26/12/25

 اردو دنیا،جولائی 2025

اردو زبان وادب کے فروغ میں اردو شاعری نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔اس میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ میر ومرزا کا دور اردو شاعری کا سنہری دور ہے اور اس کی ادبی افادیت و اہمیت مسلم ہے۔ اگراردو شاعری کی روایت ہمہ جہتی تنقیدی نظر سے دیکھی جائے تو ایک جانب وہ شعر ا دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے ذات، جذ بۂ عشق اور تصوف کو شعری اظہار کا وسیلہ بنایااور دوسری طرف ایک ایسا گروہ بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے جو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں، اجتماعی شعور، عوامی تجربات اور تہذیبی بصیرتوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اس گروہ کی سب سے توانا اور منفرد آواز نظیر اکبر آبادی کی ہے، جنھوں نے اردو شاعری کو محلاتی جمالیات اور درباری نزاکتوں سے نکال کر گلیوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں اور زندگی کی عام مگر معنی خیز سطحوں سے منسلک کیا۔ ان کی شاعری اردو ادب میں ایک تہذیبی اور فکری انقلابی نقطئہ آغاز کی حیثیت رکھتی ہے، جو اپنے دور کے غالب ادبی رجحانات سے انحراف کرتے ہوئے ایک نیا اسلوب، نیا زاویہ اور نئی معنویت لے کر سامنے آتی ہے۔

ادب کو اگر معاشرتی و تہذیبی شعور کا آئینہ تصور کیا جائے تو لازم ہے کہ وہ صرف اشرافیہ کے جذبات و خیالات اور تجربات تک محدود نہ رہے، بلکہ عوام الناس کی زندگی، ان کی زبان، ان کی ثقافت، ان کے دکھ سکھ اور ان کی اجتماعی جد و جہد کو بھی ادبی اظہار کا حصہ بنایا جائے۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری اسی عمومی زندگی کی شاعری ہے، جس میں زندگی کی وہ پرتیں نمایاں ہوتی ہیں جو عمومی طور پر ادب عالیہ کے دائرے سے خارج سمجھی جاتی تھیں۔ ان کی شاعری میں روایتی موضوعات کی بجائے آدمی، پکوڑا، روٹی، بنجارہ، میلوں کے مناظر، عورتوں کے گیت، تہواروں کے رنگ، اور عوامی کہاوتوں کی چھاپ دکھائی دیتی ہے، جو نہ صرف ان کی جمالیاتی بصیرت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ان کے گہرے تہذیبی شعور کی بھی غماز ہے۔

 نظیر کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کی وہ طبقاتی وابستگی ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر محنت کش طبقے، دیہی فضا اور عوامی تجربے سے منسلک ہے۔ اگرچہ ان کا سماجی مقام انھیں متوسط طبقے میں شمار کرتا ہے لیکن ان کا شعری رجحان، مشاہدہ، اوراظہار بیان مکمل طور پر ادب العامہ کی سطح سے وابستہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری، مروجہ اشرافیانہ شعری روایات کے مقابل ایک فکری مزاحمت کا کردار ادا کرتی ہے۔ میر، سودا، سوز اور درد کے عہد میں، جب اردو شاعری یا تو عشق و تصوف کی باریکیوں میں گم تھی یا سیاسی و تہذیبی انحطاط پر نوحہ کناں، نظیر کی شاعری زندگی کی حرارت، امید، طنز، بصیرت اور معنویت سے بھر پور ایک نیا افق پیش کرتی ہے۔ مخمورا کبر آبادی رقمطراز ہیں:

’’نظیر اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے ورڈ س ورتھ کی طرح عامۃ الورد موضوعات پر عام زبان میں شعر کہا اور اس کا فائدہ یا لذت عوام تک پہنچایا۔ دقیق خیالات اور مشکل الفاظ کے جو تو دے اساتذہ نے فہم کی راہوں میں جمع کر دیے تھے وہ نظیر نے ہٹائے اور خیال کی آمد و شد کے لیے راستہ صاف کیا۔ کیا یہ طریقہ کار انسانیت پر احسان نہیں کہ نظیر نے شعر کی دولت سوسائٹی کے اس طبقے تک پہنچادی جواب تک ہر اعتبار سے نا اہل سمجھا جاتا تھا اور اس میں سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی۔ فیض سخن ایک بڑی مشہور بات ہے لیکن جس سخن سے صحیح معنی میں فیض پہنچا وہ نظیر ہی کا سخن ہے۔‘‘1

