26/12/25

ف س اعجاز سے انٹرویوہ،مضمون نگار: شکیل افروز

 اردو دنیا،جولائی 2025

شکیل افروز: ’ماہنامہ انشاء‘ نے اپنی اشاعت کے 40برس پورے کرلیے۔ اس کے لیے آپ کو مبارکباد۔ اس وقت آپ کے احساسات کیاہیں ؟

ف س اعجاز : 1986 میں میں نے ماہنامہ انشاء شروع کیاتھا۔ پیشتر ایک رسالہ1966میں اپنے بڑے بھائی عطا الرحمن صاحب کے ساتھ شائع کیا تھا ’فانو س ڈائجسٹ‘۔ وہ ملک کا پہلا اردو ڈائجسٹ اور کلکتہ کا پہلا فوٹو آفسیٹ رسالہ تھا۔ حالانکہ زیادہ عرصہ آفسیٹ سے نہیں نکل سکا۔ تب اردو زبان کے حالات ایسے حوصلہ شکن نہ تھے۔ حوصلوں کی داد دی جاتی تھی۔کلکتہ میں 9 اردو اخبارات نکلتے تھے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اردو کے حالات کیسے تھے۔  آزاد ہند کے علاوہ بھی چار پانچ معروف اخبار جیسے عصرِ جدید، امروز، روزانہ ہند، اور شام کا اخبار آبشار کسی نہ کسی حلقہ میںپہنچتے تھے۔ لیکن کلکتہ میں کوئی ادبی رسالہ مستقل حیثیت کا کبھی نہیں تھا۔جب انشاء نکالا تو تین برس کے بعد سے ایسا لگا کہ میں نے کوئی غلط کام کیا ہے۔ اس سے بہتر تھا میں کوئی روزنامہ نکال لیتا۔ بعض حلقوں سے آواز بھی اُٹھی کہ کوئی اخبار نکالا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ آپ اخبار اچھا نکال سکتے تھے ۔ کلیم الدین شمس تو بضد تھے۔ لیکن میری یہی سوچ تھی کہ ادب اورصحافت کی خدمت ادبی رسالے کے ذریعے بھی ممکن ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں دن میں صحافت کے لیے وقت نہیں نکال سکتا تھا۔ میرا کاروبار اورگھریلو ذمے داریاں تھیں ۔

ش ا: اس زمانے میں اور موجودہ دور میںکیا فرق ہے؟

ف س ا: اس وقت اور اب میںکافی فرق ہے ۔ اُس زمانے میں ہر بڑے چھوٹے شہر میں ہاکر ہوا کرتے تھے جو اخبار اور رسالے دونوں فروخت کیاکرتے تھے۔ خاص نمبر بھی نکلتا تھا تو کچھ وہ بھی منگوالیاکرتے تھے۔ لیکن رقم کی ادائیگی کا سلسلہ کبھی اچھا نہیں تھا۔ وہ ادھار منگواتے تھے اور پیسے ہضم کرلیا کرتے تھے۔ ایسے میں اپنے حوصلے کوہی سرمایہ بناتا تھا۔ کوئی خریدے نہ خریدے۔ سرمایہ بھی اپنا، ہمت بھی اپنی، بقایا اداہو یا نہ ہو۔ اشتہارات کا مسئلہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے لیکن کلکتہ اشتہارات کے تعلق سے دوسرے شہروں سے اچھا تھا۔ تاہم اب مشتہرین کا رویہ بدل گیا ہے۔ آج ڈیجیٹل میڈیاہے۔ اب لوگ پرنٹ میڈیا کو اس طرح نہیں لیتے۔ اِس سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ر سالہ جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

