگری کلچر کالج نے وائسرائے سے ہندستانی رعایا کے لیے وظائف قائم کرنے کی درخواست کی تھی تو انھوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ بنگال کی مثال استعماری حکومت کو متحرک کرنے میں ناکام رہی تھی۔ لیکن یہ تجربہ بھی کچھ خوش گوار نہ ثابت ہوا۔ سائرن سسٹر کے بعض طلبا قانون اور دیگر مطالعات کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حکومت بنگال نے ان کے نام وارننگ جاری کی۔ خود ان طلبا کو بھی مایوسی ہوئی جب وطن واپسی پر انھوں نے دیکھا انھیں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکتا تھا۔ اس لیے 1887 میں حکومت نے ان وظائف کا سلسلہ منقطع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک انتہا پسندانہ قدم تھا جو درد سر کے علاج کے لیے سر قلم کرنے کے مترادف تھا۔

اس طرح جو ولولہ 1870 کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوا تھا 1880 کی دہائی کے وسط تک سرد پڑ گیا۔ پونا یونٹ کو چھوڑ کر جہاں کپاس اور Plough Technology کے  میدان میں اہم تجربات ہو رہے تھے دیگر تمام مراکز پر زوال آرہا تھا۔ مثال کے طور پر سیدا پیٹ اس نظری تعلیم کی اہمیت کے باوجود جو وہ دے رہا تھا ’عمل پسند‘ کسانوں کو قریب نہ کر سکا اور اس لیے مدراس کے ڈائر کٹر آف ایگری کلچر ڈبلیو ولسن نے اسے ناکام قرار دے دیا۔ ولسن زراعت کے فن اور اس کی سائنس میں امتیاز کرتے تھے اور اول الذکر کو مقدم رکھنا چاہتے تھے جو سیدا پیٹ کا کالج نہیں کر رہا تھا۔ فطری طور پر اس میں انھوں نے اپنی ہتک محسوس کی اور انھوں نے سیدا پیٹ میں رائج نظام کی مذمت کرتے ہوئے اسے کسی زبان کے ذریعے اس کی قواعد سیکھنے کے عمل سے مماثل قرار دیا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ زرعی تعلیم اور تجربات کے سلسلے کا یکسر خاتمہ ہو گیا تھا۔ بھلا ہو ای سی بک کا جن کے اصرار نے اس مسئلے کو زندہ رکھا۔ جون 1888 میں حکومت ہند نے ’قدرتی علوم کے اطلاق کی طرف مائل ‘ مطالعات کے آغاز کا عزم کیا۔ حکومت مدر اس نے فوراً ہی اشارہ سمجھ لیا اور دسمبر 1888 میں سیدا پیٹ ایگری کلچر کالج کی کار کردگی کی رپورٹ دینے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی۔ کمیٹی نے سیدا پیٹ کو مطلقاً لازمی قرار دیا اور امراض مویشیاں اور جنگل بانی کی تعلیم کے انتظامات کیے جانے کی سفارش کی۔ لیکن حکومت مدر اس نے اس سے اتفاق نہ کیا اور اس کے بجائے پانچ زرعی اسکولوں کی منظوری دے دی۔

البتہ ڈاکٹر وویلکر سے پست حوصلوں کو سہارا ملا۔ ان کی نکتہ چینی نے پورے مسئلے کو ایک بار پھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہندستان میں سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی کسی طرح بھی نہیں کی جارہی تھی اور یہ کہ ان افراد کو جنھیں سائنس کے میدان میں اصل کارنامے انجام دینا چاہیے تھا انھیں سائنسی تحقیق کو ترک کر کے اسکول انسپکٹر کی ذمے داری سنبھالنی پڑی۔ انھوں نے سیدا پیٹ کالج کی غیر متعین حیثیت کے لیے حکومت مدراس کی اختیار کردہ پالیسی میں بار بار کی تبدیلی کو ذمے دار ٹھہرا لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ نصاب کو ہندستانی کے بجائے انگریزی تجربات کے نمونے پر وضع کیا گیا تھا۔ اس طرح چھنٹائی، جلوائی اور زمین کو ہموار کرنے جیسے کاموں کا ذکر کیا گیا تھا۔ ہندستانی زراعت کے لیے اب ایک غیر معروف امونیا سلفیٹ، خشک خون کی پیڑیاں اور مصنوعی کھاد کو متعارف کرایا گیا۔ جانوروں کو موٹا کرنے کے طریقوں کو سیکھنے کی ضرورت کو سمجھا گیا اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں جانوروں کو کسی طرح بھی موٹا کرنے کا رواج نہ تھا۔ دوسری جانب ہندستانی زراعت کے لیے دلچسپی کے حامل بہت سے مضامین کو خارج کر دیا گیا۔ مثلاً نہر اور کنویں کے ذریعے آب پاشی، کھلی کی بھوسی، گھی وغیرہ۔