یہ مضمون نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے ان ہی تہذیبی، فکری اور لسانی پہلوؤں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتا ہے، جن کی بنیاد پر انھیں اردو نظم نگاری کا پہلا مکمل شاعر بھی کہا جا سکتا ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا مکمل فہم ان کے عہد کے تاریخی، سیاسی اور سماجی تناظر کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ ایک ایسے دور کے نمائندہ شاعر ہیں جب مغلیہ سلطنت زوال کی آخری منازل طے کر رہی تھی۔ محمد شاہ کے دور میں سیاسی انتشار، معاشی انحطاط اور دیہی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ حکمران طبقہ اپنی شاہانہ عیش پسندی میں مست تھا، جب کہ کسان اور محنت کش غربت اور ظلم کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے جس معاشی ابتری اور جاگیردارانہ استحصال کی نشان دہی کی تھی، وہ نظیر کے عہد میں عملی صورت اختیار کر چکی تھی۔ دیہی بغاوتیں، جاٹوں اور مرہٹوں کی تحریکیں، اور مقامی طاقتوں کا ابھار اسی بحران کا نتیجہ تھے، جس کا عکس نظیر کی شاعری میں شدت سے جھلکتا ہے۔

نظیر نے اپنے کلام میں درباری زندگی کے تصنع اور اشرافیہ کی مصنوعی عظمت سے منہ موڑ کر عوام کی حقیقی زندگی کو موضوع بنایا۔ فارسی کی بالا دستی کے زوال اور مقامی زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آنے والی اردو، ان کے اظہار کا ذریعہ بنی۔ نظیر کی زبان سادہ، رواں اور عوامی تھی، جو ریختہ کی ارتقا پذیر شکل کی علامت بن گئی۔ یہ محض لسانی تبدیلی نہ تھی بلکہ تہذیبی بیداری کا آغاز بھی تھا، جس میں فارسی، ہندی اور مقامی اثرات ایک نئے سماجی شعور کی تشکیل کر رہے تھے۔

نظیر کے ہم عصر شعرامیر، سودا، اور در د نے یا تو تصوف میں پناہ لی یا طنز ورثا کے راستے اختیار کیے، مگر نظیر نے زندگی کی دھڑکن اور عوام کی امنگوں کو اپنی شاعری کا محور بنایا۔ ان کی تخلیقات میں میلوں، بازاروں، تہواروں، غم و خوشی، محنت و مشقت کی جھلک ملتی ہے۔ وہ روایتی مذہبی یا صوفیانہ جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر خالص انسانی رشتوں، جذبات اور تجربات کو بیان کرتے ہیں۔ محمد حسن رقمطراز ہیں:

’’نظیر نے اپنے وقت کی پکار کا جواب اپنے عظیم معاصرین کے برعکس دیا۔ مثال کے طور پر میر، سودا اور درد نے خود کو ذہنی طور پر افسردہ، طنز نگار اور صوفی بنا کر دیوالیہ سماج کے اثرات کا مقابلہ کیا۔ نظیر نے خود کو اعلی سماج سے علیحدہ کر کے امید کے نئے دیپ جلائے تھے۔  عوام کی روزانہ زندگی میں نیا ولولہ اور جوش پیدا کیا۔ اس ولولہ نے ان کو بحیثیت فنکار کے سہارا دیا۔ خونی رشتہ، ذات اور پیشے کے لحاظ سے ظالمانہ تقسیم کا نظام قائم تھا، استحصال کرنے والا طبقہ اپنی قوت کا اہرام اس نظام پر بنا رکھا تھا لیکن ہنرمندوں کو اپنی دستکاریوں میں فنکاری دکھانے کا موقعہ فراہم تھا۔ فنکارانہ اشیا کی قدر کی جاتی اور فنکاروں کی عزت افزائی کی جاتی تھی..... اس انحطاطی سماج کے پاس کوئی نئی چیز نہیں تھی نظیر بغیر کسی عزم کے قناعت کے سہارے کھڑے ہوئے تھے اور زندگی میں ولولوں سے بھر پور شاعری پیش کر رہے تھے۔‘‘2