انشاء پہلا رسالہ ہے جس کے ذریعے ثقافتی پروگرام بھی ہوتے اور اشاعتی سرگرمیاں بھی ہوتی تھیں۔ اس وقت کوئی دوسرا صحافتی ادبی پبلی کیشن نہیں تھا۔ بیشتر اداروں سے زیادہ تر نصابی یا دینی کتابیں چھپتی تھیں۔ میں انشاء پبلی کیشنز سے اپنی کتابوں کے ساتھ کچھ کچھ دوسروں کی کتابیں بھی چھاپتاتھا۔ آہستہ آہستہ انشاء پھیلا اور بیرونِ ملک گیا تو وہاں کے ادیبوں کی کتابیں چھاپیں اور یہاں سے اکسپورٹ بھی کیا۔اب ایسا نہیں ہورہاہے۔ کیونکہ وہاں بھی Localisation ہوگیا ہے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اردو ادیبوں کا مذاق (Taste) ذرا پیچیدہ قسم کا ہے۔بہرحال اخبار کم خریدے جارہے ہیں۔ رسالے بھی کم فروخت ہورہے ہیں اوررسالے یہاں ہیں بھی کتنے۔ یہ ساری باتیں اشاعتی مسائل سے جڑی ہوئی ہیں۔بڑے بڑے ادیب اور شاعر انشاء میں چھپتے رہے۔ خواجہ احمدعباس، رام لعل، آنند نرائن ملا، قمر رئیس، تنویر احمد علوی، تارا چرن رستوگی، مانک ٹالہ ، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم،گوپی چند نارنگ اور درجنوں صفِ اوّل کے قلمکار انشاء میں چھپے۔ سب کے نام اچانک یاد بھی نہیں آتے۔ ان کے علاوہ پاکستان اور دیگر ممالک کے بھی ۔ ان ادیبوں کی تحریریں کلکتہ کے کسی اور رسالے میں نہ تو اُس سے پہلے چھپیں اور نہ انشاء کے علاوہ کہیں اور نظرآئیں۔اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انشاء کے ذریعے کلکتہ کا اشاعتی ماحول کیسا ہو گیا تھا۔

ش ا:انشاء میںکتابوں پر تبصرے اہتمام سے چھپتے رہے ہیں؟

ف س ا:ہاں وہ اس لیے کہ ہم کتاب اور مصنف کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ انشاء سے پہلے کلکتہ کے رسالوں میںتبصروں کی عام روش نہیں تھی۔مبصر تھے ہی نہیں۔ اکادکا کوئی اِدھر ُادھر اخبار میںلکھ دیا کرتاتھا۔ قمر رئیس صاحب کے مشورے پر میں نے خود تبصرے لکھنا شروع کیے۔اب تک 250سے زائد تبصرے لکھے ہوں گے۔ انشاء نے باقاعدہ یہاں مبصرین بنائے۔اُس وقت جو انشاء سے وابستہ تھے اُن میںرئیس الدین فریدی، پروفیسر ہیرالال چوپڑہ، کبھی کبھی سالک لکھنوی اور بعض تبصرے علقمہ شبلی نے کیے اور مبصرین تیار کیے۔ ان میں معصوم شرقی، عاصم شہنواز شبلی اور اب نصراللہ نصر ہیں۔ اتفاقیہ طورپر بھی تبصرے لکھنے والے ڈاکٹر عنوان چشتی جیسے عالم تھے ۔مظفر حنفی جب کلکتہ میں تھے تو ان کی بھی قلمی وابستگی انشاء سے رہی۔ باہر کے ادیب انشاء میں چھپ کر بہت خوش ہوتے۔

ش ا:اب تک انشاء کے کتنے خاص شمارے شائع ہوئے؟

ف س ا: 28خاص نمبرنکل چکے ہیں۔ گوشے الگ ہیں۔ جو شخصی یا موضوعی ہوا کرتے تھے۔ بہت دنوں کی بات نہیں۔ صوفی بُلّھے شاہ پر بھرپور گوشہ چھپا، رومی نمبر تو  برسوں پہلے چھپا، خسرو درپن کے نام سے امیرخسرو پر کام کیا۔

ش ا:پہلے ہندوستان سے کتنے رسالے نکلتے تھے اور آج؟

ف س ا: اس زمانے میں بہت سارے رسالے شائع ہوتے تھے۔شمع، بیسویںصدی۔ شمع سب سے بڑاادارہ تھا۔اس کے بعد بیسویںصدی تھا۔ روبی تھا۔ شمع کے پاس کام کا بہت بڑاپیمانہ تھا اوربہت بڑا سرمایہ تھا۔ ان کے خاندانی مسائل ہوئے تو ان کے سب رسالے بند ہوگئے۔ ان کا تو ہندی میںبھی رسالہ ’سُشما‘ نکلتا تھا۔ کتابیںبھی چھپتی تھیں۔ بہت ہمہ گیر اردو اِدارہ تھا۔اس کے باوجود وہ بند ہوگیا۔