ڈاکٹر وویلکر کی موجودگی اور مشورے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اکتوبر 1890 میں حکومت ہند نے زراعت کے ڈائرکٹروں کی ایک کانفرنس بلائی۔ اس کے جواب میں کانفرنس نے اس موضوع پر بحث کی کہ کیا زراعت کی خصوصی تعلیم کی ضرورت تھی اور کیا اس عمل کو اوپر سے نیچے کی ترتیب میں یا نیچے سے اوپر کی ترتیب میں انجام دیا جانا تھا۔ بک نے موخر الذکر کو ترجیح دی یعنی یہ کہ زرعی کالجوں اور اسکولوں سے ڈگری کے حصول پر اصرار نہ کیا جائے بلکہ صرف ابتدائی انداز میں یہ سکھایا جائے کہ کوئی فصل کس طرح لگائی جاتی ہے۔ یہی وہ بات تھی جسے انھوں نے زرعی ذہن کی کاشت کے پہلے عمل، ذہن کے کھیت میں پہلی بار کھاد ڈالنے کا نام دیا جس میں زرعی ترقی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مالی تنگی نے انھیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا تھا ورنہ وہ اعلیٰ معیار کے زرعی کالجوں کے قیام اور سائرن سسٹر کے بجائے سیدا پیٹ اور دہرہ دون میں ہندستانیوں کی تعلیم کے بہت زیادہ خواہش مند تھے۔ ایک دوسرا نقطۂ نظر مدراس کے ایگری کلچر کمشنر ایچ ایف کلا گسٹون نے پیش کیا جنھوں نے بک سے اختلاف کرتے ہوئے اوپر سے نیچے کے بہاؤ کی وکالت کی۔ انھوں نے کہا: وہ سر چشمہ جس سے تدریس کی قوت پھوٹتی ہے ایک بلند سطح پر رکھا جانا چاہیے اور ہم اس چشمے کو پورے ملک میں صحت مندی کے ساتھ بہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتے جب تک کہ اس کی سوت صاف ستھری نہ ہو۔ کانفرنس نے آخر کار یہ سفارش کی کہ اعلی زرعی تعلیم خصوصی اداروں کے ذریعے نہ فراہم کی جائے بلکہ موجودہ اداروں کے ساتھ اسے منسلک کر دیا جائے اور یہ کہ سائنسی زراعت میں تربیت یافتہ افراد کی درخواستوں کو ریونیو اور اس سے ہم رشتہ شعبوں میں قبول کیا جائے۔

ان تجاویز پر 1893 میں منعقد ایک دوسری کانفرنس میں غور کیا گیا اور یہاں بھی بک کے خیالات غالب رہے۔ اگلے ہی سال حکومت ہند نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ سوال ایسا ہے کہ اسے زبر دستی مسلط نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے بتدریج حل کیا جائے گا اور یہ کہ زراعت کی مبادیات کو عام تعلیمی پروگرام کے علاوہ ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کے بجائے اسے بنیادی تعلیم کے نظام کا اٹوٹ حصہ بناکر زیادہ کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے کیا گیا محتاط طور پر اختیار کردہ توسیعی اقدام تھا۔ زراعت مطالعہ کا ایک مخصوص شعبہ ہونے کے بجائے، جس میں تجسس و تجربے کے ہمراہ عملی کام کی بھی اہمیت ہو، عام اسکولی نصاب کا ایک حصہ بن کر رہ گئی اور وہ بھی ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے۔

 حکومت ہند کا 1897 تک یہ خیال تھا کہ زراعت کی تدریس کے دعویدار اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے صوبائی کے بجائے قومی سطح کے ہونے چاہئیں اور یہ کہ ایک دو قومی سطح کے کالج پورے ہندستان کی ضرورت کے لیے کافی ہوں گے۔ مگر صوبائی حکومتیں اپنے متعلقہ علاقوں میں کالج کی سطح کی تدریس کے لیے بے چین تھیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ زرعی کالج میں دی جانے والی تعلیم محصول اراضی اور ہمرشتہ ملازمتوں میں ریاستی حکام کو اتنی ہی اچھی ٹریننگ فراہم کرتی تھی جتنی کہ کسی آرٹس کالج میں۔ استعماری حکومت کو یہ منطق پسند آئی اور اس نے 1897 میں مدراس، بمبئی، کلکتہ اور شمالی ہند کے کسی اور شہر میں اعلیٰ معیار کے چار کالجوں کے قیام کی تجویز رکھی۔

