اردو دنیا،جولائی 2025
بین
الاقوامی تجارت اور معاشیات
بین
الاقوامی تجارت کا مطالعہ شروع کرنے والا طالب علم بے جا طور پر یہ سوال کر سکتا
ہے کہ اس موضوع کو معاشیات کی علاحدہ شاخ کیوں قرار دیا جاتا ہے ؟ زر اوربنک کاری
، معاشیات محنت اور نظریہ قیمت سب ہی کو مضمون کے نمایاں حصے قرار دینے کی معقول
وجہ ہے۔ تاہم بین الاقوامی تجارت کے میدان میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عام معاشی
اصولوں کو صرف ایک خاص ڈھنگ سے استعمال کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی تجارت وسائل کے
استعمال اور مبادلہ سے متعلق مسائل پر
عنصری معاشیات میں بحث کی جا سکتی ہے اور اس کے زرد آمدنی والے حصہ پر معاشیات
کلاں میں پس کیوں نہ اس مضمون کی جداگانہ حیثیت کو ختم کیا جائے۔ ؟
یہ
ایک معقول سوال ہے اور اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً بین الاقوامی تجارت کو
نمایاں حیثیت اس لیے دی جاتی ہے کہ (1) ایسا کرنا ایک پرانا دستور ہے۔ (2) حقیقی
دنیا میں بین الاقوامی معاشی سوالات بہت سے فوری اور اہم مسائل کو سامنے لاتے ہیں۔
(3) بین الاقوامی تجارت اور داخلی تجارت کے قوانین اور ضابطے ایک دوسرے سے مختلف ہیں
اور (4) بین الاقوامی تجارت کا مطالعہ علم معاشیات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کو
روشنی دیتا ہے اور اس میں اضافہ کرتا ہے۔
بین
الاقوامی تجارت کی روایات
آج
کی دنیا میں ذہنی انقلاب کی رفتار تیز ہے اس لیے بہت سے طلبا کہہ سکتے ہیں کہ صرف
روایات کو برقرار رکھنے کی خواہش بین الاقوامی تجارت کے علاحدہ مطالعہ پر بہت زیادہ
مجبور نہیں کر سکتی۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے معاشی فکر کی تاریخ میں بین
الاقوامی تجارت کو الگ رکھنا اور ان کے بارے میں آدم اسمتھ ، ریکارڈو میل اور
مارشل کے نظریات کو جان لینا ہی کافی ہوگا۔ اس کے علاوہ سوئیڈن کے جدید معاشی برٹل
امین نے ثابت کر دیا ہے کہ بین علاقائی اور بین اقوامی تجارت میں درحقیقت کوئی فرق
نہیں ہے پھر کیوں نہ بین الاقوامی کو بین علاقائی معاشیات میں شامل کر لیا جائے۔
لیکن
واضح رہے کہ بین الاقوامی تجارت کی جداگانہ حیثیت کا انحصار صرف نظریاتی بحث پر نہیں
ہے۔ معاشیات کو سیاسی فلسفے سے سماجی سائنس میں ڈھالنے کے لیے حقائق اور اعداد و
شمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروع میں ان اعداد و شمار کو حاصل کرنے کے صرف دو ذرائع
تھے۔ شہروں اور گاؤں کے الگ الگ بازار اور بادشاہوں کی کسٹم چوکیوں کے ریکارڈ۔
بازار سے ملنے والے اعداد و شمار کو یکجا کر کے معاشی صورت حال کی پوری تصویر بنالینا
ممکن نہ تھا۔ کیونکہ تمام بازاروں کے بارے میں جانکاری نہ مل پاتی تھی۔ داخلے کے
بندر گاہوں پر جمع کی گئی معلومات کی مدد سے صرف بیرونی تجارت کا خاکہ تیار کیا
جاسکتا تھا۔ غیر قانونی در آمد اور برآمد کے سبب پیدا ہونے والے فرق کو چھوڑ کر یہ
خاکہ ٹھیک ہی ہوتا تھا۔ پس بیرونی تجارت سے متعلق اعداد و شمار اس مواد کا پہلا سر
چشمہ تھے جس کو معاشیات میں تجرباتی تحقیقات کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ
معاشی عناصر میں آپسی تعلق کا مطالعہ قومی سطح پر شروع ہونا چاہیے، کیونکہ صرف یہی