بنگال میںاس وقت بائیں اردو اکاڈمی تھی۔ لیکن مجھے کسی سے کوئی مدد نہیںملی۔ حالانکہ اکاڈمی میں جو ترقی پسند ادیب تھے وہ شخصی طورپر میرے خیرخواہ تھے اور بعض سینئرادیب انشا ء کے ممبر بھی بنتے رہے۔  لیکن ادارے کی حیثیت سے انھوں نے کبھی میری مدد نہیںکی بلکہ رکاوٹ کھڑی کرتے رہے۔ عجیب بات ہے کہ اکاڈمی کبھی تنقیدبرداشت نہیں کرتی تھی۔ تاہم موجودہ اکاڈمی کاتعاون کسی نہ کسی شکل میں مل رہا ہے۔ ندیم الحق خود ایک صحافی ہیں۔ اکاڈمی کے وائس چیئر مین ہیں۔وہ ان باتوں کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ ان کے والد محمدوسیم الحق کے اخبارِ مشرق میںبھی چھپتا تھا۔اس زمانے میں ’آزادہند‘ کا غلبہ تھا۔ کلکتہ کے جو بہ زعمِ خود ترقی پسند ادیب اس سے وابستہ تھے تو وہ کھلے عام اپنی چیزیں اخبار مشرق کو اشاعت کے لیے نہیں دیتے تھے۔ میںنے دوچار لوگوں کو دیکھا جوڈھکے چھپے اخبارِ مشرق کے دفتر جاتے تھے۔ ڈرتے تھے کہ کہیں ملیح آبادی کبھی اعتراض نہ کردیں حالانکہ ملیح آبادی ایسا کبھی نہ کرتے۔ اُن میں اعزاز افضل اور علقمہ شبلی تھے۔ میں شروع سے ہی اخبار ِمشرق میں چھپتا تھا۔ اس سے قبل ان کے ہفت روزہ ’فلم ویکلی‘ میںبھی چھپتا تھا۔ اردو میں جگجیت سنگھ کا پہلا انٹرویومیں نے لیا تھا جو فلم ویکلی میں چھپا۔’ہمراز‘ فلم کی ہیروئن وِمی جس سے اخترالایمان صاحب نے ملوا یا تھا اور اُن کے ایما پر ہی میں نے اُس کاپہلا انٹرویو لیا تھا۔ وہ  بھی فلم ویکلی میں چھپا تھا۔ اخبارِ مشرق میں احسن مفتاحی میرے قدر داں تھے۔

ش ا:یومیہ صحافت سماج میں کیا کردار نبھارہی ہے؟

ف س ا: کلکتہ میں اردو روزنامے تو اب ایک دوہی ہیں۔ عملاً تو اخبار مشرق سرِ فہرست ہے۔ یا کسی قدر ’عوامی نیوز‘ ہے ۔ اورکوئی قابل ذکر میڈیا ایسا نہیں ہے جو ادیب ساز ثابت ہو رہا ہو اور چمکدار ہنر تیار کرتاہو۔ راشٹریہ سہارا معیا ر میں بہتر تھا۔ وہ بند ہو چکا ہے۔ اردو ادبی سرگرمیوںکی خبریں ایک ہی ڈھرے کی چھپ رہی ہیں جو زیادہ تر شخصی پیمانے پر علاقائی باتوں یا محدود اورروایتی موضوع پر ہوتی ہیں ۔ مقامی بیٹھکیں، شعری نشستیں، واہ واہ والی محفلیں بکثرت ہوتی ہیں۔  ان ہی کی رپورٹیں میڈیا میں زیادہ نظر آتی ہیں ۔اردو اخبار اس میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ اسے بہرحال سماج کے ہر حلقے کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے۔ پھر بھی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے اخبارات دیکھئے۔ انگریزی، بنگلہ اور ہندی۔ وہ ادیب ساز ہیں۔ ان اخبارات کے ذریعے ادیبوں کی صحیح قدرومنزلت ہوتی ہے۔ ان کے قاری واقف رہنا چاہتے ہیں کہ ان کاادیب کیا کررہاہے۔ اردو میںصرف ممبئی کاروزنامہ انقلاب ایسی روش رکھتاہے۔ شاہد لطیف صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ بہت باشعور ہیں۔ملیح آبادی صاحب کے روزنامہ آزاد ہند کے اتوار کے دوصفحے یہ کام موثر طور پر کرتے تھے۔ آزاد ہند صحیح ادیبوںکو سامنے لاتاتھا لیکن اب یہاں ایسا کچھ نہیں محسوس ہوتا۔ غیرروایتی کاموں کی جو سرپرستی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوتی۔ ان سے اردو اخبارات کے مدیران واقف بھی نہیںہوتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں با صلاحیت ادیبوں کو ترجیح کیسے دینا چاہیے۔

