26/12/25

سنبھل کے اردو اخبارات اور اردو ادب،مضمون نگار: نوید احمد خاں

 اردو دنیا،جولائی 2025

ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت مانی جانے والی ’اردو زبان‘ اخبارات کے سلسلے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ ہندوستان کے مشرق میں واقع صوبہ بنگال کے اخبارات کواردو پریس کا پیش روتسلیم کیا جاسکتا ہے۔ ملک ہند میں اردو زبان کو فارسی زبان کے بعد عروج حاصل ہوا۔ 27 مارچ بروز بدھ، 1822 کو بنگال سے ہری ہردت نے’جام جہاں نما‘ نامی اردو اخبار جاری کیا۔ یہ اردو زبان میں شائع ہونے والا ہندوستان کا پہلا اخبار ہے۔ 27 مارچ1822 تک ہندوستان میں زیادہ تراخبارصرف دوہی زبانوں میں شائع ہوتے تھے۔’جام جہاں نما‘  ہندوستان کی تاریخ میں انگریزی اور بنگالی زبان کے علاوہ کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلاعوامی اخبار تھا۔یہ اخبار اپنے آٹھویں شمارہ سے اردو کے ساتھ ہی فارسی زبان میں بھی شائع ہونے لگاتھا۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               

1837 میں مولوی محمد باقر نے دہلی سے ’دہلی اردو اخبار‘ جاری کیا جو اردو زبان میں دہلی سے شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ دہلی سے ہی 23 مارچ 1845 کو ماسٹر رام چندر نے ’فوائد الناظرین‘نامی اخبار جاری کیا۔ پہلی جنگ آزادی یعنی 1857 کا واقعہ ہندوستان میں ایک سانحہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہندوستان میں صحافت بالخصوص اردو صحافت کاایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور ہندوستان کے متعدد شہروں سے مختلف النوع اخبارات شائع ہونے لگتے ہیں۔ لکھنؤ سے اودھ اخبار اور اودھ پنچ،علی گڑھ سے سائنٹفک گزٹ اور تہذیب الاخلاق،دہلی سے اکمل الاخبار، لاہور سے پنجاب اخبار،مدراس سے شمس الاخبار، ممبئی سے کاشف الاخبار،قاسم الاخبار بنگلور کے علاوہ دیگر کئی شہروں میرٹھ، الہ آباد، حیدرآباد، عظیم آباد، بنارس،رام پور مراد آباد اور سنبھل وغیرہ سے بھی کئی اہم اور معیاری اخبار شائع ہوئے۔

مؤخر الذکر شہر سنبھل دارالحکومت دہلی سے تقریباً 190 کلومیٹر فاصلے پر جنوب مشرقی یوپی میں واقع ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔ زمانۂ قدیم میں اس شہر کے سر دارالحکومت اور صوبائیت کاسہرا سج چکا ہے۔اس شہر کو سلاطین اسلام اور راجاؤں کے مسکن کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔اس شہر کو بقائے دوام کی سند مغلیہ سلطنت میں اس وقت حاصل ہوئی جب مغلیہ حکمرانوں نے اس شہر کا نام سرکار سنبھل رکھا۔اس وقت کے دستاویزات میں اس مقام کا نام سرکار سنبھل ہی ملتا ہے۔ پندرہویں صدی کے آخر اور سولہویں صدی کے شروع میں سنبھل سلطان سکندر لودھی کی صوبائی دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔ اسی شہر میں آج بھی تومر حاکم پرتھوی راج کے نانا راجہ ہجات کے قلعہ کے دیرینہ آثار محلہ کوٹ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

سنبھل کی قدیم تاریخ متعدد مذہبی کتب سے معلوم ہوتی ہے۔ہندو مذہب کی روایت کے مطابق پرانوں میں سنبھل کا ذکر’سنبھلا گرام‘ کے نام سے موسوم ہے۔’اسکند مہاپران‘کے باب سوم،اشلوک 89 کے ذیل میں ’ست یگ‘ میں سنبھل کانام ’ستیہ برت‘،’تریتا یگ‘ میں ’مہدوگری‘،’دواپر‘ میں ’پنگل‘ اور ’کل یگ‘ میں ’سنبھل‘ نام کا ذکر ملتا ہے۔یہاں68 تیرتھ اور 19 کنویں ہیں۔ٹالمی کے ’سنبکل‘ کو ’سنبھل‘ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک ایسا پورانک عقیدہ ہے کہ کل یگ میں وشنو کے دس ویں اوتار کا ظہور’کلکی بھگوان‘ کی شکل میں شنبل نامی گاؤں میں ہوگا  اور اس شنبل گاؤں سے مراد سنبھل ہی ہے۔اس کاذکر بھگوت گیتا کے بارہویں اسکند میں بھی ملتا ہے۔اسی کے چلتے19  فروری 2024 کو ویزاعظم نریندر مودی نے سنبھل ضلع کے ایچ واڈا گاؤں میں بھگوان کلکی مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