ایک ایسی اکائی ہے جس کے بارے میں ہمارے پاس حسب ضرورت اعداد و شمار ہوتے ہیں۔
بین
الاقوامی معاشی مسائل
لیکن
بین الاقوامی معاشیات کا مطالعہ ایک علاحدہ مضمون کے طور پر کرنے کے لیے دوسری اور
زیادہ اہم وجوہات موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی معاشیات اور دوسرے مضامین
کی تفصیلات ایک ہی جیسی ہوں لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے وہ یقینا ایک دوسرے سے
مختلف ہیں۔ زرد بنک کاری اجرت اور قیمت معاشیات کی ان تین علاحدہ شاخوں کو ہی لیجیے
جن سے ہم نے مقابلہ کا آغاز کیا تھا۔ ان سے متعلق مسائل کا حل قومی سطح کی نسبت بین
الاقوامی میدان میں کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
زراور
بنک کاری میں بین الاقوامی مسائل زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔
کچھ ملکوں میں جیسے ارجنٹائن ہندوستان اور ترکی میں زرمبادلہ کا بحران کانی سنگین
اور پراناہے اور کچھ دوست ممالک جیسے برطانیہ میں اتفاقی اور عارضی یورپ کے ملکوں
کے میزان ادائیگی میں دس سال تک متواتر بیشی رہی مگر 1963 کے تقریباً بیت جانے پر
انھیں کبھی بیشی کبھی کمی کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ریاستہائے
متحدہ امریکہ کے لیے میزان ادائیگی کا صحیح تصور کیا ہوگا اور مصنف کی رائے میں
حتمی طور پر یہ کہنا دشوار ہے کہ یو ایس اے کی بیرونی تجارت میں وہ خسارہ فی
الواقع ہے بھی یا نہیں جس کے بوجھ تلے عام خیال کے مطابق امریکہ دبا جا رہا ہے۔ یہ
مسائل واضح کرتے ہیں کہ عالمی سطح کی نسبت کسی ایک ملک کے اندراد ائیگیوں میں کہیں
زیادہ ٹھہراؤ ہوتا ہے۔
اجرتوں
کے سلسلے میں علاقائی دشواریاں پیدا ضرور ہوتی ہیں تاہم اپنے پھیلاؤ اور اہمیت کے
اعتبار سے وہ ان مشکلات سے مختلف ہوتی ہیں جن کا سامنا بین الاقوامی تجارت کے میدان
میں کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر نیو انگلینڈ کے سوتی ملوں میں کام کرنے والوں کا
کارولینازاور جنوب کے دوسرے علاقوں کے مزدوروں سے مقابلہ رہتا ہے مگر وہ ان کی
اجرتوں میں اضافے کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔ لوہے کی صنعت میں مزدوروں کی یونین جو
سمجھوتے کرتی ہے ان میں ایک ہی جیسے کام کے لیے اجر توں میں کسی علاقائی فرق کو
گوارا نہیں کیا جاتا۔ ٹیمسٹر یونین ٹرک ڈرائیوروں کے لیے پورے ملک میں اجرتوں کو یکساں
کرانا چاہتی ہے لیکن یو ایس اے میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔ ملک کے دوسرے
حصوں میں ایک ہی پیشے میں لوگوں کو کیا ملتا ہے مقامی طور پر نہ تو مزدور اس بارے
میں عام طور پر بیدار ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس بین
الاقوامی تجارت کے میدان میں ہم دوسرے ملکوں کی ’کنگال محنت‘ سے غیر پسندیدہ
مقابلہ کی شکایت برابر سنتے رہتے ہیں۔
قیمتوں سے متعلق بین
علاقائی مسائل زیادہ تیزی اور کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ کسان برابری کے خواہاں ہوتے
ہیں۔ شہری لوگ رہن سہن کی اونچی لاگت کے بارے میں تشویش کا شکار رہتے ہیں۔ ہنگامی
حالات میں قیمتوں کے طرز عمل کو بدلنے کے لیے ان پر کنٹرول لاگو کر دیا جاتا ہے لیکن