اس فیصلے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ 1897 میں شب پور انجینئرنگ کالج میں زراعت کی کلاسیں کھل گئیں۔ بعض ضلعی سطح کے اسکولوں میں بھی زراعت کی کلاسیں شروع ہو گئی تھیں لیکن جلد ہی یہ سلسلہ بند ہو گیا کیونکہ یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے نصاب میں زراعت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کلکتہ یونیورسٹی کے نئے ضابطوں میں زراعت کی ڈگری کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ شک کیا جارہا تھا کہ یونیورسٹیوں سے زرعی کالجوں کا الحاق ان اداروں کو سرکاری ملازمت کے حصول کا وسیلہ سمجھنے کے رجحان کو تیز تر کرے گا اور انھیں ان افراد کے عملی امکان سے مزید خارج کر دے گا جو حاصل کی گئی ٹریننگ سے نجی کاشت کاری یا انصرام آراضی سے منافع کمانے لگیں گے۔ 1901 میں منعقد زرعی تعلیم پر شملہ کا نفرنس کا بھی یہی خیال تھا۔ اس نے یہاں تک سفارش کی تھی کہ دیسی زبان کے متبادل کے طور پر انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے کیونکہ اس کے ذریعے حکومت زراعت کی تعلیم کو ان افراد میں مقبول بنانے کی توقع رکھتی تھی جو اسے بیٹے کے طور پر اختیار کر کے روزی حاصل کرتے ہیں اور انگریزی سے ناواقفیت کی وجہ سے اس سے خارج نہیں کر دیے جاتے۔

 کانپور میں قانون گوئی کی تربیت کے لیے کھولے گئے اسکول نے ترقی کر کے ایک نئے زرعی کالج کی شکل اختیار کرلی۔ 1897 کی قرارداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے این ڈبلیو پی حکومت نے الہ آباد یونیورسٹی سے اس اسکول کو کالج کا مرتبہ دینے کے لیے کہا اور یونیورسٹی سینٹ (Senate) اس کے لیے فوراً آمادہ ہو گئی۔ اس کے تین بنیادی مقاصد تھے: اساتذہ کو ٹریننگ دینا، مالکان آراضی کو تعلیم دینا اور مال گذاری کے حکام کی فراہمی بر قرار رکھنا۔ یہاں پر تحقیقی کام کی حوصلہ افزائی کی جانی تھی اور ایم اے کی سطح کی تعلیم یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی زیر غور تھی۔ اس سے پہلے 1897 میں حکومت ہند نے این ڈبلیو پی میں ایک زرعی کالج کی خواہش کی پذیرائی کی تھی لیکن جب باضابطہ وہ تجویز سامنے آئی تو حکومت نے سرد مہری اختیار کرلی۔ جی او آئی کے ایگری کلچرل سکریٹری جے بی فکر نے اس سے اتفاق کیا کہ اس طرح کا ایک کالج طلبا کی خاصی تعداد کو متوجہ کر سکے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ’ قبل از وقت‘ قرار دے کر اس کی خدمت بھی کی۔ ان کا خیال تھا کہ آراضی کا انصرام سنبھالنے والے افراد کو ٹریننگ دینے میں اس کے نصاب تعلیم کی کوئی وقعت نہیں تھی اور یہ کہ ریونیو افسر کو جتنی ضرورت عملی زراعت سے واقفیت کی تھی اتنی سائنس کی نہ تھی۔ اس لیے کالج کے بجائے فلر نے بقول خود ایک زمینداری اسکول کے قیام کی وکالت کی اور وائسرائے نے اس کی منظوری دے دی۔ اسی طرح 1903 میں جب حکومت مدراس نے زرعی تعلیم کی حوصلہ افزائی کے طور پر سیدا پیٹ کے طلبا کے لیے دیہی تدریسی اسامیوں کے قیام کے لیے سالانہ 11,700 روپے طلب کیے تو حکومتِ ہند نے دینے سے انکار کر دیا۔