شہرسنبھل کی تاریخی حیثیت تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی اس کی علمی حیثیت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ تقریباً ہر دور میں ہی یہاں بڑے بڑے علما و فضلا، دانشور اور صحافی و ادیب گزرے ہیں۔ جنھوں نے مختلف النوع کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔پہلی جنگ آزادی کے بعد یہاں سے بھی یکے بعد دیگرے کئی اخبارات شائع ہونے شروع ہوئے۔سنبھل سے شائع ہونے والے پہلے اخبار کو لے کر محققین یک رائے نہیں ہیں۔ کچھ حضرات ’جامع جمشید‘ تو کچھ ’اسٹریچی گزٹ‘کو سنبھل کا پہلا اردو اخبار تسلیم کرتے ہیں۔ حقائق کی روشنی میں احقر کی رائے کے مطابق جامع جمشید سنبھل سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار ہے۔ ذیل کے سطور میں سنبھل سے شائع ہونے والے اخبارات پر روشنی ڈالتے ہیں:

جامع جمشید:اس اخبار کو سنبھل کا پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اختر الدولہ کے مطابق جامع جمشید کارسم اجرا  5 ستمبر1870 کو محلہ سنبھلی دروازہ سے سید جمشید علی نے کیا۔حالانکہ یہ مئی1870 کو جاری ہواتھا۔یہ اخباراپنے مذہبی مضامین کے لئے مشہور تھا۔یہ اخبار ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔1

اسٹریچی گزٹ:اس اخبار کی رسم اجرا1872 کو عمل میں آئی۔ جس کے بانی سید زین العابدین تھے۔یہ بھی ایک ہفتہ واری اخبار تھا۔2

نیر اعظم:یہ سنبھل سے شائع ہونے والا تیسرا ہفتہ واری اخبار ہے جس کی اشاعت1876 میں ہوئی۔ جس کے بانی مدیر قاسم علی ذکاء تھے۔3

نجم الہند:اس اخبار کی اشاعت1881 کو عمل میںآئی۔ اس ہفتہ واری اخبارکے مدیر اول پنڈت پرتاپ کشن تھے۔4

عین الاخبار:اس ہفتہ واری اخبار کو1881 میں مولوی دلاور علی نے جاری کیا تھا۔5

نورالاخبار:یہ اخبار 1882 کو عزیز اللہ اور نوراللہ نے شائع کیا تھا۔یہ اخبار ہفتہ میں دو مرتبہ شنبہ اور چہار شنبہ کو 6 ورق اوسط پرطبع ہوکرشائع ہوتا تھا۔6

نظام الاخبار:یہ اخبار 1884 کو شائع ہوا جس کے بانی قاضی فہیم الدین اور احتشام الدین تھے۔یہ بھی ایک ہفتہ واری اخبار تھا۔7

نسیم سنبھل:سنبھل سے شائع ہونے والا یہ بھی ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔جس کو1888 میں سید احمد حسن نے جاری کیا تھا۔8

تجارت: سنبھل سے شائع ہونے والے اخبارات میں اس کا اہم مقام تھا۔اس اخبار کی رسم اجرا 1924 کو ہوئی۔یہ ہفت روزہ اخبار ہر ماہ کی 2،11،18 اور 26 تاریخ کو شائع ہوتا تھا۔ اس اخبار کو مقبول بنانے میں اس کے مدیر آر جی مشرا کا اہم کردار تھا۔یہ اخبار اپنے نام کی مناسبت سے اشتہارات کے لیے وقف تھا۔ اس میں شائع ہونے والے زیادہ تر مضامین بھی تجارتی ہوتے تھے۔اس کا سالانہ چندہ چارسو روپے تھا۔اس اخبار کے سرورق پر بڑے بڑے حروف میں مولانا اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر چھپا ہوتا تھا        ؎