عالمی سطح پر تو قیمتیں شاید ہی کبھی مناسب و معقول تصور کی جاتی ہیں۔ پسماندہ
ملکوں کو شکایت ہے کہ ابتدائی چیزوں پر جنھیں وہ فروخت کرتے ہیں نفع کم ملتا ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ان چیزوں کی قیمت (وہ برازیل کی کانی ہو یا چلی کا تانبہ، ملایا
کار بریاٹن ہو یا کچھ اور) مناسب اور منصفانہ ہونی چاہیے۔
ہمارے
سامنے بڑا دلچسپ منظر ہوتا ہے۔ اگر پسماندہ ملک بگڑی ہوئی شرائط تجارت (ان قیمتوں
کا آپسی رشتہ جن پر وہ خریدتے اور بیچتے ہیں) کے بارے میں فکر مند ہیں تو ساتھ ہی
ترقی یافتہ ممالک خاص طور پر برطانیہ اپنے کاروبار کی شرائط کو خطرناک حد تک غیر
موافق سمجھتے ہیں۔
اوپر
پیش کی گئی دلیلیں فیصلہ کن نہیں ہیں تاہم یہ خیال بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا کہ ایک
ہی حکومت کے دائرہ اختیار میں رہنے والے معاشی مسائل کے مقابلے میں ممالک کے مابین
ابھرنے والے مسائل کی نوعیت مختلف اور ان کا حل زیادہ دشوار ہوتا ہے۔
بین
الاقوامی مسائل بڑے پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان کو سلجھانا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے
علاوہ ان کے بدلتے رہنے کا ایک الگ انداز ہے۔ 1920 سے شروع ہونے والے دس سالوں میں
سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ جرمنی اتحادیوں کو جنگ کا ہرجانہ کیسے ادا کرے اور
اتحادی یو ایس اے کا جنگی قرضہ کس طرح واپس کریں۔ 1990 کی دہائی میں سب سے بڑا
مسئلہ روزگار کا ہو گیا۔ اس مسئلہ کا بین
الاقوامی پہلو یہ تھا کہ کسی مک کو اپنی بیروزگاری دوسرے ملکوں میں پھیلانے سے کیسے
روکا جائے۔ دوسری بڑی جنگ کے بعد بین الاقوامی معاشی مسئلہ پھر بدلا۔ چالیسویں دہائی
کے آخری برسوں میں یورپ اور مشرق بعید کے ملکوں کی دوبارہ تعمیر کا مسئلہ درپیش
تھا۔ 1990 کی دہائی میں تجارت کی توسیع اور مبادلہ زر کی بحالی توجہ کامرکز بنے۔
ساٹھویں دہائی کے آخرمیں تو گوناگوں مسائل کاگو یا ڈھیر ہی لگ گیا۔ جنگ کے بعد سے
1957 تک ڈالر کی کمیابی کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اب اس کی جگہ یو ایس۔ اے کے میزان
ادائیگی میں رونما ہونے والے خساروں نے لے لی۔ یورپ (بغیر یا بشمول برطانیہ)، وسطی
اور لاطینی امریکہ، یورپی افریقہ، مشرق وسطی وغیرہ کے مختلف علاقوں میں ترقی پذیر
ملک کے درمیان معاشی تعاون کے مسائل سامنے آئے۔ ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے
بیچ تجارت اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس سلسلہ میں ایک
بات قدرے دلچسپ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے درمیان تجارت پر رکاوٹوں کو کافی کم
کر دیا ہے۔ لیکن کم ترقی یافتہ ملکوں سے آنے والی اشیا کی راہ میں ان کے یہاں
رکاوٹی دیواریں آج بھی پریشان کن حد تک اونچی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ہی
ملکوں کی معاشی امداد کے لیے ترقی یافتہ قومیں بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں۔ پھر موجودہ
عالمی زرئی نظام کو بہت سے معاشی ، ساہوکار، اور سیاستداں کسی نہ کسی پہلو سے غیر
تسلی بخش سمجھتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس نظام کو کس طرح ایسا روپ دیا جائے
جس سے اس کے بارے میںتشویش کچھ کم ہو۔