ش ا:آپ یومیہ صحافت کے احوال بتایئے۔ آج کی بات کریں تو اردو صحافت آخری دور میںہے۔ اردو اخبارات دم توڑ رہے ہیں۔ایڈیشن سمٹ رہے ہیں۔ توکیا جس شہر میں اردو صحافت نے جنم لیا وہاںسے یہ ختم ہوجائے گی؟

ف س ا: ابھی تو آثار امید افزا نہیں کہے جا سکتے ۔ اردو صحافت دم توڑ بھی سکتی ہے ۔ آخر زندہ رہنے کے اسباب بھی توہونے چاہئیں           ؎

زندہ رہنے کے تو اسباب جدا ہوتے ہیں

معجزے سے ہی سلیمان الگ ہوتا ہے

اخبار زندہ رہے تو کیوں رہے؟ ’اخبار‘ ایک لفظ ہے۔ لیکن اخبار بہت بڑی چیز ہے۔ یہ ایک مملکت ہوتا ہے۔ صحافت کے ذریعے سیاسی اور سماجی شعور پروان چڑھتا ہے، ادب پرورش پاتا ہے۔ یوں تو ادب ادب ہے، صحافت صحافت ہے۔ صحافتی ادب الگ ہے۔ادبی صحافت الگ ہے۔ اخبار ان ساری چیزوں کولے کر چلتاہے۔ ایک دھارے میں کتنے دھارے ملتے ہیں۔ یہ اخبار کے ایڈیٹر پر منحصر ہے کہ وہ کتنا حساس اور باخبر ہے؟ سماج کے تقاضوں کو کس طرح دیکھتا ہے اخبار کے ذریعے اسپورٹس بھی ہے۔اردو اخبارات اسپورٹس کی خبروں کو اچھی طرح پیش کرتے ہیں۔شاید اس لیے کہ ان کا تعلق ان نوجوانوں سے ہے جو اسپورٹس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔باقی کالم بھی ہوتے ہیں۔ جمعہ کاکالم، توضیح القرآن،تفسیرالقرآن، خواتین کا صفحہ، کسی اخبار سے یا پاکستانی ڈائجسٹ سے نکال کر ہوبہو پیش کردیتے ہیں۔اس لیے ہمارے اخباروں کو ہمارے ادیبوںکے اندر جوہنر ہے اس کی شناخت کرنی چاہیے اور اسے فروغ دینا چاہیے۔

اب کوئی اچھا ناول نگار ہے۔ افسانہ نگار ہے۔ خود آپ کا جو ناول آیا ہے ’تماشائے اہلِ کرم‘ غالب کے سفرِکلکتہ کے حوالے سے۔ یامیری بہت ساری کتابیں ہیں۔مجھے کہنے میںکوئی جھجھک نہیں، نہ ہی بڑے بول کی بات ہے۔ میں نے بہت سارے منفرد کام کیے ہیں۔ 30/32 کتابیں ہیں۔ بعض چیزوں کے ہندی و انگریزی  میںترجمے ہوئے۔ انشاء کے خصوصی شماروں کی سیر کیجیے۔ ابھی مراٹھی میں میرے افسانوں کا ترجمہ ہوکر ایک کتاب آئی ہے۔اردو ادیبوں کو اِس طرح پھیلاوا نہیں ملتا۔ آج کی بات کل ختم ہوجاتی ہے۔ اردو اخبارات اوررسائل کو اس میں با صلاحیت ادیبوں کی مدد اور رہنمائی کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں کوئی کسی کی مدد نہیںکرتا۔