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو ہے خوف وذلت کے حلوہ سے بہتر

آفتاب: اس اخبار کا شمار سنبھل ہی نہیں بلکہ روہیل کھنڈ کے اہم اور معیاری اخباروں میں ہوتا تھا۔ یہ اخبار 1926 کو جاری ہوا تھا۔جس کے چیف ایڈیٹر اعجاز احمد تھے۔ یہ اخبار ہندوستان کا ایک ایسا ہمہ گیر اخبار تھاجو اپنے دلچسپ اور عمدہ مضامین کے باعث نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی عزت کی نظرسے دیکھا جاتاتھا۔یہ اخبار ہر ماہ کی2,9,16  اور 23 تاریخ کو شائع ہوتاتھا۔اس اخبار کے بارے میں شمارہ نمبر 45اور46نو دسمبر1943 جلد نمبر 18 کے صفحہ اول پر کنندہ ہے:

’’روہیل کھنڈ کا مشہور اخبار’ آفتاب

المہدی: اس اخبار کا شمار سنبھل سے شائع ہونے والے اہم اخبارات میں ہوتاہے۔اس اخبار کی اہمیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق صدر شعبۂ اردو ایم جی ایم پی جی کالج سنبھل محترم جناب سعادت علی صدیقی صاحب رقمطراز ہیں:

ـ’’المہدی کے چند بوسیدہ اوراق راقم کو دستیاب ہوئے ہیں جن پر 15فروری 1942 درج ہے یہ اوراق جلد نمبر 15شمارہ نمبر ایک کے ہیںجو مہدی حسین زیدی کی وفات کے بعد ان کی یاد میں شائع ہوا تھا۔سید مہدی حسین کی پوتی بیگم خورشیدہ جہاں زیدی کی تحریر کے مطابق المہدی 1927 کو شائع ہوا تھااور 1941 میں بند ہو گیا تھا۔9

اس اخبار کے بانی ومدیر سید مہدی حسین وارثی المعروف جادو رقم سنبھلی تھے۔صحیفۂ وارث میں ایک جگہ یہ عبارت نقل ہے کہ:

’’المہدی جو سنبھل مرادآباد سے ہفتہ وار سولہ صفحات پر نہایت آب وتاب سے زیر ایڈیٹر منشی سید مہدی حسین وارثی المعروف جادو رقم سنبھلی جو اخباری دنیا میں مشہور اور تجربہ کار ہیں، شائع ہوتا ہے۔سنبھل کے اخباروں میں یہ ایک ہی پرچہ ہے جو اخبار کے نام کا مستحق ہے۔جومسلمانوں کی اخباری ضرورت کو حتی المقدور واحسن طریقے سے پورا کرتا ہے۔

کسی کی دل آزاری اور بیجاحمایت نہیں کرتاجس کے مضامین دلچسپ اور مفید،جس کی خبریں معتبر اور تنقیدات بے لاگ اور منصفانہ ہوتی ہیں بایں ہمہ چندہ سالانہ صرف تین روپیہ چار آنہ ہے اگر اس پر بھی ملک وقوم قدر نہ کرے تو بے حد افسوس ہے۔‘‘10

شہاب:اس اخبار کا شمار بھی سنبھل کے اہم اخباروں میں ہوتا تھا۔یہ اخبار 1939سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ جس کے بانی حبیب احمد اسرائیلی تھے۔

الحامد:یہ سنبھل سے شائع ہونے والا ماہنامہ اخبار ہے جس کی اشاعت 1970 کو عمل میں آئی۔یہ اخبار جلد ہی بند ہوگیا تھا۔اس کے بانی حبیب اشرفی تھے۔

پیغام شہادت:یہ اخبار1985سے شائع ہونا شروع ہوا۔اس کے بانی ومدیر جناب عبدالمجیب صدیقی تھے۔ عوام کی کم دلچسپی اور نااہل مدیروں کے چلتے یہ اخبار زیادہ عرصہ تک شائع نہ ہوسکا۔

عکس سنبھل:دور جدید میں سنبھل سے شائع ہونے والا یہ ایک اہم اخبار ہے۔جس کی اشاعت پندرہ فروری 1986 کو عمل میں آئی۔اس کے بانی نظام سنبھلی تھے۔ شروع میں یہ اخبار ملک وقوم کی خدمت پوری آب وتاب کے ساتھ کرتا رہا۔اس میں شامل مضامین اور خبریں  حقیقت کی عکاس ہوتی تھیں۔