اگر چہ 1897 کی قرارداد میں چار اعلیٰ معیار کے کالجوں کی بات کہی گئی تھی لیکن حکومت ہند نے اپنے انتخاب کو صرف ایک ادارے تک محدود کر دیا جو کہ زرعی تعلیم و تحقیق کے لیے ایک محور کا کام کرتا۔ لیکن گرفت کون کرتا؟ استعماری حکومت پس و پیش میں پڑی ہوئی تھی جبکہ صوبائی حکومت زراعت پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے خرچ کر رہی تھی۔ Phipps کا ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ آندھی کے پیر ثابت ہوا۔ یہ رقم پوسا میں ایک زرعی و تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کھولنے کے لیے خرچ کی گئی جس میں ابتدائی سے لے کر متقدم مرحلے تک زرعی تعلیم کا ایک مکمل نصاب فراہم کیا جاتا تھا۔ تقریباً اس زمانے میں جنگل بانی کے لیے اسی طرح کے ادارے کے قیام پر غور کیا جا رہا تھا۔ تحقیق کی طرف بھی تھوڑی بہت توجہ ہونے لگی تھی۔

امراض مویشیان کی تعلیم دو اسباب سے اہم تھی۔ یہ ایک زراعت اساس معیشت میں کلیدی اہمیت رکھتی تھی اور فوج کو بھی اپنے گھوڑوں کے لیے سر جنوں اور مددگاروں کی مسلسل فراہمی درکار تھی۔ 1880 کی دہائی کے وسط میں فوج کے مقاصد کے لیے پونا کالج آف سائنس میں امراض مویشیان کی کلاسیں لگائی گئیں۔ لاہور میں ایک امراض مویشیان کا اسکول تھا جہاں مقامی زبان ذریعۂ تعلیم تھی۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ 1886 میں بمبئی میں امراض مویشیان کا ایک کالج کھولا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کالج تھا جہاں امراض مویشیان سے متعلق تعلیم انگریزی زبان میں پوری طرح یورپی طریقے سے دی جاتی تھی۔ اس تجویز کا آغاز جانوروں پر ظلم کے انسداد کی انجمن (Society for the Prevention of Cruelty to Animals) سے ہوا تھا۔ ڈی ایم پٹیٹ نے زمین کا عطیہ دیا۔ کچھ امداد کے لیے حکومت ہند سے رجوع کیا گیا لیکن جواب انکار میں تھا۔ اس کے بعد بمبئی کی حکومت اور بمبئی بلدیہ اس بوجھ کو بانٹنے پر راضی ہو گئے۔ ابتدا میں اس کالج نے طلبا کی خاصی تعداد کو متوجہ کیا۔ حوصلہ افزائی کے وسائل تھے مفت پیشہ ورانہ تعلیم اور روزگار کے روشن امکانات۔ 1887 میں طلبا کی تعداد 80 تھی لیکن 1891 میں یہ تعداد ایک دم سے گھٹ کر 42 ہو گئی۔ پرنسپل نے حکومت سے اس کالج کے چند طلبا کی ہر سال ملازمت میں تقرری کی ضمانت دینے کے لیے کہا۔ اگرچہ یہ ممکن نہ تھا، کالج نے اپنی بقا کا انتظام کسی طرح کر لیا۔ 1890 میں اسے ایک مرضیاتی و جرثومیاتی تجربہ گاہ بھی مل گئی۔ اس کے پہلے پرنسپل جے ایچ اسٹیل نے ہندستان میں امراض مویشیان کا ایک سہ ماہی مجلہ شروع کیا۔ مجموعی طور پر اس کالج نے اچھی طرح کام کیا اور آگے چل کر اسے حکومت ہند کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ مثال کے طور پر ایچین نے جب یہ سنا کہ بامبے ویٹرینری کالج میں عملہ کم ہے تو انھوں نے شعبہ امراضِ مویشیان کے سی پی کو معطل کر دیا اور وہاں کے سر جن کو بمبئی منتقل کر دیا۔

یہ ظاہر ہے کہ وویلکر کے دورے کے فوراً بعد زراعت کو بہت زیادہ توجہ ملنے لگی تھی۔ پونا کالج فار سائنس میں 1890 میں ایک جرثومیاتی تجربہ گاہ قائم ہوئی۔ اصل خیال یہ تھا کہ اسے پاسچر کے انتھر اکس ٹیکے کی تقسیم کی تجربہ گاہ بنالیا جائے۔ اس کالج میں امراض مویشیان کی تعلیم کے لیے مختص رقوم کو نئی تجربہ گاہ کی مد میں منتقل کر دیا گیا اور اب یہ اصل تحقیق کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔ اس کا نام امپیریل بیکٹر یولوجیکل لیباریٹری رکھا گیا اور پورے ہندستان میں امراض مویشیان کے سروے کی ذمہ داری اسے سونپی گئی۔ اس طرح پونا میں امراض مویشیان کی تعلیم کا اصل منصوبہ پس پشت جا پڑا۔