ایڈیٹر صحافت کارِنگ ماسٹر ہوتاہے۔آج کی صحافت اِس درجہ کو رپوریٹ ہوگئی ہے کہ صرف کاروباری پیمانہ رہ گیا ہے اوریہ صرف کلکتے کی بات نہیںہے۔ بس ایک سسٹم ہے اورتجارت کے طورپرچل رہاہے۔ صحافت میں نظریہ ہوتا ہے۔ اب یہ چیز کہاں ہے ۔ اگر نظریاتی صحافت نہیں ہوگی تو نظریاتی ذہن بھی نہیںہوگا۔ بس یوں ہی کاغذ سیاہ ہوتے رہیںگے۔ اخبار چھپتا رہے گا۔ بکتا رہے گا۔ لیکن ذہن سازی نہیں ہوگی۔

ش ا: کیا اقلیت کے مسائل اردو سے جڑے ہوئے ہیں؟۔

ف س ا:اردو کا جب نام آتاہے تو اقلیت کا سوال ہوتا ہی ہے۔ اس کے مسائل ہوتے ہیں۔ اخبارات میں جس طرح ان کے مسائل پیش ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوتے۔ سنبھل مسجد میںحادثہ ہوا۔ چار مرگئے۔ اس پر بہت دنوں تک باتیں ہوںگی لیکن کوئی نظریاتی چیزیں سامنے نہیںآئیں گی۔ اردو والوں، مسلمانوں کو صحیح لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ اخبار لیڈر شپ پیدا کرسکتا ہے۔ مولانا آزاد، فارقلیط عثمانی، نیاز فتح پوری ، سید سلیمان ندوی جیسے لوگوں کی تحریریں ملت ساز اوربہت سیکولر ہوتی تھیں۔ وہ لوگ ملت و قوم کا ذہن بناتے تھے۔ کسی بات کے لیے عوام کو آمادہ کرلیتے تھے۔ آج ایسا نہیں ہے۔ صحافت نئی ذہنی اپج نہیں بنا رہی ہے۔

ش ا:آپ نے ابھی کہا کہ کلکتہ میںاردو صحافت دم توڑ دے گی...

ف س ا:میں نے اردو کے بارے میں نہیں کہا ۔ اردو صحافت دم توڑ سکتی ہے جب اسے بچانے کی آپ کی کوشش ہی نہیں رہے گی۔ جب اردو محلّے میں حجام کی دکان میں جہاں روز ’اخبارِ مشرق‘ آتا تھا اس کی جگہ اب ہندی کا اخبار آتا ہے اور جب اردو صحافت کے دو سو سالہ جشن میں بلا وجہ ہندی، بنگالی، اور انگریزی صحافیوں کو ایوارڈ دیے جاتے ہوں اور اس میں چالیس سال کی شاندار خدمات کے اعتراف میں ماہنامہ انشا ء یا کسی بھی اردو رسالے کو پوچھا بھی نہ جائے تو پوچھنا پڑتا ہے کہ صحافت کی تعریف آپ کی نظر میں کیا ہے؟ میں تو ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ جب یہ نہ سوچتاہوں کہ مجھے رسالہ بند کردینا چاہیے۔  ابھی  40ویں سال کا پہلا شمارہ نکالاہے۔اس میںدو اداریے ہیں۔ ایک ہے ’عقل داڑھ‘ (Wisdom teeth)۔ آپ اس کا مطالعہ کرلیجیے۔ عقل مندوں کے لیے اس میںکافی اشارے ہیں۔