سنگم:یہ ایم جی ایم پی جی کالج سنبھل سے نکلنے والی ششماہی میگزین ہے۔اس امیگزین میں اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سال 2015 سے 2024  کے درمیان اس میگزین کا صرف ایک ہی شمارہ منظر عام پر آسکا ہے۔

سنبھل سے شائع ہونے والے دوسرے اہم اخباروں میں آج کی کاشت، مرقع،پنچ بہادر،مسلم گزٹ،اہل سنت، الاشرف،نقوش اور ماہنامہ قلم قبیلہ کا نام قابل ذکر ہے۔

دور حاضر میں سنبھل سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی تعداد نہ کے برابر ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ قوم کی اردو زبان سے دلچسپی کم ہونا ہے۔سنبھل ایک ایسا شہر ہے جہاں مسلم قوم کی تعدادتقریباً 90 فیصد سے زائد ہے اس کے باوجود اردو اخبارات سے دوری  اردو زبان وادب سے کم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔باہر سے شائع ہوکر سنبھل آنے والے اردو اخبارات کی تعداددیگر زبانوں کے مقابلے قدرے کم ہے۔ انقلاب، ہماراسماج، راشٹریہ سہارا  نامی اخبار ات کی چند کاپیاں ہی روزانہ دیکھنے کوملتی ہیں۔

سنبھل میں مسلم اکثریت کے چلتے دینی مدارس کی تعداد کافی زیادہ ہے۔یہاں کئی ایسے مدرسے ہیں جو مستقل طور پر اپنے مجلہ شائع کرتے ہیں۔ان میں شائع ہونے والے مضامین اکثر مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں۔لیکن کچھ مضامین تنقیدی و تحقیقی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں جو دور حاضر میں اردو زبان وادب کے خزانہ میں اضافہ کرتے ہیں اورقوم میں خصوصاً نوجوان نسل میں اردو زبان کو مقبول کررہے ہیں۔اسی کے چلتے گذشتہ کچھ برسوں سے کالج سطح پر اردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھا جارہاہے۔

اردو زبان و ادب کو معیاری بنانے، اسے سنوارنے اور عوام میں مقبول  بنانے میں اردو صحافت نے اہم کردار اداکیاہے۔ اخبارات کے ذریعے اردو کے نثر کے خزانے میں نہ صرف بے شمار اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی نئی اصناف وجود میں آئی ہیں۔ اگر ہم اردو کے فکاہیہ وطنزیہ ادب کا جائزہ لیں تو اس میں نوے فیصد حصہ صحافت کا شامل ہوگا۔ اگر اردو اخبارات و رسائل نہ ہوتے تو کالم نویسی، مضمون نگاری، انٹرویو نگاری اور افسانہ نگاری کا فروغ مشکل ہوتاکیونکہ ان کی اشاعت کا پہلا ذریعہ عموماً اخبارات و جرائدہی ہوتے ہیں، مذکورہ مواد کتابی شکل میں بہت بعد میں منظرعام پر آتے ہیں۔اردو صحافت نے ادب کے میدان میں یہ بھی کارنامہ انجام دیا ہے کہ حکایات، سفرنامے، موضوعاتی نظمیں، قصے، کہانیوں، سیاسی مضامین، قانونی اور پارلیمانی مباحث اور طبی اور سائنسی موضوعات کو اخبارات کے صفحات پر جگہ دی ہے۔

کتابیات

.1       بحوالہ نادر علی خاں، ہندوستانی پریس، اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1990 ص360

.2       ایضاً

.3       ایضاً

.4       بحوالہ نادر علی خاں، ہندوستانی پریس، اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1990، ص361

.5       ایضاً

.6       ایضاً

.7       ایضاً

.8       بحوالہ نادر علی خاں، ہندوستانی پریس، اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1990، ص362

.9       بحوالہ مولانا عبدالمعیدسنبھلی قاسمی، تاریخ سنبھل، مکتبہ طیبہ،سنبھل، 2002، ص217

.10     ایضاً۔

 

Dr. Naved Ahmad Khan

Asst. Professor, Dept of Urdu

M G M College

Sambhal- 244302 (UP)

Mob.: 9568855136

navedahmed1234@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...