بین
علاقائی بنام بین الاقوامی تجارت
بین
علاقائی اور بین الاقوامی تجارت میں وہ کون سا فرق ہے جو ان دونوں میں پیدا ہو نے
والے معاشی مسائل کی نوعیت اور شدت میں پائے جانے والے اختلافات کو واضح کر
سکے؟ بین الاقوامی اور گھر یلو تجارت کے
اصول اور ضابطے کیوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ؟
ان
سوالوں کے مختلف جواب دیے گئے ہیں اور کوئی ایک جواب ضروری نہیں ہے کہ دوسرے جواب
کی کاٹ ہی کرتا ہو۔ پرانے زمانے کے ماہرین معاشیات نے وسائل پیداوار— زمین، محنت
اور سرمایہ— کے بین علاقائی اور بین الاقوامی طرز عمل میں فرق کو امتیاز کی بنیاد
قرار دیا۔ بعض لوگوں کی رائے میں زر اور نظام زر کے اختلافات دونوں کو الگ کرتے ہیں۔
نئے حریت پسند لفظ حریت پسندی کو ایک خاص مفہوم دیتے ہوئے بین الاقوامی تجارت میں
سرکار کی مداخلت کو بنیادی معاملہ سمجھتے ہیں۔ سیاسی نظریہ کے مطابق وجہ اختلاف
قومی استحکام کے تقاضے ہیں۔
بہر
حال اہم بات یہ ہے کہ بین علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کے اس پہلو کو واضح کیا
جائے جو ان دونوں کو باقی معاشیات سے علاحدہ کرتا ہے۔ ان دونوں موضوعات میں اہم چیز
علاقہ ہے۔ عمومی توازن کا نظریہ عام طور پر یہ تاثر دیتا ہے کہ گویا قومی معیشت
پورے علاقے میں کسی ایک نقطہ پر قائم ہے اور بہت سی مختلف معیشتیں ایک دوسرے کے
پاس الگ الگ نقاط کی شکل میں ہیں۔ ایسی صورت میں اشیا اور خدمات بنا لاگت حرکت کرتی
ہیں اور عمومی تو ازن سے متعلق بحث کا یہ بنیادی مفروضہ سمجھا جاتا ہے۔ بین علاقائی
اور بین الاقوامی تجارت کے بیان میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں بہت
سے مقاصد کے لیے بنا لا گت حرکت کا مفروضہ عمومی توازن کے نظریہ سے مستعار لیا
جاتا ہے لیکن اور بہت سے معاملات میں اس کو کھلے طور پر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔
چھٹے باب میں ہم قیمتوں، اشیا کی نقل و حرکت، اور صنعت کے ’قید مقام‘ پر جگہ کے
اثرات کا جائزہ لیں گے۔
عوامل
کی صلاحیت نقل و حرکت
بین
الاقوامی اور گھر یلو تجارت کے فرق کو واضح کرنے کے لیے پرانے معاشیوں نے پیداواری
عوامل کے طرز عمل پر کافی زور دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کے اندر تو محنت اور
سرمایہ حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن عالمی سطح پر یہ صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔
اگر ہم جغرافیائی صلاحیت حرکت کو نظر انداز کر کے معاملہ کو استعمال کے اعتبار سے
دیکھیں تو کسی ملک کے اندر زمین تک متحرک دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر آراضی
کے ایک ہی ٹکڑے کو حسب خواہش کبھی گیہوں اگانے اور کبھی مویشی پالنے کے لیے
استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ امکان اس میں محدود حرکت پیدا کر دیتا ہے۔ ملک کے اندر
عوامل پیداوار کی حرکت پذیری کو اس لیے اہمیت دی جاتی تھی کہ اس کی وجہ سے اس میں
عوامل کا معاوضہ تقریباً یکساں رہتا تھا لیکن عالمی سطح پر اس صلاحیت کے فقدان کی
وجہ فرانس میں ایک جیسی ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی لیکن اجرت کی اس سطح کا ان ہی