کالج اور یونیورسٹی کے پروفیسر جو اردو پڑھاتے ہیں جن کی معراج صرف یہ ہے کہ کسی تعلیمی ادارے سے، کسی اکاڈمی سے،سرکاری ادارے سے جڑ جائیں تو اس کو وہ اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کچھ سوچتے نہیں۔ یہ کام وہ گروہ بندی کے ساتھ کرتے ہیں۔ زبان، ادب اور صحافت کیسے آگے بڑھے گی؟ دیکھئے کلکتہ میں رئیس الدین فریدی صاحب ایک نستعلیق شخصیت تھے۔ وہ امروہہ کے تھے۔ شاعر تھے، صحافی تھے، روزانہ ہند کے ایڈیٹر تھے۔ عمر کے آخری حصے میں کلکتہ سے دہلی چلے گئے۔ وہ ایک کامیاب ادیب تھے۔ ان کی خدمات ہیں۔ ان کا بیٹا اور بیٹی پہلے ہی دلّی چلے گئے تھے۔ان کی سوانح عمری کی قسطیں اجالا میں چھپی تھیں۔ اور کئی باب انشاء میں شائع ہوئے۔اس زمانے میں انشاء بیرونی ممالک میں خاصا جاتا تھا کیونکہ ڈاک کھلی ہوئی تھی۔ اب فارین ڈاک آتی ہے نہ جاتی ہے۔ تو بعض ممالک میں ان کی قسطیں پڑھی گئیں تو خطوط آنے لگے کہ ان کی سوانح حیات کب چھپے گی؟ وہ سب خریدنے کا اشتیاق رکھتے تھے لیکن وہ چھپی نہیں۔ ان کے گھر کے کسی نے بھی Active roleادا نہیں کیا۔اُن کے انتقال کے تین برسوں بعد وہ کتاب آئی۔ ’’دو آنکھوںسے کیاکیا دیکھا‘‘۔ لیکن کتاب کا چھاپاجانا کافی نہیں ہوتا۔ اچھی اچھی کتابیں چھپیں لیکن انھیں منزل نہیں ملی۔ جیسے آغا جانی کشمیری کی خود نوشت ’سحر ہونے تک‘ کے ساتھ ہوا۔ کتاب انھوں نے خود اپنی زندگی میں چھپوائی اور بیشتر اسٹاک کسی وجہ سے ڈمپ ہو گیا۔ برسوں بعد انشا ء میں قسط وار وہ کتاب چھپی جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ اور ان کے پسِ مرگ ان کی خواہش کی تکیل میں میں نے وہ کتاب شائع کی اور اُسے منزل مل گئی۔ فریدی صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ان کی کتاب کاعنوان میںنے ہی تجویز کیاتھا۔ اس کا پیش لفظ میرا لکھا ہوا ہے۔ ’چراغ ِصحافت‘ ۔میں نے فریدی صاحب کو چراغ ِصحافت کہا ہے تو آپ دیکھیے کیوں کہاہے؟ جب کتاب اور مصنف کو اُس کا منشا نہیں ملتا تو وہ  یہ تضیعِ اوقات کیوں کرے۔ میں تو خود اب سوچتا  ہوں کہ میں اگر اردو میں نہیں لکھتا تو کیا ہوتا؟  اگر میرا اپنا روزگار نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟  لیکن یہ بھی ہے کہ اگر آپ کاروباری کی طرح سوچیں گے تو ادب یا صحافت نہیں کرسکتے۔

میںتو یہی سوچتارہا کہ اپنی زبان وادب کی خدمت کرکے قوم کی خدمت کررہا ہوں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں، لکھ رہے ہیں، وہ قومی سرمائے میں تبدیل نہیںہورہا ہے۔اگر قوم کو اس کی ضرورت نہیںہے تو آپ نہیں بھی لکھیںگے تو کچھ نہیںہوگا۔زمینی حقیقت کو سمجھیے۔

ش ا:تومنزل کہاںہے؟

ف س ا:آپ خود سوچیں منزل کہاں ہو سکتی ہے ۔ کوئی ادیب ہے، زندہ رہا، بالآخر مر گیا۔ مرنے کے بعد آٹھ دس جلسے اس کی یاد میں کردیے گئے۔ اخبار میں دو چار قطعات لکھ دیے گئے۔ اس کا مونوگراف چھپ گیا۔ جیسے ان چیزوں کے لیے ہی بیچارے کے مرنے کا انتظار تھا۔  اس سے زیادہ اردو میں اور کچھ ہوتا ہو تو آپ بتائیں مجھے۔ ادیب تو مر جاتا ہے مگر ان رسمی باتوں سے ادب زندہ نہیں رہتا۔ ادیب کو اس کے کارنامے ہی زندہ رکھیں گے۔ یہاں زبان حرارت اور سانسوں کو ترس رہی ہے۔

ش ا:ریختہ والوں نے اردو کاکافی سرمایہ Digital میں منتقل کردیا توکیاپورا اردو ادب ایک دن ہندی میں ڈب ہوجائے گا؟