بنگال، بمبئی اور لاہور سے پیچھے تھا۔ 1883 میں کلکتہ میں امراض مویشیان کے ایک کالج کے قیام کی تجویز رکھی گئی تھی مگر حکومت بنگال نے اس کی مالی کفالت سے انکار کر دیا۔ 1886 میں اس پر دوبارہ غور کیا گیا اور پھر ترک کر دیا گیا۔ 1809 میں کلکتہ کے تاجر طبقے نے ایک ’پنجرہ پول‘ (جانوروں کی پناہ گاہ) قائم کی اور اس سے امراض مویشیان کی تعلیم کی ضرورت پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ دریں اثنا چونکہ پونا اور بمبئی نے راہ دکھائی تھی 1893 میں کلکتہ میں بھی امراض مویشیان کا ایک کالج کھل گیا۔ تین سال بعد اس کو بھی کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اگرچہ طلبا کی تعداد کافی زیادہ تھی، کامیابی کی فیصد شرح لاہور اور بمبئی کے مقابلے میں کم تھی۔ کلکتہ میڈیکل کالج کے برخلاف امراض مویشیان کا کالج بہت کامیاب ثابت نہ ہوا۔ لاہور میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ جیسا کہ کیپٹن ٹرائڈل سپرنٹنڈنٹ، سول ویٹرینری ڈپارٹمنٹ، بنگال) نے بیان کیا :

لاہور میں طلبا زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے تین چوتھائی مسلم ہیں جو کم عمری ہی سے جانوروں کو سنبھالنے میں پوری طرح ماہر ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد Native Cavalry Regiments کے سواروں پر مشتمل ہے۔ بنگال میں حالات بہت مختلف ہیں جہاں داخلہ پانے والے بمشکل ایک فیصد طلبا گھوڑ سواری کر سکتے ہیں یا کبھی کسی جانور کو سنبھالا ہو اور بہت سے تو پہلے پہل اتنے ڈرپوک ہوتے ہیں کہ گھوڑے کے نزدیک بھی نہیں جا سکتے۔

مدراس میں بھی کم و بیش یہی مسئلہ تھا۔ اگرچہ تجویز تقریباً 1893 میں پیش کی گئی تھی امراض مویشیان کا کالج 1901 سے پہلے قائم نہ ہو سکا اور وہ بھی کرزن کی ذاتی مداخلت کے بعد۔ مدر اس کے گورنر کے نام اپنے ایک خط میں کرزن نے لکھا تھا:

’’میں آپ کو ان باتوں کی بس ایک مثال دیتا ہوں جن کی وجہ سے ہمارا سکریٹریٹ افرا تفری کا شکار ہو رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مدراس گورنمنٹ زرعی علم اور اس کی بہتری کو فروغ دینے کے لیے کچھ نہیں کرے گی اور یہ کہ ہمارے کسی بھی مشورے کو فعال یا مجہول مقاومت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے ایک شخص گووند داس یاد ہے جس نے آپ کو امراض مویشیان کے اسکول کے لیے 10,000 روپے کی پیشکش کی تھی اور اسے لینے سے انکار کر دیا گیا۔‘‘

لاہور اور اجمیر کے امراض مویشیان کے اسکول بہتر طور پر اپنے مقصد کی تکمیل کر رہے تھے۔ چونکہ ان میں ذریعہ تعلیم اردو تھا اس لیے یہ دونوں اسکول عوام میں بہت مقبول ہوئے۔ لیکن آگے چل کر لاہور اسکول کو زیادہ تقویت دینے کے لیے اسے اسکول کا درجہ دینا اور اجمیر کی رقوم کو لاہور منتقل کرنا زیادہ ضروری سمجھا گیا اور اس طرح 1905 میں اجمیر اسکول کا خاتمہ ہو گیا۔ ان امراض مویشیان کے اسکولوں اور کالجوں کو بڑے پیمانے پر خدمت کے لیے فعال نہیں بنایا گیا۔ شہری امراض مویشیان کے لیے تو وہ مفید ثابت ہی ہوئے لیکن ان سے سب سے زیادہ فائدہ فوج نے اٹھالیا۔

ماخذ: سائنس اور راج، مصنف: دیپک کمار، مترجم: سہیل احمد فاروقی، پہلی اشاعت: 2009، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...