جیسے جرمن یا اطالوی برطانوی یا آسٹریلیائی مزدوروں کی سطح اجرت سے کوئی تعلق
ہونا ضروری نہیں تھا۔ اگر کسی بنکر کو پیرس کی نسبت لیونزمیں زیادہ اجرت ملتی تو پیرس
سے بنکراتنی تعداد میں لیونز جانے لگتے کہ وہاں اجرتیں کم اور پیرس میں زیادہ ہونے
لگتیں اور یہ عمل دونوں مقامات پر اجرتوں کے لگ بھگ یکساں ہو جانے تک جاری رہتا۔
اس کے برعکس لیونز اور میلان، در سڈن، مانچسٹر، یا نیوبڈفورڈ کے درمیان ایسی کوئی
قوتیں کارفرما نہیں ہوتیں جواس یکسانیت کو قائم رکھ سکیں۔ ان شہروں میں بنکروں کی
اجرتوں کا تعین بالکل آزادانہ طور پر ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر اثر ڈالے بغیر
گھٹ بڑھ سکتی ہیں۔ زمین اور سرمایہ کے بارے میں ملک کے اندر عوامل کے معاوضوں میں یکسانیت
اور ملکوں کے بیچ ان میں فرق کی موجودگی کو بھی حقیقی تصور کیا جاتا تھا۔
عالمی
سطح پر ہی نہیں ملکوں کے اندر بھی نقل و حرکت کی راہ میں کافی رکاوٹیں موجود ہوتی
ہیں۔ اوپر دی گئی پیرس اور لیونز کی مثال زیادہ صحیح نہیں ہے کیونکہ فرانسیسی طبعا
ایک سے دوسرے مقام پر جا کر بسنا پسند نہیں کرتے۔ امریکہ میں لوگ بڑی تعداد میں
ترک سکونت جنگ جیسے محرکات کے زیر اثر ہی کرتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں
اور اس کے فوراً بعد ا وہیو، مشیگن ، اور ایلی نائس پر جنوب سے حملے ہوئے اور لوگ
کافی بڑی تعداد میں کیلیفورنیا اور ٹکساس کی جانب چلے گئے۔ ایسا ہی دوسری عالمی
جنگ کے دوران بھی ہوا تاہم بڑے پیمانے پرافراد کی نقل و حرکت عام نہیں ہے۔
یہ
کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ بین علاقائی اور بین الاقوامی نقل و حرکت کی صلاحیت کی
شدت میں فرق ہوتا ہے۔ اور عام طور پر لوگ اندرون ملک نقل کرنا زیادہ پسند کریں گے
بہ نسبت ملک کے باہر جانا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں زبان - روائج اور روایات میں یکسانیت
ہونا ضروری نہیں تاہم دوسرے ملکوں کی بہ نسبت اندرون ملک اس کا امکان زیادہ ہوتا
ہے۔
سرما
یہ بھی ممالک کی نسبت اندرون ملک زیادہ متحرک ہوتا ہے تاہم ملک کے اندر بھی اس کی
نقل و حرکت رکاوٹوں سے پورے طور پر مبرا نہیں ہے۔ شرح سود میں عام طور پر علاقائی
فرق پائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ملکوں کے بیچ سرمایہ بالکل ہی غیر متحرک نہیں ہے۔
حصہ چہارم میں ہم دیکھیں گے کہ ایک سے دوسرے ملک میں سرمایہ جانے سے کیا صورت حال
سامنے آتی ہے۔
اس
بحث کے باوجود قومی اور عالمی سطحوں پر عوامل پیداوار یکساں طور پر حرکت پذیر نہیں
ہوتے۔ جس حد تک ان میں فرق ہوتا ہے اسی لحاظ سے بین الاقوامی تجارت کے اصول کبھی
مختلف ہوتے ہیں۔ اگر نیو انگلینڈ کے خالص اون کے کپڑوں کی مانگ جنوب کے مصنوعی اونی
ملاوٹ والے کپڑوں کے حق میں بدل جائے تو سرمایہ اور محنت دونوں وہاں سے جنوب میں
منتقل ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس اگر فرانسیسی ریشم کی مانگ کم اور... ریشم کی مانگ
زیادہ ہو جائے تو فرانس سے اٹلی کی جانب سرمائے اور محنت کی ایسی حرکت رونما نہ
ہوگی۔ ایسی صورت میں ضروری تبدیلی کے لیے دوسرے طریقہ کار کی حاجت پڑتی ہے۔
مختلف
کرنسیاں
عام
انسان کے لیے گھر یلو اور بین الا قوامی تجارت میں خاص فرق یہ ہے کہ آخر الذکرمیں