ف س ا:اب ایسے آثار نمودار ہوگئے ہیں۔ریختہ والے یہ کریں، نہ کریں، ریختہ والوں کی خدمات اپنی جگہ ہیں۔ ایک غیراردو داں سنجیو صراف جو اتنا بڑا سرمایہ دار  ہے، اس نے اس کام کابیڑہ اٹھایا اور نہ جانے کتنی نادر کتابیں، کتنے نمبر اور لغات اپنی سائٹ پر پیش کردیں۔ پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے اردو ادبیات کو اردو میں ہی محفوظ کرنے کی نیت سے یہ کام کیا۔ اب یہ ہے کہ وہ کام اردو میںمحفوظ رکھا جائے گا ورنہ اس کی قدر کون کرتاہے۔ اس کا اجرکون دے رہا ہے۔ یہ سوال ضرور ہے کہ اس ادب کو بالآخر ضم کون کررہا ہے۔ وہ Dissolve ہورہا ہے ہندی میںجاکر۔اس طرح اسے لوگ قبول کررہے ہیں تو یہ ان کی...  سنجیو صراف کی... پوزیٹو سوچ ہے۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ آج شکیل افروز کچھ لکھیں گے تو اس کو محفوظ نہیں کریںگے ۔ایسا انھوں نے نہیں کیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ آپ کی چیز ریختہ میں جائے اور اس کے ذریعے ہندی اسے جذب کرلے۔ ان کے یہاں ریڈربھی زیادہ ہیں۔وہ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ابھی دیکھیے کہ اردو کا کوئی ایسا کام نہیںہے غالب، میر اور قلی قطب شاہ سے لے کر ساحر اورمجروح تک کا ، جو ہندی میں دستیاب نہ ہو۔ اردو کی چیزوں کے اردو میں قدردان نہیں ہیں۔ خریدار نہیں ہیں۔ اس سے جو مسئلہ پیدا ہورہا ہے، اسے حل کیسے کیاجائے؟ اسے سوچے گاکون؟ ہم تو نہیں سوچ رہے ہیں۔ہمارے تومقاصد بدل چکے ہیں۔بہت شارٹ ٹرم مقاصدہیں ہمارے ۔ عقل داڑھ نہیں نکلی ہے ہماری۔ ہر چیز سرکا ر سے مفت لینے کی عادت پڑ گئی ہے ہمیں۔ اردو کتابیں اردو والے خرید سکتے ہیں لیکن خریدنے کی نیت نہیں رکھتے ۔ تو حکومت اور اکاڈمی کیا ان کے دل و دماغ میں کتابیں ٹھونس دے گی؟ آجکل میںمشاعروں میں دیکھتا ہوں نئے شاعر اور شاعرات ایسے بھی ہیں جو اپنا کلام موبائل سے دیکھ کر پڑھتے ہیں جو ہندی میں ٹائپ کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہ کس بات کے آثار ہیں؟

مغربی بنگال اردو اکاڈمی میںکام ہورہاہے۔ اکاڈمی فعال ہے۔ اس کاپیٹرن کسی قدر بدل دیاجائے تو یہ انڈیا کی بیسٹ اکاڈمی ہوجائے گی۔ تجربہ کار ادیبوں، مصنفوں اور ناشروں کو بلاکر کبھی کبھی ُان سے مشورے لینے چاہئیں۔

ش ا: آپ کی آئندہ کتاب کا نام ؟۔

ف س ا:دو ہیں۔ غزلوں کا مجموعہ ’جزیرہ ٔ جاں‘ اور ایک سوانحی مضامین کامجموعہ ’یہ میں ہوں‘۔ 

ش ا:بہت بہت شکریہ اعجاز صاحب۔ کئی موضوعات پر کُھلی اور دو ٹوک باتیں ہوئیں۔

ف س ا:آپ کا بھی شکریہ شکیل افروز صاحب۔ آپ کے سوالوں نے بہت ساری باتوں کا احاطہ کر لیا۔

 

Shakil Afroz

12/4B, Patwar Bagan Lane

Kolkata -700009 (WB)

Mob.: 8240878209

Email:afroseshakil@gmail.com

 

Fay Seen Ejaz

25-B, Zakaria Street

Kolkata- 700073 (WB)

Mob.: 9830483810

inshapublications@yahoo.co.in

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...