نظیر کی شاعری ایک ایسے سماج کی بازگشت ہے جہاں قدیم اشرافی اقدار شکست کھا رہی تھیں اور ایک نئی دیسی اور عوامی تہذیب ابھر رہی تھی۔ ان کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی ادبی روایت محلوں یا درباروں میں نہیں، بلکہ عام انسانوں کی زندگی اور بولی میں پروان چڑھتی ہے۔ نظیر اس تہذیبی تبدیلی کے نہ صرف گواہ تھے بلکہ اس کے خالقوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعرانہ عظمت کا احاطہ کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے ان کی غزلیہ شاعری کا جائزہ لیں، کیونکہ ان کی ادبی شخصیت کی ایک اہم جہت غزلوں میں بھی نمایاں ہوئی ہے۔ اگرچہ نظموں نے انھیں غیر معمولی شہرت عطا کی لیکن ان کی غزلوں میں بھی تخلیقی جدت، فکری تسلسل اور فنی بصیرت کی جھلک ملتی ہے۔ لہٰذا نظموں پر تفصیلی گفتگو سے پہلے، ان کی غزلیہ شاعری پر روشنی ڈالنا موزوں ہوگا، جو ان کے فن کا ایک اہم مگر طویل عرصے تک کم پہنچانا گیا پہلو ہے۔ نظیر کی شہرت ان کی عوامی نظموں کے باعث اس قدر مستحکم ہوگئی تھی کہ ان کی غزلوں کی طرف دیر تک سنجیدہ توجہ نہ دی گئی۔ کلیات نظیر کے ابتدائی ایڈیشنوں میں غزلوں کی محدود تعداد، اور مکمل دیوانوں کی عدم دستیابی نے اس نظر اندازی کو مزید تقویت دی۔ تاہم جب آغا حیدر حسن دہلوی کے کتب خانے سے ان کے مکمل غزلیہ دیوان برآمد ہوئے اور 1943ء میں ترقی اردو بورڈ کے تحت شائع کیے گئے، تب جا کر نظیر کی غزل گوئی کی مکمل قد و قامت سامنے آئی۔ ان میں شامل چار سو انسٹھ مکمل غزلیں اس بات کی دلیل ہیں کہ نظیر نے غزل کے میدان میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے۔

نظیر کی غزلیہ شاعری کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھوں نے غزل میں ربط و تسلسل کی وہ خصوصیت داخل کی، جو عام طور پر غزل کے روایتی ڈھانچے کا حصہ نہ تھی۔ کلاسیکی اردو غزل میں اشعار کی باہمی بے نیازی کو حسن تصور کیا جاتا تھا اور ہر شعر ایک خود مختار تجربہ ہوتا تھا۔ لیکن نظیر نے مسلسل غزلوں کا تجربہ کیا، جہاں خیالات ایک مرکزی مضمون کے گرد مربوط ہو کر ارتقا پاتے ہیں۔ ان کی بعض غز لیں تو اس قدر مربوط ہیں کہ ہر شعر اگلے خیال کا فطری تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً ان کی مشہور غزل ’یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے با آب و تاب‘ میں دنیا کی بے ثباتی کا مضمون مسلسل ڈرامائی شان کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ یہاں ہر شعر دوسرے شعر سے جڑا ہوا ہے اور مجموعی طور پر ایک مربوط بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ غزل میں نظیر کے اس تجربے کے متعلق کلیم الدین احمد رقمطراز ہیں:

’’نظیر کا خاص کارنامہ ہے، اگر نظیر نظمیں نہ لکھتے تو بھی ان کی یہ (نظمی) غزلیں ان کے اجتہاد اور شاعرانہ عظمت کی زندہ یادگار ہوتیں۔ حیرت ہے کہ ایسے زمانہ میں جب بنے بنائے رستہ پر چلنا عام شیوہ تھا، جب نئی راہ نکالنے کا خیال بھی کسی کو نہ تھا، جب غزل کے فرسودہ اصول قوانین عالم کی طرح اٹل سمجھے جاتے تھے، ایسے زمانے میں اور ایسے ماحول میں نظیر نے آزادی خیال کے بے نظیر ثبوت دیا۔ نئے نئے تجربے کیے، نئے نئے سانچے بنائے اور غزل کی تکنیک بالکل بدل دی۔ افسوس ہے تو اس پر کہ کسی نے نظیر کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ان کے بنائے ہوئے رستے پر چلنے کا خیال بھی نہ کیا۔‘‘3

 نظیر کی غزلوں میں ہمیں بار بار یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی واقعے، جذبے یا تجربے کو جزوی یا ٹکڑوں میں بیان کرنے کے بجائے مکمل اور مربوط نقشہ کھینچتے ہیں۔ ان کی غزلیں حقیقی یا خیالی واقعات کو مرکز بنا کر پوری فضا میں بکھیرتی ہیں۔ یہ طرز عمل اردو غزل میں اس وقت ایک نیا تجربہ تھا، جب روایتی شاعری میں انتشار اور پرا گندگی کوفطری آزادی کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔

نظیر نے غزل میں نہ صرف مضامین کی جدت پیدا کی بلکہ زبان اور انداز میں بھی تخلیقی وسعت کا مظاہرہ کیا۔ ان کی ایک غزل میں اردو، فارسی، عربی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کی خوبصورت آمیزش ہے جو اظہار کی تازگی اور ہم آہنگی کو بڑھا دیتی ہے۔ ان کا طرز عمل محض روایت کی اندھی تقلید نہیں بلکہ نئی راہوں کی تلاش اور نئے سانچوں کی تخلیق تھا۔ اگر چہ ہر تجربہ مکمل کامیاب نہ تھا لیکن ان کی کاوشیں اس دور کی ادبی فضا میں تازگی اور اجتہاد کی روشن مثال تھیں۔

اب ہم نظیر اکبر آبادی کی نظمیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہیں، جس نے ان کی شاعرانہ عظمت کو ایک الگ ہی بلندی عطا کی۔ نظم نگاری کے میدان میں انھوںنے جو کارنامے انجام دیے، وہ اردو شاعری کے ایک اہم مگر کم قدردان پہلو کو روشن کرتے ہیں۔

نظیر کی وہ نظمیں جن میں ہولی، دیوالی، راکھی، درگا پوجا، جنم اشٹمی اور عید و شب برات جیسے تہواروں کا بیان ملتا ہے، ہندوستانی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر یں پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے ان تہواروں کی رنگینی، جوش و خروش، عوامی رقص و سرود کو جس جذبے اور حقیقت پسندی سے بیان کیا ہے، وہ اس دور کی شاعری میں نایاب تھا۔ ان کی نظموں میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی مخصوص طبقے یا عقیدے کی نمائندگی کر رہے ہیں؛ بلکہ ان کی ہر نظم خالص انسانی جذبے اور مقامی فضا کی عکاسی کرتی ہے۔ نظیر نے سنسکرت الفاظ کا محض برائے نام استعمال نہیں کیا، بلکہ اپنے تجربے اور جذبے سے انھیں نظموں میں یوں سمویا کہ قاری کو ایک مکمل ثقافتی فضا میں لے جاتے ہیں۔ نظم’بلد یوجی کا میلا‘ ملاحظہ فرمائیے       ؎

کیا وہ دلبر کوئی نویلا ہے

ناتھ ہے اور کہیں وہ چیلا ہے

موتیا ہے چنبیلی بیلا ہے

بھیڑ انبوہ ہے اکیلا ہے

شہری قصباتی اور گنویلا ہے

 زر اشرفی ہے پیسا دھیلا ہے

 رنگ ہے روپ ہے جھمیلا ہے

 زور بلدیو جی کا میلا ہے

نظیر اکبرآبادی کی کلیات میں ایسی نظموں کی بھر مار ہے جسے دیسی کہا جا سکتا ہے اور یہ مقامی جزئیات کو شامل کرنے کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ مقامی رنگ کو اپنی تخلیقات میں شامل کرنا بڑی شاعری میں مانع ہے یا نہیں۔ الگ الگ نقادوں کی الگ الگ رائے ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر آج بھی اردو دنیا نظیر کے صحیح مقام کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ابواللیث صدیقی اسی بحث کے حوالے سے نظیر کے متعلق رقمطرازہیں:

’’اس پس منظر کو پیش نظر رکھیں تو نظیر اس وادی میں تنہا خود ہی اپنے رہبر اور خود ہی رہرو ہیں۔ ان کی یہ کوشش نہ مصنوعی ہے نہ پر تکلف۔ اس میں وہی زور ہے جو آمد میں ہوتا ہے، اسے کسی قسم کی منفی لسانی تحریک بھی نہیں کہہ سکتے۔ نظیر کا یہ کلام اس اعتبار سے خالص ہندوستانی کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے اور اگر اس کا رسم الخط فارسی کی جگہ دیوناگری کر دیا جائے تو اس کے ہندی ماننے میں بھی کسی کو تامل نہ ہوگا۔‘‘4

مقامی رنگ کے علاوہ نظیر کی نظموں کا ایک اور قابل ذکر پہلوان کا اخلاقی اور انقلابی رجحان ہے۔ ایسے زمانے میں جب اردوشاعری زیادہ تر عشق و تصوف کے روایتی مضامین میں محدود تھی، نظیر نے انسان دوستی اور سماجی مساوات کو اپنی شاعری کا محور بنایا۔ ان کی شہرہ آفاق نظم’ آدمی نامہ‘ ایک انقلابی تصور پیش کرتی ہے جس میں انسان کو حسب نسب یا مال و دولت کے بجائے صرف انسانیت کے معیار پر پرکھا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں واضح طور پر طبقاتی تقسیم، سماجی نابرابری، در باری تصنع اور مصنوعی اقدار کی مخالفت نظر آتی ہے۔ ان کے کلام میں وہی سادگی اور بے ساختگی ہے جو لوک گیتوں اور عوامی شاعری کا خاصہ ہوتی ہے۔ نظم ’آدمی نامہ‘ کے دو بند ملاحظہ فرمائیے        ؎

دنیا میں بادشاہ ہے،سوہے  وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

زردار،بے نوا ہے،سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھارہا ہے،سوہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے جومانگتا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی

 

اشراف اور کمینے سے لے،شاہ تاوزیر

ہیں آدمی ہی صاحب ِعزت بھی اور حقیر

یاں آدمی مرید ہیں،اور آدمی ہی پیر

اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیر

اور سب میں جو برا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی 5

نظیراکبرآبادی کی نظمیں محض مصنوعی ادبی تجربات نہیں، بلکہ ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی دنیا کی عکاس ہیں۔ وہ شاعری کو عوام کی روز مرہ زندگی سے قریب لاتے ہیں، اور ان کے کلام میں جو سچائی، خلوص اور بے ساختہ جوش ہے، وہ اردو نظم کو محض درباری یا نقالی کے دائرے سے نکال کر ایک حقیقی انسانی تجربے کا حصہ بنادیتا ہے۔ نظیرکے بعد اردو شاعری میں مقامی رنگوں کی جونئی تحریک اٹھی، اس کی ابتدائی اور پائیدار بنیاد یں دراصل نظیر ہی نے رکھی تھیں۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر مجموعی نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو ادب میں ایک غیر معمولی تخلیقی قوت کے حامل شاعر ہیں، جنھوں نے روایتی شعری روایتوں سے الگ ہٹ کر ایک بالکل نئی راہ نکالی۔ نظم اور غزل دونوں اصناف میں ان کی کوشش یہی رہی کہ شاعری کو زندگی کے حقیقی تجربات سے جوڑا جائے اور انسانی جذبات کی ترجمانی رواں، بے ساختہ اور فطری انداز میں کی جائے۔ نظیر نے زبان کو مقصد نہیں، ذریعہ بنایا؛ انھوں نے زبان کے مروجہ معیارات کی اندھی تقلید کے بجائے اسے اپنے تجربات کے سانچے میں ڈھالنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کے یہاں الفاظ صرف خوشنما صوتیات کا مجموعہ نہیں بلکہ احساسات، مشاہدات اور معاشرتی حقیقتوں کے جیتے جاگتے پیکر ہیں۔

نظیر اکبر آبادی کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی زبان کی فطری روانی اور عوامی رنگ ہے۔ انھوں نے عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کو اس مہارت سے اپنی شاعری میں جذب کیا کہ ایک قدرتی ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ ان کے کلام میں مقامی لہجے کی خوشبو، عوامی محاورے کی تازگی اور زندگی کی حرارت صاف جھلکتی ہے۔ یہ وسعت نہ صرف زبان کے دائرے میں ہے بلکہ مضامین کی سطح پر بھی نظیر نے اردو شاعری کو نئی موضوعاتی جہات عطا کیں۔ ان کی نظمیں محض رسمیات کی عکاس نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب و تمدن، مقامی معاشرت، اور عام انسان کی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کا آئینہ ہیں۔

حواشی

  1.        نظیر پر ایک نظر:مخموراکبرآبادی،ماہنامہ نگار، جنوری1940، جلد37،شمارہ1،ص،53
  2.        ہندوستانی ادب کے معمارنظیراکبرآبادی: محمد حسن، ساہتیہ اکادمی،1986،ص،36
  3.        اردو شاعری پر ایک نظر:کلیم الدین احمد،بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ،1985،ص،452
  4.        نظیر کی نظم نگاری: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، نظیر شناسی (مرتبین) ڈاکٹرمرزااکبر بیگ، ڈاکٹر محمد علی اثر،ادارئہ شعروحکمت حیدرآباد، 1987، ص، 136-137
  5.        کلیات نظیر:نظیر اکبرآبادی،تیج کمار وارث نول کشور پریس ،لکھنؤ،1951،ص،683-685

 

Dr. Mujeeb Ahmad Khan

Associate Professor, Dept of Urdu

Kirori Mal College

University Of Delhi

Delhi- 110007

Mob.: 9313790130

khan.mujeeb.ahmad@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...