مختلف ممالک کی کرنسیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ڈار کیلیفورنیا میں اتنا ہی مقبول عام
ہے جتنا نینا من میں۔ سوئس اب تک بیسل سرکار کا سکہ ہے لیکن وہاں سے صرف چند میل
پر واقع اسٹراسبرگ (فرانس) با فرائی برگ (جرمنی) سے اشیا خریدنے کے لیے تب ہی
استعمال کیا جا سکتا ہے جب اسے فرانسیسی فرینک کا جرمن مارک میں تبدیل کر لیا
جائے۔
بہر
حال اگر ذرا باریکی سے دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ زیادہ اہم کرنسیوں کا فرق نہیں
بلکہ ان کی آپسی شرح مبادلہ کے بدل جانے کا امکان ہے۔ جب سوئٹزرلینڈ، بلجیم اور
فرانس لاطینی زرئی یونین کے ممبر تھے اور تینوں فرینک ’ایک کے بدلے ایک‘ کی شرح پر
آپس میں بدلے جا سکتے تھے اس وقت کوئی بھی شخص (تا وقتیکہوہ کچھ خریدنے والا ہی
نہ ہو، اس بارے میں شاید ہی کوئی دلچسپی رکھتا تھا کہ اس کے پاس تینوں میں سے کون
سا فرینک ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خریداری کے وقت اس فرینک کا پاس ہونا ضروری تھا جسے چیز
کو فروخت کرنے والا قبول کرنے کو تیار ہولیکن اگر (1) شرح مبادلہ پہلے سے مقرر ہو(ii) اس کے آپس میں بنا
روک ٹوک بدلے جا سکیں اور (iii) ان دونوں
صورتوں کے لیے دینے کی امید ہو تب کرنسیوں کا اختلاف بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
بین
الاقوامی تجارت کا یہ پہلو صاف طور پر سرمایہ کی حرکت پذیری سے تعلق رکھتا ہے۔ یو
ایس اے میں سرمایہ کی آزادانہ نقل و حرکت کا سبب یہ ہے کہ فلوریڈا سے من سوٹانک
ڈالر صرف ڈالر ہے اورکچھ بھی نہیں (گو 1932 اور 1968) کے ڈالر قوت خرید کے لحاظ سے
مختلف ہیں۔ ملک کے اندر سرمائے کی نقل و حرکت زیادہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔
مثلاً قرض دینے اور لینے والے دونوں ایک ہی قانون کے پابند ہوتے ہیں اس لیے قرضوں
کی وصولیابی آسان ہو جاتی ہے لیکن قابل ذکر فائدہ یہ ہے کہ زر سے متعلق تمام اندیشے
اور شبہات مٹ جاتے ہیں۔ کرنسیوں کی شرح مبادلہ میں تبدیلی سرمائے کی نقل و حرکت کو
متاثر کرسکتی ہے۔ بعض حالات میں یہ حرکت بڑھ جائے گی۔ مثلا جرمن فارک کے بدلے زیادہ
برطانوی پونڈ ملنے کی امید برطانوی سرمائے کو جرمنی جانے پر اکسائے گی۔ مجموعی طور
پرغیرملکی کرنسیوں کی قیمت میں رد و بدل کا اندیشہ لوگوں میں سرمائے کو ملک ہی میں
رکھنے کا رجحان پیدا کرتا ہے لیکن محکم شرحوں کے ایک طویل دور کے بعد سرمایہ دنیا
میں گھومنے پھرنے کے لیے زیادہ دلیر ہو جاتا ہے اور اس کی گھریلو اور بین الاقوامی
حرکت پذیری تقریباً ایکسی ہو جاتی ہے۔
طلائی
معیار میں مبادلہ شرحیں مقر ر رہتی ہیں اوران میں تبدیلی کی گنجائش بہت کم رہ جاتی
ہے۔ اگر دنیا کی سبھی کرنسیاں طلائی معیار پر ہوں تو مبادلے کی شرحیں مستحکم رہیں
گی۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں فرق در حقیقت مختلف کرنسیوں
کے وجود سے نہیں بلکہ غیر ملکی شرح مبادلہ کے بارے میں مختلف ممالک کی پالیسیوں میں
اختلاف کے سبب پیدا ہوتا ہے۔
ماخذ:
بین الاقوامی معاشیات، مصنف: چارلس پی کنڈل برجر، مترجم: لیاقت علی
خاں، دوسری طباعت: 2010، ناشر: قومی کونسل
برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں